1:28
|
شہداء نمونہ عمل ہیں | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
معروف اور مشہور محاورہ ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ شہیدوں کا مقام اتنا بلند ہے کہ قرآن مجید نے انکی...
معروف اور مشہور محاورہ ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ شہیدوں کا مقام اتنا بلند ہے کہ قرآن مجید نے انکی تعریف کرتے ہوئے انہیں مردہ تصور کرنے سے لوگوں کو منع کیا ہے اور قرآن میں انہیں زندہ کہا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ان کی موت، قوم کے لئے حیات کا باعث بنتی ہے، کیونکہ زندہ ہی زندوں کے لئے حیات کا باعث قرار پاتا ہے۔ اسی لئے شہداء کسی نہ کسی جہت اور پہلو سے ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ ہمیں انکی زندگی کو نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے درس حیات حاصل کرنا چاہئے۔
چنانچہ اس ضمن میں مزید تفصیل کیلئے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اشہید #نمونہ #شہادت #منزلت #عظمت # نورانی # توصیف #وصیت #سفارش #سبق
More...
Description:
معروف اور مشہور محاورہ ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ شہیدوں کا مقام اتنا بلند ہے کہ قرآن مجید نے انکی تعریف کرتے ہوئے انہیں مردہ تصور کرنے سے لوگوں کو منع کیا ہے اور قرآن میں انہیں زندہ کہا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ان کی موت، قوم کے لئے حیات کا باعث بنتی ہے، کیونکہ زندہ ہی زندوں کے لئے حیات کا باعث قرار پاتا ہے۔ اسی لئے شہداء کسی نہ کسی جہت اور پہلو سے ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ ہمیں انکی زندگی کو نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے درس حیات حاصل کرنا چاہئے۔
چنانچہ اس ضمن میں مزید تفصیل کیلئے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اشہید #نمونہ #شہادت #منزلت #عظمت # نورانی # توصیف #وصیت #سفارش #سبق
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
,
namoona,
shahadat,
manzilat,
Azmat,
noorani,
tauseef,
wasiyat,
sifarish,
sabaq,
shohada,
amal,
imam
SAYYED
Ali
KHAMENEI,
شہداء,
نمونہ,
عمل,
امام
خامنہ
ای,
3:53
|
آج کی خاتون اور حضرت زہراؑ [3] | کیا ایک خاتون، مردوں کے لئے نمونہ عمل بن سکتی ہے؟ | Urdu
اس درس کے اہم نکات:
مغربی تمدن پیمانہ کس کو قرار دے رہا ہے؟
قرآن میں کن خواتین کو تمام مومنین کے لئے نمونہ...
اس درس کے اہم نکات:
مغربی تمدن پیمانہ کس کو قرار دے رہا ہے؟
قرآن میں کن خواتین کو تمام مومنین کے لئے نمونہ عمل بتایا گیا؟
امام زمانہ عج کے لئے نمونہ عمل کون؟
مولانا سید محمد روح اللہ رضوی
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
مغربی تمدن پیمانہ کس کو قرار دے رہا ہے؟
قرآن میں کن خواتین کو تمام مومنین کے لئے نمونہ عمل بتایا گیا؟
امام زمانہ عج کے لئے نمونہ عمل کون؟
مولانا سید محمد روح اللہ رضوی
Video Tags:
خاتون
،زہراؑ،
مردوں
،
نمونہ,
عمل,
مغربی,
تمدن
,قرار,
قرآن
,
خواتین,
تمام
,مومنین,
امام
,زمانہ,
مولانا
,سید
,محمد,
روح
اللہ
,رضوی،
noorulwilayah,
production,
Hazrat,
Zahra,
mardon,
namona,
amal,
maghrebi,
tamaddun,
qaraar,
quran,
khawateen,
tamaam,
momineen,
imam,
zamana,
molana,
syed,
muhammad,
roohUllah,
Rizvi,
41:41
|
32:48
|
45:42
|
39:52
|
46:18
|
39:36
|
42:59
|
گھرانہ-حضرت زینب س ایک نمونہ عمل-Shahadat of Hazrat Zainab s.a - Urdu
Broadcast Date-:-May 25 2013
Today\'s Topic:
Shahadat of Hazrat Zainab s.a
حضرت زینب س ایک نمونہ عمل
Broadcast Date-:-May 25 2013
Today\'s Topic:
Shahadat of Hazrat...
Broadcast Date-:-May 25 2013
Today\'s Topic:
Shahadat of Hazrat Zainab s.a
حضرت زینب س ایک نمونہ عمل
Broadcast Date-:-May 25 2013
Today\'s Topic:
Shahadat of Hazrat Zainab s.a
حضرت زینب س ایک نمونہ عمل
More...
Description:
Broadcast Date-:-May 25 2013
Today\'s Topic:
Shahadat of Hazrat Zainab s.a
حضرت زینب س ایک نمونہ عمل
Broadcast Date-:-May 25 2013
Today\'s Topic:
Shahadat of Hazrat Zainab s.a
حضرت زینب س ایک نمونہ عمل
4:41
|
طوفان شن | tufan Shen - Farsi
طوفان شن | tufan Shen - Farsi
حضرت آيتالله خامنهای در تاریخ ۱۳۵۹/۲/۱۲ و در خطبههای نماز جمعه تهران، مسألهی شکست...
طوفان شن | tufan Shen - Farsi
حضرت آيتالله خامنهای در تاریخ ۱۳۵۹/۲/۱۲ و در خطبههای نماز جمعه تهران، مسألهی شکست ایالات متحده آمریکا در تجاوز به ایران در صحرای طبس را نمونهای از تحقق سنت الهی «از بین رفتن امپراتوریهای ظالم» دانستند و با تشریح نمونههای تاریخی دیگر از تحقق این سنت الهی، فرمودند: ملت ایران باطل را به دست حق و به بازوى نيرومند حق در خواهد كوبيد
More...
Description:
طوفان شن | tufan Shen - Farsi
حضرت آيتالله خامنهای در تاریخ ۱۳۵۹/۲/۱۲ و در خطبههای نماز جمعه تهران، مسألهی شکست ایالات متحده آمریکا در تجاوز به ایران در صحرای طبس را نمونهای از تحقق سنت الهی «از بین رفتن امپراتوریهای ظالم» دانستند و با تشریح نمونههای تاریخی دیگر از تحقق این سنت الهی، فرمودند: ملت ایران باطل را به دست حق و به بازوى نيرومند حق در خواهد كوبيد
2:23
|
شہداء ہمارے لئے نمونہ عمل | Farsi sub Urdu
خوش قسمتی سے ہم ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ جہاں ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل شہداء کی صورت میں موجود...
خوش قسمتی سے ہم ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ جہاں ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل شہداء کی صورت میں موجود ہیں، ہمیں کسی تاریخی اور اجنبی شخصیت کو اپنا نمونہ عمل بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شہداء #شہید #شہادت #شہید_حججی #نمونہ_عمل
More...
Description:
خوش قسمتی سے ہم ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ جہاں ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل شہداء کی صورت میں موجود ہیں، ہمیں کسی تاریخی اور اجنبی شخصیت کو اپنا نمونہ عمل بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شہداء #شہید #شہادت #شہید_حججی #نمونہ_عمل
Video Tags:
Wilayat,
Media,
Wilayat
Media,
Productions,
Islam,
Inqilaab,
Islami,
Pakistan,
Urdu,
Subtitles,
Shaheed,
Rahbar,
Leader
of
Muslim,
Ummah,
Sayyid,
Ali,
Khamenei,
Martyrs,
Shaheed,
Shauda,
1:21
|
حضرت علی اکبرؑ جوانوں کے لیے نمونہ عمل | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
ہم جب بھی رسول خدا کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی زیارت کیا کرتے تھے۔ (امام حسین...
ہم جب بھی رسول خدا کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی زیارت کیا کرتے تھے۔ (امام حسین علیہ السلام)
اہل بیت علیہم السلام کے گھرانے کے افراد اپنے کردار، اپنے عمل اور دینِ الٰہی کے راستے میں قربانیوں کے ذریعے تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل قرار پائے۔ انہی درخشاں چہروں میں سے ایک جوان امام حسین علیہ السلام کے لختِ جگر حضرت علی اکبر علیہ السلام تھے کہ جنہوں نے راہِ خدا میں اپنی استقامت اور ثابت قدمی کے ذریعے تا ابد جوانوں کے لیے ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔
اِس بارے میں ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #علی_اکبر #جوان #حفاظت #ثاب_قدم #قلبی_وابستگی #صراط_مستقیم #علم #بڑھاپا #انقلاب_اسلامی
More...
Description:
ہم جب بھی رسول خدا کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی زیارت کیا کرتے تھے۔ (امام حسین علیہ السلام)
اہل بیت علیہم السلام کے گھرانے کے افراد اپنے کردار، اپنے عمل اور دینِ الٰہی کے راستے میں قربانیوں کے ذریعے تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل قرار پائے۔ انہی درخشاں چہروں میں سے ایک جوان امام حسین علیہ السلام کے لختِ جگر حضرت علی اکبر علیہ السلام تھے کہ جنہوں نے راہِ خدا میں اپنی استقامت اور ثابت قدمی کے ذریعے تا ابد جوانوں کے لیے ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔
اِس بارے میں ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #علی_اکبر #جوان #حفاظت #ثاب_قدم #قلبی_وابستگی #صراط_مستقیم #علم #بڑھاپا #انقلاب_اسلامی
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
hazrat
ali
akbar,
jawan,
namunae
amal,
imam
husain,
imam
khamenei,
ahlebait,
rasule
khuda,
shabihe
payambar,
chehra,
ziyarat,
kirdar,
amal,
qurbani,
musalman,
darakhshan,
rahe
khuda,
isteqamat,
sabit
qadmi,
ilm,
serate
mustaqeem,
6:33
|
پیغمبر اکرمؐ بہترین نمونہ عمل | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے نمونہ عمل ہونے کے...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے نمونہ عمل ہونے کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل میں کس چیز سے استفادہ فرمایا؟ آپ کی ذاتی زندگی میں کونسی اہم خصوصیات نمایاں تھیں؟کیا پیغمبر اکرم ذو معنی گفتگو فرماتے تھے؟ دشمن کے مقابل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس انداز سے عمل فرماتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عہد و پیمان کی کس حد تک رعایت فرماتے تھے؟ میدان جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار کس طرح کا ہوتا تھا؟
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام، پیغمبر اکرم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ اصحاب سخت حالات میں کس کے پاس پناہ لیتے تھے؟ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس سالہ حکومت میں کونسے مثالی کام انجام دئے اور کس طرح عملی نمونہ پیش فرمایا؟ مشرکین مکہ کا سربراہ ابوسفیان، پیغمبر خدا کی عزت اور وقار دیکھ کر کیا کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #پیغمبر_اکرم #نمونہ_عمل #عمل #تدبیر #تیزی #قناعت #طہارت #معصوم #دشمن #غفلت #صریح #نرمی #کفار_مکہ #مظہر_شجاعت #وضو_کے_قطرے
More...
Description:
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے نمونہ عمل ہونے کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل میں کس چیز سے استفادہ فرمایا؟ آپ کی ذاتی زندگی میں کونسی اہم خصوصیات نمایاں تھیں؟کیا پیغمبر اکرم ذو معنی گفتگو فرماتے تھے؟ دشمن کے مقابل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس انداز سے عمل فرماتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عہد و پیمان کی کس حد تک رعایت فرماتے تھے؟ میدان جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار کس طرح کا ہوتا تھا؟
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام، پیغمبر اکرم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ اصحاب سخت حالات میں کس کے پاس پناہ لیتے تھے؟ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس سالہ حکومت میں کونسے مثالی کام انجام دئے اور کس طرح عملی نمونہ پیش فرمایا؟ مشرکین مکہ کا سربراہ ابوسفیان، پیغمبر خدا کی عزت اور وقار دیکھ کر کیا کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #پیغمبر_اکرم #نمونہ_عمل #عمل #تدبیر #تیزی #قناعت #طہارت #معصوم #دشمن #غفلت #صریح #نرمی #کفار_مکہ #مظہر_شجاعت #وضو_کے_قطرے
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khamenei,
zendagi,
dushman,
jang,
imam
ali,
ashab,
mushrek,
tadbir,
qenaeat,
taharat,
maesom,
gheflat,
sarih,
42:16
|
42:16
|
اقشار نمونه بسیج سراسر كشور Vali Amr Muslimeen speech to Basij - Farsi
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و...
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين سيّما بقيّةالله فى الأرضين.
خداوند متعال را سپاسگزارم براى توفيق حضور در اين ديدار باشكوه و بسيار خوب. از برادران و خواهرانى كه در اطراف ميدان ايستادهاند، خواهش ميكنم بنشينند تا بتوانيم بحث كنيم.
امروز مقارن با اول محرم است. تناسبى هست ميان هويت و حقيقت بسيج با هويت محرم و عاشورا. بسيج افتخار دارد كه پيرو مكتب عاشوراست. البته عاشورا اوج فداكارى و ايثار است. همهى تاريخ، همهى عالم، مسئلهى عاشورا و حسينبنعلى (عليهالسّلام) و اصحاب وفادار او را با اين خصوصيت شناختهاند؛ فداكارى، ايثار در راه خدا و در راه تحقق اهداف الهى؛ ليكن مسئلهى عاشورا فقط اين نيست. بله، برجستهترين و نمايانترين خصوصيت عاشورا، همين فداكارى و شهادت است؛ ولى در ماجراى عاشورا حقايق ديگرى هم وجود دارد. از آغاز حركت از مدينه، بذر معرفت پاشيده شد - اين يكى از خصوصيات حادثهى عاشوراست - بذر بصيرت پاشيده شد. اگر مردمى، امتى از بصيرت برخوردار نباشند، حقايق گوناگون، كار آنها را اصلاح نخواهد كرد؛ گره از مشكلات آنها گشوده نخواهد شد. بنابراين اخلاص، موقعشناسى، پاشيدن بذر يك حركت فزايندهى تاريخى، از خصوصيات مهم عاشوراست. ماجرا فقط در ظهر عاشورا تمام نشد؛ در واقع از ظهر عاشورا يك جريانى در تاريخ شروع شد، كه همچنان رو به افزايش و گسترش است. بعد از اين هم همين خواهد بود. امام حسين (عليهالسّلام) براى اعلاى كلمهى حق و براى نجات خلق، همهى داشتههاى خود را به ميدان آورد. اين برخى از خصوصياتى است كه انسان به طور كلى در ماجراى عاشورا ميتواند ببيند و نشان بدهد.
بسيج، همين راه است؛ همين حركت است؛ همين هدفهاست؛ همين ابزارها و وسيلههاست. بسيج، جمع فداكارى از مردمند، براى مردم؛ تشكيل يك مجموعهاى در حركت عظيم يك ملت مجاهد. حضور در دفاع، حضور در علم، حضور در هنر، حضور در سازندگى، حضور در سياست، در فرهنگ، در كمك به مستضعفان، در كمك به درماندگان، در توليد، در فناورى، در پيشبرد مسائل گوناگون كشور، در ورزش، در درخششهاى بينالمللى، در هر كار خير؛ اين حركت بسيج است؛ حركتى مردمى، براى مردم، در دل مردم، از خود مردم، از همهى قشرها، زنان، مردان، جوانان، پيران، نوجوانان، از اصناف گوناگون؛ يعنى تشكيل يك مجموعهى حزبالله واقعى.
بسيج سياسى است، اما سياستزده نيست، سياسىكار نيست، جناحى نيست؛ بسيج مجاهد است، اما بىانضباط نيست، افراطى نيست؛ بسيج عميقاً متدين و متعبد است، اما متحجر نيست، خرافى نيست؛ بسيج بابصيرت است، اما ازخودراضى نيست؛ بسيج اهل جذب است - گفتهايم جذب حداكثرى - اما اهل تسامح در اصول نيست؛ بسيج غيور است، پاسدار خطوط فاصل است؛ بسيج طرفدار علم است، اما علمزده نيست؛ بسيج متخلق به اخلاق اسلامى است، اما رياكار نيست؛ بسيج در كار آبادكردن دنياست، اما خود اهل دنيا نيست. اين شد يك فرهنگ.
فرهنگ بسيجى يعنى آن مجموعهى معرفتها و روشها و منشهائى كه ميتواند مجموعههاى عظيمى را در ملت به وجود بياورد كه تضمينكنندهى حركت مستقيم و پايدار اسلامى آن ملت باشند. اين يك تفكر است؛ در ذهن هم نيست، در خارج و در عينيت وجود دارد. حركت بسيجى، سرنوشت ايران را، بلكه سرنوشت فراتر از ايران را تغيير داد، تعيين كرد. از روز اول، بسيجيان امام ما در ميدانهاى گوناگون انقلاب تا پيروزى انقلاب و تا پس از انقلاب حركتى كردند كه ماندگار شد، الگو شد، يادگار ملت ايران در عرصهى تاريخ شد. امروز جوانان نيويورك و كاليفرنيا هم شعارهاى مردم مصر و تونس را تكرار ميكنند، از آنها الهام ميگيرند؛ انكار هم نميكنند. جوانان مصر و تونس هم از حزبالله و حماس و جهاد اسلامى الهام گرفتهاند و فرا گرفتهاند و پنهان نكردند. و معلم اول در عصر جديد، بسيجىِ امام بزرگوار ما بود؛ كه همه از بسيجىِ امام بزرگوار فراگرفتند و از جانبازان و سربازان و فداكاران اين انقلاب ياد گرفتند كه چگونه ميتوان اسطورههاى قدرت مادى را شكست، چگونه ميتوان به نام خدا بتها را شكست، چگونه ميتوان ايستاد، چگونه ميتوان مقاومت كرد.
اينها حقايقى است كه امروز وجود بسيج، عينيت بسيج، حركت بسيج، هدفهاى بسيج، ما را به اين حقايق آشنا ميكند. انقلاب اسلامى و ملت انقلابى با يك چنين فرهنگى، با يك چنين آموزههائى، با يك چنين روحيهاى، توانست بسيارى از ناممكنها را ممكن كند، محقق كند؛ و اين حركت ادامه خواهد داشت. دشمنىِ دشمنان نميتواند تأثيرى بگذارد. البته دشمن، دشمنى ميكند - در اين ترديدى نبايد داشت، انتظارى هم جز اين از دشمن نبايد داشت - منتها ما وقتى حركت عظيم ملت ايران را از آغاز اين انقلاب، اين حركت، اين نهضت عمومى تا امروز مشاهده ميكنيم، مىبينيم يك خط سير مشخصى دارد. ملت ايران به سمت پيش حركت ميكند، به سمت اوج حركت ميكند، در ميدانهاى گوناگون بر چالشهاى گوناگون غلبه پيدا ميكند؛ و دشمنان در همين مقابله و مواجهه عقبنشينى ميكنند، كوتاه مىآيند؛ ناچارند. با اين حركت، سرنوشت ملت ايران، پيروزىِ قطعى است.
امروز در سرتاسر منطقهى اسلامى و منطقهى عربى، حركتهاى اسلامى و جوششهاى اسلامى مشاهده ميشود؛ اين همان چيزى است كه سى سال كسانى كه با حقيقت انقلاب آشنا بودند، انتظارش را داشتند و دشمنان انقلاب سى سال از تصور چنين چيزى به خود ميلرزيدند؛ واهمه و وحشت حوادثى را داشتند كه امروز اتفاق افتاده است. طراحان توطئههاى عليه انقلاب اسلامى پيشبينى ميكردند كه يك چنين حوادثى پيش خواهد آمد؛ و پيش آمد، و اين پيش خواهد رفت و متوقف نخواهد شد.
امروز ملتهاى مسلمان در منطقهى عربى سر بلند كردهاند، آگاه شدهاند، بيدار شدهاند. دشمنان نميتوانند آنها را سركوب كنند و نميتوانند راه را منحرف كنند. حركت به جريان افتاده است و وضع دنيا را تحت تأثير قرار داده است. همين حركتهائى كه امروز شما در دنياى غرب، در آمريكا و در اروپا مشاهده ميكنيد، نشان دهندهى تغييرات عظيمى است كه آيندهى دنيا شاهد اين تغييرات خواهد بود.
ما از عكسالعمل دشمنان تعجب نميكنيم؛ از تهديدهائى كه ميشود، از تحريمى كه ميكنند، از آنچه كه كشورهاى استكبارى در اين دوره در مواجههى با نظام جمهورى اسلامى انجام ميدهند، تعجب نميكنيم. آنها ميدانند كه كانون اين حركت، جمهورى اسلامى بود و ايستادگى ملت ايران است كه توانسته است اين روحيه را در منطقه بگستراند كه ميشود در مقابل هيمنهى استكبار ايستاد. استكبار پيشرفت كار خودش را همواره از راه مرعوب كردنها - ملتها را مرعوب ميكردند، سران كشورها را مرعوب ميكردند - پيش برده است. وقتى اين پردهى رعب بشكند، وقتى ملتها بدانند كه اين هيمنه، هيمنهى حقيقى و واقعى نيست و صورى و ظاهرى است، اين سلاح از دست استكبار گرفته خواهد شد. و امروز اينجور شده است. لذا خشمگينند، عصبانىاند، روى جمهورى اسلامى فشار وارد ميكنند.
البته اين كه جمهورى اسلامى را متهم كنند كه اين حركات را راه انداخته، غلط است؛ اين يك تهمت بيجا و بيموردى است؛ احتياجى به اين كار نيست. نظام اسلامى با بقاء خود، با ايستادگى خود، با صدق خود در اين راه - كه ملت ايران نشان داد در اين راه صادق است - الهامبخش بوده است و اين الهامبخشى وجود دارد. ملتها بيدار شدهاند و راه خود را پيدا كردهاند. دشمنان هم دشمنى ميكنند. البته اين دشمنىها چالشهائى را ايجاد ميكند. ملت ايران به مواجههى با اين چالشها عادت كرده است و ما انشاءالله بر همهى چالشهائى كه دشمنان به وجود مىآورند، غلبه خواهيم كرد و پيروز خواهيم شد و خداى متعال براى ملت ايران و در نهايت براى امت اسلامى و استقرار حقايق نورانى اسلام در عالم، اين پيروزى را مقدر فرموده است.
اميدواريم خداوند متعال توفيق تداوم در اين راه را به همهى ملت عزيز ما، به جوانان عزيز بسيجى ما، به همهى جوانان اين كشور و به مسئولان مرحمت كند. همه بدانند كه در اين زمينهها مسئولند؛ هم مسئولان كشور، هم قشرهاى گوناگون. مردم در ميدان حاضرند. آمادگى مردم در قضاياى گوناگون، آمادگى كامل است. مسئولان هم بايد قدر اين ملت را و اين آمادگى را بدانند و وظائف خود را، كارهائى را كه بر دوش آنهاست، به بهترين وجهى در قواى سهگانه انجام بدهند و ملت با انسجام پيش برود.
اين حركتهاى اسلامى در اطراف دنياى اسلام هم بلاشك حركتهاى ماندگارى است، حركتهاى پيشروندهاى است. ملتها يكى پس از ديگرى بيدار ميشوند. دستنشاندگان استكبار، يكى پس از ديگرى از عرصه و صحنه خارج خواهند شد و انشاءالله روزبهروز شوكت اسلام و اقتدار اسلام بيشتر خواهد شد.
پروردگارا! ما را لايق اين نعمتهاى بزرگ قرار بده؛ ما را شاكر اين نعمتهاى بزرگ قرار بده. پروردگارا! دلهاى ما را به نور محبت و معرفتِ خودت و اوليائت منور بگردان؛ دعاى بقيّةالله (ارواحنا فداه) را شامل حال ما بفرما.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Supreme Leader’s Speech to Basijis
28/11/2011
The following is the full text of the speech delivered on November 28, 2011 by Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution to a group of basijis from different parts of the country.
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful
All praise is due to Allah, the Lord of the Worlds, and peace and greetings upon our Master, Muhammad, and upon his immaculate household, especially the one remaining with Allah on earth.
I am grateful to Allah the Exalted who gave me the opportunity to attend this glorious and excellent meeting. I would like to ask the brothers and sisters who are standing around the square to sit down so that we can have a discussion.
Today has coincided with the first day of the month of Muharram. The identity and nature of Basij are in harmony with the identity of Muharram and Ashura. Basij is proud of being a follower of the school of Ashura. Of course Ashura is the peak of self-sacrifice. The issue of Ashura and what happened to Hussein ibn Ali (a.s.) and his loyal companions have been identified in the entire history and the entire world with self-sacrifice and selfless efforts in the way of God and for a divine cause. But the issue of Ashura is not limited to this. Yes, self-sacrifice and martyrdom are the most prominent and significant aspect of Ashura, but there are also other truths in Ashura. From the beginning of the movement in Medina, the seeds of knowledge and insight were sowed: this is one of the characteristics of the event that happened on Ashura. If a people lack insight, different things will not help them improve their conditions and solve their problems. Therefore, purity, identifying the opportunities, sowing the seeds of a growing historical movement - these are among the important characteristics of Ashura. The event did not end on the noon of Ashura. In fact a movement started in history from the noon of Ashura, a movement whose scope is still widening and expanding and it will continue expanding in the future as well. Imam Hussein (a.s.) brought whatever he had into the arena in order to promote the word of God and save mankind. These are some of the characteristics that one can identify in the event that happened on Ashura.
Basij is following the same path. It is continuing the same movement. It is pursuing the same goals. It is using the same tools and means. Basij is from among the people and it was established for the sake of the people. It was established in order to further the great movement of a mujahid nation. Basij is present in defense, science, art, construction of the country, politics, culture, helping oppressed and helpless people, production, technology, furthering different affairs of the country, sports, international arenas and all righteous actions. This is the movement of Basij: a popular movement for the people, in the hearts of the people, from among the people, from among different social classes, from among women and men - young and old - from different professions. That is to say, an organization was established which was hezbollahi in the real sense of the word.
Basij is political in nature, but it is not intoxicated by political and partisan activities. Basij is a mujahid organization, but it is not without discipline. It is not radical. Basij is deeply pious and religious, but it is not rigid and superstitious. Basij is insightful, but it is not self-centered. Basij is inclusive - and I have recommended maximum inclusion - but it will not compromise principles. Basij is brave. It is the guardian of principles. Basij is a supporter of science, but it is not intoxicated with science. Basij enjoys Islamic characteristics and it is not hypocritical. Basij is involved in improving the world, but it does not have materialistic tendencies. And this is a culture.
The basiji culture includes the knowledge, methods and behaviors which can give rise to great things that guarantee the permanent Islamic movement of a nation on a straight path. This is a school of thought and it is not just an abstract concept: it has a manifestation in the real world. The movement of Basij changed the destiny of Iran and it even went beyond changing the destiny of Iran. From the first day, basijis continued their activities in different revolutionary arenas before and after the Revolution and their movement became permanent. It became a model. It went down in history in the name of the Iranian nation. Today the youth of New York and California are repeating the slogans of the people of Egypt and Tunisia. They are inspired by these nations and they do not deny this. And the youth of Egypt and Tunisia were inspired by Hezbollah, Hamas and Islamic Jihad and they did not hide this. Basijis who were deployed by our magnanimous Imam (r.a.) started this inspiration in the modern world. Everybody learnt how to defeat the icons of materialistic power from our Imam\'s basijis and from our disabled war veterans, soldiers and selfless people. They learnt how to break idols in the name of God. They leant how to stand firm and how to resist.
Today the existence, movement and goals of Basij make us familiar with these truths. By relying on this culture, these teachings and this spirit, the Islamic Revolution and the revolutionary Iranian nation managed to accomplish many things which were considered impossible and this movement will continue. The hostility of the enemies cannot affect this. Of course the enemy will continue its hostility. We must not have any doubts in this regard. In fact an enemy should not be expected to behave otherwise. However, when we consider the great movement of the Iranian nation from the beginning of the Revolution to the present day, we see that there is a clear path. The Iranian nation is moving forward. It is moving towards the peak. It continues overcoming different challenges in different arenas and the enemies are forced to back down in this confrontation. With this movement, the Iranian nation will definitely achieve victory.
Today Islamic movements and uprisings are being witnessed throughout Islamic and Arab regions. This is exactly what has been expected since thirty years ago by those who were familiar with the nature of the Revolution. And in anticipation of such a thing, the enemies of the Revolution were trembling with fear for thirty years. They lived in fear of the events that have already happened today. Those who were hatching plots against the Islamic Revolution predicted such events and they happened. These events will continue and they will not stop.
Today Muslim people have risen up in the Arab region. They have become aware. They have awakened. The enemies cannot suppress them. They cannot change their path. The movement has already started and it has affected the conditions of the world. The movements that you see today in the western world - in America and in Europe - are indicative of great changes that the world will witness in the future.
We are not surprised by the response of the enemies. We are not surprised by the threats they make, the sanctions they impose and what the arrogant countries have been doing against the Islamic Republic during this time. They know that the Islamic Republic was the source of this movement. They know that it is the resistance of the Iranian nation that has managed to promote the idea in the region that it is possible to stand up against the power of the arrogant powers. The arrogant powers have always resolved their problems through intimidation. They intimidate nations and their leaders. When this technique is revealed and when nations realize that the power of the arrogant countries is superficial and not genuine, the arrogant powers will lose this weapon. And this is what has happened today. Therefore, they are angry and they pressure the Islamic Republic.
Of course they wrongly accuse the Islamic Republic of having started these movements. This is a baseless accusation. There is no need for such actions. The Islamic Republic has been inspirational because of its permanence, resistance and sincerity on this path - and the Iranian nation proved that it is sincere on this path. This inspiration is still there. Nations have awakened and they have found their path. And the enemies are continuing their hostility. Of course these hostilities create certain challenges. The Iranian nation is used to confronting such challenges. By Allah\'s favor, we will overcome all the challenges that the enemies create and we will achieve victory. Allah the Exalted has pre-ordained the establishment of brilliant Islamic truths in the world and He has also pre-ordained victory for the Iranian nation and ultimately for the Islamic Ummah.
I hope Allah the Exalted will bless all our people, our basijis and all our youth and government officials with the opportunity to continue this path. Everybody should know that they are responsible in these areas. All our government officials and people should know this. The people are present in the arena. The people are completely prepared in different areas and our government officials should appreciate our people and their preparedness. Our government officials should carry out their responsibilities in the three branches of government in the best possible way so that our nation can move forward in a coherent way.
Undoubtedly these Islamic movements around the world of Islam are permanent and progressive movements. Nations are awakening one after the other. The puppets of the arrogant powers will leave the scene one after the other and by Allah\'s favor, the power and glory of Islam will increase on a daily basis.
Dear God, help us be worthy of these great blessings. Make us be thankful for these great blessings. Dear God, enlighten our hearts with the light of Your love and knowledge and with the love and knowledge of your saints. Make us benefit from the prayers of the Imam of the Age (may our souls be sacrificed for his sake).
Greetings be upon you and Allah\'s mercy and blessings
More...
Description:
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين سيّما بقيّةالله فى الأرضين.
خداوند متعال را سپاسگزارم براى توفيق حضور در اين ديدار باشكوه و بسيار خوب. از برادران و خواهرانى كه در اطراف ميدان ايستادهاند، خواهش ميكنم بنشينند تا بتوانيم بحث كنيم.
امروز مقارن با اول محرم است. تناسبى هست ميان هويت و حقيقت بسيج با هويت محرم و عاشورا. بسيج افتخار دارد كه پيرو مكتب عاشوراست. البته عاشورا اوج فداكارى و ايثار است. همهى تاريخ، همهى عالم، مسئلهى عاشورا و حسينبنعلى (عليهالسّلام) و اصحاب وفادار او را با اين خصوصيت شناختهاند؛ فداكارى، ايثار در راه خدا و در راه تحقق اهداف الهى؛ ليكن مسئلهى عاشورا فقط اين نيست. بله، برجستهترين و نمايانترين خصوصيت عاشورا، همين فداكارى و شهادت است؛ ولى در ماجراى عاشورا حقايق ديگرى هم وجود دارد. از آغاز حركت از مدينه، بذر معرفت پاشيده شد - اين يكى از خصوصيات حادثهى عاشوراست - بذر بصيرت پاشيده شد. اگر مردمى، امتى از بصيرت برخوردار نباشند، حقايق گوناگون، كار آنها را اصلاح نخواهد كرد؛ گره از مشكلات آنها گشوده نخواهد شد. بنابراين اخلاص، موقعشناسى، پاشيدن بذر يك حركت فزايندهى تاريخى، از خصوصيات مهم عاشوراست. ماجرا فقط در ظهر عاشورا تمام نشد؛ در واقع از ظهر عاشورا يك جريانى در تاريخ شروع شد، كه همچنان رو به افزايش و گسترش است. بعد از اين هم همين خواهد بود. امام حسين (عليهالسّلام) براى اعلاى كلمهى حق و براى نجات خلق، همهى داشتههاى خود را به ميدان آورد. اين برخى از خصوصياتى است كه انسان به طور كلى در ماجراى عاشورا ميتواند ببيند و نشان بدهد.
بسيج، همين راه است؛ همين حركت است؛ همين هدفهاست؛ همين ابزارها و وسيلههاست. بسيج، جمع فداكارى از مردمند، براى مردم؛ تشكيل يك مجموعهاى در حركت عظيم يك ملت مجاهد. حضور در دفاع، حضور در علم، حضور در هنر، حضور در سازندگى، حضور در سياست، در فرهنگ، در كمك به مستضعفان، در كمك به درماندگان، در توليد، در فناورى، در پيشبرد مسائل گوناگون كشور، در ورزش، در درخششهاى بينالمللى، در هر كار خير؛ اين حركت بسيج است؛ حركتى مردمى، براى مردم، در دل مردم، از خود مردم، از همهى قشرها، زنان، مردان، جوانان، پيران، نوجوانان، از اصناف گوناگون؛ يعنى تشكيل يك مجموعهى حزبالله واقعى.
بسيج سياسى است، اما سياستزده نيست، سياسىكار نيست، جناحى نيست؛ بسيج مجاهد است، اما بىانضباط نيست، افراطى نيست؛ بسيج عميقاً متدين و متعبد است، اما متحجر نيست، خرافى نيست؛ بسيج بابصيرت است، اما ازخودراضى نيست؛ بسيج اهل جذب است - گفتهايم جذب حداكثرى - اما اهل تسامح در اصول نيست؛ بسيج غيور است، پاسدار خطوط فاصل است؛ بسيج طرفدار علم است، اما علمزده نيست؛ بسيج متخلق به اخلاق اسلامى است، اما رياكار نيست؛ بسيج در كار آبادكردن دنياست، اما خود اهل دنيا نيست. اين شد يك فرهنگ.
فرهنگ بسيجى يعنى آن مجموعهى معرفتها و روشها و منشهائى كه ميتواند مجموعههاى عظيمى را در ملت به وجود بياورد كه تضمينكنندهى حركت مستقيم و پايدار اسلامى آن ملت باشند. اين يك تفكر است؛ در ذهن هم نيست، در خارج و در عينيت وجود دارد. حركت بسيجى، سرنوشت ايران را، بلكه سرنوشت فراتر از ايران را تغيير داد، تعيين كرد. از روز اول، بسيجيان امام ما در ميدانهاى گوناگون انقلاب تا پيروزى انقلاب و تا پس از انقلاب حركتى كردند كه ماندگار شد، الگو شد، يادگار ملت ايران در عرصهى تاريخ شد. امروز جوانان نيويورك و كاليفرنيا هم شعارهاى مردم مصر و تونس را تكرار ميكنند، از آنها الهام ميگيرند؛ انكار هم نميكنند. جوانان مصر و تونس هم از حزبالله و حماس و جهاد اسلامى الهام گرفتهاند و فرا گرفتهاند و پنهان نكردند. و معلم اول در عصر جديد، بسيجىِ امام بزرگوار ما بود؛ كه همه از بسيجىِ امام بزرگوار فراگرفتند و از جانبازان و سربازان و فداكاران اين انقلاب ياد گرفتند كه چگونه ميتوان اسطورههاى قدرت مادى را شكست، چگونه ميتوان به نام خدا بتها را شكست، چگونه ميتوان ايستاد، چگونه ميتوان مقاومت كرد.
اينها حقايقى است كه امروز وجود بسيج، عينيت بسيج، حركت بسيج، هدفهاى بسيج، ما را به اين حقايق آشنا ميكند. انقلاب اسلامى و ملت انقلابى با يك چنين فرهنگى، با يك چنين آموزههائى، با يك چنين روحيهاى، توانست بسيارى از ناممكنها را ممكن كند، محقق كند؛ و اين حركت ادامه خواهد داشت. دشمنىِ دشمنان نميتواند تأثيرى بگذارد. البته دشمن، دشمنى ميكند - در اين ترديدى نبايد داشت، انتظارى هم جز اين از دشمن نبايد داشت - منتها ما وقتى حركت عظيم ملت ايران را از آغاز اين انقلاب، اين حركت، اين نهضت عمومى تا امروز مشاهده ميكنيم، مىبينيم يك خط سير مشخصى دارد. ملت ايران به سمت پيش حركت ميكند، به سمت اوج حركت ميكند، در ميدانهاى گوناگون بر چالشهاى گوناگون غلبه پيدا ميكند؛ و دشمنان در همين مقابله و مواجهه عقبنشينى ميكنند، كوتاه مىآيند؛ ناچارند. با اين حركت، سرنوشت ملت ايران، پيروزىِ قطعى است.
امروز در سرتاسر منطقهى اسلامى و منطقهى عربى، حركتهاى اسلامى و جوششهاى اسلامى مشاهده ميشود؛ اين همان چيزى است كه سى سال كسانى كه با حقيقت انقلاب آشنا بودند، انتظارش را داشتند و دشمنان انقلاب سى سال از تصور چنين چيزى به خود ميلرزيدند؛ واهمه و وحشت حوادثى را داشتند كه امروز اتفاق افتاده است. طراحان توطئههاى عليه انقلاب اسلامى پيشبينى ميكردند كه يك چنين حوادثى پيش خواهد آمد؛ و پيش آمد، و اين پيش خواهد رفت و متوقف نخواهد شد.
امروز ملتهاى مسلمان در منطقهى عربى سر بلند كردهاند، آگاه شدهاند، بيدار شدهاند. دشمنان نميتوانند آنها را سركوب كنند و نميتوانند راه را منحرف كنند. حركت به جريان افتاده است و وضع دنيا را تحت تأثير قرار داده است. همين حركتهائى كه امروز شما در دنياى غرب، در آمريكا و در اروپا مشاهده ميكنيد، نشان دهندهى تغييرات عظيمى است كه آيندهى دنيا شاهد اين تغييرات خواهد بود.
ما از عكسالعمل دشمنان تعجب نميكنيم؛ از تهديدهائى كه ميشود، از تحريمى كه ميكنند، از آنچه كه كشورهاى استكبارى در اين دوره در مواجههى با نظام جمهورى اسلامى انجام ميدهند، تعجب نميكنيم. آنها ميدانند كه كانون اين حركت، جمهورى اسلامى بود و ايستادگى ملت ايران است كه توانسته است اين روحيه را در منطقه بگستراند كه ميشود در مقابل هيمنهى استكبار ايستاد. استكبار پيشرفت كار خودش را همواره از راه مرعوب كردنها - ملتها را مرعوب ميكردند، سران كشورها را مرعوب ميكردند - پيش برده است. وقتى اين پردهى رعب بشكند، وقتى ملتها بدانند كه اين هيمنه، هيمنهى حقيقى و واقعى نيست و صورى و ظاهرى است، اين سلاح از دست استكبار گرفته خواهد شد. و امروز اينجور شده است. لذا خشمگينند، عصبانىاند، روى جمهورى اسلامى فشار وارد ميكنند.
البته اين كه جمهورى اسلامى را متهم كنند كه اين حركات را راه انداخته، غلط است؛ اين يك تهمت بيجا و بيموردى است؛ احتياجى به اين كار نيست. نظام اسلامى با بقاء خود، با ايستادگى خود، با صدق خود در اين راه - كه ملت ايران نشان داد در اين راه صادق است - الهامبخش بوده است و اين الهامبخشى وجود دارد. ملتها بيدار شدهاند و راه خود را پيدا كردهاند. دشمنان هم دشمنى ميكنند. البته اين دشمنىها چالشهائى را ايجاد ميكند. ملت ايران به مواجههى با اين چالشها عادت كرده است و ما انشاءالله بر همهى چالشهائى كه دشمنان به وجود مىآورند، غلبه خواهيم كرد و پيروز خواهيم شد و خداى متعال براى ملت ايران و در نهايت براى امت اسلامى و استقرار حقايق نورانى اسلام در عالم، اين پيروزى را مقدر فرموده است.
اميدواريم خداوند متعال توفيق تداوم در اين راه را به همهى ملت عزيز ما، به جوانان عزيز بسيجى ما، به همهى جوانان اين كشور و به مسئولان مرحمت كند. همه بدانند كه در اين زمينهها مسئولند؛ هم مسئولان كشور، هم قشرهاى گوناگون. مردم در ميدان حاضرند. آمادگى مردم در قضاياى گوناگون، آمادگى كامل است. مسئولان هم بايد قدر اين ملت را و اين آمادگى را بدانند و وظائف خود را، كارهائى را كه بر دوش آنهاست، به بهترين وجهى در قواى سهگانه انجام بدهند و ملت با انسجام پيش برود.
اين حركتهاى اسلامى در اطراف دنياى اسلام هم بلاشك حركتهاى ماندگارى است، حركتهاى پيشروندهاى است. ملتها يكى پس از ديگرى بيدار ميشوند. دستنشاندگان استكبار، يكى پس از ديگرى از عرصه و صحنه خارج خواهند شد و انشاءالله روزبهروز شوكت اسلام و اقتدار اسلام بيشتر خواهد شد.
پروردگارا! ما را لايق اين نعمتهاى بزرگ قرار بده؛ ما را شاكر اين نعمتهاى بزرگ قرار بده. پروردگارا! دلهاى ما را به نور محبت و معرفتِ خودت و اوليائت منور بگردان؛ دعاى بقيّةالله (ارواحنا فداه) را شامل حال ما بفرما.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Supreme Leader’s Speech to Basijis
28/11/2011
The following is the full text of the speech delivered on November 28, 2011 by Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution to a group of basijis from different parts of the country.
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful
All praise is due to Allah, the Lord of the Worlds, and peace and greetings upon our Master, Muhammad, and upon his immaculate household, especially the one remaining with Allah on earth.
I am grateful to Allah the Exalted who gave me the opportunity to attend this glorious and excellent meeting. I would like to ask the brothers and sisters who are standing around the square to sit down so that we can have a discussion.
Today has coincided with the first day of the month of Muharram. The identity and nature of Basij are in harmony with the identity of Muharram and Ashura. Basij is proud of being a follower of the school of Ashura. Of course Ashura is the peak of self-sacrifice. The issue of Ashura and what happened to Hussein ibn Ali (a.s.) and his loyal companions have been identified in the entire history and the entire world with self-sacrifice and selfless efforts in the way of God and for a divine cause. But the issue of Ashura is not limited to this. Yes, self-sacrifice and martyrdom are the most prominent and significant aspect of Ashura, but there are also other truths in Ashura. From the beginning of the movement in Medina, the seeds of knowledge and insight were sowed: this is one of the characteristics of the event that happened on Ashura. If a people lack insight, different things will not help them improve their conditions and solve their problems. Therefore, purity, identifying the opportunities, sowing the seeds of a growing historical movement - these are among the important characteristics of Ashura. The event did not end on the noon of Ashura. In fact a movement started in history from the noon of Ashura, a movement whose scope is still widening and expanding and it will continue expanding in the future as well. Imam Hussein (a.s.) brought whatever he had into the arena in order to promote the word of God and save mankind. These are some of the characteristics that one can identify in the event that happened on Ashura.
Basij is following the same path. It is continuing the same movement. It is pursuing the same goals. It is using the same tools and means. Basij is from among the people and it was established for the sake of the people. It was established in order to further the great movement of a mujahid nation. Basij is present in defense, science, art, construction of the country, politics, culture, helping oppressed and helpless people, production, technology, furthering different affairs of the country, sports, international arenas and all righteous actions. This is the movement of Basij: a popular movement for the people, in the hearts of the people, from among the people, from among different social classes, from among women and men - young and old - from different professions. That is to say, an organization was established which was hezbollahi in the real sense of the word.
Basij is political in nature, but it is not intoxicated by political and partisan activities. Basij is a mujahid organization, but it is not without discipline. It is not radical. Basij is deeply pious and religious, but it is not rigid and superstitious. Basij is insightful, but it is not self-centered. Basij is inclusive - and I have recommended maximum inclusion - but it will not compromise principles. Basij is brave. It is the guardian of principles. Basij is a supporter of science, but it is not intoxicated with science. Basij enjoys Islamic characteristics and it is not hypocritical. Basij is involved in improving the world, but it does not have materialistic tendencies. And this is a culture.
The basiji culture includes the knowledge, methods and behaviors which can give rise to great things that guarantee the permanent Islamic movement of a nation on a straight path. This is a school of thought and it is not just an abstract concept: it has a manifestation in the real world. The movement of Basij changed the destiny of Iran and it even went beyond changing the destiny of Iran. From the first day, basijis continued their activities in different revolutionary arenas before and after the Revolution and their movement became permanent. It became a model. It went down in history in the name of the Iranian nation. Today the youth of New York and California are repeating the slogans of the people of Egypt and Tunisia. They are inspired by these nations and they do not deny this. And the youth of Egypt and Tunisia were inspired by Hezbollah, Hamas and Islamic Jihad and they did not hide this. Basijis who were deployed by our magnanimous Imam (r.a.) started this inspiration in the modern world. Everybody learnt how to defeat the icons of materialistic power from our Imam\'s basijis and from our disabled war veterans, soldiers and selfless people. They learnt how to break idols in the name of God. They leant how to stand firm and how to resist.
Today the existence, movement and goals of Basij make us familiar with these truths. By relying on this culture, these teachings and this spirit, the Islamic Revolution and the revolutionary Iranian nation managed to accomplish many things which were considered impossible and this movement will continue. The hostility of the enemies cannot affect this. Of course the enemy will continue its hostility. We must not have any doubts in this regard. In fact an enemy should not be expected to behave otherwise. However, when we consider the great movement of the Iranian nation from the beginning of the Revolution to the present day, we see that there is a clear path. The Iranian nation is moving forward. It is moving towards the peak. It continues overcoming different challenges in different arenas and the enemies are forced to back down in this confrontation. With this movement, the Iranian nation will definitely achieve victory.
Today Islamic movements and uprisings are being witnessed throughout Islamic and Arab regions. This is exactly what has been expected since thirty years ago by those who were familiar with the nature of the Revolution. And in anticipation of such a thing, the enemies of the Revolution were trembling with fear for thirty years. They lived in fear of the events that have already happened today. Those who were hatching plots against the Islamic Revolution predicted such events and they happened. These events will continue and they will not stop.
Today Muslim people have risen up in the Arab region. They have become aware. They have awakened. The enemies cannot suppress them. They cannot change their path. The movement has already started and it has affected the conditions of the world. The movements that you see today in the western world - in America and in Europe - are indicative of great changes that the world will witness in the future.
We are not surprised by the response of the enemies. We are not surprised by the threats they make, the sanctions they impose and what the arrogant countries have been doing against the Islamic Republic during this time. They know that the Islamic Republic was the source of this movement. They know that it is the resistance of the Iranian nation that has managed to promote the idea in the region that it is possible to stand up against the power of the arrogant powers. The arrogant powers have always resolved their problems through intimidation. They intimidate nations and their leaders. When this technique is revealed and when nations realize that the power of the arrogant countries is superficial and not genuine, the arrogant powers will lose this weapon. And this is what has happened today. Therefore, they are angry and they pressure the Islamic Republic.
Of course they wrongly accuse the Islamic Republic of having started these movements. This is a baseless accusation. There is no need for such actions. The Islamic Republic has been inspirational because of its permanence, resistance and sincerity on this path - and the Iranian nation proved that it is sincere on this path. This inspiration is still there. Nations have awakened and they have found their path. And the enemies are continuing their hostility. Of course these hostilities create certain challenges. The Iranian nation is used to confronting such challenges. By Allah\'s favor, we will overcome all the challenges that the enemies create and we will achieve victory. Allah the Exalted has pre-ordained the establishment of brilliant Islamic truths in the world and He has also pre-ordained victory for the Iranian nation and ultimately for the Islamic Ummah.
I hope Allah the Exalted will bless all our people, our basijis and all our youth and government officials with the opportunity to continue this path. Everybody should know that they are responsible in these areas. All our government officials and people should know this. The people are present in the arena. The people are completely prepared in different areas and our government officials should appreciate our people and their preparedness. Our government officials should carry out their responsibilities in the three branches of government in the best possible way so that our nation can move forward in a coherent way.
Undoubtedly these Islamic movements around the world of Islam are permanent and progressive movements. Nations are awakening one after the other. The puppets of the arrogant powers will leave the scene one after the other and by Allah\'s favor, the power and glory of Islam will increase on a daily basis.
Dear God, help us be worthy of these great blessings. Make us be thankful for these great blessings. Dear God, enlighten our hearts with the light of Your love and knowledge and with the love and knowledge of your saints. Make us benefit from the prayers of the Imam of the Age (may our souls be sacrificed for his sake).
Greetings be upon you and Allah\'s mercy and blessings
45:41
|
6:44
|
قائد وحدت کے دو سال قبل کہے گے الفاظ کا عملی نمونہ - Urdu
قائد وحدت کے دو سال قبل کہے گے الفاظ کا عملی نمونہ
عید میلاد النبی پر پاکستان بھرمیں ہونے والے اجتماعات،...
قائد وحدت کے دو سال قبل کہے گے الفاظ کا عملی نمونہ
عید میلاد النبی پر پاکستان بھرمیں ہونے والے اجتماعات، جلوس اور محافل میں شیعہ سنی اتحاد اور اخوت کی فضا کے مناظر
شیعہ سنی ساتھ ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گلی گلی نگر نگر لبیک یا رسول اللہ کی صداؤں سے ماحول کو معطر کر رہے ہیں ۔ آج تکفیر ی ٹولہ خالی ہاتھ اپنا چہرہ چھپائے ایک کونے میں کھڑاہے ۔
More...
Description:
قائد وحدت کے دو سال قبل کہے گے الفاظ کا عملی نمونہ
عید میلاد النبی پر پاکستان بھرمیں ہونے والے اجتماعات، جلوس اور محافل میں شیعہ سنی اتحاد اور اخوت کی فضا کے مناظر
شیعہ سنی ساتھ ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گلی گلی نگر نگر لبیک یا رسول اللہ کی صداؤں سے ماحول کو معطر کر رہے ہیں ۔ آج تکفیر ی ٹولہ خالی ہاتھ اپنا چہرہ چھپائے ایک کونے میں کھڑاہے ۔
9:55
|
4:00
|
امام عسکریؑ جواںوں کے لیے نمونہ عمل | Farsi sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سیدعلی خامنہ ای حفظہ اللہ کے خطاب سے اقتباس
جوانوں کے لیے بہترین نمونہ عمل کون ہیں؟
وہ...
ولی امرِ مسلمین سیدعلی خامنہ ای حفظہ اللہ کے خطاب سے اقتباس
جوانوں کے لیے بہترین نمونہ عمل کون ہیں؟
وہ کونسے امام ہیں جن کے فضائل اغیار نے بھی پڑھے ہیں؟
انقلاب اسلامی، کیوں ایک سنہرا دور ہے؟
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شہید #انقلاب #امام #عسکری #جوان
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سیدعلی خامنہ ای حفظہ اللہ کے خطاب سے اقتباس
جوانوں کے لیے بہترین نمونہ عمل کون ہیں؟
وہ کونسے امام ہیں جن کے فضائل اغیار نے بھی پڑھے ہیں؟
انقلاب اسلامی، کیوں ایک سنہرا دور ہے؟
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شہید #انقلاب #امام #عسکری #جوان
Video Tags:
Wilayat,
Media,
Wilayat
Media,
Urdu,
Subtitles,
Farsi,
Martyrdom,
Martyr,
Imam
Khamenei,
Aale
Saood,
Khomeni,
Resistance,
Imam,
martyr,
role
model
,Imam
Askari,
62:09
|
Uswa-e-Husna | Prof.Zahid Ali Zahidi 01-Dec-2018 - Urdu
[Majlis]
Topic:RasoolAllah(S) Ka Uswa e Husna Humaray liay Behtreen Namoona
موضوع: رسول اللہ ؐ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے بہترین نمونہ...
[Majlis]
Topic:RasoolAllah(S) Ka Uswa e Husna Humaray liay Behtreen Namoona
موضوع: رسول اللہ ؐ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے بہترین نمونہ
Speaker:Prof.Zahid Ali Zahidi
خطیب :پروفیسر زاہد علی زاہدی
Venue:Karachi, Pakistan
مقام : کراچی ، پاکستان
Date: 01 Dec 2018
Rabi ul Awal 1440
More...
Description:
[Majlis]
Topic:RasoolAllah(S) Ka Uswa e Husna Humaray liay Behtreen Namoona
موضوع: رسول اللہ ؐ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے بہترین نمونہ
Speaker:Prof.Zahid Ali Zahidi
خطیب :پروفیسر زاہد علی زاہدی
Venue:Karachi, Pakistan
مقام : کراچی ، پاکستان
Date: 01 Dec 2018
Rabi ul Awal 1440
4:35
|
سلام مادر نمونه - مجید بنی فاطمه | Farsi sub Urdu English
مداحی نوحه شهادت مادر حضرت فاطمه زهرا (س):
عطر چادرت عطر یاسه مهر مادریت بی کرونه میرسه به تو این سلاما...
مداحی نوحه شهادت مادر حضرت فاطمه زهرا (س):
عطر چادرت عطر یاسه مهر مادریت بی کرونه میرسه به تو این سلاما سلام مادر نمونه باصدای حاج سید مجید بنی فاطمه
Salam Mader e Namoneh - Seyed Majid Bani Fatimeh Shahadat Seyeda Fatima Zahra(sa) Farsi noha with Urdu English Subtitle
More...
Description:
مداحی نوحه شهادت مادر حضرت فاطمه زهرا (س):
عطر چادرت عطر یاسه مهر مادریت بی کرونه میرسه به تو این سلاما سلام مادر نمونه باصدای حاج سید مجید بنی فاطمه
Salam Mader e Namoneh - Seyed Majid Bani Fatimeh Shahadat Seyeda Fatima Zahra(sa) Farsi noha with Urdu English Subtitle
3:58
|
Molaye ma - Ali Fani | Farsi sub Urdu
مولای ما با صدای علی فانی در وصف امیر المومنین امام علی علیه السلام
مولای ما نمونه دیگر نداشته است اعجاز...
مولای ما با صدای علی فانی در وصف امیر المومنین امام علی علیه السلام
مولای ما نمونه دیگر نداشته است اعجاز خلقت است و برابر نداشته است
شعر سید حمیدرضا برقعی
تنظیم مسعود بقایی
More...
Description:
مولای ما با صدای علی فانی در وصف امیر المومنین امام علی علیه السلام
مولای ما نمونه دیگر نداشته است اعجاز خلقت است و برابر نداشته است
شعر سید حمیدرضا برقعی
تنظیم مسعود بقایی
6:00
|
شیعہ تفسیری کتب کا تعارف (16) | تفسيرِ نمونہ کا تعارف | Urdu
تفسیرِ نمونہ کا مصنف کون ہے؟ کتنی جلدوں پر مشتمل ہے؟ کس روش پر یہ تفسیر لکھی گئی ہے؟ کس زبان میں لکھی گئی ہے؟...
تفسیرِ نمونہ کا مصنف کون ہے؟ کتنی جلدوں پر مشتمل ہے؟ کس روش پر یہ تفسیر لکھی گئی ہے؟ کس زبان میں لکھی گئی ہے؟ مصنف نے اس میں کن تفسیروں سے استفادہ کیا ہے؟ مصنف کیدوسری تفسیر کا نام کیا ہے؟
اس درس میں آپ ان سوالات کے جواب ملاحظہ کریں گے۔
مولانا غلام جعفر
More...
Description:
تفسیرِ نمونہ کا مصنف کون ہے؟ کتنی جلدوں پر مشتمل ہے؟ کس روش پر یہ تفسیر لکھی گئی ہے؟ کس زبان میں لکھی گئی ہے؟ مصنف نے اس میں کن تفسیروں سے استفادہ کیا ہے؟ مصنف کیدوسری تفسیر کا نام کیا ہے؟
اس درس میں آپ ان سوالات کے جواب ملاحظہ کریں گے۔
مولانا غلام جعفر
Video Tags:
noorulwilayah,
production,
shia,
tafseeri,
kutub,
ta\'aruf,
tafseer,
namoona,
musanif,
rawish,
zaban,
istifada,
molana,
ghulam,
jafar,
2:54
|
زندگی کے لیے نمونہ عمل | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
آئمہ معصومین علیہم السلام کا مبارک کلام ایک سعادت مند اور درست زندگی گزارنے کے لیے نمونہ عمل اور تاریکی میں...
آئمہ معصومین علیہم السلام کا مبارک کلام ایک سعادت مند اور درست زندگی گزارنے کے لیے نمونہ عمل اور تاریکی میں روشنی کی مانند ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں ایک معتدل، درست اور کامیاب زندگی گزاریں تو ہمیں چاہیے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں اور اپنی زندگی کو ان کی تعلیمات کے مطابق گزاریں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ان تعلیمات کو نافذ کریں۔
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #زندگی_کے_لیے_نمونہ_عمل #امام_محمد_باقر_علیہ_السلام #تین_چیزیں #انصاف #مواسات #ذکر #گناہ_کی_اقسام
More...
Description:
آئمہ معصومین علیہم السلام کا مبارک کلام ایک سعادت مند اور درست زندگی گزارنے کے لیے نمونہ عمل اور تاریکی میں روشنی کی مانند ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں ایک معتدل، درست اور کامیاب زندگی گزاریں تو ہمیں چاہیے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں اور اپنی زندگی کو ان کی تعلیمات کے مطابق گزاریں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ان تعلیمات کو نافذ کریں۔
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #زندگی_کے_لیے_نمونہ_عمل #امام_محمد_باقر_علیہ_السلام #تین_چیزیں #انصاف #مواسات #ذکر #گناہ_کی_اقسام
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
zindagi,
imam,
imam
mohammad
baqer,
imam
khamenei,
masoomin,
ensaf,
zekr,
gonah,
islam,
rosheni,
kamyab,
gonah
ke
aqsam,
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح...
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
More...
Description:
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
Address to YOUTH by H.I. Raja Nasir Abbas - 12 Nov 11 - Urdu
نوجوان قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں انکی کردار سازی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، علامہ ناصر عباس
مجلس وحدت...
نوجوان قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں انکی کردار سازی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، علامہ ناصر عباس
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نوجوان قوم کے روشن اور تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں اس لیے ان کی کردار سازی اور تربیت پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ، جوانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جوانی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزاریں ، شیطانی ہتھکنڈوں بچیں اور خود کو پاک دامن، شب زندہ دار اور قاری قران بنائیں، انہوں نے ان خیالات کا اظہار چنیوٹ میں
ایم ڈبلیو ایم شعبہ جوان کے زیر اہتمام منعقدہ لبیک یا حسین کانفرنس میں خطاب کے دوران کیا ، کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری علامہ محمد امین شہیدی، مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبودبرادرنثار فیضی،ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی اور ڈپٹی سیکرٹری علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے ، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عصر حاضر میں سرزمین وطن پر مغربی تہذیب کی یلغار اسلامی معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہے، ان حالات میں شبہہ رسول شہزادہ علی اکبر کی سیرت و کردار نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوان با بصیرت ہیں کیونکہ ان کے سامنے سب سے بہترین نمونہ عمل کربلا میں حضرت علی اکبر ، حضرت عباس اور حضرت قاسم کا کردار ہے ، ہمارے نوجوانوں کو ان کے پاکیزہ کردار کا عملی نمونہ نظر آنا چاہیے ، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ نوجوانوں کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اس لیے نوجوانوں کی کردار سازی اور تربیت کے بغیر معاشرے کی تطہیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اگر نوجوان خلوص نیت کے ساتھ میدان میں اتریں تو قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں ، ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں بہت پوٹیشل ہے وہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں اور پورے جوش و خروش کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کرنے کا عزم رکھتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان انبیاء کی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہوئے ہے اور اس الٰہی جماعت میں نوجوانوں کو وہی حیثیت حاصل ہے جو روح کو جسم میں حاصل ہوتی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ آج مکتب تشیع اور ملت اسلامیہ کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے اور نوجواں طبقہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ، انہوں نے کہا امام خمینی کی پوری زمدگی اتحاد بین المسلمین اور وحدت امت کا عملی نمونہ تھی اور ان کی اس جدو جہد میں بھی نوجوانوں نے مرکزی کردار ادا کیا ۔
More...
Description:
نوجوان قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں انکی کردار سازی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، علامہ ناصر عباس
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نوجوان قوم کے روشن اور تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں اس لیے ان کی کردار سازی اور تربیت پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ، جوانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جوانی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزاریں ، شیطانی ہتھکنڈوں بچیں اور خود کو پاک دامن، شب زندہ دار اور قاری قران بنائیں، انہوں نے ان خیالات کا اظہار چنیوٹ میں
ایم ڈبلیو ایم شعبہ جوان کے زیر اہتمام منعقدہ لبیک یا حسین کانفرنس میں خطاب کے دوران کیا ، کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری علامہ محمد امین شہیدی، مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبودبرادرنثار فیضی،ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی اور ڈپٹی سیکرٹری علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے ، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عصر حاضر میں سرزمین وطن پر مغربی تہذیب کی یلغار اسلامی معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہے، ان حالات میں شبہہ رسول شہزادہ علی اکبر کی سیرت و کردار نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوان با بصیرت ہیں کیونکہ ان کے سامنے سب سے بہترین نمونہ عمل کربلا میں حضرت علی اکبر ، حضرت عباس اور حضرت قاسم کا کردار ہے ، ہمارے نوجوانوں کو ان کے پاکیزہ کردار کا عملی نمونہ نظر آنا چاہیے ، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ نوجوانوں کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اس لیے نوجوانوں کی کردار سازی اور تربیت کے بغیر معاشرے کی تطہیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اگر نوجوان خلوص نیت کے ساتھ میدان میں اتریں تو قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں ، ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں بہت پوٹیشل ہے وہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں اور پورے جوش و خروش کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کرنے کا عزم رکھتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان انبیاء کی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہوئے ہے اور اس الٰہی جماعت میں نوجوانوں کو وہی حیثیت حاصل ہے جو روح کو جسم میں حاصل ہوتی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ آج مکتب تشیع اور ملت اسلامیہ کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے اور نوجواں طبقہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ، انہوں نے کہا امام خمینی کی پوری زمدگی اتحاد بین المسلمین اور وحدت امت کا عملی نمونہ تھی اور ان کی اس جدو جہد میں بھی نوجوانوں نے مرکزی کردار ادا کیا ۔
44:15
|
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و بیداری اسلامی Farsi
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
More...
Description:
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405