28:36
|
Video Tags:
27,,Mar,,2018,,Sahar,,Urdu,,Iran,,Tehran,,Rahe,,Nijat,,Nama,Roza,,Hajj,,Zakat,,Khums,,اجتہاد
اسلام
کی
جاویدانگی
کا
راز
21:51
|
در هامش اصول عقاید حقه قسمت دوم - حديث ، اجتهاد، فقه و ... - Farsi
حديث ، اجتهاد و فقه
اعتبار صحابی و همسران حضرت ختمی مرتبت صلی الله علیه و آله
و برخى از احكام فقهى مورد...
حديث ، اجتهاد و فقه
اعتبار صحابی و همسران حضرت ختمی مرتبت صلی الله علیه و آله
و برخى از احكام فقهى مورد اختلاف
وضو، سجده بر مهر ، تفریق نمازها، وحدت مسلمین، تعریف، راه دستیابی، تنازل از مواضع حق ، توسل به تقیه برای شانه خالی کردن از زیر بار مسؤولیت و ..
More...
Description:
حديث ، اجتهاد و فقه
اعتبار صحابی و همسران حضرت ختمی مرتبت صلی الله علیه و آله
و برخى از احكام فقهى مورد اختلاف
وضو، سجده بر مهر ، تفریق نمازها، وحدت مسلمین، تعریف، راه دستیابی، تنازل از مواضع حق ، توسل به تقیه برای شانه خالی کردن از زیر بار مسؤولیت و ..
10:28
|
9:24
|
12:35
|
9:00
|
66:30
|
29:48
|
Video Tags:
Rahe,,Nijat,,Islam,,Main,,Nizam-e-Ejtihad,,Ki,,Ehmiyat,,Sahar,,Urdu,,News
35:10
|
79:47
|
1:08
|
حضرت فاطمہ معصومہؑ کے طفیل، قم مرکز علم | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اس وقت عالم اسلام سمیت پوری دنیا تک جہاں سے معارف اور تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کی نورانی شعائیں پھیل رہی...
اس وقت عالم اسلام سمیت پوری دنیا تک جہاں سے معارف اور تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کی نورانی شعائیں پھیل رہی ہیں، وہ حوزہ علمیہ قم المقدسہ ہے جسےعلم و اجتہاد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں دنیا کے مختلف ممالک سے تشنگان علوم محمد و آل محمد آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اور پھر اسکے بعد دنیا والوں تک اہل بیت علیہم السلام کے معارف کے نور کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس شہر کو علم و اجتہاد کا اعزاز حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کی وجہ سے ملا ہے جہاں اپکا مدفن اور مزار بھی ہے اور آپ اپنی شان کریمی سے ہر ایک طالب علم پر نظر کرم کرتی ہیں اسی لئے آپ کو کریمہ اہلبیت علیہم السلام کہا جاتا ہے۔
کس طرح قم المقدسہ علم و معرفت کا مرکز بنا اور کریمہ اہلبیت علیہم السلام حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا اس میں کیا کردار ہے؟ آئے دیکھتے ہیں ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس مختصر ویڈیو میں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #حضرت_معصومہ_سلام_اللہ_علیہا #عظیم_خاتون #قم #قیام #علم_معرفت #نور #تحریک #گوشہ #اہلبیت_علیہم_السلام #جوان #اسلامی_دنیا
More...
Description:
اس وقت عالم اسلام سمیت پوری دنیا تک جہاں سے معارف اور تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کی نورانی شعائیں پھیل رہی ہیں، وہ حوزہ علمیہ قم المقدسہ ہے جسےعلم و اجتہاد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں دنیا کے مختلف ممالک سے تشنگان علوم محمد و آل محمد آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اور پھر اسکے بعد دنیا والوں تک اہل بیت علیہم السلام کے معارف کے نور کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس شہر کو علم و اجتہاد کا اعزاز حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کی وجہ سے ملا ہے جہاں اپکا مدفن اور مزار بھی ہے اور آپ اپنی شان کریمی سے ہر ایک طالب علم پر نظر کرم کرتی ہیں اسی لئے آپ کو کریمہ اہلبیت علیہم السلام کہا جاتا ہے۔
کس طرح قم المقدسہ علم و معرفت کا مرکز بنا اور کریمہ اہلبیت علیہم السلام حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا اس میں کیا کردار ہے؟ آئے دیکھتے ہیں ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس مختصر ویڈیو میں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #حضرت_معصومہ_سلام_اللہ_علیہا #عظیم_خاتون #قم #قیام #علم_معرفت #نور #تحریک #گوشہ #اہلبیت_علیہم_السلام #جوان #اسلامی_دنیا
Video Tags:
حضرت,
حضرت
فاطمہ
معصومہ,
فاطمہ
معصومہ,
حضرت
معصومہ,
طفیل,
قم,
مرکز,
مرکز
علم,
علم,
امام
سید
علی
خامنہ
ای,
امام
خامنہ
ای,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Hazrat,
Hazrat
Masuma,
Hazrat
Fatima
Masuma,
Qom,
Markaz,
Elm,
Imam,
Imam
Khamenei,
Ealam,
Islam,
Waqt,
Donya,
Maearef,
Taelimat,
Ahlul
Bayt,
Howza,
Shahr,
mamalek,
Ejtehad,
Madfan,
Mazar,
Qiyam,
Maerefat,
Javan,
2:54
|
امام خمینیؒ کی نگاہ میں اسلام کی صحیح تصویر | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اس وقت دنیا میں متعدد اسلامی فرقے پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک، اپنے عقیدے کے مطابق اسلام کی تعریف پیش...
اس وقت دنیا میں متعدد اسلامی فرقے پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک، اپنے عقیدے کے مطابق اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دوسرے سے مخلتف ہے، اس وقت مجموعی طور اسلام کو تین شکلوں میں پیش کیا جاتا ہے جن میں ایک کا تعلق ان روشن خیال افراد سے ہے جو فقہ اور شریعت اسلامی کوتسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود اسلام کا دم بھرتے ہیں، اور دوسری صورت کا تعلق، ان رجعت پسند افراد کا پیش کردہ اسلام ہے جو نہ تو اسلامی نصوص کے ذریعے کسی جدید حکم کو اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے قبول کرتے ہیں اگرچہ وہ اپنی زبان پر اسلام کا ورد کرتے رہتے ہیں، اور اسلام کی تیسری شکل وہ ہے جو مضبوط اجتہاد اور صحیح اصولوں پر مشتمل ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تینوں کے بارے میں امام خمینیؒ کا نظریہ کیا ہے اور وہ جب اسلام کی بات کرتے ہیں تو انکی نظر میں اسلام کی کونسی صورت مراد ہے؟
چنانچہ اس سوال کے جواب کو جاننے کے لئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اسلام #روشن_خیال #شریعت #فقہ #رجعت_پسند #نصوص #جدید #اخذ #اجتہاد #امام_خمینی #نظر
More...
Description:
اس وقت دنیا میں متعدد اسلامی فرقے پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک، اپنے عقیدے کے مطابق اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دوسرے سے مخلتف ہے، اس وقت مجموعی طور اسلام کو تین شکلوں میں پیش کیا جاتا ہے جن میں ایک کا تعلق ان روشن خیال افراد سے ہے جو فقہ اور شریعت اسلامی کوتسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود اسلام کا دم بھرتے ہیں، اور دوسری صورت کا تعلق، ان رجعت پسند افراد کا پیش کردہ اسلام ہے جو نہ تو اسلامی نصوص کے ذریعے کسی جدید حکم کو اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے قبول کرتے ہیں اگرچہ وہ اپنی زبان پر اسلام کا ورد کرتے رہتے ہیں، اور اسلام کی تیسری شکل وہ ہے جو مضبوط اجتہاد اور صحیح اصولوں پر مشتمل ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تینوں کے بارے میں امام خمینیؒ کا نظریہ کیا ہے اور وہ جب اسلام کی بات کرتے ہیں تو انکی نظر میں اسلام کی کونسی صورت مراد ہے؟
چنانچہ اس سوال کے جواب کو جاننے کے لئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اسلام #روشن_خیال #شریعت #فقہ #رجعت_پسند #نصوص #جدید #اخذ #اجتہاد #امام_خمینی #نظر
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
islam,
Shariat,
ijtehaad,
nazar,
Khomeini,
nigah,
imam
Khamenei,
Islam,
Tasvir,
fiqh,
امام
خمینی,
نگاہ,
اسلام,
صحیح
تصویر,
امام
خامنہ
ای,
7:15
|
44:15
|
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و بیداری اسلامی Farsi
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
More...
Description:
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
51:18
|
التأصيل الفنّي في فكر الإمام الخامنئي- الدكتور طارق إدريس - Arabic
ضمن فعاليات مؤتمر التجديد والاجتهاد الفكري عند الإمام الخامنئي \"الإمام الخامنئي: توجيهات وأفكار\"...
ضمن فعاليات مؤتمر التجديد والاجتهاد الفكري عند الإمام الخامنئي \"الإمام الخامنئي: توجيهات وأفكار\"
أقام معهد المعارف الحكمية ورشة في التأصيل الفني في فكر الإمام الخامنئ مع الدكتور طارق إدريس
More...
Description:
ضمن فعاليات مؤتمر التجديد والاجتهاد الفكري عند الإمام الخامنئي \"الإمام الخامنئي: توجيهات وأفكار\"
أقام معهد المعارف الحكمية ورشة في التأصيل الفني في فكر الإمام الخامنئ مع الدكتور طارق إدريس
97:35
|
Speech - sayed 7sen fadlalla - Arabic
ضمن فعاليات مؤتمر التجديد والاجتهاد الفكري عند الإمام الخامنئي \"توجيهات وأفكار\"
أقام معهد المعارف...
ضمن فعاليات مؤتمر التجديد والاجتهاد الفكري عند الإمام الخامنئي \"توجيهات وأفكار\"
أقام معهد المعارف الحكمية ورشة بعوان الحرب الناعمة في فكر الإمام الخامنئي مع السيد حسين فضل الله
More...
Description:
ضمن فعاليات مؤتمر التجديد والاجتهاد الفكري عند الإمام الخامنئي \"توجيهات وأفكار\"
أقام معهد المعارف الحكمية ورشة بعوان الحرب الناعمة في فكر الإمام الخامنئي مع السيد حسين فضل الله
7:01
|
الحقائق المكتومة و الأمة المخدوعة (10) - تشريع البدع بالقياس، من منظور السنة المطهرة - Arabic
#العقائد_الحقة
#الإمامة
#الحقيقة
#الوحدة_الإسلامية
#الإمامية
#ولاية_الفقيه
وَجهُ الاسْتِدلالِ أنَّ...
#العقائد_الحقة
#الإمامة
#الحقيقة
#الوحدة_الإسلامية
#الإمامية
#ولاية_الفقيه
وَجهُ الاسْتِدلالِ أنَّ النَّبِيَ صلى اللّٰه عليه و آله و سلم أقّرَّ مُعَاذاً عَلَى الاجْتهَادِ بِالرَّأي وَ هُوَ يَشْمِلُ القِياسَ.
و الجوابُ أنَّ هَذَا الخَبَرَ لا يُمْكِنُ العَمَلُ بِظاهِرِهِ لأنَّهُ يَدُلُّ عَلَى أنَّ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حكمَ اللهِ فِي وَاقعةٍ جَازَ لَهُ أنْ يَحْكُمَ بِرَأيِهِ دُونَ الرُجُوعِ إلَى أهْلِ الذِّكْرِ وَ هُوَ خِلافُ مَا جَاءَ بِهِ القُرآنُ قالَ تَعَالى فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لٰا تَعْلَمُونَ*. فَلا بُدَّ أنْ يُرادَ مِنْ اجْتهَادٍ الرَّأيُ وهُوَ الرُّجُوعُ إلَى حُكْمِ العَقْلِ فِيمَا لا نَصَّ فِيهِ مِنَ البَراءَةِ مِنَ التَّكْلِيفِ وَ الإبَاحَةِ الأصْلِيَةِ أوْ إلَى قَاعِدَةِ اشْتِغَالِ الذِّمَّةِ اليَقِينِي يَسْتَدْعِي الفَراغَ اليَقينِي فِي مَورِدِهَا وَ ذلكَ بَعْدَ الفَحْصِ وَ التَّنْقِيبِ عَنْ أدِلَّةِ المَسْألَةِ الَّتِي عَرَضَتْ لَدَيْهِ فَإذَا كَانَ القِياسُ ثَابِتَةً حُجِّيَتَهُ بِغَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ جَازَ الرُّجُوعُ إلَيهِ أيْضَاً كَوَاحِدٍ مِنَ الأدِلَّةِ وَ إلا فَلا يُمْكِنُ الاستدلالُ عَلَيهِ بِنَفْسِ هَذَا الحَدِيثِ.
More...
Description:
#العقائد_الحقة
#الإمامة
#الحقيقة
#الوحدة_الإسلامية
#الإمامية
#ولاية_الفقيه
وَجهُ الاسْتِدلالِ أنَّ النَّبِيَ صلى اللّٰه عليه و آله و سلم أقّرَّ مُعَاذاً عَلَى الاجْتهَادِ بِالرَّأي وَ هُوَ يَشْمِلُ القِياسَ.
و الجوابُ أنَّ هَذَا الخَبَرَ لا يُمْكِنُ العَمَلُ بِظاهِرِهِ لأنَّهُ يَدُلُّ عَلَى أنَّ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حكمَ اللهِ فِي وَاقعةٍ جَازَ لَهُ أنْ يَحْكُمَ بِرَأيِهِ دُونَ الرُجُوعِ إلَى أهْلِ الذِّكْرِ وَ هُوَ خِلافُ مَا جَاءَ بِهِ القُرآنُ قالَ تَعَالى فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لٰا تَعْلَمُونَ*. فَلا بُدَّ أنْ يُرادَ مِنْ اجْتهَادٍ الرَّأيُ وهُوَ الرُّجُوعُ إلَى حُكْمِ العَقْلِ فِيمَا لا نَصَّ فِيهِ مِنَ البَراءَةِ مِنَ التَّكْلِيفِ وَ الإبَاحَةِ الأصْلِيَةِ أوْ إلَى قَاعِدَةِ اشْتِغَالِ الذِّمَّةِ اليَقِينِي يَسْتَدْعِي الفَراغَ اليَقينِي فِي مَورِدِهَا وَ ذلكَ بَعْدَ الفَحْصِ وَ التَّنْقِيبِ عَنْ أدِلَّةِ المَسْألَةِ الَّتِي عَرَضَتْ لَدَيْهِ فَإذَا كَانَ القِياسُ ثَابِتَةً حُجِّيَتَهُ بِغَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ جَازَ الرُّجُوعُ إلَيهِ أيْضَاً كَوَاحِدٍ مِنَ الأدِلَّةِ وَ إلا فَلا يُمْكِنُ الاستدلالُ عَلَيهِ بِنَفْسِ هَذَا الحَدِيثِ.
Video Tags:
الإمام,الإمامية,العدالة,العدل,الإجتماعية,الحق,التكليف,و
العصر,الخسران,ألأخسرين,الزيدية,البكرية,العمرية,البترية,ولاية
الفقيه,الإنتظار,انتظار
الفرج,تيار
الوحدة
و
الأخوة,البدعة,حزب
الله,الإرهاب,الجهاد,الدفاع,إسرائيل,ايران,لبنان,الجميلات,الحقائق
المكتومة,الأمة
المخدوعة,الإمامة
الكاذبة,العلماء,الفقهاء,علماء
السوء,الخيانة,خان
الله
و
رسوله,السياسة,الإدارة,الحب,الرومانسي,أهل
السنة
و
الجماعة,الحماقة,الجهل,النفاق,أهل
السياسة,الرجال,النساء,البنات,الشباب,الإسلام
المزيف,الإنحراف
7:27
|
التفسير الأقوم - مبانی تفاسیر روایی - Farsi
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
اصیل ترین و مهم ترین مصدر تفسیر...
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
اصیل ترین و مهم ترین مصدر تفسیر قرآن کریم، احادیث و روایاتی است که از حضرت ختمی مرتبت ، پیامبر اعظم و ائمه معصومین(ع) به ما رسیده است. این روایات به جهت اتصالشان به سرچشمه وحی، همواره مثل آیات قرآن کریم مورد توجه همگان، خاصه جویندگان حقیقت بوده اند؛ به طوری که اندیشمندان واقع بین و بی غرض، احادیث آن بزرگواران را نزدیک ترین و امن ترین راه وصول به حقایق و معارف بلند قرآن می دانند و بدین جهت است که تفسیر نقلی یا اثری یا روایی، صحیح ترین شکل تفسیر در میان پیروان اهل بیت عصمت و طهارت (ع) بوده است و از دیرباز تا به حال، تلاش فراوانی در جهت حفظ و نگهداری و ترویج احادیث تفسیری انجام گرفته است.
از منظر تاریخی، همگام با نزول وحی و اولین آیات قرآن کریم ، با املاء رسول خدا (ص) و کتابت مولانا امیرالمؤمنین علی (ع) ، تدوین تفسیر و تأویل آغاز شد و این سیر تا لحظه شهادت رسول خدا (ص) ادامه یافت. پس از آن با نصب مولانا امیرالمؤمنین علی (ع) به عنوان امام حق و جانشین بلا فصل رسول خدا (ص) ، وظیفه تبیین ، تفسیر و تأویل آیات قرآن کریم بر عهده ایشان و پس از ایشان بر عهده ائمه معصومین (ع) قرار گرفت. آن بزرگواران با عنایت به این وظیفه الهی، بنابر مصلحت و اقتضاء ، در موقعیت های مناسب ، بخشی هایی از آن معارف را به صاحبان خرد و جویندگان حقیقت منتقل می فرمودند.
اما لازم به ذکر است پیروان ابوبکر و عمر که به ناحق خود را اهل سنت و جماعت یا اهل تسنن می نامند، به علت روی گرداندن از ولایت مولانا امیرالمؤمنین علی (ع) و اعراض از معارف اهل بیت عصمت و طهارت (ع) و همچنین به لحاظ اعمال مستبدانه و خشونت بار سیاست منع نقل و کتابت حدیث از سوی ابوبکر و عمر و عثمان و بعد از آنها بنی امیه و بنی مروان، تا مدتها پس از دوران عمر بن عبد العزیز که سیاست منع نقل و کتابت حدیث را ملغی کرد، با یک گسل تقریبا دویست ساله در نقل حدیث و تفسیر قرآن کریم مواجه هستند. لذا تفاسیر روایی بکریه و عمریه اغلب بر اساس معارف سینه به سینه و احادیث موضوعه و جعلی و آراء و نظرات صحابه و تابعین نا شایست شکل گرفت و مالامال از دروغ و خرافه است. این تفاسیر سنگ زیر بنای اسلام دروغین و اساس اقتدار حکومت های منافق و شالوده تشکیل گروههای تروریستی و مبدأ همه ظلم ها و جنایاتی است که به نام خدا و دین خدا در بستر تاریخ به ثبت رسیده اند. در این تفاسیر جعلی و گمراه کننده، به ندرت روایتی از ائمه معصومین (ع) نقل شده است.
اما شیعیان یا پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) در تفاسیر خود، تنها به روایاتی تکیه و اعتماد می کنند که از معصوم یعنی حضرت ختمی مرتبت رسول خدا (ص) و ائمه هدی (ع) نقل شده باشد.
به اعتقاد شیعیان اقوال و آرای دیگران، در هر مرتبه و مقامی که باشند، از این جهت که احتمال وقوع خطا و لغزش در گفتار، رفتار و تقریر آنها وجود دارد، فاقد حجیت است. بنابراین اقوال اصحاب رسول خدا (ص) و تابعین آنها که عموما افرادی دنیا طلب، منافق ، فاسق و مرتد بوده اند ، در تفسیر قرآن کریم معتبر نیست و در موارد استثناء، روایاتی که از عده ای از صحابه و تابعین مؤمن، برگزیده ، با تقوا و صالح نقل شده، تنها در صورت احراز شرایط صحت و تأیید ائمه هدی (ع) ، مورد قبول است.
اما از آن جهت که عترت رسول خدا یعنی بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی (ع) بنابر آیات عدیده و احادیث متواتره از جمله آیه تطهیر و حدیث ثقلین و غیر آنها، حقیقت قرآن کریم و مبین و مفسر و مأول حقیقی آیات آن هستند و تمسک به اقوال و افعال و تقاریر آن حضرات عین تمسک به کلام خدا و شرط اساسی گمراه نشدن است، در واقع آن بزرگواران تنها مفسران قابل و لایق قرآن کریم و راسخین در علم و آگاه به همه مفاهیم آن هستند. لذا کلیه روایاتی که صدورش از آن بزرگواران ثابت شود، به حق، و بی نیاز از بررسی است.
کتابشناسی تفاسير روایی
قبل از بیان فهرستی از تفاسیر روایی پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) لازم است بر این نکته تأکید کنم که تفاسیر روایی شیعه، در مقایسه با تفاسیر روایی پیروان ابو بکر و عمر که خود را به نا حق اهل سنت و جماعت می نامند، دارای امتیازی مشترک و برجسته هستند و آن توجه به روایات تفسیری ائمه معصومین و حجج الهی (ع) است. بنابر این توجه به روایات تفسیری همواره مورد نظر مفسران شیعه بوده است. ولی همه مفسران شیعه، در گردآوری و طبقه بندی و تدوین روایات، روش واحدی نداشته اند. برخی به ذکر روایات در ذیل آیات اکتفاء کرده اند؛ برخی در تفسیر آیات با اینکه از غیر روایات نیز کمک گرفته اند ، بیش از هر چیز به روایات استناد کرده اند؛ برخی با روش اجتهادی نسبتا جامع، به تفسیر آیات پرداخته اند، ولی یکی از مستندات عمده آنها روایات است؛ و برخی دیگر در تفسیر آیات استنادشان به روایات اندک است، و در کنار تفسیر و اجتهاد ، روایات تفسیری و مربوط به آیات را تبیین و تحلیل کرده اند.
بی شک، هر یک از روشهایی که ذکر شد، به نوبه خود، دارای فواید و امتیازهایی است. اما متأسفانه در این روش ها، کاستی هایی هم مشاهده می شود که از این منظر ، هیچ یک از روش ها را نمی توان روش کاملی در تفسیر روایی قرآن کریم دانست.
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
اصیل ترین و مهم ترین مصدر تفسیر قرآن کریم، احادیث و روایاتی است که از حضرت ختمی مرتبت ، پیامبر اعظم و ائمه معصومین(ع) به ما رسیده است. این روایات به جهت اتصالشان به سرچشمه وحی، همواره مثل آیات قرآن کریم مورد توجه همگان، خاصه جویندگان حقیقت بوده اند؛ به طوری که اندیشمندان واقع بین و بی غرض، احادیث آن بزرگواران را نزدیک ترین و امن ترین راه وصول به حقایق و معارف بلند قرآن می دانند و بدین جهت است که تفسیر نقلی یا اثری یا روایی، صحیح ترین شکل تفسیر در میان پیروان اهل بیت عصمت و طهارت (ع) بوده است و از دیرباز تا به حال، تلاش فراوانی در جهت حفظ و نگهداری و ترویج احادیث تفسیری انجام گرفته است.
از منظر تاریخی، همگام با نزول وحی و اولین آیات قرآن کریم ، با املاء رسول خدا (ص) و کتابت مولانا امیرالمؤمنین علی (ع) ، تدوین تفسیر و تأویل آغاز شد و این سیر تا لحظه شهادت رسول خدا (ص) ادامه یافت. پس از آن با نصب مولانا امیرالمؤمنین علی (ع) به عنوان امام حق و جانشین بلا فصل رسول خدا (ص) ، وظیفه تبیین ، تفسیر و تأویل آیات قرآن کریم بر عهده ایشان و پس از ایشان بر عهده ائمه معصومین (ع) قرار گرفت. آن بزرگواران با عنایت به این وظیفه الهی، بنابر مصلحت و اقتضاء ، در موقعیت های مناسب ، بخشی هایی از آن معارف را به صاحبان خرد و جویندگان حقیقت منتقل می فرمودند.
اما لازم به ذکر است پیروان ابوبکر و عمر که به ناحق خود را اهل سنت و جماعت یا اهل تسنن می نامند، به علت روی گرداندن از ولایت مولانا امیرالمؤمنین علی (ع) و اعراض از معارف اهل بیت عصمت و طهارت (ع) و همچنین به لحاظ اعمال مستبدانه و خشونت بار سیاست منع نقل و کتابت حدیث از سوی ابوبکر و عمر و عثمان و بعد از آنها بنی امیه و بنی مروان، تا مدتها پس از دوران عمر بن عبد العزیز که سیاست منع نقل و کتابت حدیث را ملغی کرد، با یک گسل تقریبا دویست ساله در نقل حدیث و تفسیر قرآن کریم مواجه هستند. لذا تفاسیر روایی بکریه و عمریه اغلب بر اساس معارف سینه به سینه و احادیث موضوعه و جعلی و آراء و نظرات صحابه و تابعین نا شایست شکل گرفت و مالامال از دروغ و خرافه است. این تفاسیر سنگ زیر بنای اسلام دروغین و اساس اقتدار حکومت های منافق و شالوده تشکیل گروههای تروریستی و مبدأ همه ظلم ها و جنایاتی است که به نام خدا و دین خدا در بستر تاریخ به ثبت رسیده اند. در این تفاسیر جعلی و گمراه کننده، به ندرت روایتی از ائمه معصومین (ع) نقل شده است.
اما شیعیان یا پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) در تفاسیر خود، تنها به روایاتی تکیه و اعتماد می کنند که از معصوم یعنی حضرت ختمی مرتبت رسول خدا (ص) و ائمه هدی (ع) نقل شده باشد.
به اعتقاد شیعیان اقوال و آرای دیگران، در هر مرتبه و مقامی که باشند، از این جهت که احتمال وقوع خطا و لغزش در گفتار، رفتار و تقریر آنها وجود دارد، فاقد حجیت است. بنابراین اقوال اصحاب رسول خدا (ص) و تابعین آنها که عموما افرادی دنیا طلب، منافق ، فاسق و مرتد بوده اند ، در تفسیر قرآن کریم معتبر نیست و در موارد استثناء، روایاتی که از عده ای از صحابه و تابعین مؤمن، برگزیده ، با تقوا و صالح نقل شده، تنها در صورت احراز شرایط صحت و تأیید ائمه هدی (ع) ، مورد قبول است.
اما از آن جهت که عترت رسول خدا یعنی بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی (ع) بنابر آیات عدیده و احادیث متواتره از جمله آیه تطهیر و حدیث ثقلین و غیر آنها، حقیقت قرآن کریم و مبین و مفسر و مأول حقیقی آیات آن هستند و تمسک به اقوال و افعال و تقاریر آن حضرات عین تمسک به کلام خدا و شرط اساسی گمراه نشدن است، در واقع آن بزرگواران تنها مفسران قابل و لایق قرآن کریم و راسخین در علم و آگاه به همه مفاهیم آن هستند. لذا کلیه روایاتی که صدورش از آن بزرگواران ثابت شود، به حق، و بی نیاز از بررسی است.
کتابشناسی تفاسير روایی
قبل از بیان فهرستی از تفاسیر روایی پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) لازم است بر این نکته تأکید کنم که تفاسیر روایی شیعه، در مقایسه با تفاسیر روایی پیروان ابو بکر و عمر که خود را به نا حق اهل سنت و جماعت می نامند، دارای امتیازی مشترک و برجسته هستند و آن توجه به روایات تفسیری ائمه معصومین و حجج الهی (ع) است. بنابر این توجه به روایات تفسیری همواره مورد نظر مفسران شیعه بوده است. ولی همه مفسران شیعه، در گردآوری و طبقه بندی و تدوین روایات، روش واحدی نداشته اند. برخی به ذکر روایات در ذیل آیات اکتفاء کرده اند؛ برخی در تفسیر آیات با اینکه از غیر روایات نیز کمک گرفته اند ، بیش از هر چیز به روایات استناد کرده اند؛ برخی با روش اجتهادی نسبتا جامع، به تفسیر آیات پرداخته اند، ولی یکی از مستندات عمده آنها روایات است؛ و برخی دیگر در تفسیر آیات استنادشان به روایات اندک است، و در کنار تفسیر و اجتهاد ، روایات تفسیری و مربوط به آیات را تبیین و تحلیل کرده اند.
بی شک، هر یک از روشهایی که ذکر شد، به نوبه خود، دارای فواید و امتیازهایی است. اما متأسفانه در این روش ها، کاستی هایی هم مشاهده می شود که از این منظر ، هیچ یک از روش ها را نمی توان روش کاملی در تفسیر روایی قرآن کریم دانست.
Video Tags:
پيشينه
تفاسير
روايی,التفسير
الأقوم,رویکرد
صحیح
به
روایات
تفسیری,مشهور,غیر
مشهور,علما
و
محدثان
و
فقها,سلسله
سند,وثوق
و
اطمینان,معصوم,علم
درایت
حدیث,علم
رجال,علم
اصول
فقه,الکافی,علوم
تجربی,دانش
بشر,مدعیان
تشیع,روایات
غیر
معتبر,فاطمه
الزهراء,حجج
الاهی,ائمه
هدی,بکریه
و
عمریه,دعوا
ما
وافق
القوم,فان
الرشد
في
خلافهم,ما
خالف
العامة
ففيه
الرشاد,فان
الحق
في
ما
خالفهم,چهارده
نور
مقدس,تولید
علم,توزیع
علم,معصومين,العياشي,نور
الثقلين,معجزه,قرآن,عترت,البصائر
10:10
|
التفسير الأقوم - مروری کوتاه بر مهمترین تفاسیر روایی شیعه - Farsi
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
قبل از بیان فهرستی از...
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
قبل از بیان فهرستی از تفاسیر روایی پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) لازم است بر این نکته تأکید کنم که تفاسیر روایی شیعه، در مقایسه با تفاسیر روایی پیروان ابو بکر و عمر که خود را به نا حق اهل سنت و جماعت می نامند، دارای امتیازی مشترک و برجسته هستند و آن توجه به روایات تفسیری ائمه معصومین و حجج الهی (ع) است. بنابر این توجه به روایات تفسیری همواره مورد نظر مفسران شیعه بوده است. ولی همه مفسران شیعه، در گردآوری و طبقه بندی و تدوین روایات، روش واحدی نداشته اند. برخی به ذکر روایات در ذیل آیات اکتفاء کرده اند؛ برخی در تفسیر آیات با اینکه از غیر روایات نیز کمک گرفته اند ، بیش از هر چیز به روایات استناد کرده اند؛ برخی با روش اجتهادی نسبتا جامع، به تفسیر آیات پرداخته اند، ولی یکی از مستندات عمده آنها روایات است؛ و برخی دیگر در تفسیر آیات استنادشان به روایات اندک است، و در کنار تفسیر و اجتهاد ، روایات تفسیری و مربوط به آیات را تبیین و تحلیل کرده اند.
بی شک، هر یک از روشهایی که ذکر شد، به نوبه خود، دارای فواید و امتیازهایی است. اما متأسفانه در این روش ها، کاستی هایی هم مشاهده می شود که از این منظر ، هیچ یک از روش ها را نمی توان روش کاملی در تفسیر روایی قرآن کریم دانست.
تفاسير روايی شيعه
از مهم ترین تفاسیر روایی شیعه می توانیم به موارد زیر اشاره کنیم:
تفسیر ابوحمزه ثمالی، ابوحمزه ثابت بندینار ثمالی ازدی کوفی (م ۱۴۸ ق)؛
تفسیر (منسوب به) امام حسن عسکری، به نقل از محمد بنقاسم استرآبادى (م ح ۳۸۰ ق)؛
تفسیر فراتکوفی، ابوالقاسم فرات بنابراهیم کوفی (از اعلام قرن سوم و چهارم قمری)؛
تفسیر قمی، ابوالحسن علی بنابراهیم بنهاشم قمی (از بزرگان شیعه در اواخر قرن سوم و اوایل قرن چهارم)؛
تفسیر عیاشی، ابونصر محمد بنمسعود بنعیاش (از نامدارترین تفاسیر روایی شیعه در قرن سوم هجری)؛
منهج الصادقین فی الزام المخالفین، ملا فتحالله کاشانی (م ۹۸۸ ق)؛
تفسیر شریف لاهیجی، بهاءالدین (قطبالدین) محمد بنشیخ علی الشریف اللاهیجی (م ۱۰۸۸)
الصافی فی تفسیر القرآن، ملا محسن محمد بنمرتضی معروف به فیض کاشانی (م ۱۰۹۱ ق)؛
البرهان فی تفسیر القرآن، سید هاشم بنسلیمان بناسماعیل الحسینی البحرانی کتکانی (م ۱۱۰۷ ق)؛
نورالثقلین، عبدالعلی بنجمعۀ الحویزی الشیرازی (م ۱۱۱۲ ق)؛
تفسیر المعین، مولی نورالدین محمد بنمرتضی کاشانی (م ۱۱۱۵ ق)؛
کنز الدقائق و بحرالغرائب، محمد بنمحمدرضا بناسماعیل بنجمالالدین قمی معروف به میرزا محمد مشهدی (م ۱۱۲۵ ق)؛
تفسیر کبیر یا صفوۀ التفاسیر، سید عبدالله شبّر (م ۱۲۴۲ ق)؛
بحرالعرفان و معدن العرفان، ملا صالح بنآغامحمد برغانی قزوینی حائری (م ۱۲۷۰ ق)؛
مقتنیات الدرر و ملتقطات الثمر، حاج میر سیدعلی حائریطهرانی معروف به مفسر (م۱۳۴۰ ق)؛
نفحات الرحمن فی تفسیر القرآن، شیخ محمد بنعبدالرحیم نهاوندی طهرانی (م ۱۳۷۰ ق)؛
التبیین فی شرح آیات المواعظ و البراهین، شیخ میرزا ابوتراب شهیدی(م ۱۳۷۵ ق)؛
تفسیر اثنیعشری، حسین بناحمد الحسینی الشاه عبدالعظیمی (م ۱۳۸۴ ق)؛
الجدید فی تفسیر القرآن المجید، شیخ محمد حبیبالله سبزواری (م ۱۴۰۹ ق)؛
اطیبالبیان فی تفسیر القرآن، سید عبدالحسین الطیب (م ۱۴۱۱ ق)؛
تفسیر احسن الحدیث، سید علیاکبر قرشی (معاصر)؛
تفسیر جامع، سید ابراهیم بروجردی (معاصر)؛
تفسیر البصائر ، یعسوب الدین رستگار جویباری (م ۱۴۲۱ ق)
تفسیر الأثری الجامع، محمدهادی معرفت (م ۱۴۲۸ ق).
تفسير اهل البيت (ع)
آنچه عرض شد ، اشارهای کلی بود به مهمترین تفسیرهای شیعه که بیشتر بر روش تفسیر روایی و نقلی استوارند. اما تفاسیر دیگری هم هستند که گرچه روش غالب آنها روشی دیگر است، اما ضمنا ، از روش نقلی هم برای شرح و بیان آیات قرآن بهره بردهاند.
با توجه به جایگاه ممتاز چهارده نور مقدس (ع) در تفسیر قرآن و ضرورت رجوع به تفاسیر آن بزرگواران و همچنین گستردگی حجم روایات تفسیری، اهمّیّت پژوهش و دقت نظر در ابعاد مختلف روایات آن بزرگواران و بحث و بررسی و تحلیل و دسته بندی آن ها در تفسیر قرآن کریم روشن است.
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
قبل از بیان فهرستی از تفاسیر روایی پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) لازم است بر این نکته تأکید کنم که تفاسیر روایی شیعه، در مقایسه با تفاسیر روایی پیروان ابو بکر و عمر که خود را به نا حق اهل سنت و جماعت می نامند، دارای امتیازی مشترک و برجسته هستند و آن توجه به روایات تفسیری ائمه معصومین و حجج الهی (ع) است. بنابر این توجه به روایات تفسیری همواره مورد نظر مفسران شیعه بوده است. ولی همه مفسران شیعه، در گردآوری و طبقه بندی و تدوین روایات، روش واحدی نداشته اند. برخی به ذکر روایات در ذیل آیات اکتفاء کرده اند؛ برخی در تفسیر آیات با اینکه از غیر روایات نیز کمک گرفته اند ، بیش از هر چیز به روایات استناد کرده اند؛ برخی با روش اجتهادی نسبتا جامع، به تفسیر آیات پرداخته اند، ولی یکی از مستندات عمده آنها روایات است؛ و برخی دیگر در تفسیر آیات استنادشان به روایات اندک است، و در کنار تفسیر و اجتهاد ، روایات تفسیری و مربوط به آیات را تبیین و تحلیل کرده اند.
بی شک، هر یک از روشهایی که ذکر شد، به نوبه خود، دارای فواید و امتیازهایی است. اما متأسفانه در این روش ها، کاستی هایی هم مشاهده می شود که از این منظر ، هیچ یک از روش ها را نمی توان روش کاملی در تفسیر روایی قرآن کریم دانست.
تفاسير روايی شيعه
از مهم ترین تفاسیر روایی شیعه می توانیم به موارد زیر اشاره کنیم:
تفسیر ابوحمزه ثمالی، ابوحمزه ثابت بندینار ثمالی ازدی کوفی (م ۱۴۸ ق)؛
تفسیر (منسوب به) امام حسن عسکری، به نقل از محمد بنقاسم استرآبادى (م ح ۳۸۰ ق)؛
تفسیر فراتکوفی، ابوالقاسم فرات بنابراهیم کوفی (از اعلام قرن سوم و چهارم قمری)؛
تفسیر قمی، ابوالحسن علی بنابراهیم بنهاشم قمی (از بزرگان شیعه در اواخر قرن سوم و اوایل قرن چهارم)؛
تفسیر عیاشی، ابونصر محمد بنمسعود بنعیاش (از نامدارترین تفاسیر روایی شیعه در قرن سوم هجری)؛
منهج الصادقین فی الزام المخالفین، ملا فتحالله کاشانی (م ۹۸۸ ق)؛
تفسیر شریف لاهیجی، بهاءالدین (قطبالدین) محمد بنشیخ علی الشریف اللاهیجی (م ۱۰۸۸)
الصافی فی تفسیر القرآن، ملا محسن محمد بنمرتضی معروف به فیض کاشانی (م ۱۰۹۱ ق)؛
البرهان فی تفسیر القرآن، سید هاشم بنسلیمان بناسماعیل الحسینی البحرانی کتکانی (م ۱۱۰۷ ق)؛
نورالثقلین، عبدالعلی بنجمعۀ الحویزی الشیرازی (م ۱۱۱۲ ق)؛
تفسیر المعین، مولی نورالدین محمد بنمرتضی کاشانی (م ۱۱۱۵ ق)؛
کنز الدقائق و بحرالغرائب، محمد بنمحمدرضا بناسماعیل بنجمالالدین قمی معروف به میرزا محمد مشهدی (م ۱۱۲۵ ق)؛
تفسیر کبیر یا صفوۀ التفاسیر، سید عبدالله شبّر (م ۱۲۴۲ ق)؛
بحرالعرفان و معدن العرفان، ملا صالح بنآغامحمد برغانی قزوینی حائری (م ۱۲۷۰ ق)؛
مقتنیات الدرر و ملتقطات الثمر، حاج میر سیدعلی حائریطهرانی معروف به مفسر (م۱۳۴۰ ق)؛
نفحات الرحمن فی تفسیر القرآن، شیخ محمد بنعبدالرحیم نهاوندی طهرانی (م ۱۳۷۰ ق)؛
التبیین فی شرح آیات المواعظ و البراهین، شیخ میرزا ابوتراب شهیدی(م ۱۳۷۵ ق)؛
تفسیر اثنیعشری، حسین بناحمد الحسینی الشاه عبدالعظیمی (م ۱۳۸۴ ق)؛
الجدید فی تفسیر القرآن المجید، شیخ محمد حبیبالله سبزواری (م ۱۴۰۹ ق)؛
اطیبالبیان فی تفسیر القرآن، سید عبدالحسین الطیب (م ۱۴۱۱ ق)؛
تفسیر احسن الحدیث، سید علیاکبر قرشی (معاصر)؛
تفسیر جامع، سید ابراهیم بروجردی (معاصر)؛
تفسیر البصائر ، یعسوب الدین رستگار جویباری (م ۱۴۲۱ ق)
تفسیر الأثری الجامع، محمدهادی معرفت (م ۱۴۲۸ ق).
تفسير اهل البيت (ع)
آنچه عرض شد ، اشارهای کلی بود به مهمترین تفسیرهای شیعه که بیشتر بر روش تفسیر روایی و نقلی استوارند. اما تفاسیر دیگری هم هستند که گرچه روش غالب آنها روشی دیگر است، اما ضمنا ، از روش نقلی هم برای شرح و بیان آیات قرآن بهره بردهاند.
با توجه به جایگاه ممتاز چهارده نور مقدس (ع) در تفسیر قرآن و ضرورت رجوع به تفاسیر آن بزرگواران و همچنین گستردگی حجم روایات تفسیری، اهمّیّت پژوهش و دقت نظر در ابعاد مختلف روایات آن بزرگواران و بحث و بررسی و تحلیل و دسته بندی آن ها در تفسیر قرآن کریم روشن است.
Video Tags:
التفسير
الأقوم,رویکرد
صحیح
به
روایات
تفسیری,مشهور,غیر
مشهور,علما
و
محدثان
و
فقها,سلسله
سند,وثوق
و
اطمینان,معصوم,علم
درایت
حدیث,علم
رجال,علم
اصول
فقه,الکافی,وسائل
الشیعه,مرحوم
کلینی,علوم
تجربی,دانش
بشر,مدعیان
تشیع,روایات
غیر
معتبر,فاطمه
الزهراء,حجج
الاهی,ائمه
هدی,بکریه
و
عمریه,دعوا
ما
وافق
القوم,فان
الرشد
في
خلافهم,ما
خالف
العامة
ففيه
الرشاد,فان
الحق
في
ما
خالفهم,چهارده
نور
مقدس,تولید
علم,توزیع
علم,معصومين,العياشي,نور
الثقلين,معجزه,قرآن,عترت
13:06
|
التفسير الأقوم - انحصار مرجعیت چهارده نور مقدس علیهم السلام در تفسیر و تأویل قرآن کریم - Farsi
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
انحصار مرجعیت رسول خدا و...
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
انحصار مرجعیت رسول خدا و ائمه هدی علیهم السلام در تفسیر و تأویل قرآن کریم بدان معنا نیست که هیچ کس بدون مراجعه به احادیث و روایات آن حضرات علیهم السلام ، قادر به درک هیچ معنا و مفهومی از قرآن و آیات آن نیست. پاره ای از آیات قرآن از مفهومی صریح و روشن برخوردارند و برای هر فردی که با زبان عربی آشنا باشد، قابل درک است. اما در مقابل، پاره ای دیگر از آیات واجد ابهام و تعقید و یا در زمره متشابهات قرآن اند، که نیاز به تفسیر و تبیین دارند.
امیرالمؤمنین علیه السلام در حدیثی در پاسخ به زندیقی که سؤال کرد، اگر قرآن کتاب هدایت برای بشریت است ، پس چرا در قرآن آیات متشابهات وجود دارد و افراد با قرائت آنها گمراه می شوند؟ فرمودند:
وَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِلْعِلْمِ أَهْلًا وَ فَرَضَ عَلَى الْعِبَادِ طَاعَتَهُمْ بِقَوْلِهِ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ «2»- وَ بِقَوْلِهِ وَ لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَ إِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ «3»- وَ بِقَوْلِهِ اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ - وَ بِقَوْلِهِ وَ ما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ - وَ بِقَوْلِهِ وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها «6»- وَ الْبُيُوتُ هِيَ بُيُوتُ الْعِلْمِ الَّتِي اسْتَوْدَعَهَا الْأَنْبِيَاءُ وَ أَبْوَابُهَا أَوْصِيَاؤُهُمْ
فرمودند: خداوند سبحان ، برای علم (معارف و شرایع دین حق) اهلی قرار داد (یعنی چهارده نور مقدس) و طاعت آن اهل علم را با این آیات از قرآن کریم، بر بندگان خود واجب فرمود: أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ- وَ لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَ إِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ «3»- اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ - وَ ما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ - وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها «6» منظور از بیوت در این آیه اخیر ، خانه های علمی که انبیاء، معارف و شرایع الهی را در آنها به ودیعت نهاده اند و اوصیای آن بزرگواران به منزله درهای آن خانه ها هستند. ......
به علاوه، خداوند سبحان ، کلام خود ، قرآن کریم را به سه قسم نازل فرموده است: قسمی از آیات قرآن را همه ، عالم و جاهل می فهمند. قسم دیگر را جز آن کسانی که ذهنی روشن و ادراکی لطیف و قدرت تشخیصی درست دارند و خداوند سینه آنها را برای درک حقایق اسلام گشاده کرده، نمی فهمد و گونه سوم را جز خداوند و فرشتگان و راسخان در علم یعنی رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام ) درک نمی کنند. خداوند متعال از آن جهت قرآنش را این چنین مشتمل بر آیات متشابهات نازل فرمود که افراد نالایق و اهل باطلی مثل ابوبکر، عمر، عثمان و معاویه و غیر اینها که به زور بر میراث علمی و فرهنگی رسول خدا (ص) دست پیدا می کنند ، ادعای فهم قرآن و دارا بودن دانش تفسیر و تأویل آن را که خداوند متعال ، آنها را از آن بهره مند نکرده است، نکنند و به ناچار به کسی مراجعه کنند و از کسی پیروی کنند که خداوند سبحان او را جانشین بلا فصل رسول خود و سرپرست آنها قرارداده است یعنی امیرالمؤمنین علی علیه السلام. اما آنها از اطاعت او سرباز زدند.
مرحوم شیخ حر عاملی علیه الرحمه و الرضوان در ذیل این روایت می فرمایند: أَقُولُ: لَا يَخْفَى أَنَّ آيَاتِ الْأَحْكَامِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْأَحْكَامِ النَّظَرِيَّةِ كُلُّهَا مِنَ الْقِسْمِ الثَّالِثِ وَ لَا أَقَلَّ مِنَ الِاحْتِمَالِ وَ هُوَ كَافٍ، كَيْفَ وَ النَّسْخُ فِيهَا كَثِيرٌ جِدّاً بَلْ لَا يُوجَدُ فِي غَيْرِهَا. وسائل الشيعة، ج27، ص: 194
ناگفته نماند آیاتی که مشتمل بر احکام شرعی هستند (یعنی آیات الاحکام) به نسبت احکامی که نیاز به اجتهاد و نظر دارند، همگی از قسم سوم هستند. یعنی آیات الاحکام را جز خداوند و فرشتگان و راسخان در علم یعنی رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام درک نمی کنند و اگر به ضرس قاطع هم این مطلب را قائل نباشیم، لا اقل احتمال آن وجود دارد که چنین باشد و این برای عدم جواز استنباط احکام نظری از ظواهر آیات الاحکام کافی است، مگر آنکه تفسیر آن آیات از طریق ائمه معصومین (ع) به ما رسیده باشد. لذا حتی اگر تفسیری از آیات الاحکام، از غیر طریق آن بزرگواران به ما رسیده باشد، معتبر نیست. و چگونه چنین نباشد در حالی که نسخ در میان آیات قرآن کریم اتفاق افتاده است، بلکه می توان گفت در میان غیر آیات الاحکام نسخی اتفاق نیافتاده است و نمی دانیم کدام آیه از آیات الاحکام ، ناسخ و کدام منسوخ است و این علم فقط نزد چهارده نور مقدس (ع) است.
با توجه به روایت فوق و دیگر روایات باید موضوع را این چنین جمع بندی کنیم که فهم جامع قرآن و اشراف بر همه ابعاد و زوایای ظاهری و باطنی آن و رسوخ به اعماق آن که پیش شرط و لازمه سعادت و رستگاری بشریت است ، در انحصار رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام است و تنها با مراجعه به آموزه های آن حضرات می توان به این فهم و اشراف و رسوخ نزدیک شد و اگر کسی بدون مراجعه به چهارده نور مقدس علیهم السلام مدعی فهم و تفسیر کلیت قرآن و بهره برداری شایسته و عاری از تعارض و تناقض و بطلان و بد فهمی قرآن کریم باشد، ادعای گزافی است و خود و دیگران را در معرض هلاکت ابدی قرار داده است. چون خود قرآن کریم می فرماید: و ما یعلم تأویله الا الله و الراسخون فی العلم
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
انحصار مرجعیت رسول خدا و ائمه هدی علیهم السلام در تفسیر و تأویل قرآن کریم بدان معنا نیست که هیچ کس بدون مراجعه به احادیث و روایات آن حضرات علیهم السلام ، قادر به درک هیچ معنا و مفهومی از قرآن و آیات آن نیست. پاره ای از آیات قرآن از مفهومی صریح و روشن برخوردارند و برای هر فردی که با زبان عربی آشنا باشد، قابل درک است. اما در مقابل، پاره ای دیگر از آیات واجد ابهام و تعقید و یا در زمره متشابهات قرآن اند، که نیاز به تفسیر و تبیین دارند.
امیرالمؤمنین علیه السلام در حدیثی در پاسخ به زندیقی که سؤال کرد، اگر قرآن کتاب هدایت برای بشریت است ، پس چرا در قرآن آیات متشابهات وجود دارد و افراد با قرائت آنها گمراه می شوند؟ فرمودند:
وَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِلْعِلْمِ أَهْلًا وَ فَرَضَ عَلَى الْعِبَادِ طَاعَتَهُمْ بِقَوْلِهِ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ «2»- وَ بِقَوْلِهِ وَ لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَ إِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ «3»- وَ بِقَوْلِهِ اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ - وَ بِقَوْلِهِ وَ ما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ - وَ بِقَوْلِهِ وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها «6»- وَ الْبُيُوتُ هِيَ بُيُوتُ الْعِلْمِ الَّتِي اسْتَوْدَعَهَا الْأَنْبِيَاءُ وَ أَبْوَابُهَا أَوْصِيَاؤُهُمْ
فرمودند: خداوند سبحان ، برای علم (معارف و شرایع دین حق) اهلی قرار داد (یعنی چهارده نور مقدس) و طاعت آن اهل علم را با این آیات از قرآن کریم، بر بندگان خود واجب فرمود: أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ- وَ لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَ إِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ «3»- اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ - وَ ما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ - وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها «6» منظور از بیوت در این آیه اخیر ، خانه های علمی که انبیاء، معارف و شرایع الهی را در آنها به ودیعت نهاده اند و اوصیای آن بزرگواران به منزله درهای آن خانه ها هستند. ......
به علاوه، خداوند سبحان ، کلام خود ، قرآن کریم را به سه قسم نازل فرموده است: قسمی از آیات قرآن را همه ، عالم و جاهل می فهمند. قسم دیگر را جز آن کسانی که ذهنی روشن و ادراکی لطیف و قدرت تشخیصی درست دارند و خداوند سینه آنها را برای درک حقایق اسلام گشاده کرده، نمی فهمد و گونه سوم را جز خداوند و فرشتگان و راسخان در علم یعنی رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام ) درک نمی کنند. خداوند متعال از آن جهت قرآنش را این چنین مشتمل بر آیات متشابهات نازل فرمود که افراد نالایق و اهل باطلی مثل ابوبکر، عمر، عثمان و معاویه و غیر اینها که به زور بر میراث علمی و فرهنگی رسول خدا (ص) دست پیدا می کنند ، ادعای فهم قرآن و دارا بودن دانش تفسیر و تأویل آن را که خداوند متعال ، آنها را از آن بهره مند نکرده است، نکنند و به ناچار به کسی مراجعه کنند و از کسی پیروی کنند که خداوند سبحان او را جانشین بلا فصل رسول خود و سرپرست آنها قرارداده است یعنی امیرالمؤمنین علی علیه السلام. اما آنها از اطاعت او سرباز زدند.
مرحوم شیخ حر عاملی علیه الرحمه و الرضوان در ذیل این روایت می فرمایند: أَقُولُ: لَا يَخْفَى أَنَّ آيَاتِ الْأَحْكَامِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْأَحْكَامِ النَّظَرِيَّةِ كُلُّهَا مِنَ الْقِسْمِ الثَّالِثِ وَ لَا أَقَلَّ مِنَ الِاحْتِمَالِ وَ هُوَ كَافٍ، كَيْفَ وَ النَّسْخُ فِيهَا كَثِيرٌ جِدّاً بَلْ لَا يُوجَدُ فِي غَيْرِهَا. وسائل الشيعة، ج27، ص: 194
ناگفته نماند آیاتی که مشتمل بر احکام شرعی هستند (یعنی آیات الاحکام) به نسبت احکامی که نیاز به اجتهاد و نظر دارند، همگی از قسم سوم هستند. یعنی آیات الاحکام را جز خداوند و فرشتگان و راسخان در علم یعنی رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام درک نمی کنند و اگر به ضرس قاطع هم این مطلب را قائل نباشیم، لا اقل احتمال آن وجود دارد که چنین باشد و این برای عدم جواز استنباط احکام نظری از ظواهر آیات الاحکام کافی است، مگر آنکه تفسیر آن آیات از طریق ائمه معصومین (ع) به ما رسیده باشد. لذا حتی اگر تفسیری از آیات الاحکام، از غیر طریق آن بزرگواران به ما رسیده باشد، معتبر نیست. و چگونه چنین نباشد در حالی که نسخ در میان آیات قرآن کریم اتفاق افتاده است، بلکه می توان گفت در میان غیر آیات الاحکام نسخی اتفاق نیافتاده است و نمی دانیم کدام آیه از آیات الاحکام ، ناسخ و کدام منسوخ است و این علم فقط نزد چهارده نور مقدس (ع) است.
با توجه به روایت فوق و دیگر روایات باید موضوع را این چنین جمع بندی کنیم که فهم جامع قرآن و اشراف بر همه ابعاد و زوایای ظاهری و باطنی آن و رسوخ به اعماق آن که پیش شرط و لازمه سعادت و رستگاری بشریت است ، در انحصار رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام است و تنها با مراجعه به آموزه های آن حضرات می توان به این فهم و اشراف و رسوخ نزدیک شد و اگر کسی بدون مراجعه به چهارده نور مقدس علیهم السلام مدعی فهم و تفسیر کلیت قرآن و بهره برداری شایسته و عاری از تعارض و تناقض و بطلان و بد فهمی قرآن کریم باشد، ادعای گزافی است و خود و دیگران را در معرض هلاکت ابدی قرار داده است. چون خود قرآن کریم می فرماید: و ما یعلم تأویله الا الله و الراسخون فی العلم
Video Tags:
التفسير
الأقوم,رویکرد
صحیح
به
روایات
تفسیری,مشهور,غیر
مشهور,علما
و
محدثان
و
فقها,سلسله
سند,وثوق
و
اطمینان,معصوم,علم
درایت
حدیث,علم
رجال,علم
اصول
فقه,الکافی,وسائل
الشیعه,مرحوم
کلینی,علوم
تجربی,دانش
بشر,مدعیان
تشیع,روایات
غیر
معتبر,فاطمه
الزهراء,حجج
الاهی,ائمه
هدی,بکریه
و
عمریه,دعوا
ما
وافق
القوم,فان
الرشد
في
خلافهم,ما
خالف
العامة
ففيه
الرشاد,فان
الحق
في
ما
خالفهم,چهارده
نور
مقدس,تولید
علم,توزیع
علم,معصومين,العياشي,نور
الثقلين,معجزه,قرآن,عترت
8:44
|
Q&A 07 | Shubhaat ke Jawabaat | Ayatullah shaykh Ghulam Abbas Raeesi | Urdu
دقیق شبہات،مستند جوابات
از :آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی
سوال:09-
کیا نظام اجتہاد و مرجعیت فتاوی دینے میں...
دقیق شبہات،مستند جوابات
از :آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی
سوال:09-
کیا نظام اجتہاد و مرجعیت فتاوی دینے میں قرآن کو اہمیت نہیں دیتے ؟ یہ بھی کہا گیا جاتا ہے کہ ہر توضیح المسائل کے تمام فتاوی میں قرآن کو بنیاد نہیں بنایا گیا ۔کیا یہ بات درست ہے ؟
البلاغ:ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
دقیق شبہات،مستند جوابات
از :آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی
سوال:09-
کیا نظام اجتہاد و مرجعیت فتاوی دینے میں قرآن کو اہمیت نہیں دیتے ؟ یہ بھی کہا گیا جاتا ہے کہ ہر توضیح المسائل کے تمام فتاوی میں قرآن کو بنیاد نہیں بنایا گیا ۔کیا یہ بات درست ہے ؟
البلاغ:ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان