2:46
|
[Clip] Islamic Studies Motion Graphics Series | Topic Aytekaaf - Urdu
[Clip] Islamic Studies Motion Graphics Series | Topic Aytekaaf - Urdu
موضوع : اعتکاف
اللہ تعالی کی میزبانی میں مہمانی کا ایک موقعہ
ادارہ...
[Clip] Islamic Studies Motion Graphics Series | Topic Aytekaaf - Urdu
موضوع : اعتکاف
اللہ تعالی کی میزبانی میں مہمانی کا ایک موقعہ
ادارہ البلاغ پاکستان کی فخریہ پیشکش
More...
Description:
[Clip] Islamic Studies Motion Graphics Series | Topic Aytekaaf - Urdu
موضوع : اعتکاف
اللہ تعالی کی میزبانی میں مہمانی کا ایک موقعہ
ادارہ البلاغ پاکستان کی فخریہ پیشکش
3:21
|
زيارة العلماء ومسؤولي الجمهورية الإسلامية للإمام الخامنئي - Arabic
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه...
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وايضا في الشبكات التواصل الإجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
More...
Description:
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وايضا في الشبكات التواصل الإجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
1:21
|
الدليل على رأي السيد الخوئي بأن التطبير ليس من الشعائر الحسينية
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه...
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وايضا في الشبكات التواصل الإجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
More...
Description:
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وايضا في الشبكات التواصل الإجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
[URDU] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن...
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
More...
Description:
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
72:21
|
[ARABIC] 7 FEB 2012 كلمة السيد حسن نصر الله Sayyed Hasan Nasrallah
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف...
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف واسبوع الوحدة الاسلامية في مجمع سيد الشهداء في الضاحية الجنوبية بالترحيب والمباركة للجميع ومن ثم تحدث عن معجزة النبي محمد(ص) وكيف صنع أمة، ومن بعدها تحدث سماحته عن موضوع الوحدة الإسلامية وما تواجهه، واشار إلى موضوع التحريض في ما يسمى المدّ الشيعي ومن ثم إنتقل للحديث عن موضوع الدعم الإيراني لحزب الله ، معتبرا أنه يتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل اشكاله وبدون أملاءات ،كما تطرق سماحته إلى موضوع إتهام الحزب بغسيل الأموال وقال إننا لا نغسل أموالا ولا نغطي ولا نسامح في هذا الموضوع.
وفي الموضوع السوري إعتبر السيد نصر الله أن هناك الكثير من التهويل، مشيرا إلى ان النظام القائم في سورية لديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي لافتا إلى وجود قرار غربي عربي لإسقاط النظام والمطلوب هو رأس المقاومة، ورأى سماحته ان طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر، ومن بعدها تطرق سماحته الى موضوع الحكومة اللبنانية معتبرا انه ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان .
بداية تحدث السيد نصر الله عن "معجزة النبي الكبرى والتي استطاع بها أن يصنع هذه الأمة وأن يوجد هذا التحول وهذه المعجزة التي يمكن اللجوء إليها واللوذ بها والاستعانة بها لايقاظ أمة من جديد لاستنهاض الأمة وقيام الأمة من جديد لاحداث ذلك التحول الفكري والايماني والعقائدي والاجتماعي والروحي والمعنوي والتربوي والثقافي من جديد هو كتاب الله سبحانه وتعالى وهو القرآن الكريم هذا القرآن المعجزة الخالدة ببلاغته ومضمونه وهو الذي نزل على قلب نبي أمي في مجتمع أمي ومعجزة هذا القرآن أيضاً لجهة استمراره في التحدي طوال كل هذه القرون".
واضاف سماحته أن" الرسول استطاع أن يصنع أمة عظيمة وحضارة كبرى ولكن من أي شيء وهو الذي انطلق وقام وبعث في جزيرة العرب شبه الجزيرة العربية من شعب كان يسوده الجهل والأمية والجاهلية والخرافات وعبادة الأوثان والأصنام والتمزق والعصبيات القبلية والعشائرية والعائلية والاقتتال وغياب أي جامع مركزي من دين أو قضية أو قيادة أو مشروع أو ثقافة".
وتابع سماحته أنه" ومن الواقع السيء المنحط فكريا ودينيا وأخلاقيا وإنسانيا إلى الحد الذي كان يئد فيه الأب ابنته فقط لأنها أنثى استطاع النبي أن يصنع أمة وهذه هي المعجزة أمة مؤمنة أمة أخلاق أمة قيم أمة حضارة أمة استطاعت أيضاً أن تدخل التاريخ من بابه الواسع وخلال عقود قليلة أمة كان لها ولا زال تاريخها وحضورها وتأثيرها في العالم".
وأشار السيد نصر الله إلى أننا"بعد 1400 سنة يصل إلى أجيالنا الحاضرة القرآن مصونا مصانا محفوظا من أي زيادة أو نقصان أو تحريف أو تزوير أليست هذه معجزة الهية واضحة للعيان".
واعتبر سماحته أن"أساس هذا القرآن وهذا الدين الذي جاء به محمد يا اخواني وأخواتي هو الدعوة إلى التوحيد وإلى الوحدة إلى توحيد الخالق وإلى الوحدة بين بين الناس بين عباد الخالق الواحد الذين يجمعهم أنهم خلق الله سبحانه وتعالى فالناس صنفان إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق هذا هو خطاب ديننا والتزامنا".
ومن ثم بدأ سماحته بالعنوان الأول وهو الوحدة الاسلامية واعتبر أنه يجب التنبه والتثبت من المعلومات والحقائق في زمن كثرت فيه المحن ".
وأضاف سماحته " لا يجوز أن نبني على كل ما يقال في وسائل الاعلام ونحن نشهد خصوصاً في السنوات الأخيرة مرحلة عجيبة غريبة قد لا يكون لها مثيل أو نظير في التاريخ يعني ينسبون لجهات مواقف أصلا لم تصدر عنها ثم يبنى عليها مواقف وتحليلات وعداوات وحروب يخترع ويختلق أحداث ووقائع ويطلب اتخاذ مواقف على أساس أحداث لم تحدث ووقائع لم تقع إنما فبركت وزورت ووضعت وهذا يجري الآن في كل ساعة وفي كل دقيقة وإذا كان الانسان يريد أن ينفي فقط لا يعمل شيئا سوى إصدار بيانات النفي".
ولفت سماحته إلى أنه يجب على الانسان أن يعرف كيف يبني موقفا ويجب أن يتأكد من المعلومات والوقائع دون الوقوع في جو الأكاذيب والشائعات التي يستخدم لها اليوم أقوى وأهم مؤسسات رأي عام في العالم ".
واعتبر السيد نصر الله أنه عندما نتحدث عن موضوع الوحدة الاسلامية طبعا هذا مشروع عمل له الكثيرون خلال مئات السنين وحتى قبل انتصار الثورة الاسلامية في إيران وقبل الامام الخميني(قدس) لكن مما لا شك فيه أن انتصار هذه الثورة بقيادة الامام سنة 1979 وقيام دولة بأهمية وسعة وقوة الجمهورية الاسلامية وتبني قيادة هذه الجمهورية لهذا الهدف لهذا المشروع لهذا الشعار وعملت له طوال سنين على المستوى المؤسساتي والاعلامي والفكري أعطى دفعا خاصا لفكرة ومشروع الوحدة الاسلامية".
وأوضح سماحته أنه" لم يكن يوما المقصود ان يتم تذويب المذاهب الاسلامية في مذهب واحد أو أن يصبح المسلمون جميعا أتباع مذهب واحد على الاطلاق".
التحريض في موضوع ما يسمى المد الشيعي
وفي موضوع ما يسمى حركة التشيع والمد الشيعي في المنطقة قال سماحته إنه"لم يكن مطروحا أبدا أن يصبح الشيعة سنة أو يصبح السنة شيعة وهذا مجرد اوهام للتحريض". وأضاف أنه"على المسلمين أن يقتربوا من بعض أن يتعارفوا أن يتحادثوا أن يبحثوا عن مصالحهم الكبرى كأمة وأن يتحابوا ويتعاونوا لخدمة هذه الأهداف والمصالح الكبرى وليس مطلوبا أكثر من ذلك لا أن يتنازل أحد لأحد على مستوى التفاصيل العقائدية ولا على مستوى الفروع الفقهية".
وأضاف سماحته"بطبيعة الحال المستكبرون والمستعمرون والمحتلون ليس لهم مصلحة في أن تجتمع كلمة هذه الأمة وتتعاون على قاعدة فرق تسد ولذلك لن يسمحوا بذلك لأن سيطرة هذه القوى الكبرى على النفط والغاز والمقدسات".
وأشار السيد إلى انه"المسألة بالنسبة لأميركا ليست مذهب الحاكم ولا دينه إنما موقعه السياسي وأداؤه السياسي وولاؤه السياسي ".
وأضاف سماحته" ذنب إيران أنها أسقطت الشاه وأعادت التوازن للأمة بعد خروج مصر في كامب دايفيد واستمرت الحرب على إيران 8 سنوات وكانت مدعومة أميركياً وغربياً وللاسف الشديد أغلب الدول العربية دعمتها وبعض الدول العربية الغنية أنفقت مليارات الدولارات على هذه الحرب هذه المليارات الممنوعة والمحجوبة عن فلسطين وهذه الأموال المحجوبة عن فصائل المقاومة الفلسطينية التي تريد بحق أن تستعيد أرضها ومقدسات الأمة ولكنها أنفقت لتمويل الحرب على دولة إسلامية فتية رفعت شعار فلسطين والزحف نحو القدس وكان لهذه الحرب الأثر الكبير على مشروع الوحدة في الأمة وكان هناك تداعيات خطيرة".
وتابع سماحته"بعد فشل الحرب وذهاب أماني إسقاط نظام الجمهورية الاسلامية في إيران أدراج الرياح بدأ البحث عن طريقة أخرى للحؤول دون تلاقي المسلمين في هذه الأمة وكل شعوب أمتنا تريد الكرامة والعزة والاستقلال،و بعد الحرب ذهبوا لموضوع الفتنة المذهبية واختراع ما أسموه المد الايراني والمد الشيعي وهذا الآن هو مادة الحرب الناعمة التي تستخدمها اميركا والغرب في مواجهة الأمة".
وأضاف"التهمة هي أن إيران تقوم بانشاء مد شيعي في العالم الاسلامي وأنها تريد أن تشيّع السنّة في العالم الاسلامي أي أن إيران تريد تشييع مليار ونصف مسلم بالحد الأدنى ولذلك يتم الحديث عن خطر داهم اسمه المد الشيعي وهذا عمل الشياطين لا يستند إلى أي وقائع أو حقائق".
وأوضح سماحته أنه في الموضوع الديني لا أساس للمد الشيعي من الصحة ولكن نعم هناك من يروج له وأنا سأقول بعض التفاصيل مثلا في مصر التقيت مع شخصيات كبيرة وقد صدقت ان هناك حركة مد كبيرة وان ايران تقودها وان التشيع وصل لحد 5 مليون".
وتابع سماحته"أنا شخص منفتح وأعرف كبار العلماء والشخصيات من السنة في سورية وألتقي بهم وهذا شرف لي ولكن بعضهم فعلا أجرى معي نقاشا تفصيليا وقال إن هناك حركة تشييع كبرى في سورية وان نظام الرئيس الاسد متهم بدعم هذه الحركة وحتى الآن تشيع في سورية 6 مليون وبالفعل مستشار أحد الملوك العرب فاتحني بهذا الموضوع وقال لي إن تقارير قدمت لبعض الملوك حول ذلك الأمر".
واضاف" ذهبت إلى الشام في ذلك الحين والتقيت مع المسؤولين وحتى مع جهات أمنية وطلبت القيام بدراسة للعثور على هؤلاء الملايين الستة ولكن لا شيء حصل ولم نر ولا حتى 1000 ولا 500 هناك حالات فردية تحصل أينما كان حيث هناك شباب سنّة تشيعوا والعكس صحيح أيضاً لكن لا شيء اسمه مد شيعي ومد سني على الإطلاق".
وأردف سماحته بالقول"هناك قيادات دينية كبيرة مقتنعة بهذا الكلام إلى حد أن إحدى المرجعيات الدينية الكبرى في العالم الاسلامية قدم لها تقرير وصدقت مضمونه وأنه لقد تشيع خلال 33 سنة من انتصار الثورة الى اليوم تشيع 50 مليون سني وهذا شيء مضحك بالفعل".
وتابع سماحته"أقول لكم اليوم في ذكرى ولادة رسول الله محمد (ص) نحن مسلمون شيعة لعلي بن أبي طالب (ع) أتباع مذهب الامام جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام نحن نؤمن بأنّ أتباع المذاهب الاسلامية الأخرى كلها هم مسلمون لنا ما لهم وعلينا ما عليهم وكل مسلم يملك الحرية الكاملة في أن يتبع المذهب الذي يريد ونحن كما قال الامام الخامنئي(قدس) ليس لدى أحد منا مشروع الدعوة إلى التشيع وتحويل أي سني إلى شيعي و بكل وضوح هذا ليس برنامجنا ولا هدفنا ".
وتمنى سماحته أن"نصل بهذه النقطة إلى مكان حاسم وأن لا يسمح أي منا خصوصاً في وسط إخواننا أهل السنة لأحد أن يزرع كذبا أو فتنة من هذا النوع وكنت أقول للجهات الفلسطينية ولاخواننا في معسكرات التدريب أن التدريب هو عسكري أما الثقافة فتعود لهم وللجهة التي ينتمون إليها ونرفض فتح أي باب لأي شبهة من هذا النوع".
واعتبر سماحته أنه"نحن كحركة إسلامية في لبنان عندما نتحدث عن تعاون وطني بين المسلمين والمسيحيين وعن ضرورة بناء دولة وطنية في لبنان يشارك فيها الجميع يتمثل فيها الجميع تخدم مصالح الجميع تحمي الجميع نحن لا نتكلم سياسة بل ننطلق من أصولنا الدينية العقائدية الفقهية وهذا ليس تكتيكا سياسياً".
وأضاف سماحته"كل علمائنا من السيد موسى الصدر والسيد محمد حسين فضل الله والسيد محمد مهدي شمس الدين ومراجعنا اليوم يتفقون على ذلك ونحن في حزب الله لا يمكن ان نشارك في الانتخابات النيابية او الحكومة اذا لم يكن هناك مسوغ ديني أو شرعي وهذا موقف فقهي نحن معنيون به وبالتالي انتماؤنا الديني لا يمكن أن يشكل حائلا دون أن نبني دولة سويا وان يكون مجتمعنا متعاونا".
التحريض على مواقف سابقة
وأشار سماحته إلى انه "بعض الناس من أجل التحريض ينطلقون من مواقف أخذت في الـ82 والـ83 أننا نريد إقامة جمهورية إسلامية وهذا صحيح لقد خطبنا بذلك في بداية الثمانينات لكن أريد أن أذكر القيادات المسيحية اليوم التي تتحدث بالتعايش والسلم الأهلي كيف كانوا يتحدثون يومها بالوطن المسيحي والتقسيم والفدرالية!؟".
وأضاف "حزب الله منذ أكثر من 20 سنة خطابه السياسي واضحاً وهذه قناعاتنا التي نشخصها ونرى أنها مصلحة شعبنا في لبنان من كل الطوائف".
نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله من إيران
وتابع سماحته "على خلفية كلام السيد القائد يوم الجمعة والذي قال فيه بصراحة إن الجمهورية الاسلامية تقدم الدعم لحركات المقاومة في لبنان وفلسطين ولا تريد شيئا مقابل هذا الدعم وإنما تؤدي واجبا شرعيا بهذا الوضوح أستطيع أن أقول من أعلى سلطة في الجمهورية الاسلامية لاول مرة يصدر بهذا الوضوح الشديد وأنا سأبني عليه لمعالجة العديد من المسائل المطروحة ".
وقال سماحته"نعم نحن في حزب الله نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله الممكنة والمتاحة من الجمهورية الاسلامية في إيران منذ عام 1982" .
وأردف قائلا "هذا الدعم الذي قدم منذ البداية هو مفخرة الجمهورية الاسلامية في إيران لأن هذه المقاومة في لبنان التي حققت أكبر وأهم وأوضح انتصار عربي على إسرائيل في 25 أيار 2000 ما كان هذا الانتصار ليتحقق لولا هذا الدعم المعنوي والمادي والمادي الايراني لحركة المقاومة في لبنان هذا الانتصار الذي تحقق بلا قيد ولا شرط تحقق بدعم إيراني وطبعا كان لسورية دور كبير لكن أتحدث الآن عن إيران".
وتابع سماحته"إن حركة المقاومة التي صمدت وانتصرت في حرب تموز ما كانت لتصمد وتنتصر أيضاً لولا هذا الدعم الايراني وحركة المقاومة في فلسطين هي المعنية تتحدث عن نفسها وسواء تحدثت ام لم تتحدث فهذا شأنها".
ووجه السيد نصر الله الشكر للمسؤولين في إيران الذين يدفعون أثمانا باهظة لوقوفهم إلى جانب فلسطين ولبنان واذا باعت ايران فلسطين اليوم كل شيء يحل فمشكلة أميركا ليست الديمقراطية بل النفط وإسرائيل".
نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح
وأشار سماحته إلى أنه"من آثار هذا الكلام أن أوضح أيضا في الموضوع المالي والمادي ففي كل مدة يطلون عبر وسائل الاعلام ليتحدثوا عن شبكات المخدرات في أميركا وأوروبا وأفريقيا وأن حزب الله يدير هذه الشبكات وهي التي تمول أنشطته وكنا دائما ننفي هذا الموضوع وأنا أضيف أن تجارة المخدرات بالنسبة إلينا حرام وأيضاً أغنانا الله بدولته الاسلامية في إيران عن أي فلس في العالم حلال أو حرام".
وأضاف سماحته "نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح ولا نقبل بهذا الأمر وبعض ما هو حلال ومباح من الناحية الفقهية لا نقوم به كالتجارة فنحن في حزب الله ليس لدينا أي مشروع تجاري اليوم لا في الداخل ولا في الخارج وقد ألغينا وصفّينا مشاريعنا التجارية التي نفذناها في الفترة السابقة".
وأوضح سماحته أنه" نحن في قيادة حزب الله نؤمن أن أي حركة جهادية أو حزب سياسي تقوم بالتجارة إذا اضطرت ولكن من نتائج ذلك الفساد والافساد ولذلك لدينا مشكلة مع هذا الموضوع وحتى موضوع التبرعات أنا أقول أنني لا أقبل أن يدق أحد أبواب العالم لدينا من المال والسلاح والعتاد ما يكفي للقيام بواجبنا لكن تركنا هيئة دعم المقاومة الاسلامية لاجل من يريد أن يشارك خصوصا أن هناك ما يسمى الجهاد بالمال".
لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم
وأضاف سماحته "نحن قادرون على القيام بمشروعنا المقاوم دفاعا عن لبنان ولسنا بحاجة لأي مشروع حلال أو حرام ".
وتابع" منذ الـ82 الى اليوم لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم كما يزعم البعض وقد ذكرت سابقا هذا الموضوع على طاولة الحوار حين كانت برئاسة دولة الرئيس الاستاذ نبيه بري وطلبت ان ياتوا لي بمثل واحد لعمل قام به حزب الله لخدمة مصالح الجمهورية الاسلامية ولم يستطع أحد أن يأتي بمثل واحد وبعد نصف ساعة تذكر واحد موضوع الرهائن وهو موضوع كان له علاقة بمعتقلين لبنانيين لا علاقة له بايران ومصالح ايران".
واعتبر السيد أنه"حتى في ما يتعلق بالتطورات الآتية في المنطقة وهناك تحليل ان اسرائيل اذا قامت بقصف المنشآت النووية الايرانية ماذا يمكن ان يحصل وأنا أقول لكم في ذلك اليوم الذي أستبعده أقول لكم القيادة الايرانية لن تطلب شيئا من حزب الله ولم ترغب بشيء لكن اقول في ذلك اليوم نحن الذين علينا أن نجلس ونفكر ونقرر ماذا نفعل".
واكد سماحته أنه"على كل أبناء المقاومة مجاهدي المقاومة جمهورية المقاومة ان يواجهوا هذه الجمهورية وهذا النظام بالشكر والتقدير والاحترام على هذا الموقف وهذا الدعم".
هناك الكثير من التهويل في الموضوع السوري
وبلغة الدقة والوضوح انتقل السيد نصر لله الى الموضوع السوري حيث قال إن" هناك الكثير من التهويل على هذا الصعيد علينا وعلى غيرنا وأنا أقول لا كثرة التهويل ولا قلة التهويل يمكن أن تنال من موقفنا المبني على رؤية ومن يريد أن يعمل على قلبنا وأعصابنا فهو يراهن على سراب في أي موضوع من الموضوعات وقلبنا في ما نراه حق لا يمكن أن يهزه شيء حتى لو وقف العالم كله في وجهنا ".
ورجع السيد للملاحظة التي قالها في البداية عن التدقيق بالمعطيات وقال" قبل مدة خرجت بعض الفضائيات العربية بخبر عاجل عن جهة معارضة سورية أن حزب الله قصف الزبداني بالكاتيوشا باعتبار أن هناك شخص يأكل (ساندويش) وهو مخبأ وتمر القصة وفي ذلك الوقت لم يكن هناك شيء نهائيا وفي اليوم التالي حزب الله يهاجم الزبداني وتتصدى له الجماعات المسلحة وأن جثث قتلى حزب الله تملأ الطرقات ولم يدلنا أحد على هذه الجثث وهذا مثل عن مقاربة الاعلام للموضوع السوري".
وأضاف " يوم اجتماع مجلس الأمن بدأوا بالحديث عن أن حمص (ولعانة) وهذا يجعل أي شخص ينقز ونحن لدينا موقف سياسي واضح لكن أمام هذا المشهد لا يمكن لأحد إلا أن يتأثر وبعد التدقيق تبين أن لا شيء في حمص وتوقيت الخبر وهذا الضخ قبيل جلسة مجلس الأمن ليس مبنيا على وقائع بل تسخير للاعلام في إطار معركة تريد تحقيق هدفها بالحلال والحرام وبأي شكل من الأشكال ".
النظام قائم في سورية ولديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي
واعتبر سماحته أن "هناك نظام ما زال قائما لديه دستور والجيش مع هذا النظام وحتى الآن بحسب معلوماتنا لا يزال واقفا مع هذا النظام وهناك شريحة كبيرة من الناس تعبر عن تأييدها للنظام وتتظاهر في الشوارع وبالتالي فافتراض أن هذا النظام معزول شعبيا غير صحيح".
وتطرق سماحته إلى ما كتبته بعض الصحف اللبنانية أن هؤلاء الذين احتشدوا في ساحة الأمويون عشرات الآلاف أتى بهم حزب فاعل في الأكثرية أي حزب الله لكن نسأل هناك عشرات الآلاف ذهبوا عن طريق المصنع ولم يشعر بهم أحد إلا جريدة لبنانية معيّنة ؟!
وتابع "هناك جزء من الشعب السوري ما يزال مع النظام وهناك في المقابل معارضة بعضها سياسي وبعضها شعبي وبعضها مسلح وإن باتت تطغى الصبغة المسلحة وهناك مواجهات مسلحة في عدد من المناطق السورية وهذا أمر مسلح وهناك أيضا جزء كبير من سورية ينعم باستقرار".
هناك قرار غربي عربي على إسقاط النظام في سورية
وأضاف سماحته"خارج سورية هناك قرار أميركي إسرائيلي غربي عربي على مستوى دول الاعتدال العربي باسقاط النظام في سورية وهذا لا نقاش فيه وقد رأيناه بأم العين وقبل أسابيع قام موظف اسرائيلي بتحليل شخصي يظهر منه أنه يدافع عن نظام الأسد فلم يبقى أحد في 14 آذار إلا وتحدث عن الموضوع ولكن اليوم هناك شبه اجماع اسرائيلي على وجوب اسقاط نظام الاسد اين 14 آذار لماذا بلعوا لساناتهم هل لأن المشهد تغير؟".
وتابع سماحته "المطلوب اسقاط النظام للاتيان بنظام بديل وبعض الاصدقاء المشتركين قالوا لنا ان لا نقلق وان النظام الجديد سيدعم المقاومة وهذا قيل ويقال في الكواليس لكننا لا نورّط نفسنا بهذا الموقف بل نحن منسجمون مع أنفسنا".
المطلوب في سورية هو رأس المقاومة
واعتبر سماحته أن" المطلوب في سورية هو رأس المقاومة في لبنان وفلسطين ورأس القضية الفلسطينية ورأس الشعب الفلسطيني وهذه هي الحقيقة".
وأشار السيد نصر الله إلى ان" القيادة السورية موافقة على معظم الاصلاحات التي طلبت والقيادة جاهزة للحوار والآن يقولون فات الأوان، كيف فات الأوان وهناك حرب في سورية وهناك من يدفع سورية لحرب أهلية؟ الآن الجماعات المسلحة تقتل من أبناء الطوائف وقتلت من السنّة السوريين أكثر مما قتلت من الطوائف الأخرى وغير صحيح أن الحرب في سورية طائفية وإن كانوا يدفعون نحو حرب أهلية، من يحرص على سورية لا يقول فات الأوان بل يذهب إلى الحوار دون شروط لا بشرط تنحي الرئيس".
طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر
وسأل السيد نصر الله "هل إقفال الباب حرص على الشعب السوري وعلى قيادة سوريا وهل يخدم القضية الفلسطينية؟ هذا السلوك من يخدم؟ أنا أقول ما أقول الآن لله عز وجل وهذه وقائع ومعطيات بمعزل عن التفاصيل التي لا يجب أن نغرق فيها لكي لا نذهب للمزيد من القتل وسفك الدماء، طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سوريا والرهان على أميركا هو رهان خاسر بطبيعة الحال وهذا هو موقفنا ونرى فيه مصلحة سورية وشعب سورية ومصلحة لبنان وشعب لبنان وفلسطين وشعب فلسطين بمعزل عن الاحقاد الشخصية أو الفئوية التي ينطلق منها بعض الناس".
الحركات الإسلامية امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة
وفي موضوع الحركات الإسلامية التي فازت في الانتخابات في المنطقة العربية إعتبر سماحته أنها امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة وهي مستهدَفة لان الاميركيين يسعون لجعلها تفشل وهذا يحتاج لكلام كثير لكن بعض القيادات الاسلامية اليوم وأنا أعرفهم جيدا وهم أصدقائي الآن ونظرا للظروف السياسية في بلدانهم لا يأخذون مواقف واضحة في القضية القومية وفي الموضوع الاسرائيلي بل أحيانا قد تصدر عنهم مواقف ملتبسة وعندما نراجع ونناقش يقال لنا انه يجب تفهم تلك الظروف".
حريصون على إستمرار الحكومة
وفي موضوع الحكومة اللبنانية قال سماحته "نحن حريصون على استمرار الحكومة وليس مطلوبا وساطة فمعالجة الازمة مسؤولية الجميع واقول لمن بدأوا يجهزوا "جاكيتاتهم وكرافاتاتهم" للحكومة الجديدة لا حكومة جديدة وهذه الحكومة ستستمر علما أنها ليست حكومة حزب الله".
وأضاف " هذه الحكومة بمعزل عن توصيفها حتى الآن هي أساس استقرار في البلد ويجب أن نجهد لتنجز شيئا والوقت الآن ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان وعلينا بتعاوننا واخلاصنا وانفتاحنا ان نتجاوز هذه المرحلة الصعبة ان شاء الله".
المصدر: قناة المنار
07-02-2012 - 12:47 آخر تحديث 07-02-2012 - 23:48 | 14106 قراءة
More...
Description:
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف واسبوع الوحدة الاسلامية في مجمع سيد الشهداء في الضاحية الجنوبية بالترحيب والمباركة للجميع ومن ثم تحدث عن معجزة النبي محمد(ص) وكيف صنع أمة، ومن بعدها تحدث سماحته عن موضوع الوحدة الإسلامية وما تواجهه، واشار إلى موضوع التحريض في ما يسمى المدّ الشيعي ومن ثم إنتقل للحديث عن موضوع الدعم الإيراني لحزب الله ، معتبرا أنه يتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل اشكاله وبدون أملاءات ،كما تطرق سماحته إلى موضوع إتهام الحزب بغسيل الأموال وقال إننا لا نغسل أموالا ولا نغطي ولا نسامح في هذا الموضوع.
وفي الموضوع السوري إعتبر السيد نصر الله أن هناك الكثير من التهويل، مشيرا إلى ان النظام القائم في سورية لديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي لافتا إلى وجود قرار غربي عربي لإسقاط النظام والمطلوب هو رأس المقاومة، ورأى سماحته ان طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر، ومن بعدها تطرق سماحته الى موضوع الحكومة اللبنانية معتبرا انه ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان .
بداية تحدث السيد نصر الله عن "معجزة النبي الكبرى والتي استطاع بها أن يصنع هذه الأمة وأن يوجد هذا التحول وهذه المعجزة التي يمكن اللجوء إليها واللوذ بها والاستعانة بها لايقاظ أمة من جديد لاستنهاض الأمة وقيام الأمة من جديد لاحداث ذلك التحول الفكري والايماني والعقائدي والاجتماعي والروحي والمعنوي والتربوي والثقافي من جديد هو كتاب الله سبحانه وتعالى وهو القرآن الكريم هذا القرآن المعجزة الخالدة ببلاغته ومضمونه وهو الذي نزل على قلب نبي أمي في مجتمع أمي ومعجزة هذا القرآن أيضاً لجهة استمراره في التحدي طوال كل هذه القرون".
واضاف سماحته أن" الرسول استطاع أن يصنع أمة عظيمة وحضارة كبرى ولكن من أي شيء وهو الذي انطلق وقام وبعث في جزيرة العرب شبه الجزيرة العربية من شعب كان يسوده الجهل والأمية والجاهلية والخرافات وعبادة الأوثان والأصنام والتمزق والعصبيات القبلية والعشائرية والعائلية والاقتتال وغياب أي جامع مركزي من دين أو قضية أو قيادة أو مشروع أو ثقافة".
وتابع سماحته أنه" ومن الواقع السيء المنحط فكريا ودينيا وأخلاقيا وإنسانيا إلى الحد الذي كان يئد فيه الأب ابنته فقط لأنها أنثى استطاع النبي أن يصنع أمة وهذه هي المعجزة أمة مؤمنة أمة أخلاق أمة قيم أمة حضارة أمة استطاعت أيضاً أن تدخل التاريخ من بابه الواسع وخلال عقود قليلة أمة كان لها ولا زال تاريخها وحضورها وتأثيرها في العالم".
وأشار السيد نصر الله إلى أننا"بعد 1400 سنة يصل إلى أجيالنا الحاضرة القرآن مصونا مصانا محفوظا من أي زيادة أو نقصان أو تحريف أو تزوير أليست هذه معجزة الهية واضحة للعيان".
واعتبر سماحته أن"أساس هذا القرآن وهذا الدين الذي جاء به محمد يا اخواني وأخواتي هو الدعوة إلى التوحيد وإلى الوحدة إلى توحيد الخالق وإلى الوحدة بين بين الناس بين عباد الخالق الواحد الذين يجمعهم أنهم خلق الله سبحانه وتعالى فالناس صنفان إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق هذا هو خطاب ديننا والتزامنا".
ومن ثم بدأ سماحته بالعنوان الأول وهو الوحدة الاسلامية واعتبر أنه يجب التنبه والتثبت من المعلومات والحقائق في زمن كثرت فيه المحن ".
وأضاف سماحته " لا يجوز أن نبني على كل ما يقال في وسائل الاعلام ونحن نشهد خصوصاً في السنوات الأخيرة مرحلة عجيبة غريبة قد لا يكون لها مثيل أو نظير في التاريخ يعني ينسبون لجهات مواقف أصلا لم تصدر عنها ثم يبنى عليها مواقف وتحليلات وعداوات وحروب يخترع ويختلق أحداث ووقائع ويطلب اتخاذ مواقف على أساس أحداث لم تحدث ووقائع لم تقع إنما فبركت وزورت ووضعت وهذا يجري الآن في كل ساعة وفي كل دقيقة وإذا كان الانسان يريد أن ينفي فقط لا يعمل شيئا سوى إصدار بيانات النفي".
ولفت سماحته إلى أنه يجب على الانسان أن يعرف كيف يبني موقفا ويجب أن يتأكد من المعلومات والوقائع دون الوقوع في جو الأكاذيب والشائعات التي يستخدم لها اليوم أقوى وأهم مؤسسات رأي عام في العالم ".
واعتبر السيد نصر الله أنه عندما نتحدث عن موضوع الوحدة الاسلامية طبعا هذا مشروع عمل له الكثيرون خلال مئات السنين وحتى قبل انتصار الثورة الاسلامية في إيران وقبل الامام الخميني(قدس) لكن مما لا شك فيه أن انتصار هذه الثورة بقيادة الامام سنة 1979 وقيام دولة بأهمية وسعة وقوة الجمهورية الاسلامية وتبني قيادة هذه الجمهورية لهذا الهدف لهذا المشروع لهذا الشعار وعملت له طوال سنين على المستوى المؤسساتي والاعلامي والفكري أعطى دفعا خاصا لفكرة ومشروع الوحدة الاسلامية".
وأوضح سماحته أنه" لم يكن يوما المقصود ان يتم تذويب المذاهب الاسلامية في مذهب واحد أو أن يصبح المسلمون جميعا أتباع مذهب واحد على الاطلاق".
التحريض في موضوع ما يسمى المد الشيعي
وفي موضوع ما يسمى حركة التشيع والمد الشيعي في المنطقة قال سماحته إنه"لم يكن مطروحا أبدا أن يصبح الشيعة سنة أو يصبح السنة شيعة وهذا مجرد اوهام للتحريض". وأضاف أنه"على المسلمين أن يقتربوا من بعض أن يتعارفوا أن يتحادثوا أن يبحثوا عن مصالحهم الكبرى كأمة وأن يتحابوا ويتعاونوا لخدمة هذه الأهداف والمصالح الكبرى وليس مطلوبا أكثر من ذلك لا أن يتنازل أحد لأحد على مستوى التفاصيل العقائدية ولا على مستوى الفروع الفقهية".
وأضاف سماحته"بطبيعة الحال المستكبرون والمستعمرون والمحتلون ليس لهم مصلحة في أن تجتمع كلمة هذه الأمة وتتعاون على قاعدة فرق تسد ولذلك لن يسمحوا بذلك لأن سيطرة هذه القوى الكبرى على النفط والغاز والمقدسات".
وأشار السيد إلى انه"المسألة بالنسبة لأميركا ليست مذهب الحاكم ولا دينه إنما موقعه السياسي وأداؤه السياسي وولاؤه السياسي ".
وأضاف سماحته" ذنب إيران أنها أسقطت الشاه وأعادت التوازن للأمة بعد خروج مصر في كامب دايفيد واستمرت الحرب على إيران 8 سنوات وكانت مدعومة أميركياً وغربياً وللاسف الشديد أغلب الدول العربية دعمتها وبعض الدول العربية الغنية أنفقت مليارات الدولارات على هذه الحرب هذه المليارات الممنوعة والمحجوبة عن فلسطين وهذه الأموال المحجوبة عن فصائل المقاومة الفلسطينية التي تريد بحق أن تستعيد أرضها ومقدسات الأمة ولكنها أنفقت لتمويل الحرب على دولة إسلامية فتية رفعت شعار فلسطين والزحف نحو القدس وكان لهذه الحرب الأثر الكبير على مشروع الوحدة في الأمة وكان هناك تداعيات خطيرة".
وتابع سماحته"بعد فشل الحرب وذهاب أماني إسقاط نظام الجمهورية الاسلامية في إيران أدراج الرياح بدأ البحث عن طريقة أخرى للحؤول دون تلاقي المسلمين في هذه الأمة وكل شعوب أمتنا تريد الكرامة والعزة والاستقلال،و بعد الحرب ذهبوا لموضوع الفتنة المذهبية واختراع ما أسموه المد الايراني والمد الشيعي وهذا الآن هو مادة الحرب الناعمة التي تستخدمها اميركا والغرب في مواجهة الأمة".
وأضاف"التهمة هي أن إيران تقوم بانشاء مد شيعي في العالم الاسلامي وأنها تريد أن تشيّع السنّة في العالم الاسلامي أي أن إيران تريد تشييع مليار ونصف مسلم بالحد الأدنى ولذلك يتم الحديث عن خطر داهم اسمه المد الشيعي وهذا عمل الشياطين لا يستند إلى أي وقائع أو حقائق".
وأوضح سماحته أنه في الموضوع الديني لا أساس للمد الشيعي من الصحة ولكن نعم هناك من يروج له وأنا سأقول بعض التفاصيل مثلا في مصر التقيت مع شخصيات كبيرة وقد صدقت ان هناك حركة مد كبيرة وان ايران تقودها وان التشيع وصل لحد 5 مليون".
وتابع سماحته"أنا شخص منفتح وأعرف كبار العلماء والشخصيات من السنة في سورية وألتقي بهم وهذا شرف لي ولكن بعضهم فعلا أجرى معي نقاشا تفصيليا وقال إن هناك حركة تشييع كبرى في سورية وان نظام الرئيس الاسد متهم بدعم هذه الحركة وحتى الآن تشيع في سورية 6 مليون وبالفعل مستشار أحد الملوك العرب فاتحني بهذا الموضوع وقال لي إن تقارير قدمت لبعض الملوك حول ذلك الأمر".
واضاف" ذهبت إلى الشام في ذلك الحين والتقيت مع المسؤولين وحتى مع جهات أمنية وطلبت القيام بدراسة للعثور على هؤلاء الملايين الستة ولكن لا شيء حصل ولم نر ولا حتى 1000 ولا 500 هناك حالات فردية تحصل أينما كان حيث هناك شباب سنّة تشيعوا والعكس صحيح أيضاً لكن لا شيء اسمه مد شيعي ومد سني على الإطلاق".
وأردف سماحته بالقول"هناك قيادات دينية كبيرة مقتنعة بهذا الكلام إلى حد أن إحدى المرجعيات الدينية الكبرى في العالم الاسلامية قدم لها تقرير وصدقت مضمونه وأنه لقد تشيع خلال 33 سنة من انتصار الثورة الى اليوم تشيع 50 مليون سني وهذا شيء مضحك بالفعل".
وتابع سماحته"أقول لكم اليوم في ذكرى ولادة رسول الله محمد (ص) نحن مسلمون شيعة لعلي بن أبي طالب (ع) أتباع مذهب الامام جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام نحن نؤمن بأنّ أتباع المذاهب الاسلامية الأخرى كلها هم مسلمون لنا ما لهم وعلينا ما عليهم وكل مسلم يملك الحرية الكاملة في أن يتبع المذهب الذي يريد ونحن كما قال الامام الخامنئي(قدس) ليس لدى أحد منا مشروع الدعوة إلى التشيع وتحويل أي سني إلى شيعي و بكل وضوح هذا ليس برنامجنا ولا هدفنا ".
وتمنى سماحته أن"نصل بهذه النقطة إلى مكان حاسم وأن لا يسمح أي منا خصوصاً في وسط إخواننا أهل السنة لأحد أن يزرع كذبا أو فتنة من هذا النوع وكنت أقول للجهات الفلسطينية ولاخواننا في معسكرات التدريب أن التدريب هو عسكري أما الثقافة فتعود لهم وللجهة التي ينتمون إليها ونرفض فتح أي باب لأي شبهة من هذا النوع".
واعتبر سماحته أنه"نحن كحركة إسلامية في لبنان عندما نتحدث عن تعاون وطني بين المسلمين والمسيحيين وعن ضرورة بناء دولة وطنية في لبنان يشارك فيها الجميع يتمثل فيها الجميع تخدم مصالح الجميع تحمي الجميع نحن لا نتكلم سياسة بل ننطلق من أصولنا الدينية العقائدية الفقهية وهذا ليس تكتيكا سياسياً".
وأضاف سماحته"كل علمائنا من السيد موسى الصدر والسيد محمد حسين فضل الله والسيد محمد مهدي شمس الدين ومراجعنا اليوم يتفقون على ذلك ونحن في حزب الله لا يمكن ان نشارك في الانتخابات النيابية او الحكومة اذا لم يكن هناك مسوغ ديني أو شرعي وهذا موقف فقهي نحن معنيون به وبالتالي انتماؤنا الديني لا يمكن أن يشكل حائلا دون أن نبني دولة سويا وان يكون مجتمعنا متعاونا".
التحريض على مواقف سابقة
وأشار سماحته إلى انه "بعض الناس من أجل التحريض ينطلقون من مواقف أخذت في الـ82 والـ83 أننا نريد إقامة جمهورية إسلامية وهذا صحيح لقد خطبنا بذلك في بداية الثمانينات لكن أريد أن أذكر القيادات المسيحية اليوم التي تتحدث بالتعايش والسلم الأهلي كيف كانوا يتحدثون يومها بالوطن المسيحي والتقسيم والفدرالية!؟".
وأضاف "حزب الله منذ أكثر من 20 سنة خطابه السياسي واضحاً وهذه قناعاتنا التي نشخصها ونرى أنها مصلحة شعبنا في لبنان من كل الطوائف".
نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله من إيران
وتابع سماحته "على خلفية كلام السيد القائد يوم الجمعة والذي قال فيه بصراحة إن الجمهورية الاسلامية تقدم الدعم لحركات المقاومة في لبنان وفلسطين ولا تريد شيئا مقابل هذا الدعم وإنما تؤدي واجبا شرعيا بهذا الوضوح أستطيع أن أقول من أعلى سلطة في الجمهورية الاسلامية لاول مرة يصدر بهذا الوضوح الشديد وأنا سأبني عليه لمعالجة العديد من المسائل المطروحة ".
وقال سماحته"نعم نحن في حزب الله نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله الممكنة والمتاحة من الجمهورية الاسلامية في إيران منذ عام 1982" .
وأردف قائلا "هذا الدعم الذي قدم منذ البداية هو مفخرة الجمهورية الاسلامية في إيران لأن هذه المقاومة في لبنان التي حققت أكبر وأهم وأوضح انتصار عربي على إسرائيل في 25 أيار 2000 ما كان هذا الانتصار ليتحقق لولا هذا الدعم المعنوي والمادي والمادي الايراني لحركة المقاومة في لبنان هذا الانتصار الذي تحقق بلا قيد ولا شرط تحقق بدعم إيراني وطبعا كان لسورية دور كبير لكن أتحدث الآن عن إيران".
وتابع سماحته"إن حركة المقاومة التي صمدت وانتصرت في حرب تموز ما كانت لتصمد وتنتصر أيضاً لولا هذا الدعم الايراني وحركة المقاومة في فلسطين هي المعنية تتحدث عن نفسها وسواء تحدثت ام لم تتحدث فهذا شأنها".
ووجه السيد نصر الله الشكر للمسؤولين في إيران الذين يدفعون أثمانا باهظة لوقوفهم إلى جانب فلسطين ولبنان واذا باعت ايران فلسطين اليوم كل شيء يحل فمشكلة أميركا ليست الديمقراطية بل النفط وإسرائيل".
نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح
وأشار سماحته إلى أنه"من آثار هذا الكلام أن أوضح أيضا في الموضوع المالي والمادي ففي كل مدة يطلون عبر وسائل الاعلام ليتحدثوا عن شبكات المخدرات في أميركا وأوروبا وأفريقيا وأن حزب الله يدير هذه الشبكات وهي التي تمول أنشطته وكنا دائما ننفي هذا الموضوع وأنا أضيف أن تجارة المخدرات بالنسبة إلينا حرام وأيضاً أغنانا الله بدولته الاسلامية في إيران عن أي فلس في العالم حلال أو حرام".
وأضاف سماحته "نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح ولا نقبل بهذا الأمر وبعض ما هو حلال ومباح من الناحية الفقهية لا نقوم به كالتجارة فنحن في حزب الله ليس لدينا أي مشروع تجاري اليوم لا في الداخل ولا في الخارج وقد ألغينا وصفّينا مشاريعنا التجارية التي نفذناها في الفترة السابقة".
وأوضح سماحته أنه" نحن في قيادة حزب الله نؤمن أن أي حركة جهادية أو حزب سياسي تقوم بالتجارة إذا اضطرت ولكن من نتائج ذلك الفساد والافساد ولذلك لدينا مشكلة مع هذا الموضوع وحتى موضوع التبرعات أنا أقول أنني لا أقبل أن يدق أحد أبواب العالم لدينا من المال والسلاح والعتاد ما يكفي للقيام بواجبنا لكن تركنا هيئة دعم المقاومة الاسلامية لاجل من يريد أن يشارك خصوصا أن هناك ما يسمى الجهاد بالمال".
لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم
وأضاف سماحته "نحن قادرون على القيام بمشروعنا المقاوم دفاعا عن لبنان ولسنا بحاجة لأي مشروع حلال أو حرام ".
وتابع" منذ الـ82 الى اليوم لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم كما يزعم البعض وقد ذكرت سابقا هذا الموضوع على طاولة الحوار حين كانت برئاسة دولة الرئيس الاستاذ نبيه بري وطلبت ان ياتوا لي بمثل واحد لعمل قام به حزب الله لخدمة مصالح الجمهورية الاسلامية ولم يستطع أحد أن يأتي بمثل واحد وبعد نصف ساعة تذكر واحد موضوع الرهائن وهو موضوع كان له علاقة بمعتقلين لبنانيين لا علاقة له بايران ومصالح ايران".
واعتبر السيد أنه"حتى في ما يتعلق بالتطورات الآتية في المنطقة وهناك تحليل ان اسرائيل اذا قامت بقصف المنشآت النووية الايرانية ماذا يمكن ان يحصل وأنا أقول لكم في ذلك اليوم الذي أستبعده أقول لكم القيادة الايرانية لن تطلب شيئا من حزب الله ولم ترغب بشيء لكن اقول في ذلك اليوم نحن الذين علينا أن نجلس ونفكر ونقرر ماذا نفعل".
واكد سماحته أنه"على كل أبناء المقاومة مجاهدي المقاومة جمهورية المقاومة ان يواجهوا هذه الجمهورية وهذا النظام بالشكر والتقدير والاحترام على هذا الموقف وهذا الدعم".
هناك الكثير من التهويل في الموضوع السوري
وبلغة الدقة والوضوح انتقل السيد نصر لله الى الموضوع السوري حيث قال إن" هناك الكثير من التهويل على هذا الصعيد علينا وعلى غيرنا وأنا أقول لا كثرة التهويل ولا قلة التهويل يمكن أن تنال من موقفنا المبني على رؤية ومن يريد أن يعمل على قلبنا وأعصابنا فهو يراهن على سراب في أي موضوع من الموضوعات وقلبنا في ما نراه حق لا يمكن أن يهزه شيء حتى لو وقف العالم كله في وجهنا ".
ورجع السيد للملاحظة التي قالها في البداية عن التدقيق بالمعطيات وقال" قبل مدة خرجت بعض الفضائيات العربية بخبر عاجل عن جهة معارضة سورية أن حزب الله قصف الزبداني بالكاتيوشا باعتبار أن هناك شخص يأكل (ساندويش) وهو مخبأ وتمر القصة وفي ذلك الوقت لم يكن هناك شيء نهائيا وفي اليوم التالي حزب الله يهاجم الزبداني وتتصدى له الجماعات المسلحة وأن جثث قتلى حزب الله تملأ الطرقات ولم يدلنا أحد على هذه الجثث وهذا مثل عن مقاربة الاعلام للموضوع السوري".
وأضاف " يوم اجتماع مجلس الأمن بدأوا بالحديث عن أن حمص (ولعانة) وهذا يجعل أي شخص ينقز ونحن لدينا موقف سياسي واضح لكن أمام هذا المشهد لا يمكن لأحد إلا أن يتأثر وبعد التدقيق تبين أن لا شيء في حمص وتوقيت الخبر وهذا الضخ قبيل جلسة مجلس الأمن ليس مبنيا على وقائع بل تسخير للاعلام في إطار معركة تريد تحقيق هدفها بالحلال والحرام وبأي شكل من الأشكال ".
النظام قائم في سورية ولديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي
واعتبر سماحته أن "هناك نظام ما زال قائما لديه دستور والجيش مع هذا النظام وحتى الآن بحسب معلوماتنا لا يزال واقفا مع هذا النظام وهناك شريحة كبيرة من الناس تعبر عن تأييدها للنظام وتتظاهر في الشوارع وبالتالي فافتراض أن هذا النظام معزول شعبيا غير صحيح".
وتطرق سماحته إلى ما كتبته بعض الصحف اللبنانية أن هؤلاء الذين احتشدوا في ساحة الأمويون عشرات الآلاف أتى بهم حزب فاعل في الأكثرية أي حزب الله لكن نسأل هناك عشرات الآلاف ذهبوا عن طريق المصنع ولم يشعر بهم أحد إلا جريدة لبنانية معيّنة ؟!
وتابع "هناك جزء من الشعب السوري ما يزال مع النظام وهناك في المقابل معارضة بعضها سياسي وبعضها شعبي وبعضها مسلح وإن باتت تطغى الصبغة المسلحة وهناك مواجهات مسلحة في عدد من المناطق السورية وهذا أمر مسلح وهناك أيضا جزء كبير من سورية ينعم باستقرار".
هناك قرار غربي عربي على إسقاط النظام في سورية
وأضاف سماحته"خارج سورية هناك قرار أميركي إسرائيلي غربي عربي على مستوى دول الاعتدال العربي باسقاط النظام في سورية وهذا لا نقاش فيه وقد رأيناه بأم العين وقبل أسابيع قام موظف اسرائيلي بتحليل شخصي يظهر منه أنه يدافع عن نظام الأسد فلم يبقى أحد في 14 آذار إلا وتحدث عن الموضوع ولكن اليوم هناك شبه اجماع اسرائيلي على وجوب اسقاط نظام الاسد اين 14 آذار لماذا بلعوا لساناتهم هل لأن المشهد تغير؟".
وتابع سماحته "المطلوب اسقاط النظام للاتيان بنظام بديل وبعض الاصدقاء المشتركين قالوا لنا ان لا نقلق وان النظام الجديد سيدعم المقاومة وهذا قيل ويقال في الكواليس لكننا لا نورّط نفسنا بهذا الموقف بل نحن منسجمون مع أنفسنا".
المطلوب في سورية هو رأس المقاومة
واعتبر سماحته أن" المطلوب في سورية هو رأس المقاومة في لبنان وفلسطين ورأس القضية الفلسطينية ورأس الشعب الفلسطيني وهذه هي الحقيقة".
وأشار السيد نصر الله إلى ان" القيادة السورية موافقة على معظم الاصلاحات التي طلبت والقيادة جاهزة للحوار والآن يقولون فات الأوان، كيف فات الأوان وهناك حرب في سورية وهناك من يدفع سورية لحرب أهلية؟ الآن الجماعات المسلحة تقتل من أبناء الطوائف وقتلت من السنّة السوريين أكثر مما قتلت من الطوائف الأخرى وغير صحيح أن الحرب في سورية طائفية وإن كانوا يدفعون نحو حرب أهلية، من يحرص على سورية لا يقول فات الأوان بل يذهب إلى الحوار دون شروط لا بشرط تنحي الرئيس".
طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر
وسأل السيد نصر الله "هل إقفال الباب حرص على الشعب السوري وعلى قيادة سوريا وهل يخدم القضية الفلسطينية؟ هذا السلوك من يخدم؟ أنا أقول ما أقول الآن لله عز وجل وهذه وقائع ومعطيات بمعزل عن التفاصيل التي لا يجب أن نغرق فيها لكي لا نذهب للمزيد من القتل وسفك الدماء، طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سوريا والرهان على أميركا هو رهان خاسر بطبيعة الحال وهذا هو موقفنا ونرى فيه مصلحة سورية وشعب سورية ومصلحة لبنان وشعب لبنان وفلسطين وشعب فلسطين بمعزل عن الاحقاد الشخصية أو الفئوية التي ينطلق منها بعض الناس".
الحركات الإسلامية امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة
وفي موضوع الحركات الإسلامية التي فازت في الانتخابات في المنطقة العربية إعتبر سماحته أنها امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة وهي مستهدَفة لان الاميركيين يسعون لجعلها تفشل وهذا يحتاج لكلام كثير لكن بعض القيادات الاسلامية اليوم وأنا أعرفهم جيدا وهم أصدقائي الآن ونظرا للظروف السياسية في بلدانهم لا يأخذون مواقف واضحة في القضية القومية وفي الموضوع الاسرائيلي بل أحيانا قد تصدر عنهم مواقف ملتبسة وعندما نراجع ونناقش يقال لنا انه يجب تفهم تلك الظروف".
حريصون على إستمرار الحكومة
وفي موضوع الحكومة اللبنانية قال سماحته "نحن حريصون على استمرار الحكومة وليس مطلوبا وساطة فمعالجة الازمة مسؤولية الجميع واقول لمن بدأوا يجهزوا "جاكيتاتهم وكرافاتاتهم" للحكومة الجديدة لا حكومة جديدة وهذه الحكومة ستستمر علما أنها ليست حكومة حزب الله".
وأضاف " هذه الحكومة بمعزل عن توصيفها حتى الآن هي أساس استقرار في البلد ويجب أن نجهد لتنجز شيئا والوقت الآن ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان وعلينا بتعاوننا واخلاصنا وانفتاحنا ان نتجاوز هذه المرحلة الصعبة ان شاء الله".
المصدر: قناة المنار
07-02-2012 - 12:47 آخر تحديث 07-02-2012 - 23:48 | 14106 قراءة
12:21
|
عید نوروز کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی کا پیغام - Urdu
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا...
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
More...
Description:
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
7:50
|
[URDU] HAJJ Message 2014 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام...
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
More...
Description:
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
4:28
|
السيد القائد الخامنئي دام ظله والمراجع العظام حفظهم الله - Arabic
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه...
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وايضا في الشبكات التواصل الإجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
More...
Description:
مركز الاسلام الاصيل للثقافة والاعلام (تحت اشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وايضا في الشبكات التواصل الإجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
3:17
|
اقوال العلماء في الشهيد الصدر [Arabic]
مركز الإسلام الأصيل للثقافة والاعلام (تحت إشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه...
مركز الإسلام الأصيل للثقافة والاعلام (تحت إشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وأيضا في شبكات التواصل الاجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
More...
Description:
مركز الإسلام الأصيل للثقافة والاعلام (تحت إشراف سماحة الشيخ أسد محمد قصير حفظه الله)، يقدم برامجه الدينية والثقافية خلال القنوات الفضائية؛
ومن ثم قام بنشر انتاجاته في موقعه وأيضا في شبكات التواصل الاجتماعي كيوتيوب، فيسبوك، جوجل بلاس وتويتر لإيصال صوت الإسلام المحمدي الأصيل.
41:26
|
[Speech on 02.05.2021] Martyrdom of Imam Ali (AS) | Quaid Syed | Abdul Malik Al Houthi | Arabic كلمة السيد القائد بمناسبة ذكرى استشهاد أمير المؤمنين الإمام علي عليه السلام
كلمة السيد عبد الملك بدرالدين الحوثي في ذكرى استشهاد الإمام علي عليه السلام - 20 رمضان 1442هـ 02-05-2021
أَعُـوْذُ...
كلمة السيد عبد الملك بدرالدين الحوثي في ذكرى استشهاد الإمام علي عليه السلام - 20 رمضان 1442هـ 02-05-2021
أَعُـوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ
بِـسْـــمِ اللهِ الرَّحْـمَـنِ الرَّحِـيْـمِ
الحمدُ لله رَبِّ العالمين، وأَشهَـدُ أن لا إلهَ إلَّا اللهُ الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهَدُ أنَّ سيدَنا مُحَمَّــداً عبدُهُ ورَسُــوْلُه خاتمُ النبيين.
اللّهم صَلِّ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، وبارِكْ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، كما صَلَّيْتَ وبارَكْتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ إنك حميدٌ مجيدٌ، وارضَ اللهم برضاك عن أصحابه الأخيار المنتجبين، وعن سائر عبادك الصالحين.
أيُّها الإخوة والأخوات
السَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
وعظَّم الله لنا ولكم الأجر، في ذكرى استشهاد أمير المؤمنين، وسيِّد الوصيين، وإمام المتقين، علي بن أبي طالب \"عليه السلام\"، الذي أصيب في ليلة التاسع عشر من شهر رمضان المبارك، والتحق بالرفيق الأعلى في ليلة الحادي والعشرين من شهر رمضان المبارك آنذاك، فكان ميعاده للقاء ربه في أشرف الليالي، وأشرف الشهور، وأشرف الأوقات وأفضلها.
واستشهد الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" وهو يقوم بدوره العظيم، في التصدي لحركة النفاق والانحراف في الأمة، ويواصل مشوار الإسلام في امتداده الأصيل والنقي، الإسلام المحمدي الأصيل، الإسلام الذي هو وفق منهج الله \"سبحانه وتعالى\".
والإمام عليٌّ \"عليه السلام\" عندما نتحدث عنه، فمن المهم لنا كأمةٍ مسلمةٍ أن نستفيد من سيرته، ومن عطائه، وأن نعي منزلته، وطبيعة علاقتنا به كأمةٍ مسلمة.
وعندما نعود إلى الآيات القرآنية، والنصوص النبوية، ونعود إلى سيرة عليٍّ \"عليه السلام\"، نجد كل ذلك يتمحور حول جانبين أساسيين، كلٌّ منهما له علاقةٌ بنا نحن:
الأول: أنَّ الروايات، وقبل ذلك الآيات القرآنية، إضافةً إلى سيرة عليٍّ \"عليه السلام\"، كل ذلك يقدِّم لنا نحن علياً \"عليه السلام\" باعتباره النموذج، وحسب التعبير القرآني: الشاهد، الذي يقدِّم الصورة المتكاملة الراقية عن الإسلام، الإسلام في أثره في الإنسان، الإسلام الذي يتجسد كـ:
مبادئ.
وأخلاق.
وقيم.
وسيرة عملية في واقع الحياة.
وهذا جانبٌ مهمٌ لنا نحن، نتطلَّع إلى عليٍّ \"عليه السلام\" على هذا الأساس؛ لنرى فيه ما يجسِّد هذا الإسلام بشكلٍ كاملٍ وراقٍ، يبرز:
عظمته.
قيمته.
أثره.
أهميته.
ونرى أيضاً هذا الإسلام في الواقع الحياتي والعملي في أثره ونتائجه، وفي أثره التربوي في الإنسان، كيف يسمو بهذا الإنسان، كيف يرتقي بهذا الإنسان، كيف تبرز آثاره على كل المستويات في هذا الإنسان، فيؤدي دوره في الحياة دوراً عظيماً متكاملاً.
ونرى الإسلام بصفائه، بنقائه، بحقيقته، سليماً من كل شائبة، من كل تشويش، وهذه مسألة في غاية الأهمية لنا نحن، نحن في أمسِّ الحاجة إليها كأمةٍ مسلمة؛ لأنه في تاريخ الأمة وإلى اليوم، يبرز الكثير ممن يُقدَّم لنا باعتباره يُقدِّم النموذج الذي يعبِّر:
في سلوكه.
في أعماله.
في مواقفه.
في فكره.
في ثقافته.
عن الإسلام؛ بينما تشوبه الكثير من الشوائب التي تشوِّه الإسلام، وهذا يحصل كثيراً في تاريخ الأمة، وفي حاضرها، ويحصل أيضاً في مستقبلها، فعندما تكون هناك نسخة أصيلة، سليمة، موثَّقة، نقية، متجسِّدة، بسيرتها، بسلوكها، تمثل هي النموذج الحقيقي، يمكننا أن نستفيد من ذلك على امتداد تاريخنا، ثم في حاضرنا، وفي مستقبلنا.
والجانب الآخر بالنسبة للإمام عليٍّ \"عليه السلام\": هو ما يمثله من دورٍ أساسيٍ في الامتداد لهذا الإسلام، ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في موقعه في القدوة والهداية، وهذه أيضاً مسألة مهمةٌ جداً، وبالذات تجاه ما عصف بالأمة من الفتن والمؤامرات، والنشاط الكبير لحركة النفاق والانحراف في داخل الأمة، التي سعت:
إلى تزييف حقيقة الإسلام.
وإلى تغيير الكثير والكثير من معالمه.
وإلى التشويش على الكثير والكثير من حقائقه.
وعندما نتحدث عن عناوين مختصرة من مسيرة عليٍّ في المرحلتين:
في مرحلة التنزيل.
وفي مرحلة التأويل.
في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد ذلك، حتى من خلال عناوين محدودة، وعرضٍ موجز، يتجلى لنا ذلك بوضوح.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" كانت مسيرة حياته متميزة، وعلى نحوٍ فريدٍ وعجيب، فهو وليد الكعبة، وهو في ختام حياته شهيد المحراب، وما بين ولادته واستشهاده مسيرة حياةٍ كلها متميزةً بالإيمان، والتقوى، والعمل الصالح، والسمو، والارتقاء الإنساني والأخلاقي، وعلى نحوٍ عجيب.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" حظي في طفولته، ثم ما بعد ذلك، في كل مرحلة حياته مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، إلى أن توفي رسول الله، حظي بعلاقةٍ واختصاصٍ في صلته برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فهو تربَّى عند رسول الله، كفله رسول الله \"صلى الله وسلم عليه وعلى آله\"، وربَّاه عنده، ومنذ طفولته المبكرة نشأ في بيت رسول الله، وعند رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ورسول الله حتى ما قبل البعثة كان إنساناً عظيماً، ومؤمناً، متكاملاً، وعلى درجةٍ عظيمةٍ في أخلاقه، ونبله، ومرتبةٍ عاليةٍ جداً في ذلك، وموحِّداً لله \"سبحانه وتعالى\"، ويحظى بعناية إلهية خاصة، ما قبل البعثة إلى الناس.
ثم في تلك المرحلة التي ربَّى فيها علياً عنده، لم يكن اهتمامه بعليٍّ \"عليه السلام\" منحصراً على العناية به في التغذية، والاحتياجات الخاصة الإنسانية، فيهتم به فيما يتعلق باحتياجاته كإنسان، من غذاء، وكساء، ونحو ذلك؛ إنما كانت عنايته أيضاً بعليٍّ \"عليه السلام\" متجهةً إلى التربية الأخلاقية، فكما قال عليٌّ \"عليه السلام\"، وهو يتحدث عن تلك المرحلة في طفولته: (ولقد كنت أتَّبعه اتِّباع الفصيل أثر أمه، يرفع لي في كل يومٍ من أخلاقه عَلَماً، ويأمرني بالاقتداء به)، هكذا كان، يتربى تربية يسمو فيها، على المستوى الأخلاقي، والروحي، والتربوي، والإنساني، على نحوٍ فريد، مع قابليةٍ عاليةٍ جداً عند الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، وهبه الله \"سبحانه وتعالى\" قابليةً عالية، ثم هيَّأ له هذا المربي العظيم: رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\".
عند البعثة كان رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" وهو يعتني بهذا الفتى اليافع عنده، كان عليٌّ \"عليه السلام\" السابق إلى الإيمان برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، والمصدِّق به، وبرسالته، وبعثته، على نحوٍ متميز، لم يسبق ذلك شركٌ، ولا شيءٌ من دنس الجاهلية.
الذين أسلموا، أسلموا مع سابقة شرك، مع ماضٍ من دنس الجاهلية وسلبياتها؛ أمَّا الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" فكانت سابقته الإيمانية متميزةً، بأنه لم يسبقها أبداً شيءٌ من الشرك، ولا من دنس الجاهلية ورذائلها.
والسبق فضيلةٌ عظيمة، الله \"سبحانه وتعالى\" يقول في القرآن الكريم: {وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (10) أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ}[الواقعة: 10-11]، سبقٌ إلى الإيمان، سبقٌ إلى أيضاً الإيمان على نحوٍ راقٍ جداً، وإلى نصرة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فسبق كمؤمنٍ عظيمٍ، وجنديٍ متميزٍ، ومناصرٍ صادقٍ، مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\".
ثم في إطار مسيرة حياته، هذه المسيرة الإيمانية مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، كان في حياته، وفي أثر تربية رسول الله له، يرتقي ارتقاءً عظيماً ومتميزاً:
على المستوى الأخلاقي، والإيماني.
وعلى المستوى المعرفي.
وعلى مستوى الهداية، والوعي، والبصيرة.
فكان هو النموذج الأول، والمصداق الأول، لكل ما ورد في القرآن الكريم من آياتٍ قرآنية فيها ثناءٌ على المؤمنين، وحديثٌ عن مواصفاتهم، وبشارةٌ لهم، وكما قال ابن عباسٍ رحمه الله: (أنَّ كل آيةٍ نزلت فيها ثناءٌ على المؤمنين، وبشارةٌ لهم، إلَّا وكان عليٌّ أميرها)، يعني: كان هو المصداق الأول، والنموذج الأكمل، المصداق الأول لتلك الآيات، التي تتحدث عن المؤمنين، عن مواصفاتهم، عن الثناء عليهم، وعن البشارة لهم، وعن النموذج الأكمل فيما بينهم، ولذلك كان هو الشاهد- بحسب التعبير القرآني- الذي يشهد فيما هو عليه من سلوك، في أثر الإسلام فيه، في سموه الإنساني والأخلاقي، يشهد:
على عظمة الرسول.
على عظمة الرسالة.
على عظمة القرآن.
لأنه من خلال أثر التربية النبوية في هذا الإنسان، أثر القرآن فيه، أثر الإسلام فيه، يتجلى للناس أنَّ عظمة الإسلام فعلاً مسألة مؤكَّدة ومتجسِّدة في واقع الحياة، وليست فقط نظريةً مثاليةً لا يمكن أن نلمس، أو نرى آثارها، في واقع الحياة.
عندما نأتي إلى مسيرة حياته في ظل رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، مؤمناً به، ومناصراً له، وجندياً مخلصاً معه، ووزيراً صادقاً، نجد تلك الحياة المتميزة، الإيمانية، العظيمة:
فعلى مستوى الجهاد: كان جهاده في سبيل الله، وبيعه لنفسه من الله \"سبحانه وتعالى\"، وتفانيه في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، على نحوٍ متميزٍ، جعل منه رجل المهمات الصعبة، والمواقف الاستثنائية، والبطولات التي سطَّرها التاريخ، ولا مثيل لها في تاريخ الإسلام:
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" في مرحلة مكة، ما قبل الهجرة، كان ملازماً لرسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وكان هو الحارس الشخصي الملازم على نحوٍ دائم، والحاضر في كل لحظة لأن يفدي رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" بنفسه، بروحه وحياته.
وفي تلك المرحلة الحسَّاسة كان يواصل هذا الدور، إلى أن أتى ميعاد الهجرة من مكة إلى المدينة، فكان هو الذي قام بالمهمة في تلك الليلة، مهمة الفداء، مهمة المبيت على فراش النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في عملية تمويهية أمنية، تمثل غطاءً لخروج النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وانتقاله من منزله إلى خارج مكة، إلى الغار.
فالإمام عليٌّ \"عليه السلام\" في تلك الليلة، عندما عرض عليه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" هذه المهمة الفدائية، تلقَّاها بكل استبشار، بكل رحابة صدر، بكل شوقٍ وتلهف، بإيمانه العظيم، وكان المهم عنده هو سلامة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وبات في تلك الليلة، جاهزاً بشكلٍ تامٍ للشهادة في سبيل الله، والتضحية في سبيل الله، بائعاً نفسه من الله.
وكان أن سطَّر القرآن الكريم ليلة الفداء هذه، وذلك الموقف الذي باع فيه نفسه من الله، واستعد بشكلٍ تامٍ للشهادة في سبيل الله، القرآن سطَّر هذا الموقف وجعله نموذجاً، وهذا ما ركَّز عليه القرآن في كل ما قدَّمه بشأن عليٍّ، أنه يقدمه كنموذج في دائرة العنوان الإيماني؛ ليكون نموذجاً للمؤمنين، نموذجاً للناس في: الإيمان، والارتقاء الإيماني، والالتزام الإيماني، والاستعداد العالي للتضحية في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، فقال الله \"جلَّ شأنه\": {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ}[البقرة: الآية207]، فالقرآن يقدِّم لنا هذا الموقف العظيم، ويكشف لنا في هذه الآية المباركة حتى عن مشاعر عليٍّ \"عليه السلام\"، أنه عندما قدَّم نفسه في سبيل الله، مستعداً للتضحية على نحوٍ تامٍ بدون أي تردد، وبدون أي توجس، وبدون أي قلق، هو يبتغي بذلك مرضاة الله \"سبحانه وتعالى\"، مخلصاً لله \"سبحانه وتعالى\"، وكان الإخلاص لله من أبرز العناوين التي نجدها في سيرة عليٍّ \"عليه السلام\":
في أعماله.
في مواقفه.
في جهاده.
في كل أعماله الصالحة، الإخلاص لله، والابتغاء لمرضاة الله، والسعي لنيل محبة لله \"سبحانه وتعالى\" ومرضاته، كان هو الهدف والغاية الرئيسية للإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، وهذا درسٌ عظيمٌ ومهمٌ لنا جميعاً، لكل المسلمين، لكل المؤمنين.
وهكذا استمر في عطائه مع الله \"سبحانه وتعالى\"، بعد هجرة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" أدَّى عنه الودائع، وكان يؤدِّي أيضاً هذا النوع من المهام، التي لها صلة مباشرة وخاصة برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فيؤدي عنه، فأدَّى عنه الودائع في مكة، كان هو أيضاً الذي يقضي دينه، يؤدي كل المهام الخاصة المتصلة بالنبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، يثق به ثقةً كاملة، ويطمئن إليه أنه سيؤدي عنه ما يؤديه.
وهاجر أيضاً، والتحق برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ونقل معه أسرة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى المدينة، في قصةٍ مشهورة، تحدى فيها خطر المشركين، عندما حاولوا أن يلحقوا به، وأن يحولوا بينه وبين الهجرة، وأن يعيدوا من معه من أسرة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، إلَّا أنه تصدى لهم بكل حزم، ونجح في مهمته.
في مرحلة المدينة أدَّى دوره على نحوٍ عظيمٍ ومتميز، فكان في كل أدائه الجهادي، وفي كل المعارك، وفي كل المواقف والتحديات، التي كانت أبرز ملاحم الإسلام، هو البطل الأول، الذي يؤدِّي دوره العظيم، كجنديٍ عظيمٍ متميز، ومتفانٍ في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\":
في غزوة بدرٍ الكبرى:
كان له أكبر رصيدٍ بين المجاهدين مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في تفانيه، واستبساله، ونكايته بالمشركين، وكان هو من باشر القتل بمعظم القتلى الذين قتلوا في غزوة بدر، وعندما برز هو وعمه حمزة بن عبد المطلب، وابن عمه عبيدة بن الحارث، نزلت الآية القرآنية: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ}[الحج: من الآية19]،فكان هو المخاصم لأعداء الله، للذين واجهوا الإسلام، وحاربوا الإسلام، وبرز هو وعمه وابن عمه في أول ما بدأت تلك المواجهة، في تلك المعركة، في موقفٍ تاريخيٍ مذكورٍ في السِّير النبوية. واستمر كذلك.
في معركة أحد:
كان له أبرز دورٍ في نصرة الإسلام، في الجهاد، فكان هو قاتل حملة الرايات، وقاتل الصناديد والأبطال من المشركين، وكان هو الثابت، المتفاني، المستبسل، عند الهزيمة، التي شملت الكثير من المسلمين، {إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ}[آل عمران: من الآية153]، كانت هزيمةً مؤلمة.
وكانت المرحلة آنذاك وذلك الظرف الحساس يشكِّل خطورةً كبيرةً على حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فكان ثابتاً مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ومستبسلاً، ومتفانياً، إلى حدٍ عجيب، كانت كلما أتت كتيبة تتجه نحو النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وتزحف بكل جدية، وبكل اهتمام، بهدف قتله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، يتجه الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" إلى تلك الكتيبة بكل استبسال وتفانٍ، ويقتل قائدها، فتنكسر، وترجع من زحفها، ثم يتجه إلى الكتيبة الأخرى... وهكذا، من هنا وهناك بكل استبسالٍ وتفانٍ، إلى درجة أن عَجِب جبرائيل- وهو حاضرٌ إلى جوار النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"- من هذا الاستبسال، من هذا التفاني، فقال: (إنَّ هذه لهي المواساة)، فقال النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (إنَّه منِّي، وأنا منه)، فقال جبرائيل: (وأنا منكما)، هذا شرفٌ عظيمٌ جداً جداً.
في معركة الخندق:
وهي معركة خطيرة وحساسة، وحوصرت فيها المدينة، وبلغت الحالة في داخل المدينة مبلغاً كبيراً من الضغط النفسي والمعنوي على المسلمين، {هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا}[الأحزاب: من الآية11]، وتحدث المنافقون بالإرجاف، والتهويل، والتشكيك، ولعبوا دوراً سلبياً في زعزعة الوضع الداخلي للمسلمين، واشتدت المشكلة على المسلمين، وتضاعف الهم والمحنة عليهم.
كان للإمام عليٍّ \"عليه السلام\" دوره البارز والمتميز، وتصدى هو لعمرو بن عبد ود العامري، وضربه ضربته الشهيرة، وقُتِلَ، وهو من أكابر فرسان المشركين، ومثَّل قتله ضربة معنوية كبيرة للأعداء.
وكانت تلك المواقف البطولية، وذلك الدور الرئيسي، في كل تلك المرحلة، مرحلة غزوة الخندق، منذ بداية الحصار، إلى حين انكشافه، وهزيمة المشركين ورجوعهم، كان الدور المحوري البارز للإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، يقدم النموذج الذي تحدثت عنه الآية المباركة في سورة الأحزاب: {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا}[الأحزاب: الآية23]، فكان المصداق الأول، والنموذج الأكمل لهذه النماذج:
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\".
وحمزة بن عبد المطلب.
وجعفر بن أبي طالب.
كانوا هم النموذج الأكمل، وهم المصداق الأول، وهي تشمل كل المؤمنين الذين نهجوا هذا النهج، ولكنهم يبقون دائماً في أول القائمة، وفي أول العنوان، على نحوٍ متميزٍ في كمال ما كانوا عليه من ذلك، وفي أنهم الذين بادروا وسبقوا إلى ذلك.
فيما بعد ذلك أيضاً، في ملاحم الإسلام الأخرى:
في خيبر:
وملحمة خيبر من أبرز الملاحم التاريخية، ومن أهم الملاحم في السيرة النبوية، وقد تراجع فيها المسلمون مرةً تلو أخرى، إلى أن قال النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (لأبعثن غداً عليهم رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، كراراً، غير فرار، يفتح الله على يديه)، الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" كان في المراحل التي تراجع فيها المسلمون في تلك الملحمة، كان مصاباً بالرمد، كان مريضاً، لا يبصر، لا يكاد يبصر موضع قدميه، فلم يكن حضر، وباشر، وشارك، في تلك العمليات التي تراجع فيها المسلمون، ولكن رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" تفل بريقه المبارك في عينيه، ودعا له بالشفاء، وشفي بشكلٍ تام، وأعطاه الراية، وانطلق، وفتح الله على يديه، في لحظةٍ سريعةٍ، ومعركةٍ حاسمةٍ وسريعة.
وكانت هذه المواصفات العظيمة والراقية تقدمه أيضاً كنموذج، (رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، كرار، غير فرار، يفتح الله على يديه).
فنجده أيضاً في ملحمة حنين:
كان هو الثابت، بعد الهزيمة الكبيرة التي لحقت بأكثر المسلمين، ولم يبقَ مع رسول الله إلا القلة القليلة، كان أبرزهم وأكثرهم تفانياً واستبسالاً، وأكثرهم عناءً وجهداً وعملاً، وإسهاماً في الدفع عن رسول الله، وعن الإسلام، والتصدي للأعداء، كان هو عليٌّ \"عليه السلام\"، وأنزل الله سكينته على رسوله، وعلى المؤمنين، وتراجع المسلمون، وختمت تلك الملحمة التاريخية، والمعركة الكبيرة، بالنصر الحاسم لصالح المسلمين.
وهكذا في محطات كثيرة، وفي مراحل كثيرة، وفي تحديات كثيرة، كان يتميز الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" بتفانيه في سبيل الله، ببطولاته، التي لم تكن فقط مبنيةً على الشجاعة الفطرية فحسب؛ وإنما تستند أيضاً إلى هذا الرصيد الإيماني العظيم، وإلى هذا التوفيق والتأييد الإلهي الكبير، الذي كان يحظى به؛ لإيمانه، وصلته بالله \"سبحانه وتعالى\"، وعظيم منزلته في الإسلام.
والجهاد في سبيل الله عندما ينطلق من هذا المنطلق الإيماني، وبهذه القيم، وبهذا الوعي لعظمة الإسلام، وبهذا الحمل للإسلام، كقضية تدافع عنها، وتجسدها في واقعك العملي، يكون فضيلةً عظيمةً، ومرتبةً عاليةً جداً، وهو في سلم الأعمال الصالحة، وفي سلم العناوين، وفي قائمة العناوين الإيمانية، في المرتبة الأولى، {وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (95) دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً}[النساء: 95-96].
الإمام عليٌ \"عليه السلام\" على هذا المستوى في جهاده، في ارتقائه الإيماني، في علمه ومعرفته، وما منحه الله \"سبحانه وتعالى\" من الهداية، كان:
هو الأُذُن الواعية: المصداق الأول في الأُذُن الواعية، في الوعي، في الاستيعاب، في التفهم، في الاستنارة بنور الله \"سبحانه وتعالى\"، في الاستيعاب لما بلَّغه رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى الأمه، وفيما علَّم به هذا التلميذ العظيم.
وكان هو باب مدينة العلم: كما في النص عن النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وهو يكشف لنا:
المقام العلمي العظيم من جهة.
والجانب المؤتمن لحمل وتبليغ ما أداه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى الأمة، على نحوٍ وثيقٍ، وصادقٍ، ونقيٍ من كل الشوائب، وسليمٍ، أمانةٍ عاليةٍ، واستيعابٍ كبير، ومن واقع هذا الدور الذي يؤديه من خلال اقترانه بالقرآن.
وكان كما قال عنه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (عليٌ مع القرآن، والقرآن مع علي):
فكان مع القرآن: استوعب القرآن، استوعب هداية القرآن الكريم على نحوٍ عظيم، يناسب هذا الدور الذي أوكل إليه، هذا الدور الذي عليه أن يقوم به.
ثم مع ذلك كان مجسداً للقرآن الكريم في واقع حياته:
كمواقف.
وكتعليمات.
وكسلوك.
وكأخلاق.
وكمبادئ.
وكمسيرة عمل، يلتزم به، يتحرك على أساسه.
فكان قرآناً ناطقاً بكل ما تعنيه الكلمة.
وكان يمثل استمرارية الإسلام بشكلٍ صحيح: في تقديمه للأمة، وفي الحركة بالأمة على أساسه، بشكلٍ صحيح؛ حتى تكون الأمة مهتديةً بالقرآن، حتى لا تتشوش عليها هذه العلاقة مع القرآن:
بمفاهيم غير صحيحة.
بتأويلٍ غير صحيح.
بتفسيرٍ غير صحيح.
بتزييفٍ للمفاهيم، التي تحسب على القرآن الكريم.
فكان هو الذي قاتل على تأويل القرآن، كما قاتل النبي على تنزيله، كما أخبر النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" بذلك، وهو يخبر هذه الأمة، ويطلعها على طبيعة هذا الدور، الذي يقوم به عليٌّ \"عليه السلام\" ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فأخبر الأمة أن علياً \"عليه السلام\" سيقاتل على تأويل القرآن، كما قاتل النبي على تنزيله.
فكان في مرحلة التنزيل، في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ذلك النموذج العظيم، الأكمل، والمصداق الأول، على مستوى العناوين الإيمانية والقرآنية.
وما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" كان هو الذي يؤدي هذا الدور في:
الحماية للمفاهيم القرآنية.
ومعارف الإسلام.
وحقيقة الإسلام.
ويتحرك بالأمة على هذا الأساس بشكلٍ صحيح؛ حتى يحميها من الانحراف، الانحراف الخطير الذي تتحرك به حركة النفاق والانحراف في داخل الأمة، وتحركت، وتحركت بذلك.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" منزلته التي كان فيها في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، حددها، ووضحها، وبينها، النص النبوي، الذي رواه المسلمون بكل مذاهبهم، عندما قال \"صلى الله عليه وعلى آله وسلم\" للإمام عليٍّ \"عليه السلام\": (أنت مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعد)، فله هذه المنزلة وهو يؤدي هذا الدور، في عهد النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد وفاته.
وبقي الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" يمثل العلامة الفارقة بين الإيمان والنفاق، فهو يمثل الاتجاه الصحيح، السليم، في مسيرة الإسلام، وعندما أتت حركة النفاق لتناوئ هذا المسار، ولتحارب هذا المسار والامتداد الأصيل والصحيح، كانت مكشوفة، كانت مفضوحة؛ لأن هناك ما يعبر عن الامتداد الصحيح، ما يمثل النموذج، وما يمثل الشاهد، وما له موقع القيادة والهداية، وهذه نعمة كبيرة جداً للأمة، هذه نعمة جداً، حتى لا تلتبس الأمور ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"؛ لأن النبي أنذر أمته بأنها مقبلةٌ على فتنٍ كقطع الليل المظلم، وأنها مقبلةٌ على حالةٍ من التلبيس والانحراف، وأنها مقبلة على حالةٍ من الانحراف، الذي يشكل خطورةً كبيرةً عليها:
في نقاء الإسلام.
في فهمها الصحيح للإسلام.
في أن تسير بشكلٍ مكتملٍ، وفق مبادئ الإسلام كاملةً نقية.
فعملية الانحراف والتلبيس لن تأتي لتغير العنوان الإسلامي بكله، ولكنها تشوشه، تُلَبِّس فيه، تزيف الكثير من حقائقه؛ فتلبس الحق بالباطل، وتحول هذا الإسلام إلى إسلامٍ مختلطٍ بكثيرٍ من المفاهيم، التي تحسب عليه وليست منه، وإنما هي في حقيقة أمرها تعبر عن النفاق، وقد كان هذا الخطر على نحوٍ كبيرٍ جداً، في مرحلة عودة الدور الأموي، والنفوذ الأموي، من جديد في واقع الأمة، وكان يشكِّل خطراً كبيراً جداً على هذه الأمة، في إسلامها:
في إسلامها أن يبقى نقياً.
أن يبقى سليماً.
أن تبقى له ثمرته الحقيقية في الإنسان والحياة.
وأن يبقى له أثره المبتغى منه في واقع الحياة، وفي الدنيا والآخرة.
فالدور الأموي الذي شكَّل تهديداً بالغاً، وغذى معه كل أشكال الانحراف، ووظف معه كل حالات الانحراف الموجودة والممتدة في مختلف الساحة الإسلامية، والتي وصلت إلى مستوى التوغل إلى داخل الكوفة، عاصمة الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، عاصمة الأمة الإسلامية، فوظف كل حالة الانحراف، وغذاها، وحركها، بما في ذلك ظاهرة الخوارج، استفاد منها الجانب الأموي، وحركها وفق خيوطه وأساليبه الماكرة والخبيثة، وشغَّلها على النحو الذي يحقق له أهدافه ومآربه الشيطانية.
فالإمام عليٌّ \"عليه السلام\" تصدى للدور الأموي على أكمل وجه، قام بمسؤولياته على أكمل وجه، حفظ للإسلام نقاءه:
وهو يبلِّغ.
وهو يعبِّر.
وهو يقدِّم هذا الإسلام.
وهو يجسد هذا الإسلام:
في مواقفه.
في سلوكه.
في أعماله.
في مواقفه.
وهو يجاهد بكل أشكال الجهاد، ويدافع عن هذا الإسلام، عن الأمة نفسها؛ ليبقى لها هذا الإسلام كما هو، وليعطي هذا الامتداد في مرحلة من أخطر المراحل، ومن أسوأ المراحل، تشكل تهديداً على الإسلام، وتمثل منعطفاً خطيراً جداً في تاريخ الأمة.
وفي نهاية المطاف استشهد، ضحى بحياته، بروحه، في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، وقد أتم دوره، وقام بواجبه، على أكمل وجه.
فكان هو الشاهد في كل تلك المراحل:
في مرحلة التنزيل.
وفي مرحلة التأويل.
وكان هو النموذج، الذي يمكن للأمة أن تتطلع إليه في كل عصر، لتقيس على تلك الروحية، على تلك المنهجية، كل النماذج الأخرى، فتشاهد النموذج الأصيل، والعظيم جداً، والراقي جداً، والكامل، الذي تقيس عليه النماذج الأخرى مهما صغرت، فلا تلتبس عليها مسألة الرموز، مسألة القادة، مسألة الأعلام، الذين تسير بعدهم، الذين تتأثر بهم، الذين تتجه بهم؛ لأن أمامها نموذج واضح جداً، وكامل جداً، ويؤدي دوره في الشهادة على نحوٍ مستمرٍ عبر الأجيال.
عندما نأتي إلى زمننا هذا، نتطلع إلى الإمام عليٍّ \"عليه السلام\" وهو في هذا الموقع:
في موقع القدوة والقيادة.
وهو في موقع أيضاً النموذج الأكمل، والمصداق الأول، لكل تلك العناوين والمواصفات الإيمانية العظيمة.
فنرى فيه مدرسةً متكاملةً، معطاءةً وغنية، نستهدي بها، نستهدي بسيرتها، نستهدي بما قدمه:
في مواقفه.
في صبره.
في عطائه.
ونجد فيه النموذج الإنساني الراقي، المكتمل، الذي قدمه القرآن أيضاً في سورة الإنسان، في عطائه الإنساني، وهو كما قال عنه \"سبحانه وتعالى\"، وهو يقدم صورةً من عطائه مع أصحاب الكساء: {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (9) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا}[الإنسان: 8-10]، وهكذا تقدمه هذه الآيات المباركة، وهو في عطائه، إلى هذا المستوى الذي يؤثر على نفسه في أضيق الحالات، في أشد الظروف، في أقسى الظروف، على المستوى المعيشي، فيؤثر حتى بطعامه، الذي لا يمتلك غيره، يؤثر الفئات المحتاجة، من:
مسكينٍ.
ويتيمٍ.
وأسير.
ويبقى جائعاً. هذا هو عليٌّ \"عليه السلام\" في عطائه الراقي جداً، وبإخلاصٍ عظيمٍ لله \"سبحانه وتعالى\"، ليس لأهداف أخرى، حتى على مستوى الشكور، على مستوى الثناء، على مستوى المديح، لم يسع لذلك من خلال عطائه، فكان ذلك النموذج الراقي في عطائه، في إخلاصه، تجسدت حالته الإيمانية:
في اهتمامه بأمر الناس.
واهتمامه بعباد الله.
ورحمته بالمستضعفين.
ودفاعه عنهم.
وعطائه لهم.
مع خوفٍ من الله \"سبحانه وتعالى\".
ومحبةٍ عظيمةٍ لله \"جلَّ شأنه\".
وصلةٍ إيمانيةٍ راقية.
ثم كان هو ذلك الذي عندما أتت الشهادة قال كلمته الشهيرة: (فزت ورب الكعبة)؛ لأنه:
كان على يقين من سلامة منهجه، من صحة موقفه.
كان على بصيرةٍ عاليةٍ تجاه مسيرته ومواقفه.
كان يدرك أيضاً فضل الشهادة، وعظيم منزلتها، وعظيم منزلته هو فيما أداه، وفيما توفق له، وفيما كان عليه من إيمانٍ عظيم، وفيما عمل به وقدمه من العمل الصالح العظيم.
وبقيت أعماله، وآثار أعماله، ممتدةً فيما قدمه، وفيما أسهم به:
في رفع راية الإسلام.
وفي تخليد الحق.
وفي خدمة المستضعفين.
ممتدةً إلى يوم القيامة.
مدرسةٌ، وقدوةٌ، ومنهجيةٌ نستفيدها من الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، في مرحلةٍ نحن في أمسِّ الحاجة إلى ذلك.
وكان حبه علامةً فارقةً بين الإيمان والنفاق؛ لهذا الدور الذي يؤديه في مستقبل الأمة، ويبقى علامةً فارقةً بين الإيمان، وبين النفاق؛ لأن:
الإيمان في امتداده الأصيل: جسَّده عليٌّ، وقدمه علي.
والنفاق: كان دائماً في الاتجاه المناوئ لعلي، والمعارض لعلي، والباغض لعلي، والكاره لعلي، والمستاء دائماً من أمير المؤمنين علي بن أبي طالب \"عليه السلام\".
نسأل الله أن يوفقنا وإياكم لأن نقتدي بالإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، لأن نقتدي برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فيما يمثله عليٌّ من حلقة وصلٍ برسول الله، حلقة وصلٍ موثوقةٍ، وأمينةٍ، وصادقةٍ، وأصيلةٍ، ونسأل الله أن يوفقنا وإياكم لما يرضيه عنا، وأن يرحم شهداءنا الأبرار، وأن يشفي جرحانا، وأن يفرِّج عن أسرانا، وأن ينصرنا بنصره، إنه سميع الدعاء.
والسَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
More...
Description:
كلمة السيد عبد الملك بدرالدين الحوثي في ذكرى استشهاد الإمام علي عليه السلام - 20 رمضان 1442هـ 02-05-2021
أَعُـوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ
بِـسْـــمِ اللهِ الرَّحْـمَـنِ الرَّحِـيْـمِ
الحمدُ لله رَبِّ العالمين، وأَشهَـدُ أن لا إلهَ إلَّا اللهُ الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهَدُ أنَّ سيدَنا مُحَمَّــداً عبدُهُ ورَسُــوْلُه خاتمُ النبيين.
اللّهم صَلِّ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، وبارِكْ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، كما صَلَّيْتَ وبارَكْتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ إنك حميدٌ مجيدٌ، وارضَ اللهم برضاك عن أصحابه الأخيار المنتجبين، وعن سائر عبادك الصالحين.
أيُّها الإخوة والأخوات
السَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
وعظَّم الله لنا ولكم الأجر، في ذكرى استشهاد أمير المؤمنين، وسيِّد الوصيين، وإمام المتقين، علي بن أبي طالب \"عليه السلام\"، الذي أصيب في ليلة التاسع عشر من شهر رمضان المبارك، والتحق بالرفيق الأعلى في ليلة الحادي والعشرين من شهر رمضان المبارك آنذاك، فكان ميعاده للقاء ربه في أشرف الليالي، وأشرف الشهور، وأشرف الأوقات وأفضلها.
واستشهد الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" وهو يقوم بدوره العظيم، في التصدي لحركة النفاق والانحراف في الأمة، ويواصل مشوار الإسلام في امتداده الأصيل والنقي، الإسلام المحمدي الأصيل، الإسلام الذي هو وفق منهج الله \"سبحانه وتعالى\".
والإمام عليٌّ \"عليه السلام\" عندما نتحدث عنه، فمن المهم لنا كأمةٍ مسلمةٍ أن نستفيد من سيرته، ومن عطائه، وأن نعي منزلته، وطبيعة علاقتنا به كأمةٍ مسلمة.
وعندما نعود إلى الآيات القرآنية، والنصوص النبوية، ونعود إلى سيرة عليٍّ \"عليه السلام\"، نجد كل ذلك يتمحور حول جانبين أساسيين، كلٌّ منهما له علاقةٌ بنا نحن:
الأول: أنَّ الروايات، وقبل ذلك الآيات القرآنية، إضافةً إلى سيرة عليٍّ \"عليه السلام\"، كل ذلك يقدِّم لنا نحن علياً \"عليه السلام\" باعتباره النموذج، وحسب التعبير القرآني: الشاهد، الذي يقدِّم الصورة المتكاملة الراقية عن الإسلام، الإسلام في أثره في الإنسان، الإسلام الذي يتجسد كـ:
مبادئ.
وأخلاق.
وقيم.
وسيرة عملية في واقع الحياة.
وهذا جانبٌ مهمٌ لنا نحن، نتطلَّع إلى عليٍّ \"عليه السلام\" على هذا الأساس؛ لنرى فيه ما يجسِّد هذا الإسلام بشكلٍ كاملٍ وراقٍ، يبرز:
عظمته.
قيمته.
أثره.
أهميته.
ونرى أيضاً هذا الإسلام في الواقع الحياتي والعملي في أثره ونتائجه، وفي أثره التربوي في الإنسان، كيف يسمو بهذا الإنسان، كيف يرتقي بهذا الإنسان، كيف تبرز آثاره على كل المستويات في هذا الإنسان، فيؤدي دوره في الحياة دوراً عظيماً متكاملاً.
ونرى الإسلام بصفائه، بنقائه، بحقيقته، سليماً من كل شائبة، من كل تشويش، وهذه مسألة في غاية الأهمية لنا نحن، نحن في أمسِّ الحاجة إليها كأمةٍ مسلمة؛ لأنه في تاريخ الأمة وإلى اليوم، يبرز الكثير ممن يُقدَّم لنا باعتباره يُقدِّم النموذج الذي يعبِّر:
في سلوكه.
في أعماله.
في مواقفه.
في فكره.
في ثقافته.
عن الإسلام؛ بينما تشوبه الكثير من الشوائب التي تشوِّه الإسلام، وهذا يحصل كثيراً في تاريخ الأمة، وفي حاضرها، ويحصل أيضاً في مستقبلها، فعندما تكون هناك نسخة أصيلة، سليمة، موثَّقة، نقية، متجسِّدة، بسيرتها، بسلوكها، تمثل هي النموذج الحقيقي، يمكننا أن نستفيد من ذلك على امتداد تاريخنا، ثم في حاضرنا، وفي مستقبلنا.
والجانب الآخر بالنسبة للإمام عليٍّ \"عليه السلام\": هو ما يمثله من دورٍ أساسيٍ في الامتداد لهذا الإسلام، ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في موقعه في القدوة والهداية، وهذه أيضاً مسألة مهمةٌ جداً، وبالذات تجاه ما عصف بالأمة من الفتن والمؤامرات، والنشاط الكبير لحركة النفاق والانحراف في داخل الأمة، التي سعت:
إلى تزييف حقيقة الإسلام.
وإلى تغيير الكثير والكثير من معالمه.
وإلى التشويش على الكثير والكثير من حقائقه.
وعندما نتحدث عن عناوين مختصرة من مسيرة عليٍّ في المرحلتين:
في مرحلة التنزيل.
وفي مرحلة التأويل.
في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد ذلك، حتى من خلال عناوين محدودة، وعرضٍ موجز، يتجلى لنا ذلك بوضوح.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" كانت مسيرة حياته متميزة، وعلى نحوٍ فريدٍ وعجيب، فهو وليد الكعبة، وهو في ختام حياته شهيد المحراب، وما بين ولادته واستشهاده مسيرة حياةٍ كلها متميزةً بالإيمان، والتقوى، والعمل الصالح، والسمو، والارتقاء الإنساني والأخلاقي، وعلى نحوٍ عجيب.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" حظي في طفولته، ثم ما بعد ذلك، في كل مرحلة حياته مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، إلى أن توفي رسول الله، حظي بعلاقةٍ واختصاصٍ في صلته برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فهو تربَّى عند رسول الله، كفله رسول الله \"صلى الله وسلم عليه وعلى آله\"، وربَّاه عنده، ومنذ طفولته المبكرة نشأ في بيت رسول الله، وعند رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ورسول الله حتى ما قبل البعثة كان إنساناً عظيماً، ومؤمناً، متكاملاً، وعلى درجةٍ عظيمةٍ في أخلاقه، ونبله، ومرتبةٍ عاليةٍ جداً في ذلك، وموحِّداً لله \"سبحانه وتعالى\"، ويحظى بعناية إلهية خاصة، ما قبل البعثة إلى الناس.
ثم في تلك المرحلة التي ربَّى فيها علياً عنده، لم يكن اهتمامه بعليٍّ \"عليه السلام\" منحصراً على العناية به في التغذية، والاحتياجات الخاصة الإنسانية، فيهتم به فيما يتعلق باحتياجاته كإنسان، من غذاء، وكساء، ونحو ذلك؛ إنما كانت عنايته أيضاً بعليٍّ \"عليه السلام\" متجهةً إلى التربية الأخلاقية، فكما قال عليٌّ \"عليه السلام\"، وهو يتحدث عن تلك المرحلة في طفولته: (ولقد كنت أتَّبعه اتِّباع الفصيل أثر أمه، يرفع لي في كل يومٍ من أخلاقه عَلَماً، ويأمرني بالاقتداء به)، هكذا كان، يتربى تربية يسمو فيها، على المستوى الأخلاقي، والروحي، والتربوي، والإنساني، على نحوٍ فريد، مع قابليةٍ عاليةٍ جداً عند الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، وهبه الله \"سبحانه وتعالى\" قابليةً عالية، ثم هيَّأ له هذا المربي العظيم: رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\".
عند البعثة كان رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" وهو يعتني بهذا الفتى اليافع عنده، كان عليٌّ \"عليه السلام\" السابق إلى الإيمان برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، والمصدِّق به، وبرسالته، وبعثته، على نحوٍ متميز، لم يسبق ذلك شركٌ، ولا شيءٌ من دنس الجاهلية.
الذين أسلموا، أسلموا مع سابقة شرك، مع ماضٍ من دنس الجاهلية وسلبياتها؛ أمَّا الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" فكانت سابقته الإيمانية متميزةً، بأنه لم يسبقها أبداً شيءٌ من الشرك، ولا من دنس الجاهلية ورذائلها.
والسبق فضيلةٌ عظيمة، الله \"سبحانه وتعالى\" يقول في القرآن الكريم: {وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (10) أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ}[الواقعة: 10-11]، سبقٌ إلى الإيمان، سبقٌ إلى أيضاً الإيمان على نحوٍ راقٍ جداً، وإلى نصرة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فسبق كمؤمنٍ عظيمٍ، وجنديٍ متميزٍ، ومناصرٍ صادقٍ، مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\".
ثم في إطار مسيرة حياته، هذه المسيرة الإيمانية مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، كان في حياته، وفي أثر تربية رسول الله له، يرتقي ارتقاءً عظيماً ومتميزاً:
على المستوى الأخلاقي، والإيماني.
وعلى المستوى المعرفي.
وعلى مستوى الهداية، والوعي، والبصيرة.
فكان هو النموذج الأول، والمصداق الأول، لكل ما ورد في القرآن الكريم من آياتٍ قرآنية فيها ثناءٌ على المؤمنين، وحديثٌ عن مواصفاتهم، وبشارةٌ لهم، وكما قال ابن عباسٍ رحمه الله: (أنَّ كل آيةٍ نزلت فيها ثناءٌ على المؤمنين، وبشارةٌ لهم، إلَّا وكان عليٌّ أميرها)، يعني: كان هو المصداق الأول، والنموذج الأكمل، المصداق الأول لتلك الآيات، التي تتحدث عن المؤمنين، عن مواصفاتهم، عن الثناء عليهم، وعن البشارة لهم، وعن النموذج الأكمل فيما بينهم، ولذلك كان هو الشاهد- بحسب التعبير القرآني- الذي يشهد فيما هو عليه من سلوك، في أثر الإسلام فيه، في سموه الإنساني والأخلاقي، يشهد:
على عظمة الرسول.
على عظمة الرسالة.
على عظمة القرآن.
لأنه من خلال أثر التربية النبوية في هذا الإنسان، أثر القرآن فيه، أثر الإسلام فيه، يتجلى للناس أنَّ عظمة الإسلام فعلاً مسألة مؤكَّدة ومتجسِّدة في واقع الحياة، وليست فقط نظريةً مثاليةً لا يمكن أن نلمس، أو نرى آثارها، في واقع الحياة.
عندما نأتي إلى مسيرة حياته في ظل رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، مؤمناً به، ومناصراً له، وجندياً مخلصاً معه، ووزيراً صادقاً، نجد تلك الحياة المتميزة، الإيمانية، العظيمة:
فعلى مستوى الجهاد: كان جهاده في سبيل الله، وبيعه لنفسه من الله \"سبحانه وتعالى\"، وتفانيه في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، على نحوٍ متميزٍ، جعل منه رجل المهمات الصعبة، والمواقف الاستثنائية، والبطولات التي سطَّرها التاريخ، ولا مثيل لها في تاريخ الإسلام:
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" في مرحلة مكة، ما قبل الهجرة، كان ملازماً لرسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وكان هو الحارس الشخصي الملازم على نحوٍ دائم، والحاضر في كل لحظة لأن يفدي رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" بنفسه، بروحه وحياته.
وفي تلك المرحلة الحسَّاسة كان يواصل هذا الدور، إلى أن أتى ميعاد الهجرة من مكة إلى المدينة، فكان هو الذي قام بالمهمة في تلك الليلة، مهمة الفداء، مهمة المبيت على فراش النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في عملية تمويهية أمنية، تمثل غطاءً لخروج النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وانتقاله من منزله إلى خارج مكة، إلى الغار.
فالإمام عليٌّ \"عليه السلام\" في تلك الليلة، عندما عرض عليه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" هذه المهمة الفدائية، تلقَّاها بكل استبشار، بكل رحابة صدر، بكل شوقٍ وتلهف، بإيمانه العظيم، وكان المهم عنده هو سلامة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وبات في تلك الليلة، جاهزاً بشكلٍ تامٍ للشهادة في سبيل الله، والتضحية في سبيل الله، بائعاً نفسه من الله.
وكان أن سطَّر القرآن الكريم ليلة الفداء هذه، وذلك الموقف الذي باع فيه نفسه من الله، واستعد بشكلٍ تامٍ للشهادة في سبيل الله، القرآن سطَّر هذا الموقف وجعله نموذجاً، وهذا ما ركَّز عليه القرآن في كل ما قدَّمه بشأن عليٍّ، أنه يقدمه كنموذج في دائرة العنوان الإيماني؛ ليكون نموذجاً للمؤمنين، نموذجاً للناس في: الإيمان، والارتقاء الإيماني، والالتزام الإيماني، والاستعداد العالي للتضحية في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، فقال الله \"جلَّ شأنه\": {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ}[البقرة: الآية207]، فالقرآن يقدِّم لنا هذا الموقف العظيم، ويكشف لنا في هذه الآية المباركة حتى عن مشاعر عليٍّ \"عليه السلام\"، أنه عندما قدَّم نفسه في سبيل الله، مستعداً للتضحية على نحوٍ تامٍ بدون أي تردد، وبدون أي توجس، وبدون أي قلق، هو يبتغي بذلك مرضاة الله \"سبحانه وتعالى\"، مخلصاً لله \"سبحانه وتعالى\"، وكان الإخلاص لله من أبرز العناوين التي نجدها في سيرة عليٍّ \"عليه السلام\":
في أعماله.
في مواقفه.
في جهاده.
في كل أعماله الصالحة، الإخلاص لله، والابتغاء لمرضاة الله، والسعي لنيل محبة لله \"سبحانه وتعالى\" ومرضاته، كان هو الهدف والغاية الرئيسية للإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، وهذا درسٌ عظيمٌ ومهمٌ لنا جميعاً، لكل المسلمين، لكل المؤمنين.
وهكذا استمر في عطائه مع الله \"سبحانه وتعالى\"، بعد هجرة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" أدَّى عنه الودائع، وكان يؤدِّي أيضاً هذا النوع من المهام، التي لها صلة مباشرة وخاصة برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فيؤدي عنه، فأدَّى عنه الودائع في مكة، كان هو أيضاً الذي يقضي دينه، يؤدي كل المهام الخاصة المتصلة بالنبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، يثق به ثقةً كاملة، ويطمئن إليه أنه سيؤدي عنه ما يؤديه.
وهاجر أيضاً، والتحق برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ونقل معه أسرة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى المدينة، في قصةٍ مشهورة، تحدى فيها خطر المشركين، عندما حاولوا أن يلحقوا به، وأن يحولوا بينه وبين الهجرة، وأن يعيدوا من معه من أسرة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، إلَّا أنه تصدى لهم بكل حزم، ونجح في مهمته.
في مرحلة المدينة أدَّى دوره على نحوٍ عظيمٍ ومتميز، فكان في كل أدائه الجهادي، وفي كل المعارك، وفي كل المواقف والتحديات، التي كانت أبرز ملاحم الإسلام، هو البطل الأول، الذي يؤدِّي دوره العظيم، كجنديٍ عظيمٍ متميز، ومتفانٍ في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\":
في غزوة بدرٍ الكبرى:
كان له أكبر رصيدٍ بين المجاهدين مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في تفانيه، واستبساله، ونكايته بالمشركين، وكان هو من باشر القتل بمعظم القتلى الذين قتلوا في غزوة بدر، وعندما برز هو وعمه حمزة بن عبد المطلب، وابن عمه عبيدة بن الحارث، نزلت الآية القرآنية: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ}[الحج: من الآية19]،فكان هو المخاصم لأعداء الله، للذين واجهوا الإسلام، وحاربوا الإسلام، وبرز هو وعمه وابن عمه في أول ما بدأت تلك المواجهة، في تلك المعركة، في موقفٍ تاريخيٍ مذكورٍ في السِّير النبوية. واستمر كذلك.
في معركة أحد:
كان له أبرز دورٍ في نصرة الإسلام، في الجهاد، فكان هو قاتل حملة الرايات، وقاتل الصناديد والأبطال من المشركين، وكان هو الثابت، المتفاني، المستبسل، عند الهزيمة، التي شملت الكثير من المسلمين، {إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ}[آل عمران: من الآية153]، كانت هزيمةً مؤلمة.
وكانت المرحلة آنذاك وذلك الظرف الحساس يشكِّل خطورةً كبيرةً على حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فكان ثابتاً مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ومستبسلاً، ومتفانياً، إلى حدٍ عجيب، كانت كلما أتت كتيبة تتجه نحو النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وتزحف بكل جدية، وبكل اهتمام، بهدف قتله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، يتجه الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" إلى تلك الكتيبة بكل استبسال وتفانٍ، ويقتل قائدها، فتنكسر، وترجع من زحفها، ثم يتجه إلى الكتيبة الأخرى... وهكذا، من هنا وهناك بكل استبسالٍ وتفانٍ، إلى درجة أن عَجِب جبرائيل- وهو حاضرٌ إلى جوار النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"- من هذا الاستبسال، من هذا التفاني، فقال: (إنَّ هذه لهي المواساة)، فقال النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (إنَّه منِّي، وأنا منه)، فقال جبرائيل: (وأنا منكما)، هذا شرفٌ عظيمٌ جداً جداً.
في معركة الخندق:
وهي معركة خطيرة وحساسة، وحوصرت فيها المدينة، وبلغت الحالة في داخل المدينة مبلغاً كبيراً من الضغط النفسي والمعنوي على المسلمين، {هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا}[الأحزاب: من الآية11]، وتحدث المنافقون بالإرجاف، والتهويل، والتشكيك، ولعبوا دوراً سلبياً في زعزعة الوضع الداخلي للمسلمين، واشتدت المشكلة على المسلمين، وتضاعف الهم والمحنة عليهم.
كان للإمام عليٍّ \"عليه السلام\" دوره البارز والمتميز، وتصدى هو لعمرو بن عبد ود العامري، وضربه ضربته الشهيرة، وقُتِلَ، وهو من أكابر فرسان المشركين، ومثَّل قتله ضربة معنوية كبيرة للأعداء.
وكانت تلك المواقف البطولية، وذلك الدور الرئيسي، في كل تلك المرحلة، مرحلة غزوة الخندق، منذ بداية الحصار، إلى حين انكشافه، وهزيمة المشركين ورجوعهم، كان الدور المحوري البارز للإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، يقدم النموذج الذي تحدثت عنه الآية المباركة في سورة الأحزاب: {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا}[الأحزاب: الآية23]، فكان المصداق الأول، والنموذج الأكمل لهذه النماذج:
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\".
وحمزة بن عبد المطلب.
وجعفر بن أبي طالب.
كانوا هم النموذج الأكمل، وهم المصداق الأول، وهي تشمل كل المؤمنين الذين نهجوا هذا النهج، ولكنهم يبقون دائماً في أول القائمة، وفي أول العنوان، على نحوٍ متميزٍ في كمال ما كانوا عليه من ذلك، وفي أنهم الذين بادروا وسبقوا إلى ذلك.
فيما بعد ذلك أيضاً، في ملاحم الإسلام الأخرى:
في خيبر:
وملحمة خيبر من أبرز الملاحم التاريخية، ومن أهم الملاحم في السيرة النبوية، وقد تراجع فيها المسلمون مرةً تلو أخرى، إلى أن قال النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (لأبعثن غداً عليهم رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، كراراً، غير فرار، يفتح الله على يديه)، الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" كان في المراحل التي تراجع فيها المسلمون في تلك الملحمة، كان مصاباً بالرمد، كان مريضاً، لا يبصر، لا يكاد يبصر موضع قدميه، فلم يكن حضر، وباشر، وشارك، في تلك العمليات التي تراجع فيها المسلمون، ولكن رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" تفل بريقه المبارك في عينيه، ودعا له بالشفاء، وشفي بشكلٍ تام، وأعطاه الراية، وانطلق، وفتح الله على يديه، في لحظةٍ سريعةٍ، ومعركةٍ حاسمةٍ وسريعة.
وكانت هذه المواصفات العظيمة والراقية تقدمه أيضاً كنموذج، (رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، كرار، غير فرار، يفتح الله على يديه).
فنجده أيضاً في ملحمة حنين:
كان هو الثابت، بعد الهزيمة الكبيرة التي لحقت بأكثر المسلمين، ولم يبقَ مع رسول الله إلا القلة القليلة، كان أبرزهم وأكثرهم تفانياً واستبسالاً، وأكثرهم عناءً وجهداً وعملاً، وإسهاماً في الدفع عن رسول الله، وعن الإسلام، والتصدي للأعداء، كان هو عليٌّ \"عليه السلام\"، وأنزل الله سكينته على رسوله، وعلى المؤمنين، وتراجع المسلمون، وختمت تلك الملحمة التاريخية، والمعركة الكبيرة، بالنصر الحاسم لصالح المسلمين.
وهكذا في محطات كثيرة، وفي مراحل كثيرة، وفي تحديات كثيرة، كان يتميز الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" بتفانيه في سبيل الله، ببطولاته، التي لم تكن فقط مبنيةً على الشجاعة الفطرية فحسب؛ وإنما تستند أيضاً إلى هذا الرصيد الإيماني العظيم، وإلى هذا التوفيق والتأييد الإلهي الكبير، الذي كان يحظى به؛ لإيمانه، وصلته بالله \"سبحانه وتعالى\"، وعظيم منزلته في الإسلام.
والجهاد في سبيل الله عندما ينطلق من هذا المنطلق الإيماني، وبهذه القيم، وبهذا الوعي لعظمة الإسلام، وبهذا الحمل للإسلام، كقضية تدافع عنها، وتجسدها في واقعك العملي، يكون فضيلةً عظيمةً، ومرتبةً عاليةً جداً، وهو في سلم الأعمال الصالحة، وفي سلم العناوين، وفي قائمة العناوين الإيمانية، في المرتبة الأولى، {وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (95) دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً}[النساء: 95-96].
الإمام عليٌ \"عليه السلام\" على هذا المستوى في جهاده، في ارتقائه الإيماني، في علمه ومعرفته، وما منحه الله \"سبحانه وتعالى\" من الهداية، كان:
هو الأُذُن الواعية: المصداق الأول في الأُذُن الواعية، في الوعي، في الاستيعاب، في التفهم، في الاستنارة بنور الله \"سبحانه وتعالى\"، في الاستيعاب لما بلَّغه رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى الأمه، وفيما علَّم به هذا التلميذ العظيم.
وكان هو باب مدينة العلم: كما في النص عن النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وهو يكشف لنا:
المقام العلمي العظيم من جهة.
والجانب المؤتمن لحمل وتبليغ ما أداه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى الأمة، على نحوٍ وثيقٍ، وصادقٍ، ونقيٍ من كل الشوائب، وسليمٍ، أمانةٍ عاليةٍ، واستيعابٍ كبير، ومن واقع هذا الدور الذي يؤديه من خلال اقترانه بالقرآن.
وكان كما قال عنه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (عليٌ مع القرآن، والقرآن مع علي):
فكان مع القرآن: استوعب القرآن، استوعب هداية القرآن الكريم على نحوٍ عظيم، يناسب هذا الدور الذي أوكل إليه، هذا الدور الذي عليه أن يقوم به.
ثم مع ذلك كان مجسداً للقرآن الكريم في واقع حياته:
كمواقف.
وكتعليمات.
وكسلوك.
وكأخلاق.
وكمبادئ.
وكمسيرة عمل، يلتزم به، يتحرك على أساسه.
فكان قرآناً ناطقاً بكل ما تعنيه الكلمة.
وكان يمثل استمرارية الإسلام بشكلٍ صحيح: في تقديمه للأمة، وفي الحركة بالأمة على أساسه، بشكلٍ صحيح؛ حتى تكون الأمة مهتديةً بالقرآن، حتى لا تتشوش عليها هذه العلاقة مع القرآن:
بمفاهيم غير صحيحة.
بتأويلٍ غير صحيح.
بتفسيرٍ غير صحيح.
بتزييفٍ للمفاهيم، التي تحسب على القرآن الكريم.
فكان هو الذي قاتل على تأويل القرآن، كما قاتل النبي على تنزيله، كما أخبر النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" بذلك، وهو يخبر هذه الأمة، ويطلعها على طبيعة هذا الدور، الذي يقوم به عليٌّ \"عليه السلام\" ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فأخبر الأمة أن علياً \"عليه السلام\" سيقاتل على تأويل القرآن، كما قاتل النبي على تنزيله.
فكان في مرحلة التنزيل، في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ذلك النموذج العظيم، الأكمل، والمصداق الأول، على مستوى العناوين الإيمانية والقرآنية.
وما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" كان هو الذي يؤدي هذا الدور في:
الحماية للمفاهيم القرآنية.
ومعارف الإسلام.
وحقيقة الإسلام.
ويتحرك بالأمة على هذا الأساس بشكلٍ صحيح؛ حتى يحميها من الانحراف، الانحراف الخطير الذي تتحرك به حركة النفاق والانحراف في داخل الأمة، وتحركت، وتحركت بذلك.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" منزلته التي كان فيها في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، حددها، ووضحها، وبينها، النص النبوي، الذي رواه المسلمون بكل مذاهبهم، عندما قال \"صلى الله عليه وعلى آله وسلم\" للإمام عليٍّ \"عليه السلام\": (أنت مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعد)، فله هذه المنزلة وهو يؤدي هذا الدور، في عهد النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد وفاته.
وبقي الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" يمثل العلامة الفارقة بين الإيمان والنفاق، فهو يمثل الاتجاه الصحيح، السليم، في مسيرة الإسلام، وعندما أتت حركة النفاق لتناوئ هذا المسار، ولتحارب هذا المسار والامتداد الأصيل والصحيح، كانت مكشوفة، كانت مفضوحة؛ لأن هناك ما يعبر عن الامتداد الصحيح، ما يمثل النموذج، وما يمثل الشاهد، وما له موقع القيادة والهداية، وهذه نعمة كبيرة جداً للأمة، هذه نعمة جداً، حتى لا تلتبس الأمور ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"؛ لأن النبي أنذر أمته بأنها مقبلةٌ على فتنٍ كقطع الليل المظلم، وأنها مقبلةٌ على حالةٍ من التلبيس والانحراف، وأنها مقبلة على حالةٍ من الانحراف، الذي يشكل خطورةً كبيرةً عليها:
في نقاء الإسلام.
في فهمها الصحيح للإسلام.
في أن تسير بشكلٍ مكتملٍ، وفق مبادئ الإسلام كاملةً نقية.
فعملية الانحراف والتلبيس لن تأتي لتغير العنوان الإسلامي بكله، ولكنها تشوشه، تُلَبِّس فيه، تزيف الكثير من حقائقه؛ فتلبس الحق بالباطل، وتحول هذا الإسلام إلى إسلامٍ مختلطٍ بكثيرٍ من المفاهيم، التي تحسب عليه وليست منه، وإنما هي في حقيقة أمرها تعبر عن النفاق، وقد كان هذا الخطر على نحوٍ كبيرٍ جداً، في مرحلة عودة الدور الأموي، والنفوذ الأموي، من جديد في واقع الأمة، وكان يشكِّل خطراً كبيراً جداً على هذه الأمة، في إسلامها:
في إسلامها أن يبقى نقياً.
أن يبقى سليماً.
أن تبقى له ثمرته الحقيقية في الإنسان والحياة.
وأن يبقى له أثره المبتغى منه في واقع الحياة، وفي الدنيا والآخرة.
فالدور الأموي الذي شكَّل تهديداً بالغاً، وغذى معه كل أشكال الانحراف، ووظف معه كل حالات الانحراف الموجودة والممتدة في مختلف الساحة الإسلامية، والتي وصلت إلى مستوى التوغل إلى داخل الكوفة، عاصمة الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، عاصمة الأمة الإسلامية، فوظف كل حالة الانحراف، وغذاها، وحركها، بما في ذلك ظاهرة الخوارج، استفاد منها الجانب الأموي، وحركها وفق خيوطه وأساليبه الماكرة والخبيثة، وشغَّلها على النحو الذي يحقق له أهدافه ومآربه الشيطانية.
فالإمام عليٌّ \"عليه السلام\" تصدى للدور الأموي على أكمل وجه، قام بمسؤولياته على أكمل وجه، حفظ للإسلام نقاءه:
وهو يبلِّغ.
وهو يعبِّر.
وهو يقدِّم هذا الإسلام.
وهو يجسد هذا الإسلام:
في مواقفه.
في سلوكه.
في أعماله.
في مواقفه.
وهو يجاهد بكل أشكال الجهاد، ويدافع عن هذا الإسلام، عن الأمة نفسها؛ ليبقى لها هذا الإسلام كما هو، وليعطي هذا الامتداد في مرحلة من أخطر المراحل، ومن أسوأ المراحل، تشكل تهديداً على الإسلام، وتمثل منعطفاً خطيراً جداً في تاريخ الأمة.
وفي نهاية المطاف استشهد، ضحى بحياته، بروحه، في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، وقد أتم دوره، وقام بواجبه، على أكمل وجه.
فكان هو الشاهد في كل تلك المراحل:
في مرحلة التنزيل.
وفي مرحلة التأويل.
وكان هو النموذج، الذي يمكن للأمة أن تتطلع إليه في كل عصر، لتقيس على تلك الروحية، على تلك المنهجية، كل النماذج الأخرى، فتشاهد النموذج الأصيل، والعظيم جداً، والراقي جداً، والكامل، الذي تقيس عليه النماذج الأخرى مهما صغرت، فلا تلتبس عليها مسألة الرموز، مسألة القادة، مسألة الأعلام، الذين تسير بعدهم، الذين تتأثر بهم، الذين تتجه بهم؛ لأن أمامها نموذج واضح جداً، وكامل جداً، ويؤدي دوره في الشهادة على نحوٍ مستمرٍ عبر الأجيال.
عندما نأتي إلى زمننا هذا، نتطلع إلى الإمام عليٍّ \"عليه السلام\" وهو في هذا الموقع:
في موقع القدوة والقيادة.
وهو في موقع أيضاً النموذج الأكمل، والمصداق الأول، لكل تلك العناوين والمواصفات الإيمانية العظيمة.
فنرى فيه مدرسةً متكاملةً، معطاءةً وغنية، نستهدي بها، نستهدي بسيرتها، نستهدي بما قدمه:
في مواقفه.
في صبره.
في عطائه.
ونجد فيه النموذج الإنساني الراقي، المكتمل، الذي قدمه القرآن أيضاً في سورة الإنسان، في عطائه الإنساني، وهو كما قال عنه \"سبحانه وتعالى\"، وهو يقدم صورةً من عطائه مع أصحاب الكساء: {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (9) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا}[الإنسان: 8-10]، وهكذا تقدمه هذه الآيات المباركة، وهو في عطائه، إلى هذا المستوى الذي يؤثر على نفسه في أضيق الحالات، في أشد الظروف، في أقسى الظروف، على المستوى المعيشي، فيؤثر حتى بطعامه، الذي لا يمتلك غيره، يؤثر الفئات المحتاجة، من:
مسكينٍ.
ويتيمٍ.
وأسير.
ويبقى جائعاً. هذا هو عليٌّ \"عليه السلام\" في عطائه الراقي جداً، وبإخلاصٍ عظيمٍ لله \"سبحانه وتعالى\"، ليس لأهداف أخرى، حتى على مستوى الشكور، على مستوى الثناء، على مستوى المديح، لم يسع لذلك من خلال عطائه، فكان ذلك النموذج الراقي في عطائه، في إخلاصه، تجسدت حالته الإيمانية:
في اهتمامه بأمر الناس.
واهتمامه بعباد الله.
ورحمته بالمستضعفين.
ودفاعه عنهم.
وعطائه لهم.
مع خوفٍ من الله \"سبحانه وتعالى\".
ومحبةٍ عظيمةٍ لله \"جلَّ شأنه\".
وصلةٍ إيمانيةٍ راقية.
ثم كان هو ذلك الذي عندما أتت الشهادة قال كلمته الشهيرة: (فزت ورب الكعبة)؛ لأنه:
كان على يقين من سلامة منهجه، من صحة موقفه.
كان على بصيرةٍ عاليةٍ تجاه مسيرته ومواقفه.
كان يدرك أيضاً فضل الشهادة، وعظيم منزلتها، وعظيم منزلته هو فيما أداه، وفيما توفق له، وفيما كان عليه من إيمانٍ عظيم، وفيما عمل به وقدمه من العمل الصالح العظيم.
وبقيت أعماله، وآثار أعماله، ممتدةً فيما قدمه، وفيما أسهم به:
في رفع راية الإسلام.
وفي تخليد الحق.
وفي خدمة المستضعفين.
ممتدةً إلى يوم القيامة.
مدرسةٌ، وقدوةٌ، ومنهجيةٌ نستفيدها من الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، في مرحلةٍ نحن في أمسِّ الحاجة إلى ذلك.
وكان حبه علامةً فارقةً بين الإيمان والنفاق؛ لهذا الدور الذي يؤديه في مستقبل الأمة، ويبقى علامةً فارقةً بين الإيمان، وبين النفاق؛ لأن:
الإيمان في امتداده الأصيل: جسَّده عليٌّ، وقدمه علي.
والنفاق: كان دائماً في الاتجاه المناوئ لعلي، والمعارض لعلي، والباغض لعلي، والكاره لعلي، والمستاء دائماً من أمير المؤمنين علي بن أبي طالب \"عليه السلام\".
نسأل الله أن يوفقنا وإياكم لأن نقتدي بالإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، لأن نقتدي برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فيما يمثله عليٌّ من حلقة وصلٍ برسول الله، حلقة وصلٍ موثوقةٍ، وأمينةٍ، وصادقةٍ، وأصيلةٍ، ونسأل الله أن يوفقنا وإياكم لما يرضيه عنا، وأن يرحم شهداءنا الأبرار، وأن يشفي جرحانا، وأن يفرِّج عن أسرانا، وأن ينصرنا بنصره، إنه سميع الدعاء.
والسَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
48:05
|
المحاضرة الرمضانية التاسعة للسيد عبدالملك بدرالدين الحوثي | 08 رمضان 1443ه 09-04-2022م | Arabic
ـ 📹 المحاضرة الرمضانية الثامنة لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 08-رمضان-1443هـ 09-04-2022م
#رمضان 🌙 1443هـ...
ـ 📹 المحاضرة الرمضانية الثامنة لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 08-رمضان-1443هـ 09-04-2022م
#رمضان 🌙 1443هـ
#محاضرة_السيد_القائد
أَعُـوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ
بِـسْـــمِ اللهِ الرَّحْـمَـنِ الرَّحِـيْـمِ
الحمدُ لله رَبِّ العالمين، وأَشهَـدُ أن لا إلهَ إلَّا اللهُ الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهَدُ أنَّ سيدَنا مُحَمَّــداً عبدُهُ ورَسُــوْلُه خاتمُ النبيين.
اللّهم صَلِّ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، وبارِكْ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، كما صَلَّيْتَ وبارَكْتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ إنك حميدٌ مجيدٌ، وارضَ اللهم برضاك عن أصحابه الأخيار المنتجبين، وعن سائر عبادك الصالحين والمجاهدين.
أيُّها الإخوة والأخوات
السَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
اللهم اهدنا، وتقبَّل منا، إنك أنت السميع العليم، وتب علينا، إنك أنت التواب الرحيم.
من ضمن الآيات المباركة التي أتت في سياق الحديث عن فريضة صيام شهر رمضان- الآيات المباركة في سورة البقرة- أتى قول الله \"سبحانه وتعالى\": {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ}[البقرة: الآية186].
الدعاء في الحالة الإيمانية هو من لوازم الإيمان، وجزءٌ مما يعبِّر به الإنسان المؤمن عن إيمانه، فالدعاء يعبِّر عن إيمانك بالله \"سبحانه وتعالى\" أنه الحي القيوم، أنه المدبر لشأنك، وشؤون السماوات والأرض، وشؤون الخلائق أجمعين، أنه الرحيم الكريم، أنه أرحم الراحمين، أنه سميع الدعاء، أنه المنعم المتفضل، أنه الملاذ والملجأ، الذي تلجأ إليه، وتلوذ به، وتفر إليه من كل هموم هذه الحياة، ومن كل التحديات والمخاطر فيها.
ومن جانبٍ آخر، هو يعبِّر ويدل على تذكُّرك لله \"سبحانه وتعالى\"، أنك ذاكرٌ له، لست غافلاً عنه، لست ناسياً له، الحالة البديلة عن الدعاء لله \"سبحانه وتعالى\"، هي: حالة النسيان لله، والالتجاء إلى غير الله \"سبحانه وتعالى\"؛ لأن الإنسان هو عبدٌ ضعيفٌ مفتقرٌ دائماً، يحتاج إلى العون، يحتاج إلى الرعاية، يحتاج إلى المساعدة، هو إمَّا أن يكون متوجِّهاً إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، وإلَّا كان البديل أن يتوجه إلى غير الله، إلى أمثاله من العبيد الضعفاء المحتاجين، الفقراء إلى الله \"سبحانه وتعالى\".
وهو أيضاً يعبِّر عن رجائك كإنسانٍ مؤمن، أنك ترجو الله، ترجو رحمته، ترجو فضله، تثق به، تتوكل عليه، أنك منيبٌ إليه، توَّابٌ إليه، رجَّاعٌ دائماً في كل المهمات والملمات، وفي كل الأحوال والظروف، إلى رحمته وكرمه وفضله، فالدعاء موقعه من الإيمان هذا الموقع المهم جدًّا، والذي لا بدَّ منه في الحالة الإيمانية.
في إطار الحديث عن صيام شهر رمضان المبارك في الآيات المباركة من سورة البقرة، أتت هذه الآية المباركة، بهذا التعبير الرقيق، الذي يعبِّر عن رحمة الله \"سبحانه وتعالى\"، وعن كرمه، وعن فضله، {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، الله \"سبحانه وتعالى\" هو القريب من عباده، يعلم بكل أحوالهم وظروفهم، ويسمع دعاءهم ونداءهم، يَذْكُر من ذَكَرَه، ويَشْكُر من شَكَرَه، وهو \"سبحانه وتعالى\" يجيب الدعاء، يسمع الدعاء، ويجيب الدعاء، {أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، ويَسَّر لعباده مسألة الدعاء، فليست مسألةً معقَّدةً في وسائلها، وليست مسألةً ترتبط بأشخاص محددين فقط، يَسَّر المسألة إلى هذا المستوى: {أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، فهو يجيب كل من دعاه إذا دعاه، وفق حكمته ورحمته \"سبحانه وتعالى\" وتدبيره، وهو الحي القيوم، ووفق ما يتعلق أيضاً بأحوال الداعي إذا دعا، وهو ما نتحدث عن بعضٍ منه على نحوٍ مختصرٍ إن شاء الله.
في مسألة الدعاء، الدعاء حالةٌ مطلوبةٌ من الإنسان في كل الأحوال؛ لأنها- كما قلنا- جزءٌ من إيمانه، ومن التزاماته الإيمانية، ومن اهتماماته الإيمانية، تعبِّر عن عمق علاقته بالله \"سبحانه وتعالى\"، فهي حالةٌ مطلوبةٌ في العسر واليسر، وفي الشدة والرخاء، وفي مختلف الحالات، وفي مختلف الظروف، وفي مختلف الأوقات، فالإنسان المؤمن لا يغفل عن الله بشكلٍ مستمر، لا يبقى في حالةٍ من الغفلة والنسيان والإعراض، وينكفئ على نفسه في همومه، في مشاكل حياته، في آماله ورغباته، في متطلبات حياته، كل شيءٍ في واقع حياته يشده إلى الله، حالة اليسر تشده إلى الله، وحالة العسر كذلك، حالة الرخاء تشده إلى الله، وحالة الشدة كذلك، الاهتمامات التي لديه المتعلقة بإيمانه ودينه ومستقبله في آخرته تشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، وظروف وشؤون حياته هذه، بكل ما فيها من هموم ومشاكل ومعاناة، وبكل ما فيها من يسرٍ وخيرٍ، تشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، فهو ذلك الذي يلتجئ إلى الله دوماً، ويتوجه إليه بالدعاء في كل الحالات، كل شيءٍ يشده إلى الله، يدفعه إلى الدعاء لله \"سبحانه وتعالى\".
البرنامج العبادي في الذكر والصلاة يشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، الأوقات المباركة، الأوقات المميزة، التي تعتبر فرص الاستجابة فيها أكثر، من أهم الأوقات عند الإنسان المؤمن التي يحاول أن يقتنص الفرصة فيها، وألَّا تفوته الفرصة فيها، فهو أيضاً يبحث عن تلك الأوقات، وهو أيضاً يحرص عليها، يحرص على المناسبات، على الأعمال؛ لأن هناك من الأوقات، ومن الأعمال، ومن الحالات، ما تكون فرصة الاستجابة فيها للدعاء أكثر، فهو يحرص على تلك الأوقات المميزة، الحالات المميزة، ومنها: شهر رمضان، ومنها: ليلة القدر أيضاً في داخل شهر رمضان، ومنها: العشر الأواخر في شهر رمضان، ومنها: الأوقات المباركة على الدوام، مثل: أوقات السحر، أوقات آخر الليل، مثل: عقب الصلوات... أوقات متعددة تعطى فيها للإنسان فرصة أن يدعو الله \"سبحانه وتعالى\"، وأن يحظى بالاستجابة من الله \"سبحانه وتعالى\".
لمتابعة آخر الأخبار والتقارير على منبر المركز الإعلامي لـ #أنصار_الله في التيليجرام:
https://t.me/AnsarAllahMC
More...
Description:
ـ 📹 المحاضرة الرمضانية الثامنة لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 08-رمضان-1443هـ 09-04-2022م
#رمضان 🌙 1443هـ
#محاضرة_السيد_القائد
أَعُـوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ
بِـسْـــمِ اللهِ الرَّحْـمَـنِ الرَّحِـيْـمِ
الحمدُ لله رَبِّ العالمين، وأَشهَـدُ أن لا إلهَ إلَّا اللهُ الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهَدُ أنَّ سيدَنا مُحَمَّــداً عبدُهُ ورَسُــوْلُه خاتمُ النبيين.
اللّهم صَلِّ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، وبارِكْ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، كما صَلَّيْتَ وبارَكْتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ إنك حميدٌ مجيدٌ، وارضَ اللهم برضاك عن أصحابه الأخيار المنتجبين، وعن سائر عبادك الصالحين والمجاهدين.
أيُّها الإخوة والأخوات
السَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
اللهم اهدنا، وتقبَّل منا، إنك أنت السميع العليم، وتب علينا، إنك أنت التواب الرحيم.
من ضمن الآيات المباركة التي أتت في سياق الحديث عن فريضة صيام شهر رمضان- الآيات المباركة في سورة البقرة- أتى قول الله \"سبحانه وتعالى\": {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ}[البقرة: الآية186].
الدعاء في الحالة الإيمانية هو من لوازم الإيمان، وجزءٌ مما يعبِّر به الإنسان المؤمن عن إيمانه، فالدعاء يعبِّر عن إيمانك بالله \"سبحانه وتعالى\" أنه الحي القيوم، أنه المدبر لشأنك، وشؤون السماوات والأرض، وشؤون الخلائق أجمعين، أنه الرحيم الكريم، أنه أرحم الراحمين، أنه سميع الدعاء، أنه المنعم المتفضل، أنه الملاذ والملجأ، الذي تلجأ إليه، وتلوذ به، وتفر إليه من كل هموم هذه الحياة، ومن كل التحديات والمخاطر فيها.
ومن جانبٍ آخر، هو يعبِّر ويدل على تذكُّرك لله \"سبحانه وتعالى\"، أنك ذاكرٌ له، لست غافلاً عنه، لست ناسياً له، الحالة البديلة عن الدعاء لله \"سبحانه وتعالى\"، هي: حالة النسيان لله، والالتجاء إلى غير الله \"سبحانه وتعالى\"؛ لأن الإنسان هو عبدٌ ضعيفٌ مفتقرٌ دائماً، يحتاج إلى العون، يحتاج إلى الرعاية، يحتاج إلى المساعدة، هو إمَّا أن يكون متوجِّهاً إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، وإلَّا كان البديل أن يتوجه إلى غير الله، إلى أمثاله من العبيد الضعفاء المحتاجين، الفقراء إلى الله \"سبحانه وتعالى\".
وهو أيضاً يعبِّر عن رجائك كإنسانٍ مؤمن، أنك ترجو الله، ترجو رحمته، ترجو فضله، تثق به، تتوكل عليه، أنك منيبٌ إليه، توَّابٌ إليه، رجَّاعٌ دائماً في كل المهمات والملمات، وفي كل الأحوال والظروف، إلى رحمته وكرمه وفضله، فالدعاء موقعه من الإيمان هذا الموقع المهم جدًّا، والذي لا بدَّ منه في الحالة الإيمانية.
في إطار الحديث عن صيام شهر رمضان المبارك في الآيات المباركة من سورة البقرة، أتت هذه الآية المباركة، بهذا التعبير الرقيق، الذي يعبِّر عن رحمة الله \"سبحانه وتعالى\"، وعن كرمه، وعن فضله، {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، الله \"سبحانه وتعالى\" هو القريب من عباده، يعلم بكل أحوالهم وظروفهم، ويسمع دعاءهم ونداءهم، يَذْكُر من ذَكَرَه، ويَشْكُر من شَكَرَه، وهو \"سبحانه وتعالى\" يجيب الدعاء، يسمع الدعاء، ويجيب الدعاء، {أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، ويَسَّر لعباده مسألة الدعاء، فليست مسألةً معقَّدةً في وسائلها، وليست مسألةً ترتبط بأشخاص محددين فقط، يَسَّر المسألة إلى هذا المستوى: {أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، فهو يجيب كل من دعاه إذا دعاه، وفق حكمته ورحمته \"سبحانه وتعالى\" وتدبيره، وهو الحي القيوم، ووفق ما يتعلق أيضاً بأحوال الداعي إذا دعا، وهو ما نتحدث عن بعضٍ منه على نحوٍ مختصرٍ إن شاء الله.
في مسألة الدعاء، الدعاء حالةٌ مطلوبةٌ من الإنسان في كل الأحوال؛ لأنها- كما قلنا- جزءٌ من إيمانه، ومن التزاماته الإيمانية، ومن اهتماماته الإيمانية، تعبِّر عن عمق علاقته بالله \"سبحانه وتعالى\"، فهي حالةٌ مطلوبةٌ في العسر واليسر، وفي الشدة والرخاء، وفي مختلف الحالات، وفي مختلف الظروف، وفي مختلف الأوقات، فالإنسان المؤمن لا يغفل عن الله بشكلٍ مستمر، لا يبقى في حالةٍ من الغفلة والنسيان والإعراض، وينكفئ على نفسه في همومه، في مشاكل حياته، في آماله ورغباته، في متطلبات حياته، كل شيءٍ في واقع حياته يشده إلى الله، حالة اليسر تشده إلى الله، وحالة العسر كذلك، حالة الرخاء تشده إلى الله، وحالة الشدة كذلك، الاهتمامات التي لديه المتعلقة بإيمانه ودينه ومستقبله في آخرته تشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، وظروف وشؤون حياته هذه، بكل ما فيها من هموم ومشاكل ومعاناة، وبكل ما فيها من يسرٍ وخيرٍ، تشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، فهو ذلك الذي يلتجئ إلى الله دوماً، ويتوجه إليه بالدعاء في كل الحالات، كل شيءٍ يشده إلى الله، يدفعه إلى الدعاء لله \"سبحانه وتعالى\".
البرنامج العبادي في الذكر والصلاة يشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، الأوقات المباركة، الأوقات المميزة، التي تعتبر فرص الاستجابة فيها أكثر، من أهم الأوقات عند الإنسان المؤمن التي يحاول أن يقتنص الفرصة فيها، وألَّا تفوته الفرصة فيها، فهو أيضاً يبحث عن تلك الأوقات، وهو أيضاً يحرص عليها، يحرص على المناسبات، على الأعمال؛ لأن هناك من الأوقات، ومن الأعمال، ومن الحالات، ما تكون فرصة الاستجابة فيها للدعاء أكثر، فهو يحرص على تلك الأوقات المميزة، الحالات المميزة، ومنها: شهر رمضان، ومنها: ليلة القدر أيضاً في داخل شهر رمضان، ومنها: العشر الأواخر في شهر رمضان، ومنها: الأوقات المباركة على الدوام، مثل: أوقات السحر، أوقات آخر الليل، مثل: عقب الصلوات... أوقات متعددة تعطى فيها للإنسان فرصة أن يدعو الله \"سبحانه وتعالى\"، وأن يحظى بالاستجابة من الله \"سبحانه وتعالى\".
لمتابعة آخر الأخبار والتقارير على منبر المركز الإعلامي لـ #أنصار_الله في التيليجرام:
https://t.me/AnsarAllahMC
12:43
|
محاور الحوار (040) - وصف تام لبعض أصحاب الرسول الأعظم (ص) - Arabic
#أهل_السنة_و_الجماعة
#أهل_البدعة_و_الخلاف
#التعجب
#الولاية_الإمامة_الخلافة
#أهل_البيت
#وصاية_النبي
#الغدير...
#أهل_السنة_و_الجماعة
#أهل_البدعة_و_الخلاف
#التعجب
#الولاية_الإمامة_الخلافة
#أهل_البيت
#وصاية_النبي
#الغدير
#البكرية_و_العمرية
وقد قال بعض المعتزلة لأحد الشيعة: إن أمركم - معشر الشيعة - لعجيب، ورأيكم طريف [ غير مصيب ]، لأنكم أقدمتم على وجوه الصحابة
الأخيار، وعيون الأتقياء الأبرار، الذين سبقوا إلى الإسلام، واختصوا بصحبة الرسول (صلى الله عليه وآله)، [ وشاهدوا المعجزات، ] وقطعت أعذارهم الآيات، وصدقوا بالوحي، وانقادوا إلى الأمر والنهي، وجاهدوا المشركين، ونصروا رسول رب العالمين، ووجب أن يحسن بهم الظنون، ويعتقد فيهم الاعتقاد الجميل، فزعمتم أنهم خالفوا الرسول (صلى الله عليه وآله) وعاندوا أهله من بعده، واجتمعوا على غصب حق الإمام ، وإقامة الفتنة في الأنام، واستأثروا بالخلافة ، [ وسارعوا ] إلى الترأس على الكافة، وهذا مما تنكره العقول وتشهد أنه مستحيل، فالتعجب منكم طويل!
قال له الشيعي : أما المؤمنون من الصحابة الأخيار، والعيون من الأتقياء الأطهار، فمن هذه الأمور مبرؤون، ونحن عن ذمهم متنزهون، وأما من سواهم ممن ظهر زللهم وخطائهم، فإن الذم متوجه إليهم، وقبيح فعلهم طرق القول عليهم، ولو تأملت حال هؤلاء الأصحاب لعلمت أنك نفيت عنهم خطأ قد فعلوا أمثاله، ونزهتهم عن خلاف قد ارتكبوا أضعافه، وتحققت أنك وضعت تعجبك في غير موضعه، وأوقعت استطرافك في ضد موقعه، فاحتشمت من خصمك، ورددت التعجب إلى نفسك.
وهؤلاء القوم الذين فضلتهم وعظمتهم، وأحسنت ظنك بهم ونزهتهم، هم الذين دحرجوا الدباب ليلة العقبة بين رجلي ناقة رسول الله (صلى الله عليه وآله) طلبا لقتله .
وهم الذين [ كانوا ] يضحكون خلفه إذا صلى بهم ويتركون الصلاة معه وينصرفون إلى تجاراتهم ولهوهم حتى نزل القرآن يهتف بهم.
وهم الذين جادلوا في خروجه إلى بدر وكرهوا رأيه في الجهاد، واعتقدوا أنه فيما دبره على غير الصواب، ونزل فيهم (كما أخرجك ربك من بيتك بالحق وإن فريقا من المؤمنين لكارهون * يجادلونك في الحق بعد ما تبين كأنما يساقون إلى الموت وهم ينظرون).
وهم الذين كانوا يلتمسون من النبي (صلى الله عليه وآله) بمكة القتال وينازلونه في الجهاد منازلة، ويرون أن الصواب خلاف ما تعبدوا به في تلك الحال من الكف والإمساك، فلما حصلوا في المدينة ، وتكاثر معهم الناس، ونزل عليهم فرض الجهاد، وأمروا بالقتال، كرهوا ذلك، وطلبوا التأخير من زمان إلى زمان، ونزل فيهم: (ألم تر إلى الذين قيل لهم كفوا أيديكم وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة فلما كتب عليهم القتال إذا فريق منهم يخشون الناس كخشية الله أو أشد خشية وقالوا ربنا لم كتبت علينا القتال لولا أخرتنا إلى أجل قريب) ، فيما اتصل بهذه الآية من الخبر عن أحوالهم، والإبانة عن زللهم.
وهم الذين أظهروا الأمانة والطاعة، وأضمروا الخيانة والمعصية، حتى نزل فيهم:
(يا أيها الذين آمنوا لا تخونوا الله والرسول وتخونوا أماناتكم وأنتم تعلمون).
وهم الذين كفوا عن الإثخان في القتل يوم بدر، وطمعوا في الغنائم، حتى نزل فيهم: (ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض تريدون عرض الدنيا والله يريد الآخرة والله عزيز حكيم * لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم) . وهم الذين شكوا يوم الخندق في وعيد الله ورسوله، وخبثت نياتهم، فظنوا أن الأمر بخلاف ما أخبرهم به النبي (صلى الله عليه وآله) إذ نزل فيهم: (إذ جآءوكم من فوقكم ومن أسفل منكم وإذ زاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون بالله الظنونا * هنالك ابتلي المؤمنون وزلزلوا زلزالا شديدا * وإذ يقول المنافقون والذين في قلوبهم مرض ما وعدنا الله ورسوله إلا غرورا).
وهم الذين نكثوا عهد رسول الله (صلى الله عليه وآله)، ونقضوا ما عقده عليهم في بيعته تحت الشجرة، والنصارى؟ قال: \" فمن إذا \" ؟ وقطع أعذارهم بالمعجزات.
فانظر الآن أينا أحق بأن يتعجب، وأولانا بأن يتعجب منه، من أضاف إلى هؤلاء الأصحاب ما يليق بأفعالهم، ومن جعلهم فوق منازل الأنبياء وهذه أحوالهم! فسكت المعتزلي متفكرا كأنه ألقمه الشيعي حجرا.
وهم الذين قال (صلى الله عليه وآله) لهم: \" ألا لأعرفنكم ترتدون بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض \" .
وهم الذين قال لهم: \" إنكم محشورون إلى الله حفاة عراة، وأنه سيجاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول: يا رب أصحابي؟ فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك، إنهم لم يزالوا مرتدين على أعقابهم منذ فارقتهم \" .
وهم الذين قال لهم: \" بينما أنا على الحوض إذ مر بكم زمرا فتفرق بكم الطرق فأناديكم: ألا هلموا إلى الطريق، فينادي مناد من ورائي: إنهم بدلوا بعدك، فأقول: ألا سحقا ألا سحقا \" .
وهم الذين قال لهم عند وفاته: \" جهزوا جيش أسامة \"، ولعن من تخلف عنه، فلم يفعلوا.
وهم الذين قال لهم: \" ائتوني بدواة وكتف، أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعدي \" ، فلم يفعلوا، وقال أحدهم: دعوه فإنه يهجر، ولم ينكر الباقون عليه، هذا مع إظهارهم الإسلام، واختصاصهم بصحبة النبي (صلى الله عليه وآله)، ورؤيتهم الآيات،وأنفذهم إلى قتال خيبر فولوا الدبر، ونزل فيهم: (ولقد كانوا عاهدوا الله من قبل لا يولون الأدبار وكان عهد الله مسؤولا) .
وهم الذين انهزموا يوم حنين، وأسلموا النبي (صلى الله عليه وآله) للأعداء، ولم يبق معه إلا أمير المؤمنين (عليه السلام) وتسعة من بني هاشم، ونزل فيهم (ويوم حنين إذ أعجبتكم كثرتكم فلم تغن عنكم شيئا وضاقت عليكم الأرض بما رحبت ثم وليتم مدبرين)، وأمثال ذلك مما يطول بشروحه الذكر .
وهم الذين قال الله تعالى: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم) .
وهم الذين قال لهم النبي (صلى الله عليه وآله): \" لتتبعن سنن من كان قبلكم شبرا بشبر وذراعا بذراع، حتى لو دخلوا جحر ضب لاتبعتموه \"، قالوا: يا رسول الله، اليهود
More...
Description:
#أهل_السنة_و_الجماعة
#أهل_البدعة_و_الخلاف
#التعجب
#الولاية_الإمامة_الخلافة
#أهل_البيت
#وصاية_النبي
#الغدير
#البكرية_و_العمرية
وقد قال بعض المعتزلة لأحد الشيعة: إن أمركم - معشر الشيعة - لعجيب، ورأيكم طريف [ غير مصيب ]، لأنكم أقدمتم على وجوه الصحابة
الأخيار، وعيون الأتقياء الأبرار، الذين سبقوا إلى الإسلام، واختصوا بصحبة الرسول (صلى الله عليه وآله)، [ وشاهدوا المعجزات، ] وقطعت أعذارهم الآيات، وصدقوا بالوحي، وانقادوا إلى الأمر والنهي، وجاهدوا المشركين، ونصروا رسول رب العالمين، ووجب أن يحسن بهم الظنون، ويعتقد فيهم الاعتقاد الجميل، فزعمتم أنهم خالفوا الرسول (صلى الله عليه وآله) وعاندوا أهله من بعده، واجتمعوا على غصب حق الإمام ، وإقامة الفتنة في الأنام، واستأثروا بالخلافة ، [ وسارعوا ] إلى الترأس على الكافة، وهذا مما تنكره العقول وتشهد أنه مستحيل، فالتعجب منكم طويل!
قال له الشيعي : أما المؤمنون من الصحابة الأخيار، والعيون من الأتقياء الأطهار، فمن هذه الأمور مبرؤون، ونحن عن ذمهم متنزهون، وأما من سواهم ممن ظهر زللهم وخطائهم، فإن الذم متوجه إليهم، وقبيح فعلهم طرق القول عليهم، ولو تأملت حال هؤلاء الأصحاب لعلمت أنك نفيت عنهم خطأ قد فعلوا أمثاله، ونزهتهم عن خلاف قد ارتكبوا أضعافه، وتحققت أنك وضعت تعجبك في غير موضعه، وأوقعت استطرافك في ضد موقعه، فاحتشمت من خصمك، ورددت التعجب إلى نفسك.
وهؤلاء القوم الذين فضلتهم وعظمتهم، وأحسنت ظنك بهم ونزهتهم، هم الذين دحرجوا الدباب ليلة العقبة بين رجلي ناقة رسول الله (صلى الله عليه وآله) طلبا لقتله .
وهم الذين [ كانوا ] يضحكون خلفه إذا صلى بهم ويتركون الصلاة معه وينصرفون إلى تجاراتهم ولهوهم حتى نزل القرآن يهتف بهم.
وهم الذين جادلوا في خروجه إلى بدر وكرهوا رأيه في الجهاد، واعتقدوا أنه فيما دبره على غير الصواب، ونزل فيهم (كما أخرجك ربك من بيتك بالحق وإن فريقا من المؤمنين لكارهون * يجادلونك في الحق بعد ما تبين كأنما يساقون إلى الموت وهم ينظرون).
وهم الذين كانوا يلتمسون من النبي (صلى الله عليه وآله) بمكة القتال وينازلونه في الجهاد منازلة، ويرون أن الصواب خلاف ما تعبدوا به في تلك الحال من الكف والإمساك، فلما حصلوا في المدينة ، وتكاثر معهم الناس، ونزل عليهم فرض الجهاد، وأمروا بالقتال، كرهوا ذلك، وطلبوا التأخير من زمان إلى زمان، ونزل فيهم: (ألم تر إلى الذين قيل لهم كفوا أيديكم وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة فلما كتب عليهم القتال إذا فريق منهم يخشون الناس كخشية الله أو أشد خشية وقالوا ربنا لم كتبت علينا القتال لولا أخرتنا إلى أجل قريب) ، فيما اتصل بهذه الآية من الخبر عن أحوالهم، والإبانة عن زللهم.
وهم الذين أظهروا الأمانة والطاعة، وأضمروا الخيانة والمعصية، حتى نزل فيهم:
(يا أيها الذين آمنوا لا تخونوا الله والرسول وتخونوا أماناتكم وأنتم تعلمون).
وهم الذين كفوا عن الإثخان في القتل يوم بدر، وطمعوا في الغنائم، حتى نزل فيهم: (ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض تريدون عرض الدنيا والله يريد الآخرة والله عزيز حكيم * لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم) . وهم الذين شكوا يوم الخندق في وعيد الله ورسوله، وخبثت نياتهم، فظنوا أن الأمر بخلاف ما أخبرهم به النبي (صلى الله عليه وآله) إذ نزل فيهم: (إذ جآءوكم من فوقكم ومن أسفل منكم وإذ زاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون بالله الظنونا * هنالك ابتلي المؤمنون وزلزلوا زلزالا شديدا * وإذ يقول المنافقون والذين في قلوبهم مرض ما وعدنا الله ورسوله إلا غرورا).
وهم الذين نكثوا عهد رسول الله (صلى الله عليه وآله)، ونقضوا ما عقده عليهم في بيعته تحت الشجرة، والنصارى؟ قال: \" فمن إذا \" ؟ وقطع أعذارهم بالمعجزات.
فانظر الآن أينا أحق بأن يتعجب، وأولانا بأن يتعجب منه، من أضاف إلى هؤلاء الأصحاب ما يليق بأفعالهم، ومن جعلهم فوق منازل الأنبياء وهذه أحوالهم! فسكت المعتزلي متفكرا كأنه ألقمه الشيعي حجرا.
وهم الذين قال (صلى الله عليه وآله) لهم: \" ألا لأعرفنكم ترتدون بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض \" .
وهم الذين قال لهم: \" إنكم محشورون إلى الله حفاة عراة، وأنه سيجاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول: يا رب أصحابي؟ فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك، إنهم لم يزالوا مرتدين على أعقابهم منذ فارقتهم \" .
وهم الذين قال لهم: \" بينما أنا على الحوض إذ مر بكم زمرا فتفرق بكم الطرق فأناديكم: ألا هلموا إلى الطريق، فينادي مناد من ورائي: إنهم بدلوا بعدك، فأقول: ألا سحقا ألا سحقا \" .
وهم الذين قال لهم عند وفاته: \" جهزوا جيش أسامة \"، ولعن من تخلف عنه، فلم يفعلوا.
وهم الذين قال لهم: \" ائتوني بدواة وكتف، أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعدي \" ، فلم يفعلوا، وقال أحدهم: دعوه فإنه يهجر، ولم ينكر الباقون عليه، هذا مع إظهارهم الإسلام، واختصاصهم بصحبة النبي (صلى الله عليه وآله)، ورؤيتهم الآيات،وأنفذهم إلى قتال خيبر فولوا الدبر، ونزل فيهم: (ولقد كانوا عاهدوا الله من قبل لا يولون الأدبار وكان عهد الله مسؤولا) .
وهم الذين انهزموا يوم حنين، وأسلموا النبي (صلى الله عليه وآله) للأعداء، ولم يبق معه إلا أمير المؤمنين (عليه السلام) وتسعة من بني هاشم، ونزل فيهم (ويوم حنين إذ أعجبتكم كثرتكم فلم تغن عنكم شيئا وضاقت عليكم الأرض بما رحبت ثم وليتم مدبرين)، وأمثال ذلك مما يطول بشروحه الذكر .
وهم الذين قال الله تعالى: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم) .
وهم الذين قال لهم النبي (صلى الله عليه وآله): \" لتتبعن سنن من كان قبلكم شبرا بشبر وذراعا بذراع، حتى لو دخلوا جحر ضب لاتبعتموه \"، قالوا: يا رسول الله، اليهود
Video Tags:
امامت,امام
شناسی,اذ
ابتلى
ابراهيم
ربه
بكلمات,الحق
و
الباطل,من
ادعى
الإمامة,التعجب,أهل
السنة
و
الجماعة,أهل
البدعة
و
الخلاف,الإسلام
يعلو
ولا
يعلى
عليه,الحقيقة,الحقائق
المكتومة,أبوبكر,عمر,عثمان,عائشة,حفصة,الخلفاء
الراشدين,الأمراء
الفاسقين,الظلمة,الطغاة,الخلافة,الولاية,المعصية,الصحيفة
الملعونة,الأصحاب,الوهابية,البكرية,العمرية,الصراط
المستقيم,الحق
المبين,الخطر,التحذير,السعادة,التولي,التبري,أهل
البيت,المودة,آية
الغار,و
يطعمون,الأغلاط,النفاق,فسق,الإباحية,الجميلات,الإرهاب