MWM اھم اعلان - قرآن و سنت کانفرنس - Urdu
ایم ڈبلیو ایم نے قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا
اسلام ٹائمز: مرکزی مسؤل اطلاعات ایم...
ایم ڈبلیو ایم نے قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا
اسلام ٹائمز: مرکزی مسؤل اطلاعات ایم ڈبلیو ایم کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کانفرنس کا مقصد اتحاد امت ہے، جس میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی مسؤل اطلاعات و نشریات سید ناصر عباس شیرازی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شیعیان پاکستان کا عظیم اجتماع یکم جولائی کو سرزمین لاہور پر منعقد ہو گا، جس میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شریک ہوں گے۔ ملت تشیع پاکستان اس سے قبل بھی اسی جگہ پر دو عظیم اجتماع کر چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اجتماع بھی ملکی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ پورے ملک میں رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور علمائے کرام اس حوالے سے دورہ جات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کانفرنس کا مقصد اتحاد امت ہے، جس میں امت مسلمہ کو دہشتگردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں امن، وحدت اور بھائی چارے کا علم لے کر نکلے ہیں، جن کو پاکستان سے محبت ہے ان کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، ہم پاکستان کے استحکام اور اسلام کی سربلندی کے لئے استعماری سازشوں کے سامنے سسیہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پوری شیعہ قوم علامہ ناصر عباس کی قیادت میں متحد ہے اور ہم تمام شیعہ جماعتوں، انجمنوں، تنظیموں، ماتمی سنگتوں اور ذاکرین کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پیغام امن اور محبت ہے۔ مجلس وحدت پوری قوم کو ایک لڑی میں پروئے گی، جس سے استعمار کی سازشیں اور ہتھکنڈے ناکام ہو جائیں گے۔ ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ ماضی میں اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے ملت کا شیرازہ بکھیرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن ہم نے پوری قوم کو اتحاد کی دعوت دی ہے، آج کے اس پرآشوب دور میں اتحاد اہم ترین ضرورت ہے۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ کراچی میں مجلس وحدت مسلمین کے عظیم اجتماع نے استعمار کی نیندیں حرام کر دیں ہیں، اس کے بعد ضلعی ہیڈکوارٹرز پر بھی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کے بعد یکم جولائی کو لاہور میں منعقد ہونے والا جلسہ ملکی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ملت کے نوجوان بھی ہمارے دست و بازو ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ کسی بھی قوم کا مستقبل نوجوان ہوتے ہیں اور نوجوانوں کی تربیت بہتر انداز میں ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے، اس حوالے سے بھی مجلس وحدت مسلمین تربیتی امور پر مصروف عمل ہے۔
More...
Description:
ایم ڈبلیو ایم نے قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا
اسلام ٹائمز: مرکزی مسؤل اطلاعات ایم ڈبلیو ایم کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کانفرنس کا مقصد اتحاد امت ہے، جس میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی مسؤل اطلاعات و نشریات سید ناصر عباس شیرازی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شیعیان پاکستان کا عظیم اجتماع یکم جولائی کو سرزمین لاہور پر منعقد ہو گا، جس میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شریک ہوں گے۔ ملت تشیع پاکستان اس سے قبل بھی اسی جگہ پر دو عظیم اجتماع کر چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اجتماع بھی ملکی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ پورے ملک میں رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور علمائے کرام اس حوالے سے دورہ جات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کانفرنس کا مقصد اتحاد امت ہے، جس میں امت مسلمہ کو دہشتگردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں امن، وحدت اور بھائی چارے کا علم لے کر نکلے ہیں، جن کو پاکستان سے محبت ہے ان کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، ہم پاکستان کے استحکام اور اسلام کی سربلندی کے لئے استعماری سازشوں کے سامنے سسیہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پوری شیعہ قوم علامہ ناصر عباس کی قیادت میں متحد ہے اور ہم تمام شیعہ جماعتوں، انجمنوں، تنظیموں، ماتمی سنگتوں اور ذاکرین کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پیغام امن اور محبت ہے۔ مجلس وحدت پوری قوم کو ایک لڑی میں پروئے گی، جس سے استعمار کی سازشیں اور ہتھکنڈے ناکام ہو جائیں گے۔ ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ ماضی میں اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے ملت کا شیرازہ بکھیرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن ہم نے پوری قوم کو اتحاد کی دعوت دی ہے، آج کے اس پرآشوب دور میں اتحاد اہم ترین ضرورت ہے۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ کراچی میں مجلس وحدت مسلمین کے عظیم اجتماع نے استعمار کی نیندیں حرام کر دیں ہیں، اس کے بعد ضلعی ہیڈکوارٹرز پر بھی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کے بعد یکم جولائی کو لاہور میں منعقد ہونے والا جلسہ ملکی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ملت کے نوجوان بھی ہمارے دست و بازو ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ کسی بھی قوم کا مستقبل نوجوان ہوتے ہیں اور نوجوانوں کی تربیت بہتر انداز میں ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے، اس حوالے سے بھی مجلس وحدت مسلمین تربیتی امور پر مصروف عمل ہے۔
34:21
|
[22 April 2012] Seyed Ali Khamenei Meets with Army Commanders and Personnel - Farsi
بازدید فرمانده كل قوا از نمایشگاه دستاوردهای نیروی زمینی ارتش
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=19438
حضرت آيتالله...
بازدید فرمانده كل قوا از نمایشگاه دستاوردهای نیروی زمینی ارتش
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=19438
حضرت آيتالله خامنهای رهبر معظّم انقلاب اسلامی پيش از ظهر روز 3 اردیبهشت 1391، ضمن حضور در محل ستاد نيروی زمينی ارتش جمهوری اسلامی ايران، از نزديك در جريان فعاليتها و دستاوردهای اين نيرو قرار گرفتند.
فرمانده كل قوا ابتدا با حضور در محل يادمان شهدای دفاع مقدس و قرائت فاتحه، علوّ درجات شهدا را مسئلت كردند.
حضرت آيتالله خامنهای سپس ضمن بازديد از نمايشگاه فعاليتهای آموزشی، تحقيقاتی، مهندسی و رزمی نيروی زمينی ارتش، از جمله طرح شبيهسازی آموزش چتربازی كه به دست متخصصان داخلی طراحی و ساخته شده است، با يگانهای مستقر در پادگان ابوذر در سرپلذهاب و گروه مقدم پشتيبانی هواپيمايی نيروی زمينی ارتش در زاهدان از طريق ويدئوكنفرانس گفتوگو كردند.
فرمانده معظّم كل قوا در جمع فرماندهان يگانهای عملياتی و رزمی نيروی زمينی ارتش، مهمترين موضوع در نيروهای مسلح را توجه به اهتمام و انگيزهی ناشی از ايمان دينی دانستند و تأكيد كردند: بايد در مديريت نيروهای مسلح، تقويت انگيزههای دينی عميق و ماندگار همواره مد نظر باشد و از آن لحظهای غفلت نشود.
ايشان با تأكيد بر اينكه ايمان به خداوند و ايمان به غيب زمينهساز انگيزههای مستحكم و مؤثر است، افزودند: تأثير انگيزههای عميق و ماندگار در انسانهای مؤمن و شجاع در مقاطع حساس و سرنوشتساز نمايانگر میشود؛ همانگونه كه رزمندگان اسلام و نيروهای مسلح توانستند هشت سال در مقابل ارتش بعثی و كاملاً مجهز صدام كه مورد پشتيبانی قدرتهای بزرگ بود، مقاومت كنند و به پيروزی برسند.
حضرت آيتالله خامنهای استمرار و تقويت اين روحيهی مقاومت را در بدنهی نيروهای مسلح، ضروری و بسيار مهم خواندند و خاطرنشان كردند: البته فرماندهان نظامی نيز بايد ضمن برخورداری از علم و دانش و استحكام شخصيتی، دارای روحيهی اخلاص و دلبسته نبودن به دنيا باشند.
رهبر انقلاب اسلامی نيروی زمينی ارتش را بخش مهم و محور ارتش خواندند و بر لزوم برنامهريزی، پشتيبانی و آموزش در اين نيرو تأكيد كردند.
پيش از بيانات رهبر معظم انقلاب در جمع فرماندهان يگانهای عملياتی نيروی زمينی ارتش، اميرسرلشگر صالحی فرمانده كل ارتش ضمن خير مقدم، گزارشی را ارائه كرد.
اميرسرتيپ پوردستان فرمانده نيروی زمينی ارتش نيز در گزارشی وضعيت نيروی زمينی ارتش و آمادگی آنها در مناطق مختلف كشور را تشريح كرد.
فرمانده كل قوا همچنين در جمع فرماندهان منتخب، درجهداران، دانشجويان و كارمندان نيروی زمينی ارتش با اشاره با حركت بالنده و رو به رشد ارتش در سه دههی گذشته تأكيد كردند: امروز ارتش جمهوری اسلامی ايران يكی از مردمیترين نهادهای كشور و ارتشی الهی و اسلامی و حقيقتاً در خدمت منافع ملی است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1624&Itemid=2
Supreme Leader Meets with Army Commanders and Personnel
22/04/2012
Ayatollah Khamenei the Commander-in-Chief of the Iranian Armed Forces met today with the commanders and personnel of the Army\'s Ground Forces. Speaking at the meeting, Ayatollah Khamenei said that the most important issue is the determination and motivation that results from religious faith. He stressed: \"Strengthening deep and firm religious motives must always receive attention from the management of the Armed Forces and these motives must not be neglected even for a moment.\"
His Eminence said that religious faith prepares the ground for firm and effective motives, further adding: \"Faithful and courageous people\'s deep and firm motives reveal their effect at sensitive and fateful junctures, just as our faithful soldiers and Armed Forces managed to resist and achieve victory against the Ba\'ath Army, a fully equipped army which was supported by the superpowers.\"
Ayatollah Khamenei said that it is necessary to maintain and strengthen the spirit of resistance in the Armed Forces. \"Of course, besides acquiring knowledge and developing a firm character, our military commanders should enjoy a spirit of sincerity and avoid becoming attached on the material world.\"
He referred to the progressive movement of the Iranian Army over the past three decades and stressed: \"Today the Islamic Republic of Iran\'s Army is one of the most populist organizations in the country. It is also a divine and Islamic army which truly serves our national interests.\"
Ayatollah Khamenei said that the hegemonic powers claim that their armies have been established to safeguard national interests and added: \"Despite the claims made by the hegemonic powers, their armies are at the service of promoting political ambitions and safeguarding taghuti powers, and national interests are not at all important for them.\"
His Eminence reiterated: \"By massacring the people of Iraq and Afghanistan and by committing crimes in these countries, is the US Army really trying to serve the national interests of the American people?\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: \"The Islamic Republic of Iran\'s Army is the only army that is at the service of the people and national interests. And its members and commanders share the same beliefs and feelings as the people.\"
Ayatollah Khamenei said that the Army has been shaped by its progressive movement after the victory of the Islamic Revolution. He added: \"It is necessary to constantly strengthen this auspicious movement in the Islamic Republic of Iran\'s Army.\"
His Eminence reiterated: \"Today a movement has started in the world which is opposed to categorizing countries as domineering and dominated, and Islamic Iran is at the epicenter of this movement.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that the Islamic Republic of Iran has become the target of threats and sanctions because it is the epicenter of this movement, further stressing: \"After permeating the minds and bodies of Muslim nations for more than three decades, this extremely important movement has emerged as a concentrated force and the developments in Egypt and certain other countries are the result of this movement.\"
Ayatollah Khamenei said that the colonialist and hegemonic powers of the world are extremely afraid of the movement and reiterated that their fear is fueled by the determined and faithful youth of Islamic Iran and the knowledge and insight of the Iranian people.
He stated that the Islamic Republic of Iran\'s Army plays a significant role in this regard and added that it is necessary to strengthen it.
More...
Description:
بازدید فرمانده كل قوا از نمایشگاه دستاوردهای نیروی زمینی ارتش
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=19438
حضرت آيتالله خامنهای رهبر معظّم انقلاب اسلامی پيش از ظهر روز 3 اردیبهشت 1391، ضمن حضور در محل ستاد نيروی زمينی ارتش جمهوری اسلامی ايران، از نزديك در جريان فعاليتها و دستاوردهای اين نيرو قرار گرفتند.
فرمانده كل قوا ابتدا با حضور در محل يادمان شهدای دفاع مقدس و قرائت فاتحه، علوّ درجات شهدا را مسئلت كردند.
حضرت آيتالله خامنهای سپس ضمن بازديد از نمايشگاه فعاليتهای آموزشی، تحقيقاتی، مهندسی و رزمی نيروی زمينی ارتش، از جمله طرح شبيهسازی آموزش چتربازی كه به دست متخصصان داخلی طراحی و ساخته شده است، با يگانهای مستقر در پادگان ابوذر در سرپلذهاب و گروه مقدم پشتيبانی هواپيمايی نيروی زمينی ارتش در زاهدان از طريق ويدئوكنفرانس گفتوگو كردند.
فرمانده معظّم كل قوا در جمع فرماندهان يگانهای عملياتی و رزمی نيروی زمينی ارتش، مهمترين موضوع در نيروهای مسلح را توجه به اهتمام و انگيزهی ناشی از ايمان دينی دانستند و تأكيد كردند: بايد در مديريت نيروهای مسلح، تقويت انگيزههای دينی عميق و ماندگار همواره مد نظر باشد و از آن لحظهای غفلت نشود.
ايشان با تأكيد بر اينكه ايمان به خداوند و ايمان به غيب زمينهساز انگيزههای مستحكم و مؤثر است، افزودند: تأثير انگيزههای عميق و ماندگار در انسانهای مؤمن و شجاع در مقاطع حساس و سرنوشتساز نمايانگر میشود؛ همانگونه كه رزمندگان اسلام و نيروهای مسلح توانستند هشت سال در مقابل ارتش بعثی و كاملاً مجهز صدام كه مورد پشتيبانی قدرتهای بزرگ بود، مقاومت كنند و به پيروزی برسند.
حضرت آيتالله خامنهای استمرار و تقويت اين روحيهی مقاومت را در بدنهی نيروهای مسلح، ضروری و بسيار مهم خواندند و خاطرنشان كردند: البته فرماندهان نظامی نيز بايد ضمن برخورداری از علم و دانش و استحكام شخصيتی، دارای روحيهی اخلاص و دلبسته نبودن به دنيا باشند.
رهبر انقلاب اسلامی نيروی زمينی ارتش را بخش مهم و محور ارتش خواندند و بر لزوم برنامهريزی، پشتيبانی و آموزش در اين نيرو تأكيد كردند.
پيش از بيانات رهبر معظم انقلاب در جمع فرماندهان يگانهای عملياتی نيروی زمينی ارتش، اميرسرلشگر صالحی فرمانده كل ارتش ضمن خير مقدم، گزارشی را ارائه كرد.
اميرسرتيپ پوردستان فرمانده نيروی زمينی ارتش نيز در گزارشی وضعيت نيروی زمينی ارتش و آمادگی آنها در مناطق مختلف كشور را تشريح كرد.
فرمانده كل قوا همچنين در جمع فرماندهان منتخب، درجهداران، دانشجويان و كارمندان نيروی زمينی ارتش با اشاره با حركت بالنده و رو به رشد ارتش در سه دههی گذشته تأكيد كردند: امروز ارتش جمهوری اسلامی ايران يكی از مردمیترين نهادهای كشور و ارتشی الهی و اسلامی و حقيقتاً در خدمت منافع ملی است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1624&Itemid=2
Supreme Leader Meets with Army Commanders and Personnel
22/04/2012
Ayatollah Khamenei the Commander-in-Chief of the Iranian Armed Forces met today with the commanders and personnel of the Army\'s Ground Forces. Speaking at the meeting, Ayatollah Khamenei said that the most important issue is the determination and motivation that results from religious faith. He stressed: \"Strengthening deep and firm religious motives must always receive attention from the management of the Armed Forces and these motives must not be neglected even for a moment.\"
His Eminence said that religious faith prepares the ground for firm and effective motives, further adding: \"Faithful and courageous people\'s deep and firm motives reveal their effect at sensitive and fateful junctures, just as our faithful soldiers and Armed Forces managed to resist and achieve victory against the Ba\'ath Army, a fully equipped army which was supported by the superpowers.\"
Ayatollah Khamenei said that it is necessary to maintain and strengthen the spirit of resistance in the Armed Forces. \"Of course, besides acquiring knowledge and developing a firm character, our military commanders should enjoy a spirit of sincerity and avoid becoming attached on the material world.\"
He referred to the progressive movement of the Iranian Army over the past three decades and stressed: \"Today the Islamic Republic of Iran\'s Army is one of the most populist organizations in the country. It is also a divine and Islamic army which truly serves our national interests.\"
Ayatollah Khamenei said that the hegemonic powers claim that their armies have been established to safeguard national interests and added: \"Despite the claims made by the hegemonic powers, their armies are at the service of promoting political ambitions and safeguarding taghuti powers, and national interests are not at all important for them.\"
His Eminence reiterated: \"By massacring the people of Iraq and Afghanistan and by committing crimes in these countries, is the US Army really trying to serve the national interests of the American people?\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: \"The Islamic Republic of Iran\'s Army is the only army that is at the service of the people and national interests. And its members and commanders share the same beliefs and feelings as the people.\"
Ayatollah Khamenei said that the Army has been shaped by its progressive movement after the victory of the Islamic Revolution. He added: \"It is necessary to constantly strengthen this auspicious movement in the Islamic Republic of Iran\'s Army.\"
His Eminence reiterated: \"Today a movement has started in the world which is opposed to categorizing countries as domineering and dominated, and Islamic Iran is at the epicenter of this movement.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that the Islamic Republic of Iran has become the target of threats and sanctions because it is the epicenter of this movement, further stressing: \"After permeating the minds and bodies of Muslim nations for more than three decades, this extremely important movement has emerged as a concentrated force and the developments in Egypt and certain other countries are the result of this movement.\"
Ayatollah Khamenei said that the colonialist and hegemonic powers of the world are extremely afraid of the movement and reiterated that their fear is fueled by the determined and faithful youth of Islamic Iran and the knowledge and insight of the Iranian people.
He stated that the Islamic Republic of Iran\'s Army plays a significant role in this regard and added that it is necessary to strengthen it.
7:16
|
فرازي از زندگي آيت الله مطهري - قسمت اول Ayatullah Mutahhari (r.a) - Farsi
در 22 دی سال 1358 روزنامه ها نوشتند رهبر گروه فرقان دستگیر شد...چند روز بعد همه چهره ی اکبر گودرزی را از تلوزیون...
در 22 دی سال 1358 روزنامه ها نوشتند رهبر گروه فرقان دستگیر شد...چند روز بعد همه چهره ی اکبر گودرزی را از تلوزیون دیدند .از جمله مخالفان سرسخت این گروه آیت الله مطهری بود که در مقابل انحرافات فکری و دینی این گروه قد علم کرده بودو این باعث شده بود که.......
More...
Description:
در 22 دی سال 1358 روزنامه ها نوشتند رهبر گروه فرقان دستگیر شد...چند روز بعد همه چهره ی اکبر گودرزی را از تلوزیون دیدند .از جمله مخالفان سرسخت این گروه آیت الله مطهری بود که در مقابل انحرافات فکری و دینی این گروه قد علم کرده بودو این باعث شده بود که.......
54:32
|
Ahmadinejad speech in the meeting of Supreme Leader with Government Officials - 24July12 - Farsi
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی عصر روز 3 مرداد 1391 در ديدار مسئولان و كارگزاران نظام،...
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی عصر روز 3 مرداد 1391 در ديدار مسئولان و كارگزاران نظام، آرمانگرايی همراه با واقعبينی را رمز حركت پيشرو ملت و نظام اسلامی در 32 سال اخير برشمردند و با تأكيد بر توانايیها و ظرفيتهای تعيينكنندهی ملت و نظام اسلامی، به تشريح ضرورتها و بايدها و نبايدهای مقابله با چالشهای پيچيدهی دشمنان پرداختند.
در ابتدای این دیدار، رئیسجمهور بر تعهد دولت به ارزشها، اصول و حقوق اساسی ملت نظیر توحید، عدالت، آزادی، كرامت مردم، پاكدستی، خدمتگزاری و پیشرفت كشور تأكید و گزارشی از عملكرد هفتسالهی دولت را در عرصههای مختلف بیان كرد.
آقای احمدینژاد با اشاره به قرار گرفتن ماهوارهی ایرانی در مدار و پیوستن كشورمان به باشگاه فضایی، تولید و تأمین سوخت رآكتورهای داخلی، فعالیت 11هزار دستگاه سانتریفیوژ در مجتمعهای غنیسازی و ساخت 20 رادیودارو، از سرعت چندبرابری رشد علمی كشورمان در مقایسه با رشد علمی جهان خبر داد و افزود: تقویت روحیهی امید و خودباوری بهویژه در میان جوانان، در صدر جهتگیریهای دولت است.
رئیسجمهور با بیان برخی آمارها و ارقام در طول هفت سال اخیر و مقایسه با گذشته، به هشتبرابر شدن تولیدات علمی بخش پزشكی، افزایش چهاربرابری سهم كشور در تولیدات علمی منطقه و رشد بیش از چهاربرابری مقالات علمیِ نمایهشده در مجلات معتبر بینالمللی در حوزهی وزارت علوم اشاره كرد و افزود: سهم ایران در تولید علم جهان از یكدهم درصد در سال 1357 به سهدهم درصد در سال 1384 و 1.2 درصد در سال 1390 رسیده است كه 12برابر افزایش را در طول هفت سال گذشته نشان میدهد.
آقای احمدینژاد در بخش دیگری از سخنان خود به پیشرفتهای كشور در حوزهی صنعت اشاره كرد و با یادآوری افزایش ظرفیت تولید در بخشهای مختلف گفت: ایران در بخش تولید خودرو در رتبهی سیزدهم، در تولید فولاد در رتبهی هفدهم و در تولید مس در رتبهی دهم جهان قرار دارد.
رئیسجمهور با بیان این كه سرمایهگذاری در بخش نفت و گاز از 21 هزار میلیارد تومان در سال 1384 به 110 هزار میلیارد تومان در سال 90 رسیده است، افزود: با بهرهبرداری از تمام فازهای پارس جنوبی، مشكل برداشت از مخازن مشترك نیز رفع میشود.
رئیسجمهور افزود: علاوه بر سرمایهگذاری 335 هزار میلیارد تومانی در حوزهی راه و شهرسازی، در هفت سال اخیر، شش میلیون و 719 هزار واحد مسكونی ساخته شده است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1654
Supreme Leader Meets Government Officials
24/07/2012
Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution met Thursday evening with government officials of the Islamic Republic of Iran. Speaking at the meeting, which was also attended by President Mahmoud Ahmadinejad, His Eminence referred to the challenges that the Islamic Republic has faced since the victory of the Islamic Revolution - including the assassinations, the ethnic conflicts, the imposed war, the sanctions, the events that took place in Tir 1378 and the post-election turmoil in 1388 - and stated: "The massive capacities and capabilities of the Iranian nation helped the Islamic Republic to successfully confront all these challenges and to become more powerful at every stage."
Ayatollah Khamenei said that the enemies of the Islamic Revolution are trying to show that the Iranian nation has reached a dead end, further adding: "They openly say that it is necessary to force the Iranian government officials to revise their calculations by intensifying pressures and sanctions, but looking at the existing realities causes us not only to avoid revising our calculations, but it also causes us to continue the path of the Iranian nation with more confidence."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution mentioned examples of the existing realities, saying: "One of the realities that should not be ignored is the opposition of a few arrogant governments to the Islamic Republic and their increasing and complex pressures on the Islamic Republic."
His Eminence added: "Relying on their powerful propaganda machine, these few arrogant governments that enjoy political, economic and media capabilities, are pretending to be the international community."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: "Of course, these few bullying governments have their own followers, but if America stops supporting them, they are nothing and they are not even taken into consideration in global calculations."
His Eminence added: "Another reality is that the enmity of these few arrogant governments towards the Islamic Republic is rooted in the essence of the Islamic system, but they are pretending that their confrontation with the Iranian nation is because of the nuclear issue and human rights."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution reiterated: "Of course, considering the absolutely dismal track record of America, Zionism, England and the other arrogant powers in human rights, nobody believes their lies."
Ayatollah Khamenei added: "The truth is that the Islamic Revolution of the Iranian nation freed this important country from the clutches of the arrogant powers and it caused increasing motivation and awakening in the world of Islam. For this reason, by harming the Islamic Republic, they are trying to teach others a lesson so that they do not follow the Islamic Republic as their role model."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that the challenges faced by the Islamic Republic are not new and added: "At a certain stage, Iranian ships used to be targeted in the Persian Gulf and our oil terminals and industrial centers were being bombarded by the enemy, but today the ill-wishers of the Islamic Republic do not have the courage to even approach Iran."
His Eminence said that the increased capabilities and confidence of the Islamic Republic in the face of the threats is another reality and stressed: "Another reality is that the opposing camp - led by America and Zionism - has grown far weaker than the past."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed: "The increased vulnerability of the Zionist regime after the events and revolutions that took place in the region, the defeats that the Zionist regime suffered during the 33-day war in Lebanon and the 22-day war in Gaza, America's destiny in Iraq, the increasing and unending problems of America in Afghanistan and America's failure in its Middle Eastern policies are clear examples of the increasing weakness of the opposing camp."
Ayatollah Khamenei said that the crisis that has afflicted western enemies of the Islamic Republic is another reality. He added: "The serious threat of economic crisis in the European Union and the eurozone, instability in several European countries, the fall of several European governments, the substantial budget deficit in America and the 99 percent movement are important events that must not be ignored."
His Eminence stressed: "The economic problems of western countries are essentially different from the economic problems of our country because our problems are like the problems of a group of climbers who are continuously moving towards the peak, but the west is like a bus that is trapped under an avalanche."
Ayatollah Khamenei said that the developments in the region and in North Africa are among the existing realities, adding: "The increased capabilities of the Islamic Republic are another crucial reality."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution referred to the population control policies and stressed the need for revising these policies. He reiterated: "In the early 1370s, implementing these policies was correct for specific reasons at that time, but it was a mistake to continue the same policies in the following years."
Ayatollah Khamenei stressed: "Scientific and expert studies show that if the population control policies are continued, we will gradually suffer from aging and population decline. Therefore, our government officials should seriously revise the population control policies. And the owner of media outlets and those who speak to the public - especially the clergy - should take action to raise public awareness in this regard."
His Eminence said that Iran's retreat and flexibility against the enemy will only make the enemy more insolent.
Ayatollah Khamenei added: "At a time when our government officials used to flatter the west and America in their statements, the person who was the personification of evil decided to label the Islamic Republic of Iran as axis of evil."
His Eminence said that Iran retreated in the nuclear issue at a certain stage, adding: "At that stage, because of the cooperation with westerners and the retreats that were made, the enemies advanced so much that I had to step in personally."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: "At that time, westerners became so insolent that even when our government officials became satisfied with only three centrifuges, the westerners expressed their opposition even to that, but today we have eleven thousand centrifuges that are active in the country."
Ayatollah Khamenei stressed: "If those retreats had continued, today there would be no nuclear advances and no scientific dynamism and innovation in the country."
His Eminence said that sanctions will prove ineffective in the face of intelligent resistance. He described the economic sanctions as temporary and added: "This is because continuing these sanctions for a long time is not in the interest of western countries."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that the sanctions that have been imposed on the Islamic Republic will only benefit America and the Zionist regime, further stressing: "The other countries have either been forced to go along with sanctions or they are just doing it as a ceremonial gesture. And these conditions will not continue."
Ayatollah Khamenei said that 20 countries have been exempted from the oil sanctions imposed on Iran and added that certain western countries are making efforts to circumvent the sanctions. He stated that these are signs which show it is impossible to continue the current conditions. "All these realities show that it is necessary to continue the path of resistance by relying on God, taking more risks and having judgment and wisdom."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that economic matters are very important for the country and its progressive movement. He stressed: "The purpose of the enemy's economic pressures in the present situation is to undermine our national growth and welfare and to create problems for the people in order to make them disappointed and isolate them from the Islamic Republic."
Ayatollah Khamenei added: "Over the past few years, it has been clear that the enemy has focused its machinations on the economy of the country. For this reason, the slogans of the recent years - such as "Reforming the Norms of Consumption", "Intensified Effort and Labor", "Economic Jihad" and "National Production and Supporting Iranian Labor and Capital" - were introduced in order to create an economic system and organize our national movement in the economic arena."
His Eminence said that one way to counter the economic sanctions is to build an economy of resistance and explained: "Putting the people in charge of our economy by implementing the general policies specified in Article 44 of the Constitution, empowering the private sector, decreasing the country's dependence on oil, managing consumption, making the best of the available time, resources and facilities, moving forward on the basis of well-prepared plans and avoiding abrupt changes in the regulations and policies are among the pillars of an economy of resistance."
Regarding the need to manage consumption, the Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed: "Today moderation in consumption is a jihad-like movement and all governmental and non-governmental organizations and all the people should seriously avoid extravagance and try to consume domestically produced products."
At the end of his statements, the Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed the issue of unity and solidarity in the country. Addressing government officials, he said: "Fortunately the people of Iran are united and you should safeguard this unity by staying away from pointless disputes and announcing these disputes through the media."
His Eminence stressed: "If officials from the three branches of government level accusations against each other, it will be very harmful. And our government officials should know that such actions will not give them any prestige among the people."
Ayatollah Khamenei added: "The truth is that problems exist, but it is wrong to blame them on each other. Rather, it is necessary to solve them through unity and judgment, and this is definitely possible."
More...
Description:
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی عصر روز 3 مرداد 1391 در ديدار مسئولان و كارگزاران نظام، آرمانگرايی همراه با واقعبينی را رمز حركت پيشرو ملت و نظام اسلامی در 32 سال اخير برشمردند و با تأكيد بر توانايیها و ظرفيتهای تعيينكنندهی ملت و نظام اسلامی، به تشريح ضرورتها و بايدها و نبايدهای مقابله با چالشهای پيچيدهی دشمنان پرداختند.
در ابتدای این دیدار، رئیسجمهور بر تعهد دولت به ارزشها، اصول و حقوق اساسی ملت نظیر توحید، عدالت، آزادی، كرامت مردم، پاكدستی، خدمتگزاری و پیشرفت كشور تأكید و گزارشی از عملكرد هفتسالهی دولت را در عرصههای مختلف بیان كرد.
آقای احمدینژاد با اشاره به قرار گرفتن ماهوارهی ایرانی در مدار و پیوستن كشورمان به باشگاه فضایی، تولید و تأمین سوخت رآكتورهای داخلی، فعالیت 11هزار دستگاه سانتریفیوژ در مجتمعهای غنیسازی و ساخت 20 رادیودارو، از سرعت چندبرابری رشد علمی كشورمان در مقایسه با رشد علمی جهان خبر داد و افزود: تقویت روحیهی امید و خودباوری بهویژه در میان جوانان، در صدر جهتگیریهای دولت است.
رئیسجمهور با بیان برخی آمارها و ارقام در طول هفت سال اخیر و مقایسه با گذشته، به هشتبرابر شدن تولیدات علمی بخش پزشكی، افزایش چهاربرابری سهم كشور در تولیدات علمی منطقه و رشد بیش از چهاربرابری مقالات علمیِ نمایهشده در مجلات معتبر بینالمللی در حوزهی وزارت علوم اشاره كرد و افزود: سهم ایران در تولید علم جهان از یكدهم درصد در سال 1357 به سهدهم درصد در سال 1384 و 1.2 درصد در سال 1390 رسیده است كه 12برابر افزایش را در طول هفت سال گذشته نشان میدهد.
آقای احمدینژاد در بخش دیگری از سخنان خود به پیشرفتهای كشور در حوزهی صنعت اشاره كرد و با یادآوری افزایش ظرفیت تولید در بخشهای مختلف گفت: ایران در بخش تولید خودرو در رتبهی سیزدهم، در تولید فولاد در رتبهی هفدهم و در تولید مس در رتبهی دهم جهان قرار دارد.
رئیسجمهور با بیان این كه سرمایهگذاری در بخش نفت و گاز از 21 هزار میلیارد تومان در سال 1384 به 110 هزار میلیارد تومان در سال 90 رسیده است، افزود: با بهرهبرداری از تمام فازهای پارس جنوبی، مشكل برداشت از مخازن مشترك نیز رفع میشود.
رئیسجمهور افزود: علاوه بر سرمایهگذاری 335 هزار میلیارد تومانی در حوزهی راه و شهرسازی، در هفت سال اخیر، شش میلیون و 719 هزار واحد مسكونی ساخته شده است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1654
Supreme Leader Meets Government Officials
24/07/2012
Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution met Thursday evening with government officials of the Islamic Republic of Iran. Speaking at the meeting, which was also attended by President Mahmoud Ahmadinejad, His Eminence referred to the challenges that the Islamic Republic has faced since the victory of the Islamic Revolution - including the assassinations, the ethnic conflicts, the imposed war, the sanctions, the events that took place in Tir 1378 and the post-election turmoil in 1388 - and stated: "The massive capacities and capabilities of the Iranian nation helped the Islamic Republic to successfully confront all these challenges and to become more powerful at every stage."
Ayatollah Khamenei said that the enemies of the Islamic Revolution are trying to show that the Iranian nation has reached a dead end, further adding: "They openly say that it is necessary to force the Iranian government officials to revise their calculations by intensifying pressures and sanctions, but looking at the existing realities causes us not only to avoid revising our calculations, but it also causes us to continue the path of the Iranian nation with more confidence."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution mentioned examples of the existing realities, saying: "One of the realities that should not be ignored is the opposition of a few arrogant governments to the Islamic Republic and their increasing and complex pressures on the Islamic Republic."
His Eminence added: "Relying on their powerful propaganda machine, these few arrogant governments that enjoy political, economic and media capabilities, are pretending to be the international community."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: "Of course, these few bullying governments have their own followers, but if America stops supporting them, they are nothing and they are not even taken into consideration in global calculations."
His Eminence added: "Another reality is that the enmity of these few arrogant governments towards the Islamic Republic is rooted in the essence of the Islamic system, but they are pretending that their confrontation with the Iranian nation is because of the nuclear issue and human rights."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution reiterated: "Of course, considering the absolutely dismal track record of America, Zionism, England and the other arrogant powers in human rights, nobody believes their lies."
Ayatollah Khamenei added: "The truth is that the Islamic Revolution of the Iranian nation freed this important country from the clutches of the arrogant powers and it caused increasing motivation and awakening in the world of Islam. For this reason, by harming the Islamic Republic, they are trying to teach others a lesson so that they do not follow the Islamic Republic as their role model."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that the challenges faced by the Islamic Republic are not new and added: "At a certain stage, Iranian ships used to be targeted in the Persian Gulf and our oil terminals and industrial centers were being bombarded by the enemy, but today the ill-wishers of the Islamic Republic do not have the courage to even approach Iran."
His Eminence said that the increased capabilities and confidence of the Islamic Republic in the face of the threats is another reality and stressed: "Another reality is that the opposing camp - led by America and Zionism - has grown far weaker than the past."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed: "The increased vulnerability of the Zionist regime after the events and revolutions that took place in the region, the defeats that the Zionist regime suffered during the 33-day war in Lebanon and the 22-day war in Gaza, America's destiny in Iraq, the increasing and unending problems of America in Afghanistan and America's failure in its Middle Eastern policies are clear examples of the increasing weakness of the opposing camp."
Ayatollah Khamenei said that the crisis that has afflicted western enemies of the Islamic Republic is another reality. He added: "The serious threat of economic crisis in the European Union and the eurozone, instability in several European countries, the fall of several European governments, the substantial budget deficit in America and the 99 percent movement are important events that must not be ignored."
His Eminence stressed: "The economic problems of western countries are essentially different from the economic problems of our country because our problems are like the problems of a group of climbers who are continuously moving towards the peak, but the west is like a bus that is trapped under an avalanche."
Ayatollah Khamenei said that the developments in the region and in North Africa are among the existing realities, adding: "The increased capabilities of the Islamic Republic are another crucial reality."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution referred to the population control policies and stressed the need for revising these policies. He reiterated: "In the early 1370s, implementing these policies was correct for specific reasons at that time, but it was a mistake to continue the same policies in the following years."
Ayatollah Khamenei stressed: "Scientific and expert studies show that if the population control policies are continued, we will gradually suffer from aging and population decline. Therefore, our government officials should seriously revise the population control policies. And the owner of media outlets and those who speak to the public - especially the clergy - should take action to raise public awareness in this regard."
His Eminence said that Iran's retreat and flexibility against the enemy will only make the enemy more insolent.
Ayatollah Khamenei added: "At a time when our government officials used to flatter the west and America in their statements, the person who was the personification of evil decided to label the Islamic Republic of Iran as axis of evil."
His Eminence said that Iran retreated in the nuclear issue at a certain stage, adding: "At that stage, because of the cooperation with westerners and the retreats that were made, the enemies advanced so much that I had to step in personally."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: "At that time, westerners became so insolent that even when our government officials became satisfied with only three centrifuges, the westerners expressed their opposition even to that, but today we have eleven thousand centrifuges that are active in the country."
Ayatollah Khamenei stressed: "If those retreats had continued, today there would be no nuclear advances and no scientific dynamism and innovation in the country."
His Eminence said that sanctions will prove ineffective in the face of intelligent resistance. He described the economic sanctions as temporary and added: "This is because continuing these sanctions for a long time is not in the interest of western countries."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that the sanctions that have been imposed on the Islamic Republic will only benefit America and the Zionist regime, further stressing: "The other countries have either been forced to go along with sanctions or they are just doing it as a ceremonial gesture. And these conditions will not continue."
Ayatollah Khamenei said that 20 countries have been exempted from the oil sanctions imposed on Iran and added that certain western countries are making efforts to circumvent the sanctions. He stated that these are signs which show it is impossible to continue the current conditions. "All these realities show that it is necessary to continue the path of resistance by relying on God, taking more risks and having judgment and wisdom."
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that economic matters are very important for the country and its progressive movement. He stressed: "The purpose of the enemy's economic pressures in the present situation is to undermine our national growth and welfare and to create problems for the people in order to make them disappointed and isolate them from the Islamic Republic."
Ayatollah Khamenei added: "Over the past few years, it has been clear that the enemy has focused its machinations on the economy of the country. For this reason, the slogans of the recent years - such as "Reforming the Norms of Consumption", "Intensified Effort and Labor", "Economic Jihad" and "National Production and Supporting Iranian Labor and Capital" - were introduced in order to create an economic system and organize our national movement in the economic arena."
His Eminence said that one way to counter the economic sanctions is to build an economy of resistance and explained: "Putting the people in charge of our economy by implementing the general policies specified in Article 44 of the Constitution, empowering the private sector, decreasing the country's dependence on oil, managing consumption, making the best of the available time, resources and facilities, moving forward on the basis of well-prepared plans and avoiding abrupt changes in the regulations and policies are among the pillars of an economy of resistance."
Regarding the need to manage consumption, the Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed: "Today moderation in consumption is a jihad-like movement and all governmental and non-governmental organizations and all the people should seriously avoid extravagance and try to consume domestically produced products."
At the end of his statements, the Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed the issue of unity and solidarity in the country. Addressing government officials, he said: "Fortunately the people of Iran are united and you should safeguard this unity by staying away from pointless disputes and announcing these disputes through the media."
His Eminence stressed: "If officials from the three branches of government level accusations against each other, it will be very harmful. And our government officials should know that such actions will not give them any prestige among the people."
Ayatollah Khamenei added: "The truth is that problems exist, but it is wrong to blame them on each other. Rather, it is necessary to solve them through unity and judgment, and this is definitely possible."
41:22
|
Vali Amr Muslimeen meets with University Professors - 11 August 2012 - Farsi
دیدار اساتید دانشگاهها با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20722
حضرت آيتالله خامنهای رهبر معظم...
دیدار اساتید دانشگاهها با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20722
حضرت آيتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب عصر روز 22 مرداد 1391، در ديدار صدها نفر از اساتيد، محققان و پژوهشگران دانشگاهها، جهان را در حال گذر و تحول به سمت يك «ساختار و هندسه جديد سياسی، اقتصادی و اجتماعی» خواندند و با تبيين جايگاه و نقشآفرينی ويژهی ملت ايران در اين تحول عظيم تاريخی تأكيد كردند: نخبگان كشور از جمله دانشگاهيان میتوانند با عمل به وظايف بسيار مهم خود در اين برههی بسيار حساس تاريخی، به ارتقای جايگاه ايران در ساختار جديد جهان، كمك تعيين كنندهای كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اوضاع در حال گذر جهان را از لحاظ ظاهری با مرحله تحولات پس از جنگ جهانی اول و دوران پيدايش استعمار اروپا قابل مقايسه دانستند اما تأكيد كردند: جهت گيری تغييرات آتی جهان برخلاف دورانهای ياد شده، در جهت تبادل قدرت و توانايیهای عمومی بخشی از ملتهای جهان با بخشهای ديگر است.
ايشان، در تبيين نشانهها و شواهد بروز تحولات و تغييرات عميق جهانی به بيداری اسلامی اشاره كردند و افزودند: احساس هويت و بيداری متكی بر اسلام در ميان ملتهای مختلف اسلامی، نشانهی بیسابقهای است كه از عمق تحول در ساخت و هندسهی آتی جهان، خبر میدهد.
رهبر انقلاب شكست غرب به رهبری امريكا در تسلط بر منطقه غرب آسيا را نشانهی ديگری از «دوران تحول كنونی» برشمردند و افزودند: خيز ناموفق امريكا برای تسلط بر اين منطقهی مهم و حساس كه در قضيه عراق و افغانستان آشكار شد از ديگر نشانههای تغييرات عميقی است كه جهان با آن روبروست.
حوادث جاری در اروپا و آيندهی مبهم كشورهای قدرتمند اين قاره از ديگر شواهدی بود كه رهبر انقلاب برای اثبات حركت جهان كنونی بهسمت يك ساختار جديد، به آن استناد كردند.
ايشان افزودند اوضاع كنونی اروپا كه سرانجام آن را به زمين خواهد زد، ناشی از خطاهای تاكتيكی يا راهبردی نيست بلكه ناشی از خطای بنيانی در جهان بينی است.
حضرت آيت الله خامنه ای افول وجهه امريكا در جهان را چهارمين نشانه ای دانستند كه اثبات می كند جهان، در حال گذر به يك وضع جديد است.
ايشان خاطرنشان كردند: امريكا به عنوان قدرت اول ثروت و علم و فناوری نظامی و غيرنظامی، چندين دهه در ميان ملتها دارای وجهه عمومی بسيار خوبی بود اما اين كشور امروز نه تنها هيچ وجهه ای ندارد بلكه در افكار عمومی جهان به سمبل زورگويی، ظلم، دخالت در امور ملتها و جنگ افروزی تبديل شده است.
رهبر انقلاب پس از تشريح نشانه های بروز تحولات عميق در ساختار و هندسه جهان آتی،به تبيين اين واقعيت پرداختند كه كشور و ملت ايران در اين دوران گذر از جايگاه مهم و حساسی برخوردارند كه درك آن، وظايف سنگينی را متوجه ملت، نخبگان و مسئولان می كند.
حضرت آيت الله خامنه ای بيداری نشأت گرفته از انقلاب اسلامی و استواری و استحكام بی نظير شالوده نظام بر مبنای اعتقاد،ايمان، عقل و عاطفه را از جمله دلايل جايگاه ويژه ايران در تحولات كنونی جهان خواندند.
More...
Description:
دیدار اساتید دانشگاهها با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20722
حضرت آيتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب عصر روز 22 مرداد 1391، در ديدار صدها نفر از اساتيد، محققان و پژوهشگران دانشگاهها، جهان را در حال گذر و تحول به سمت يك «ساختار و هندسه جديد سياسی، اقتصادی و اجتماعی» خواندند و با تبيين جايگاه و نقشآفرينی ويژهی ملت ايران در اين تحول عظيم تاريخی تأكيد كردند: نخبگان كشور از جمله دانشگاهيان میتوانند با عمل به وظايف بسيار مهم خود در اين برههی بسيار حساس تاريخی، به ارتقای جايگاه ايران در ساختار جديد جهان، كمك تعيين كنندهای كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اوضاع در حال گذر جهان را از لحاظ ظاهری با مرحله تحولات پس از جنگ جهانی اول و دوران پيدايش استعمار اروپا قابل مقايسه دانستند اما تأكيد كردند: جهت گيری تغييرات آتی جهان برخلاف دورانهای ياد شده، در جهت تبادل قدرت و توانايیهای عمومی بخشی از ملتهای جهان با بخشهای ديگر است.
ايشان، در تبيين نشانهها و شواهد بروز تحولات و تغييرات عميق جهانی به بيداری اسلامی اشاره كردند و افزودند: احساس هويت و بيداری متكی بر اسلام در ميان ملتهای مختلف اسلامی، نشانهی بیسابقهای است كه از عمق تحول در ساخت و هندسهی آتی جهان، خبر میدهد.
رهبر انقلاب شكست غرب به رهبری امريكا در تسلط بر منطقه غرب آسيا را نشانهی ديگری از «دوران تحول كنونی» برشمردند و افزودند: خيز ناموفق امريكا برای تسلط بر اين منطقهی مهم و حساس كه در قضيه عراق و افغانستان آشكار شد از ديگر نشانههای تغييرات عميقی است كه جهان با آن روبروست.
حوادث جاری در اروپا و آيندهی مبهم كشورهای قدرتمند اين قاره از ديگر شواهدی بود كه رهبر انقلاب برای اثبات حركت جهان كنونی بهسمت يك ساختار جديد، به آن استناد كردند.
ايشان افزودند اوضاع كنونی اروپا كه سرانجام آن را به زمين خواهد زد، ناشی از خطاهای تاكتيكی يا راهبردی نيست بلكه ناشی از خطای بنيانی در جهان بينی است.
حضرت آيت الله خامنه ای افول وجهه امريكا در جهان را چهارمين نشانه ای دانستند كه اثبات می كند جهان، در حال گذر به يك وضع جديد است.
ايشان خاطرنشان كردند: امريكا به عنوان قدرت اول ثروت و علم و فناوری نظامی و غيرنظامی، چندين دهه در ميان ملتها دارای وجهه عمومی بسيار خوبی بود اما اين كشور امروز نه تنها هيچ وجهه ای ندارد بلكه در افكار عمومی جهان به سمبل زورگويی، ظلم، دخالت در امور ملتها و جنگ افروزی تبديل شده است.
رهبر انقلاب پس از تشريح نشانه های بروز تحولات عميق در ساختار و هندسه جهان آتی،به تبيين اين واقعيت پرداختند كه كشور و ملت ايران در اين دوران گذر از جايگاه مهم و حساسی برخوردارند كه درك آن، وظايف سنگينی را متوجه ملت، نخبگان و مسئولان می كند.
حضرت آيت الله خامنه ای بيداری نشأت گرفته از انقلاب اسلامی و استواری و استحكام بی نظير شالوده نظام بر مبنای اعتقاد،ايمان، عقل و عاطفه را از جمله دلايل جايگاه ويژه ايران در تحولات كنونی جهان خواندند.
40:52
|
Vali Amr Muslimeen meets Executive Officials - 23 August 2012 - Farsi
دیدار رئیسجمهوری و اعضای هئیت دولت با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20825
حضرت آیتالله خامنهای...
دیدار رئیسجمهوری و اعضای هئیت دولت با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20825
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح روز 2 شهریور 1391، در دیدار رئیسجمهور و اعضای هیأت دولت ضمن برشمردن برخی نقاط قوت دولت، اقتصاد مقاومتی را تنها راه ادامهی روند پیشرفت كشور دانستند و تأكید كردند: استفاده از همهی ظرفیتهای بخشهای دولتی و غیر دولتی، اهتمام جدی به حل مشكلات معیشتی مردم، مبارزه با مفاسد اقتصادی، حمایت از تولید ملی و مبارزه با اسراف از لوازم اقتصاد مقاومتی است.
ایشان در این دیدار كه در آغاز هفتهی دولت انجام شد با گرامیداشت یاد شهیدان رجایی، باهنر و همچنین شهید عراقی، تجلیل از این عزیزان را زنده نگهداشتن گفتمان انقلاب و ارزش شهادت دانستند.
رهبر انقلاب هفتهی دولت را فرصتی برای تشكر از خدمات قوهی مجریه و مسئولان و كاركنان دستگاهها خواندند و افزودند: این هفته علاوه بر فرصت ارائهی گزارش و آشنا كردن مردم با حقایق و فعالیتهای دولت، فرصتی برای ارزیابی درونی و بررسی نقاط قوت و ضعف قوهی مجریه است.
حضرت آیتالله خامنهای با اشاره به عبور سریع فرصتهای خدمت، رئیسجمهور و همكارانش را به مغتنم شمردن یك سالِ باقیمانده از عمر دولت دهم توصیه و خاطرنشان كردند: در همین یك سال نیز میشود كارهای بسیار مهم و بزرگی انجام داد.
آقای احمدینژاد رئیسجمهور نیز در این دیدار با گرامیداشت یاد و خاطرهی شهیدان رجایی و باهنر گفت: دولت به اصول خود یعنی عدالت، مهرورزی، خدمتگزاری، تلاش برای اعتلای كشور و پایبندی به اصول و ارزشهای انقلاب همچنان وفادار است.
رئیسجمهور با اشاره به اقدامات انجامگرفته در بخش های علم و فناوری، بهداشت و درمان، سیاست خارجی، دفاعی، اطلاعات، فرهنگ، صدا و سیما، میراث فرهنگی، هستهای، آموزش عالی، آموزش و پرورش، مخابرات و محیط زیست تأكید كرد: در بخشهای مختلف اقدامات خوب و برجستهای انجام گرفته است.
آقای احمدینژاد همچنین به تدوین بودجهی انقباضی در سال جاری اشاره كرد و افزود: این بودجهی انقباضی به گونهای طراحی شده كه به كارهای عمرانی و بخشهای تولید و اشتغال آسیبی نرسد.
آقای احمدینژاد اقدامات و زحمات ستاد تدابیر به ریاست معاون اول را برای مقابله با فشارهای اقتصادی، بسیار خوب و نتیجهبخش خواند و خاطرنشان كرد: دولت معتقد است در شرایط كنونی یكی از مسائل ضروری، تمركز مدیریت در اجرا است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1667&Itemid=2
In a meeting with President Mahmoud Ahmadinejad and his cabinet members on the occasion of Government Week, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution said that economy of resistance is the only way in which the country can maintain its progress. He stated that making use of all the capacities of the state and private sectors, paying serious attention to the problems that the people are faced with in their daily lives, combating economic corruption, supporting domestic production and fighting extravagant consumption are among the requirements of an economy of resistance.
More...
Description:
دیدار رئیسجمهوری و اعضای هئیت دولت با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20825
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح روز 2 شهریور 1391، در دیدار رئیسجمهور و اعضای هیأت دولت ضمن برشمردن برخی نقاط قوت دولت، اقتصاد مقاومتی را تنها راه ادامهی روند پیشرفت كشور دانستند و تأكید كردند: استفاده از همهی ظرفیتهای بخشهای دولتی و غیر دولتی، اهتمام جدی به حل مشكلات معیشتی مردم، مبارزه با مفاسد اقتصادی، حمایت از تولید ملی و مبارزه با اسراف از لوازم اقتصاد مقاومتی است.
ایشان در این دیدار كه در آغاز هفتهی دولت انجام شد با گرامیداشت یاد شهیدان رجایی، باهنر و همچنین شهید عراقی، تجلیل از این عزیزان را زنده نگهداشتن گفتمان انقلاب و ارزش شهادت دانستند.
رهبر انقلاب هفتهی دولت را فرصتی برای تشكر از خدمات قوهی مجریه و مسئولان و كاركنان دستگاهها خواندند و افزودند: این هفته علاوه بر فرصت ارائهی گزارش و آشنا كردن مردم با حقایق و فعالیتهای دولت، فرصتی برای ارزیابی درونی و بررسی نقاط قوت و ضعف قوهی مجریه است.
حضرت آیتالله خامنهای با اشاره به عبور سریع فرصتهای خدمت، رئیسجمهور و همكارانش را به مغتنم شمردن یك سالِ باقیمانده از عمر دولت دهم توصیه و خاطرنشان كردند: در همین یك سال نیز میشود كارهای بسیار مهم و بزرگی انجام داد.
آقای احمدینژاد رئیسجمهور نیز در این دیدار با گرامیداشت یاد و خاطرهی شهیدان رجایی و باهنر گفت: دولت به اصول خود یعنی عدالت، مهرورزی، خدمتگزاری، تلاش برای اعتلای كشور و پایبندی به اصول و ارزشهای انقلاب همچنان وفادار است.
رئیسجمهور با اشاره به اقدامات انجامگرفته در بخش های علم و فناوری، بهداشت و درمان، سیاست خارجی، دفاعی، اطلاعات، فرهنگ، صدا و سیما، میراث فرهنگی، هستهای، آموزش عالی، آموزش و پرورش، مخابرات و محیط زیست تأكید كرد: در بخشهای مختلف اقدامات خوب و برجستهای انجام گرفته است.
آقای احمدینژاد همچنین به تدوین بودجهی انقباضی در سال جاری اشاره كرد و افزود: این بودجهی انقباضی به گونهای طراحی شده كه به كارهای عمرانی و بخشهای تولید و اشتغال آسیبی نرسد.
آقای احمدینژاد اقدامات و زحمات ستاد تدابیر به ریاست معاون اول را برای مقابله با فشارهای اقتصادی، بسیار خوب و نتیجهبخش خواند و خاطرنشان كرد: دولت معتقد است در شرایط كنونی یكی از مسائل ضروری، تمركز مدیریت در اجرا است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1667&Itemid=2
In a meeting with President Mahmoud Ahmadinejad and his cabinet members on the occasion of Government Week, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution said that economy of resistance is the only way in which the country can maintain its progress. He stated that making use of all the capacities of the state and private sectors, paying serious attention to the problems that the people are faced with in their daily lives, combating economic corruption, supporting domestic production and fighting extravagant consumption are among the requirements of an economy of resistance.
29:23
|
[DOCUMENTARY] علم و ایمان Ilm o Eman - Urdu
A great knowledgeable documentary that highlights the connection between Ilm and Eman. Divine Religion has played a vital role in driving great scientists to explore in the field of science. This...
A great knowledgeable documentary that highlights the connection between Ilm and Eman. Divine Religion has played a vital role in driving great scientists to explore in the field of science. This documentary shatters the propaganda that religion (Islam) is against scientific development and progress.
The real divine Abrahamic religion (Judaism, Christianity, Islam) were not and are not against science!
More...
Description:
A great knowledgeable documentary that highlights the connection between Ilm and Eman. Divine Religion has played a vital role in driving great scientists to explore in the field of science. This documentary shatters the propaganda that religion (Islam) is against scientific development and progress.
The real divine Abrahamic religion (Judaism, Christianity, Islam) were not and are not against science!
39:39
|
[ARABIC] كلمة الإمام الخامنئي في إفتتاح مؤتمر علماء الصحوة الإسلامية
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم الله الرحمن الرحيم
و الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام على سيدنا محمد المصطفى، و آله الأطيبين و صحبه المنتجبين، و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
أرحب بكم أيها الضيوف الأعزاء، و أسأل الله العزيز الرحيم أن يبارك في هذا الجهد الجماعي، و أن يجعله شوطاً فاعلاً على طريق حياة أفضل للمسلمين إنه سميع مجيب.
موضوع الصحوة الإسلامية الذي ستتناولونه في هذا المؤتمر هو اليوم في رأس قائمة قضايا العالم الإسلامي و الأمة الإسلامية.. إنه ظاهرة عظيمة لو بقيت سليمة و تواصلت بإذن الله لاستطاعت أن تقيم الحضارة الإسلامية في أفق ليس ببعيد للعالم الإسلامي و من ثَمّ للبشرية جمعاء.
إنّ البارز أمام أعيننا اليوم، و لا يستطيع أي إنسان مطّلع و ذي بصيرة أن ينكره هو أن الإسلام اليوم قد خرج من هامش المعادلات الاجتماعية و السياسية في العالم، و اتخذ مكانة بارزة و ماثلة في مركز العناصر الفاعلة لحوادث العالم، ليقدم رؤية جديدة على ساحة الحياة و السياسة و الحكم و التطورات الاجتماعية. و يشكل ذلك، في عالمنا المعاصر الذي يعاني بعد هزيمة الشيوعية و الليبرالية من فراغ فكري و نظري عميق، ظاهرةً ذات مغزى و أهمية بالغة.
و هذا أول أثر تركته الحوادث السياسية و الثورية في شمال أفريقيا و المنطقة العربية على الصعيد العالمي، و يبشّر بدوره ببروز حقائق أكبر في المستقبل.
إنّ الصحوة الإسلامية التي يتجنب ذكرها المتحدثون باسم جبهة الاستكبار و الرجعية، بل يخافون أن يجري اسمها على ألسنتهم، هي حقيقة نرى معالمها اليوم في أرجاء العالم الإسلامي كافة. و أبرز معالمها تطلع الرأي العام و خاصة فئة الشباب إلى إحياء مجد الإسلام و عظمته، و وعيهم لحقيقة نظام الهيمنة العالمية، و انكشاف الوجه الخبيث و الظالم و المستكبر لحكومات و دوائر أنشبت أظفارها الدامية لأكثر من قرنين في المشرق الإسلامي و غير الإسلامي، و جعلت مقدرات الشعوب عرضة لنزعتها الشرسة و العدوانية نحو الهيمنة، و ذلك بنقاب المدنية و الحضارة.
أبعاد هذه الصحوة المباركة واسعة غاية السعة و ذات امتداد رمزي، و لكن ما حققته من حاضر العطاء في بعض بلدان شمال أفريقيا من شأنه أن يجعل القلوب واثقة بمعطيات مستقبلية كبرى و هائلة. إن تحقق معاجز الوعود الإلهية يحمل دائماً معه دلالات أمل يبشّر بتحقق وعود أكبر. و ما يحكيه القرآن الكريم عن الوعدين الإلهيين لأمّ موسى هو نموذج من هذه السنة الربانية.
إذ في تلك اللحظات العسيرة، حيث صدر الأمر بإلقاء الصندوق حامل الرضيع في اليمّ، جاء الخطاب الإلهي بالوعد: (إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ). (1) إن تحقق الوعد الأول، و هو الوعد الأصغر الذي شدّ على قلب الأم، أصبح منطلقاً لتحقق وعد الرسالة، و هو أكبر بكثير، و يستلزم طبعاً تحمّل المشاق و المجاهدة و الصبر الطويل: (فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ...). (2) هذا الوعد الحقّ هو تلك الرسالة الكبرى التي تحققت بعد سنين و غيّرت مسيرة التاريخ.
و من النماذج الأخرى التذكير بالقدرة الإلهية الفائقة في قمع المهاجمين للكعبة، و الذي ورد في القرآن بلسان الرسول الأعظم (ألم يجعل كيدهم في تضليل) (3) و ذلك لتشجيع المخاطبين علی امتثال الأمر الالهي: (فليعبدوا رب هذا البيت). (4)
و في موضع آخر يذكّر سبحانه رسوله بما أغدقه عليه من نعم تشبه المعجزة: (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى، وَ وَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى)، ليكون ذلك وسيلة لتقوية معنويات نبيّه الحبيب و إيمانه بالوعد الإلهي في قوله: (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى)، (5) و مثل هذه الأمثلة كثيرة في القرآن الكريم.
حين انتصر الإسلام في إيران، و استطاع أن يفتح قلاع أمريكا و الصهيونية في أحد أكثر البلدان حساسية من هذه المنطقة المهمة بامتياز، عَلِم أهل العبرة و الحكمة أنهم إذا انتهجوا طریق الصبر و البصيرة فإن فتوحات أخرى ستتعاقب علیهم، و قد تعاقبت فعلاً.
الحقائق الساطعة في الجمهورية الإسلامية و التي يعترف بها الأعداء قد تحققت بأجمعها في ظل الثقة بالوعد الإلهي و الصبر و المقاومة و الاستمداد من ربّ العالمين. شعبنا كان يرفع دائماً صوته بالقول: (كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ)، (6) أمام وساوس الضعفاء الذين كانوا يردّدون في الفترات الحرجة: (إِنَّا لَمُدْرَكُونَ). (7)
هذه التجربة الثمینة هي اليوم في متناول الشعوب التي نهضت بوجه الاستكبار و الاستبداد، و استطاعت أن تسقط أو تزلزل عروش الحكومات الفاسدة الخاضعة و التابعة لأمريكا. الثبات و الصبر و البصيرة و الثقة بالوعد الإلهي في قوله سبحانه: (وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)، (8) بإمكانها أن تمهّد طريق العزّ هذا أمام الأمة الإسلامية حتى تصل إلى قمة الحضارة الإسلامية.
إنني في هذا الاجتماع الهام لعلماء الأمة بمختلف أقطارهم و مذاهبهم أرى من المناسب أن أبيّن عدة نقاط ضرورية حول قضايا الصحوة الإسلامية:
الأولى: إن الأمواج الأولى للصحوة في بلدان هذه المنطقة، و التي اقترنت ببدايات دخول الغزو الاستعماري، قد انطلقت غالباً على يد علماء الدين و المصلحين الدينيين. لقد خلدت صفحات التاريخ و للأبد أسماء قادة و شخصيات بارزة من أمثال السيد جمال الدين الأسد آبادي، و محمد عبده، و الميرزا الشيرازي، و الآخوند الخراساني، و محمود الحسن، و محمد علي، و الشيخ فضل الله النوري، و الحاج آقا نور الله، و أبي الأعلى المودودي، و عشرات من كبار علماء الدين المعروفين و المجاهدين و المتنفذين من إيران و مصر و الهند و العراق. و يبرز في عصرنا الراهن اسم الإمام الخميني العظيم مثل كوكب ساطع على جبين الثورة الإسلامية في إيران. و كان لمئات العلماء المعروفين و آلاف العلماء غير المعروفين في الحاضر و الماضي دور في المشاريع الإصلاحية الكبيرة و الصغيرة على ساحة مختلف البلدان. و قائمة المصلحين الدينيين من غير علماء الدين كحسن البنا و إقبال اللاهوري هي طويلة أيضاً و مثيرة للإعجاب.
و قد كانت المرجعيّة الفكريّة لعلماء الدين و رجال الفكر الديني بدرجة و أخرى، و في كل مكان. لقد كانوا سنداً روحياً قوياً للجماهير، و حيثما قامت قيامة التحولات الكبرى ظهروا في دور المرشد و الهادي، و تقدموا لمواجهة الخطر في مقدمة صفوف الحراك الشعبي، و ازداد الارتباط الفكري بينهم و بين الناس، و ازداد معه تأثيرهم في دفع الناس نحو الطريق الصحيح. و هذا له من الفائدة و البركة لنهضة الصحوة الإسلامية بمقدار ما يجرّ على أعداء الأمة و الحاقدين على الإسلام و المعارضين لسيادة القيم الإسلامية من انزعاج و امتعاض ما يدفعهم إلى محاولة إلغاء هذه المرجعية الفكرية للمؤسسات الدينية و استحداث أقطاب جديدة عرفوا بالتجربة أنها يمكن المساومة معها بسهولة على حساب المبادئ و القيم الدينية. و هذا ما لا يحدث إطلاقاً مع العلماء الأتقياء و رجال الدين الملتزمين.
إن هذا يضاعف ثقل مسؤولية علماء الدين. فعليهم أن يسدّوا الطريق أمام الاختراق بفطنة و دقة متناهية و بمعرفة أساليب العدوّ الخادعة و حيله، و أن يحبطوا مكائده. إن الانشداد للموائد الملوّنة بمتاع الدنيا من أكبر الآفات. و التلوث بهبات أصحاب المال و السلطة و عطاياهم، و الارتباط المادي بطواغيت الشهوة و القوة من أخطر عوامل الانفصال عن الناس و التفريط بثقتهم و محبتهم. الأنانية و حبّ الجاه الذي يجرّ الضعفاء إلى أقطاب القوة يشكّلان أرضية خصبة للتلوث بالفساد و الانحراف. لا بدّ أن نضع نصب أعيننا قوله سبحانه: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ). (9)
إننا اليوم، في عصر حراك الصحوة الإسلامية و ما تبعثه في النفوس من أمل، نشاهد أحيانًا مساعي خدم أمريكا و الصهيونية لاصطناع مرجعيات فكرية مشبوهة من ناحية، و مساعي الغارقين في المال و مستنقع الشهوات لجرّ أهل الدين و التقوى إلى موائدهم المسمومة الملوثة من ناحية أخرى.
فعلى علماء الدين و الرجال المتدينين و المحافظين على الدين أن يراقبوا هذه الأمور بشدة و دقّة.
المسألة الثانية، ضرورة رسم هدف بعيد المدى للصحوة الإسلامية في البلدان المسلمة يوضع أمام الجماهير ليكون البوصلة في حركتها للوصول إليه. و بمعرفة هذا الهدف يمكن رسم خريطة الطريق و تحديد الأهداف القريبة و المتوسطة. هذا الهدف النهائي لا يمكن أن يكون أقل من إقامة «الحضارة الإسلامية المجيدة». الأمة الإسلامية، بكل أجزائها في إطار الشعوب و البلدان، يجب أن تعتلي مكانتها الحضارية التي يدعو إليها القرآن الكريم.
إن من الخصائص الأصلية و العامة لهذه الحضارة استثمار أبناء البشر لجميع ما أودعه الله في عالم الطبيعة و في وجودهم من مواهب و طاقات مادية و معنوية لتحقيق سعادتهم و سموّهم. و يمكن، بل و ينبغي مشاهدة مظاهر هذه الحضارة في إقامة حكومة شعبية، و في قوانين مستلهمة من القرآن، و في الاجتهاد و تلبية الاحتياجات المستحدثة للبشر، و في رفض الجمود الفكري و الرجعية، ناهيك عن البدعة و الالتقاط، و في إنتاج الرفاه و الثروة العامة، و في استتباب العدل، و في التخلص من الاقتصاد القائم على الاستئثار و الربا و التكاثر، و في إشاعة الأخلاق الإنسانية، و في الدفاع عن المظلومين في العالم، و في السعي و العمل و الابداع.
و من مستلزمات هذا البناء الحضاري النظرة الاجتهادية و العلمية للساحات المختلفة بدء من العلوم الإنسانية و نظام التربية و التعليم الرسمي، و مروراً بالاقتصاد و النظام المصرفي، و انتهاء بالإنتاج الصناعي و التقني و وسائل الإعلام الحديثة و الفن و السينما، بالإضافة إلى العلاقات الدولية و غيرها من الساحات.
و تدلّ التجربة علی أن كل ذلك ممكن و في متناول مجتمعاتنا بطاقاتها المتوفرة. لا يجوز أن ننظر إلى هذا الأفق بنظرة متسرعة أو متشائمة. التشاؤم في تقويم قدراتنا كفران بنعم الله، و الغفلة عن الإمداد الإلهي و دعم سنن الكون انزلاق في ورطة : (الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ). (10)
نحن قادرون على أن نكسر حلقات الاحتكارات العلمية و الاقتصادية و السياسية لقوى الهيمنة، و أن نجعل الأمة الإسلامية سبّاقة لإحقاق حقوق أكثرية شعوب العالم التي هي اليوم مقهورة أمام أقلية مستكبرة.
الحضارة الإسلامية بمقوماتها الإيمانية و العلمية و الأخلاقية، و عبر الجهاد الدائم، قادرة علی أن تقدم للأمة الإسلامية و للبشرية المشاريع الفكرية المتطورة و الأخلاق السامية، و أن تكون منطلق الخلاص من مظالم الرؤية المادية للكون و من الأخلاق الغارقة في مستنقع الرذيلة التي تشكل أركان الحضارة الغربية القائمة.
المسألة الثالثة: في إطار حركات الصحوة الإسلامية يجب الاهتمام باستمرار بالتجربة المرّة و الفظيعة التي تركتها التبعية للغرب على السياسة و الأخلاق و السلوك و نمط الحياة.
البلدان الإسلامية خلال أكثر من قرن من التبعية لثقافة الدول المستكبرة و سياستها قد مُنيت بآفات مهلكة مثل الذيلية و الذلة السياسية و الفقر الاقتصادي و تهاوي الأخلاق و الفضيلة، و التخلف العلمي المُخجِل، بينما الأمة الإسلامية تمتلك تاريخاً مشرقاً من التقدم في جميع هذه المجالات.
هذا الكلام لا ينبغي اعتباره مناصبة العداء للغرب، نحن لا نكنّ العداء لأية مجموعة إنسانية بسبب تمايزها الجغرافي. نحن تعلمنا من الإمام علي (عليه السلام) ما قاله عن الإنسان أنه: «إمّا أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق». (11) اعتراضنا إنما هو على الظلم و الاستكبار و التحكم و العدوان و الفساد و الانحطاط الأخلاقي و العملي الذي تمارسه القوى الاستعمارية و الاستكبارية ضد شعوبنا. و نحن الآن أيضاً نشاهد تحكّم و تدخل و تعنّت أمريكا و بعض ذيولها في المنطقة داخل البلدان التي تحوّل فيها نسيم الصحوة إلى نهوض عاصف و إلى ثورة. وعود هؤلاء و توعّداتهم يجب أن لا تؤثر في قرارات و مبادرات النخب السياسية و في الحركة الجماهيرية العظيمة.
و هنا أيضاً يجب أن نتلقى الدروس من التجارب. أولئك الذين انشدّت قلوبهم لسنوات طويلة بوعود أمريكا و جعلوا الركون إلى الظالم أساساً لنهجهم و سياستهم لم يستطيعوا أن يحلّوا مشكلة من مشاكل شعبهم أو أن يبعدوا ظلماً عنهم أو عن غيرهم. بل إن هؤلاء باستسلامهم لأمريكا لم يستطيعوا أن يحولوا دون هدم بيت فلسطيني واحد على الأقل في إرض هي ملك للفلسطينيين.
الساسة و النخب المخدوعة بالتطميع أو المرعوبة بتهديد جبهة الاستكبار و الذين يخسرون فرصة الصحوة الإسلامية يجب أن يخشوا ما وجهه الله سبحانه إليهم من تهديد إذ قال: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَ أَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ). (12)
المسألة الرابعة: إن أخطر ما يواجه حركة الصحوة الاسلامية اليوم هو إثارة الخلافات و دفع هذا الحراك نحو صدامات دموية طائفية و مذهبية و قومية و محلیة. هذه المؤامرة تتابع أجهزة الجاسوسية الغربية و الصهيونية تنفيذها اليوم بجدٍ و اهتمام في منطقة تمتد من شرق آسيا حتى شمال أفريقيا، و خاصة في المنطقة العربية، بدعم من دولارات النفط و الساسة المأجورين. و الأموال التي یمکن استخدمها في تحقيق رفاه خلق الله، تُنفق في التهديد و التكفير و الاغتيال و التفجير و إراقة دم المسلمين و إضرام نيران الأحقاد الدفينة. أولئك الذين يرون في قوة اتحاد المسلمين مانعاً لتطبيق أهدافهم الخبيثة رأوا في إثارة الخلافات داخل الأمة الإسلامية أيسر طريق لتنفيذ أهدافهم الشيطانية، و جعلوا من اختلاف وجهات النظر في الفقه و الكلام و التاريخ و الحديث، و هو اختلاف طبيعي لا يمكن اجتنابه، ذريعة للتكفير و سفك الدماء و الفتنة و الفساد.
نظرة فاحصة لساحة النزاعات الداخلية تكشف بوضوح يد العدوّ وراء هذه المآسي. هذه اليد الغادرة تستثمر دون شك الجهل و العصبية و السطحية في مجتمعاتنا، و تصبّ الزيت على النار. مسؤولية المصلحين و النخب الدينية و السياسية في هذا الخضمّ ثقيلة جداً.
ليبيا بشكل، و مصر و تونس بشكل أخر، و سوريا بشكل، و باكستان بشكل أخر، و العراق و لبنان بشكل، تعاني اليوم أو في معرض المعاناة من هذه النيران الخطرة. لا بدّ من المراقبة الشديدة و البحث عن العلاج.
من السذاجة أن نعزو كل ذلك إلى عوامل و دوافع عقائدية أو قومية. الدعاية الغربية و الإعلام الإقليمي التابع و المأجور يصوّران الحرب المدمّرة في سورية بأنها نزاع سنّي ــ شيعي، و يوفران بذلك مساحة آمنة للصهاينة و أعداء المقاومة في سوريا و لبنان. بينما النزاع في سوريا ليس بين طرفين سني و شيعي، بل بين أنصار المقاومة ضد الصهيونية و معارضي هذه المقاومة. ليست حكومة سوريا حكومة شيعية، و لا المعارضة العلمانية المعادية للإسلام مجموعة سنية، إنما المنفذون لهذا السيناريو المأساوي كانوا بارعين في قدرتهم على استغلال المشاعر الدينية للسذج في هذا الحريق المهلك. نظرة إلى الساحة و الفاعلين فيها على المستويات المختلفة توضّح هذه المسألة لكل إنسان منصف.
هذه الموجة الإعلامية تؤدّي دورها بشكل آخر في البحرين لاختلاق الكذب و الخداع. في البحرين هناك أكثرية مظلومة محرومة لسنوات طويلة من حق التصويت و سائر الحقوق الأساسية للشعب، قد نهضت للمطالبة بحقها. ترى هل يصحّ أن نعتبر الصراع شيعيا سنياً لأن هذه الأكثرية المظلومة من الشيعة، و الحكومة المتجبّرة العلمانية تتظاهر بالتسنّن ؟!
المستعمرون الأوربيون و الأمريكيون و من لفّ لفهم في المنطقة يريدون طبعاً أن يصوّروا الأمر بهذا الشكل، و لكن أهذه هي الحقيقة؟!
هذا ما يستدعي من جميع علماء الدين المصلحين و المنصفين أن يقفوا تجاهه بتأمّل و دقة و شعور بالمسؤولية، و يحتّم عليهم أن يعرفوا أهداف العدو في إثارة الخلافات الطائفية و القومية و الحزبية.
المسألة الخامسة: إن سلامة مسيرة حركات الصحوة الإسلامية يجب أن نبحث عنها، فيما نبحث، في موقفها تجاه قضية فلسطين. منذ ستين عاماً حتى الآن لم تنزل على قلب الأمة الإسلامية كارثة أكبر من اغتصاب فلسطين.
مأساة فلسطين منذ اليوم الأول حتى الآن كانت مزيجاً من القتل و الارهاب و الهدم و الغصب و الإساءة للمقدسات الإسلامية. وجوب الصمود و النضال أمام هذا العدو المحارب هو موضع اتفاق جميع المذاهب الإسلامية و محل إجماع كل التيارات الوطنية الصادقة و السليمة.
إنّ أيّ تيار في البلدان الإسلامية يتناسى هذا الواجب الديني و الوطني انصياعاً للإرادة الأمريكية المتعنتة أو بمبررات غير منطقية يجب أن لا يتوقع غير التشكيك في وفائه للإسلام و في صدق ادعاءاته الوطنية.
إنّ هذا هو المحكّ. كل من يرفض شعار تحرير القدس الشريف و إنقاذ الشعب الفلسطيني و أرض فلسطين، أو يجعلها مسألة ثانوية و يدير ظهره لجبهة المقاومة، فهو متّهم.
الأمة الإسلامية يجب أن تضع نصب عينيها هذا المؤشر و المعيار الواضح الأساسي في كل مكان و زمان.
أيها الضيوف الأعزاء.. أيها الإخوة و الأخوات..
لا تبعدوا عن أنظاركم كيد العدوّ، فإن غفلتنا توفّر الفرصة للعدوّ.
إنّ درس الإمام علي (عليه السلام) لنا هو أنه: «من نام لم يُنَم عنه». (13) تجربتنا في الجمهورية الإسلامية هي بدورها مليئة بدروس العبرة في هذا المجال. إذ بعد انتصار الثورة الإسلامية في إيران، بدأت الحكومات الغربية و الأمريكية المستكبرة التي كانت منذ أمد بعيد تسيطر على طواغيت إيران و تتحكم في المصير السياسي و الاقتصادي و الثقافي لبلدنا، و تستهين بالقوة الضخمة للايمان الإسلامي في داخل المجتمع، و كانت غافلة عن قوة الإسلام و القرآن في التعبئة و التوجيه، بدأت تفهم فجأة ما وقعت فيه من غفلة، فتحركت دوائرها السيادية و أجهزتها الاستخبارية و مراكز صنع القرار فيها لِتَجبُرَ ما مُنيت به من هزيمة فاحشة .
رأينا خلال هذه الأعوام التي تربو علی الثلاثين أنواع المؤامرات و المخططات، و الذي بدّد مكرهم أساساً هو عاملان: الثبات على المبادئ الإسلامية، و الحضور الجماهيري في الساحة.
هذان العاملان هما مفتاح الفتح و الفَرَج في كل مكان. العامل الأول يضمنه الإيمان الصادق بالوعد الإلهي، و العامل الثاني سيبقى ببركة الجهود المخلصة و البيان الصادق. الشعب الذي يؤمن بصدقِ قادته و إخلاصهم يجعل الساحة فاعلة بحضوره المبارك. و أينما بقي الشعب في الساحة بعزم راسخ فإن أية قدرة ستكون عاجزة عن إنزال الهزيمة به. هذه تجربة ناجحة لكل الشعوب التي صنعت بحضورها الصحوة الإسلامية.
أسأل الله تعالى لكم و لكل الشعوب أن يسددكم و يأخذ بأیدیکم و يعينكم و يغدق عليكم شآبيب رحمته إنه تعالى سميع مجيب.
و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
الهوامش:
1 - سورة القصص، الآیة 7 .
2 - سورة القصص، الآیة 13 .
3 - سورة الفیل، الآیة 2 .
4 - سورة قریش، الآیة 3 .
5 - سورة الضحی، الآیة 3 .
6 - سورة الشعراء، الآیة 62 .
7 - سورة الشعراء، الآیة 61 .
8 - سورة الحج، الآیة 40 .
9 - سورة القصص، الآیة 83 .
10 - سورة الفتح، الآیة 6 .
11 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 53 .
12 - سورة إبراهیم، الآیتان 28 و 29 .
13 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 62 .
Source: http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1569
More...
Description:
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم الله الرحمن الرحيم
و الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام على سيدنا محمد المصطفى، و آله الأطيبين و صحبه المنتجبين، و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
أرحب بكم أيها الضيوف الأعزاء، و أسأل الله العزيز الرحيم أن يبارك في هذا الجهد الجماعي، و أن يجعله شوطاً فاعلاً على طريق حياة أفضل للمسلمين إنه سميع مجيب.
موضوع الصحوة الإسلامية الذي ستتناولونه في هذا المؤتمر هو اليوم في رأس قائمة قضايا العالم الإسلامي و الأمة الإسلامية.. إنه ظاهرة عظيمة لو بقيت سليمة و تواصلت بإذن الله لاستطاعت أن تقيم الحضارة الإسلامية في أفق ليس ببعيد للعالم الإسلامي و من ثَمّ للبشرية جمعاء.
إنّ البارز أمام أعيننا اليوم، و لا يستطيع أي إنسان مطّلع و ذي بصيرة أن ينكره هو أن الإسلام اليوم قد خرج من هامش المعادلات الاجتماعية و السياسية في العالم، و اتخذ مكانة بارزة و ماثلة في مركز العناصر الفاعلة لحوادث العالم، ليقدم رؤية جديدة على ساحة الحياة و السياسة و الحكم و التطورات الاجتماعية. و يشكل ذلك، في عالمنا المعاصر الذي يعاني بعد هزيمة الشيوعية و الليبرالية من فراغ فكري و نظري عميق، ظاهرةً ذات مغزى و أهمية بالغة.
و هذا أول أثر تركته الحوادث السياسية و الثورية في شمال أفريقيا و المنطقة العربية على الصعيد العالمي، و يبشّر بدوره ببروز حقائق أكبر في المستقبل.
إنّ الصحوة الإسلامية التي يتجنب ذكرها المتحدثون باسم جبهة الاستكبار و الرجعية، بل يخافون أن يجري اسمها على ألسنتهم، هي حقيقة نرى معالمها اليوم في أرجاء العالم الإسلامي كافة. و أبرز معالمها تطلع الرأي العام و خاصة فئة الشباب إلى إحياء مجد الإسلام و عظمته، و وعيهم لحقيقة نظام الهيمنة العالمية، و انكشاف الوجه الخبيث و الظالم و المستكبر لحكومات و دوائر أنشبت أظفارها الدامية لأكثر من قرنين في المشرق الإسلامي و غير الإسلامي، و جعلت مقدرات الشعوب عرضة لنزعتها الشرسة و العدوانية نحو الهيمنة، و ذلك بنقاب المدنية و الحضارة.
أبعاد هذه الصحوة المباركة واسعة غاية السعة و ذات امتداد رمزي، و لكن ما حققته من حاضر العطاء في بعض بلدان شمال أفريقيا من شأنه أن يجعل القلوب واثقة بمعطيات مستقبلية كبرى و هائلة. إن تحقق معاجز الوعود الإلهية يحمل دائماً معه دلالات أمل يبشّر بتحقق وعود أكبر. و ما يحكيه القرآن الكريم عن الوعدين الإلهيين لأمّ موسى هو نموذج من هذه السنة الربانية.
إذ في تلك اللحظات العسيرة، حيث صدر الأمر بإلقاء الصندوق حامل الرضيع في اليمّ، جاء الخطاب الإلهي بالوعد: (إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ). (1) إن تحقق الوعد الأول، و هو الوعد الأصغر الذي شدّ على قلب الأم، أصبح منطلقاً لتحقق وعد الرسالة، و هو أكبر بكثير، و يستلزم طبعاً تحمّل المشاق و المجاهدة و الصبر الطويل: (فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ...). (2) هذا الوعد الحقّ هو تلك الرسالة الكبرى التي تحققت بعد سنين و غيّرت مسيرة التاريخ.
و من النماذج الأخرى التذكير بالقدرة الإلهية الفائقة في قمع المهاجمين للكعبة، و الذي ورد في القرآن بلسان الرسول الأعظم (ألم يجعل كيدهم في تضليل) (3) و ذلك لتشجيع المخاطبين علی امتثال الأمر الالهي: (فليعبدوا رب هذا البيت). (4)
و في موضع آخر يذكّر سبحانه رسوله بما أغدقه عليه من نعم تشبه المعجزة: (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى، وَ وَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى)، ليكون ذلك وسيلة لتقوية معنويات نبيّه الحبيب و إيمانه بالوعد الإلهي في قوله: (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى)، (5) و مثل هذه الأمثلة كثيرة في القرآن الكريم.
حين انتصر الإسلام في إيران، و استطاع أن يفتح قلاع أمريكا و الصهيونية في أحد أكثر البلدان حساسية من هذه المنطقة المهمة بامتياز، عَلِم أهل العبرة و الحكمة أنهم إذا انتهجوا طریق الصبر و البصيرة فإن فتوحات أخرى ستتعاقب علیهم، و قد تعاقبت فعلاً.
الحقائق الساطعة في الجمهورية الإسلامية و التي يعترف بها الأعداء قد تحققت بأجمعها في ظل الثقة بالوعد الإلهي و الصبر و المقاومة و الاستمداد من ربّ العالمين. شعبنا كان يرفع دائماً صوته بالقول: (كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ)، (6) أمام وساوس الضعفاء الذين كانوا يردّدون في الفترات الحرجة: (إِنَّا لَمُدْرَكُونَ). (7)
هذه التجربة الثمینة هي اليوم في متناول الشعوب التي نهضت بوجه الاستكبار و الاستبداد، و استطاعت أن تسقط أو تزلزل عروش الحكومات الفاسدة الخاضعة و التابعة لأمريكا. الثبات و الصبر و البصيرة و الثقة بالوعد الإلهي في قوله سبحانه: (وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)، (8) بإمكانها أن تمهّد طريق العزّ هذا أمام الأمة الإسلامية حتى تصل إلى قمة الحضارة الإسلامية.
إنني في هذا الاجتماع الهام لعلماء الأمة بمختلف أقطارهم و مذاهبهم أرى من المناسب أن أبيّن عدة نقاط ضرورية حول قضايا الصحوة الإسلامية:
الأولى: إن الأمواج الأولى للصحوة في بلدان هذه المنطقة، و التي اقترنت ببدايات دخول الغزو الاستعماري، قد انطلقت غالباً على يد علماء الدين و المصلحين الدينيين. لقد خلدت صفحات التاريخ و للأبد أسماء قادة و شخصيات بارزة من أمثال السيد جمال الدين الأسد آبادي، و محمد عبده، و الميرزا الشيرازي، و الآخوند الخراساني، و محمود الحسن، و محمد علي، و الشيخ فضل الله النوري، و الحاج آقا نور الله، و أبي الأعلى المودودي، و عشرات من كبار علماء الدين المعروفين و المجاهدين و المتنفذين من إيران و مصر و الهند و العراق. و يبرز في عصرنا الراهن اسم الإمام الخميني العظيم مثل كوكب ساطع على جبين الثورة الإسلامية في إيران. و كان لمئات العلماء المعروفين و آلاف العلماء غير المعروفين في الحاضر و الماضي دور في المشاريع الإصلاحية الكبيرة و الصغيرة على ساحة مختلف البلدان. و قائمة المصلحين الدينيين من غير علماء الدين كحسن البنا و إقبال اللاهوري هي طويلة أيضاً و مثيرة للإعجاب.
و قد كانت المرجعيّة الفكريّة لعلماء الدين و رجال الفكر الديني بدرجة و أخرى، و في كل مكان. لقد كانوا سنداً روحياً قوياً للجماهير، و حيثما قامت قيامة التحولات الكبرى ظهروا في دور المرشد و الهادي، و تقدموا لمواجهة الخطر في مقدمة صفوف الحراك الشعبي، و ازداد الارتباط الفكري بينهم و بين الناس، و ازداد معه تأثيرهم في دفع الناس نحو الطريق الصحيح. و هذا له من الفائدة و البركة لنهضة الصحوة الإسلامية بمقدار ما يجرّ على أعداء الأمة و الحاقدين على الإسلام و المعارضين لسيادة القيم الإسلامية من انزعاج و امتعاض ما يدفعهم إلى محاولة إلغاء هذه المرجعية الفكرية للمؤسسات الدينية و استحداث أقطاب جديدة عرفوا بالتجربة أنها يمكن المساومة معها بسهولة على حساب المبادئ و القيم الدينية. و هذا ما لا يحدث إطلاقاً مع العلماء الأتقياء و رجال الدين الملتزمين.
إن هذا يضاعف ثقل مسؤولية علماء الدين. فعليهم أن يسدّوا الطريق أمام الاختراق بفطنة و دقة متناهية و بمعرفة أساليب العدوّ الخادعة و حيله، و أن يحبطوا مكائده. إن الانشداد للموائد الملوّنة بمتاع الدنيا من أكبر الآفات. و التلوث بهبات أصحاب المال و السلطة و عطاياهم، و الارتباط المادي بطواغيت الشهوة و القوة من أخطر عوامل الانفصال عن الناس و التفريط بثقتهم و محبتهم. الأنانية و حبّ الجاه الذي يجرّ الضعفاء إلى أقطاب القوة يشكّلان أرضية خصبة للتلوث بالفساد و الانحراف. لا بدّ أن نضع نصب أعيننا قوله سبحانه: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ). (9)
إننا اليوم، في عصر حراك الصحوة الإسلامية و ما تبعثه في النفوس من أمل، نشاهد أحيانًا مساعي خدم أمريكا و الصهيونية لاصطناع مرجعيات فكرية مشبوهة من ناحية، و مساعي الغارقين في المال و مستنقع الشهوات لجرّ أهل الدين و التقوى إلى موائدهم المسمومة الملوثة من ناحية أخرى.
فعلى علماء الدين و الرجال المتدينين و المحافظين على الدين أن يراقبوا هذه الأمور بشدة و دقّة.
المسألة الثانية، ضرورة رسم هدف بعيد المدى للصحوة الإسلامية في البلدان المسلمة يوضع أمام الجماهير ليكون البوصلة في حركتها للوصول إليه. و بمعرفة هذا الهدف يمكن رسم خريطة الطريق و تحديد الأهداف القريبة و المتوسطة. هذا الهدف النهائي لا يمكن أن يكون أقل من إقامة «الحضارة الإسلامية المجيدة». الأمة الإسلامية، بكل أجزائها في إطار الشعوب و البلدان، يجب أن تعتلي مكانتها الحضارية التي يدعو إليها القرآن الكريم.
إن من الخصائص الأصلية و العامة لهذه الحضارة استثمار أبناء البشر لجميع ما أودعه الله في عالم الطبيعة و في وجودهم من مواهب و طاقات مادية و معنوية لتحقيق سعادتهم و سموّهم. و يمكن، بل و ينبغي مشاهدة مظاهر هذه الحضارة في إقامة حكومة شعبية، و في قوانين مستلهمة من القرآن، و في الاجتهاد و تلبية الاحتياجات المستحدثة للبشر، و في رفض الجمود الفكري و الرجعية، ناهيك عن البدعة و الالتقاط، و في إنتاج الرفاه و الثروة العامة، و في استتباب العدل، و في التخلص من الاقتصاد القائم على الاستئثار و الربا و التكاثر، و في إشاعة الأخلاق الإنسانية، و في الدفاع عن المظلومين في العالم، و في السعي و العمل و الابداع.
و من مستلزمات هذا البناء الحضاري النظرة الاجتهادية و العلمية للساحات المختلفة بدء من العلوم الإنسانية و نظام التربية و التعليم الرسمي، و مروراً بالاقتصاد و النظام المصرفي، و انتهاء بالإنتاج الصناعي و التقني و وسائل الإعلام الحديثة و الفن و السينما، بالإضافة إلى العلاقات الدولية و غيرها من الساحات.
و تدلّ التجربة علی أن كل ذلك ممكن و في متناول مجتمعاتنا بطاقاتها المتوفرة. لا يجوز أن ننظر إلى هذا الأفق بنظرة متسرعة أو متشائمة. التشاؤم في تقويم قدراتنا كفران بنعم الله، و الغفلة عن الإمداد الإلهي و دعم سنن الكون انزلاق في ورطة : (الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ). (10)
نحن قادرون على أن نكسر حلقات الاحتكارات العلمية و الاقتصادية و السياسية لقوى الهيمنة، و أن نجعل الأمة الإسلامية سبّاقة لإحقاق حقوق أكثرية شعوب العالم التي هي اليوم مقهورة أمام أقلية مستكبرة.
الحضارة الإسلامية بمقوماتها الإيمانية و العلمية و الأخلاقية، و عبر الجهاد الدائم، قادرة علی أن تقدم للأمة الإسلامية و للبشرية المشاريع الفكرية المتطورة و الأخلاق السامية، و أن تكون منطلق الخلاص من مظالم الرؤية المادية للكون و من الأخلاق الغارقة في مستنقع الرذيلة التي تشكل أركان الحضارة الغربية القائمة.
المسألة الثالثة: في إطار حركات الصحوة الإسلامية يجب الاهتمام باستمرار بالتجربة المرّة و الفظيعة التي تركتها التبعية للغرب على السياسة و الأخلاق و السلوك و نمط الحياة.
البلدان الإسلامية خلال أكثر من قرن من التبعية لثقافة الدول المستكبرة و سياستها قد مُنيت بآفات مهلكة مثل الذيلية و الذلة السياسية و الفقر الاقتصادي و تهاوي الأخلاق و الفضيلة، و التخلف العلمي المُخجِل، بينما الأمة الإسلامية تمتلك تاريخاً مشرقاً من التقدم في جميع هذه المجالات.
هذا الكلام لا ينبغي اعتباره مناصبة العداء للغرب، نحن لا نكنّ العداء لأية مجموعة إنسانية بسبب تمايزها الجغرافي. نحن تعلمنا من الإمام علي (عليه السلام) ما قاله عن الإنسان أنه: «إمّا أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق». (11) اعتراضنا إنما هو على الظلم و الاستكبار و التحكم و العدوان و الفساد و الانحطاط الأخلاقي و العملي الذي تمارسه القوى الاستعمارية و الاستكبارية ضد شعوبنا. و نحن الآن أيضاً نشاهد تحكّم و تدخل و تعنّت أمريكا و بعض ذيولها في المنطقة داخل البلدان التي تحوّل فيها نسيم الصحوة إلى نهوض عاصف و إلى ثورة. وعود هؤلاء و توعّداتهم يجب أن لا تؤثر في قرارات و مبادرات النخب السياسية و في الحركة الجماهيرية العظيمة.
و هنا أيضاً يجب أن نتلقى الدروس من التجارب. أولئك الذين انشدّت قلوبهم لسنوات طويلة بوعود أمريكا و جعلوا الركون إلى الظالم أساساً لنهجهم و سياستهم لم يستطيعوا أن يحلّوا مشكلة من مشاكل شعبهم أو أن يبعدوا ظلماً عنهم أو عن غيرهم. بل إن هؤلاء باستسلامهم لأمريكا لم يستطيعوا أن يحولوا دون هدم بيت فلسطيني واحد على الأقل في إرض هي ملك للفلسطينيين.
الساسة و النخب المخدوعة بالتطميع أو المرعوبة بتهديد جبهة الاستكبار و الذين يخسرون فرصة الصحوة الإسلامية يجب أن يخشوا ما وجهه الله سبحانه إليهم من تهديد إذ قال: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَ أَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ). (12)
المسألة الرابعة: إن أخطر ما يواجه حركة الصحوة الاسلامية اليوم هو إثارة الخلافات و دفع هذا الحراك نحو صدامات دموية طائفية و مذهبية و قومية و محلیة. هذه المؤامرة تتابع أجهزة الجاسوسية الغربية و الصهيونية تنفيذها اليوم بجدٍ و اهتمام في منطقة تمتد من شرق آسيا حتى شمال أفريقيا، و خاصة في المنطقة العربية، بدعم من دولارات النفط و الساسة المأجورين. و الأموال التي یمکن استخدمها في تحقيق رفاه خلق الله، تُنفق في التهديد و التكفير و الاغتيال و التفجير و إراقة دم المسلمين و إضرام نيران الأحقاد الدفينة. أولئك الذين يرون في قوة اتحاد المسلمين مانعاً لتطبيق أهدافهم الخبيثة رأوا في إثارة الخلافات داخل الأمة الإسلامية أيسر طريق لتنفيذ أهدافهم الشيطانية، و جعلوا من اختلاف وجهات النظر في الفقه و الكلام و التاريخ و الحديث، و هو اختلاف طبيعي لا يمكن اجتنابه، ذريعة للتكفير و سفك الدماء و الفتنة و الفساد.
نظرة فاحصة لساحة النزاعات الداخلية تكشف بوضوح يد العدوّ وراء هذه المآسي. هذه اليد الغادرة تستثمر دون شك الجهل و العصبية و السطحية في مجتمعاتنا، و تصبّ الزيت على النار. مسؤولية المصلحين و النخب الدينية و السياسية في هذا الخضمّ ثقيلة جداً.
ليبيا بشكل، و مصر و تونس بشكل أخر، و سوريا بشكل، و باكستان بشكل أخر، و العراق و لبنان بشكل، تعاني اليوم أو في معرض المعاناة من هذه النيران الخطرة. لا بدّ من المراقبة الشديدة و البحث عن العلاج.
من السذاجة أن نعزو كل ذلك إلى عوامل و دوافع عقائدية أو قومية. الدعاية الغربية و الإعلام الإقليمي التابع و المأجور يصوّران الحرب المدمّرة في سورية بأنها نزاع سنّي ــ شيعي، و يوفران بذلك مساحة آمنة للصهاينة و أعداء المقاومة في سوريا و لبنان. بينما النزاع في سوريا ليس بين طرفين سني و شيعي، بل بين أنصار المقاومة ضد الصهيونية و معارضي هذه المقاومة. ليست حكومة سوريا حكومة شيعية، و لا المعارضة العلمانية المعادية للإسلام مجموعة سنية، إنما المنفذون لهذا السيناريو المأساوي كانوا بارعين في قدرتهم على استغلال المشاعر الدينية للسذج في هذا الحريق المهلك. نظرة إلى الساحة و الفاعلين فيها على المستويات المختلفة توضّح هذه المسألة لكل إنسان منصف.
هذه الموجة الإعلامية تؤدّي دورها بشكل آخر في البحرين لاختلاق الكذب و الخداع. في البحرين هناك أكثرية مظلومة محرومة لسنوات طويلة من حق التصويت و سائر الحقوق الأساسية للشعب، قد نهضت للمطالبة بحقها. ترى هل يصحّ أن نعتبر الصراع شيعيا سنياً لأن هذه الأكثرية المظلومة من الشيعة، و الحكومة المتجبّرة العلمانية تتظاهر بالتسنّن ؟!
المستعمرون الأوربيون و الأمريكيون و من لفّ لفهم في المنطقة يريدون طبعاً أن يصوّروا الأمر بهذا الشكل، و لكن أهذه هي الحقيقة؟!
هذا ما يستدعي من جميع علماء الدين المصلحين و المنصفين أن يقفوا تجاهه بتأمّل و دقة و شعور بالمسؤولية، و يحتّم عليهم أن يعرفوا أهداف العدو في إثارة الخلافات الطائفية و القومية و الحزبية.
المسألة الخامسة: إن سلامة مسيرة حركات الصحوة الإسلامية يجب أن نبحث عنها، فيما نبحث، في موقفها تجاه قضية فلسطين. منذ ستين عاماً حتى الآن لم تنزل على قلب الأمة الإسلامية كارثة أكبر من اغتصاب فلسطين.
مأساة فلسطين منذ اليوم الأول حتى الآن كانت مزيجاً من القتل و الارهاب و الهدم و الغصب و الإساءة للمقدسات الإسلامية. وجوب الصمود و النضال أمام هذا العدو المحارب هو موضع اتفاق جميع المذاهب الإسلامية و محل إجماع كل التيارات الوطنية الصادقة و السليمة.
إنّ أيّ تيار في البلدان الإسلامية يتناسى هذا الواجب الديني و الوطني انصياعاً للإرادة الأمريكية المتعنتة أو بمبررات غير منطقية يجب أن لا يتوقع غير التشكيك في وفائه للإسلام و في صدق ادعاءاته الوطنية.
إنّ هذا هو المحكّ. كل من يرفض شعار تحرير القدس الشريف و إنقاذ الشعب الفلسطيني و أرض فلسطين، أو يجعلها مسألة ثانوية و يدير ظهره لجبهة المقاومة، فهو متّهم.
الأمة الإسلامية يجب أن تضع نصب عينيها هذا المؤشر و المعيار الواضح الأساسي في كل مكان و زمان.
أيها الضيوف الأعزاء.. أيها الإخوة و الأخوات..
لا تبعدوا عن أنظاركم كيد العدوّ، فإن غفلتنا توفّر الفرصة للعدوّ.
إنّ درس الإمام علي (عليه السلام) لنا هو أنه: «من نام لم يُنَم عنه». (13) تجربتنا في الجمهورية الإسلامية هي بدورها مليئة بدروس العبرة في هذا المجال. إذ بعد انتصار الثورة الإسلامية في إيران، بدأت الحكومات الغربية و الأمريكية المستكبرة التي كانت منذ أمد بعيد تسيطر على طواغيت إيران و تتحكم في المصير السياسي و الاقتصادي و الثقافي لبلدنا، و تستهين بالقوة الضخمة للايمان الإسلامي في داخل المجتمع، و كانت غافلة عن قوة الإسلام و القرآن في التعبئة و التوجيه، بدأت تفهم فجأة ما وقعت فيه من غفلة، فتحركت دوائرها السيادية و أجهزتها الاستخبارية و مراكز صنع القرار فيها لِتَجبُرَ ما مُنيت به من هزيمة فاحشة .
رأينا خلال هذه الأعوام التي تربو علی الثلاثين أنواع المؤامرات و المخططات، و الذي بدّد مكرهم أساساً هو عاملان: الثبات على المبادئ الإسلامية، و الحضور الجماهيري في الساحة.
هذان العاملان هما مفتاح الفتح و الفَرَج في كل مكان. العامل الأول يضمنه الإيمان الصادق بالوعد الإلهي، و العامل الثاني سيبقى ببركة الجهود المخلصة و البيان الصادق. الشعب الذي يؤمن بصدقِ قادته و إخلاصهم يجعل الساحة فاعلة بحضوره المبارك. و أينما بقي الشعب في الساحة بعزم راسخ فإن أية قدرة ستكون عاجزة عن إنزال الهزيمة به. هذه تجربة ناجحة لكل الشعوب التي صنعت بحضورها الصحوة الإسلامية.
أسأل الله تعالى لكم و لكل الشعوب أن يسددكم و يأخذ بأیدیکم و يعينكم و يغدق عليكم شآبيب رحمته إنه تعالى سميع مجيب.
و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
الهوامش:
1 - سورة القصص، الآیة 7 .
2 - سورة القصص، الآیة 13 .
3 - سورة الفیل، الآیة 2 .
4 - سورة قریش، الآیة 3 .
5 - سورة الضحی، الآیة 3 .
6 - سورة الشعراء، الآیة 62 .
7 - سورة الشعراء، الآیة 61 .
8 - سورة الحج، الآیة 40 .
9 - سورة القصص، الآیة 83 .
10 - سورة الفتح، الآیة 6 .
11 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 53 .
12 - سورة إبراهیم، الآیتان 28 و 29 .
13 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 62 .
Source: http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1569
شناخت علم فلسفہ Intoduction to Philosophy - Ustad Syed Jawad Naqavi - Urdu
Subject : Maarif-e-Islami
Event : 2013 Others
Category : Seminar
Location : Rawalpindi
Description : A very interesting and knowledgeable discussion on the introduction of...
Subject : Maarif-e-Islami
Event : 2013 Others
Category : Seminar
Location : Rawalpindi
Description : A very interesting and knowledgeable discussion on the introduction of Philosophy as Mother of all the sciences.
More...
Description:
Subject : Maarif-e-Islami
Event : 2013 Others
Category : Seminar
Location : Rawalpindi
Description : A very interesting and knowledgeable discussion on the introduction of Philosophy as Mother of all the sciences.
51:29
|
[طلوع فجر تعلیمی کنوینشن] Speech H.I Ahmed Iqbal Rizvi - Faisal Town, Lahore - Urdu
[Tulooe Fajr Taleemi Convention طلوع فجر تعلیمی کنوینشن] Hosoole Ilm Ki Ahmiyat - حصولِ علم کی اہمیت - Speech H.I Ahmed IQbal Rizvi - Faisal Town, Lahore - 29,...
[Tulooe Fajr Taleemi Convention طلوع فجر تعلیمی کنوینشن] Hosoole Ilm Ki Ahmiyat - حصولِ علم کی اہمیت - Speech H.I Ahmed IQbal Rizvi - Faisal Town, Lahore - 29, 30, 31 March 2013 - Urdu
More...
Description:
[Tulooe Fajr Taleemi Convention طلوع فجر تعلیمی کنوینشن] Hosoole Ilm Ki Ahmiyat - حصولِ علم کی اہمیت - Speech H.I Ahmed IQbal Rizvi - Faisal Town, Lahore - 29, 30, 31 March 2013 - Urdu
26:07
|
03 - Syed Kumail Abbas Jafri - Ilm aur Noor - علم اور نور - Urdu
This lecture is part of the DVD series named Ataaye Ziarate Ashoora عطائے زیارتِ عاشورہ
Syed Muhammad Kumail Abbas Jafri started oration when he was of less than 3 years and now...
This lecture is part of the DVD series named Ataaye Ziarate Ashoora عطائے زیارتِ عاشورہ
Syed Muhammad Kumail Abbas Jafri started oration when he was of less than 3 years and now is currently of 6 years.
Find Thaqlain on Facebook: http://www.facebook.com/Thaqlain
Copyright: Thaqlain & Publishers
More...
Description:
This lecture is part of the DVD series named Ataaye Ziarate Ashoora عطائے زیارتِ عاشورہ
Syed Muhammad Kumail Abbas Jafri started oration when he was of less than 3 years and now is currently of 6 years.
Find Thaqlain on Facebook: http://www.facebook.com/Thaqlain
Copyright: Thaqlain & Publishers
7:30
|
6:21
|
راولپنڈی سازش اور جمعہ کے دن مومنین کی ذمہ داری - Urdu
راولپنڈی سازش اور جمعہ کے دن مومنین کی ذمہ داری
جمعہ کے دن آپ کا فریضہ ہے کہ غیر محفوظ مراکز ، مسجد، علم اور...
راولپنڈی سازش اور جمعہ کے دن مومنین کی ذمہ داری
جمعہ کے دن آپ کا فریضہ ہے کہ غیر محفوظ مراکز ، مسجد، علم اور امام بارگاہ کی حفاظت کریں۔ اگر دشمن اشتعال دلواتا ہے تو مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے، دشمن کے منصوبے کو سمجھنا ضروری ہے۔
More...
Description:
راولپنڈی سازش اور جمعہ کے دن مومنین کی ذمہ داری
جمعہ کے دن آپ کا فریضہ ہے کہ غیر محفوظ مراکز ، مسجد، علم اور امام بارگاہ کی حفاظت کریں۔ اگر دشمن اشتعال دلواتا ہے تو مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے، دشمن کے منصوبے کو سمجھنا ضروری ہے۔
10:51
|
{Chapter 20} [Audiobook] Ilm e Rajal - Maulana Zeeshan Haider Jawwadi - Urdu
Chapter 20
Subject : Audio Book
Topic : Book Illm e Rajal | کتاب علمِ رجال
Speaker And Writer : Voice. Syed yasir Ali | Writer. Maulana Zeeshan Haider Jawwadi
Asnaad Kamil e Ziyarat...
Chapter 20
Subject : Audio Book
Topic : Book Illm e Rajal | کتاب علمِ رجال
Speaker And Writer : Voice. Syed yasir Ali | Writer. Maulana Zeeshan Haider Jawwadi
Asnaad Kamil e Ziyarat | اسناد کاملِ الزیارت
More...
Description:
Chapter 20
Subject : Audio Book
Topic : Book Illm e Rajal | کتاب علمِ رجال
Speaker And Writer : Voice. Syed yasir Ali | Writer. Maulana Zeeshan Haider Jawwadi
Asnaad Kamil e Ziyarat | اسناد کاملِ الزیارت
4:52
|
5:50
|
4:43
|
5:44
|
3:18
|
عدالت خواھی - Syed Ali Khamenei - Farsi Sub Urdu
عدالت خواھی - Syed Ali Khamenei - Farsi Sub Urdu
کلام ولایت نور ہدایت
جدید سلسلہ 18
مختلف موضوعات پر راہ گشاء کلام کا سلسلہ...
عدالت خواھی - Syed Ali Khamenei - Farsi Sub Urdu
کلام ولایت نور ہدایت
جدید سلسلہ 18
مختلف موضوعات پر راہ گشاء کلام کا سلسلہ
از رہبر معظم سید علی خامنہ ای
موضوع : عدالت خواھی
پیشکش ادارہ البلاغ
More...
Description:
عدالت خواھی - Syed Ali Khamenei - Farsi Sub Urdu
کلام ولایت نور ہدایت
جدید سلسلہ 18
مختلف موضوعات پر راہ گشاء کلام کا سلسلہ
از رہبر معظم سید علی خامنہ ای
موضوع : عدالت خواھی
پیشکش ادارہ البلاغ
4:25
|
3:57
|
53:39
|
1:30
|
تیمم کا صحیح طریقہ؟ - Urdu
نماز پڑہنے کے بعد علم ہوا کہ جس چیز پر تیمم کیا تھا اسپر تیمم کرنا صحیح نہیں ہے تو کیا کریں؟
نماز پڑہنے کے بعد علم ہوا کہ جس چیز پر تیمم کیا تھا اسپر تیمم کرنا صحیح نہیں ہے تو کیا کریں؟
7:41
|
[Noha 2015] OUNCHA RAHAY APNA ALAM - Ahmed Nasiri, Muhammed Ali Najafi & Atir Haider - DASTA E IMAMIA - Urdu
Muharram 1437/2015
Nauha / Latmiyah : OUNCHA RAHAY APNA ALAM | اونچا رہے اپنا علم
Recited By : Ahmed Nasiri, Muhammed Ali Najafi & Atir Haider
Poetry By: Syed Ali Muhammed...
Muharram 1437/2015
Nauha / Latmiyah : OUNCHA RAHAY APNA ALAM | اونچا رہے اپنا علم
Recited By : Ahmed Nasiri, Muhammed Ali Najafi & Atir Haider
Poetry By: Syed Ali Muhammed Rizvi ( Sachay Bhai)
DASTA E IMAMIA 2015
More...
Description:
Muharram 1437/2015
Nauha / Latmiyah : OUNCHA RAHAY APNA ALAM | اونچا رہے اپنا علم
Recited By : Ahmed Nasiri, Muhammed Ali Najafi & Atir Haider
Poetry By: Syed Ali Muhammed Rizvi ( Sachay Bhai)
DASTA E IMAMIA 2015
3:30
|
مروری بر زندگی شهید آیت الله باقر النمر - Farsi
آیتالله «نمر باقرالنمر»، روحانی شیعی برجسته عربستانی، در سال ۱۳۷۹ هجری قمری مصادف با ۱۹۶۸ میلادی، در شهر...
آیتالله «نمر باقرالنمر»، روحانی شیعی برجسته عربستانی، در سال ۱۳۷۹ هجری قمری مصادف با ۱۹۶۸ میلادی، در شهر «العوامیه» در استان القطیف در شرق عربستان و در خانوادهای اهل علم و دین، به دنیا آمد
More...
Description:
آیتالله «نمر باقرالنمر»، روحانی شیعی برجسته عربستانی، در سال ۱۳۷۹ هجری قمری مصادف با ۱۹۶۸ میلادی، در شهر «العوامیه» در استان القطیف در شرق عربستان و در خانوادهای اهل علم و دین، به دنیا آمد
55:50
|
[Sunday Lecture] Maulana Kazim Naqvi - عزاداری کے احکام | Urdu
علم تابوت اور تعزیہ نکالنا کیسا ہے؟
کیا مردوں کا قمیض اتار کر ماتم کرنا جبکہ نامحرم سامنے ہوں کیا یہ عمل صحیح...
علم تابوت اور تعزیہ نکالنا کیسا ہے؟
کیا مردوں کا قمیض اتار کر ماتم کرنا جبکہ نامحرم سامنے ہوں کیا یہ عمل صحیح ہے؟
لاوڈ اسپیکر کا استعمال رات میں کرنا کیسا ہے؟
عزاداری میں ڈھول اور ڈف کا استمال کرنا کیسا ہے؟
خواتین کا جلوس عزا میں جانا کیسا ہے؟
خواتین کا نامحرم کے سامنے مرثیہ پڑھنا کیسا ہے؟
عزاداری میں مرد اور عورت کا مخلوط ونا کیا حکم رکھتا ہے؟
آیا نماز اول وقت مہم ہے یا عزاداری کا جاری رکھنا؟
ماتم کی توہین مذہب بننے کی وجوہات کیا ہیں؟
محرم میں شادی کرنا کیساہے؟
زنجیر زنی کے لئے کیا حکم ہے؟
More...
Description:
علم تابوت اور تعزیہ نکالنا کیسا ہے؟
کیا مردوں کا قمیض اتار کر ماتم کرنا جبکہ نامحرم سامنے ہوں کیا یہ عمل صحیح ہے؟
لاوڈ اسپیکر کا استعمال رات میں کرنا کیسا ہے؟
عزاداری میں ڈھول اور ڈف کا استمال کرنا کیسا ہے؟
خواتین کا جلوس عزا میں جانا کیسا ہے؟
خواتین کا نامحرم کے سامنے مرثیہ پڑھنا کیسا ہے؟
عزاداری میں مرد اور عورت کا مخلوط ونا کیا حکم رکھتا ہے؟
آیا نماز اول وقت مہم ہے یا عزاداری کا جاری رکھنا؟
ماتم کی توہین مذہب بننے کی وجوہات کیا ہیں؟
محرم میں شادی کرنا کیساہے؟
زنجیر زنی کے لئے کیا حکم ہے؟