2:19
|
مغربی ممالک کے ساتھ روابط | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مغربی ممالک کے ساتھ روابط رکھنے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیا...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مغربی ممالک کے ساتھ روابط رکھنے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیا ہمارے مغربی ممالک کے ساتھ روابط ہونے چاہیے؟ ہماری بہت سی مشکلات کا سرچشمہ کیا چیز ہے؟ ہمیں مغربی ممالک کی کن چیزوں سے فریب نہیں کھانا چاہیے؟ اسلامی انقلاب کے حکومتی عہدیدار مغربی ممالک کے بارے میں کس نتیجے تک پہنچے ہیں؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #مغالطے #روابط #مسئلہ #ترغیب #مغربی_ممالک #اسلامی_ممالک #پیروی #اعتماد #مشکلات #مسکراہٹ #مکر #راستہ #احساس #جدید_فہم
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مغربی ممالک کے ساتھ روابط رکھنے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیا ہمارے مغربی ممالک کے ساتھ روابط ہونے چاہیے؟ ہماری بہت سی مشکلات کا سرچشمہ کیا چیز ہے؟ ہمیں مغربی ممالک کی کن چیزوں سے فریب نہیں کھانا چاہیے؟ اسلامی انقلاب کے حکومتی عہدیدار مغربی ممالک کے بارے میں کس نتیجے تک پہنچے ہیں؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #مغالطے #روابط #مسئلہ #ترغیب #مغربی_ممالک #اسلامی_ممالک #پیروی #اعتماد #مشکلات #مسکراہٹ #مکر #راستہ #احساس #جدید_فہم
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
maghribi
mamalik,
ravabit,
sayyid
ali
khamenei,
mushkilaat,
sarchashma,
fareb,
islami
inqelab,
hukumati,
ohdedaar,
nateeje,
targheeb,
masla,
mughaleta,
pairavi,
etemaad,
muskurahat,
makr,
ehsaas,
jadeed
fehm,
rasta,
amrika,
europe,
america,
england,
france,
germany,
aalman,
11:08
|
مدیریت خشم - 01 - تعریف و تقسیم - Farsi
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب...
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* خداوند متعال یکی از مهم ترین ویژگی های انسان های الهی و پارساپیشه را، کظم غیظ و عفو از مردم می شمارد و می فرماید: وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ آل عمران/۱۳۴
* تقسیم افراد : کبریت، چوب خشک، چوب تر : إذا غَضُِبوا لم یَظلِمُوا.( تحف العقول، ۵۳۴)
* خشم بجا نشانه سلامتی تن و روان شمااست
* خشم نابجا ، روزمره، انفجاری یا دفعی و خارج از کنترل به روابط خانوادگی ، اجتماعی ، سلامتی بدن و وروان شما لطمه وارد می کند و به سوء خلق منتهی می گردد.
* قال علی (ع) : الحدة نوع من الجنون لأن صاحبها يندم و إن لم يندم فجنونه مستحكم
* شناخت علل خشم بسیار به کنترل و مدیریت آن کمک می کند.
* هيچكس نميتواند از خشم خلاص شود يا از آن اجتناب كند زيرا هميشه پديدهها يا افرادي هستند كه شما را خشمگين كنند اما ميتوانيد ياد بگيريد كه چگونه رفتارهاي خود را كنترل و خشمتان را كاهش دهيد و آن را به شكل مناسبي نشان دهيد.
* عوامل ايجاد كننده خشم: مورد تحقير شدن شخصیت ، احساسات ، ارزش ها، اقتدار* مورد تبعيض قرار گرفتن* مورد پيشداوري دیگران* مورد بيمهري، بی احترامی، بدرفتاري و بيتوجهي دیگران* مورد فريب يا عهدشكني * مورد تجاوز بدني يا كلامي قرار گرفتن و قرباني شدن* عجب * فخر فروشی* ستیزه جویی* لجاج* مزاح * تکبر * استهزاء* ظلم* غدر و مکر * چشمداشت به اشیاء نایاب و .....
More...
Description:
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* خداوند متعال یکی از مهم ترین ویژگی های انسان های الهی و پارساپیشه را، کظم غیظ و عفو از مردم می شمارد و می فرماید: وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ آل عمران/۱۳۴
* تقسیم افراد : کبریت، چوب خشک، چوب تر : إذا غَضُِبوا لم یَظلِمُوا.( تحف العقول، ۵۳۴)
* خشم بجا نشانه سلامتی تن و روان شمااست
* خشم نابجا ، روزمره، انفجاری یا دفعی و خارج از کنترل به روابط خانوادگی ، اجتماعی ، سلامتی بدن و وروان شما لطمه وارد می کند و به سوء خلق منتهی می گردد.
* قال علی (ع) : الحدة نوع من الجنون لأن صاحبها يندم و إن لم يندم فجنونه مستحكم
* شناخت علل خشم بسیار به کنترل و مدیریت آن کمک می کند.
* هيچكس نميتواند از خشم خلاص شود يا از آن اجتناب كند زيرا هميشه پديدهها يا افرادي هستند كه شما را خشمگين كنند اما ميتوانيد ياد بگيريد كه چگونه رفتارهاي خود را كنترل و خشمتان را كاهش دهيد و آن را به شكل مناسبي نشان دهيد.
* عوامل ايجاد كننده خشم: مورد تحقير شدن شخصیت ، احساسات ، ارزش ها، اقتدار* مورد تبعيض قرار گرفتن* مورد پيشداوري دیگران* مورد بيمهري، بی احترامی، بدرفتاري و بيتوجهي دیگران* مورد فريب يا عهدشكني * مورد تجاوز بدني يا كلامي قرار گرفتن و قرباني شدن* عجب * فخر فروشی* ستیزه جویی* لجاج* مزاح * تکبر * استهزاء* ظلم* غدر و مکر * چشمداشت به اشیاء نایاب و .....
Video Tags:
اختلاف,عشق,محبت,روابط
جنسی,روابط
نامشروع,نکاح,احسان,همسر
و
فرزندان,خانواده,متعادل,انصاف,حقوق
و
وظایف,نظام,فمینیسم,فروپاشی,طلاق,مرگ,جدایی,نشوز,قهر,اشتباه,شیطان,عداوت,تقوا,ولایت,معصومین,اهل
بیت,تکامل,نیمه
متکامل,بی
شرمی,حیاء,نفقات,تمکین,تعارض,تناسب,زیبایی,سکس,جذابیت,وسوسه,خوشگل,اندام
نمایی,چشم
چرانی,مرزهای
عفت,ترس,تجاوز,استمناء,جماع,خلوت,موسیقی,آواز,پوشش,حجاب,چادر,ترحم,قانون,تزاحم,ترقی,پیشرفت,آفات,لذت,رنج,وفا,خیانت,خشم,تنفر,زود
خشم,دیر
خشم,مدیریت
خشم,تعادل,شجاعت,برخورد
44:07
|
[Oct 13 2011] Andaz-e- Jahan - ہند پاک روابط - Urdu
[Oct 13 2011] Andaz-e- Jahan - ہند پاک روابط - Urdu
مہمان : پروفیسر آفتاب کمال پاشا-محترم ثاقب اکبر-محترم غلام حسن مجروح
[Oct 13 2011] Andaz-e- Jahan - ہند پاک روابط - Urdu
مہمان : پروفیسر آفتاب کمال پاشا-محترم ثاقب اکبر-محترم غلام حسن مجروح
41:13
|
46:03
|
[24 April 2012]Andaz-e-Jahan - پاک امریکہ روابط - Sahartv - Urdu
[24 April 2012]Andaz-e-Jahan - پاک امریکہ روابط - Sahartv - Urdu
مہمان:محترمہ شہلا رضا-محترم عمر ریاض عباسی-ڈاکٹر عنایت اللہ...
[24 April 2012]Andaz-e-Jahan - پاک امریکہ روابط - Sahartv - Urdu
مہمان:محترمہ شہلا رضا-محترم عمر ریاض عباسی-ڈاکٹر عنایت اللہ اندرآبی
More...
Description:
[24 April 2012]Andaz-e-Jahan - پاک امریکہ روابط - Sahartv - Urdu
مہمان:محترمہ شہلا رضا-محترم عمر ریاض عباسی-ڈاکٹر عنایت اللہ اندرآبی
61:11
|
1:50
|
Video Tags:
Urdugham,,Kay,,Dor,,main,,Tarakki,,Aur,,Maghrib,,Kay,,Rawabit,,Sahar,,urdu,,News
5:10
|
Video Tags:
Ale,,Saud,,Aur,,Ale,,Yahood,,Kay,,Rawabit,,Sahar,,Urdu,,News
2:59
|
Video Tags:
Bahimi,,Ehtiram,,Aur,,Barbri,,Ki,,Bunyad,,Per,,Zor,,Sahar,,Urdu,,News
1:00
|
Video Tags:
Iran,,Kay,,Sath,,Achy,,Rawabit,,Per,,Zor,,Sahar,,Urdu,,News
1:46
|
امریکہ اور یورپ قابلِ اعتماد نہیں ہیں | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
دنیا بھر میں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر برقرار ہونے والے سیاسی اور غیر سیاسی روابط کی بنیاد، اعتماد پر...
دنیا بھر میں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر برقرار ہونے والے سیاسی اور غیر سیاسی روابط کی بنیاد، اعتماد پر قائم ہوتی ہے اسی لئے ہر فریق دوسرے فریق کے ساتھ روابط کو اعتماد کی بناپر پرکھتے ہوئے سیاسی اور غیر سیاسی روابط برقرار کرنے کیلئے اقدام کرتا ہے، اگر چنانچہ آپسی معاہدوں میں اعتماد کی فضاء بحال نہ ہو تو دوملکوں یا دو گروہوں کے درمیان روابط اور معاہدات کا طے پانا مشکل امر ہے، چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو انقلاب اسلامی کی تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے تحت ہونے والے معاہدوں کی پاسداری میں جتنی خلاف ورزی امریکہ اور یورپ نے کی ہے کسی اور نے نہیں کی، جس کی ایک ادنی سی مثال ٹرمپ کے دور اقتدار میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کی ہے جس میں امریکہ کے ساتھ یورپی ممالک بھی وعدہ خلافی میں واشنگٹن سے بالکل کسی طرح پیچھے نہیں رہے، چنانچہ اسی تجربے کی بنیاد پر یورپ والوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے باب میں رہبر انقلاب اسلامی نے حکام کے سامنے یہی موقف رکھتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے منع کیا تھا مگر اس کے باوجود اس وقت کے حکمرانوں نے یورپ کے ساتھ مذاکرات کیلئے اقدام کیا لیکن نتیجہ وہی نکلا جس کا اظہار ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای پہلے کرچکے تھے۔
چنانچہ اس ضمن میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس وقت کے حکومتی عہدیداروں سے مخاطب ہوکر کس بات پر تاکید کی تھی؟ اس سلسلے میں بہترین تجزیے کیلئے ولی امر امسلمین کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امریکہ #یورپ #اعتماد #مسکراہٹ #عہدیدار #حکومت #بدبینی #صلاحیت #حکام #مذاکرات #پابندی #پہچان #نتیجہ
More...
Description:
دنیا بھر میں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر برقرار ہونے والے سیاسی اور غیر سیاسی روابط کی بنیاد، اعتماد پر قائم ہوتی ہے اسی لئے ہر فریق دوسرے فریق کے ساتھ روابط کو اعتماد کی بناپر پرکھتے ہوئے سیاسی اور غیر سیاسی روابط برقرار کرنے کیلئے اقدام کرتا ہے، اگر چنانچہ آپسی معاہدوں میں اعتماد کی فضاء بحال نہ ہو تو دوملکوں یا دو گروہوں کے درمیان روابط اور معاہدات کا طے پانا مشکل امر ہے، چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو انقلاب اسلامی کی تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے تحت ہونے والے معاہدوں کی پاسداری میں جتنی خلاف ورزی امریکہ اور یورپ نے کی ہے کسی اور نے نہیں کی، جس کی ایک ادنی سی مثال ٹرمپ کے دور اقتدار میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کی ہے جس میں امریکہ کے ساتھ یورپی ممالک بھی وعدہ خلافی میں واشنگٹن سے بالکل کسی طرح پیچھے نہیں رہے، چنانچہ اسی تجربے کی بنیاد پر یورپ والوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے باب میں رہبر انقلاب اسلامی نے حکام کے سامنے یہی موقف رکھتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے منع کیا تھا مگر اس کے باوجود اس وقت کے حکمرانوں نے یورپ کے ساتھ مذاکرات کیلئے اقدام کیا لیکن نتیجہ وہی نکلا جس کا اظہار ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای پہلے کرچکے تھے۔
چنانچہ اس ضمن میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس وقت کے حکومتی عہدیداروں سے مخاطب ہوکر کس بات پر تاکید کی تھی؟ اس سلسلے میں بہترین تجزیے کیلئے ولی امر امسلمین کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امریکہ #یورپ #اعتماد #مسکراہٹ #عہدیدار #حکومت #بدبینی #صلاحیت #حکام #مذاکرات #پابندی #پہچان #نتیجہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
America,
Europe,
aetmaad,
muskurahat,
ohdedar,
hukoomat,
salahiyat,
hakkaam,
mazakraat,
pabandi,
pehchan,
nateeja,
[FARSI][1October11] بیانات ولی امر مسلمین در اجلاس حمایت از انتفاضه فلسطین
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
More...
Description:
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
11:03
|
مدیریت خشم - 02 - علل و عوامل خشم - Farsi
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب...
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* قال علی (ع) : الحدة نوع من الجنون لأن صاحبها يندم و إن لم يندم فجنونه مستحكم
* شناخت علل خشم بسیار به کنترل و مدیریت آن کمک می کند.
* هيچكس نميتواند از خشم خلاص شود يا از آن اجتناب كند زيرا هميشه پديدهها يا افرادي هستند كه شما را خشمگين كنند اما ميتوانيد ياد بگيريد كه چگونه رفتارهاي خود را كنترل و خشمتان را كاهش دهيد و آن را به شكل مناسبي نشان دهيد.
* عوامل ايجاد كننده خشم: مورد تحقير شدن شخصیت ، احساسات ، ارزش ها، اقتدار* مورد تبعيض قرار گرفتن* مورد پيشداوري دیگران* مورد بيمهري، بی احترامی، بدرفتاري و بيتوجهي دیگران* مورد فريب يا عهدشكني * مورد تجاوز بدني يا كلامي قرار گرفتن و قرباني شدن* عجب * فخر فروشی* ستیزه جویی* لجاج* مزاح * تکبر * استهزاء* ظلم* غدر و مکر * چشمداشت به اشیاء نایاب و .....
More...
Description:
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* قال علی (ع) : الحدة نوع من الجنون لأن صاحبها يندم و إن لم يندم فجنونه مستحكم
* شناخت علل خشم بسیار به کنترل و مدیریت آن کمک می کند.
* هيچكس نميتواند از خشم خلاص شود يا از آن اجتناب كند زيرا هميشه پديدهها يا افرادي هستند كه شما را خشمگين كنند اما ميتوانيد ياد بگيريد كه چگونه رفتارهاي خود را كنترل و خشمتان را كاهش دهيد و آن را به شكل مناسبي نشان دهيد.
* عوامل ايجاد كننده خشم: مورد تحقير شدن شخصیت ، احساسات ، ارزش ها، اقتدار* مورد تبعيض قرار گرفتن* مورد پيشداوري دیگران* مورد بيمهري، بی احترامی، بدرفتاري و بيتوجهي دیگران* مورد فريب يا عهدشكني * مورد تجاوز بدني يا كلامي قرار گرفتن و قرباني شدن* عجب * فخر فروشی* ستیزه جویی* لجاج* مزاح * تکبر * استهزاء* ظلم* غدر و مکر * چشمداشت به اشیاء نایاب و .....
Video Tags:
اختلاف,عشق,محبت,روابط
جنسی,روابط
نامشروع,نکاح,احسان,همسر
و
فرزندان,خانواده,متعادل,انصاف,حقوق
و
وظایف,نظام,فمینیسم,فروپاشی,طلاق,مرگ,جدایی,نشوز,قهر,اشتباه,شیطان,عداوت,تقوا,ولایت,معصومین,اهل
بیت,تکامل,نیمه
متکامل,بی
شرمی,حیاء,نفقات,تمکین,تعارض,تناسب,زیبایی,سکس,جذابیت,وسوسه,خوشگل,اندام
نمایی,چشم
چرانی,مرزهای
عفت,ترس,تجاوز,استمناء,جماع,خلوت,موسیقی,آواز,پوشش,حجاب,چادر,ترحم,قانون,تزاحم,ترقی,پیشرفت,آفات,لذت,رنج,وفا,خیانت,خشم,تنفر,زود
خشم,دیر
خشم,مدیریت
خشم,تعادل,شجاعت,برخورد
11:36
|
مدیریت خشم - 03 - علل و عوامل خشم - Farsi
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب...
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* قال علی (ع) : الحدة نوع من الجنون لأن صاحبها يندم و إن لم يندم فجنونه مستحكم
* شناخت علل خشم بسیار به کنترل و مدیریت آن کمک می کند.
* هيچكس نميتواند از خشم خلاص شود يا از آن اجتناب كند زيرا هميشه پديدهها يا افرادي هستند كه شما را خشمگين كنند اما ميتوانيد ياد بگيريد كه چگونه رفتارهاي خود را كنترل و خشمتان را كاهش دهيد و آن را به شكل مناسبي نشان دهيد.
* عوامل ايجاد كننده خشم: مورد تحقير شدن شخصیت ، احساسات ، ارزش ها، اقتدار* مورد تبعيض قرار گرفتن* مورد پيشداوري دیگران* مورد بيمهري، بی احترامی، بدرفتاري و بيتوجهي دیگران* مورد فريب يا عهدشكني * مورد تجاوز بدني يا كلامي قرار گرفتن و قرباني شدن* عجب * فخر فروشی* ستیزه جویی* لجاج* مزاح * تکبر * استهزاء* ظلم* غدر و مکر * چشمداشت به اشیاء نایاب و .....
More...
Description:
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* قال علی (ع) : الحدة نوع من الجنون لأن صاحبها يندم و إن لم يندم فجنونه مستحكم
* شناخت علل خشم بسیار به کنترل و مدیریت آن کمک می کند.
* هيچكس نميتواند از خشم خلاص شود يا از آن اجتناب كند زيرا هميشه پديدهها يا افرادي هستند كه شما را خشمگين كنند اما ميتوانيد ياد بگيريد كه چگونه رفتارهاي خود را كنترل و خشمتان را كاهش دهيد و آن را به شكل مناسبي نشان دهيد.
* عوامل ايجاد كننده خشم: مورد تحقير شدن شخصیت ، احساسات ، ارزش ها، اقتدار* مورد تبعيض قرار گرفتن* مورد پيشداوري دیگران* مورد بيمهري، بی احترامی، بدرفتاري و بيتوجهي دیگران* مورد فريب يا عهدشكني * مورد تجاوز بدني يا كلامي قرار گرفتن و قرباني شدن* عجب * فخر فروشی* ستیزه جویی* لجاج* مزاح * تکبر * استهزاء* ظلم* غدر و مکر * چشمداشت به اشیاء نایاب و .....
Video Tags:
اختلاف,عشق,محبت,روابط
جنسی,روابط
نامشروع,نکاح,احسان,همسر
و
فرزندان,خانواده,متعادل,انصاف,حقوق
و
وظایف,نظام,فمینیسم,فروپاشی,طلاق,مرگ,جدایی,نشوز,قهر,اشتباه,شیطان,عداوت,تقوا,ولایت,معصومین,اهل
بیت,تکامل,نیمه
متکامل,بی
شرمی,حیاء,نفقات,تمکین,تعارض,تناسب,زیبایی,سکس,جذابیت,وسوسه,خوشگل,اندام
نمایی,چشم
چرانی,مرزهای
عفت,ترس,تجاوز,استمناء,جماع,خلوت,موسیقی,آواز,پوشش,حجاب,چادر,ترحم,قانون,تزاحم,ترقی,پیشرفت,آفات,لذت,رنج,وفا,خیانت,خشم,تنفر,زود
خشم,دیر
خشم,مدیریت
خشم,تعادل,شجاعت,برخورد
11:10
|
مدیریت خشم - 04 - خشم آشکار و پنهان - Farsi
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب...
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* در چه موقعيتهايي خشمگين ميشويد؟ وقتي فهميديد كه چه چيزي منجر به خشمتان ميشود درصدد جلوگيري از ايجاد چنين موقعيتهايي برآمده يا ياد بگيريد كه چطور با اين موقعيتها كنار بياييد* كمي قدم بزنيد تا خشمتان فروكش كند* از روش خود آرام سازي استفاده كنيد* تنفس آرام و عميق در مدتي كوتاه * با دوستي منطقي و قابل اعتماد كه ميتواند آرامتان كند، حرف بزنيد* اطرافيانتان را بشناسيد* واكنش افراد ديگر را پيشبيني كنيد* خود را براي حفظ آرامش آماده كنيد* احترام خود را حفظ كنيد* در پايان هر روز خشمتان را دور بيندازيد* براي طغيانهاي عصبي خود عذرخواهي كنيد* تفریحهای سالم * * در آن حالت شخص به سیره انبیا، اولیا و صلحا، که خود را پیرو آنان می داند، توجه کند و در مورد آیات و احادیثی که غضب بی جا را مذمت کرده اند فکر کرده و از عواقبش بر حذر باشد* در هنگام خشم استعاذه نموده و با جمله اعوذ بالله من الشیطان الرجیم به خداوند عالم پناه ببرد * با آب سرد وضو بگیرد و یا غسل نماید * زمینه ها و بسترهای خشم را در خود یا دیگران از میان بردارد؛ مانند گرسنگی، تشنگی، خستگی، بی خوابی و * فوائد شیرین و لذت بخش کظم غیظ را، که بارها تجربه کرده، در نظر آورد * از افراد بدخلق و عصبانی فاصله بگیرد و رفاقت نکند* اعتقاد به قضا و قدر خداوندی را در وجودش تقویت کند و بداند که گاهی پدید آمدن برخی حوادث ناگوار- که با میل باطنی او ناسازگار است – در تقدیر الهی است * انسان وقتی که بر کسی ضعیف تر از خودش خشم می گیرد فراموش نکند که قدرت خداوند خیلی بالاتر از قدرت اوست و ممکن است مورد قهر و غضب و انتقام خداوند قرار گیرد. قرآن می فرماید:وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ نور/۲۲؛ آن ها باید عفو کنند و چشم بپوشند؛ آیا دوست نمی دارید خداوند شما را ببخشد؟! و خداوند آمرزنده و مهربان است! * سفارش به اطرافیان در مورد یادآوری عواقب شوم عصبانیت و تذکر نکات مؤثر * انسان های عصبانی در میان مردم و عقلای عالم منفورند و بردباران عزیز و محترم.
آثار خشم نابجا: فجور در خصومت، ندامت دنیا و آخرت، دشمن شدن دوستان، تألم روحی، استهزای اوباش، تغییر مزاج، حسد، شماتت، فاصله گرفتن، روی گرداندن، محاکات، ضرب و شتم، منع حق،
More...
Description:
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* در چه موقعيتهايي خشمگين ميشويد؟ وقتي فهميديد كه چه چيزي منجر به خشمتان ميشود درصدد جلوگيري از ايجاد چنين موقعيتهايي برآمده يا ياد بگيريد كه چطور با اين موقعيتها كنار بياييد* كمي قدم بزنيد تا خشمتان فروكش كند* از روش خود آرام سازي استفاده كنيد* تنفس آرام و عميق در مدتي كوتاه * با دوستي منطقي و قابل اعتماد كه ميتواند آرامتان كند، حرف بزنيد* اطرافيانتان را بشناسيد* واكنش افراد ديگر را پيشبيني كنيد* خود را براي حفظ آرامش آماده كنيد* احترام خود را حفظ كنيد* در پايان هر روز خشمتان را دور بيندازيد* براي طغيانهاي عصبي خود عذرخواهي كنيد* تفریحهای سالم * * در آن حالت شخص به سیره انبیا، اولیا و صلحا، که خود را پیرو آنان می داند، توجه کند و در مورد آیات و احادیثی که غضب بی جا را مذمت کرده اند فکر کرده و از عواقبش بر حذر باشد* در هنگام خشم استعاذه نموده و با جمله اعوذ بالله من الشیطان الرجیم به خداوند عالم پناه ببرد * با آب سرد وضو بگیرد و یا غسل نماید * زمینه ها و بسترهای خشم را در خود یا دیگران از میان بردارد؛ مانند گرسنگی، تشنگی، خستگی، بی خوابی و * فوائد شیرین و لذت بخش کظم غیظ را، که بارها تجربه کرده، در نظر آورد * از افراد بدخلق و عصبانی فاصله بگیرد و رفاقت نکند* اعتقاد به قضا و قدر خداوندی را در وجودش تقویت کند و بداند که گاهی پدید آمدن برخی حوادث ناگوار- که با میل باطنی او ناسازگار است – در تقدیر الهی است * انسان وقتی که بر کسی ضعیف تر از خودش خشم می گیرد فراموش نکند که قدرت خداوند خیلی بالاتر از قدرت اوست و ممکن است مورد قهر و غضب و انتقام خداوند قرار گیرد. قرآن می فرماید:وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ نور/۲۲؛ آن ها باید عفو کنند و چشم بپوشند؛ آیا دوست نمی دارید خداوند شما را ببخشد؟! و خداوند آمرزنده و مهربان است! * سفارش به اطرافیان در مورد یادآوری عواقب شوم عصبانیت و تذکر نکات مؤثر * انسان های عصبانی در میان مردم و عقلای عالم منفورند و بردباران عزیز و محترم.
آثار خشم نابجا: فجور در خصومت، ندامت دنیا و آخرت، دشمن شدن دوستان، تألم روحی، استهزای اوباش، تغییر مزاج، حسد، شماتت، فاصله گرفتن، روی گرداندن، محاکات، ضرب و شتم، منع حق،
Video Tags:
اختلاف,عشق,محبت,روابط
جنسی,روابط
نامشروع,نکاح,احسان,همسر
و
فرزندان,خانواده,متعادل,انصاف,حقوق
و
وظایف,نظام,فمینیسم,فروپاشی,طلاق,مرگ,جدایی,نشوز,قهر,اشتباه,شیطان,عداوت,تقوا,ولایت,معصومین,اهل
بیت,تکامل,نیمه
متکامل,بی
شرمی,حیاء,نفقات,تمکین,تعارض,تناسب,زیبایی,سکس,جذابیت,وسوسه,خوشگل,اندام
نمایی,چشم
چرانی,مرزهای
عفت,ترس,تجاوز,استمناء,جماع,خلوت,موسیقی,آواز,پوشش,حجاب,چادر,ترحم,قانون,تزاحم,ترقی,پیشرفت,آفات,لذت,رنج,وفا,خیانت,خشم,تنفر,زود
خشم,دیر
خشم,مدیریت
خشم,تعادل,شجاعت,برخورد
11:57
|
مدیریت خشم - 5 - پیامدهای خشم نابجا - Farsi
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب...
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* در چه موقعيتهايي خشمگين ميشويد؟ وقتي فهميديد كه چه چيزي منجر به خشمتان ميشود درصدد جلوگيري از ايجاد چنين موقعيتهايي برآمده يا ياد بگيريد كه چطور با اين موقعيتها كنار بياييد* كمي قدم بزنيد تا خشمتان فروكش كند* از روش خود آرام سازي استفاده كنيد* تنفس آرام و عميق در مدتي كوتاه * با دوستي منطقي و قابل اعتماد كه ميتواند آرامتان كند، حرف بزنيد* اطرافيانتان را بشناسيد* واكنش افراد ديگر را پيشبيني كنيد* خود را براي حفظ آرامش آماده كنيد* احترام خود را حفظ كنيد* در پايان هر روز خشمتان را دور بيندازيد* براي طغيانهاي عصبي خود عذرخواهي كنيد* تفریحهای سالم * * در آن حالت شخص به سیره انبیا، اولیا و صلحا، که خود را پیرو آنان می داند، توجه کند و در مورد آیات و احادیثی که غضب بی جا را مذمت کرده اند فکر کرده و از عواقبش بر حذر باشد* در هنگام خشم استعاذه نموده و با جمله اعوذ بالله من الشیطان الرجیم به خداوند عالم پناه ببرد * با آب سرد وضو بگیرد و یا غسل نماید * زمینه ها و بسترهای خشم را در خود یا دیگران از میان بردارد؛ مانند گرسنگی، تشنگی، خستگی، بی خوابی و * فوائد شیرین و لذت بخش کظم غیظ را، که بارها تجربه کرده، در نظر آورد * از افراد بدخلق و عصبانی فاصله بگیرد و رفاقت نکند* اعتقاد به قضا و قدر خداوندی را در وجودش تقویت کند و بداند که گاهی پدید آمدن برخی حوادث ناگوار- که با میل باطنی او ناسازگار است – در تقدیر الهی است * انسان وقتی که بر کسی ضعیف تر از خودش خشم می گیرد فراموش نکند که قدرت خداوند خیلی بالاتر از قدرت اوست و ممکن است مورد قهر و غضب و انتقام خداوند قرار گیرد. قرآن می فرماید:وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ نور/۲۲؛ آن ها باید عفو کنند و چشم بپوشند؛ آیا دوست نمی دارید خداوند شما را ببخشد؟! و خداوند آمرزنده و مهربان است! * سفارش به اطرافیان در مورد یادآوری عواقب شوم عصبانیت و تذکر نکات مؤثر * انسان های عصبانی در میان مردم و عقلای عالم منفورند و بردباران عزیز و محترم.
آثار خشم نابجا: فجور در خصومت، ندامت دنیا و آخرت، دشمن شدن دوستان، تألم روحی، استهزای اوباش، تغییر مزاج، حسد، شماتت، فاصله گرفتن، روی گرداندن، محاکات، ضرب و شتم، منع حق،
More...
Description:
#مدیریت_خشم
#فجور
#خصومت
#ندامت
#دشمن
#دوست
#تألم
#استهزاء
#مزاج
#اجتناب
#شماتت
#فاصله
#اعراض
#محاکات
#ضرب
#شتم
#غصب
#غضب
* در چه موقعيتهايي خشمگين ميشويد؟ وقتي فهميديد كه چه چيزي منجر به خشمتان ميشود درصدد جلوگيري از ايجاد چنين موقعيتهايي برآمده يا ياد بگيريد كه چطور با اين موقعيتها كنار بياييد* كمي قدم بزنيد تا خشمتان فروكش كند* از روش خود آرام سازي استفاده كنيد* تنفس آرام و عميق در مدتي كوتاه * با دوستي منطقي و قابل اعتماد كه ميتواند آرامتان كند، حرف بزنيد* اطرافيانتان را بشناسيد* واكنش افراد ديگر را پيشبيني كنيد* خود را براي حفظ آرامش آماده كنيد* احترام خود را حفظ كنيد* در پايان هر روز خشمتان را دور بيندازيد* براي طغيانهاي عصبي خود عذرخواهي كنيد* تفریحهای سالم * * در آن حالت شخص به سیره انبیا، اولیا و صلحا، که خود را پیرو آنان می داند، توجه کند و در مورد آیات و احادیثی که غضب بی جا را مذمت کرده اند فکر کرده و از عواقبش بر حذر باشد* در هنگام خشم استعاذه نموده و با جمله اعوذ بالله من الشیطان الرجیم به خداوند عالم پناه ببرد * با آب سرد وضو بگیرد و یا غسل نماید * زمینه ها و بسترهای خشم را در خود یا دیگران از میان بردارد؛ مانند گرسنگی، تشنگی، خستگی، بی خوابی و * فوائد شیرین و لذت بخش کظم غیظ را، که بارها تجربه کرده، در نظر آورد * از افراد بدخلق و عصبانی فاصله بگیرد و رفاقت نکند* اعتقاد به قضا و قدر خداوندی را در وجودش تقویت کند و بداند که گاهی پدید آمدن برخی حوادث ناگوار- که با میل باطنی او ناسازگار است – در تقدیر الهی است * انسان وقتی که بر کسی ضعیف تر از خودش خشم می گیرد فراموش نکند که قدرت خداوند خیلی بالاتر از قدرت اوست و ممکن است مورد قهر و غضب و انتقام خداوند قرار گیرد. قرآن می فرماید:وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ نور/۲۲؛ آن ها باید عفو کنند و چشم بپوشند؛ آیا دوست نمی دارید خداوند شما را ببخشد؟! و خداوند آمرزنده و مهربان است! * سفارش به اطرافیان در مورد یادآوری عواقب شوم عصبانیت و تذکر نکات مؤثر * انسان های عصبانی در میان مردم و عقلای عالم منفورند و بردباران عزیز و محترم.
آثار خشم نابجا: فجور در خصومت، ندامت دنیا و آخرت، دشمن شدن دوستان، تألم روحی، استهزای اوباش، تغییر مزاج، حسد، شماتت، فاصله گرفتن، روی گرداندن، محاکات، ضرب و شتم، منع حق،
Video Tags:
اختلاف,عشق,محبت,روابط
جنسی,روابط
نامشروع,نکاح,احسان,همسر
و
فرزندان,خانواده,متعادل,انصاف,حقوق
و
وظایف,نظام,فمینیسم,فروپاشی,طلاق,مرگ,جدایی,نشوز,قهر,اشتباه,شیطان,عداوت,تقوا,ولایت,معصومین,اهل
بیت,تکامل,نیمه
متکامل,بی
شرمی,حیاء,نفقات,تمکین,تعارض,تناسب,زیبایی,سکس,جذابیت,وسوسه,خوشگل,اندام
نمایی,چشم
چرانی,مرزهای
عفت,ترس,تجاوز,استمناء,جماع,خلوت,موسیقی,آواز,پوشش,حجاب,چادر,ترحم,قانون,تزاحم,ترقی,پیشرفت,آفات,لذت,رنج,وفا,خیانت,خشم,تنفر,زود
خشم,دیر
خشم,مدیریت
خشم,تعادل,شجاعت,برخورد
The Divine book - کتاب الهی - Part1- English sub Farsi
The Divine book - کتاب الهی - English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به...
The Divine book - کتاب الهی - English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
More...
Description:
The Divine book - کتاب الهی - English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
9:50
|
The Divine book - کتاب الهی -Part 2- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و...
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
More...
Description:
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
10:02
|
The Divine book - کتاب الهی -Part5- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و...
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
The Divine book - کتاب الهی -Part4- English sub Farsi
More...
Description:
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
The Divine book - کتاب الهی -Part4- English sub Farsi
9:55
|
The Divine book - کتاب الهی -Part6- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و...
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
The Divine book - کتاب الهی -Part4- English sub Farsi
More...
Description:
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
The Divine book - کتاب الهی -Part4- English sub Farsi
The Divine book - کتاب الهی -Part7- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و...
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
The Divine book - کتاب الهی -Part4- English sub Farsi
More...
Description:
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
The Divine book - کتاب الهی -Part4- English sub Farsi
10:05
|
The Divine book - کتاب الهی -Part9- English sub Farsi
The Divine book - کتاب الهی -Part9- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به...
The Divine book - کتاب الهی -Part9- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
More...
Description:
The Divine book - کتاب الهی -Part9- English sub Farsi
مستند كتاب الهي كه موضوع خود را روابط بين مسلمانان و مسيحيان قرار داده به بررسي وضع موجود، اشتراكات و تفاوتهاي مسلمانان و مسيحيان مي پردازد.(کاری از سازندگان مستند ظهور)
15:10
|
MWM & MQM Press Conference at Al-Arif House, Islamabad - Urdu
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو...
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
More...
Description:
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
0:37
|
GEO News : MWM & MQM Press Conference at Al-Arif House, Islamabad - Urdu
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو...
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
More...
Description:
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
1:21
|
ARY News : MWM & MQM Press Conference at Al-Arif House, Islamabad - Urdu
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو...
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
More...
Description:
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
0:05
|
Dunya News : MWM & MQM Press Conference at Al-Arif House, Islamabad - Urdu
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو...
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی
More...
Description:
http://www.mwmpak.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1532:2012-08-04-13-04-44&catid=21:2012-06-28-07-33-20&Itemid=730
اسلام آباد( ) ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حیدر عباس رضوی کی زیر قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی دفتر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی ، وفد میں طیب حسین، زاہد ملک، سرفراز نواز، شاہ رفیے اور منیر انجم شامل تھے ،اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سیکرٹری امور سیاسیات سید علی اوسط رضوی، سیکرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے اہم قومی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات زیر بحث لائی گئیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کمزور ہمسائیہ ہمیشہ طاقتور ہمسائیوں کے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ملک کو طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا نے کے لیے اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا ، انہوں نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وطن دوستی کی بجائے علاقایت، لسانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے بلوچستان میں نہ ہی تو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی وہا ں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں ؟، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جن کی نالائقی کی وجہ سے یہ صورتحا ل پیدا ہوئی ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ایران کے ساتھ بھی سرحد ملتی ہے ، وہاں بھی افغان مہاجرین گئے لیکن ایران نے انہیں مہمان کی حیثیت سے ٹھہریا اور اپنے ملک کو خراب نہیں ہونے دیا ، وہاں کوئی کلاشنکوف یا ہیروئن کلچر پیدا نہ ہوسکا ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ2014 کے بعدپڑوسی ملک افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیدر عبا س رضوی نے پاکستان کی قومی سیکورٹی کو درپیش خطرات اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی اور2014 میں افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد اس خطے بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ، انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ا فغانستان میں پید اہونے والے حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ، انہوں نے کہا کہ ہماری افغانستان کے سات چھبیس سو میل سرحدی لائن ہے اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ، وہاں اگر طالبان نے طبل جنگ بجا دیا تو ہمار املک جو پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ، اور زیادہ متاثر ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اس یے ضروری ہے اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ہر جماعت کی نمایندگی ہو اور اس کمیٹی کا ایجنڈہ پہلے سے طے کر لیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے چون فیصد حصہ کا پہلے ہی زخم کھائے ہوئے ہیں ، باقی ماندہ چھیالیس فیصد ملک کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس اہم ذمہ داری سے ہمیں مل جل کر عہدہ براء ہونا چاہیے ، بعد ازاں دونوں جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ پریس بریفنگ دی