URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
More...
Description:
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
5:36
|
[Urdu] Hajj 2015 حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب...
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین و الصلا ۃو السلام علی سیّد الخلق اجمعین محمد و آلہ الطاہرین و صحبہ المنتجبین و علی التابعین لہم باحسان الی یوم الدین
اور سلام ہو یکتا پرستی کے مرکز، مومنین کی طواف گاہ اور فرشتوں کی جائے نزول ،کعبہ شریف پر۔ اور سلام ہو مسجد الحرام، عرفات، مشعر اور منی پر اور سلام ہو خضوع و خشوع سےبھرپور دلوں پر، ذکر میں ڈوبی زبانوں پر، بصیرت کے ساتھ کھلنے والی آنکھوں پر، عبرت و سبق کا راستہ پا جانے والے افکار پر اور سلام ہو آپ خوش نصیب حاجیوں پر کہ آپ کو دعوت الہی پر لبیک کہنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ نعمتوں کے دسترخوان پر تشریف فرما ہیں۔
سب سے پہلی ذمہ داری اس عالمی، تاریخی اور دائمی لبیک پر غور کرنا ہے؛ انّ الحمد و النعمۃ لک و المُلک، لا شَریک لک لبیک۔
ساری تعریفیں اور شکر اس کے لئے ہے، ساری نعمتیں اسی کی طرف سے اور ملک و اقتدار اسی کا ہے۔
حاجی کو یہ زاویہ نگاہ، اس پرمغز و بامعنی فریضے کے شروعاتی مرحلے میں ہی، دے دیا جاتا ہے اور اعمال حج کا سلسلہ اسی طرز نگاہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور پھر اسے پائیدار سبق اور کبھی فراموش نہ ہونے والے درس کی مانند اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور زندگی کے لائحہ عمل کو اسی تناظر میں منظم کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ یہ عظیم سبق حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا، وہی پربرکت سرچشمہ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کو تازگی، حرارت اورتحرک عطا کر سکتا ہے اور انھیں ان مسائل سے جن سے وہ دوچار ہیں، اس دور میں اور تمام ادوار میں نجات دلا سکتا ہے۔
نفسانیت، کبر، نفسانی خواہشات، تسلط پسندی اور تسلط برداشت کرنے کی عادت، عالمی استکبار، تساہلی اور ذمہ داریوں سے فرار اور با عزت انسانی زندگی کو ذلیل و خوار کرنے کا جذبہ، یہ سب وہ بت ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکل کر زندگی کا دستور العمل بن جانے والی اس \\\\\\\\\\\\\\\'صدائے ابراہیمی سے ٹوٹ جائیں گے اور دوسروں پر انحصار، دشواریوں اور سختیوں کی جگہ آزادی و وقار اور سلامتی لے لیگی۔
حج سے مشرف ہونے والے محرم برادران و خواہران، بلا تفریق ِملک و قوم، سب اس حکمت آمیز کلام ِپروردگار پر غور کریں اور دنیائے اسلام اور خاص طور پر مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے، ذاتی اور گرد و پیش کے وسائل اور توانائیوں کے مطابق اپنے لئے فریضہ اور ذمہ داری طے کریں اور اس کے تحت کوششیں کریں۔
آج اس علاقے میں ایک طرف امریکا کی شرانگیز پالیسیاں جو جنگ و خونریزی، تباہی و آوارہ وطنی، نیز غربت و پسمانگی اور قومیتی و فرقہ وارانہ تنازعات کی جڑ ہیں، اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے جرائم ہیں، جس نے مملکت فلسطین میں غاصبانہ اقدامات کو شقی القلبی اور خباثت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور بار بار مقدس مسجد الاقصی کی توہین اور مظلوم فلسطینیوں کے جان و مال کی تاراجی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ آپ تمام مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے، جس کے بارے میں آپ کو غور کرنا چاہئے اور اس مسئلے میں اپنے اسلامی فرائض کو سمجھنا چاہئے۔ علمائے دین اور سیاسی و علمی شخصیات کی ذمہ داری زیادہ سنگین ہے، جو بد قسمتی سے اکثر اس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔
علما فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے، سیاسی رہنما دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرنے اور علمی شخصیات فروعی مسائل میں اپنے ذہن مصروف کرنے کے بجائے، دنیائے اسلام کے سب سے بڑے درد کو سمجھیں اور اپنی اس ذمہ داری کو جس کے تعلق سے وہ عدل الہی کے سامنے جواب دہ ہیں، قبول کریں اور اس کو پورا کریں۔ علاقے میں، عراق، شام، یمن، بحرین، غرب اردن اور غزہ میں اور بعض دیگر ایشیائی اور افریقی ملکوں میں رونما ہونے والے دردناک واقعات امت مسلمہ کی بڑی مشکلات ہیں جن میں عالمی استکبار کی سازش کو سمجھنا اور اس کی راہ حل کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ قومیں اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں اور حکومتیں اپنی سنگین ذمہ داری کے سلسلے میں وفادار رہیں۔
حج اور اس کے پرشکوہ اجتماعات، ان تاریخی ذمہ داریوں کے نمایاں ہونے اور تبادلے کے بہترین مواقع ہیں۔
اورمشرکین سے برائت اس ہمہ گیر فریضے کا نمایا ںترین سیاسی عمل ہے اور اس عمل کو تمام حجاج کرام نے موقع غنیمت سمجھ کر کے انجام دینا چاہئے۔
اس سال مسجد الحرام کے تلخ سانحے نے حجاج کرام اور ان کی قوموں کو غمزدہ کردیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس حادثے میں گزر جانے والے افراد جو نماز، طواف اور عبادت کے عالم میں باری تعالی کے دیدار کے لئے کوچ کر گئے، عظیم سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوئے اور امن و رحمت و توجہ الہی کے دیار میں سکونت پذیر ہوئے ان شاء اللہ، جو ان کے پسماندگان کے لئے باعث سکون ہے، لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جو لوگ ظاہراً اللہ کے مہمانوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیںوہ بری الذمہ ہوجائیں۔ اس فرض پر عمل اور اس ذمہ داری کی ادائیگی ہمارا حتمی مطالبہ ہے۔
و السلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
4 ذی الحجہ 1436 (ہجری قمری)
27 شہریور 1394 (ہجری شمسی)
More...
Description:
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین و الصلا ۃو السلام علی سیّد الخلق اجمعین محمد و آلہ الطاہرین و صحبہ المنتجبین و علی التابعین لہم باحسان الی یوم الدین
اور سلام ہو یکتا پرستی کے مرکز، مومنین کی طواف گاہ اور فرشتوں کی جائے نزول ،کعبہ شریف پر۔ اور سلام ہو مسجد الحرام، عرفات، مشعر اور منی پر اور سلام ہو خضوع و خشوع سےبھرپور دلوں پر، ذکر میں ڈوبی زبانوں پر، بصیرت کے ساتھ کھلنے والی آنکھوں پر، عبرت و سبق کا راستہ پا جانے والے افکار پر اور سلام ہو آپ خوش نصیب حاجیوں پر کہ آپ کو دعوت الہی پر لبیک کہنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ نعمتوں کے دسترخوان پر تشریف فرما ہیں۔
سب سے پہلی ذمہ داری اس عالمی، تاریخی اور دائمی لبیک پر غور کرنا ہے؛ انّ الحمد و النعمۃ لک و المُلک، لا شَریک لک لبیک۔
ساری تعریفیں اور شکر اس کے لئے ہے، ساری نعمتیں اسی کی طرف سے اور ملک و اقتدار اسی کا ہے۔
حاجی کو یہ زاویہ نگاہ، اس پرمغز و بامعنی فریضے کے شروعاتی مرحلے میں ہی، دے دیا جاتا ہے اور اعمال حج کا سلسلہ اسی طرز نگاہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور پھر اسے پائیدار سبق اور کبھی فراموش نہ ہونے والے درس کی مانند اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور زندگی کے لائحہ عمل کو اسی تناظر میں منظم کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ یہ عظیم سبق حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا، وہی پربرکت سرچشمہ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کو تازگی، حرارت اورتحرک عطا کر سکتا ہے اور انھیں ان مسائل سے جن سے وہ دوچار ہیں، اس دور میں اور تمام ادوار میں نجات دلا سکتا ہے۔
نفسانیت، کبر، نفسانی خواہشات، تسلط پسندی اور تسلط برداشت کرنے کی عادت، عالمی استکبار، تساہلی اور ذمہ داریوں سے فرار اور با عزت انسانی زندگی کو ذلیل و خوار کرنے کا جذبہ، یہ سب وہ بت ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکل کر زندگی کا دستور العمل بن جانے والی اس \\\\\\\\\\\\\\\'صدائے ابراہیمی سے ٹوٹ جائیں گے اور دوسروں پر انحصار، دشواریوں اور سختیوں کی جگہ آزادی و وقار اور سلامتی لے لیگی۔
حج سے مشرف ہونے والے محرم برادران و خواہران، بلا تفریق ِملک و قوم، سب اس حکمت آمیز کلام ِپروردگار پر غور کریں اور دنیائے اسلام اور خاص طور پر مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے، ذاتی اور گرد و پیش کے وسائل اور توانائیوں کے مطابق اپنے لئے فریضہ اور ذمہ داری طے کریں اور اس کے تحت کوششیں کریں۔
آج اس علاقے میں ایک طرف امریکا کی شرانگیز پالیسیاں جو جنگ و خونریزی، تباہی و آوارہ وطنی، نیز غربت و پسمانگی اور قومیتی و فرقہ وارانہ تنازعات کی جڑ ہیں، اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے جرائم ہیں، جس نے مملکت فلسطین میں غاصبانہ اقدامات کو شقی القلبی اور خباثت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور بار بار مقدس مسجد الاقصی کی توہین اور مظلوم فلسطینیوں کے جان و مال کی تاراجی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ آپ تمام مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے، جس کے بارے میں آپ کو غور کرنا چاہئے اور اس مسئلے میں اپنے اسلامی فرائض کو سمجھنا چاہئے۔ علمائے دین اور سیاسی و علمی شخصیات کی ذمہ داری زیادہ سنگین ہے، جو بد قسمتی سے اکثر اس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔
علما فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے، سیاسی رہنما دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرنے اور علمی شخصیات فروعی مسائل میں اپنے ذہن مصروف کرنے کے بجائے، دنیائے اسلام کے سب سے بڑے درد کو سمجھیں اور اپنی اس ذمہ داری کو جس کے تعلق سے وہ عدل الہی کے سامنے جواب دہ ہیں، قبول کریں اور اس کو پورا کریں۔ علاقے میں، عراق، شام، یمن، بحرین، غرب اردن اور غزہ میں اور بعض دیگر ایشیائی اور افریقی ملکوں میں رونما ہونے والے دردناک واقعات امت مسلمہ کی بڑی مشکلات ہیں جن میں عالمی استکبار کی سازش کو سمجھنا اور اس کی راہ حل کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ قومیں اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں اور حکومتیں اپنی سنگین ذمہ داری کے سلسلے میں وفادار رہیں۔
حج اور اس کے پرشکوہ اجتماعات، ان تاریخی ذمہ داریوں کے نمایاں ہونے اور تبادلے کے بہترین مواقع ہیں۔
اورمشرکین سے برائت اس ہمہ گیر فریضے کا نمایا ںترین سیاسی عمل ہے اور اس عمل کو تمام حجاج کرام نے موقع غنیمت سمجھ کر کے انجام دینا چاہئے۔
اس سال مسجد الحرام کے تلخ سانحے نے حجاج کرام اور ان کی قوموں کو غمزدہ کردیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس حادثے میں گزر جانے والے افراد جو نماز، طواف اور عبادت کے عالم میں باری تعالی کے دیدار کے لئے کوچ کر گئے، عظیم سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوئے اور امن و رحمت و توجہ الہی کے دیار میں سکونت پذیر ہوئے ان شاء اللہ، جو ان کے پسماندگان کے لئے باعث سکون ہے، لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جو لوگ ظاہراً اللہ کے مہمانوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیںوہ بری الذمہ ہوجائیں۔ اس فرض پر عمل اور اس ذمہ داری کی ادائیگی ہمارا حتمی مطالبہ ہے۔
و السلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
4 ذی الحجہ 1436 (ہجری قمری)
27 شہریور 1394 (ہجری شمسی)
23:14
|
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali Khamenei - Urdu translation
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں،...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
More...
Description:
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
Imam Khomeini (r.a.) - Moharram Ashura azadari عزاءداری 2/3 - Persian
Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well...
Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well as IRGC Pasdaran Basijis and Army heroes headed for the fronts of the Sacred Defence (Iran Iraq war).
From Imam Hossein's (a.s.) martyrdom at the battle of Karbala, to the 15th Khordad movement and then the Islamic Revolution, the Muharram mourning ceremonies and the political tears (geryeh ye siasi) they provoke, strengthen the Muslims faith in Allah (s.w.t.) and their determination to oppose the injustices of their time. This ensures victory against imperialism, global arrogance and oppression.
More...
Description:
Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well as IRGC Pasdaran Basijis and Army heroes headed for the fronts of the Sacred Defence (Iran Iraq war).
From Imam Hossein's (a.s.) martyrdom at the battle of Karbala, to the 15th Khordad movement and then the Islamic Revolution, the Muharram mourning ceremonies and the political tears (geryeh ye siasi) they provoke, strengthen the Muslims faith in Allah (s.w.t.) and their determination to oppose the injustices of their time. This ensures victory against imperialism, global arrogance and oppression.
56:51
|
Vali Amr Muslimeen meets Outstanding University Students - 6 August 2012 - Farsi
دیدار دانشجویان با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20685
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويی، عصر روز 16 مرداد...
دیدار دانشجویان با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20685
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويی، عصر روز 16 مرداد 1391، در ديداری صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامی حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهی، علمی، فرهنگی، اجتماعی، سياسی و اقتصادی پرداختند.
در ابتدای اين ديدار يازده فعال سياسی فرهنگی و علمی دانشجويی،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهای دانشجويی ديدگاههای متفاوت خود را درباره مسائل مختلف كشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايی سياسی، علمی و اخلاقی -- معنوی را مهمترين توقع از مجموعه های دانشجويی خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهای نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامی در ابتدای سخنان خود با اشاره به مطالبی كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضای دانشجويی خواندند و تأكيد كردند: برخی از اين مطالب، راهگشا و برخی هم حاوی نكات مفيدی بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدی كنند.
حضرت آيت الله خامنه ای سپس به برخی نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسی در ميان دانشجويان» يكی از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامی درخصوص آن گفتند: در پايبندی دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه های مختلف از جمله مسائل سياسی، هيچ منافاتی وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه ای درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤسای سه قوه، مسئولان ميانی، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهای مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال های خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياری از ابهامات و سؤال های نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخی برخوردهای قضايی با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ های دانشجويی افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايی دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخی ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادی عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داری كه از جانب يكی از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادی در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتی با سياستهای اصل 44 ندارد.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1659
Supreme Leader Meets Outstanding University Students
06/08/2012
In a meeting with outstanding university students from across the country, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed the need for political tolerance among students and stated: \"There is no contradiction between being firmly committed to values and principles and observing the principle of tolerance with non-intellectual people in different areas, especially political issues.\"
In response to the criticism that student organizations, websites and weblogs are subject to certain judicial actions, the Supreme Leader of the Islamic Revolution said: \"Of course, the judiciary has its own reasons in this regard and if those reasons were discussed, some of the doubts would probably be eliminated. However, I also believe that it is wrong to strongly respond to a young student who expresses a strong opinion.\"
His Eminence referred to a justice-based view of economy and stated: \"The economic view in the country should be justice-based and this issue is not in conflict with the policies of Article 44 of the Constitution [regarding privatization of the economy].\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: \"If the policies of Article 44 of the Constitution were implemented in the specified way, definitely they will not result in the kind of capitalism that has been criticized and capitalism will not become the pivot of our large-scale national decisions.\"
His Eminence added: \"The increasing economic problems in the west and Europe have been caused by the nature of capitalism, namely the rule of capital.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is necessary to guard against the domination of the socialist view over economic thoughts, further adding: \"If the policies of Article 44 of the Constitution were implemented within the specified framework, they will definitely complement justice-based economy.\"
Ayatollah Khamenei said that an economy of resistance is different from an offensive economy and added: \"If an accurate academic explanation were presented in this regard, it might complement economy of resistance.\"
He reiterated: \"An economy of resistance does not require adopting defensive measures and building a defensive wall around oneself. Rather, an economy of resistance is a kind of economy that prepares the ground for the growth and blossoming of a nation, even under threats and sanctions.\"
In response to whether criticism would help advance the enemies\' goals, Ayatollah Khamenei stressed: \"I do not at all believe in avoiding criticism. On the contrary, I always insist that the student movement should preserve its critical attitude.\"
His Eminence added: \"However, it is necessary to pay attention to the point that criticisms should be expressed in a way that they do not advance the enemy\'s goal.\"
Elsewhere in his statements, the Supreme Leader of the Islamic Revolution stated that contradictions between expert opinions and the views of the Leader do not constitute opposition to Vilayat.
His Eminence stressed: \"Accurate expert work - regardless of the result - is valid for the person who is involved in the work and it must not be considered as opposition to the Islamic Republic.\"
Ayatollah Khamenei also urged students to develop a relationship with the student organizations that are involved in Islamic Awakening.
In response to a comment by one of the students regarding inactivity of the Supreme Cyberspace Council, the Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is wrong to expect results from the council in the short run. \"This is because such things take several years.\"
Discussing his expectations of student organizations and environments, Ayatollah Khamenei said: \"University is a dynamic movement that is full of energy and if this energy is released and managed, it will completely guide the country.\"
He added that universities can fulfill all the expectations by relying on the vibrancy and confidence that have been intensified by the Revolution.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that idealism is an essential expectation and added: \"Idealism in science means going after scientific peaks and this goal makes careful studying a necessity.\"
Addressing Iranian students throughout the country, His Eminence reiterated: \"Today studying, acquiring knowledge, research and hard work is a kind of jihad for students.\"
Afterwards, Ayatollah Khamenei explained spiritual idealism and stressed the need for commitment to religious values.
He criticized the view that universities are anti-religion environments and added: \"This reactionary view, which is completely wrong, dates back to the time when universities were first established in Iran several decades before the Revolution and efforts were made by certain people to build a self-loathing westernized intellectual generation.\"
Ayatollah Khamenei rejected this view and reiterated: \"University is an environment for religion, ethics, purity and spirituality. And the expectation is that universities should be such that anybody who enters university becomes more committed to religion and ethics.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution discussed the requirements of idealism and added: \"Idealism must not be confused with belligerence. It is possible to be firmly committed to values and principles without belligerence.\"
His Eminence said that it is necessary to control one\'s emotions and to refuse to make decisions when one is emotionally provoked. He added: \"Student organizations have had an active and praiseworthy presence in different social and political issues over the past 2, 3 years, but over the same period of time, there have been cases in which student organizations have adopted certain incorrect decisions and measures on the basis of pure and noble feelings of students. This is because decisions should be based on careful and accurate research, not on emotions.\"
In order to delineate the line between idealism and emotions, the Supreme Leader of the Islamic Revolution referred to the opposition of the Islamic Republic to the autocratic regimes in the region and reiterated: \"In spite of the clear positions of the Islamic Republic, it is wrong to oppose traditional and conventional diplomatic work in this regard.\"
His Eminence reiterated: \"There is no contradiction between idealism of student organizations and observing our national interests, observing the law and exercising managerial judgment. That is to say, it is possible to be young, emotional and idealistic and at the same time act in a way that this does not conflict with the managerial issues and our national interests.\"
Ayatollah Khamenei added: \"It is necessary to pay attention to the depth and meaning of idealism and to adopt decisions and measures while avoiding extremism and taking the realities and interests into consideration. It is also necessary to remember that idealism means being committed to principles, values and ideals and influencing the opposing side while refusing to be influenced by it.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is necessary for student organizations to be involved in different issues of the country and added: \"Intellectual presence is possible through cultural activities in student media and presenting one\'s positions and views. And physical presence of student organizations is possible through adopting correct decisions to arrange student gatherings.\"
His Eminence said that as far as student gatherings are concerned, decisions that are based on emotions will have negative consequences. In order to avoid these consequences, he suggested: \"It is necessary for student organizations to establish a center for adopting decisions and taking action. In different issues, through consultation and wisdom, they should reach a unified conclusion about a particular decision or action and all students should be committed to the decision that is made. In this way, decisions and actions that are based on emotions will not be blamed on student organizations.\"
Ayatollah Khamenei urged all Iranian students throughout the country to avoid speaking about what they do not know. \"I ask you to be seriously committed to avoidance of backbiting, slandering and saying what you are not sure about, just as you are seriously committed to praying and fasting.\"
Ayatollah Khamenei also urged students to pay attention to the enemy\'s goals in the soft war and said: \"I believe that you are the commanders of the soft war. For this reason, I stress that you should pay careful attention to the main goal that the enemy is pursuing through the soft war, namely convincing our people and government officials to revise their calculations.\"
His Eminence said that the enemy has focused its attacks on the hearts, minds, thoughts and willpower of the people. He reiterated: \"They are openly saying that they should convince us to revise our calculations and to convince us that continuing our resistance against the arrogant powers and bullying powers of the world will not benefit us. The commanders of the soft war should understand and counter the enemy\'s goals in the correct way.\"
Ayatollah Khamenei said that in order to counter the enemy\'s goal in the soft war, it is necessary to increase one\'s knowledge. Addressing Iranian students, he said: \"Do not limit your understanding and knowledge to what is written on websites, weblogs and other such places, rather try to improve your knowledge on a daily basis by relying on the Holy Quran and the writings of Shahid Motahhari and our great religious scholars and knowledgeable young seminarians.\"
Ayatollah Khamenei described optimism as essential and stated that increasing one\'s religious knowledge, developing insight into the realities of the country, fair criticism and constant and balanced supervision are among the fundamental responsibilities of student organizations. \"These things should be accompanied by lenience and rationality and they should also be free from extremism.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that considering the realities of the country fills one\'s heart with hope.
More...
Description:
دیدار دانشجویان با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=20685
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويی، عصر روز 16 مرداد 1391، در ديداری صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامی حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهی، علمی، فرهنگی، اجتماعی، سياسی و اقتصادی پرداختند.
در ابتدای اين ديدار يازده فعال سياسی فرهنگی و علمی دانشجويی،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهای دانشجويی ديدگاههای متفاوت خود را درباره مسائل مختلف كشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايی سياسی، علمی و اخلاقی -- معنوی را مهمترين توقع از مجموعه های دانشجويی خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهای نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامی در ابتدای سخنان خود با اشاره به مطالبی كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضای دانشجويی خواندند و تأكيد كردند: برخی از اين مطالب، راهگشا و برخی هم حاوی نكات مفيدی بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدی كنند.
حضرت آيت الله خامنه ای سپس به برخی نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسی در ميان دانشجويان» يكی از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامی درخصوص آن گفتند: در پايبندی دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه های مختلف از جمله مسائل سياسی، هيچ منافاتی وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه ای درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤسای سه قوه، مسئولان ميانی، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهای مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال های خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياری از ابهامات و سؤال های نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخی برخوردهای قضايی با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ های دانشجويی افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايی دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخی ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادی عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داری كه از جانب يكی از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادی در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتی با سياستهای اصل 44 ندارد.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1659
Supreme Leader Meets Outstanding University Students
06/08/2012
In a meeting with outstanding university students from across the country, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed the need for political tolerance among students and stated: \"There is no contradiction between being firmly committed to values and principles and observing the principle of tolerance with non-intellectual people in different areas, especially political issues.\"
In response to the criticism that student organizations, websites and weblogs are subject to certain judicial actions, the Supreme Leader of the Islamic Revolution said: \"Of course, the judiciary has its own reasons in this regard and if those reasons were discussed, some of the doubts would probably be eliminated. However, I also believe that it is wrong to strongly respond to a young student who expresses a strong opinion.\"
His Eminence referred to a justice-based view of economy and stated: \"The economic view in the country should be justice-based and this issue is not in conflict with the policies of Article 44 of the Constitution [regarding privatization of the economy].\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution added: \"If the policies of Article 44 of the Constitution were implemented in the specified way, definitely they will not result in the kind of capitalism that has been criticized and capitalism will not become the pivot of our large-scale national decisions.\"
His Eminence added: \"The increasing economic problems in the west and Europe have been caused by the nature of capitalism, namely the rule of capital.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is necessary to guard against the domination of the socialist view over economic thoughts, further adding: \"If the policies of Article 44 of the Constitution were implemented within the specified framework, they will definitely complement justice-based economy.\"
Ayatollah Khamenei said that an economy of resistance is different from an offensive economy and added: \"If an accurate academic explanation were presented in this regard, it might complement economy of resistance.\"
He reiterated: \"An economy of resistance does not require adopting defensive measures and building a defensive wall around oneself. Rather, an economy of resistance is a kind of economy that prepares the ground for the growth and blossoming of a nation, even under threats and sanctions.\"
In response to whether criticism would help advance the enemies\' goals, Ayatollah Khamenei stressed: \"I do not at all believe in avoiding criticism. On the contrary, I always insist that the student movement should preserve its critical attitude.\"
His Eminence added: \"However, it is necessary to pay attention to the point that criticisms should be expressed in a way that they do not advance the enemy\'s goal.\"
Elsewhere in his statements, the Supreme Leader of the Islamic Revolution stated that contradictions between expert opinions and the views of the Leader do not constitute opposition to Vilayat.
His Eminence stressed: \"Accurate expert work - regardless of the result - is valid for the person who is involved in the work and it must not be considered as opposition to the Islamic Republic.\"
Ayatollah Khamenei also urged students to develop a relationship with the student organizations that are involved in Islamic Awakening.
In response to a comment by one of the students regarding inactivity of the Supreme Cyberspace Council, the Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is wrong to expect results from the council in the short run. \"This is because such things take several years.\"
Discussing his expectations of student organizations and environments, Ayatollah Khamenei said: \"University is a dynamic movement that is full of energy and if this energy is released and managed, it will completely guide the country.\"
He added that universities can fulfill all the expectations by relying on the vibrancy and confidence that have been intensified by the Revolution.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that idealism is an essential expectation and added: \"Idealism in science means going after scientific peaks and this goal makes careful studying a necessity.\"
Addressing Iranian students throughout the country, His Eminence reiterated: \"Today studying, acquiring knowledge, research and hard work is a kind of jihad for students.\"
Afterwards, Ayatollah Khamenei explained spiritual idealism and stressed the need for commitment to religious values.
He criticized the view that universities are anti-religion environments and added: \"This reactionary view, which is completely wrong, dates back to the time when universities were first established in Iran several decades before the Revolution and efforts were made by certain people to build a self-loathing westernized intellectual generation.\"
Ayatollah Khamenei rejected this view and reiterated: \"University is an environment for religion, ethics, purity and spirituality. And the expectation is that universities should be such that anybody who enters university becomes more committed to religion and ethics.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution discussed the requirements of idealism and added: \"Idealism must not be confused with belligerence. It is possible to be firmly committed to values and principles without belligerence.\"
His Eminence said that it is necessary to control one\'s emotions and to refuse to make decisions when one is emotionally provoked. He added: \"Student organizations have had an active and praiseworthy presence in different social and political issues over the past 2, 3 years, but over the same period of time, there have been cases in which student organizations have adopted certain incorrect decisions and measures on the basis of pure and noble feelings of students. This is because decisions should be based on careful and accurate research, not on emotions.\"
In order to delineate the line between idealism and emotions, the Supreme Leader of the Islamic Revolution referred to the opposition of the Islamic Republic to the autocratic regimes in the region and reiterated: \"In spite of the clear positions of the Islamic Republic, it is wrong to oppose traditional and conventional diplomatic work in this regard.\"
His Eminence reiterated: \"There is no contradiction between idealism of student organizations and observing our national interests, observing the law and exercising managerial judgment. That is to say, it is possible to be young, emotional and idealistic and at the same time act in a way that this does not conflict with the managerial issues and our national interests.\"
Ayatollah Khamenei added: \"It is necessary to pay attention to the depth and meaning of idealism and to adopt decisions and measures while avoiding extremism and taking the realities and interests into consideration. It is also necessary to remember that idealism means being committed to principles, values and ideals and influencing the opposing side while refusing to be influenced by it.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is necessary for student organizations to be involved in different issues of the country and added: \"Intellectual presence is possible through cultural activities in student media and presenting one\'s positions and views. And physical presence of student organizations is possible through adopting correct decisions to arrange student gatherings.\"
His Eminence said that as far as student gatherings are concerned, decisions that are based on emotions will have negative consequences. In order to avoid these consequences, he suggested: \"It is necessary for student organizations to establish a center for adopting decisions and taking action. In different issues, through consultation and wisdom, they should reach a unified conclusion about a particular decision or action and all students should be committed to the decision that is made. In this way, decisions and actions that are based on emotions will not be blamed on student organizations.\"
Ayatollah Khamenei urged all Iranian students throughout the country to avoid speaking about what they do not know. \"I ask you to be seriously committed to avoidance of backbiting, slandering and saying what you are not sure about, just as you are seriously committed to praying and fasting.\"
Ayatollah Khamenei also urged students to pay attention to the enemy\'s goals in the soft war and said: \"I believe that you are the commanders of the soft war. For this reason, I stress that you should pay careful attention to the main goal that the enemy is pursuing through the soft war, namely convincing our people and government officials to revise their calculations.\"
His Eminence said that the enemy has focused its attacks on the hearts, minds, thoughts and willpower of the people. He reiterated: \"They are openly saying that they should convince us to revise our calculations and to convince us that continuing our resistance against the arrogant powers and bullying powers of the world will not benefit us. The commanders of the soft war should understand and counter the enemy\'s goals in the correct way.\"
Ayatollah Khamenei said that in order to counter the enemy\'s goal in the soft war, it is necessary to increase one\'s knowledge. Addressing Iranian students, he said: \"Do not limit your understanding and knowledge to what is written on websites, weblogs and other such places, rather try to improve your knowledge on a daily basis by relying on the Holy Quran and the writings of Shahid Motahhari and our great religious scholars and knowledgeable young seminarians.\"
Ayatollah Khamenei described optimism as essential and stated that increasing one\'s religious knowledge, developing insight into the realities of the country, fair criticism and constant and balanced supervision are among the fundamental responsibilities of student organizations. \"These things should be accompanied by lenience and rationality and they should also be free from extremism.\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that considering the realities of the country fills one\'s heart with hope.
4:27
|
[Short Clip] Rehber Syed Ali Khamenei اہداف مجاہدت اہلبیت ؑ اور ہماری ذمہ داری Sub Urdu
[Short Clip] Rehber Syed Ali Khamenei - اہداف مجاہدت اہلبیت ؑ اور ہماری ذمہ داری Farsi sub Urdu
مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام کی...
[Short Clip] Rehber Syed Ali Khamenei - اہداف مجاہدت اہلبیت ؑ اور ہماری ذمہ داری Farsi sub Urdu
مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام کی جنرل اسمبلی اور اسلامی ممالک کے ریڈیو و ٹیلی ویژن کے اراکین سے رہبر انقلاب کا خطاب
17-08-2015
More...
Description:
[Short Clip] Rehber Syed Ali Khamenei - اہداف مجاہدت اہلبیت ؑ اور ہماری ذمہ داری Farsi sub Urdu
مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام کی جنرل اسمبلی اور اسلامی ممالک کے ریڈیو و ٹیلی ویژن کے اراکین سے رہبر انقلاب کا خطاب
17-08-2015
7:50
|
[URDU] HAJJ Message 2014 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام...
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
More...
Description:
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
27:25
|
ديدار صميمئ دانشجويان با رهبر معظم انقلاب - August 7, 2012 - Farsi
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين...
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
More...
Description:
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح...
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
More...
Description:
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
28:27
|
[Imam Khamenei | 28Jun21] To Judiciary Officials | امام خامنہ ای] عدلیہ عہدیداروں سے خطاب] - Urdu
[28 June 2021][Full Urdu Dubbed speech] Address to High officials of Judiciary (including President-elect Raesi) | حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
کا...
[28 June 2021][Full Urdu Dubbed speech] Address to High officials of Judiciary (including President-elect Raesi) | حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
کا ہفتہ عدلیہ کی مناسبت سے عدلیہ کے سربراہ اور اعلی عہدیداروں سے اہم خطاب
Important points | اہم موضوعات
- The great favour of Shaheed Beheshti on the country and the nation | ملک و قوم پر شہید بہشتی کا بڑا احسان
- The arrogance of the West, support for the Hypocrites and the claim of human rights | مغرب والوں کی ڈھٹائی، منافقین کی حماہت کرنا اور انسانی حقوق کا دعوی بھی
- Jihadi motivation in Judiciary, the cause of public confidence in institutions of the Islamic Republic | عدلیہ میں جہادی مہم، اسلامی جمہوریہ کے اداروں پر عوامی اعتماد کا سبب
- The process of change in the judiciary needs to continue | عدلیہ میں تغیر کا عمل جاری رہنے کی ضرورت
- Documentary plan for change in the judiciary; Solid and enforceable | عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز؛ ٹھوس اور نافذ العمل ہے
- Revival of public rights, important and legal responsibility of the judiciary | حقوق عامہ کا احیاء، عدلیہ کی اہم اور قانونی ذمہ داری
- Need for liaison/interaction of the judiciary with the people and activists of the society | عوام اور معاشرے کے سرگرم گروہوں سے عدلیہ کے رابطے کی ضرورت
- Election Achievement; a slap in the face of boycotters and opponents | انتخابات کا کارنامہ بائيکاٹ کرنے والوں اور مخالفین کے منہ پر طمانچہ
- Incorrect analysis of rejected votes | مسترد ووٹوں کے بارے میں غلط تجزیہ
- The embarrassing situation of those who objected to Iran\'s elections | ایران کے انتخابات پر اعتراضات کرنے والوں کی شرمناک حالت
- Election Candidates\' Opinion: There is a solution to the country\'s economic problems | انتخابات کے امیدواروں کی رائے: ملک کے اقتصادی مسائل کا حل موجود ہے
البلاغ : ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
#ImamKhameneiUrdu #IranElections2021 #JudiciaryWeek2021
More...
Description:
[28 June 2021][Full Urdu Dubbed speech] Address to High officials of Judiciary (including President-elect Raesi) | حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
کا ہفتہ عدلیہ کی مناسبت سے عدلیہ کے سربراہ اور اعلی عہدیداروں سے اہم خطاب
Important points | اہم موضوعات
- The great favour of Shaheed Beheshti on the country and the nation | ملک و قوم پر شہید بہشتی کا بڑا احسان
- The arrogance of the West, support for the Hypocrites and the claim of human rights | مغرب والوں کی ڈھٹائی، منافقین کی حماہت کرنا اور انسانی حقوق کا دعوی بھی
- Jihadi motivation in Judiciary, the cause of public confidence in institutions of the Islamic Republic | عدلیہ میں جہادی مہم، اسلامی جمہوریہ کے اداروں پر عوامی اعتماد کا سبب
- The process of change in the judiciary needs to continue | عدلیہ میں تغیر کا عمل جاری رہنے کی ضرورت
- Documentary plan for change in the judiciary; Solid and enforceable | عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز؛ ٹھوس اور نافذ العمل ہے
- Revival of public rights, important and legal responsibility of the judiciary | حقوق عامہ کا احیاء، عدلیہ کی اہم اور قانونی ذمہ داری
- Need for liaison/interaction of the judiciary with the people and activists of the society | عوام اور معاشرے کے سرگرم گروہوں سے عدلیہ کے رابطے کی ضرورت
- Election Achievement; a slap in the face of boycotters and opponents | انتخابات کا کارنامہ بائيکاٹ کرنے والوں اور مخالفین کے منہ پر طمانچہ
- Incorrect analysis of rejected votes | مسترد ووٹوں کے بارے میں غلط تجزیہ
- The embarrassing situation of those who objected to Iran\'s elections | ایران کے انتخابات پر اعتراضات کرنے والوں کی شرمناک حالت
- Election Candidates\' Opinion: There is a solution to the country\'s economic problems | انتخابات کے امیدواروں کی رائے: ملک کے اقتصادی مسائل کا حل موجود ہے
البلاغ : ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
#ImamKhameneiUrdu #IranElections2021 #JudiciaryWeek2021
9:52
|
ولایتِ فقیہ کیا ہے؟ | امام خمینیؒ، رہبر معظم | Farsi Sub Urdu
اسلام فقط چند رسومات اور عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ خداوندِ متعال نے...
اسلام فقط چند رسومات اور عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ خداوندِ متعال نے بنی نوع انسان کی ابدی سعادت کے لیے جامع ترین اجتماعی نظام دیا ایک ایسا نظام جس میں انسان اپنی مادّی ضروریات کے ساتھ ساتھ روحانی ضروریات اور کمال کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر سکے اُس نظام کا نام دینِ مبین اسلام ہے اور اِس نظام کی محافظت اور ترقی و پیشرفت کے لیے امامت و ولایت کا نظام عطا کیا جس میں امامِ معصوم علیہ السلام یا اُن کی غیر موجودگی میں ایک ایسا شخص جو امامِ معصوم کی بتائی ہوئی شرائط پر پورا اترتا ہو یعنی ولی فقیہ کہ جس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت کی رہنمائی کرے اور طاغوت کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے۔
اِس مختصر ویڈیو میں ولایت فقیہ کے حوالے سے امام خمینیؒ، ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ مصباح یزدی، آیت اللہ محسن قرائتی، استاد علی رضا پناہیان اور استاد رحیم پور ازغدی کے مفید بیانات کو اردو سبٹائیٹل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
#ویڈیو #ولایت_فقیہ #ڈکٹیٹر_شپ #آمریت #اسلام #فقیہ #حکومت_اسلامی #ولایت_مطلقہ #آئیڈیالوجی #آئیڈیالوجسٹ #مرجع_تقلید #مادام_الصلاحیت #مادام_الزمان
More...
Description:
اسلام فقط چند رسومات اور عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ خداوندِ متعال نے بنی نوع انسان کی ابدی سعادت کے لیے جامع ترین اجتماعی نظام دیا ایک ایسا نظام جس میں انسان اپنی مادّی ضروریات کے ساتھ ساتھ روحانی ضروریات اور کمال کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر سکے اُس نظام کا نام دینِ مبین اسلام ہے اور اِس نظام کی محافظت اور ترقی و پیشرفت کے لیے امامت و ولایت کا نظام عطا کیا جس میں امامِ معصوم علیہ السلام یا اُن کی غیر موجودگی میں ایک ایسا شخص جو امامِ معصوم کی بتائی ہوئی شرائط پر پورا اترتا ہو یعنی ولی فقیہ کہ جس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت کی رہنمائی کرے اور طاغوت کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے۔
اِس مختصر ویڈیو میں ولایت فقیہ کے حوالے سے امام خمینیؒ، ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ مصباح یزدی، آیت اللہ محسن قرائتی، استاد علی رضا پناہیان اور استاد رحیم پور ازغدی کے مفید بیانات کو اردو سبٹائیٹل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
#ویڈیو #ولایت_فقیہ #ڈکٹیٹر_شپ #آمریت #اسلام #فقیہ #حکومت_اسلامی #ولایت_مطلقہ #آئیڈیالوجی #آئیڈیالوجسٹ #مرجع_تقلید #مادام_الصلاحیت #مادام_الزمان
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
wilayat
faqih,
imam
khomeini,
sayyid
ali
khamenei,
olama,
islam,
rusumaat,
ibadaat,
zabtae
hayaat,
sa\'adat,
ijtemai
nizam,
maddi,
roohani,
kamaal,
muhafezat,
taraqqi,
wilayat,
imam
masoom,
sharaet,
wali
faqih,
ummat,
rehnumai,
taghoot,
shaheed
murtaza
mutahhari,
ayatullah
misbah
yazdi,
ayatullah
mohsin
qarati,
ustad
alireza
panahiyan,
ustad
rahimpour
azghadi,
ideology,
ideologist,
dictatorship,
marje
taqleed,
wilayat
mutlaqa,
2:15
|
شہید حججیؒ مثلِ حجّتِ خدا | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مدافع حرم...
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مدافع حرم شہید حججی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید حججی اپنے فرزند اور زوجہ محترمہ کے نام کیا وصیت کرتے ہیں؟ عصرِ حاضر کے ناقابلِ یقین حقائق کونسے ہیں؟ آج ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ترین ذمہ داری کیا ہے؟
#ویڈیو #انقلابی #اسلامی #رشد_و_نمو #قیمتی #شہید_حججی #ناقابل_یقین_حقائق
#جہاد #اقدار #عشق #دل #حضرت_زینب_سلام_اللہ_علیہا #محبت #جوش #ولولہ
More...
Description:
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مدافع حرم شہید حججی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید حججی اپنے فرزند اور زوجہ محترمہ کے نام کیا وصیت کرتے ہیں؟ عصرِ حاضر کے ناقابلِ یقین حقائق کونسے ہیں؟ آج ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ترین ذمہ داری کیا ہے؟
#ویڈیو #انقلابی #اسلامی #رشد_و_نمو #قیمتی #شہید_حججی #ناقابل_یقین_حقائق
#جہاد #اقدار #عشق #دل #حضرت_زینب_سلام_اللہ_علیہا #محبت #جوش #ولولہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
shaheed
mohsin
hojaji,
wali
amre
muslemeen,
sayyid
ali
khamenei,
jawan,
daesh,
isis,
america,
israel,
syria,
iran,
iraq,
afghanistan,
pakistan,
wasiyat,
hujjat
e
khuda,
islam,
zimmedari,
haqaeq,
jehad,
ishq,
hazrat
zainab,
mudafe
haram,
3:10
|
شہداء کو متعارف کروانا ہم سب کی ذمہ داری | Farsi sub Urdu
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں امریکی گماشتوں کے توسط سےدہشتگردی کا نشانہ بننے والےشہدائے ہفتم تیر...
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں امریکی گماشتوں کے توسط سےدہشتگردی کا نشانہ بننے والےشہدائے ہفتم تیر (28جون1981ء) کی برسی کے موقع پرولی امرمسلمین سید علی خامنہ ای کےخطاب سے اقتباس
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شہید #شہادت
More...
Description:
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں امریکی گماشتوں کے توسط سےدہشتگردی کا نشانہ بننے والےشہدائے ہفتم تیر (28جون1981ء) کی برسی کے موقع پرولی امرمسلمین سید علی خامنہ ای کےخطاب سے اقتباس
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شہید #شہادت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
Wilayat
Media,
Farsi,
Subtitle,
Urdu,
Pakistan,
Inqilaab,
Leader,
Surpeme,
Leader
of
Muslim,
Ummah,
Sayyid,
Ali,
Khamenei,
Rahbar,
Martyrdom,
Martyrs,
Personalities,
Shaheed,
6:26
|
نام نہاد عَالَمی ادارے اور مسلمان | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای عَالَمی اداروں کا کردار اور مسلمانوں پر مظالم میں اِن کی مجرمانہ خاموشی کے...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای عَالَمی اداروں کا کردار اور مسلمانوں پر مظالم میں اِن کی مجرمانہ خاموشی کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ صیہونیت سے جاری مبارزے میں ہمیں کن چیزوں سے استفادہ کرنا چاہیے؟ اِس مقابلے اور مبارزے میں کن طاقتوں سے دور رہنا چاہیے؟ کیا مغربی طاقتوں سے وابستہ عِالمی ادارے اسلامی طاقت کے مخالف ہیں؟ کیا اِن نام نہاد عَالَمی اداروں کو انسانوں اور اقوام کے حقوق کا خیال ہے؟ اسلامی امت کو پہنچنے والے بیشتر نقصانات کی ذمہ دار کونسی طاقتیں ہیں؟ مسلم ممالک میں حالیہ جاری قتل و عام، جنگ افروزی اور مصنوعی قحط کے سلسلے میں کیا کوئی عَالَمی ادارہ جوابدہ ہے؟ کورونا سے مرنے والوں کی تو گنتی کی جارہی ہے کیا یورپ اور امریکہ کی بھڑکائی ہوئی جنگوں میں مرنے والے لاکھوں افراد کی آج کوئی بات کرتا ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ اپنے فرائض پر عمل کر رہی ہے؟ موجودہ صورتحال میں مسلم معاشرے کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
#ویڈیو #نام_نہاد_عالمی_ادارے #مبارزے #حلال_شرعی_وسائل #موثر_اسلامی_طاقت #اقوام_متحدہ #کرونا #اموات #فرائض #فلسطین #یمن #عراق #افغانستان #غیور #مسلم_معاشرے
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای عَالَمی اداروں کا کردار اور مسلمانوں پر مظالم میں اِن کی مجرمانہ خاموشی کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ صیہونیت سے جاری مبارزے میں ہمیں کن چیزوں سے استفادہ کرنا چاہیے؟ اِس مقابلے اور مبارزے میں کن طاقتوں سے دور رہنا چاہیے؟ کیا مغربی طاقتوں سے وابستہ عِالمی ادارے اسلامی طاقت کے مخالف ہیں؟ کیا اِن نام نہاد عَالَمی اداروں کو انسانوں اور اقوام کے حقوق کا خیال ہے؟ اسلامی امت کو پہنچنے والے بیشتر نقصانات کی ذمہ دار کونسی طاقتیں ہیں؟ مسلم ممالک میں حالیہ جاری قتل و عام، جنگ افروزی اور مصنوعی قحط کے سلسلے میں کیا کوئی عَالَمی ادارہ جوابدہ ہے؟ کورونا سے مرنے والوں کی تو گنتی کی جارہی ہے کیا یورپ اور امریکہ کی بھڑکائی ہوئی جنگوں میں مرنے والے لاکھوں افراد کی آج کوئی بات کرتا ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ اپنے فرائض پر عمل کر رہی ہے؟ موجودہ صورتحال میں مسلم معاشرے کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
#ویڈیو #نام_نہاد_عالمی_ادارے #مبارزے #حلال_شرعی_وسائل #موثر_اسلامی_طاقت #اقوام_متحدہ #کرونا #اموات #فرائض #فلسطین #یمن #عراق #افغانستان #غیور #مسلم_معاشرے
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
musalman,
ealami,
imam
seyyed
ali
khamenehi,
mazalem,
mujremana,
Zionist,
mubareze,
maghrebi
taqaatu,
insan,
aqvam,
huquq,
islami
ommat,
nuqsanat,
muslem
mamalek,
Corona,
yurup,
Amarika,
faraez,
muslem
mueashere,
halal,
shaei,
amvat,
palestine,
yaman,
eraq,
afghanestan,
1:31
|
امام زمانہؑ کا انتظار اور ہماری ذمہ داری | امام خمینی و امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
سوائے چند دن ظهور کی سب علامتیں پوری هو چکی هیں
بصیرت و معرفت تمهاری، عدوئے حق کو کھٹک رهی هے
امام خمینی...
سوائے چند دن ظهور کی سب علامتیں پوری هو چکی هیں
بصیرت و معرفت تمهاری، عدوئے حق کو کھٹک رهی هے
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ \"امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا انتظار\" کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انتظارِ فَرَج کا کیا مطلب ہے؟ کیا امامِ زمانہ علیہ السلام کے انتظار کا مطلب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہے؟ غیبتِ امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ امام زمانہ علیہ السلام کن چیزوں سے جہاد اور مبارزے کے لیے تشریف لائیں گے؟ امام زمانہ علیہ السلام کے ایک حقیقی سپاہی کو کس چیز کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انتظار_امام_زمانہ #فرج #تسبیح #عجل #گوشہ_نشینی #اعتقاد #خورشید_دنیا #اجالا #چراغ #تعجیل #زمینہ #مبارزہ
More...
Description:
سوائے چند دن ظهور کی سب علامتیں پوری هو چکی هیں
بصیرت و معرفت تمهاری، عدوئے حق کو کھٹک رهی هے
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ \"امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا انتظار\" کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انتظارِ فَرَج کا کیا مطلب ہے؟ کیا امامِ زمانہ علیہ السلام کے انتظار کا مطلب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہے؟ غیبتِ امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ امام زمانہ علیہ السلام کن چیزوں سے جہاد اور مبارزے کے لیے تشریف لائیں گے؟ امام زمانہ علیہ السلام کے ایک حقیقی سپاہی کو کس چیز کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انتظار_امام_زمانہ #فرج #تسبیح #عجل #گوشہ_نشینی #اعتقاد #خورشید_دنیا #اجالا #چراغ #تعجیل #زمینہ #مبارزہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam
zamana,
intezar,
zimmedari,
imam
khomeini,
imam
sayyid
ali
khamenei,
zahoor,
baseerat,
marefat,
haq,
imam
mahdi,
intezar
ka
matlab,
ghaibat,
jehad,
mubareza,
sepahi,
tayyari,
intezare
faraj,
eteqaad,
shia,
sunni,
zameena,
tajeel,
cheragh,
ujala,
gosha
nashini,
5:26
|
امام سجاد علیہ اسلام کی زندگی پر ایک نظر | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ امام سجاد علیہ السلام کے توسط سے انجام پانے والی تین اہم الہی ذمہ...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ امام سجاد علیہ السلام کے توسط سے انجام پانے والی تین اہم الہی ذمہ داریوں کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام کی امامت کتنے عرصے پر محیط تھی؟ امام سجاد علیہ السلام کی امامت کا زمانہ کس چیز کے امتزاج سے عبارت ہے؟ امام سجاد علیہ السلام نے کون سے تین اہم کردار ادا کئے؟ کونسے دو امور کی ذمہ داری امام سجاد اور بقیہ آئمہ علیہم السلام کے درمیان مشترک تھی؟ ظالم و جابر حکمران اسلام میں تحریف کیوں کیا کرتے تھے؟ معاشرے کے کس طبقے کے افراد اسلام میں تحریف کا سبب بنے؟ کس طرح کے افراد ظالم حکمرانوں کے آلہ کار بنے؟
اِن تمام بصیرت افزا اہم سوالات کو حاصل کرنے کے لیے اِس مختصر ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #امام_سجاد_علیہ_السلام #امامت #انقلابی_باریکیاں #امتزاج #بنو_امیہ #بنو_عباس #کردار #فریضہ #ظالم_حکمران
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ امام سجاد علیہ السلام کے توسط سے انجام پانے والی تین اہم الہی ذمہ داریوں کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام کی امامت کتنے عرصے پر محیط تھی؟ امام سجاد علیہ السلام کی امامت کا زمانہ کس چیز کے امتزاج سے عبارت ہے؟ امام سجاد علیہ السلام نے کون سے تین اہم کردار ادا کئے؟ کونسے دو امور کی ذمہ داری امام سجاد اور بقیہ آئمہ علیہم السلام کے درمیان مشترک تھی؟ ظالم و جابر حکمران اسلام میں تحریف کیوں کیا کرتے تھے؟ معاشرے کے کس طبقے کے افراد اسلام میں تحریف کا سبب بنے؟ کس طرح کے افراد ظالم حکمرانوں کے آلہ کار بنے؟
اِن تمام بصیرت افزا اہم سوالات کو حاصل کرنے کے لیے اِس مختصر ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #امام_سجاد_علیہ_السلام #امامت #انقلابی_باریکیاں #امتزاج #بنو_امیہ #بنو_عباس #کردار #فریضہ #ظالم_حکمران
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Imam
Sajjad,
Sayyid
Ali
Khamenei,
ilahi
zimmedariya,
imamat,
ehem
kirdar,
aimma,
mushtarak,
islam,
zalim,
mazloom,
zulm,
hukmakaran,
tehreef,
muashre,
afraad,
aalae
kaar,
imtezaaj,
inqelabi
baarikiya,
banu
abbas,
banu
umayya,
fareeza,
Imam Khomeini (r.a.) - Moharram Ashura azadari عزاءداری 1/3 Persian
'Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well...
'Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well as IRGC Pasdaran Basijis and Army heroes headed for the fronts of the Sacred Defence (Iran Iraq war).
From Imam Hossein's (a.s.) martyrdom at the battle of Karbala, to the 15th Khordad movement and then the Islamic Revolution, the Muharram mourning ceremonies and the political tears (geryeh ye siasi) they provoke, strengthen the Muslims faith in Allah (s.w.t.) and their determination to oppose the injustices of their time. This ensures victory against imperialism, global arrogance and oppression.
More...
Description:
'Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well as IRGC Pasdaran Basijis and Army heroes headed for the fronts of the Sacred Defence (Iran Iraq war).
From Imam Hossein's (a.s.) martyrdom at the battle of Karbala, to the 15th Khordad movement and then the Islamic Revolution, the Muharram mourning ceremonies and the political tears (geryeh ye siasi) they provoke, strengthen the Muslims faith in Allah (s.w.t.) and their determination to oppose the injustices of their time. This ensures victory against imperialism, global arrogance and oppression.
Imam Khomeini (r.a.) - Moharram Ashura azadari عزاءداری 3/3 Persian
Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well...
Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well as IRGC Pasdaran Basijis and Army heroes headed for the fronts of the Sacred Defence (Iran Iraq war).
From Imam Hossein's (a.s.) martyrdom at the battle of Karbala, to the 15th Khordad movement and then the Islamic Revolution, the Muharram mourning ceremonies and the political tears (geryeh ye siasi) they provoke, strengthen the Muslims faith in Allah (s.w.t.) and their determination to oppose the injustices of their time. This ensures victory against imperialism, global arrogance and oppression.
More...
Description:
Ashura Imam Hussein (a.s.) Karbala azadari (sinehzani sinezani, noha nohe, latmiya, matam) in Jamaran (Tehran),
In the presence of Imam Khomeini (r.a.), as well as IRGC Pasdaran Basijis and Army heroes headed for the fronts of the Sacred Defence (Iran Iraq war).
From Imam Hossein's (a.s.) martyrdom at the battle of Karbala, to the 15th Khordad movement and then the Islamic Revolution, the Muharram mourning ceremonies and the political tears (geryeh ye siasi) they provoke, strengthen the Muslims faith in Allah (s.w.t.) and their determination to oppose the injustices of their time. This ensures victory against imperialism, global arrogance and oppression.
29:13
|
1:36
|
شیخ نمر کو بھولیں مت | Farsi Sub Urdu
شیخ نمر کو بھولیں مت
وہ جو انسانی حقوق کے (دفاع کے) دعویدار ہیں، اِن کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور بول کیوں...
شیخ نمر کو بھولیں مت
وہ جو انسانی حقوق کے (دفاع کے) دعویدار ہیں، اِن کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور بول کیوں نہیں رہے؟
یہ جو آزادی اور جمہوریت کے دعویدار ہیں، سعودی حکومت کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ سعودی حکومت یمن پر ظلم و جبر کی تاریخ رقم کر رھی ھے۔ دنیا کو اِس مسئلے پر ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
ولی امر مسلمین کا مؤمن اور مظلوم عالِم، شیخ نمر باقر النمر کی شہادت پر اظہار خیال
3 جنوری 2016
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شیخ_نمر #نمر #مظلوم #خاموشی #شہادت
More...
Description:
شیخ نمر کو بھولیں مت
وہ جو انسانی حقوق کے (دفاع کے) دعویدار ہیں، اِن کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور بول کیوں نہیں رہے؟
یہ جو آزادی اور جمہوریت کے دعویدار ہیں، سعودی حکومت کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ سعودی حکومت یمن پر ظلم و جبر کی تاریخ رقم کر رھی ھے۔ دنیا کو اِس مسئلے پر ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
ولی امر مسلمین کا مؤمن اور مظلوم عالِم، شیخ نمر باقر النمر کی شہادت پر اظہار خیال
3 جنوری 2016
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #شیخ_نمر #نمر #مظلوم #خاموشی #شہادت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
shaik,
nimr,
insaani,
haqooq,
diafa,
azadi,
jamhooriyat,
saudi,
hukumat,
himayat,
yemen,
zulm,
jabr,
dunya,
zimmaedari,
wali
amr,
muslimeen,
momeen,
mazloom,
aalim,
shahadat,
2:17
|
ماڈرن جاہلیت اور ہماری ذمہ داریاں | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں کیا فرماتے...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مغربی آلودہ اور انسانیت کی تباہی کا سبب بننے والی تہذیب کے مقابلے میں ہمیں سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ اس غلیظ ماڈرن جاہلیت کا سد باب کرنے کے لیے ہمیں اپنی کن چیزوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے؟
اسلامی نظام کی تقویت کے حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
ہمیں جدید جاہلیت سے مقابلے کے لیے کس طرح کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے؟
ان تمام اہم ترین سوالات کے جوابات اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #ماڈرن_جاہلیت_اور_ہماری_ذمہ_داریاں #بعثت #دروس #ایمان_کی_تقویت #دینی_عقیدہ #مومن #استقامت #اسلامی_نظام #حکیمانہ_پروگرام #عاقلانہ_منصوبے
More...
Description:
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مغربی آلودہ اور انسانیت کی تباہی کا سبب بننے والی تہذیب کے مقابلے میں ہمیں سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ اس غلیظ ماڈرن جاہلیت کا سد باب کرنے کے لیے ہمیں اپنی کن چیزوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے؟
اسلامی نظام کی تقویت کے حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
ہمیں جدید جاہلیت سے مقابلے کے لیے کس طرح کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے؟
ان تمام اہم ترین سوالات کے جوابات اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #ماڈرن_جاہلیت_اور_ہماری_ذمہ_داریاں #بعثت #دروس #ایمان_کی_تقویت #دینی_عقیدہ #مومن #استقامت #اسلامی_نظام #حکیمانہ_پروگرام #عاقلانہ_منصوبے
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
modern,
jahiliat,
video,
eymaan,
islam,
imam,
imam
khamenei,k
hakimane,
Aaqelane,
islami
nezaam,
hakimane
program,
imam
seyed
ali
khamenei,
4:32
|
عدل و انصاف، امام زمانہؑ کی عظیم ذمہ داری | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
ہے عشق کے هونٹوں په سدا نام تمهارا
هم سب هیں تیرے طالب دیدار کهاں هو
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ...
ہے عشق کے هونٹوں په سدا نام تمهارا
هم سب هیں تیرے طالب دیدار کهاں هو
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عدل و انصاف کے حوالے سے امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی عظیم ذمہ داری کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آج دنیا کے اربوں انسانوں کی کیا حالت ہے؟ عصرِ حاضر میں انسان کس چیز سے محروم ہے؟ کونسی دو چیزیں انسان کے لیے عظیم نعمت ہیں؟ کیا عقل اور تجربے کے ذریعے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے عدالت کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے؟ آج بے عدالتی، جنگ، تجاوز اور کمزور اقوام پر تسلط کے لیے کس چیز کا استعمال کیا جا رہا ہے؟ عصرِ حاضر کی مشکلات کے حل کے لیے کس طاقت کی ضرورت ہے؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی ایک عظیم ذمہ داری کیا ہے؟ امام زمانہ علیہ السلام زندگی کے کن شعبوں میں عدالت قائم فرمائیں گے؟ تمام الہی ادیان کو کس چیز کا وعدہ دیا گیا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #مشکلات #سکون #پریشانی #اضطراب #ترقی #نعمت #عقل #تجربہ #گرہیں #عدالت #سائنس #ٹیکنالوجی #الہی_طاقت #بقیۃ_اللہ #آگاہانہ #غیر_آگاہانہ #وعدہ
More...
Description:
ہے عشق کے هونٹوں په سدا نام تمهارا
هم سب هیں تیرے طالب دیدار کهاں هو
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عدل و انصاف کے حوالے سے امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی عظیم ذمہ داری کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آج دنیا کے اربوں انسانوں کی کیا حالت ہے؟ عصرِ حاضر میں انسان کس چیز سے محروم ہے؟ کونسی دو چیزیں انسان کے لیے عظیم نعمت ہیں؟ کیا عقل اور تجربے کے ذریعے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے عدالت کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے؟ آج بے عدالتی، جنگ، تجاوز اور کمزور اقوام پر تسلط کے لیے کس چیز کا استعمال کیا جا رہا ہے؟ عصرِ حاضر کی مشکلات کے حل کے لیے کس طاقت کی ضرورت ہے؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی ایک عظیم ذمہ داری کیا ہے؟ امام زمانہ علیہ السلام زندگی کے کن شعبوں میں عدالت قائم فرمائیں گے؟ تمام الہی ادیان کو کس چیز کا وعدہ دیا گیا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #مشکلات #سکون #پریشانی #اضطراب #ترقی #نعمت #عقل #تجربہ #گرہیں #عدالت #سائنس #ٹیکنالوجی #الہی_طاقت #بقیۃ_اللہ #آگاہانہ #غیر_آگاہانہ #وعدہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
adl,
insaaf,
imame
zamana,
azeem,
zimmedari,
sayyid
ali
khamenei,
ishq,
insan,
mehroom,
halat,
nemat,
aql,
tajruba,
azeem,
masael,
science,
technology,
be
adalati,
jang,
tajawuz,
kamzor
aqwam,
tasallut,
istemaal,
mushkilat,
taaqat,
adalat,
zindagi,
adyaan,
waada,
ilahi
adyan,
baqyatullah,
izterab,
pareshani,
sukoon,
1:13
|
صیہونیت کے وائرس کی نابودی | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟کیا مسئلہ فلسطین فقط ایک...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟کیا مسئلہ فلسطین فقط ایک قوم کا مسئلہ ہے؟ہمیں مسئلہ فلسطین پر کیوں احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ کیا صیہونیت کا یہ منحوس وائرس ختم نہ ہونے والا وائرس ہے؟صیہونیت کا یہ مہلک وائرس کن کے توسط سے نابود ہوگا؟ انشاء اللہ جلد مسلمانوں کو کہاں پر نماز پڑھنے کی توفیق نصیب ہوگی؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #صیہونیت #وائرس #نابودی #بین_الاقوامی_ڈکٹیٹر_شپ #طاقت #حکمرانی #دیر_پا_وائرس #ہمت #ایمان #غیرت
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟کیا مسئلہ فلسطین فقط ایک قوم کا مسئلہ ہے؟ہمیں مسئلہ فلسطین پر کیوں احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ کیا صیہونیت کا یہ منحوس وائرس ختم نہ ہونے والا وائرس ہے؟صیہونیت کا یہ مہلک وائرس کن کے توسط سے نابود ہوگا؟ انشاء اللہ جلد مسلمانوں کو کہاں پر نماز پڑھنے کی توفیق نصیب ہوگی؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #صیہونیت #وائرس #نابودی #بین_الاقوامی_ڈکٹیٹر_شپ #طاقت #حکمرانی #دیر_پا_وائرس #ہمت #ایمان #غیرت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Palestinian,
Imam
Sayyid
Ali
Khamenei,
Big
Problem
Of
The
World,
Problem,
wali
e
aamr,
muqawimat,
inqlab
e
islami,
inqlab,
aham,
dushman
e
islam,
israeel,
virus,
25:26
|
[Imam Khamenei | 16Jun21] Presidential Election Speech 2021 |تیرہویں صدارتی انتخاب تقریر - Urdu
[16 June 2021][Imam Khamenei] 13th Presidential Election Speech 2021 |امام خامنہ ای] تیرہویں صدارتی انتخاب تقریر]
حضرت آیت اللہ العظمی سید...
[16 June 2021][Imam Khamenei] 13th Presidential Election Speech 2021 |امام خامنہ ای] تیرہویں صدارتی انتخاب تقریر]
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
نے 16 جون 2021 کوجمہوری اسلامی ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات کے موقع پر عوام سے براہ راست خطاب کیا۔جس کا مکمل اُردو ترجمہ ،ڈبنگ کے ساتھ پیش خدمت ہے
Important Points | اہم عناون
- Public Responsibility for Elections is to ensure their full participation | انتخابات کے سلسلے میں عوام کی ذمہ داری: انتخابات میں بھرپورعوامی شرکت
- Results of people\'s participation in the election it\'s reason for the enmity of the enemies | الیکشن میں عوام کی شرکت کے نتائج اور اس سے دشمنوں کی عداوت کی وجہ
- People\'s disillusionment from the system, the real target of enemies in connection with the Iranian elections | نظام سے عوام کی دوری، ایران کے انتخابات کے سلسلے میں دشمنوں کا اصل ہدف
- Participating in elections is an example of good deeds | انتخابات میں حصہ لینا، عمل صالح کا مصداق
- The power and capability of the System and the nation has a special effect due to the public presence in the nation\'s affair | نظام اور ملک کی طاقت و قوت میں اضافے پر عوامی موجودگي کا خاص اثر
- In the past, elections have been free and fair | گزشتہ گوناگوں ادوار میں انتخابات آزادانہ اور صحیح و سالم رہے
- Intense competition and rivalry between the candidates in the debates | مناظروں میں امیدواروں کے درمیان زوردار رقابت اور مقابلہ آرائی
- Complaints of the deprived sections of the society and improper decision not to participate in the elections | معاشرے کے محروم طبقات کی بجا شکایات اور انتخابات میں عدم شرکت کا نامناسب فیصلہ
- The need for youth to motivate the people to participate in elections | عوام کو انتخابات میں شرکت کی ترغیب دلانے کے سلسلے میں نوجوانوں کی سرگرمیوں کی ضرورت
- Necessary measures for the health and safety of voters | رائے دہندگان کی صحت و سلامتی کے لئے ضروری تدابیر
البلاغ : ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
#ImamKhamenei #ImamKhameneiElectionSpeech #IranElections2021
More...
Description:
[16 June 2021][Imam Khamenei] 13th Presidential Election Speech 2021 |امام خامنہ ای] تیرہویں صدارتی انتخاب تقریر]
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
نے 16 جون 2021 کوجمہوری اسلامی ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات کے موقع پر عوام سے براہ راست خطاب کیا۔جس کا مکمل اُردو ترجمہ ،ڈبنگ کے ساتھ پیش خدمت ہے
Important Points | اہم عناون
- Public Responsibility for Elections is to ensure their full participation | انتخابات کے سلسلے میں عوام کی ذمہ داری: انتخابات میں بھرپورعوامی شرکت
- Results of people\'s participation in the election it\'s reason for the enmity of the enemies | الیکشن میں عوام کی شرکت کے نتائج اور اس سے دشمنوں کی عداوت کی وجہ
- People\'s disillusionment from the system, the real target of enemies in connection with the Iranian elections | نظام سے عوام کی دوری، ایران کے انتخابات کے سلسلے میں دشمنوں کا اصل ہدف
- Participating in elections is an example of good deeds | انتخابات میں حصہ لینا، عمل صالح کا مصداق
- The power and capability of the System and the nation has a special effect due to the public presence in the nation\'s affair | نظام اور ملک کی طاقت و قوت میں اضافے پر عوامی موجودگي کا خاص اثر
- In the past, elections have been free and fair | گزشتہ گوناگوں ادوار میں انتخابات آزادانہ اور صحیح و سالم رہے
- Intense competition and rivalry between the candidates in the debates | مناظروں میں امیدواروں کے درمیان زوردار رقابت اور مقابلہ آرائی
- Complaints of the deprived sections of the society and improper decision not to participate in the elections | معاشرے کے محروم طبقات کی بجا شکایات اور انتخابات میں عدم شرکت کا نامناسب فیصلہ
- The need for youth to motivate the people to participate in elections | عوام کو انتخابات میں شرکت کی ترغیب دلانے کے سلسلے میں نوجوانوں کی سرگرمیوں کی ضرورت
- Necessary measures for the health and safety of voters | رائے دہندگان کی صحت و سلامتی کے لئے ضروری تدابیر
البلاغ : ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
#ImamKhamenei #ImamKhameneiElectionSpeech #IranElections2021
3:27
|
فلسطین کا مسئلہ تاریخ میں بےسابقہ (بےمثال) ہے | ولی امرِمسلمین سیدعلی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
کیا فلسطین کے مسئلے پر ہم ایک لحظہ بھی غفلت کرسکتے ہیں؟ ان آخری 70، 80 سالوں میں فلسطین میں وہ کیا پیش آیا جس کی...
کیا فلسطین کے مسئلے پر ہم ایک لحظہ بھی غفلت کرسکتے ہیں؟ ان آخری 70، 80 سالوں میں فلسطین میں وہ کیا پیش آیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی؟
یہ کونسا مسئلہ ہے؟ اور وہ تین سانحات کیا ہیں جو ایک قوم پر ڈھائے گئے ہیں؟ ایسے سانحات کہ جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی.
اس سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
#فلسطین #غفلت #تاریخ #مسئلہ #سانحات #قوم #مثال
More...
Description:
کیا فلسطین کے مسئلے پر ہم ایک لحظہ بھی غفلت کرسکتے ہیں؟ ان آخری 70، 80 سالوں میں فلسطین میں وہ کیا پیش آیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی؟
یہ کونسا مسئلہ ہے؟ اور وہ تین سانحات کیا ہیں جو ایک قوم پر ڈھائے گئے ہیں؟ ایسے سانحات کہ جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی.
اس سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
#فلسطین #غفلت #تاریخ #مسئلہ #سانحات #قوم #مثال
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Imam
Sayyid
Ali
Khamenei,
Palestine,
by
sabeqa,
msale,
gheflat,
tarikh,
quum,
sanehat,
1:32
|
عزاداری کی حفاظت کریں | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عزاداری اور اِس کی حفاظت کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ عزاداری امام...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عزاداری اور اِس کی حفاظت کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ عزاداری امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ کیا ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ عزاداری مین اپنی طرف سے کسی بھی غیر معقول چیز کا اضافہ کرے؟ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای قمہ زنی جیسے غیر معقول کاموں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مجلسِ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام، منبرِ امام حسینی کس چیز کے بیان کی جگہ ہے؟
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #عزاداری #عاشورہ #حقائق #گراں_قدر #خرافات #قمہ_زنی #مجلس_حسینی #منبر_حسینی
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عزاداری اور اِس کی حفاظت کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ عزاداری امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ کیا ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ عزاداری مین اپنی طرف سے کسی بھی غیر معقول چیز کا اضافہ کرے؟ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای قمہ زنی جیسے غیر معقول کاموں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مجلسِ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام، منبرِ امام حسینی کس چیز کے بیان کی جگہ ہے؟
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #عزاداری #عاشورہ #حقائق #گراں_قدر #خرافات #قمہ_زنی #مجلس_حسینی #منبر_حسینی
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
wali
amre
muslemeen,
sayyid
ali
khamenei,
imam
husain,
karbala,
ashura,
muharram
2020,
moharram
2020,
azadari,
insaniyat,
sayyadush
shohada,
khurafaat,
qame
zani,
zanjeer
ka
maatam,
majlis,
majalis,
mimber,
2:11
|
محبوب کا دیدار | Farsi Sub Urdu
رہبرِ معظم کی آمد پر آیت اللہ مصباح یزدی نے اپنے عمل اور کردار کے ذریعے دوسروں کو کیا پیغام دیا؟ اُستاد...
رہبرِ معظم کی آمد پر آیت اللہ مصباح یزدی نے اپنے عمل اور کردار کے ذریعے دوسروں کو کیا پیغام دیا؟ اُستاد مصباح رہبر معظم کے سامنے اپنی عجز و انکساری کے کیا اسباب بیان فرماتے ہیں؟ آیت اللہ مصباح کا یہ عمل فقط احساساتی تھا؟ رہبرِ معظم کی عظیم الشان شخصیت کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
#ویڈیو #رہبر_معظم #استاد_مصباح #محبوب #آمد #احساسات #عقلی #مضطرب #عجز #انکساری
More...
Description:
رہبرِ معظم کی آمد پر آیت اللہ مصباح یزدی نے اپنے عمل اور کردار کے ذریعے دوسروں کو کیا پیغام دیا؟ اُستاد مصباح رہبر معظم کے سامنے اپنی عجز و انکساری کے کیا اسباب بیان فرماتے ہیں؟ آیت اللہ مصباح کا یہ عمل فقط احساساتی تھا؟ رہبرِ معظم کی عظیم الشان شخصیت کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
#ویڈیو #رہبر_معظم #استاد_مصباح #محبوب #آمد #احساسات #عقلی #مضطرب #عجز #انکساری
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
mehboob,
didaar,
rehbar,
moazam,
ayatollah,
misabh,
yazdi,
amal,
paigham,
ustad,
ajz,
inkisari,
asbaab,
ehsasati,
azeem,
shaan,
shaksiyat,
zimaidari,
5:53
|
امام حسین علیہ السلام کا انحرافات سے مقابلہ | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد اسلامی تاریخ کے باب میں ایسا انحرافی موڑ پیش آیا جسکے نتیجے...
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد اسلامی تاریخ کے باب میں ایسا انحرافی موڑ پیش آیا جسکے نتیجے میں خلافت اسلامیہ اپنے اصلی محور سے ہٹ کر اغیار کے ہاتھوں میں چلی گئی اور رفتہ رفتہ خلافت اسلامیہ کا سلسلہ یزید جیسے فاسق اورفاجر انسان کی خلافت پر منتہی ہوا جواعلانیہ طور پر فسق وفجور کرتے ہوئے اسلام کے احکامات کی دھجیاں اڑا رہا تھا مگر کسی میں یزید کے خلاف بات کرنے کی جرأت اور ہمت نہیں پائی جاتی تھی، ایسے میں امام حسین علیہ السلام نے تحریفات سے مقابلے کیلئے عملی طور پر میدان میں قدم رکھا۔
امام حسین علیہ السلام نے تحریفات کا مقابلہ کرنے کیلئے کن لوگوں کو اپنے ہمراہ لیا؟ سماج میں انحرافات رونما ہونے کی صورت میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے اور امام عالی مقام نے اس ضمن میں کونسا شفابخش نسخہ پیش کیا ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے قیامت تک آنے والا ہر انسان اپنے زمانے کے یزید کا با آسانی مقابلہ کرسکتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کو آپ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس خوبصورت ویڈیو میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #انحراف #امام_حسین #مقابلہ #نسخہ #مسلمان #یزید #ذمہ_داری #مجالس #حقائق #جہاد
More...
Description:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد اسلامی تاریخ کے باب میں ایسا انحرافی موڑ پیش آیا جسکے نتیجے میں خلافت اسلامیہ اپنے اصلی محور سے ہٹ کر اغیار کے ہاتھوں میں چلی گئی اور رفتہ رفتہ خلافت اسلامیہ کا سلسلہ یزید جیسے فاسق اورفاجر انسان کی خلافت پر منتہی ہوا جواعلانیہ طور پر فسق وفجور کرتے ہوئے اسلام کے احکامات کی دھجیاں اڑا رہا تھا مگر کسی میں یزید کے خلاف بات کرنے کی جرأت اور ہمت نہیں پائی جاتی تھی، ایسے میں امام حسین علیہ السلام نے تحریفات سے مقابلے کیلئے عملی طور پر میدان میں قدم رکھا۔
امام حسین علیہ السلام نے تحریفات کا مقابلہ کرنے کیلئے کن لوگوں کو اپنے ہمراہ لیا؟ سماج میں انحرافات رونما ہونے کی صورت میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے اور امام عالی مقام نے اس ضمن میں کونسا شفابخش نسخہ پیش کیا ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے قیامت تک آنے والا ہر انسان اپنے زمانے کے یزید کا با آسانی مقابلہ کرسکتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کو آپ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس خوبصورت ویڈیو میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #انحراف #امام_حسین #مقابلہ #نسخہ #مسلمان #یزید #ذمہ_داری #مجالس #حقائق #جہاد
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
husayn,
enherafat,
imam
khamenei,
islam,
tarikh,
yazid,
faseq,
insan,
musalman,
jehad,
majalis,
majlis,