[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای : Islamic Awakening and Youth Conference
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
More...
Description:
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
3:09
|
2:50
|
[FARSI][1October11] بیانات ولی امر مسلمین در اجلاس حمایت از انتفاضه فلسطین
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
More...
Description:
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
Supreme Leader Meets with Pilgrims at Imam Ridha (a.s) Shrine - 21 March 2013 - Mashhad - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم...
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
More...
Description:
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
92:23
|
فیلم سینمائی ضد اسرائیلی شکارچی شنبه کامل - Saturday Hunter - Farsi
Saturday's Hunter 2012 anti Zionist movie made in Islamic Republican Of Iran
Full length Movie
شکارچی شنبه فیلمی است به کارگردانی پرویز شیخطادی....
Saturday's Hunter 2012 anti Zionist movie made in Islamic Republican Of Iran
Full length Movie
شکارچی شنبه فیلمی است به کارگردانی پرویز شیخطادی. داستان فیلم به زندگی کودکی میپردازد که به میان اقوام مختلف رفته و از هر یک چیزی آموختهاست. ۸۰ درصد فیلمبرداری «شکارچی شنبه» در طی اقامت ۲۵ روز گروه در لبنان فیلمبرداری شده و ۲۰ درصد آن در مناطق مختلفی از ایران نظیر چالوس و تهران انجام شدهاست.
در یک بندرگاه اسرائیل، زنی یهودی که پس از مرگ همسرش، با یک مرد مسیحی ازدواج کردهاست، کودک ۸-۷ ساله خود را درپی اقدامات حقوقی و اصرارهای زیاد پدربزرگش (علی نصیریان) برای مدت کوتاهی به وی میسپارد. پدربزرگ کودک که یکی از سران جریان فکری صهیونیسم است در جواب نگرانیهای مادر، وعده میدهد که او یک ماه بیشتر اینجا نمیماند و پس از آن، کودک با اراده خود هر کجا که خواست میتواند برود.
این فیلم ماجرای استحاله فکری و ذهنی این کودک و حرکت از فطرت پاک انسانی تا تبدیل شدن به موجودی خشن، خطرناک و خونریز است.
شکارچی شنبه
کارگردان پرویز شیخطادی
نویسنده پرویز شیخطادی
بازیگران علی نصیریان
امیریل ارجمند
دارین حمزه
آرسینه سوکیاسیان
مهدی فقیه
سیلوا آندرانسیان
موسیقی هادی آرزم
تاریخ انتشار ۲۰۱۱
مدت زمان ۹۰دقیقه
کشور ایران
زبان فارسی
ضد یهودی صهیونیست ایرانی فیلم فراماسونی اسرائیل
Muslims Hate Jews Anti Jews Movie Israel Iran
Shekar chie shanbe Shekarchieh shekarchie Shambe Shekarchi Shanbeh
More...
Description:
Saturday's Hunter 2012 anti Zionist movie made in Islamic Republican Of Iran
Full length Movie
شکارچی شنبه فیلمی است به کارگردانی پرویز شیخطادی. داستان فیلم به زندگی کودکی میپردازد که به میان اقوام مختلف رفته و از هر یک چیزی آموختهاست. ۸۰ درصد فیلمبرداری «شکارچی شنبه» در طی اقامت ۲۵ روز گروه در لبنان فیلمبرداری شده و ۲۰ درصد آن در مناطق مختلفی از ایران نظیر چالوس و تهران انجام شدهاست.
در یک بندرگاه اسرائیل، زنی یهودی که پس از مرگ همسرش، با یک مرد مسیحی ازدواج کردهاست، کودک ۸-۷ ساله خود را درپی اقدامات حقوقی و اصرارهای زیاد پدربزرگش (علی نصیریان) برای مدت کوتاهی به وی میسپارد. پدربزرگ کودک که یکی از سران جریان فکری صهیونیسم است در جواب نگرانیهای مادر، وعده میدهد که او یک ماه بیشتر اینجا نمیماند و پس از آن، کودک با اراده خود هر کجا که خواست میتواند برود.
این فیلم ماجرای استحاله فکری و ذهنی این کودک و حرکت از فطرت پاک انسانی تا تبدیل شدن به موجودی خشن، خطرناک و خونریز است.
شکارچی شنبه
کارگردان پرویز شیخطادی
نویسنده پرویز شیخطادی
بازیگران علی نصیریان
امیریل ارجمند
دارین حمزه
آرسینه سوکیاسیان
مهدی فقیه
سیلوا آندرانسیان
موسیقی هادی آرزم
تاریخ انتشار ۲۰۱۱
مدت زمان ۹۰دقیقه
کشور ایران
زبان فارسی
ضد یهودی صهیونیست ایرانی فیلم فراماسونی اسرائیل
Muslims Hate Jews Anti Jews Movie Israel Iran
Shekar chie shanbe Shekarchieh shekarchie Shambe Shekarchi Shanbeh
28:43
|
30Jun11 ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Farsi
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت...
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار مسئولان نظام و قشرهای مختلف مردم، با تبریك عید شریف مبعث به ملت ایران و امت اسلامی، بعثت پیامبر اكرم (ص) را بزرگترین نعمت الهی و برترین و پربركت ترین روزهای سال خواندند و تأكید كردند: بیداری اسلامی ملتهای منطقه، حركتی در مسیر نبوی است و ملتهای مسلمان و ملت بزرگ ایران، با هوشیاری اجازه نخواهند داد امریكایی ها و صهیونیستها، با ایجاد اختلاف و حیله های دیگر، این حركت عظیم را منحرف و یا بر آن موج سواری كنند.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به «آثار تعیین كننده، بسیار عمیق و پیش برنده» دوران 23 ساله بعثت پیامبر خاتم (ص) در تاریخ و سرنوشت بشریت افزودند: نبی مكرم اسلام (ص) در همین دوران كوتاه كه فقط 10 سال آن به ایجاد نظام اسلامی اختصاص داشت، جامعه ای بر پایه های ایمان، عقلانیت، مجاهدت و عزت بنا كردند كه تمدنهای امروز بشری نیز، مدیون تمدن اسلامیِ شكل گرفته برچنین پایه هایی است.
ایشان، مشكلات و دردهای دیروز و امروز امت اسلامی را ناشی از ناسپاسی نعمت عظیم بعثت دانستند و خاطرنشان كردند: اگر ملتهای مسلمان، ایمان را در دل و عمل تقویت كنند، از عقلانیت و خرد انسانی به عنوان هدیه بزرگ الهی بهره گیرند، جهاد فی سبیل الله را در میدانهای نظامی،سیاسی، اقتصادی و فرهنگی دنبال كنند و احساس عزت و كرامت انسانی را مغتنم بشمارند یقیناً به جایگاه شایسته خود دست می یابند.
حضرت آیت الله خامنه ای، حوادث جاری در برخی كشورهای شمال افریقا و خاورمیانه را، نشان دهنده توجه ملتهای مسلمان به نعمت سعادت بخش اسلام خواندند و افزودند: بیداری عظیم اسلامی در مصر و تونس و دیگر كشورها نشان می دهد موازنه ظالمانه و تحقیركننده ای كه غربی های سلطه گر و حكام وابسته، در 150 سال اخیر بر ملتهای منطقه تحمیل كرده بودند به هم خورده و فصل جدیدی در تاریخ منطقه آغاز شده است.
رهبر انقلاب اسلامی، آینده تحولات منطقه را به فضل الهی، روشن دانستند و با اشاره به لجاجت و «جان سختی» قدرتهای مستكبر برای انكار و مخفی كردن جنبه اسلامی این تحولات افزودند: امریكایی ها، صهیونیستها و مزدوران و همراهان آنها در منطقه، همه امكانات خود را به كار گرفته اند تا حركت عظیم ملتها را منحرف كنند و با روی كار آوردن عناصر وابسته، معادلات ظالمانه گذشته را دوباره حاكم سازند اما وقتی ملتی بیدار شد و جان بر كف به میدان آمد نمی توان او را شكست داد.
ایشان با اشاره به لزوم بیداری، هوشیاری و بصیرت ملتها و نخبگان جهان اسلام در مقابل تلاشها و طرحهای پیچیده امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی افزودند: البته تحركات سلطه گران، دردسرهایی را برای ملتهای بیدار شده به همراه خواهد آورد اما به بركت هوشیاری و مراقبت مردم و نخبگان امت اسلامی، مسیر روشنی كه در منطقه آغاز شده، انشاءالله با قوت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی، در همین زمینه با یادآوری توطئه های گوناگون دشمنان اسلام در قبال پیروزی انقلاب اسلامی خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف، نفوذ، ترور، «درگیریهای قومی مذهبی»، فتنه انگیزی و تحریك دشمن خارجی به حمله به ایران از جمله تحركات ناكام مستكبران برای تضعیف حركت عظیم ملت ایران بوده است كه همین توطئه ها یا نظائر آنها در قبال ملتهای بیدار شده منطقه نیز طراحی و اجرا خواهد شد.
ایشان در تشریح راههای اصولی مقابله با اینگونه توطئه ها، پرهیز ملتها و نخبگان جهان اسلام از مباحث بیهوده و كم اهمیت، بی توجهی به «اختلافات مذهبی، قومی و سلیقه ای» و درك عظمت تاریخی قیام ملتهای مسلمان را مورد تأكید قرار دادند.
حضرت آیت الله خامنه ای، با اشاره به حمایتهای همیشگی ملت ایران و نظام اسلامی از هر حركت عدالت طلبانه و ضد استكباری افزودند: هرجا حركتی علیه امریكا و صهیونیسم روی دهد و هر ملتی كه بر ضد دیكتاتوری بین المللی امریكا و دیكتاتورهای داخلی قیام كند با حمایت ملت فهیم ایران روبرو خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی، شبیه سازی را یكی از طرحهای پیچیده امریكا خواندند و با اشاره به حوادث سوریه افزودند: امریكایی ها با تلاش برای شبیه سازی حوادث مصر، تونس، یمن و لیبی، در سوریه، سعی می كنند این كشور را كه در خط مقاومت قرار دارد دچار مشكل كنند اما ماهیت حوادث سوریه با ماهیت حوادث دیگر كشورهای منطقه متفاوت است.
ایشان افزودند: جوهره بیداری اسلامی در كشورهای منطقه، حركت ضدصهیونیستی و ضد امریكایی است اما در حوادث سوریه، دست امریكا و اسرائیل آشكار است و «منطق و معیار ما ملت ایران» این است كه هرجا به نفع امریكا و صهیونیسم شعار داده شود حركت، انحرافی است.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: البته پایداری ملت ایران و نظام اسلامی بر این منطق و معیار دشمنان نظام را خشمگین می كند و بر توطئه های آنان می افزاید اما ملت آب دیده و مقاوم ایران، در مواضع خود سستی نخواهد كرد.
ایشان با اشاره به مظلومیت ملت بحرین افزودند: حركت مردم بحرین، ماهیتاً شبیه حركت ملت مصر و تونس و یمن است و تفكیك میان این تحركات مشابه، معنا ندارد اما متأسفانه برخی به جای توجه به حرف دل ملتها، همان راهی را می روند كه دشمنان اسلام می خواهند.
حضرت آیت الله خامنه ای در پایان سخنانشان با یادآوری كار و تلاش گسترده و پرامید دستگاههای گوناگون در سراسر كشور، موضوع ادغام وزارتخانه ها و كوچك كردن دولت را، بسیار مهم برشمردند و با اشاره به همكاری متقابل دولت و مجلس در این مسئله افزودند: اینگونه كارها باید با جدیت دنبال شود.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به طمع ورزیهای دشمنان به برخی مسائل و حوادث داخلی تأكید كردند: ملت ایران با ایستادگی، اعتماد و امید بی پایان به كمك پروردگار و مسئولان كشور با همكاری و وحدت كلمه، بار دیگر امید دشمنان را به یأس و نومیدی تبدیل خواهند كرد.
در آغاز این دیدار كه سفیران كشورهای اسلامی نیز حضور داشتند، رئیس جمهور، پیامبر خاتم را بزرگترین هدیه پروردگار به بشریت خواند و افزود: بعثت بزرگترین حادثه تاریخ است كه می تواند بشر را در گذر از مسیر نورانی كلمه توحید، به حیات طیبه و سعادت حقیقی برساند.
آقای احمدی نژاد جهل و غفلت بشر و ظلم و بی عدالتی طاغوتها را موانع اصلی بهره گیری كامل جوامع بشری از پیام حیات بخش بعثت پیامبر اعظم خواند و افزود: شیطان بزرگ امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی با سركوب ملتها، جامعه بشری را از حركت در صراط مستقیم الهی باز می دارند.
رئیس جمهور، بشر امروز را بیش از هر زمان دیگر نیازمند پیام بعثت خواند و افزودند: ظهور بقیه الله الاعظم (عج) تكمیل كننده حادثه تاریخی بعثت و نوید سعادت حقیقی بشر خواهد بود.
More...
Description:
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار مسئولان نظام و قشرهای مختلف مردم، با تبریك عید شریف مبعث به ملت ایران و امت اسلامی، بعثت پیامبر اكرم (ص) را بزرگترین نعمت الهی و برترین و پربركت ترین روزهای سال خواندند و تأكید كردند: بیداری اسلامی ملتهای منطقه، حركتی در مسیر نبوی است و ملتهای مسلمان و ملت بزرگ ایران، با هوشیاری اجازه نخواهند داد امریكایی ها و صهیونیستها، با ایجاد اختلاف و حیله های دیگر، این حركت عظیم را منحرف و یا بر آن موج سواری كنند.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به «آثار تعیین كننده، بسیار عمیق و پیش برنده» دوران 23 ساله بعثت پیامبر خاتم (ص) در تاریخ و سرنوشت بشریت افزودند: نبی مكرم اسلام (ص) در همین دوران كوتاه كه فقط 10 سال آن به ایجاد نظام اسلامی اختصاص داشت، جامعه ای بر پایه های ایمان، عقلانیت، مجاهدت و عزت بنا كردند كه تمدنهای امروز بشری نیز، مدیون تمدن اسلامیِ شكل گرفته برچنین پایه هایی است.
ایشان، مشكلات و دردهای دیروز و امروز امت اسلامی را ناشی از ناسپاسی نعمت عظیم بعثت دانستند و خاطرنشان كردند: اگر ملتهای مسلمان، ایمان را در دل و عمل تقویت كنند، از عقلانیت و خرد انسانی به عنوان هدیه بزرگ الهی بهره گیرند، جهاد فی سبیل الله را در میدانهای نظامی،سیاسی، اقتصادی و فرهنگی دنبال كنند و احساس عزت و كرامت انسانی را مغتنم بشمارند یقیناً به جایگاه شایسته خود دست می یابند.
حضرت آیت الله خامنه ای، حوادث جاری در برخی كشورهای شمال افریقا و خاورمیانه را، نشان دهنده توجه ملتهای مسلمان به نعمت سعادت بخش اسلام خواندند و افزودند: بیداری عظیم اسلامی در مصر و تونس و دیگر كشورها نشان می دهد موازنه ظالمانه و تحقیركننده ای كه غربی های سلطه گر و حكام وابسته، در 150 سال اخیر بر ملتهای منطقه تحمیل كرده بودند به هم خورده و فصل جدیدی در تاریخ منطقه آغاز شده است.
رهبر انقلاب اسلامی، آینده تحولات منطقه را به فضل الهی، روشن دانستند و با اشاره به لجاجت و «جان سختی» قدرتهای مستكبر برای انكار و مخفی كردن جنبه اسلامی این تحولات افزودند: امریكایی ها، صهیونیستها و مزدوران و همراهان آنها در منطقه، همه امكانات خود را به كار گرفته اند تا حركت عظیم ملتها را منحرف كنند و با روی كار آوردن عناصر وابسته، معادلات ظالمانه گذشته را دوباره حاكم سازند اما وقتی ملتی بیدار شد و جان بر كف به میدان آمد نمی توان او را شكست داد.
ایشان با اشاره به لزوم بیداری، هوشیاری و بصیرت ملتها و نخبگان جهان اسلام در مقابل تلاشها و طرحهای پیچیده امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی افزودند: البته تحركات سلطه گران، دردسرهایی را برای ملتهای بیدار شده به همراه خواهد آورد اما به بركت هوشیاری و مراقبت مردم و نخبگان امت اسلامی، مسیر روشنی كه در منطقه آغاز شده، انشاءالله با قوت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی، در همین زمینه با یادآوری توطئه های گوناگون دشمنان اسلام در قبال پیروزی انقلاب اسلامی خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف، نفوذ، ترور، «درگیریهای قومی مذهبی»، فتنه انگیزی و تحریك دشمن خارجی به حمله به ایران از جمله تحركات ناكام مستكبران برای تضعیف حركت عظیم ملت ایران بوده است كه همین توطئه ها یا نظائر آنها در قبال ملتهای بیدار شده منطقه نیز طراحی و اجرا خواهد شد.
ایشان در تشریح راههای اصولی مقابله با اینگونه توطئه ها، پرهیز ملتها و نخبگان جهان اسلام از مباحث بیهوده و كم اهمیت، بی توجهی به «اختلافات مذهبی، قومی و سلیقه ای» و درك عظمت تاریخی قیام ملتهای مسلمان را مورد تأكید قرار دادند.
حضرت آیت الله خامنه ای، با اشاره به حمایتهای همیشگی ملت ایران و نظام اسلامی از هر حركت عدالت طلبانه و ضد استكباری افزودند: هرجا حركتی علیه امریكا و صهیونیسم روی دهد و هر ملتی كه بر ضد دیكتاتوری بین المللی امریكا و دیكتاتورهای داخلی قیام كند با حمایت ملت فهیم ایران روبرو خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی، شبیه سازی را یكی از طرحهای پیچیده امریكا خواندند و با اشاره به حوادث سوریه افزودند: امریكایی ها با تلاش برای شبیه سازی حوادث مصر، تونس، یمن و لیبی، در سوریه، سعی می كنند این كشور را كه در خط مقاومت قرار دارد دچار مشكل كنند اما ماهیت حوادث سوریه با ماهیت حوادث دیگر كشورهای منطقه متفاوت است.
ایشان افزودند: جوهره بیداری اسلامی در كشورهای منطقه، حركت ضدصهیونیستی و ضد امریكایی است اما در حوادث سوریه، دست امریكا و اسرائیل آشكار است و «منطق و معیار ما ملت ایران» این است كه هرجا به نفع امریكا و صهیونیسم شعار داده شود حركت، انحرافی است.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: البته پایداری ملت ایران و نظام اسلامی بر این منطق و معیار دشمنان نظام را خشمگین می كند و بر توطئه های آنان می افزاید اما ملت آب دیده و مقاوم ایران، در مواضع خود سستی نخواهد كرد.
ایشان با اشاره به مظلومیت ملت بحرین افزودند: حركت مردم بحرین، ماهیتاً شبیه حركت ملت مصر و تونس و یمن است و تفكیك میان این تحركات مشابه، معنا ندارد اما متأسفانه برخی به جای توجه به حرف دل ملتها، همان راهی را می روند كه دشمنان اسلام می خواهند.
حضرت آیت الله خامنه ای در پایان سخنانشان با یادآوری كار و تلاش گسترده و پرامید دستگاههای گوناگون در سراسر كشور، موضوع ادغام وزارتخانه ها و كوچك كردن دولت را، بسیار مهم برشمردند و با اشاره به همكاری متقابل دولت و مجلس در این مسئله افزودند: اینگونه كارها باید با جدیت دنبال شود.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به طمع ورزیهای دشمنان به برخی مسائل و حوادث داخلی تأكید كردند: ملت ایران با ایستادگی، اعتماد و امید بی پایان به كمك پروردگار و مسئولان كشور با همكاری و وحدت كلمه، بار دیگر امید دشمنان را به یأس و نومیدی تبدیل خواهند كرد.
در آغاز این دیدار كه سفیران كشورهای اسلامی نیز حضور داشتند، رئیس جمهور، پیامبر خاتم را بزرگترین هدیه پروردگار به بشریت خواند و افزود: بعثت بزرگترین حادثه تاریخ است كه می تواند بشر را در گذر از مسیر نورانی كلمه توحید، به حیات طیبه و سعادت حقیقی برساند.
آقای احمدی نژاد جهل و غفلت بشر و ظلم و بی عدالتی طاغوتها را موانع اصلی بهره گیری كامل جوامع بشری از پیام حیات بخش بعثت پیامبر اعظم خواند و افزود: شیطان بزرگ امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی با سركوب ملتها، جامعه بشری را از حركت در صراط مستقیم الهی باز می دارند.
رئیس جمهور، بشر امروز را بیش از هر زمان دیگر نیازمند پیام بعثت خواند و افزودند: ظهور بقیه الله الاعظم (عج) تكمیل كننده حادثه تاریخی بعثت و نوید سعادت حقیقی بشر خواهد بود.
62:23
|
[ARABIC] Sayyed Hassan Nasrallah كلمة السيد حسن نصرالله في ذكرى يوم الشهيد
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان يفهموا جيدا ان الحرب على...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وسورية لن تبقيا في ايران وسورية وانما ستتدحرج على مستوى المنطقة باكملها. واشار السيد نصر الله في احتفال يوم الشهيد في مجمع سيد الشهداء (ع) في الضاحية الجنوبية لبيروت عصر الجمعة الى انه رغم كل التهديدات في المنطقة فالاوضاع المحلية والاقليمية والدولية اليوم لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقاييس والمعايير.
واعتبر السيد نصر الله ان الحديث عن اعتداء او حرب جديدة على لبنان يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، مشيرا الى انه اذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
ودعا سماحته من يراهنون على سقوط النظام السوري الى ترك هذا الرهان ، وقال لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهو سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واكد السيد نصر الله ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء لكنه دعا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو عندما اوقفت اميركا تمويل هذه المنظمة لأنها اعترفت بفلسطين متسائلا الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما لاميركا من التزاماتها الدولية فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز لبنان؟ واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية والغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان ليهدد لبنان بعقوبات.
الجنوب اليوم قوي آمن
في بداية خطابه اكد السيد نصر الله ان الشهداء صناع حياة بإرادة الله تعالى وان الجهاد والشهادة و إرادة الصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى. واشار الى ان الشهداء هم نتاج الايمان بالله وباليوم الاخر و نتاج المعرفة واهل المعرفة، معرفة الهدف ومعرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف ومعرفة العدو والصديق والاولويات والزمان والمكان، وهذا الذي نسميه البصيرة.
واذ اشار السيد نصر الله الى ان محبي الامام موسى الصدر يعيشون اجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود الى اعاد الامام ورفيقيه الى لبنان ان شاء الله، تطرق الى كلام قرأه كان قاله الامام الصدر في جلسة داخلية عام 1978 وهو انه يشعر بالاسى الكبير لما يعيشه الجنوب الذي تحول لمكسر عصى والذي تعتدي عليه اسرائيل، واضاف: قلت له في نفسي عندما تعود ستفخر بتلامذتك وابنائك وكل اصدقائهم وحلفائهم وبالمقاومة التي اسستَ وضحيت من اجل ان تقوم، وان هذا الجنوب اليوم قوي آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل اصبح حاضرا وبقوة في المعادلة الاقليمية ايضا.
احتمالات الحرب.. وقلب الطاولة على المعتدي
اضاف سماحته: فيما يعني اي اعتداء او حرب جديدة على لبنان فالحديث يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، واذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
واكد ان ذلك ليس كرم اخلاق من اسرائيل و اميركا ومجلس الامن الدولي بل لأن لبنان بات بلد قويا وبات قادرا بجيشه وشعبه ومقاومته على الحاق الهزيمة واصبح في موقع يستطيع ان يقلب فيه الطاولة على المعتدي وان يحول التهديد الى فرصة حقيقية. واكد ان ذلك لا يعني ان ننام ابدا وان هذه المقاومة لم تنم في يوم من الايام .
وتابع السيد حسن نصر الله: اقول للذين يئسوا في انفسهم ولم ييأسوا على مستوى الخطاب عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا ان تتخلى عن سلاحها انما تطلبون ان نكون المغبون المَهين الذي لم يستفد من كل التجارب ويسلم كرامة اهله ووطنه لابشع عدو عرفه التاريخ وهو اسرائيل، لذلك في يوم الشهيد ندعو للتمسك بالمقاومة والجيش والارادة الشعبية لانها عنصر القوة الحقيقي.
الوضع الداخلي والحكومة
واكد السيد نصر الله ان الحكومة اثبتت حتى الآن انها حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية واساسية تمثل غالبية نيابية وغالبية شعبية جدية وحكومة بحث ونقاش وحوار ليست حكومة الراي الواحد وشمولية، يتناقش اطرافها ويتخذون القرارات لا ياتيهم "اس ام اس" من احد ولا تتلقى اشارات من احد.
واضاف سماحته ان الحكومة مدعوة الى مزيد من العمل والانجاز والجدية ومتابعة الملفات وان لا تصغي الى كل الضجيج مشددا على ان الاهم ان تعطي الاولوية المطلقة لحاجات الناس وهناك استحقاقات امام الحكومة كالحد الادنى للأجور ورواتب القطاع العام والمعلمين والنفط والغاز واستحقاق الكهرباء والماء الضمان الصحي والتعيينات وملفات ادارية حساسة لا تحتاج الى انفاق، ومواضيع انسانية يجب ان نقاربها من منظار انسانية. واشار الى ان الحكومة معنية ان تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها.
الوضع الأمني
ودعا السيد نصر الله الجميع الى الحفاظ على الوضع الامني لأن الامن شرط الاستقرار والصحة والعافية كما دعا وسائل الاعلام الى عدم تضخيم الاحداث الفردية والى التثبت من المعطيات قبل إطلاق التصريحات.
واضاف: ندعو الى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن واثبتت كل التجارب القاسية التي مر بها لبنان انه في نهاية المطاف كان يضيع ويتقسم كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص.
تمويل المحكمة.. وفضيحة اليونيسكو
السيد نصر الله اشار الى ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء داعيا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو . وقال: من المفيد ان ينتبه اللبنانيون والراي العام الى ما حدث في موضوع اليونيسكو وهي منظمة دولية اعترفت بدولة فلسطين بل بقطعة من فلسطين على ارض 67 بل ليس معلوما انها اراضي الـعام 67 فغضبت اميركا لانها اعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وقامت بإجراء واوقفت تمويل هذه المنظمة. الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما دوليا لاميركا؟ فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز للبنان واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية الغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان وبكل وقاحة وبعد الذي حصل في اليونيسكو ويهدد لبنان بعقوبات.. هذا يفضح اميركا في العالم وحلفاء اميركا في لبنان.
إيران وسورية
ودعا السيد نصر الله الى ترك الرهان على الخارج والتطورات الاقليمية مضيفا: اقول لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام الرئيس بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واضاف: شهدنا خلال الايام الماضية تصاعد التهديدات وطرح بقوة احتمال قيام العدو الاسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية وتصاعد التهديد والاحتمالات.. القيادة في الجمهورية الاسلامية ردت بشكل حازم وكان الاوضح ما قاله الامام الخامنئي وما قاله عين الحقيقة والواقع وان ايران بجيشها وشعبها وعزمها لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الاساطيل وهذا امر محسوم .
وتوقف السيد نصر الله عند خلفيات هذه التهديدات وقال: من الان الى اخر العام هناك انسحاب اميركي من العراق وما يجري انسحاب وهزيمة كبيرة للمشروع الاميركي ، واميركا المهزومة في العراق غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية فتنسحب تحت النار السياسية والاعلامية عبر التهويل على المنطقة وايران وسورية وشعوب المنطقة فيصبح الاهتمام مركزا على هذه التطورات ويصبح خبر انسحاب الاميركي خبرا عاديا وليس في صدارة الاحداث، لذا يجب التركيز بالمقابل على موضوع الانسحاب واثاره السياسية والعسكرية والامنية على منطقنتا ومستقبلها.
ثانيا: من الطبيعي ان تقوم اميركا في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في الحاق الهزيمة بها في المنطقة ولا يختلف اثنان ان الدولتين اللتين وقفتا بوجه الاحتلال الاميركي ولم تستلم للشروط الاميركية هما ايران وسورية.
الامر الثالث الذي يجب الانتباه اليه: التحولات التي حصلت في منطقتنا اذ لا شك ان سقوط نظام زين العابدين خسارة للمشروع الاميركي وسقوط نظام القذافي خسارة وسقوط نظام حسني مبارك الخسارة العظمى لاميركا واسرائيل.. في مسار التحولات محور الممانعة والمقاومة والرفض لاسرائيل ومشاريع الهيمنة يقوى ويكبر وللتعويض عن خسارة اميركا يجب ان تنتقل بسورية وايران الى موقع دفاعي والانشغال بذاتها وامنها واقتصادها.
الامر الرابع: اميركا تريد اخضاع ايران وسورية وجر ايران الى التفاوض المباشر واخضاع سورية لتقبل ما لم تكن تقبله..
واشار السيد نصر الله الى ان هذا التهويل والتهديد هو بناء على هذه الخلفيات ويضاف عليها وقائع الوضع الاقتصادي في اوروبا والوضع المالي والاقتصادي في اميركا كارثي.
اضاف: من جهة ثانية ايران صلبة مقتدرة لديها قائد لا مثيل له في هذا العالم وايران سترد الصاع صاعين، فمن يجرؤ ان يشن حربا على ايران؟ وعليهم ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وعلى سورية لن تبقيا في ايران وسوريا وانما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة باكملها.
الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة
وختم سماحته: في يوم الشهيد نؤكد اننا منذ فاتح عهد الاستشهاديين الى اليوم والى المستقبل دخلنا في عصر الانتصارات وولى زمن الهزائم وكل ما علينا ان نحفظ وصايا وامال الشهداء ونواصل طريقهم وسنفعل ذلك حتما، وللشهداء بيعة في اعناقنا لا تنقضي حتى نلتقي بهم.. وقال: رغم كل التهديدات في المنطقة ، اليوم الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقايسس والمعايير، وما دمنا اهل الايمان واهل المعرفة والعشق سننتصر ان شاء الله.
وفي ما يلي النص الكامل لكلمة الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله
بسم الله الرحمن الرحيم والحمد الله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا ونبينا خاتم النبيين أبي القاسم محمد وعلى اله الطيبين الطاهرين وصحبه الأخيار المنتجبين وعلى جميع الأنبياء والمرسلين، السلام عليكم جميعا ورحمة الله وبركاته.
في البداية نتوجه بالتحية إلى أرواح الشهداء العطرة والزكية ونهدي إليهم ثواب الفاتحة...
في مثل هذا اليوم من كل سنة نلتقي تحت راية وخيمة وعنوان الشهداء. في اليوم الذي اختاره حزب الله منذ البداية يوما لشهيده، يوم شهيد حزب الله. بطبيعة الحال كل فصيل من فصائل المقاومة، كل حركة من حركات المقاومة، كل شعب من شعوب المقاومة في المنطقة له شهداؤه الذين ينتمون إلى إطاره الخاص، ومن حقه الطبيعي أن يحيي لهم يوما وذكرى. وفي الحقيقة أن إحياء يوم الشهيد هو بمثابة تعويض عن الذكرى السنوية لكل شهيد على حدة، كما كانت تجري العادة أحيانا. ونحن نأمل إن شاء الله أن يأتي يوم يُقر فيه في لبنان يوما لشهيد الوطن، لكل الشهداء من كل حركات المقاومة وفصائل المقاومة، من الجيش إلى القوى الأمنية، إلى القوى السياسية إلى الشهداء من أبناء الشعب اللبناني ليكون عيدا وطنيا جامعا.
في البداية وقبل أن أتحدث أيضا عن شهيد حزب الله، يجب أن انحني إجلالا واحتراما وتقديرا لكل إخواننا الشهداء في بقية حركات المقاومة وفصائل المقاومة الذين نقدر جهودهم وتضحياتهم وعطاءاتهم، وشراكتهم الحقيقية في تحرير لبنان وفي الدفاع عن لبنان وفي تحقيق كل الأهداف التي تحققت حتى الآن.
كما هي العادة أود في البداية أن أشير إلى إنني سأتكلم أولا في كلمة عن الشهداء في يوم الشهيد وعن المقاومة، هذا عنوان، وكلمة عن الوضع اللبناني المحلي الداخلي، وكلمة في الوضع الإقليمي.
اليوم وفي يوم الشهيد، بطبيعة الحال، نحن نحتفي هنا بكل شهداء حزب الله، الذين فيهم القادة من السيد عباس الأمين العام إلى الشيخ راغب إلى الشهيد القائد الحاج عماد إلى صف من كوادر وقيادي هذه المقاومة الإسلامية إلى الاستشهاديين العظام الذين كان فاتح عهدهم ومسارهم الاستشهادي احمد قصير إلى كل الشهداء المجاهدين من المقاومين ومن الرجال والنساء والأطفال والصغار والكبار. نحن نحتفي بهذا الجمع الكبير الذي تجاوز الآلاف من شهداء جماعة آمنت بهذا الطريق كانت جزءا من وطنها وشعبها، كانت جزءا من أمتها، حملت همومها وهموم أمتها واختارت الطريق الصحيح وقدمت في الطريق الذي أمنت به، ومن اجل القضية التي آمنت بها كل هذا الجمع العظيم والكريم والشريف من الشهداء.
طبعاً انتخاب هذا اليوم، يعني 11 - 11 من كل سنة مناسبته المعروفة هي العملية الاستشهادية التي نفذها الاستشهادي أحمد قصير في مدينة صور والتي استهدفت مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي. هذه العملية التي مازالت حتى اليوم متميزة عن كل عمليات المقاومة ومازالت حتى اليوم أيضا هي العملية الأضخم والأكبر والأهم في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي نظرا لحجم الخسائر التي لحقت بالعدو على يد شهيد واحد وفي لحظة واحدة، لقد اعترف العدو نفسه بسقوط ما يزيد عن 120 130 140 خليني احتاط وأقول بالحد الأدنى العدو اعترف بما يزيد عن مقتل مئة ضابط وجندي بينهم أيضا جنرالات كبار، حجم الخسائر التي ألحقت بالعدو الخسائر المعنوية والنفسية، النتائج المعنوية والنفسية والسياسية على جبهة العدو وعلى جبهة الوطن كانت عظيمة جدا وكانت هذه العملية إيذان مبكر بالهزيمة التي تنتظر العدو. أنا من الأشخاص الذين لا يغيب عن ناظري وجه شارون البائس والمكتئب وهو يقف على حطام مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي في مدينة صور، أيضا هذه العملية هي عملية تأسيسية في تاريخ المقاومة هي العملية الاستشهادية الأولى في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي هذا النوع من العمليات الاستشهادية - أن يقتحم استشهادي بسيارته المليئة بالمتفجرات مقر عسكري ويفجر نفسه في هذا المقر، هذه لأول مرة، ولذلك نطلق على الشهيد أحمد فاتح عصر الاستشهاديين، ولذلك أيضا كان بحق صاحب لقب أمير الاستشهادييين لأن الأمير ليس من يجلس في الخلف وإنما الذي يتقدم جميع المجاهدين والشهداء في الأمام لأنه كان في الطليعة لأنه كان الأول كان الأمير، زمان العملية المبكر أيضا بعد أشهر قليلة جدا من الإجتياح الإسرائيلي للبنان وتوهم البعض في لبنان وفي المنطقة أن لبنان دخل في العصر الإسرائيلي بشكل نهائي وأن علينا ان نرتب أمورنا للانسجام مع هذا العصر الإسرائيلي جاءت عملية الاستشهادي أحمد قصير لتقول: لا هذا زمنا آخر وعصرا آخر هذا زمن المقاومة زمن الاستشهاديين زمن الانتصارات الآتية.
أيها الإخوة والأخوات في هذا العام اختار اخواننا عنوانا ليوم الشهيد سمي يوم "الحياة" وهذه تسمية صحيحة مئة بالمئة بل هي من اصح التسميات :
أولا: لأن الشهداء أحياء، الشهداء أحياء، لست أنا من يقول ذلك وإنما الله سبحانه وتعالى خالق الموت والحياة هو الذي يقول ذلك "ولا تحسبنا الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون" أحياء عند ربهم يرزقون الآن هم أحياء يرزقون من كل ما يتمنون فرحين بما أتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم"، الذين مازالوا هنا مازالوا ينتظرون مازالوا على العهد هم في عقل وخاطر وبال كل شهيد لحق بالمقام الأعلى ويستبشرون بكم بالذين مازالوا يواصلون الدرب ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أمواتاً بل أحياء ولكن لا تشعرون".
ثانيا: لأنهم أعطونا الحياة، أي حياة؟ الحياة الكريمة العزيزة لأنهم منحوا لبلدنا ولشعبنا ولوطننا كرامة وعزة وسيادة وأمنا وتحريرا واحساسا بالثقة وإطمئنانا للحاضر والمستقبل وهذه هي الحياة الحقيقية التي يتطلع أليها كل انسان هذه هي المدرسة مدرسة الإسلام العظيم الذي يقول لنا مفهوما آخر عن الحياة الذي يقول لنا الحياة في موتكم قاهرين والموت في حياتكم مقهورين يعني بعد عام 1982 عندما احتل الصهاينة نصف لبنان وأرادوا أن يهيمنوا على كل لبنان وكانت دباباتهم وملالاتهم وجنودهم يسرحون ويمرحون بل كانوا يسبحون على شواطئ لبنان بكل أمان لو رضي اللبنانيون ان يعيشوا ويأكلوا ويشربوا ولكن تبقى أرضهم محتلة وكراماتهم منتهكة وشبابهم ونساءهم يقادون بذل إلى السجون وسيادتهم مصادرة ومصيرهم مرمي في المجهول يعني لو رضوا حياة الذل والهوان والخضوع هل تسمى هذه حياة؟ أبدا هذا موت على شاكلة الحياة، إذا هؤلاء الشهداء هم صناع حياة بإرادة الله سبحانه وتعالى . الله سبحانه وتعالى جعل للحياة المادية أسباب طبيعية وللحياة المعنوية الانسانية الحقيقية خلق أسباب مؤدية إلى هذا النوع من الحياة وكان الجهاد وكانت الشهادة وكانت إرادة الثابتين والصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى.
هؤلاء الشهداء هم نتاج الإيمان بالله وباليوم الآخر، هم نتاج المعرفة، هم أهل المعرفة - معرفة الهدف معرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف معرفة العدو والصديق معرفة الأولويات معرفة الزمان والمكان هذا الذي نسميه البصيرة. عندما يمضي الانسان على بصيرة من أمره عندما يكون الانسان صاحب بصيرة هذه هي البصيرة هؤلاء أيضا هم اهل العزم والإرادة والثبات والشجاعة كلنا يتذكر في بدايات مواجهة الإحتلال كيف كان العالم كله يقف إلى جانب إسرائيل وكيف كانت المعنويات محطمة والبؤس يعم الوجوه واليأس يسيطر على العقول والقلوب وقف المقاومون، من هنا نستعيد الجذور والينابيع التي نستمد منها هذا المعنى، في كلمة لأمير المؤمنين علي عليه السلام يقول"اني والله وأنا اقول لكم كل فرد في هذه المقاومة كان ومازال يحمل هذه الروح"، يقول علي عليه السلام "اني والله لو لقيتهم فردا لو كنت وحدي أني والله لو لقيتهم فردا وهم ملئ الأرض ما باليت وما استوحشت".
هذا هو جوهر المقاومة والمقاومين في لبنان لم يستوحشوا لقلة الناصر والمعين، لم يستوحشوا لكثرة العدو ولكثرة مؤيدي العدو ولكثرة مساندي العدو ولكثرة المراهنين على العدو بل كان كل واحد منهم يقف ويقول للصهاينة وللأمريكي وللقوات المتعددة الجنسيات اني والله لو لقيتكم فردا وانتم ملئ الأرض ما باليت ولا استوحشت.
هؤلاء هم أهل العزم وهؤلاء هم اهل المحبة اهل العشق اهل الشوق في تتمة الكلمة يقول علي عليه السلام"وأني إلى ربي لمشتاق ولحسن ثواب ربي لمنتظر" هؤلاء هم العشاق المشتاقون إلى لقاء الله سبحانه وتعالى، ولذلك هم ينظرون كانوا ومازالوا ينظرون إلى أقصى القوم وليس إلى مواقع أقدامهم إلى نهاية النهايات، هذا المعنى ايضا هو الذي يستطيع ان يفسر لنا بدقة السر الحقيقي في انتصار حرب تموز فلم يكن هذا السلاح ولا هذا التكتيك ولا هذا التخطيط ولا هذه الإدارة ولا كل الوسائل المتاحة لتمكن لبنان والمقاومة من الانتصار لولا هؤلاء الرجال الذين رسخت أقدامهم في الأرض فما بالوا ولا استوحشوا ولا وهنوا ولا ضعفوا ولا استكانوا ولا خافوا ولا هربوا ولا فروا وهكذا هم يبقون من مدرسة الشهداء ومدرسة المقاومة هذه نحن اليوم نعيش الإطمئنان في لبنان الإطمئنان للمرة الأولى في تاريخ لبنان منذ قيام الكيان الصهيوني الغاصب لفلسطين عام 1948 ليس من السهل أيها الإخواة والاخوات ان يعيش الانسان في بلد وفي جواره وحش كاسر مفترس طماع خداع كيف ليمكن لانسان ان يطمئن على أهله على دماءهم على أعراضهم على كراماتهم على مستقبلهم في جوار كيان عنصري عدواني من هذا النوع، اليوم وللمرة الأولى يشعر لبنان ويشعر جنوب لبنان بالتحديد بالطمأنينة بالهدوء بالأمن بالاستقرار بالثقة، قبل أسابيع كنت أقرأ نصا لسماحة الإمام القائد السيد موسى الصدر "أعاده الله بخير ورفيقيه والذي نعيش هذه الأيام كلنا، كل محبيه، أجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود إلى إعادة الامام ورفيقيه إلى لبنان ان شاء الله"، منشور مؤخرا وهو كلام في جلسة داخلية في عام 1978 قبيل الغزو الإسرائيلي عام 1978 في لقاء داخلي مع الإخوة كوادر حركة أمل كان يقول لهم ما مضمونه انه يشعر بالأسى الشديد بالحزن الكبير لما يعيشه الجنوب وأهل الجنوب - الجنوب الذي تحول إلى مكسر عصى الجنوب الذي تعتدي عليه اسرائيل فتدمر البيوت والبلدات من كفرشوبا إلى غيرها والتي تهجر أهله عندما شاءت، الجنوب الذي لا يشعر بالأمان، الجنوب الذي ينزف، ثم يتحدث بقلب محروق يقول للأسف لبنان ضعيف الجنوب ضعيف لأن لبنان ولأن الجنوب لأننا في لبنان جميعا ضعفاء العدو يفعل ما يشاء ويعتدي متى يشاء ويتحدث بقلب محروق ويقول ان الاكثرين لا يعنيهم ما يجري في الجنوب ولا يسمعون إلى كل النداءات إلى كل الصراخ الذي نطلقه. وأنا أقرا هذه الكلمات للإمام الصدر مباشرة قلت له في نفسي يا سماحة الإمام عندما تعود ان شاء الله ستفخر بأبنائك ستفخر بأحبائك ستفخر بتلامذتك ستفخر بأتباع خطك ستفخر بكل أصدقائهم وحلفائهم، ستفخر بالمقاومة التي أسست وناديت وضحيت من اجل ان تقوم على أرض لبنان وعلى ارض جنوب لبنان هذا الجنوب يا سيدي اليوم قويا آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل أصبح حاضر وبقوة في المعادلة الإقليمية أيضا.
اليوم، فيما يعني أي احتمال يتعلق باعتداء أو عدوان أو حرب إسرائيلية جديدة على لبنان وبالرغم من كل ما يقال في بعض التحليلات وبعض المقالات أعتقد أنه يدخل في دائرة التهويل ، نحن ما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو الإسرائيلي بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن أحداث وتطورات المنطقة والوضع الإقليمي، إذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة فنحن نستبعد أن يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبان، وليس السبب في هذا الإستبعاد ليس كرم إسرائيل ولا الفضل لأمريكا ولا الفضل للمتمع الدولي ولا الفضل لمجلس الامن الدولي ولا كرم أخلاق من أحد ولا كرم أخلاق من أحد ولا لأنّ احد أصبح "آدمي" بل لسبب بسيط جدا هو أنّ لبنان لم يعد ضعيفا وأن لبننا بات بلدا قويا وأن لبنان بجيشه وشعبه ومقاومته بات قادرا على الدفاع وعلى إلحاق الهزيمة بالمعتدي أيضا ، بل أكثر من ذلك أنّ لأبننا أصبح في الموقع الذي يستطيع أن يقلب فيه الطاولة على من يعتدي عليه وأن يحوّل التهديد إلى فرصة حقيقية.
عندما تتراجع هذه القوة وتضعف لا سمح الله وعندما تتفكك هذه القوة يمكن لإسرائيل ان تعاود التفكير بالإعتداء والحرب على لبنان والسيطرة على لبنان، لكن ما دام هذا الإيمان وهذه البصيرة وهذه الإرادة قائمة وهذا الثلاثي الذهبي متماسكاً فإن اسرائيل ستبقى واقفة بعجز وغير قادرة على أن تشنّ حرباً، وإذا جاء يوم لتشنّ فيه حرباً ستكون حرب اللاخيار أي المغامرة الأخيرة في حياة هذا الكيان.
إننا في الوقت الذي على مستوى القراءة والتحليل نستبعد فيه حرباً اسرائيلية على لبنان من هذا النوع بمعزل عن أحداث المنطقة، فهذا لا يعني أن ننام، وأنا أود أن أؤكد لكم أنّ هذه المقاومة التي ننتمي إليها لم تنم في يوم من الأيام، منذ عام 82 ومنذ احمد قصير لم تنم إلى عام 2000 عندما كان الإنتصار الكبير في لبنان في 25 أيار، وفي 26 أيار عام 2000 لم تنم هذه المقاومة وإنما بقيت يقظة وتعمل وتحضّر وتجهّز، لأنها تعرف أن بلدها وشعبها في جوار أي عدو، إلى عام 2006 وبعده ومنذ 15 آب 2006 إلى اليوم هذه المقاومة لم تنم.
أعود إلى كلمة لأمير المؤمنين (علي) عليه السلام يقول : "إنّ أخ الحرب اليَقْظَان الأَرِقْ" من كان في جواره عدو محارب، من كان ما زال في حالة حرب، حتى الذين يقولون أنّ لبنان في هدنة لا تعترف فيها إسرائيل يعني هناك حرب، مع العلم أنّ القرار 1701 الذي يُنَادى به حتى اليوم لم تصل فيه إسرائيل إلى وقف إطلاق النار وهناك وقف عمليات (...). المقاومة في لبنان هكذا "يقظان أرق" ، ثمّ يقول عليه السلام "ومن نامَ لم يُنَمْ عنه" حتى لو بعض الناس في لبنان راحوا ناموا، "ليش" الجيش الإسرائيلي نائم !؟ الإسرائيلي منذ العام 2006 لليوم (يعمل على) التدريب والتجهيز والتسليح والتصنيع والمناورات، في قبالنا عدو لم ينم فكيف ننام، "ومن َضعُفَ أُوذي ومن ترك الجهاد كان كالمغبون المهين".
أقول للذين يأسوا ولم ييأسوا يعني هم في داخلهم يأسوا لكن في خطابهم السياسي لم ييأسوا : عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا أن تتخلى عن سلاحها إنما تطالبوننا بأن نكون "المغبون المهين والمغبون الذليل" الذي لم يَسْتَفِد من كل التجارب والذي يسلّم كرامة أهله وشعبه ووطنه لأبشع عدو عرفه التاريخ وهو إسرائيل. لذلك نحن في يوم الشهيد ويوم الشهداء ندعو إلى التمسك بالمقاومة والتمسك بالجيش والتمسك بالإرادة الشعبية لأنها عنصر القوة الحقيقي.
بالوضع الداخلي، أثبتت الحكومة حتى الآن أنّها حكومة تنوّع، حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية وأساسية، حكومة تمثّل غالبية نيابية وغالبية شعبية جديّة، حكومة نقاش وبحث وحوار، ليست حكومة الرأي الواحد ولا حكومة شمولية، حكومة يتناقش أطرافها ويتخذون القرارات "ما بيجييهم "SMS" من أحد لا من (جيفري) فيلتمان ولا من السفارة الفرنسية ولا من دنيس روس الذي "فل" ولا من ذلك الذي لا نحبه ناظر القرار 1559 (تيري رود) لارسن. لا تتلقى إشارات ولا إيحاءات من أحد (بل) حكومة وطنية حقيقية. هذه الحكومة مدعوة اليوم إلى مزيد من العمل والإنجاز وإلى المزيد من الجدية ومتابعة الملفات وأن لا تصغي إلى كل الضجيج الذي يثار من هنا وهناك ويراد إشغالها بقضايا وهمية لا اساس لها.
الأهم ان تعطي الحكومة الأهمية المطلقة لهموم الناس وحاجات الناس المعيشية والإجتماعية والإقتصادية، هناك استحقاقات أمام الحكومة من حسم موضع الحد الأدنى للأجور وموضوع رواتب العمال والقطاع العام والمعلمين، ومسائل تتعلق بالنفط والغاز وهذا استحقاق حقيقي، ونحن نقترب من نهاية العام، موضوع الكهرباء موضوع الماء والضمان الصحي والتعيينات الإدارية، هناك ملفات حساسة ومهمة جدا ولا تحتاج إلى انفاق، يعني مثلا التعيينات الإدارية وأن تصبح الإدارة مكتملة قادرة على الفعل والإنجاز فهذا لا يحتاج إلى أموال وموازنات وضرائب جديدة فهذا خلل حقيقي موجود في البلد اليوم، استكمال الإدارة يوفر الكثير من الأعباء والمصاعب على المواطنين، على سبيل المثال المسارعة إلى تشكيل محافظة بعلبك الهرمل، وتشكيل محافظة عكار، كذلك الإدارات التي لا تقوم بوظائفها وواجباتها تجاه المواطنين بسبب الفراغ الإداري الهائل، هناك عشرات آلاف المطلوبين بمذكرات منذ عشرات السنين وأحيانًا بقضايا بسيطة وتافهة، هذا الأمر يمكن أن يناقش لمعالجته لأنّه حينئذ يخفف عبء على القوى الأمنية، فعندما يطلع مسؤولو قوى الأمن ويقولون لدينا 30 إلى 40 ألف مذكرة توقيف فقط بمحافظة واحدة، يطلع أغلب أسباب مذكرات التوقيف تافهة ويمكن التسامح فيها، معالجة هذا الأمر سواء على عهدة الحكومة أو على عهدة المجلس النيابي من المؤكد يساعد (على حلها).
هناك نوع من القضايا الإنسانية التي يجب مقاربتها في شكل انساني، هناك خطوة أنجزت قبل أيام في مجلس النواب تتعلق بملف "الهاربين" إلى اسرائيل، وكان هناك تفسيرات عديدة وكثيرة ونحن كنّا مِنَ الذين أيّدوا الإقتراح الذي قُدّم في مجلس النواب وكنّا منسجمين مع أنفسنا لأن هذا المعنى والمضمون ورد في التفاهم الموقع بيننا وبين التيار الوطني الحر عام 2006 ونحن نفي بتفاهماتنا واتفاقاتنا، وطبعا الحكومة معنية بالمسارعة إلى إصدار المراسيم ومعالجة هذا الموضوع بالحدود التي تم التصويت عليها في مجلس النواب وخلفية هذه المعالجة هي خلفية انسانية، لكن اسمحوا لي أن أذكّر والبعض يقول لماذا دائما تذكروننا، لأن هناك أناس تحدثوا وعَزُوا سبب هروب الناس لأنّه حدثت مجازر أو خافت من المجازر عام 2000، طبعا يومها كان هناك أناس مضروب على رأسهم لم يعرفوا ماذا يجري لأنّ رهاناتهم خسرت بالإنسحاب يوم 25 أيار عام 2000 ، وهناك أناس لم يكونوا قد خلقوا أو خلقوا وكانوا صغارا. فيحتاجون للتذكير أنه في 25 أيار عام 2000 لم يقتل أحد، أُنجز التحرير ولم يقتل احد لا من جماعة انطوان لحد ولا من المدنيين بل سقط شهداء من المقاومة ولم يُقتل أحد ولم تُرتكب أي مجزرة ولم يهدم أي دار ولا أي مكان للعبادة ولم تنتهك كرامة احد، العملاء الذين تمّ توقيفهم تمّ تسليمهم مباشرة للقضاء اللبناني الذي نعرف كيف تصرف معهم. وأنا أظن أن هؤلاء الذين هربوا إلى إسرائيل وطبعا حقهم كان أن يهربوا لأن المناخ والصورة الذهنية التي كانت سائدة في ذلك الوقت تساعد على هذا الخيار، أَضِفْ إلى أنّ هناك بعضهم يعرفون أعمالهم فطبيعي أن يهربوا، لكن بعد أن شاهدوا المشهد الحضاري الأخلاقي الإنساني كيف تعاطت المقاومة بكل فصائلها وكيف تعاطى أهل الجنوب الذين قُتِلَ أطفالهم واعْتَدِيَ على أعراضهم في معتقل الخيام كيف تعاطوا مع العملاء ومع عائلات العملاء وبعدها كيف تعاطى القضاء اللبناني، أعتقد أنّ كُثُراً منهم ندموا على هروبهم ولكنهم هربوا وأخطأوا. فقط أريد أنّ أذكّر بعض هؤلاء "الأبطال" ـ بين هلالين يعني ـ أنه لم يحصل مجازر ولا قتل ولا اعتداءات وعليهم أن يراجعوا التاريخ، إذا نسوا في 11 عاما ويغيروا التاريخ ـ وطبعا هم كل يوم يغيرون التاريخ ويشوهون الوقائع ـ كان لا بدّ من التذكير به.
الحكومة معنية أن تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها ونساندها باعتبار هذه الحكومة حكومة متنوعة وطنية.
فيما يعني الوضع الأمني، ندعو الجميع إلى الحفاظ على الإستقرار الامني في البلد لأنه شرط أساسي لكل شيء فهو شرط الإقتصاد والإستقرار السياسي والطمأنينة والصحة والعافية، وفي هذا السياق أدعو أيضا بعض الجهات السياسية ووسائل الإعلام إلى عدم تضخيم الأحداث الفردية التي تحصل والتي تحصل في أي مكان من العالم، وأيضا إلى التأكد والتثبت من المعلومات والمعطيات قبل إطلاق تصريحات يتبيّن في ما بعد أن المعلومات مبنية على خطأ ولا أساس لها من الصحة.
في هذا السياق أيضا ندعو إلى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني وطبعا التعاون مع كل القوى الأمنية وتحييدها ما أمكن، ولكن نؤكد على أولوية تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن، وقد أثبتت كل التجارب القاسية والمؤلمة التي مر بها لبنان وشعب لبنان أنه في نهاية المطاف كان ينهار كل شيء ويتقسم كل شيء ويضيع كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص. من يريد أن "يناقر" في السياسة لا بأس "يكمّل مناقرة فينا" وبالحكومة وبالدولة وبمجلس النواب ولكن لندع مؤسسة الجيش جانبا ولنحافظ عليها وعلى موقعها الوطني وصورتها الوطنية لأن هذا هو التصرف بخلفية وطنية.
في موضوع تمويل المحكمة (الدولية)، قلنا أنّ هذا الموضوع يناقش إن شاء الله في مجلس الوزراء ولكن هناك مستجد يسترعي الوقوف عنده قليلا هو ما حصل مع منظمة اليونيسكو، من مفيد أن ينتبه اللبنانيون وأيضا الرأي العام العربي والعالمي إلى هذه النقطة جيدا، منظمة اليونيسكو منظمة دولية تُعْنَى بالشأن الثقافي، اعترفت هذه المنظمة ـ والمصادفة أنه لم يكن فيها حق الفيتو ـ بدولة فلسطين وطبعا بأي دولة فلسطين؟ ليس بدولة فلسطين من البحر إلى النهر بل بقطعة من فلسطين يعني (حدود) الـ 67 أنها دولة وحتى أنه غير معلوم إذا كانت (دولة حدود) الـ 67، دولة فلسطين على الأرض التي ستقام عليها على ضوء المفاوضات لاحقا أو ما يحصل، غضبت أمريكا لأنّ هذه المنظمة الدولية الثقافية أعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وليس كل حقه، فأدانت موقفها وبالتالي هي تدين كل الذين صوّتوا لمصلحة دولة فلسطين ثمّ عملت إجراء وأوقفت التمويل بدون سابق إنذار. اليوم أعلنت اليونيسكو أنها ستجمد جميع برامجها إلى نهاية العام 2011.
هنا ألفت إلى أنّ منظمة اليونيسكو منظمة معترف بها دولياً وهي منظمة دولية ولم تشكّل لا في ظروف "بوشية – شيراكية" ولا بتهريب قانوني او دستوري مثل المحكمة الدولية، ومن جهة أخرى أنّ هذه المنظمة يستمر عملها ويتوقف عملها على هذا التمويل، وهي قامت بأمر محق ومنصف وعادل ويجب أن تكمله، تقوم الإدارة الأميركية بأخذ هذا الموقف. ألم يكن تمويل اليونيسكو التزاماً من قبل الإدارة الأميركية، أليس هذا من التزاماتها الدولية؟ لماذا يَحِل للإدارة الأميركية ويجوز لها أن تتحلّل من التزاماتها الدولية ولا يجوز للبنان لو كان هناك التزام؟ هناك بعض الناس انتبهوا أنّ هذا يؤثر على موضوع المحكمة فقالوا كلاما حمّال أوجه لكن أغلب قوى 14 آذار لم تعلّق على هذا الأمر. من حق أميركا ليس فقط ان تقطع أموال اليونيسكو بل أنّ تخرب وتدمر اليونيسكو لأنها وقفت إلى جانب شعب فلسطين، أما لبنان فلا حق له، وإذا لم يموّل المحكمة غير الدستورية وغير القانونية التي كلنا بتنا نعرف سيرتها وسلوكها وأهدافها ولا داعي للتكرار فيأتي (جيفري) فيلتمان ـ وانظروا إلى الوقاحة ـ بعد القرار الأمريكي بوقف تمويل اليونيسكو يهدد لبنان بعقوبات، هذا يفضح الإدارة الأميركية ويفضح حلفاء أمريكا في العالم ويفضح حلفاء أمريكا في لبنان.
بكل الأحوال، أمام هذه الفضيحة قدّم دولة الرئيس فؤاد السنيورة مخرجا للأميركيين وللحفاظ على اليونيسكو، وعلى ذمة الإعلام أنا أقرأ المكتوب الذي يقول " قدّم الحل الذي يحمي منظمة اليونيسكو من العقاب الأمريكي وناشد الرئيس السنيورة جامعة الدول العربية والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية الصديقة المبادرة إلى جمع وتسديد المبالغ التي كانت ستدفعها الولايات المتحدة وإسرائيل، بهذه الخطوة يمكن ببساطة ـ بحسب السنيورة ـ إحباط الإبتزاز الإسرائيلي والتهويل والضغوط الأمريكية من أجل الهيمنة". الآن (بمعزل) عن إدانة أمريكا أو عدم إدانتها و(فرض) عليها عقوبات وتُقَاطع ويُرفع الإصبع بوجهها هذا له علاقة بالعالم وعقلهم وشجاعتهم ووحدة المعايير أو ازدواجية المعايير، أريد أن أذهب إلى هذا المخرج، الرئيس السنيورة قدّم مخرجاً جميلاً، فليعتمده مع حكومة الرئيس الميقاتي. "حلّوا عن الرئيس الميقاتي وعن حكومة الرئيس الميقاتي"، وناشدوا جامعة الدول العربية ( وهذه المسألة لا تحتاج لذلك) والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية المعنية بتمويل 50 و60 مليون دولار ليدفعوها إلى المحكمة. هناك أمير عربي يستطيع ان يستغني عن بعض الحفلات في لندن او باريس وأن يدفع هذين القرشين، ولنتفادى كل هذا المشكل في البلد ومعركة مفتوحة شهر وشهرين وثلاثة وباتهامات للرئيس ميقاتي، لأن الرجل مقتنع بما يقوله، واتهامات للحكومة وبالويل والثبور وعظائم الأمور وبأن لبنان سيخرّب اقتصاده ويدمر وسيعزَل دوليا. إذا أنتم تحبون لبنان حقاً وحريصون على لبنان وتريدون خلاصه وأمنه فيما نحن "راسنا يابس" وأنتم أناس منفتحون وحواريون هذا مخرج: ما ترضونه لمنظمة اليونيسكو ارتضوه للمحكمة الدولية، رغم ان اليونيسكوا أنصفت قوماً والمحكمة الدولية تعتدي على آخرين، ومع ذلك هذا مخرج يمكن ان تعتمدوا عليه وتتكلوا على الله وتدعوا الرئيس ميقاتي "يعرف ينام".
اليوم الغرفة الأولى أو الثانية في المحكمة مجتمعة وتناقش مسألة المحاكمة الغيابية، أنا لن أعلق على هذا الموضوع لأننا نحن بتنا نتصرف مع هذه المحكمة على أنها غير موجودة ولن نضيع وقتكم.
النقطة الأخيرة في الوضع المحلي أدخل منها باختصار على الوضع الإقليمي، هو توجيه نصيحة في الداخل اللبناني لكل القوى السياسية: تعالوا لنهتم ببلدنا ولنعالج أزماته وملفاته في الحكومة، في مجلس النواب، في طاولة الحوار، في أي مكان شئتم، تعالوا لنعطي أولوية واتركوا الرهان على الخارج وعلى التطورات الإقليمية، لأن البعض في لبنان راهن على التطورات الإقليمية. أنا في خطاب سابق تحدثت عن خمسة رهانات خلال خمس سنوات ولن أعيد. اليوم لا تعذبوا أنفسكم، أقول لكل الذين يؤجلون الملفات او الخيارات او المعالجات او يصنعون آمالاً وأوهاماً على شيء واحد هو سقوط نظام الرئيس بشّار الأسد في سوريا، وأنا أقول لهم: دعوا هذا الرهان جانباً، وأقول لهم أيضاً هذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة فلا تضيعوا اوقاتكم. ارجعوا للتفكير لبنانيا ووطنيا، الغريب أن بعض الناس يرفعون شعار "لبنان أولاً"، إلا في الرهانات يأتي لبنان في الآخر. راهنوا على لبنان أولاً على اللبنانيين أولاً على قدرات لبنان أولاً وعلى عقول وإرادة وحوار اللبنانيين وتعاونهم، فقط هذه نصيحة في الشق المحلي .
في الشق الإقليمي، لا يوجد متسع من الوقت لأتحدث عن كل الوضع الإقليمي والوضع العربي، ولكن الأهم خلال الأيام القليلة الماضية، هو التطور المرتبط بايران وسوريا والتهديدات الإسرائيلية والأميركية والغربية واعادة فتح الملف النووي الإيراني.
شهدنا في الأيام القليلة الماضية تصاعداً في التهديدات والدفع فجأة بدون سابق انذار، طرح بقوة احتمال ان يقوم العدو الإسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية، وصارت الكرة تتدحرج اعلاميا وسياسيا وتصريحات ومواقف وتصاعد التهديد والإحتمالات. طبعا القيادة في الجمهورية الإسلامية في ايران ردّت بشكل حازم وقاطع، وكان السقف الأعلى والأوضح ما قاله بالأمس سماحة الإمام السيد الخامنئي دام ظله الشريف، وما قاله هو عين الواقع والحقيقة، إيران القوية بجيشها بحرسها بتعبئتها بشعبها بوحدتها بإيمانها بعزمها، لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الأساطيل، وعندما جاءت الأساطيل الأميركية والجيوش الأميركية واحتلت كل المنطقة في محيط ايران، حيث تتواجد اليوم القوات الأميركية في باكستان وافغانستان والعراق وتركيا والخليج ودول الخليج ومياه الخليج، ولكن مع ذلك لم تضعف إيران ولم تتراجع عزيمتها ولم تخضع للشروط ولم تنجر إلى مفاوضات مباشرة مع الأميركيين، فلا التهويل ولا الأساطيل يمكن ان تمسّ بإرداة وعزيمة وقرار القيادة والشعب في ايران، وهذا أمر محسوم.
تعالوا نتحدث عن الحدث قليلاً، هل يمكن أن تذهب الأمور في هذا الاتجاه وكيف نفهم ما يحصل؟ إذا عدنا قليلاً إلى الخلفيات، وهنا نريد أن أتحدث عن ايران وسوريا سوياً، يجب ان لا يغيب عن بالنا أولاً انه منذ اليوم إلى آخر السنة، هناك انسحاب أميركي من العراق، وهزيمة كبيرة للمشروع الأميركي.
في عام 2000 خرج أناس وقالوا إن المقاومة في لبنان لم تنتصر وإنما إسرائيل انسحبت وهذا اتفاق تحت الطاولة (كلام بلا طعمة)، سيخرج الآن أيضاَ من يقول إن أميركا أخذت قراراً بأن تخرج؟! أمريكا التي جاءت وتحملت هذا الحجم الهائل من الخسائر البشرية والمالية والاقتصادية، هذا الانهيار القوي في اقتصادها وماليتها هل من المعقول أنها وبهذه البساطة خارجة من العراق! الجواب أكيد لا. أمريكا الخارجة من العراق، المهزومة في العراق، يجب أن تفعل شيئاً ما. أولاً، أي دولة عادة تقوم بانسحاب، هناك أناس ينسحبون تحت النار الحقيقية، لكن أميركا غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية، لذا تريد ان تعمل دخاناً وغباراً وضباباً وأن تنسحب تحت النار السياسية والإعلامية، وهذا اسمه تهويل على المنطقة وحرب في المنطقة واعتداء على ايران وسوريا حتى يصبح اهتمام العالم كله والمنطقة كلها وشعوبها مركزاً على هذا النوع من التوقعات والأحداث، ويصبح خبر الإنسحاب الأميركي والهزيمة الأميركية في العراق خبراً عادياً بل مغفولاً عنه ولا يبقى في صدارة الأحداث. وهنا مسؤولية القيادات السياسية والجهات الإعلامية كلها أن تسلط الضوء على هذا الإنسحاب وعلى هذه الهزيمة لأن لها آثار ونتائج استراتيجية وتاريخية على كل صعيد معنوي ونفسي وسياسي وعسكري على منطقتنا ومستقبل منطقتنا.
ثانياً، من الطبيعي ان تقوم الإدارة الأميركية في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في إلحاق الهزيمة بها وبمشروعها في العراق، ولا أحد يختلف على أن الدولتين اللتين وقفتا في وجه الإحتلال الأميركي للعراق وعارضتا ودعمتا الشعب العراقي والمقاومة في العراق وصمود الشعب العراقي ولم تستسلما لشروط لا كولن باول ولا من جاء بعده، هما إيران وسوريا. في لحظة الهزيمة والأسى والفشل الأميركي، أمريكا تريد أن تقول لإيران وسوريا لا تفرحوا أنكم حققتم انجازاً أنتم ستبقون تحت الضغط والتهويل والسيف، والعصا سوف تبقى مشرّعة في وجوهكم، هذا أمر طبيعي من أميركا. تصوروا أن الولايات المتحدة الأميركية ستخرج من العراق وتعترف بهزيمتها، رغم أن الجمهوريين في أمريكا قالوا إنها هزيمة كبرى، ثم يسمح لإيران ولسوريا ولشعوب المنطقة ولكل الذين أيّدوا الشعب العراقي والمقاومة العراقية بالاحتفال بهذا النصر التاريخي.
الأمر الثالث الذي يجب الانتباه إليه، أن التحولات التي حصلت في منطقتنا، طبعاً، هناك خلاف بين النخب ومحللي الأحداث وقارئيها حول فهم وقراءة الأمور التي تحصل في منطقتنا، لكن بمعزل عن كل القراءات، هناك قدر متيقن، فلا شك بأن سقوط نظام زين العابدين بن علي هو خسارة للمشروع الأميركي وللحضور الأميركي الغربي في منطقتنا، سقوط نظام القذافي خسارة، سقوط نظام حسني مبارك هو الخسارة العظمى لأمريكا وإسرائيل؟ إذاً، هناك تحولات في المنطقة ليست لمصلحة أمريكا وإسرائيل، لكن لاحقاً هل تستطيع أن تعيد هذه الأنظمة لمصلحتها فهذا بحث آخر. لكن في مسار التحولات الكبرى في المنطقة، من الواضح ان محور المقاومة والممانعة والرفض لإسرائيل ولمشاريع الهيمنة كان يقوى ويكبر، وهذا سيتيح لإيران ولسوريا ان تحصلا على حلفاء جدد وأنصار جدد وأعضاء جدد في هذا المحور، وهذا يمكن ان يعني المزيد من النفوذ والحضور والفعالية.
وللتعويض عن خسارة أميركا في مصر وتونس وليبيا وخصوصا في مصر، يجب ان ينتقل بسوريا وبايران إلى موقع دفاعي، والإنشغال بذاتها ووضعها وأمنها واقتصادها.
الأمر الرابع والأخير هو، إن اميركا تريد اخضاع ايران وسوريا وجر إيران إلى التفاوض المباشر مع الولايات المتحدة الأميركية، أما الحديث عن مفاوضات جماعية فإيران لم ترفض هذا في يوم من الأيام مع ألأمم المتحدة، ولكن المفاوضات الثنائية المباشرة، إيران كانت ترفضها وما زالت ترفضها، المطلوب الإخضاع وجر إيران إلى طاولة المفاوضات، المطلوب إخضاع سوريا لتقبل ما لم تكن تقبله في الماضي، هذا هو الهدف الحقيقي، بناءً على هذه الخلفيات وإذا أضفنا إليها وقائع، وقائع لها علاقة حالياً بالوضع المالي والاقتصادي في أوروبا، فإيطاليا تلحق باليونان، والبرتغال يلحق بإيطاليا، والدول تلحق بعضها البعض.
رئيسة صندوق النقد الدولي أمس تحدثت بوضوح أن الاقتصاد العالمي في خطر، الوضع المالي والاقتصادي في أمريكا كارثي وصعب جداً، تصوروا عندما يقف أحد مرشحي الحزب الجمهوري للانتخابات الرئاسية الأميركية، من المفترض أن يفتش عن شعارات شعبية أو أن يبحث عن اللوبي اليهودي الصهيوني ليدعمه، وقف وقال إن برنامجه وقف المساعدات الأميركية الخارجية كلها بما فيها المساعدات لإسرائيل، هذا يؤشر على صعوبة الوضع المالي الاقتصادي في الولايات المتحدة الأميركية، هذا من جهة، ومن جهة ثانية إيران قوية وصلبة ومقتدرة وموحدة ولديها قائد لا مثيل له في هذا العالم، إيران سترد الصاع صاعين، فمَن يجرؤ ان يشنّ حربا على ايران؟ اليوم وزير الدفاع الأميركي "دعس فرامات ورجع خليفاني" وبداً يتحدث بشكل عاقل وأن هذا الوضع يؤدي إلى توتر في المنطقة وأن جنودنا وقواعدنا موجودة في منطقة الخليج ولا أدري إلى أين تجر المنطقة ؟ اذا عليهم ان يفهموا وهم يفهمون جيدا. عليهم ان يفهموا جيداً ان الحرب على ايران وأن الحرب على سوريا لن تبقيا في ايران ولا في سوريا وإنما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة بأكملها. وهذه حسابات حقيقية وواقعية، لا نحن نهدد ولا احد يهدد. لنضع التهديدات جانباً ولا يتخذ أحد مواقف مسبقة، لكن هذا هو الواقع، هذا هو واقع الحال، واليوم أكثر من أي زمن مضى، الدول العربية والإسلامية وحكوماتها وشعوبها معنية بان تتخذ موقفا. انظروا إلى الصلف والوقاحة، إسرائيل التي تملك رؤوساً نووية عسكرية تطالب العالم بالضغط على ايران وتهدد إيران بضرب منشآت نووية سلمية. فما هو سبب هذه الوقاحة وهذا الاستكبار هو أحياناً الاحساس بضعف الآخر بوهن الآخر بانقسام الآخر ، نحن نقول لهم : هذا الرهان على الضعف وعلى الوهن هذا رهان خاسر. زمن الوهن والضعف والتراجع أمام العدو الإسرائيلي أمام العدوان الأميركي، هذا
More...
Description:
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وسورية لن تبقيا في ايران وسورية وانما ستتدحرج على مستوى المنطقة باكملها. واشار السيد نصر الله في احتفال يوم الشهيد في مجمع سيد الشهداء (ع) في الضاحية الجنوبية لبيروت عصر الجمعة الى انه رغم كل التهديدات في المنطقة فالاوضاع المحلية والاقليمية والدولية اليوم لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقاييس والمعايير.
واعتبر السيد نصر الله ان الحديث عن اعتداء او حرب جديدة على لبنان يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، مشيرا الى انه اذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
ودعا سماحته من يراهنون على سقوط النظام السوري الى ترك هذا الرهان ، وقال لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهو سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واكد السيد نصر الله ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء لكنه دعا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو عندما اوقفت اميركا تمويل هذه المنظمة لأنها اعترفت بفلسطين متسائلا الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما لاميركا من التزاماتها الدولية فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز لبنان؟ واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية والغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان ليهدد لبنان بعقوبات.
الجنوب اليوم قوي آمن
في بداية خطابه اكد السيد نصر الله ان الشهداء صناع حياة بإرادة الله تعالى وان الجهاد والشهادة و إرادة الصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى. واشار الى ان الشهداء هم نتاج الايمان بالله وباليوم الاخر و نتاج المعرفة واهل المعرفة، معرفة الهدف ومعرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف ومعرفة العدو والصديق والاولويات والزمان والمكان، وهذا الذي نسميه البصيرة.
واذ اشار السيد نصر الله الى ان محبي الامام موسى الصدر يعيشون اجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود الى اعاد الامام ورفيقيه الى لبنان ان شاء الله، تطرق الى كلام قرأه كان قاله الامام الصدر في جلسة داخلية عام 1978 وهو انه يشعر بالاسى الكبير لما يعيشه الجنوب الذي تحول لمكسر عصى والذي تعتدي عليه اسرائيل، واضاف: قلت له في نفسي عندما تعود ستفخر بتلامذتك وابنائك وكل اصدقائهم وحلفائهم وبالمقاومة التي اسستَ وضحيت من اجل ان تقوم، وان هذا الجنوب اليوم قوي آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل اصبح حاضرا وبقوة في المعادلة الاقليمية ايضا.
احتمالات الحرب.. وقلب الطاولة على المعتدي
اضاف سماحته: فيما يعني اي اعتداء او حرب جديدة على لبنان فالحديث يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، واذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
واكد ان ذلك ليس كرم اخلاق من اسرائيل و اميركا ومجلس الامن الدولي بل لأن لبنان بات بلد قويا وبات قادرا بجيشه وشعبه ومقاومته على الحاق الهزيمة واصبح في موقع يستطيع ان يقلب فيه الطاولة على المعتدي وان يحول التهديد الى فرصة حقيقية. واكد ان ذلك لا يعني ان ننام ابدا وان هذه المقاومة لم تنم في يوم من الايام .
وتابع السيد حسن نصر الله: اقول للذين يئسوا في انفسهم ولم ييأسوا على مستوى الخطاب عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا ان تتخلى عن سلاحها انما تطلبون ان نكون المغبون المَهين الذي لم يستفد من كل التجارب ويسلم كرامة اهله ووطنه لابشع عدو عرفه التاريخ وهو اسرائيل، لذلك في يوم الشهيد ندعو للتمسك بالمقاومة والجيش والارادة الشعبية لانها عنصر القوة الحقيقي.
الوضع الداخلي والحكومة
واكد السيد نصر الله ان الحكومة اثبتت حتى الآن انها حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية واساسية تمثل غالبية نيابية وغالبية شعبية جدية وحكومة بحث ونقاش وحوار ليست حكومة الراي الواحد وشمولية، يتناقش اطرافها ويتخذون القرارات لا ياتيهم "اس ام اس" من احد ولا تتلقى اشارات من احد.
واضاف سماحته ان الحكومة مدعوة الى مزيد من العمل والانجاز والجدية ومتابعة الملفات وان لا تصغي الى كل الضجيج مشددا على ان الاهم ان تعطي الاولوية المطلقة لحاجات الناس وهناك استحقاقات امام الحكومة كالحد الادنى للأجور ورواتب القطاع العام والمعلمين والنفط والغاز واستحقاق الكهرباء والماء الضمان الصحي والتعيينات وملفات ادارية حساسة لا تحتاج الى انفاق، ومواضيع انسانية يجب ان نقاربها من منظار انسانية. واشار الى ان الحكومة معنية ان تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها.
الوضع الأمني
ودعا السيد نصر الله الجميع الى الحفاظ على الوضع الامني لأن الامن شرط الاستقرار والصحة والعافية كما دعا وسائل الاعلام الى عدم تضخيم الاحداث الفردية والى التثبت من المعطيات قبل إطلاق التصريحات.
واضاف: ندعو الى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن واثبتت كل التجارب القاسية التي مر بها لبنان انه في نهاية المطاف كان يضيع ويتقسم كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص.
تمويل المحكمة.. وفضيحة اليونيسكو
السيد نصر الله اشار الى ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء داعيا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو . وقال: من المفيد ان ينتبه اللبنانيون والراي العام الى ما حدث في موضوع اليونيسكو وهي منظمة دولية اعترفت بدولة فلسطين بل بقطعة من فلسطين على ارض 67 بل ليس معلوما انها اراضي الـعام 67 فغضبت اميركا لانها اعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وقامت بإجراء واوقفت تمويل هذه المنظمة. الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما دوليا لاميركا؟ فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز للبنان واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية الغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان وبكل وقاحة وبعد الذي حصل في اليونيسكو ويهدد لبنان بعقوبات.. هذا يفضح اميركا في العالم وحلفاء اميركا في لبنان.
إيران وسورية
ودعا السيد نصر الله الى ترك الرهان على الخارج والتطورات الاقليمية مضيفا: اقول لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام الرئيس بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واضاف: شهدنا خلال الايام الماضية تصاعد التهديدات وطرح بقوة احتمال قيام العدو الاسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية وتصاعد التهديد والاحتمالات.. القيادة في الجمهورية الاسلامية ردت بشكل حازم وكان الاوضح ما قاله الامام الخامنئي وما قاله عين الحقيقة والواقع وان ايران بجيشها وشعبها وعزمها لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الاساطيل وهذا امر محسوم .
وتوقف السيد نصر الله عند خلفيات هذه التهديدات وقال: من الان الى اخر العام هناك انسحاب اميركي من العراق وما يجري انسحاب وهزيمة كبيرة للمشروع الاميركي ، واميركا المهزومة في العراق غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية فتنسحب تحت النار السياسية والاعلامية عبر التهويل على المنطقة وايران وسورية وشعوب المنطقة فيصبح الاهتمام مركزا على هذه التطورات ويصبح خبر انسحاب الاميركي خبرا عاديا وليس في صدارة الاحداث، لذا يجب التركيز بالمقابل على موضوع الانسحاب واثاره السياسية والعسكرية والامنية على منطقنتا ومستقبلها.
ثانيا: من الطبيعي ان تقوم اميركا في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في الحاق الهزيمة بها في المنطقة ولا يختلف اثنان ان الدولتين اللتين وقفتا بوجه الاحتلال الاميركي ولم تستلم للشروط الاميركية هما ايران وسورية.
الامر الثالث الذي يجب الانتباه اليه: التحولات التي حصلت في منطقتنا اذ لا شك ان سقوط نظام زين العابدين خسارة للمشروع الاميركي وسقوط نظام القذافي خسارة وسقوط نظام حسني مبارك الخسارة العظمى لاميركا واسرائيل.. في مسار التحولات محور الممانعة والمقاومة والرفض لاسرائيل ومشاريع الهيمنة يقوى ويكبر وللتعويض عن خسارة اميركا يجب ان تنتقل بسورية وايران الى موقع دفاعي والانشغال بذاتها وامنها واقتصادها.
الامر الرابع: اميركا تريد اخضاع ايران وسورية وجر ايران الى التفاوض المباشر واخضاع سورية لتقبل ما لم تكن تقبله..
واشار السيد نصر الله الى ان هذا التهويل والتهديد هو بناء على هذه الخلفيات ويضاف عليها وقائع الوضع الاقتصادي في اوروبا والوضع المالي والاقتصادي في اميركا كارثي.
اضاف: من جهة ثانية ايران صلبة مقتدرة لديها قائد لا مثيل له في هذا العالم وايران سترد الصاع صاعين، فمن يجرؤ ان يشن حربا على ايران؟ وعليهم ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وعلى سورية لن تبقيا في ايران وسوريا وانما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة باكملها.
الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة
وختم سماحته: في يوم الشهيد نؤكد اننا منذ فاتح عهد الاستشهاديين الى اليوم والى المستقبل دخلنا في عصر الانتصارات وولى زمن الهزائم وكل ما علينا ان نحفظ وصايا وامال الشهداء ونواصل طريقهم وسنفعل ذلك حتما، وللشهداء بيعة في اعناقنا لا تنقضي حتى نلتقي بهم.. وقال: رغم كل التهديدات في المنطقة ، اليوم الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقايسس والمعايير، وما دمنا اهل الايمان واهل المعرفة والعشق سننتصر ان شاء الله.
وفي ما يلي النص الكامل لكلمة الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله
بسم الله الرحمن الرحيم والحمد الله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا ونبينا خاتم النبيين أبي القاسم محمد وعلى اله الطيبين الطاهرين وصحبه الأخيار المنتجبين وعلى جميع الأنبياء والمرسلين، السلام عليكم جميعا ورحمة الله وبركاته.
في البداية نتوجه بالتحية إلى أرواح الشهداء العطرة والزكية ونهدي إليهم ثواب الفاتحة...
في مثل هذا اليوم من كل سنة نلتقي تحت راية وخيمة وعنوان الشهداء. في اليوم الذي اختاره حزب الله منذ البداية يوما لشهيده، يوم شهيد حزب الله. بطبيعة الحال كل فصيل من فصائل المقاومة، كل حركة من حركات المقاومة، كل شعب من شعوب المقاومة في المنطقة له شهداؤه الذين ينتمون إلى إطاره الخاص، ومن حقه الطبيعي أن يحيي لهم يوما وذكرى. وفي الحقيقة أن إحياء يوم الشهيد هو بمثابة تعويض عن الذكرى السنوية لكل شهيد على حدة، كما كانت تجري العادة أحيانا. ونحن نأمل إن شاء الله أن يأتي يوم يُقر فيه في لبنان يوما لشهيد الوطن، لكل الشهداء من كل حركات المقاومة وفصائل المقاومة، من الجيش إلى القوى الأمنية، إلى القوى السياسية إلى الشهداء من أبناء الشعب اللبناني ليكون عيدا وطنيا جامعا.
في البداية وقبل أن أتحدث أيضا عن شهيد حزب الله، يجب أن انحني إجلالا واحتراما وتقديرا لكل إخواننا الشهداء في بقية حركات المقاومة وفصائل المقاومة الذين نقدر جهودهم وتضحياتهم وعطاءاتهم، وشراكتهم الحقيقية في تحرير لبنان وفي الدفاع عن لبنان وفي تحقيق كل الأهداف التي تحققت حتى الآن.
كما هي العادة أود في البداية أن أشير إلى إنني سأتكلم أولا في كلمة عن الشهداء في يوم الشهيد وعن المقاومة، هذا عنوان، وكلمة عن الوضع اللبناني المحلي الداخلي، وكلمة في الوضع الإقليمي.
اليوم وفي يوم الشهيد، بطبيعة الحال، نحن نحتفي هنا بكل شهداء حزب الله، الذين فيهم القادة من السيد عباس الأمين العام إلى الشيخ راغب إلى الشهيد القائد الحاج عماد إلى صف من كوادر وقيادي هذه المقاومة الإسلامية إلى الاستشهاديين العظام الذين كان فاتح عهدهم ومسارهم الاستشهادي احمد قصير إلى كل الشهداء المجاهدين من المقاومين ومن الرجال والنساء والأطفال والصغار والكبار. نحن نحتفي بهذا الجمع الكبير الذي تجاوز الآلاف من شهداء جماعة آمنت بهذا الطريق كانت جزءا من وطنها وشعبها، كانت جزءا من أمتها، حملت همومها وهموم أمتها واختارت الطريق الصحيح وقدمت في الطريق الذي أمنت به، ومن اجل القضية التي آمنت بها كل هذا الجمع العظيم والكريم والشريف من الشهداء.
طبعاً انتخاب هذا اليوم، يعني 11 - 11 من كل سنة مناسبته المعروفة هي العملية الاستشهادية التي نفذها الاستشهادي أحمد قصير في مدينة صور والتي استهدفت مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي. هذه العملية التي مازالت حتى اليوم متميزة عن كل عمليات المقاومة ومازالت حتى اليوم أيضا هي العملية الأضخم والأكبر والأهم في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي نظرا لحجم الخسائر التي لحقت بالعدو على يد شهيد واحد وفي لحظة واحدة، لقد اعترف العدو نفسه بسقوط ما يزيد عن 120 130 140 خليني احتاط وأقول بالحد الأدنى العدو اعترف بما يزيد عن مقتل مئة ضابط وجندي بينهم أيضا جنرالات كبار، حجم الخسائر التي ألحقت بالعدو الخسائر المعنوية والنفسية، النتائج المعنوية والنفسية والسياسية على جبهة العدو وعلى جبهة الوطن كانت عظيمة جدا وكانت هذه العملية إيذان مبكر بالهزيمة التي تنتظر العدو. أنا من الأشخاص الذين لا يغيب عن ناظري وجه شارون البائس والمكتئب وهو يقف على حطام مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي في مدينة صور، أيضا هذه العملية هي عملية تأسيسية في تاريخ المقاومة هي العملية الاستشهادية الأولى في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي هذا النوع من العمليات الاستشهادية - أن يقتحم استشهادي بسيارته المليئة بالمتفجرات مقر عسكري ويفجر نفسه في هذا المقر، هذه لأول مرة، ولذلك نطلق على الشهيد أحمد فاتح عصر الاستشهاديين، ولذلك أيضا كان بحق صاحب لقب أمير الاستشهادييين لأن الأمير ليس من يجلس في الخلف وإنما الذي يتقدم جميع المجاهدين والشهداء في الأمام لأنه كان في الطليعة لأنه كان الأول كان الأمير، زمان العملية المبكر أيضا بعد أشهر قليلة جدا من الإجتياح الإسرائيلي للبنان وتوهم البعض في لبنان وفي المنطقة أن لبنان دخل في العصر الإسرائيلي بشكل نهائي وأن علينا ان نرتب أمورنا للانسجام مع هذا العصر الإسرائيلي جاءت عملية الاستشهادي أحمد قصير لتقول: لا هذا زمنا آخر وعصرا آخر هذا زمن المقاومة زمن الاستشهاديين زمن الانتصارات الآتية.
أيها الإخوة والأخوات في هذا العام اختار اخواننا عنوانا ليوم الشهيد سمي يوم "الحياة" وهذه تسمية صحيحة مئة بالمئة بل هي من اصح التسميات :
أولا: لأن الشهداء أحياء، الشهداء أحياء، لست أنا من يقول ذلك وإنما الله سبحانه وتعالى خالق الموت والحياة هو الذي يقول ذلك "ولا تحسبنا الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون" أحياء عند ربهم يرزقون الآن هم أحياء يرزقون من كل ما يتمنون فرحين بما أتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم"، الذين مازالوا هنا مازالوا ينتظرون مازالوا على العهد هم في عقل وخاطر وبال كل شهيد لحق بالمقام الأعلى ويستبشرون بكم بالذين مازالوا يواصلون الدرب ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أمواتاً بل أحياء ولكن لا تشعرون".
ثانيا: لأنهم أعطونا الحياة، أي حياة؟ الحياة الكريمة العزيزة لأنهم منحوا لبلدنا ولشعبنا ولوطننا كرامة وعزة وسيادة وأمنا وتحريرا واحساسا بالثقة وإطمئنانا للحاضر والمستقبل وهذه هي الحياة الحقيقية التي يتطلع أليها كل انسان هذه هي المدرسة مدرسة الإسلام العظيم الذي يقول لنا مفهوما آخر عن الحياة الذي يقول لنا الحياة في موتكم قاهرين والموت في حياتكم مقهورين يعني بعد عام 1982 عندما احتل الصهاينة نصف لبنان وأرادوا أن يهيمنوا على كل لبنان وكانت دباباتهم وملالاتهم وجنودهم يسرحون ويمرحون بل كانوا يسبحون على شواطئ لبنان بكل أمان لو رضي اللبنانيون ان يعيشوا ويأكلوا ويشربوا ولكن تبقى أرضهم محتلة وكراماتهم منتهكة وشبابهم ونساءهم يقادون بذل إلى السجون وسيادتهم مصادرة ومصيرهم مرمي في المجهول يعني لو رضوا حياة الذل والهوان والخضوع هل تسمى هذه حياة؟ أبدا هذا موت على شاكلة الحياة، إذا هؤلاء الشهداء هم صناع حياة بإرادة الله سبحانه وتعالى . الله سبحانه وتعالى جعل للحياة المادية أسباب طبيعية وللحياة المعنوية الانسانية الحقيقية خلق أسباب مؤدية إلى هذا النوع من الحياة وكان الجهاد وكانت الشهادة وكانت إرادة الثابتين والصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى.
هؤلاء الشهداء هم نتاج الإيمان بالله وباليوم الآخر، هم نتاج المعرفة، هم أهل المعرفة - معرفة الهدف معرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف معرفة العدو والصديق معرفة الأولويات معرفة الزمان والمكان هذا الذي نسميه البصيرة. عندما يمضي الانسان على بصيرة من أمره عندما يكون الانسان صاحب بصيرة هذه هي البصيرة هؤلاء أيضا هم اهل العزم والإرادة والثبات والشجاعة كلنا يتذكر في بدايات مواجهة الإحتلال كيف كان العالم كله يقف إلى جانب إسرائيل وكيف كانت المعنويات محطمة والبؤس يعم الوجوه واليأس يسيطر على العقول والقلوب وقف المقاومون، من هنا نستعيد الجذور والينابيع التي نستمد منها هذا المعنى، في كلمة لأمير المؤمنين علي عليه السلام يقول"اني والله وأنا اقول لكم كل فرد في هذه المقاومة كان ومازال يحمل هذه الروح"، يقول علي عليه السلام "اني والله لو لقيتهم فردا لو كنت وحدي أني والله لو لقيتهم فردا وهم ملئ الأرض ما باليت وما استوحشت".
هذا هو جوهر المقاومة والمقاومين في لبنان لم يستوحشوا لقلة الناصر والمعين، لم يستوحشوا لكثرة العدو ولكثرة مؤيدي العدو ولكثرة مساندي العدو ولكثرة المراهنين على العدو بل كان كل واحد منهم يقف ويقول للصهاينة وللأمريكي وللقوات المتعددة الجنسيات اني والله لو لقيتكم فردا وانتم ملئ الأرض ما باليت ولا استوحشت.
هؤلاء هم أهل العزم وهؤلاء هم اهل المحبة اهل العشق اهل الشوق في تتمة الكلمة يقول علي عليه السلام"وأني إلى ربي لمشتاق ولحسن ثواب ربي لمنتظر" هؤلاء هم العشاق المشتاقون إلى لقاء الله سبحانه وتعالى، ولذلك هم ينظرون كانوا ومازالوا ينظرون إلى أقصى القوم وليس إلى مواقع أقدامهم إلى نهاية النهايات، هذا المعنى ايضا هو الذي يستطيع ان يفسر لنا بدقة السر الحقيقي في انتصار حرب تموز فلم يكن هذا السلاح ولا هذا التكتيك ولا هذا التخطيط ولا هذه الإدارة ولا كل الوسائل المتاحة لتمكن لبنان والمقاومة من الانتصار لولا هؤلاء الرجال الذين رسخت أقدامهم في الأرض فما بالوا ولا استوحشوا ولا وهنوا ولا ضعفوا ولا استكانوا ولا خافوا ولا هربوا ولا فروا وهكذا هم يبقون من مدرسة الشهداء ومدرسة المقاومة هذه نحن اليوم نعيش الإطمئنان في لبنان الإطمئنان للمرة الأولى في تاريخ لبنان منذ قيام الكيان الصهيوني الغاصب لفلسطين عام 1948 ليس من السهل أيها الإخواة والاخوات ان يعيش الانسان في بلد وفي جواره وحش كاسر مفترس طماع خداع كيف ليمكن لانسان ان يطمئن على أهله على دماءهم على أعراضهم على كراماتهم على مستقبلهم في جوار كيان عنصري عدواني من هذا النوع، اليوم وللمرة الأولى يشعر لبنان ويشعر جنوب لبنان بالتحديد بالطمأنينة بالهدوء بالأمن بالاستقرار بالثقة، قبل أسابيع كنت أقرأ نصا لسماحة الإمام القائد السيد موسى الصدر "أعاده الله بخير ورفيقيه والذي نعيش هذه الأيام كلنا، كل محبيه، أجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود إلى إعادة الامام ورفيقيه إلى لبنان ان شاء الله"، منشور مؤخرا وهو كلام في جلسة داخلية في عام 1978 قبيل الغزو الإسرائيلي عام 1978 في لقاء داخلي مع الإخوة كوادر حركة أمل كان يقول لهم ما مضمونه انه يشعر بالأسى الشديد بالحزن الكبير لما يعيشه الجنوب وأهل الجنوب - الجنوب الذي تحول إلى مكسر عصى الجنوب الذي تعتدي عليه اسرائيل فتدمر البيوت والبلدات من كفرشوبا إلى غيرها والتي تهجر أهله عندما شاءت، الجنوب الذي لا يشعر بالأمان، الجنوب الذي ينزف، ثم يتحدث بقلب محروق يقول للأسف لبنان ضعيف الجنوب ضعيف لأن لبنان ولأن الجنوب لأننا في لبنان جميعا ضعفاء العدو يفعل ما يشاء ويعتدي متى يشاء ويتحدث بقلب محروق ويقول ان الاكثرين لا يعنيهم ما يجري في الجنوب ولا يسمعون إلى كل النداءات إلى كل الصراخ الذي نطلقه. وأنا أقرا هذه الكلمات للإمام الصدر مباشرة قلت له في نفسي يا سماحة الإمام عندما تعود ان شاء الله ستفخر بأبنائك ستفخر بأحبائك ستفخر بتلامذتك ستفخر بأتباع خطك ستفخر بكل أصدقائهم وحلفائهم، ستفخر بالمقاومة التي أسست وناديت وضحيت من اجل ان تقوم على أرض لبنان وعلى ارض جنوب لبنان هذا الجنوب يا سيدي اليوم قويا آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل أصبح حاضر وبقوة في المعادلة الإقليمية أيضا.
اليوم، فيما يعني أي احتمال يتعلق باعتداء أو عدوان أو حرب إسرائيلية جديدة على لبنان وبالرغم من كل ما يقال في بعض التحليلات وبعض المقالات أعتقد أنه يدخل في دائرة التهويل ، نحن ما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو الإسرائيلي بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن أحداث وتطورات المنطقة والوضع الإقليمي، إذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة فنحن نستبعد أن يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبان، وليس السبب في هذا الإستبعاد ليس كرم إسرائيل ولا الفضل لأمريكا ولا الفضل للمتمع الدولي ولا الفضل لمجلس الامن الدولي ولا كرم أخلاق من أحد ولا كرم أخلاق من أحد ولا لأنّ احد أصبح "آدمي" بل لسبب بسيط جدا هو أنّ لبنان لم يعد ضعيفا وأن لبننا بات بلدا قويا وأن لبنان بجيشه وشعبه ومقاومته بات قادرا على الدفاع وعلى إلحاق الهزيمة بالمعتدي أيضا ، بل أكثر من ذلك أنّ لأبننا أصبح في الموقع الذي يستطيع أن يقلب فيه الطاولة على من يعتدي عليه وأن يحوّل التهديد إلى فرصة حقيقية.
عندما تتراجع هذه القوة وتضعف لا سمح الله وعندما تتفكك هذه القوة يمكن لإسرائيل ان تعاود التفكير بالإعتداء والحرب على لبنان والسيطرة على لبنان، لكن ما دام هذا الإيمان وهذه البصيرة وهذه الإرادة قائمة وهذا الثلاثي الذهبي متماسكاً فإن اسرائيل ستبقى واقفة بعجز وغير قادرة على أن تشنّ حرباً، وإذا جاء يوم لتشنّ فيه حرباً ستكون حرب اللاخيار أي المغامرة الأخيرة في حياة هذا الكيان.
إننا في الوقت الذي على مستوى القراءة والتحليل نستبعد فيه حرباً اسرائيلية على لبنان من هذا النوع بمعزل عن أحداث المنطقة، فهذا لا يعني أن ننام، وأنا أود أن أؤكد لكم أنّ هذه المقاومة التي ننتمي إليها لم تنم في يوم من الأيام، منذ عام 82 ومنذ احمد قصير لم تنم إلى عام 2000 عندما كان الإنتصار الكبير في لبنان في 25 أيار، وفي 26 أيار عام 2000 لم تنم هذه المقاومة وإنما بقيت يقظة وتعمل وتحضّر وتجهّز، لأنها تعرف أن بلدها وشعبها في جوار أي عدو، إلى عام 2006 وبعده ومنذ 15 آب 2006 إلى اليوم هذه المقاومة لم تنم.
أعود إلى كلمة لأمير المؤمنين (علي) عليه السلام يقول : "إنّ أخ الحرب اليَقْظَان الأَرِقْ" من كان في جواره عدو محارب، من كان ما زال في حالة حرب، حتى الذين يقولون أنّ لبنان في هدنة لا تعترف فيها إسرائيل يعني هناك حرب، مع العلم أنّ القرار 1701 الذي يُنَادى به حتى اليوم لم تصل فيه إسرائيل إلى وقف إطلاق النار وهناك وقف عمليات (...). المقاومة في لبنان هكذا "يقظان أرق" ، ثمّ يقول عليه السلام "ومن نامَ لم يُنَمْ عنه" حتى لو بعض الناس في لبنان راحوا ناموا، "ليش" الجيش الإسرائيلي نائم !؟ الإسرائيلي منذ العام 2006 لليوم (يعمل على) التدريب والتجهيز والتسليح والتصنيع والمناورات، في قبالنا عدو لم ينم فكيف ننام، "ومن َضعُفَ أُوذي ومن ترك الجهاد كان كالمغبون المهين".
أقول للذين يأسوا ولم ييأسوا يعني هم في داخلهم يأسوا لكن في خطابهم السياسي لم ييأسوا : عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا أن تتخلى عن سلاحها إنما تطالبوننا بأن نكون "المغبون المهين والمغبون الذليل" الذي لم يَسْتَفِد من كل التجارب والذي يسلّم كرامة أهله وشعبه ووطنه لأبشع عدو عرفه التاريخ وهو إسرائيل. لذلك نحن في يوم الشهيد ويوم الشهداء ندعو إلى التمسك بالمقاومة والتمسك بالجيش والتمسك بالإرادة الشعبية لأنها عنصر القوة الحقيقي.
بالوضع الداخلي، أثبتت الحكومة حتى الآن أنّها حكومة تنوّع، حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية وأساسية، حكومة تمثّل غالبية نيابية وغالبية شعبية جديّة، حكومة نقاش وبحث وحوار، ليست حكومة الرأي الواحد ولا حكومة شمولية، حكومة يتناقش أطرافها ويتخذون القرارات "ما بيجييهم "SMS" من أحد لا من (جيفري) فيلتمان ولا من السفارة الفرنسية ولا من دنيس روس الذي "فل" ولا من ذلك الذي لا نحبه ناظر القرار 1559 (تيري رود) لارسن. لا تتلقى إشارات ولا إيحاءات من أحد (بل) حكومة وطنية حقيقية. هذه الحكومة مدعوة اليوم إلى مزيد من العمل والإنجاز وإلى المزيد من الجدية ومتابعة الملفات وأن لا تصغي إلى كل الضجيج الذي يثار من هنا وهناك ويراد إشغالها بقضايا وهمية لا اساس لها.
الأهم ان تعطي الحكومة الأهمية المطلقة لهموم الناس وحاجات الناس المعيشية والإجتماعية والإقتصادية، هناك استحقاقات أمام الحكومة من حسم موضع الحد الأدنى للأجور وموضوع رواتب العمال والقطاع العام والمعلمين، ومسائل تتعلق بالنفط والغاز وهذا استحقاق حقيقي، ونحن نقترب من نهاية العام، موضوع الكهرباء موضوع الماء والضمان الصحي والتعيينات الإدارية، هناك ملفات حساسة ومهمة جدا ولا تحتاج إلى انفاق، يعني مثلا التعيينات الإدارية وأن تصبح الإدارة مكتملة قادرة على الفعل والإنجاز فهذا لا يحتاج إلى أموال وموازنات وضرائب جديدة فهذا خلل حقيقي موجود في البلد اليوم، استكمال الإدارة يوفر الكثير من الأعباء والمصاعب على المواطنين، على سبيل المثال المسارعة إلى تشكيل محافظة بعلبك الهرمل، وتشكيل محافظة عكار، كذلك الإدارات التي لا تقوم بوظائفها وواجباتها تجاه المواطنين بسبب الفراغ الإداري الهائل، هناك عشرات آلاف المطلوبين بمذكرات منذ عشرات السنين وأحيانًا بقضايا بسيطة وتافهة، هذا الأمر يمكن أن يناقش لمعالجته لأنّه حينئذ يخفف عبء على القوى الأمنية، فعندما يطلع مسؤولو قوى الأمن ويقولون لدينا 30 إلى 40 ألف مذكرة توقيف فقط بمحافظة واحدة، يطلع أغلب أسباب مذكرات التوقيف تافهة ويمكن التسامح فيها، معالجة هذا الأمر سواء على عهدة الحكومة أو على عهدة المجلس النيابي من المؤكد يساعد (على حلها).
هناك نوع من القضايا الإنسانية التي يجب مقاربتها في شكل انساني، هناك خطوة أنجزت قبل أيام في مجلس النواب تتعلق بملف "الهاربين" إلى اسرائيل، وكان هناك تفسيرات عديدة وكثيرة ونحن كنّا مِنَ الذين أيّدوا الإقتراح الذي قُدّم في مجلس النواب وكنّا منسجمين مع أنفسنا لأن هذا المعنى والمضمون ورد في التفاهم الموقع بيننا وبين التيار الوطني الحر عام 2006 ونحن نفي بتفاهماتنا واتفاقاتنا، وطبعا الحكومة معنية بالمسارعة إلى إصدار المراسيم ومعالجة هذا الموضوع بالحدود التي تم التصويت عليها في مجلس النواب وخلفية هذه المعالجة هي خلفية انسانية، لكن اسمحوا لي أن أذكّر والبعض يقول لماذا دائما تذكروننا، لأن هناك أناس تحدثوا وعَزُوا سبب هروب الناس لأنّه حدثت مجازر أو خافت من المجازر عام 2000، طبعا يومها كان هناك أناس مضروب على رأسهم لم يعرفوا ماذا يجري لأنّ رهاناتهم خسرت بالإنسحاب يوم 25 أيار عام 2000 ، وهناك أناس لم يكونوا قد خلقوا أو خلقوا وكانوا صغارا. فيحتاجون للتذكير أنه في 25 أيار عام 2000 لم يقتل أحد، أُنجز التحرير ولم يقتل احد لا من جماعة انطوان لحد ولا من المدنيين بل سقط شهداء من المقاومة ولم يُقتل أحد ولم تُرتكب أي مجزرة ولم يهدم أي دار ولا أي مكان للعبادة ولم تنتهك كرامة احد، العملاء الذين تمّ توقيفهم تمّ تسليمهم مباشرة للقضاء اللبناني الذي نعرف كيف تصرف معهم. وأنا أظن أن هؤلاء الذين هربوا إلى إسرائيل وطبعا حقهم كان أن يهربوا لأن المناخ والصورة الذهنية التي كانت سائدة في ذلك الوقت تساعد على هذا الخيار، أَضِفْ إلى أنّ هناك بعضهم يعرفون أعمالهم فطبيعي أن يهربوا، لكن بعد أن شاهدوا المشهد الحضاري الأخلاقي الإنساني كيف تعاطت المقاومة بكل فصائلها وكيف تعاطى أهل الجنوب الذين قُتِلَ أطفالهم واعْتَدِيَ على أعراضهم في معتقل الخيام كيف تعاطوا مع العملاء ومع عائلات العملاء وبعدها كيف تعاطى القضاء اللبناني، أعتقد أنّ كُثُراً منهم ندموا على هروبهم ولكنهم هربوا وأخطأوا. فقط أريد أنّ أذكّر بعض هؤلاء "الأبطال" ـ بين هلالين يعني ـ أنه لم يحصل مجازر ولا قتل ولا اعتداءات وعليهم أن يراجعوا التاريخ، إذا نسوا في 11 عاما ويغيروا التاريخ ـ وطبعا هم كل يوم يغيرون التاريخ ويشوهون الوقائع ـ كان لا بدّ من التذكير به.
الحكومة معنية أن تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها ونساندها باعتبار هذه الحكومة حكومة متنوعة وطنية.
فيما يعني الوضع الأمني، ندعو الجميع إلى الحفاظ على الإستقرار الامني في البلد لأنه شرط أساسي لكل شيء فهو شرط الإقتصاد والإستقرار السياسي والطمأنينة والصحة والعافية، وفي هذا السياق أدعو أيضا بعض الجهات السياسية ووسائل الإعلام إلى عدم تضخيم الأحداث الفردية التي تحصل والتي تحصل في أي مكان من العالم، وأيضا إلى التأكد والتثبت من المعلومات والمعطيات قبل إطلاق تصريحات يتبيّن في ما بعد أن المعلومات مبنية على خطأ ولا أساس لها من الصحة.
في هذا السياق أيضا ندعو إلى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني وطبعا التعاون مع كل القوى الأمنية وتحييدها ما أمكن، ولكن نؤكد على أولوية تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن، وقد أثبتت كل التجارب القاسية والمؤلمة التي مر بها لبنان وشعب لبنان أنه في نهاية المطاف كان ينهار كل شيء ويتقسم كل شيء ويضيع كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص. من يريد أن "يناقر" في السياسة لا بأس "يكمّل مناقرة فينا" وبالحكومة وبالدولة وبمجلس النواب ولكن لندع مؤسسة الجيش جانبا ولنحافظ عليها وعلى موقعها الوطني وصورتها الوطنية لأن هذا هو التصرف بخلفية وطنية.
في موضوع تمويل المحكمة (الدولية)، قلنا أنّ هذا الموضوع يناقش إن شاء الله في مجلس الوزراء ولكن هناك مستجد يسترعي الوقوف عنده قليلا هو ما حصل مع منظمة اليونيسكو، من مفيد أن ينتبه اللبنانيون وأيضا الرأي العام العربي والعالمي إلى هذه النقطة جيدا، منظمة اليونيسكو منظمة دولية تُعْنَى بالشأن الثقافي، اعترفت هذه المنظمة ـ والمصادفة أنه لم يكن فيها حق الفيتو ـ بدولة فلسطين وطبعا بأي دولة فلسطين؟ ليس بدولة فلسطين من البحر إلى النهر بل بقطعة من فلسطين يعني (حدود) الـ 67 أنها دولة وحتى أنه غير معلوم إذا كانت (دولة حدود) الـ 67، دولة فلسطين على الأرض التي ستقام عليها على ضوء المفاوضات لاحقا أو ما يحصل، غضبت أمريكا لأنّ هذه المنظمة الدولية الثقافية أعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وليس كل حقه، فأدانت موقفها وبالتالي هي تدين كل الذين صوّتوا لمصلحة دولة فلسطين ثمّ عملت إجراء وأوقفت التمويل بدون سابق إنذار. اليوم أعلنت اليونيسكو أنها ستجمد جميع برامجها إلى نهاية العام 2011.
هنا ألفت إلى أنّ منظمة اليونيسكو منظمة معترف بها دولياً وهي منظمة دولية ولم تشكّل لا في ظروف "بوشية – شيراكية" ولا بتهريب قانوني او دستوري مثل المحكمة الدولية، ومن جهة أخرى أنّ هذه المنظمة يستمر عملها ويتوقف عملها على هذا التمويل، وهي قامت بأمر محق ومنصف وعادل ويجب أن تكمله، تقوم الإدارة الأميركية بأخذ هذا الموقف. ألم يكن تمويل اليونيسكو التزاماً من قبل الإدارة الأميركية، أليس هذا من التزاماتها الدولية؟ لماذا يَحِل للإدارة الأميركية ويجوز لها أن تتحلّل من التزاماتها الدولية ولا يجوز للبنان لو كان هناك التزام؟ هناك بعض الناس انتبهوا أنّ هذا يؤثر على موضوع المحكمة فقالوا كلاما حمّال أوجه لكن أغلب قوى 14 آذار لم تعلّق على هذا الأمر. من حق أميركا ليس فقط ان تقطع أموال اليونيسكو بل أنّ تخرب وتدمر اليونيسكو لأنها وقفت إلى جانب شعب فلسطين، أما لبنان فلا حق له، وإذا لم يموّل المحكمة غير الدستورية وغير القانونية التي كلنا بتنا نعرف سيرتها وسلوكها وأهدافها ولا داعي للتكرار فيأتي (جيفري) فيلتمان ـ وانظروا إلى الوقاحة ـ بعد القرار الأمريكي بوقف تمويل اليونيسكو يهدد لبنان بعقوبات، هذا يفضح الإدارة الأميركية ويفضح حلفاء أمريكا في العالم ويفضح حلفاء أمريكا في لبنان.
بكل الأحوال، أمام هذه الفضيحة قدّم دولة الرئيس فؤاد السنيورة مخرجا للأميركيين وللحفاظ على اليونيسكو، وعلى ذمة الإعلام أنا أقرأ المكتوب الذي يقول " قدّم الحل الذي يحمي منظمة اليونيسكو من العقاب الأمريكي وناشد الرئيس السنيورة جامعة الدول العربية والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية الصديقة المبادرة إلى جمع وتسديد المبالغ التي كانت ستدفعها الولايات المتحدة وإسرائيل، بهذه الخطوة يمكن ببساطة ـ بحسب السنيورة ـ إحباط الإبتزاز الإسرائيلي والتهويل والضغوط الأمريكية من أجل الهيمنة". الآن (بمعزل) عن إدانة أمريكا أو عدم إدانتها و(فرض) عليها عقوبات وتُقَاطع ويُرفع الإصبع بوجهها هذا له علاقة بالعالم وعقلهم وشجاعتهم ووحدة المعايير أو ازدواجية المعايير، أريد أن أذهب إلى هذا المخرج، الرئيس السنيورة قدّم مخرجاً جميلاً، فليعتمده مع حكومة الرئيس الميقاتي. "حلّوا عن الرئيس الميقاتي وعن حكومة الرئيس الميقاتي"، وناشدوا جامعة الدول العربية ( وهذه المسألة لا تحتاج لذلك) والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية المعنية بتمويل 50 و60 مليون دولار ليدفعوها إلى المحكمة. هناك أمير عربي يستطيع ان يستغني عن بعض الحفلات في لندن او باريس وأن يدفع هذين القرشين، ولنتفادى كل هذا المشكل في البلد ومعركة مفتوحة شهر وشهرين وثلاثة وباتهامات للرئيس ميقاتي، لأن الرجل مقتنع بما يقوله، واتهامات للحكومة وبالويل والثبور وعظائم الأمور وبأن لبنان سيخرّب اقتصاده ويدمر وسيعزَل دوليا. إذا أنتم تحبون لبنان حقاً وحريصون على لبنان وتريدون خلاصه وأمنه فيما نحن "راسنا يابس" وأنتم أناس منفتحون وحواريون هذا مخرج: ما ترضونه لمنظمة اليونيسكو ارتضوه للمحكمة الدولية، رغم ان اليونيسكوا أنصفت قوماً والمحكمة الدولية تعتدي على آخرين، ومع ذلك هذا مخرج يمكن ان تعتمدوا عليه وتتكلوا على الله وتدعوا الرئيس ميقاتي "يعرف ينام".
اليوم الغرفة الأولى أو الثانية في المحكمة مجتمعة وتناقش مسألة المحاكمة الغيابية، أنا لن أعلق على هذا الموضوع لأننا نحن بتنا نتصرف مع هذه المحكمة على أنها غير موجودة ولن نضيع وقتكم.
النقطة الأخيرة في الوضع المحلي أدخل منها باختصار على الوضع الإقليمي، هو توجيه نصيحة في الداخل اللبناني لكل القوى السياسية: تعالوا لنهتم ببلدنا ولنعالج أزماته وملفاته في الحكومة، في مجلس النواب، في طاولة الحوار، في أي مكان شئتم، تعالوا لنعطي أولوية واتركوا الرهان على الخارج وعلى التطورات الإقليمية، لأن البعض في لبنان راهن على التطورات الإقليمية. أنا في خطاب سابق تحدثت عن خمسة رهانات خلال خمس سنوات ولن أعيد. اليوم لا تعذبوا أنفسكم، أقول لكل الذين يؤجلون الملفات او الخيارات او المعالجات او يصنعون آمالاً وأوهاماً على شيء واحد هو سقوط نظام الرئيس بشّار الأسد في سوريا، وأنا أقول لهم: دعوا هذا الرهان جانباً، وأقول لهم أيضاً هذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة فلا تضيعوا اوقاتكم. ارجعوا للتفكير لبنانيا ووطنيا، الغريب أن بعض الناس يرفعون شعار "لبنان أولاً"، إلا في الرهانات يأتي لبنان في الآخر. راهنوا على لبنان أولاً على اللبنانيين أولاً على قدرات لبنان أولاً وعلى عقول وإرادة وحوار اللبنانيين وتعاونهم، فقط هذه نصيحة في الشق المحلي .
في الشق الإقليمي، لا يوجد متسع من الوقت لأتحدث عن كل الوضع الإقليمي والوضع العربي، ولكن الأهم خلال الأيام القليلة الماضية، هو التطور المرتبط بايران وسوريا والتهديدات الإسرائيلية والأميركية والغربية واعادة فتح الملف النووي الإيراني.
شهدنا في الأيام القليلة الماضية تصاعداً في التهديدات والدفع فجأة بدون سابق انذار، طرح بقوة احتمال ان يقوم العدو الإسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية، وصارت الكرة تتدحرج اعلاميا وسياسيا وتصريحات ومواقف وتصاعد التهديد والإحتمالات. طبعا القيادة في الجمهورية الإسلامية في ايران ردّت بشكل حازم وقاطع، وكان السقف الأعلى والأوضح ما قاله بالأمس سماحة الإمام السيد الخامنئي دام ظله الشريف، وما قاله هو عين الواقع والحقيقة، إيران القوية بجيشها بحرسها بتعبئتها بشعبها بوحدتها بإيمانها بعزمها، لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الأساطيل، وعندما جاءت الأساطيل الأميركية والجيوش الأميركية واحتلت كل المنطقة في محيط ايران، حيث تتواجد اليوم القوات الأميركية في باكستان وافغانستان والعراق وتركيا والخليج ودول الخليج ومياه الخليج، ولكن مع ذلك لم تضعف إيران ولم تتراجع عزيمتها ولم تخضع للشروط ولم تنجر إلى مفاوضات مباشرة مع الأميركيين، فلا التهويل ولا الأساطيل يمكن ان تمسّ بإرداة وعزيمة وقرار القيادة والشعب في ايران، وهذا أمر محسوم.
تعالوا نتحدث عن الحدث قليلاً، هل يمكن أن تذهب الأمور في هذا الاتجاه وكيف نفهم ما يحصل؟ إذا عدنا قليلاً إلى الخلفيات، وهنا نريد أن أتحدث عن ايران وسوريا سوياً، يجب ان لا يغيب عن بالنا أولاً انه منذ اليوم إلى آخر السنة، هناك انسحاب أميركي من العراق، وهزيمة كبيرة للمشروع الأميركي.
في عام 2000 خرج أناس وقالوا إن المقاومة في لبنان لم تنتصر وإنما إسرائيل انسحبت وهذا اتفاق تحت الطاولة (كلام بلا طعمة)، سيخرج الآن أيضاَ من يقول إن أميركا أخذت قراراً بأن تخرج؟! أمريكا التي جاءت وتحملت هذا الحجم الهائل من الخسائر البشرية والمالية والاقتصادية، هذا الانهيار القوي في اقتصادها وماليتها هل من المعقول أنها وبهذه البساطة خارجة من العراق! الجواب أكيد لا. أمريكا الخارجة من العراق، المهزومة في العراق، يجب أن تفعل شيئاً ما. أولاً، أي دولة عادة تقوم بانسحاب، هناك أناس ينسحبون تحت النار الحقيقية، لكن أميركا غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية، لذا تريد ان تعمل دخاناً وغباراً وضباباً وأن تنسحب تحت النار السياسية والإعلامية، وهذا اسمه تهويل على المنطقة وحرب في المنطقة واعتداء على ايران وسوريا حتى يصبح اهتمام العالم كله والمنطقة كلها وشعوبها مركزاً على هذا النوع من التوقعات والأحداث، ويصبح خبر الإنسحاب الأميركي والهزيمة الأميركية في العراق خبراً عادياً بل مغفولاً عنه ولا يبقى في صدارة الأحداث. وهنا مسؤولية القيادات السياسية والجهات الإعلامية كلها أن تسلط الضوء على هذا الإنسحاب وعلى هذه الهزيمة لأن لها آثار ونتائج استراتيجية وتاريخية على كل صعيد معنوي ونفسي وسياسي وعسكري على منطقتنا ومستقبل منطقتنا.
ثانياً، من الطبيعي ان تقوم الإدارة الأميركية في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في إلحاق الهزيمة بها وبمشروعها في العراق، ولا أحد يختلف على أن الدولتين اللتين وقفتا في وجه الإحتلال الأميركي للعراق وعارضتا ودعمتا الشعب العراقي والمقاومة في العراق وصمود الشعب العراقي ولم تستسلما لشروط لا كولن باول ولا من جاء بعده، هما إيران وسوريا. في لحظة الهزيمة والأسى والفشل الأميركي، أمريكا تريد أن تقول لإيران وسوريا لا تفرحوا أنكم حققتم انجازاً أنتم ستبقون تحت الضغط والتهويل والسيف، والعصا سوف تبقى مشرّعة في وجوهكم، هذا أمر طبيعي من أميركا. تصوروا أن الولايات المتحدة الأميركية ستخرج من العراق وتعترف بهزيمتها، رغم أن الجمهوريين في أمريكا قالوا إنها هزيمة كبرى، ثم يسمح لإيران ولسوريا ولشعوب المنطقة ولكل الذين أيّدوا الشعب العراقي والمقاومة العراقية بالاحتفال بهذا النصر التاريخي.
الأمر الثالث الذي يجب الانتباه إليه، أن التحولات التي حصلت في منطقتنا، طبعاً، هناك خلاف بين النخب ومحللي الأحداث وقارئيها حول فهم وقراءة الأمور التي تحصل في منطقتنا، لكن بمعزل عن كل القراءات، هناك قدر متيقن، فلا شك بأن سقوط نظام زين العابدين بن علي هو خسارة للمشروع الأميركي وللحضور الأميركي الغربي في منطقتنا، سقوط نظام القذافي خسارة، سقوط نظام حسني مبارك هو الخسارة العظمى لأمريكا وإسرائيل؟ إذاً، هناك تحولات في المنطقة ليست لمصلحة أمريكا وإسرائيل، لكن لاحقاً هل تستطيع أن تعيد هذه الأنظمة لمصلحتها فهذا بحث آخر. لكن في مسار التحولات الكبرى في المنطقة، من الواضح ان محور المقاومة والممانعة والرفض لإسرائيل ولمشاريع الهيمنة كان يقوى ويكبر، وهذا سيتيح لإيران ولسوريا ان تحصلا على حلفاء جدد وأنصار جدد وأعضاء جدد في هذا المحور، وهذا يمكن ان يعني المزيد من النفوذ والحضور والفعالية.
وللتعويض عن خسارة أميركا في مصر وتونس وليبيا وخصوصا في مصر، يجب ان ينتقل بسوريا وبايران إلى موقع دفاعي، والإنشغال بذاتها ووضعها وأمنها واقتصادها.
الأمر الرابع والأخير هو، إن اميركا تريد اخضاع ايران وسوريا وجر إيران إلى التفاوض المباشر مع الولايات المتحدة الأميركية، أما الحديث عن مفاوضات جماعية فإيران لم ترفض هذا في يوم من الأيام مع ألأمم المتحدة، ولكن المفاوضات الثنائية المباشرة، إيران كانت ترفضها وما زالت ترفضها، المطلوب الإخضاع وجر إيران إلى طاولة المفاوضات، المطلوب إخضاع سوريا لتقبل ما لم تكن تقبله في الماضي، هذا هو الهدف الحقيقي، بناءً على هذه الخلفيات وإذا أضفنا إليها وقائع، وقائع لها علاقة حالياً بالوضع المالي والاقتصادي في أوروبا، فإيطاليا تلحق باليونان، والبرتغال يلحق بإيطاليا، والدول تلحق بعضها البعض.
رئيسة صندوق النقد الدولي أمس تحدثت بوضوح أن الاقتصاد العالمي في خطر، الوضع المالي والاقتصادي في أمريكا كارثي وصعب جداً، تصوروا عندما يقف أحد مرشحي الحزب الجمهوري للانتخابات الرئاسية الأميركية، من المفترض أن يفتش عن شعارات شعبية أو أن يبحث عن اللوبي اليهودي الصهيوني ليدعمه، وقف وقال إن برنامجه وقف المساعدات الأميركية الخارجية كلها بما فيها المساعدات لإسرائيل، هذا يؤشر على صعوبة الوضع المالي الاقتصادي في الولايات المتحدة الأميركية، هذا من جهة، ومن جهة ثانية إيران قوية وصلبة ومقتدرة وموحدة ولديها قائد لا مثيل له في هذا العالم، إيران سترد الصاع صاعين، فمَن يجرؤ ان يشنّ حربا على ايران؟ اليوم وزير الدفاع الأميركي "دعس فرامات ورجع خليفاني" وبداً يتحدث بشكل عاقل وأن هذا الوضع يؤدي إلى توتر في المنطقة وأن جنودنا وقواعدنا موجودة في منطقة الخليج ولا أدري إلى أين تجر المنطقة ؟ اذا عليهم ان يفهموا وهم يفهمون جيدا. عليهم ان يفهموا جيداً ان الحرب على ايران وأن الحرب على سوريا لن تبقيا في ايران ولا في سوريا وإنما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة بأكملها. وهذه حسابات حقيقية وواقعية، لا نحن نهدد ولا احد يهدد. لنضع التهديدات جانباً ولا يتخذ أحد مواقف مسبقة، لكن هذا هو الواقع، هذا هو واقع الحال، واليوم أكثر من أي زمن مضى، الدول العربية والإسلامية وحكوماتها وشعوبها معنية بان تتخذ موقفا. انظروا إلى الصلف والوقاحة، إسرائيل التي تملك رؤوساً نووية عسكرية تطالب العالم بالضغط على ايران وتهدد إيران بضرب منشآت نووية سلمية. فما هو سبب هذه الوقاحة وهذا الاستكبار هو أحياناً الاحساس بضعف الآخر بوهن الآخر بانقسام الآخر ، نحن نقول لهم : هذا الرهان على الضعف وعلى الوهن هذا رهان خاسر. زمن الوهن والضعف والتراجع أمام العدو الإسرائيلي أمام العدوان الأميركي، هذا
72:21
|
[ARABIC] 7 FEB 2012 كلمة السيد حسن نصر الله Sayyed Hasan Nasrallah
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف...
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف واسبوع الوحدة الاسلامية في مجمع سيد الشهداء في الضاحية الجنوبية بالترحيب والمباركة للجميع ومن ثم تحدث عن معجزة النبي محمد(ص) وكيف صنع أمة، ومن بعدها تحدث سماحته عن موضوع الوحدة الإسلامية وما تواجهه، واشار إلى موضوع التحريض في ما يسمى المدّ الشيعي ومن ثم إنتقل للحديث عن موضوع الدعم الإيراني لحزب الله ، معتبرا أنه يتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل اشكاله وبدون أملاءات ،كما تطرق سماحته إلى موضوع إتهام الحزب بغسيل الأموال وقال إننا لا نغسل أموالا ولا نغطي ولا نسامح في هذا الموضوع.
وفي الموضوع السوري إعتبر السيد نصر الله أن هناك الكثير من التهويل، مشيرا إلى ان النظام القائم في سورية لديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي لافتا إلى وجود قرار غربي عربي لإسقاط النظام والمطلوب هو رأس المقاومة، ورأى سماحته ان طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر، ومن بعدها تطرق سماحته الى موضوع الحكومة اللبنانية معتبرا انه ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان .
بداية تحدث السيد نصر الله عن "معجزة النبي الكبرى والتي استطاع بها أن يصنع هذه الأمة وأن يوجد هذا التحول وهذه المعجزة التي يمكن اللجوء إليها واللوذ بها والاستعانة بها لايقاظ أمة من جديد لاستنهاض الأمة وقيام الأمة من جديد لاحداث ذلك التحول الفكري والايماني والعقائدي والاجتماعي والروحي والمعنوي والتربوي والثقافي من جديد هو كتاب الله سبحانه وتعالى وهو القرآن الكريم هذا القرآن المعجزة الخالدة ببلاغته ومضمونه وهو الذي نزل على قلب نبي أمي في مجتمع أمي ومعجزة هذا القرآن أيضاً لجهة استمراره في التحدي طوال كل هذه القرون".
واضاف سماحته أن" الرسول استطاع أن يصنع أمة عظيمة وحضارة كبرى ولكن من أي شيء وهو الذي انطلق وقام وبعث في جزيرة العرب شبه الجزيرة العربية من شعب كان يسوده الجهل والأمية والجاهلية والخرافات وعبادة الأوثان والأصنام والتمزق والعصبيات القبلية والعشائرية والعائلية والاقتتال وغياب أي جامع مركزي من دين أو قضية أو قيادة أو مشروع أو ثقافة".
وتابع سماحته أنه" ومن الواقع السيء المنحط فكريا ودينيا وأخلاقيا وإنسانيا إلى الحد الذي كان يئد فيه الأب ابنته فقط لأنها أنثى استطاع النبي أن يصنع أمة وهذه هي المعجزة أمة مؤمنة أمة أخلاق أمة قيم أمة حضارة أمة استطاعت أيضاً أن تدخل التاريخ من بابه الواسع وخلال عقود قليلة أمة كان لها ولا زال تاريخها وحضورها وتأثيرها في العالم".
وأشار السيد نصر الله إلى أننا"بعد 1400 سنة يصل إلى أجيالنا الحاضرة القرآن مصونا مصانا محفوظا من أي زيادة أو نقصان أو تحريف أو تزوير أليست هذه معجزة الهية واضحة للعيان".
واعتبر سماحته أن"أساس هذا القرآن وهذا الدين الذي جاء به محمد يا اخواني وأخواتي هو الدعوة إلى التوحيد وإلى الوحدة إلى توحيد الخالق وإلى الوحدة بين بين الناس بين عباد الخالق الواحد الذين يجمعهم أنهم خلق الله سبحانه وتعالى فالناس صنفان إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق هذا هو خطاب ديننا والتزامنا".
ومن ثم بدأ سماحته بالعنوان الأول وهو الوحدة الاسلامية واعتبر أنه يجب التنبه والتثبت من المعلومات والحقائق في زمن كثرت فيه المحن ".
وأضاف سماحته " لا يجوز أن نبني على كل ما يقال في وسائل الاعلام ونحن نشهد خصوصاً في السنوات الأخيرة مرحلة عجيبة غريبة قد لا يكون لها مثيل أو نظير في التاريخ يعني ينسبون لجهات مواقف أصلا لم تصدر عنها ثم يبنى عليها مواقف وتحليلات وعداوات وحروب يخترع ويختلق أحداث ووقائع ويطلب اتخاذ مواقف على أساس أحداث لم تحدث ووقائع لم تقع إنما فبركت وزورت ووضعت وهذا يجري الآن في كل ساعة وفي كل دقيقة وإذا كان الانسان يريد أن ينفي فقط لا يعمل شيئا سوى إصدار بيانات النفي".
ولفت سماحته إلى أنه يجب على الانسان أن يعرف كيف يبني موقفا ويجب أن يتأكد من المعلومات والوقائع دون الوقوع في جو الأكاذيب والشائعات التي يستخدم لها اليوم أقوى وأهم مؤسسات رأي عام في العالم ".
واعتبر السيد نصر الله أنه عندما نتحدث عن موضوع الوحدة الاسلامية طبعا هذا مشروع عمل له الكثيرون خلال مئات السنين وحتى قبل انتصار الثورة الاسلامية في إيران وقبل الامام الخميني(قدس) لكن مما لا شك فيه أن انتصار هذه الثورة بقيادة الامام سنة 1979 وقيام دولة بأهمية وسعة وقوة الجمهورية الاسلامية وتبني قيادة هذه الجمهورية لهذا الهدف لهذا المشروع لهذا الشعار وعملت له طوال سنين على المستوى المؤسساتي والاعلامي والفكري أعطى دفعا خاصا لفكرة ومشروع الوحدة الاسلامية".
وأوضح سماحته أنه" لم يكن يوما المقصود ان يتم تذويب المذاهب الاسلامية في مذهب واحد أو أن يصبح المسلمون جميعا أتباع مذهب واحد على الاطلاق".
التحريض في موضوع ما يسمى المد الشيعي
وفي موضوع ما يسمى حركة التشيع والمد الشيعي في المنطقة قال سماحته إنه"لم يكن مطروحا أبدا أن يصبح الشيعة سنة أو يصبح السنة شيعة وهذا مجرد اوهام للتحريض". وأضاف أنه"على المسلمين أن يقتربوا من بعض أن يتعارفوا أن يتحادثوا أن يبحثوا عن مصالحهم الكبرى كأمة وأن يتحابوا ويتعاونوا لخدمة هذه الأهداف والمصالح الكبرى وليس مطلوبا أكثر من ذلك لا أن يتنازل أحد لأحد على مستوى التفاصيل العقائدية ولا على مستوى الفروع الفقهية".
وأضاف سماحته"بطبيعة الحال المستكبرون والمستعمرون والمحتلون ليس لهم مصلحة في أن تجتمع كلمة هذه الأمة وتتعاون على قاعدة فرق تسد ولذلك لن يسمحوا بذلك لأن سيطرة هذه القوى الكبرى على النفط والغاز والمقدسات".
وأشار السيد إلى انه"المسألة بالنسبة لأميركا ليست مذهب الحاكم ولا دينه إنما موقعه السياسي وأداؤه السياسي وولاؤه السياسي ".
وأضاف سماحته" ذنب إيران أنها أسقطت الشاه وأعادت التوازن للأمة بعد خروج مصر في كامب دايفيد واستمرت الحرب على إيران 8 سنوات وكانت مدعومة أميركياً وغربياً وللاسف الشديد أغلب الدول العربية دعمتها وبعض الدول العربية الغنية أنفقت مليارات الدولارات على هذه الحرب هذه المليارات الممنوعة والمحجوبة عن فلسطين وهذه الأموال المحجوبة عن فصائل المقاومة الفلسطينية التي تريد بحق أن تستعيد أرضها ومقدسات الأمة ولكنها أنفقت لتمويل الحرب على دولة إسلامية فتية رفعت شعار فلسطين والزحف نحو القدس وكان لهذه الحرب الأثر الكبير على مشروع الوحدة في الأمة وكان هناك تداعيات خطيرة".
وتابع سماحته"بعد فشل الحرب وذهاب أماني إسقاط نظام الجمهورية الاسلامية في إيران أدراج الرياح بدأ البحث عن طريقة أخرى للحؤول دون تلاقي المسلمين في هذه الأمة وكل شعوب أمتنا تريد الكرامة والعزة والاستقلال،و بعد الحرب ذهبوا لموضوع الفتنة المذهبية واختراع ما أسموه المد الايراني والمد الشيعي وهذا الآن هو مادة الحرب الناعمة التي تستخدمها اميركا والغرب في مواجهة الأمة".
وأضاف"التهمة هي أن إيران تقوم بانشاء مد شيعي في العالم الاسلامي وأنها تريد أن تشيّع السنّة في العالم الاسلامي أي أن إيران تريد تشييع مليار ونصف مسلم بالحد الأدنى ولذلك يتم الحديث عن خطر داهم اسمه المد الشيعي وهذا عمل الشياطين لا يستند إلى أي وقائع أو حقائق".
وأوضح سماحته أنه في الموضوع الديني لا أساس للمد الشيعي من الصحة ولكن نعم هناك من يروج له وأنا سأقول بعض التفاصيل مثلا في مصر التقيت مع شخصيات كبيرة وقد صدقت ان هناك حركة مد كبيرة وان ايران تقودها وان التشيع وصل لحد 5 مليون".
وتابع سماحته"أنا شخص منفتح وأعرف كبار العلماء والشخصيات من السنة في سورية وألتقي بهم وهذا شرف لي ولكن بعضهم فعلا أجرى معي نقاشا تفصيليا وقال إن هناك حركة تشييع كبرى في سورية وان نظام الرئيس الاسد متهم بدعم هذه الحركة وحتى الآن تشيع في سورية 6 مليون وبالفعل مستشار أحد الملوك العرب فاتحني بهذا الموضوع وقال لي إن تقارير قدمت لبعض الملوك حول ذلك الأمر".
واضاف" ذهبت إلى الشام في ذلك الحين والتقيت مع المسؤولين وحتى مع جهات أمنية وطلبت القيام بدراسة للعثور على هؤلاء الملايين الستة ولكن لا شيء حصل ولم نر ولا حتى 1000 ولا 500 هناك حالات فردية تحصل أينما كان حيث هناك شباب سنّة تشيعوا والعكس صحيح أيضاً لكن لا شيء اسمه مد شيعي ومد سني على الإطلاق".
وأردف سماحته بالقول"هناك قيادات دينية كبيرة مقتنعة بهذا الكلام إلى حد أن إحدى المرجعيات الدينية الكبرى في العالم الاسلامية قدم لها تقرير وصدقت مضمونه وأنه لقد تشيع خلال 33 سنة من انتصار الثورة الى اليوم تشيع 50 مليون سني وهذا شيء مضحك بالفعل".
وتابع سماحته"أقول لكم اليوم في ذكرى ولادة رسول الله محمد (ص) نحن مسلمون شيعة لعلي بن أبي طالب (ع) أتباع مذهب الامام جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام نحن نؤمن بأنّ أتباع المذاهب الاسلامية الأخرى كلها هم مسلمون لنا ما لهم وعلينا ما عليهم وكل مسلم يملك الحرية الكاملة في أن يتبع المذهب الذي يريد ونحن كما قال الامام الخامنئي(قدس) ليس لدى أحد منا مشروع الدعوة إلى التشيع وتحويل أي سني إلى شيعي و بكل وضوح هذا ليس برنامجنا ولا هدفنا ".
وتمنى سماحته أن"نصل بهذه النقطة إلى مكان حاسم وأن لا يسمح أي منا خصوصاً في وسط إخواننا أهل السنة لأحد أن يزرع كذبا أو فتنة من هذا النوع وكنت أقول للجهات الفلسطينية ولاخواننا في معسكرات التدريب أن التدريب هو عسكري أما الثقافة فتعود لهم وللجهة التي ينتمون إليها ونرفض فتح أي باب لأي شبهة من هذا النوع".
واعتبر سماحته أنه"نحن كحركة إسلامية في لبنان عندما نتحدث عن تعاون وطني بين المسلمين والمسيحيين وعن ضرورة بناء دولة وطنية في لبنان يشارك فيها الجميع يتمثل فيها الجميع تخدم مصالح الجميع تحمي الجميع نحن لا نتكلم سياسة بل ننطلق من أصولنا الدينية العقائدية الفقهية وهذا ليس تكتيكا سياسياً".
وأضاف سماحته"كل علمائنا من السيد موسى الصدر والسيد محمد حسين فضل الله والسيد محمد مهدي شمس الدين ومراجعنا اليوم يتفقون على ذلك ونحن في حزب الله لا يمكن ان نشارك في الانتخابات النيابية او الحكومة اذا لم يكن هناك مسوغ ديني أو شرعي وهذا موقف فقهي نحن معنيون به وبالتالي انتماؤنا الديني لا يمكن أن يشكل حائلا دون أن نبني دولة سويا وان يكون مجتمعنا متعاونا".
التحريض على مواقف سابقة
وأشار سماحته إلى انه "بعض الناس من أجل التحريض ينطلقون من مواقف أخذت في الـ82 والـ83 أننا نريد إقامة جمهورية إسلامية وهذا صحيح لقد خطبنا بذلك في بداية الثمانينات لكن أريد أن أذكر القيادات المسيحية اليوم التي تتحدث بالتعايش والسلم الأهلي كيف كانوا يتحدثون يومها بالوطن المسيحي والتقسيم والفدرالية!؟".
وأضاف "حزب الله منذ أكثر من 20 سنة خطابه السياسي واضحاً وهذه قناعاتنا التي نشخصها ونرى أنها مصلحة شعبنا في لبنان من كل الطوائف".
نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله من إيران
وتابع سماحته "على خلفية كلام السيد القائد يوم الجمعة والذي قال فيه بصراحة إن الجمهورية الاسلامية تقدم الدعم لحركات المقاومة في لبنان وفلسطين ولا تريد شيئا مقابل هذا الدعم وإنما تؤدي واجبا شرعيا بهذا الوضوح أستطيع أن أقول من أعلى سلطة في الجمهورية الاسلامية لاول مرة يصدر بهذا الوضوح الشديد وأنا سأبني عليه لمعالجة العديد من المسائل المطروحة ".
وقال سماحته"نعم نحن في حزب الله نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله الممكنة والمتاحة من الجمهورية الاسلامية في إيران منذ عام 1982" .
وأردف قائلا "هذا الدعم الذي قدم منذ البداية هو مفخرة الجمهورية الاسلامية في إيران لأن هذه المقاومة في لبنان التي حققت أكبر وأهم وأوضح انتصار عربي على إسرائيل في 25 أيار 2000 ما كان هذا الانتصار ليتحقق لولا هذا الدعم المعنوي والمادي والمادي الايراني لحركة المقاومة في لبنان هذا الانتصار الذي تحقق بلا قيد ولا شرط تحقق بدعم إيراني وطبعا كان لسورية دور كبير لكن أتحدث الآن عن إيران".
وتابع سماحته"إن حركة المقاومة التي صمدت وانتصرت في حرب تموز ما كانت لتصمد وتنتصر أيضاً لولا هذا الدعم الايراني وحركة المقاومة في فلسطين هي المعنية تتحدث عن نفسها وسواء تحدثت ام لم تتحدث فهذا شأنها".
ووجه السيد نصر الله الشكر للمسؤولين في إيران الذين يدفعون أثمانا باهظة لوقوفهم إلى جانب فلسطين ولبنان واذا باعت ايران فلسطين اليوم كل شيء يحل فمشكلة أميركا ليست الديمقراطية بل النفط وإسرائيل".
نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح
وأشار سماحته إلى أنه"من آثار هذا الكلام أن أوضح أيضا في الموضوع المالي والمادي ففي كل مدة يطلون عبر وسائل الاعلام ليتحدثوا عن شبكات المخدرات في أميركا وأوروبا وأفريقيا وأن حزب الله يدير هذه الشبكات وهي التي تمول أنشطته وكنا دائما ننفي هذا الموضوع وأنا أضيف أن تجارة المخدرات بالنسبة إلينا حرام وأيضاً أغنانا الله بدولته الاسلامية في إيران عن أي فلس في العالم حلال أو حرام".
وأضاف سماحته "نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح ولا نقبل بهذا الأمر وبعض ما هو حلال ومباح من الناحية الفقهية لا نقوم به كالتجارة فنحن في حزب الله ليس لدينا أي مشروع تجاري اليوم لا في الداخل ولا في الخارج وقد ألغينا وصفّينا مشاريعنا التجارية التي نفذناها في الفترة السابقة".
وأوضح سماحته أنه" نحن في قيادة حزب الله نؤمن أن أي حركة جهادية أو حزب سياسي تقوم بالتجارة إذا اضطرت ولكن من نتائج ذلك الفساد والافساد ولذلك لدينا مشكلة مع هذا الموضوع وحتى موضوع التبرعات أنا أقول أنني لا أقبل أن يدق أحد أبواب العالم لدينا من المال والسلاح والعتاد ما يكفي للقيام بواجبنا لكن تركنا هيئة دعم المقاومة الاسلامية لاجل من يريد أن يشارك خصوصا أن هناك ما يسمى الجهاد بالمال".
لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم
وأضاف سماحته "نحن قادرون على القيام بمشروعنا المقاوم دفاعا عن لبنان ولسنا بحاجة لأي مشروع حلال أو حرام ".
وتابع" منذ الـ82 الى اليوم لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم كما يزعم البعض وقد ذكرت سابقا هذا الموضوع على طاولة الحوار حين كانت برئاسة دولة الرئيس الاستاذ نبيه بري وطلبت ان ياتوا لي بمثل واحد لعمل قام به حزب الله لخدمة مصالح الجمهورية الاسلامية ولم يستطع أحد أن يأتي بمثل واحد وبعد نصف ساعة تذكر واحد موضوع الرهائن وهو موضوع كان له علاقة بمعتقلين لبنانيين لا علاقة له بايران ومصالح ايران".
واعتبر السيد أنه"حتى في ما يتعلق بالتطورات الآتية في المنطقة وهناك تحليل ان اسرائيل اذا قامت بقصف المنشآت النووية الايرانية ماذا يمكن ان يحصل وأنا أقول لكم في ذلك اليوم الذي أستبعده أقول لكم القيادة الايرانية لن تطلب شيئا من حزب الله ولم ترغب بشيء لكن اقول في ذلك اليوم نحن الذين علينا أن نجلس ونفكر ونقرر ماذا نفعل".
واكد سماحته أنه"على كل أبناء المقاومة مجاهدي المقاومة جمهورية المقاومة ان يواجهوا هذه الجمهورية وهذا النظام بالشكر والتقدير والاحترام على هذا الموقف وهذا الدعم".
هناك الكثير من التهويل في الموضوع السوري
وبلغة الدقة والوضوح انتقل السيد نصر لله الى الموضوع السوري حيث قال إن" هناك الكثير من التهويل على هذا الصعيد علينا وعلى غيرنا وأنا أقول لا كثرة التهويل ولا قلة التهويل يمكن أن تنال من موقفنا المبني على رؤية ومن يريد أن يعمل على قلبنا وأعصابنا فهو يراهن على سراب في أي موضوع من الموضوعات وقلبنا في ما نراه حق لا يمكن أن يهزه شيء حتى لو وقف العالم كله في وجهنا ".
ورجع السيد للملاحظة التي قالها في البداية عن التدقيق بالمعطيات وقال" قبل مدة خرجت بعض الفضائيات العربية بخبر عاجل عن جهة معارضة سورية أن حزب الله قصف الزبداني بالكاتيوشا باعتبار أن هناك شخص يأكل (ساندويش) وهو مخبأ وتمر القصة وفي ذلك الوقت لم يكن هناك شيء نهائيا وفي اليوم التالي حزب الله يهاجم الزبداني وتتصدى له الجماعات المسلحة وأن جثث قتلى حزب الله تملأ الطرقات ولم يدلنا أحد على هذه الجثث وهذا مثل عن مقاربة الاعلام للموضوع السوري".
وأضاف " يوم اجتماع مجلس الأمن بدأوا بالحديث عن أن حمص (ولعانة) وهذا يجعل أي شخص ينقز ونحن لدينا موقف سياسي واضح لكن أمام هذا المشهد لا يمكن لأحد إلا أن يتأثر وبعد التدقيق تبين أن لا شيء في حمص وتوقيت الخبر وهذا الضخ قبيل جلسة مجلس الأمن ليس مبنيا على وقائع بل تسخير للاعلام في إطار معركة تريد تحقيق هدفها بالحلال والحرام وبأي شكل من الأشكال ".
النظام قائم في سورية ولديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي
واعتبر سماحته أن "هناك نظام ما زال قائما لديه دستور والجيش مع هذا النظام وحتى الآن بحسب معلوماتنا لا يزال واقفا مع هذا النظام وهناك شريحة كبيرة من الناس تعبر عن تأييدها للنظام وتتظاهر في الشوارع وبالتالي فافتراض أن هذا النظام معزول شعبيا غير صحيح".
وتطرق سماحته إلى ما كتبته بعض الصحف اللبنانية أن هؤلاء الذين احتشدوا في ساحة الأمويون عشرات الآلاف أتى بهم حزب فاعل في الأكثرية أي حزب الله لكن نسأل هناك عشرات الآلاف ذهبوا عن طريق المصنع ولم يشعر بهم أحد إلا جريدة لبنانية معيّنة ؟!
وتابع "هناك جزء من الشعب السوري ما يزال مع النظام وهناك في المقابل معارضة بعضها سياسي وبعضها شعبي وبعضها مسلح وإن باتت تطغى الصبغة المسلحة وهناك مواجهات مسلحة في عدد من المناطق السورية وهذا أمر مسلح وهناك أيضا جزء كبير من سورية ينعم باستقرار".
هناك قرار غربي عربي على إسقاط النظام في سورية
وأضاف سماحته"خارج سورية هناك قرار أميركي إسرائيلي غربي عربي على مستوى دول الاعتدال العربي باسقاط النظام في سورية وهذا لا نقاش فيه وقد رأيناه بأم العين وقبل أسابيع قام موظف اسرائيلي بتحليل شخصي يظهر منه أنه يدافع عن نظام الأسد فلم يبقى أحد في 14 آذار إلا وتحدث عن الموضوع ولكن اليوم هناك شبه اجماع اسرائيلي على وجوب اسقاط نظام الاسد اين 14 آذار لماذا بلعوا لساناتهم هل لأن المشهد تغير؟".
وتابع سماحته "المطلوب اسقاط النظام للاتيان بنظام بديل وبعض الاصدقاء المشتركين قالوا لنا ان لا نقلق وان النظام الجديد سيدعم المقاومة وهذا قيل ويقال في الكواليس لكننا لا نورّط نفسنا بهذا الموقف بل نحن منسجمون مع أنفسنا".
المطلوب في سورية هو رأس المقاومة
واعتبر سماحته أن" المطلوب في سورية هو رأس المقاومة في لبنان وفلسطين ورأس القضية الفلسطينية ورأس الشعب الفلسطيني وهذه هي الحقيقة".
وأشار السيد نصر الله إلى ان" القيادة السورية موافقة على معظم الاصلاحات التي طلبت والقيادة جاهزة للحوار والآن يقولون فات الأوان، كيف فات الأوان وهناك حرب في سورية وهناك من يدفع سورية لحرب أهلية؟ الآن الجماعات المسلحة تقتل من أبناء الطوائف وقتلت من السنّة السوريين أكثر مما قتلت من الطوائف الأخرى وغير صحيح أن الحرب في سورية طائفية وإن كانوا يدفعون نحو حرب أهلية، من يحرص على سورية لا يقول فات الأوان بل يذهب إلى الحوار دون شروط لا بشرط تنحي الرئيس".
طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر
وسأل السيد نصر الله "هل إقفال الباب حرص على الشعب السوري وعلى قيادة سوريا وهل يخدم القضية الفلسطينية؟ هذا السلوك من يخدم؟ أنا أقول ما أقول الآن لله عز وجل وهذه وقائع ومعطيات بمعزل عن التفاصيل التي لا يجب أن نغرق فيها لكي لا نذهب للمزيد من القتل وسفك الدماء، طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سوريا والرهان على أميركا هو رهان خاسر بطبيعة الحال وهذا هو موقفنا ونرى فيه مصلحة سورية وشعب سورية ومصلحة لبنان وشعب لبنان وفلسطين وشعب فلسطين بمعزل عن الاحقاد الشخصية أو الفئوية التي ينطلق منها بعض الناس".
الحركات الإسلامية امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة
وفي موضوع الحركات الإسلامية التي فازت في الانتخابات في المنطقة العربية إعتبر سماحته أنها امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة وهي مستهدَفة لان الاميركيين يسعون لجعلها تفشل وهذا يحتاج لكلام كثير لكن بعض القيادات الاسلامية اليوم وأنا أعرفهم جيدا وهم أصدقائي الآن ونظرا للظروف السياسية في بلدانهم لا يأخذون مواقف واضحة في القضية القومية وفي الموضوع الاسرائيلي بل أحيانا قد تصدر عنهم مواقف ملتبسة وعندما نراجع ونناقش يقال لنا انه يجب تفهم تلك الظروف".
حريصون على إستمرار الحكومة
وفي موضوع الحكومة اللبنانية قال سماحته "نحن حريصون على استمرار الحكومة وليس مطلوبا وساطة فمعالجة الازمة مسؤولية الجميع واقول لمن بدأوا يجهزوا "جاكيتاتهم وكرافاتاتهم" للحكومة الجديدة لا حكومة جديدة وهذه الحكومة ستستمر علما أنها ليست حكومة حزب الله".
وأضاف " هذه الحكومة بمعزل عن توصيفها حتى الآن هي أساس استقرار في البلد ويجب أن نجهد لتنجز شيئا والوقت الآن ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان وعلينا بتعاوننا واخلاصنا وانفتاحنا ان نتجاوز هذه المرحلة الصعبة ان شاء الله".
المصدر: قناة المنار
07-02-2012 - 12:47 آخر تحديث 07-02-2012 - 23:48 | 14106 قراءة
More...
Description:
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف واسبوع الوحدة الاسلامية في مجمع سيد الشهداء في الضاحية الجنوبية بالترحيب والمباركة للجميع ومن ثم تحدث عن معجزة النبي محمد(ص) وكيف صنع أمة، ومن بعدها تحدث سماحته عن موضوع الوحدة الإسلامية وما تواجهه، واشار إلى موضوع التحريض في ما يسمى المدّ الشيعي ومن ثم إنتقل للحديث عن موضوع الدعم الإيراني لحزب الله ، معتبرا أنه يتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل اشكاله وبدون أملاءات ،كما تطرق سماحته إلى موضوع إتهام الحزب بغسيل الأموال وقال إننا لا نغسل أموالا ولا نغطي ولا نسامح في هذا الموضوع.
وفي الموضوع السوري إعتبر السيد نصر الله أن هناك الكثير من التهويل، مشيرا إلى ان النظام القائم في سورية لديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي لافتا إلى وجود قرار غربي عربي لإسقاط النظام والمطلوب هو رأس المقاومة، ورأى سماحته ان طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر، ومن بعدها تطرق سماحته الى موضوع الحكومة اللبنانية معتبرا انه ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان .
بداية تحدث السيد نصر الله عن "معجزة النبي الكبرى والتي استطاع بها أن يصنع هذه الأمة وأن يوجد هذا التحول وهذه المعجزة التي يمكن اللجوء إليها واللوذ بها والاستعانة بها لايقاظ أمة من جديد لاستنهاض الأمة وقيام الأمة من جديد لاحداث ذلك التحول الفكري والايماني والعقائدي والاجتماعي والروحي والمعنوي والتربوي والثقافي من جديد هو كتاب الله سبحانه وتعالى وهو القرآن الكريم هذا القرآن المعجزة الخالدة ببلاغته ومضمونه وهو الذي نزل على قلب نبي أمي في مجتمع أمي ومعجزة هذا القرآن أيضاً لجهة استمراره في التحدي طوال كل هذه القرون".
واضاف سماحته أن" الرسول استطاع أن يصنع أمة عظيمة وحضارة كبرى ولكن من أي شيء وهو الذي انطلق وقام وبعث في جزيرة العرب شبه الجزيرة العربية من شعب كان يسوده الجهل والأمية والجاهلية والخرافات وعبادة الأوثان والأصنام والتمزق والعصبيات القبلية والعشائرية والعائلية والاقتتال وغياب أي جامع مركزي من دين أو قضية أو قيادة أو مشروع أو ثقافة".
وتابع سماحته أنه" ومن الواقع السيء المنحط فكريا ودينيا وأخلاقيا وإنسانيا إلى الحد الذي كان يئد فيه الأب ابنته فقط لأنها أنثى استطاع النبي أن يصنع أمة وهذه هي المعجزة أمة مؤمنة أمة أخلاق أمة قيم أمة حضارة أمة استطاعت أيضاً أن تدخل التاريخ من بابه الواسع وخلال عقود قليلة أمة كان لها ولا زال تاريخها وحضورها وتأثيرها في العالم".
وأشار السيد نصر الله إلى أننا"بعد 1400 سنة يصل إلى أجيالنا الحاضرة القرآن مصونا مصانا محفوظا من أي زيادة أو نقصان أو تحريف أو تزوير أليست هذه معجزة الهية واضحة للعيان".
واعتبر سماحته أن"أساس هذا القرآن وهذا الدين الذي جاء به محمد يا اخواني وأخواتي هو الدعوة إلى التوحيد وإلى الوحدة إلى توحيد الخالق وإلى الوحدة بين بين الناس بين عباد الخالق الواحد الذين يجمعهم أنهم خلق الله سبحانه وتعالى فالناس صنفان إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق هذا هو خطاب ديننا والتزامنا".
ومن ثم بدأ سماحته بالعنوان الأول وهو الوحدة الاسلامية واعتبر أنه يجب التنبه والتثبت من المعلومات والحقائق في زمن كثرت فيه المحن ".
وأضاف سماحته " لا يجوز أن نبني على كل ما يقال في وسائل الاعلام ونحن نشهد خصوصاً في السنوات الأخيرة مرحلة عجيبة غريبة قد لا يكون لها مثيل أو نظير في التاريخ يعني ينسبون لجهات مواقف أصلا لم تصدر عنها ثم يبنى عليها مواقف وتحليلات وعداوات وحروب يخترع ويختلق أحداث ووقائع ويطلب اتخاذ مواقف على أساس أحداث لم تحدث ووقائع لم تقع إنما فبركت وزورت ووضعت وهذا يجري الآن في كل ساعة وفي كل دقيقة وإذا كان الانسان يريد أن ينفي فقط لا يعمل شيئا سوى إصدار بيانات النفي".
ولفت سماحته إلى أنه يجب على الانسان أن يعرف كيف يبني موقفا ويجب أن يتأكد من المعلومات والوقائع دون الوقوع في جو الأكاذيب والشائعات التي يستخدم لها اليوم أقوى وأهم مؤسسات رأي عام في العالم ".
واعتبر السيد نصر الله أنه عندما نتحدث عن موضوع الوحدة الاسلامية طبعا هذا مشروع عمل له الكثيرون خلال مئات السنين وحتى قبل انتصار الثورة الاسلامية في إيران وقبل الامام الخميني(قدس) لكن مما لا شك فيه أن انتصار هذه الثورة بقيادة الامام سنة 1979 وقيام دولة بأهمية وسعة وقوة الجمهورية الاسلامية وتبني قيادة هذه الجمهورية لهذا الهدف لهذا المشروع لهذا الشعار وعملت له طوال سنين على المستوى المؤسساتي والاعلامي والفكري أعطى دفعا خاصا لفكرة ومشروع الوحدة الاسلامية".
وأوضح سماحته أنه" لم يكن يوما المقصود ان يتم تذويب المذاهب الاسلامية في مذهب واحد أو أن يصبح المسلمون جميعا أتباع مذهب واحد على الاطلاق".
التحريض في موضوع ما يسمى المد الشيعي
وفي موضوع ما يسمى حركة التشيع والمد الشيعي في المنطقة قال سماحته إنه"لم يكن مطروحا أبدا أن يصبح الشيعة سنة أو يصبح السنة شيعة وهذا مجرد اوهام للتحريض". وأضاف أنه"على المسلمين أن يقتربوا من بعض أن يتعارفوا أن يتحادثوا أن يبحثوا عن مصالحهم الكبرى كأمة وأن يتحابوا ويتعاونوا لخدمة هذه الأهداف والمصالح الكبرى وليس مطلوبا أكثر من ذلك لا أن يتنازل أحد لأحد على مستوى التفاصيل العقائدية ولا على مستوى الفروع الفقهية".
وأضاف سماحته"بطبيعة الحال المستكبرون والمستعمرون والمحتلون ليس لهم مصلحة في أن تجتمع كلمة هذه الأمة وتتعاون على قاعدة فرق تسد ولذلك لن يسمحوا بذلك لأن سيطرة هذه القوى الكبرى على النفط والغاز والمقدسات".
وأشار السيد إلى انه"المسألة بالنسبة لأميركا ليست مذهب الحاكم ولا دينه إنما موقعه السياسي وأداؤه السياسي وولاؤه السياسي ".
وأضاف سماحته" ذنب إيران أنها أسقطت الشاه وأعادت التوازن للأمة بعد خروج مصر في كامب دايفيد واستمرت الحرب على إيران 8 سنوات وكانت مدعومة أميركياً وغربياً وللاسف الشديد أغلب الدول العربية دعمتها وبعض الدول العربية الغنية أنفقت مليارات الدولارات على هذه الحرب هذه المليارات الممنوعة والمحجوبة عن فلسطين وهذه الأموال المحجوبة عن فصائل المقاومة الفلسطينية التي تريد بحق أن تستعيد أرضها ومقدسات الأمة ولكنها أنفقت لتمويل الحرب على دولة إسلامية فتية رفعت شعار فلسطين والزحف نحو القدس وكان لهذه الحرب الأثر الكبير على مشروع الوحدة في الأمة وكان هناك تداعيات خطيرة".
وتابع سماحته"بعد فشل الحرب وذهاب أماني إسقاط نظام الجمهورية الاسلامية في إيران أدراج الرياح بدأ البحث عن طريقة أخرى للحؤول دون تلاقي المسلمين في هذه الأمة وكل شعوب أمتنا تريد الكرامة والعزة والاستقلال،و بعد الحرب ذهبوا لموضوع الفتنة المذهبية واختراع ما أسموه المد الايراني والمد الشيعي وهذا الآن هو مادة الحرب الناعمة التي تستخدمها اميركا والغرب في مواجهة الأمة".
وأضاف"التهمة هي أن إيران تقوم بانشاء مد شيعي في العالم الاسلامي وأنها تريد أن تشيّع السنّة في العالم الاسلامي أي أن إيران تريد تشييع مليار ونصف مسلم بالحد الأدنى ولذلك يتم الحديث عن خطر داهم اسمه المد الشيعي وهذا عمل الشياطين لا يستند إلى أي وقائع أو حقائق".
وأوضح سماحته أنه في الموضوع الديني لا أساس للمد الشيعي من الصحة ولكن نعم هناك من يروج له وأنا سأقول بعض التفاصيل مثلا في مصر التقيت مع شخصيات كبيرة وقد صدقت ان هناك حركة مد كبيرة وان ايران تقودها وان التشيع وصل لحد 5 مليون".
وتابع سماحته"أنا شخص منفتح وأعرف كبار العلماء والشخصيات من السنة في سورية وألتقي بهم وهذا شرف لي ولكن بعضهم فعلا أجرى معي نقاشا تفصيليا وقال إن هناك حركة تشييع كبرى في سورية وان نظام الرئيس الاسد متهم بدعم هذه الحركة وحتى الآن تشيع في سورية 6 مليون وبالفعل مستشار أحد الملوك العرب فاتحني بهذا الموضوع وقال لي إن تقارير قدمت لبعض الملوك حول ذلك الأمر".
واضاف" ذهبت إلى الشام في ذلك الحين والتقيت مع المسؤولين وحتى مع جهات أمنية وطلبت القيام بدراسة للعثور على هؤلاء الملايين الستة ولكن لا شيء حصل ولم نر ولا حتى 1000 ولا 500 هناك حالات فردية تحصل أينما كان حيث هناك شباب سنّة تشيعوا والعكس صحيح أيضاً لكن لا شيء اسمه مد شيعي ومد سني على الإطلاق".
وأردف سماحته بالقول"هناك قيادات دينية كبيرة مقتنعة بهذا الكلام إلى حد أن إحدى المرجعيات الدينية الكبرى في العالم الاسلامية قدم لها تقرير وصدقت مضمونه وأنه لقد تشيع خلال 33 سنة من انتصار الثورة الى اليوم تشيع 50 مليون سني وهذا شيء مضحك بالفعل".
وتابع سماحته"أقول لكم اليوم في ذكرى ولادة رسول الله محمد (ص) نحن مسلمون شيعة لعلي بن أبي طالب (ع) أتباع مذهب الامام جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام نحن نؤمن بأنّ أتباع المذاهب الاسلامية الأخرى كلها هم مسلمون لنا ما لهم وعلينا ما عليهم وكل مسلم يملك الحرية الكاملة في أن يتبع المذهب الذي يريد ونحن كما قال الامام الخامنئي(قدس) ليس لدى أحد منا مشروع الدعوة إلى التشيع وتحويل أي سني إلى شيعي و بكل وضوح هذا ليس برنامجنا ولا هدفنا ".
وتمنى سماحته أن"نصل بهذه النقطة إلى مكان حاسم وأن لا يسمح أي منا خصوصاً في وسط إخواننا أهل السنة لأحد أن يزرع كذبا أو فتنة من هذا النوع وكنت أقول للجهات الفلسطينية ولاخواننا في معسكرات التدريب أن التدريب هو عسكري أما الثقافة فتعود لهم وللجهة التي ينتمون إليها ونرفض فتح أي باب لأي شبهة من هذا النوع".
واعتبر سماحته أنه"نحن كحركة إسلامية في لبنان عندما نتحدث عن تعاون وطني بين المسلمين والمسيحيين وعن ضرورة بناء دولة وطنية في لبنان يشارك فيها الجميع يتمثل فيها الجميع تخدم مصالح الجميع تحمي الجميع نحن لا نتكلم سياسة بل ننطلق من أصولنا الدينية العقائدية الفقهية وهذا ليس تكتيكا سياسياً".
وأضاف سماحته"كل علمائنا من السيد موسى الصدر والسيد محمد حسين فضل الله والسيد محمد مهدي شمس الدين ومراجعنا اليوم يتفقون على ذلك ونحن في حزب الله لا يمكن ان نشارك في الانتخابات النيابية او الحكومة اذا لم يكن هناك مسوغ ديني أو شرعي وهذا موقف فقهي نحن معنيون به وبالتالي انتماؤنا الديني لا يمكن أن يشكل حائلا دون أن نبني دولة سويا وان يكون مجتمعنا متعاونا".
التحريض على مواقف سابقة
وأشار سماحته إلى انه "بعض الناس من أجل التحريض ينطلقون من مواقف أخذت في الـ82 والـ83 أننا نريد إقامة جمهورية إسلامية وهذا صحيح لقد خطبنا بذلك في بداية الثمانينات لكن أريد أن أذكر القيادات المسيحية اليوم التي تتحدث بالتعايش والسلم الأهلي كيف كانوا يتحدثون يومها بالوطن المسيحي والتقسيم والفدرالية!؟".
وأضاف "حزب الله منذ أكثر من 20 سنة خطابه السياسي واضحاً وهذه قناعاتنا التي نشخصها ونرى أنها مصلحة شعبنا في لبنان من كل الطوائف".
نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله من إيران
وتابع سماحته "على خلفية كلام السيد القائد يوم الجمعة والذي قال فيه بصراحة إن الجمهورية الاسلامية تقدم الدعم لحركات المقاومة في لبنان وفلسطين ولا تريد شيئا مقابل هذا الدعم وإنما تؤدي واجبا شرعيا بهذا الوضوح أستطيع أن أقول من أعلى سلطة في الجمهورية الاسلامية لاول مرة يصدر بهذا الوضوح الشديد وأنا سأبني عليه لمعالجة العديد من المسائل المطروحة ".
وقال سماحته"نعم نحن في حزب الله نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله الممكنة والمتاحة من الجمهورية الاسلامية في إيران منذ عام 1982" .
وأردف قائلا "هذا الدعم الذي قدم منذ البداية هو مفخرة الجمهورية الاسلامية في إيران لأن هذه المقاومة في لبنان التي حققت أكبر وأهم وأوضح انتصار عربي على إسرائيل في 25 أيار 2000 ما كان هذا الانتصار ليتحقق لولا هذا الدعم المعنوي والمادي والمادي الايراني لحركة المقاومة في لبنان هذا الانتصار الذي تحقق بلا قيد ولا شرط تحقق بدعم إيراني وطبعا كان لسورية دور كبير لكن أتحدث الآن عن إيران".
وتابع سماحته"إن حركة المقاومة التي صمدت وانتصرت في حرب تموز ما كانت لتصمد وتنتصر أيضاً لولا هذا الدعم الايراني وحركة المقاومة في فلسطين هي المعنية تتحدث عن نفسها وسواء تحدثت ام لم تتحدث فهذا شأنها".
ووجه السيد نصر الله الشكر للمسؤولين في إيران الذين يدفعون أثمانا باهظة لوقوفهم إلى جانب فلسطين ولبنان واذا باعت ايران فلسطين اليوم كل شيء يحل فمشكلة أميركا ليست الديمقراطية بل النفط وإسرائيل".
نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح
وأشار سماحته إلى أنه"من آثار هذا الكلام أن أوضح أيضا في الموضوع المالي والمادي ففي كل مدة يطلون عبر وسائل الاعلام ليتحدثوا عن شبكات المخدرات في أميركا وأوروبا وأفريقيا وأن حزب الله يدير هذه الشبكات وهي التي تمول أنشطته وكنا دائما ننفي هذا الموضوع وأنا أضيف أن تجارة المخدرات بالنسبة إلينا حرام وأيضاً أغنانا الله بدولته الاسلامية في إيران عن أي فلس في العالم حلال أو حرام".
وأضاف سماحته "نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح ولا نقبل بهذا الأمر وبعض ما هو حلال ومباح من الناحية الفقهية لا نقوم به كالتجارة فنحن في حزب الله ليس لدينا أي مشروع تجاري اليوم لا في الداخل ولا في الخارج وقد ألغينا وصفّينا مشاريعنا التجارية التي نفذناها في الفترة السابقة".
وأوضح سماحته أنه" نحن في قيادة حزب الله نؤمن أن أي حركة جهادية أو حزب سياسي تقوم بالتجارة إذا اضطرت ولكن من نتائج ذلك الفساد والافساد ولذلك لدينا مشكلة مع هذا الموضوع وحتى موضوع التبرعات أنا أقول أنني لا أقبل أن يدق أحد أبواب العالم لدينا من المال والسلاح والعتاد ما يكفي للقيام بواجبنا لكن تركنا هيئة دعم المقاومة الاسلامية لاجل من يريد أن يشارك خصوصا أن هناك ما يسمى الجهاد بالمال".
لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم
وأضاف سماحته "نحن قادرون على القيام بمشروعنا المقاوم دفاعا عن لبنان ولسنا بحاجة لأي مشروع حلال أو حرام ".
وتابع" منذ الـ82 الى اليوم لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم كما يزعم البعض وقد ذكرت سابقا هذا الموضوع على طاولة الحوار حين كانت برئاسة دولة الرئيس الاستاذ نبيه بري وطلبت ان ياتوا لي بمثل واحد لعمل قام به حزب الله لخدمة مصالح الجمهورية الاسلامية ولم يستطع أحد أن يأتي بمثل واحد وبعد نصف ساعة تذكر واحد موضوع الرهائن وهو موضوع كان له علاقة بمعتقلين لبنانيين لا علاقة له بايران ومصالح ايران".
واعتبر السيد أنه"حتى في ما يتعلق بالتطورات الآتية في المنطقة وهناك تحليل ان اسرائيل اذا قامت بقصف المنشآت النووية الايرانية ماذا يمكن ان يحصل وأنا أقول لكم في ذلك اليوم الذي أستبعده أقول لكم القيادة الايرانية لن تطلب شيئا من حزب الله ولم ترغب بشيء لكن اقول في ذلك اليوم نحن الذين علينا أن نجلس ونفكر ونقرر ماذا نفعل".
واكد سماحته أنه"على كل أبناء المقاومة مجاهدي المقاومة جمهورية المقاومة ان يواجهوا هذه الجمهورية وهذا النظام بالشكر والتقدير والاحترام على هذا الموقف وهذا الدعم".
هناك الكثير من التهويل في الموضوع السوري
وبلغة الدقة والوضوح انتقل السيد نصر لله الى الموضوع السوري حيث قال إن" هناك الكثير من التهويل على هذا الصعيد علينا وعلى غيرنا وأنا أقول لا كثرة التهويل ولا قلة التهويل يمكن أن تنال من موقفنا المبني على رؤية ومن يريد أن يعمل على قلبنا وأعصابنا فهو يراهن على سراب في أي موضوع من الموضوعات وقلبنا في ما نراه حق لا يمكن أن يهزه شيء حتى لو وقف العالم كله في وجهنا ".
ورجع السيد للملاحظة التي قالها في البداية عن التدقيق بالمعطيات وقال" قبل مدة خرجت بعض الفضائيات العربية بخبر عاجل عن جهة معارضة سورية أن حزب الله قصف الزبداني بالكاتيوشا باعتبار أن هناك شخص يأكل (ساندويش) وهو مخبأ وتمر القصة وفي ذلك الوقت لم يكن هناك شيء نهائيا وفي اليوم التالي حزب الله يهاجم الزبداني وتتصدى له الجماعات المسلحة وأن جثث قتلى حزب الله تملأ الطرقات ولم يدلنا أحد على هذه الجثث وهذا مثل عن مقاربة الاعلام للموضوع السوري".
وأضاف " يوم اجتماع مجلس الأمن بدأوا بالحديث عن أن حمص (ولعانة) وهذا يجعل أي شخص ينقز ونحن لدينا موقف سياسي واضح لكن أمام هذا المشهد لا يمكن لأحد إلا أن يتأثر وبعد التدقيق تبين أن لا شيء في حمص وتوقيت الخبر وهذا الضخ قبيل جلسة مجلس الأمن ليس مبنيا على وقائع بل تسخير للاعلام في إطار معركة تريد تحقيق هدفها بالحلال والحرام وبأي شكل من الأشكال ".
النظام قائم في سورية ولديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي
واعتبر سماحته أن "هناك نظام ما زال قائما لديه دستور والجيش مع هذا النظام وحتى الآن بحسب معلوماتنا لا يزال واقفا مع هذا النظام وهناك شريحة كبيرة من الناس تعبر عن تأييدها للنظام وتتظاهر في الشوارع وبالتالي فافتراض أن هذا النظام معزول شعبيا غير صحيح".
وتطرق سماحته إلى ما كتبته بعض الصحف اللبنانية أن هؤلاء الذين احتشدوا في ساحة الأمويون عشرات الآلاف أتى بهم حزب فاعل في الأكثرية أي حزب الله لكن نسأل هناك عشرات الآلاف ذهبوا عن طريق المصنع ولم يشعر بهم أحد إلا جريدة لبنانية معيّنة ؟!
وتابع "هناك جزء من الشعب السوري ما يزال مع النظام وهناك في المقابل معارضة بعضها سياسي وبعضها شعبي وبعضها مسلح وإن باتت تطغى الصبغة المسلحة وهناك مواجهات مسلحة في عدد من المناطق السورية وهذا أمر مسلح وهناك أيضا جزء كبير من سورية ينعم باستقرار".
هناك قرار غربي عربي على إسقاط النظام في سورية
وأضاف سماحته"خارج سورية هناك قرار أميركي إسرائيلي غربي عربي على مستوى دول الاعتدال العربي باسقاط النظام في سورية وهذا لا نقاش فيه وقد رأيناه بأم العين وقبل أسابيع قام موظف اسرائيلي بتحليل شخصي يظهر منه أنه يدافع عن نظام الأسد فلم يبقى أحد في 14 آذار إلا وتحدث عن الموضوع ولكن اليوم هناك شبه اجماع اسرائيلي على وجوب اسقاط نظام الاسد اين 14 آذار لماذا بلعوا لساناتهم هل لأن المشهد تغير؟".
وتابع سماحته "المطلوب اسقاط النظام للاتيان بنظام بديل وبعض الاصدقاء المشتركين قالوا لنا ان لا نقلق وان النظام الجديد سيدعم المقاومة وهذا قيل ويقال في الكواليس لكننا لا نورّط نفسنا بهذا الموقف بل نحن منسجمون مع أنفسنا".
المطلوب في سورية هو رأس المقاومة
واعتبر سماحته أن" المطلوب في سورية هو رأس المقاومة في لبنان وفلسطين ورأس القضية الفلسطينية ورأس الشعب الفلسطيني وهذه هي الحقيقة".
وأشار السيد نصر الله إلى ان" القيادة السورية موافقة على معظم الاصلاحات التي طلبت والقيادة جاهزة للحوار والآن يقولون فات الأوان، كيف فات الأوان وهناك حرب في سورية وهناك من يدفع سورية لحرب أهلية؟ الآن الجماعات المسلحة تقتل من أبناء الطوائف وقتلت من السنّة السوريين أكثر مما قتلت من الطوائف الأخرى وغير صحيح أن الحرب في سورية طائفية وإن كانوا يدفعون نحو حرب أهلية، من يحرص على سورية لا يقول فات الأوان بل يذهب إلى الحوار دون شروط لا بشرط تنحي الرئيس".
طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر
وسأل السيد نصر الله "هل إقفال الباب حرص على الشعب السوري وعلى قيادة سوريا وهل يخدم القضية الفلسطينية؟ هذا السلوك من يخدم؟ أنا أقول ما أقول الآن لله عز وجل وهذه وقائع ومعطيات بمعزل عن التفاصيل التي لا يجب أن نغرق فيها لكي لا نذهب للمزيد من القتل وسفك الدماء، طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سوريا والرهان على أميركا هو رهان خاسر بطبيعة الحال وهذا هو موقفنا ونرى فيه مصلحة سورية وشعب سورية ومصلحة لبنان وشعب لبنان وفلسطين وشعب فلسطين بمعزل عن الاحقاد الشخصية أو الفئوية التي ينطلق منها بعض الناس".
الحركات الإسلامية امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة
وفي موضوع الحركات الإسلامية التي فازت في الانتخابات في المنطقة العربية إعتبر سماحته أنها امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة وهي مستهدَفة لان الاميركيين يسعون لجعلها تفشل وهذا يحتاج لكلام كثير لكن بعض القيادات الاسلامية اليوم وأنا أعرفهم جيدا وهم أصدقائي الآن ونظرا للظروف السياسية في بلدانهم لا يأخذون مواقف واضحة في القضية القومية وفي الموضوع الاسرائيلي بل أحيانا قد تصدر عنهم مواقف ملتبسة وعندما نراجع ونناقش يقال لنا انه يجب تفهم تلك الظروف".
حريصون على إستمرار الحكومة
وفي موضوع الحكومة اللبنانية قال سماحته "نحن حريصون على استمرار الحكومة وليس مطلوبا وساطة فمعالجة الازمة مسؤولية الجميع واقول لمن بدأوا يجهزوا "جاكيتاتهم وكرافاتاتهم" للحكومة الجديدة لا حكومة جديدة وهذه الحكومة ستستمر علما أنها ليست حكومة حزب الله".
وأضاف " هذه الحكومة بمعزل عن توصيفها حتى الآن هي أساس استقرار في البلد ويجب أن نجهد لتنجز شيئا والوقت الآن ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان وعلينا بتعاوننا واخلاصنا وانفتاحنا ان نتجاوز هذه المرحلة الصعبة ان شاء الله".
المصدر: قناة المنار
07-02-2012 - 12:47 آخر تحديث 07-02-2012 - 23:48 | 14106 قراءة
36:11
|
[ARABIC][1October11] كلمة آية الله خامنئي لدعم الانتفاضة الفلسطينية
الإمام الخامنئی فی مؤتمر نصرة الانتفاضة الفلسطینیة: فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»
01/10/2011
بسم...
الإمام الخامنئی فی مؤتمر نصرة الانتفاضة الفلسطینیة: فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»
01/10/2011
بسم الله الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمة الله..
الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین، و علی من تبعهم بإحسان إلی یوم الدین.
قال الله الحکیم: «أذن للذین یقاتلون بأنهم ظلموا و إن الله علی نصرهم لقدیر، الذین أخرجوا من دیارهم بغیر حق إلا أن یقولوا ربنا الله و لو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیها اسم الله کثیراً و لینصرن الله من ینصره إن الله لقوی عزیز».
أرحب بالضیوف الأعزاء و جمیع الحضور المحترمین.
تتمیز القضیة الفلسطینیة بخصوصیة فریدة من بین کل الموضوعات التی یجدر بالنخبة الدینیة و السیاسیة فی کل العالم الإسلامی أن تتطرق لها. فلسطین هی القضیة الأولی بین کل الموضوعات المشترکة للبلدان الإسلامیة. و ثمة خصوصیات منقطعة النظیر فی هذه القضیة:
أولاً: أن یغتصب بلد مسلم من شعبه، و یعطی لأجانب جُمّعوا من بلدان شتی، و کوّنوا مجتمعاً موزائیکیاً مزیفاً.
ثانیاً: أن هذا الحدث غیر المسبوق فی التاریخ جری بواسطة المذابح و الجرائم و الظلم و الإهانات المستمرة.
ثالثاً: أن قبلة المسلمین الأولی و الکثیر من المراکز الدینیة المحترمة فی هذا البلد مهدَّدة بالهدم و الامتهان و الزوال.
رابعاً: أن هذه الحکومة و المجتمع المزیّفین مارسا فی أکثر مناطق العالم الإسلامی حساسیة، منذ بدایة ظهورهما و إلی الآن، دور القاعدة العسکریة و الأمنیة و السیاسیة للحکومات الاستکباریة، و دور المحور للغرب الاستعماری الذی هو - و لأسباب متعددة - عدو اتحاد البلدان الإسلامیة و رفعتها و تقدمها، و قد استخدمه کالخنجر فی خاصرةَ الأمة الإسلامیة.
خامساً: أن الصهیونیة التی تعدّ خطراً أخلاقیاً و سیاسیاً و اقتصادیاً کبیراً علی المجتمع البشری استخدمت محطّ الأقدام هذا وسیلة و نقطة انطلاق لتوسیع نفوذها و هیمنتها فی العالم.
و یمکن إضافة نقاط أخری للنقاط السابقة منها التکالیف المالیة و البشریة الجسیمة التی تحمّلتها البلدان الإسلامیة لحد الآن، و الانشغال الذهنی للحکومات و الشعوب المسلمة، و معاناة و محن ملایین المشردین الفلسطینیین الذین لا یزال البعض منهم یعیشون لحد الآن و بعد ستة عقود فی المخیمات، و الانقطاع التاریخی لقطب حضاری مهم فی العالم الإسلامی، و .... الخ.
و قد أضیفت الیوم نقطة أساسیة أخری إلی تلک النقاط، ألا و هی نهضة الصحوة الإسلامیة التی عمّت کل المنطقة، و فتحت فصلاً جدیداً حاسماً فی تاریخ الأمة الإسلامیة. هذه الحرکة العظیمة التی یمکنها بلا شک أن تؤدی إلی إیجاد منظومة إسلامیة مقتدرة و متقدمة و منسجمة فی هذه المنطقة الحساسة من العالم، و تضع بحول الله و قوته و بالعزیمة الراسخة لرواد هذه النهضة نهایة لعصر التخلف و الضعف و المهانة الذی عاشته الشعوب المسلمة، استمدت جانباً مهماً من طاقتها و حماسها من قضیة فلسطین.
الظلم و العسف المتصاعد الذی یمارسه الکیان الصهیونی و مواکبة بعض الحکام المستبدین الفاسدین المرتزقین لأمریکا لهذا العسف من جهة، و انبعاث المقاومة الفلسطینیة و اللبنانیة المستمیتة و الانتصارات المعجزة للشباب المؤمن فی حربی الـ 33 یوماً فی لبنان و الـ 22 یوماً فی غزة من جهة أخری، هی من جملة العوامل المهمة التی أطلقت الطوفان فی المحیط الهادئ فی ظاهره للشعوب فی مصر و تونس و لیبیا و باقی بلدان المنطقة.
إنها لحقیقة أن الکیان الصهیونی المدجج بالسلاح و المدعی أنه عصیّ علی الهزیمة تلقی فی حرب غیر متکافئة فی لبنان هزیمة قاسیة مذلة من القضبات المشدودة للمجاهدین المؤمنین الأبطال، و بعد ذلک اختبر سیفه الکلیل مرة أخری أمام المقاومة الفولاذیة المظلومة لغزة و ذاق طعم الإخفاق.
هذه أمور یجب أخذها بعین الجد فی تحلیل الأوضاع الحالیة للمنطقة، و قیاس صحة أی قرار یتخذ علی ضوئها.
إذن، إنه لرأی و حکم دقیق بأن قضیة فلسطین اکتسبت الیوم أهمیة و فوریة مضاعفة، و من حق الشعب الفلسطینی أن یتوقع المزید من البلدان المسلمة فی الوضع الراهن للمنطقة.
لنلق نظرة علی الماضی و الحاضر و نرسم خارطة طریق للمستقبل. و أنا أطرح هاهنا بعض رؤوس النقاط.
مضت علی فاجعة اغتصاب فلسطین أکثر من ستة عقود. و جمیع المسببین الرئیسیین لهذه الفاجعة الدامیة معرفون، و علی رأسهم الحکومة البریطانیة المستعمرة، حیث استخدمت سیاستها و قواها العسکریة و الأمنیة و الاقتصادیة و الثقافیة، هی و سائر الحکومات الغربیة و الشرقیة المستکبرة من بعد ذلک، لخدمة هذا الظلم الکبیر. و قد طرد الشعب الفلسطینی المشرد تحت وطأة قبضات المحتلین التی لا تعرف الرحمة، و قتل و أخرج من موطنه و دیاره. و إلی الیوم لم یجر تصویر حتی واحد بالمائة من الفاجعة الإنسانیة و المدنیة التی وقعت علی ید أدعیاء التحضر و الأخلاق فی ذلک الحین، و لم تحظ بنصیب من الفنون الإعلامیة و المرئیة، فهذا ما لم یشأه کبار أرباب الفنون التصویریة و السینمائیة و التلفزیونیة و المافیات الغربیة لإنتاج الأفلام، و لم یسمحوا به. شعب کامل قتل و تشرد وسط صمت مطبق.
ظهرت حالات المقاومة فی بدایة الأمر، و قد قمعت بقسوة و شدة. و بذل رجال علی الحدود الفلسطینیة، و خصوصاً من مصر، جهوداً بمحفزات إسلامیة، لکنها لم تحظ بالدعم اللازم و لم تستطع التأثیر فی الساحة.
و بعد ذلک جاء الدور للحروب الرسمیة و الکلاسیکیة بین عدة بلدان عربیة و الجیش الصهیونی. جندت مصر و سوریة و الأردن قواتها العسکریة فی الساحة، لکن المساعدات العسکریة و الإمدادیة و المالیة السخیة و الزاخرة و المتزایدة التی قدمتها أمریکا و بریطانیا و فرنسا للکیان الغاصب فرضت الإخفاق علی الجیوش العربیة. إنهم لم یعجزوا عن مساعدة الشعب الفلسطینی و حسب، بل و خسروا أجزاء مهمة من أراضیهم فی هذه الحروب.
و مع اتضاح عجز الحکومات العربیة الجارة لفلسطین تکوّنت تدریجیاً خلایا المقاومة المنظمة فی معظم الجماعات الفلطسینیة المسلحة، و بعد فترة من اجتماعها تأسست منظمة التحریر الفلسطینیة. و کان هذه بصیص أمل تألق تألقاً حسناً لکنه لم یستمر طویلاً حتی خبا. و یمکن ردّ هذا الإخفاق إلی العدید من الأسباب، بید أن السبب الرئیسی هو ابتعادهم عن الجماهیر و عن عقیدتهم و إیمانهم الإسلامی. الإیدیولوجیا الیساریة أو مجرد المشاعر القومیة لم تکن الشیء الذی تحتاجه قضیة فلسطین المعقدة الصعبة. ما کان بوسعه إنزال شعب بکامله إلی ساحة المقاومة و خلق قوة عصیة علی الهزیمة من أبناء الشعب هو الإسلام و الجهاد و الشهادة. أولئک لم یدرکوا هذه الفکرة بصورة صحیحة. فی الأشهر الأولی لانتصار الثورة الإسلامیة الکبری حیث کان زعماء منظمة التحریر الفلسطینیة قد اکتسبوا معنویات جدیدة و راحوا یترددون علی طهران، سألت أحد شخصیاتهم المهمة: لماذا لا ترفعون رایة الإسلام فی کفاحکم الحق. و کان جوابه إن بیننا بعض المسیحیین. و قد جری اغتیال هذا الشخص بعد ذلک فی أحد البلدان العربیة علی ید الصهاینة، و نتمنی إن یکون الغفران الإلهی قد شمله إن شاء الله، لکن استدلاله هذا کان ناقصاً و غیر ناهض. أعتقد أن المناضل المسیحی المؤمن یکتسب إلی جانب الجماعة المجاهدة المضحیة التی تقاتل بإخلاص من منطلق الإیمان بالله و القیامة و الأمل بالمعونة الإلهیة، و تتمتع بالدعم المادی و المعنوی لشعبها، یکتسب محفزات أکبر و أکثر للنضال مما لو کان إلی جانب جماعة عدیمة الإیمان و معتمدة علی مشاعر متزعزعة و بعیدةً عن الإسناد الشعبی الوفی.
عدم توفر الإیمان الدینی الراسخ و الانقطاع عن الشعب جعلهم بمرور الوقت عاجزین و عدیمی التأثیر. طبعاً کان بینهم رجال شرفاء و متحفزون و غیورون، بید أن الجماعة و التنظیم سار فی طریق آخر. انحرافهم وجّه و لا یزال الضربات للقضیة الفلسطینیة. هم أیضاً تنکروا کبعض الحکومات العربیة الخائنة لأهداف المقاومة التی کانت و لا تزال السبیل الوحید لإنقاذ فلسطین، و قد وجّهوا الضربات لا لفلسطین و حسب بل لأنفسهم أیضاً. و علی حد تعبیر الشاعر المسیحی العربی:
لئن أضعتم فلسطيناً فعيشكم طول الحياة مضاضات و آلامٌ
و هکذا مضت إثنتان و ثلاثون سنة من عمر النکبة.. لکن ید القدرة الإلهیة قلبت الصفحة فجأة. و قلب انتصار الثورة الإسلامیة فی إیران فی سنة 1979 (1357 هجری شمسی) الأوضاع فی هذه المنطقة رأساً علی عقب، و فتح صفحة جدیدة. و من بین التأثیرات العالمیة المذهلة لهذه الثورة کانت الضربة التی وجّهتها للحکومة الصهیونیة هی الأسرع و الأوضح من بین الضربات الشدیدة و العمیقة التی وجّهتها للسیاسات الاستکباریة. و کانت تصریحات ساسة الکیان الصهیونی فی تلک الأیام جدیرة بالقراءة و تنمّ عن وضعهم الأسود الغارق فی الاضطراب. فی الأسابیع الأولی للانتصار أغلقت السفارة الإسرائیلیة فی طهران، و أخرج العاملون فیها، و جری تسلیم مکانها رسمیاً لممثلی منظمة التحریر الفلسطینیة، و هم موجودن هناک لحد الآن. أعلن إمامنا الجلیل أن أحد أهداف هذه الثورة تحریر الأرض الفلسطینیة و استئصال غدة إسرائیل السرطانیة. الأمواج القویة لهذه الثورة التی عمّت العالم کله فی ذلک الحین حملت معها إین ما ذهبت هذه الرسالة: «یجب تحریر فلسطین». المشاکل المتتابعة و الکبیرة التی فرضها أعداء الثورة علی نظام الجمهوریة الإسلامیة الإیرانیة و إحداها حرب الأعوام الثمانیة التی شنها نظام صدام حسین بتحریض من أمریکا و بریطانیا و دعم الأنظمة العربیة الرجعیة، لم تستطع هی الأخری سلب الجمهوریة الإسلامیة محفزات الدفاع عن فلسطین.
و هکذا تم ضخّ دماء جدیدة فی عروق فلسطین، و انبثقت الجماعات الفلسطینیة المجاهدة الإسلامیة، و فتحت المقاومة فی لبنان جبهة قویة جدیدة أمام العدو و حماته. و اعتمدت فلسطین بدل الاستناد إلی الحکومات العربیة و من دون مدّ الید للأوساط العالمیة من قبیل منظمة الأمم المتحدة - و هی شریکة إجرام الحکومات الاستکباریة - اعتمدت علی نفسها و علی شبابها و علی إیمانها الإسلامی العمیق و علی رجالها و نسائها المضحین.
هذا هو مفتاح کل الفتوحات و النجاحات.
لقد تقدم هذا السیاق و تصاعد خلال العقود الثلاثة الأخیرة یوماً بعد یوم. و کانت الهزیمة الذلیلة للکیان الصهیونی فی لبنان عام 2006 (1385 هجری شمسی)، و الأخفاق الفاضح الذی منی به ذلک الجیش المتشدق فی غزة سنة 2008 (1387 هجری شمسی)، و الفرار من جنوب لبنان و الانسحاب من غزة، و تأسیس حکومة المقاومة فی غزة، و بکلمة واحدة تحول الشعب الفلسطینی من مجموعة من الناس الیائسین العاجزین إلی شعب متفائل مقاوم له ثقته بنفسه، کانت هذه کلها من الخصائص البارزة للأعوام الثلاثین الأخیرة.
هذه الصورة الکلیة الإجمالیة سوف تکتمل حینما یُنظر بصورة صحیحة للتحرکات الاستسلامیة و الخیانیة التی تهدف إلی إطفاء المقاومة و انتزاع الاعتراف الرسمی بشرعیة إسرائیل من الجماعات الفلسطینیة و الحکومات العربیة.
هذه التحرکات التی بدأت علی ید الخلیفة الخائن و اللاخلف لجمال عبد الناصر فی معاهدة کامب دیفید المخزیة أرادت دوماً ممارسة دور التثبیط حیال العزیمة الفولاذیة للمقاومة. فی معاهدة کامب دیفید اعترفت حکومة عربیة رسمیاً و لأول مرة بصهیونیة الأراضی الإسلامیة فی فلسطین، و ترکت توقیعها تحت سطور اعترفت بإسرائیل داراً قومیاً للیهود.
و بعد ذلک وصولاً إلی معاهدة أوسلو فی سنة 1993 (1372 هجری شمسی) و المشاریع التکمیلیة الأخری التی أعقبتها و التی أدارتها أمریکا، و واکبتها البلدان الأوربیة الاستعماریة، و فُرِضت عبأً علی عاتق الجماعات الاستسلامیة عدیمة الهمّة من الفلسطینیین، انصبت کل مساعی العدو علی صرف الشعب و الجماعات الفلسطینیة عن خیار المقاومة بوعود مخادعة جوفاء و إشغالهم بألاعیب صبیانیة فی الساحات السیاسیة. و سرعان ما تجلی عدم اعتبار کل هذه المعاهدات، و أثبت الصهاینة و حماتهم مراراً أنهم ینظرون لما کتب علی أنه مجرد قصاصات ورق لا قیمة لها. کان الهدف من هذه المشاریع بث الشکوک و التردید فی قلوب الفلسطینیین، و تطمیع الأفراد عدیمی الإیمان و طلاب الدنیا، و شلّ حرکة المقاومة الإسلامیة لیس إلا.
و قد کان المضاد لهذا السمّ فی کل هذه الألاعیب الخیانیة لحد الآن هو روح المقاومة لدی الجماعات الإسلامیة و الشعب الفلسطینی. لقد صمد هؤلاء أمام العدو بإذن الله، و کما وعد الله «و لینصرن الله من ینصره، إن الله لقوی عزیز» فقد حظوا بالمعونة و النصرة الإلهیة. لقد کان صمود غزة علی الرغم من المحاصرة المطلقة نصراً إلهیاً. و سقوط النظام الخائن الفاسد لحسنی مبارک نصراً إلهیاً، و ظهور موجة الصحوة الإسلامیة القویة فی المنطقة نصراً إلهیاً، و سقوط أستار النفاق و الزیف عن وجوه أمریکا و بریطانیا و فرنسا، و الکراهیة المتصاعدة لشعوب المنطقة لهم کانت نصرة إلهیة. و المشکلات المتتابعة و العصیة علی الحصر للکیان الصهیونی ابتداء من المشکلات السیاسیة و الاقتصادیة و الاجتماعیة الداخلیة إلی عزلته العالمیة و الکراهیة العامة له حتی فی الجامعات الأوربیة، کلها من مظاهر النصرة الإلهیة.
الکیان الصهیونی الیوم مکروه و ضعیف و معزول أکثر من أی وقت آخر، و حامیته الرئیسیة أمریکا مبتلاة متحیرة أکثر من أی وقت آخر.
الصفحة الکلیة و الإجمالیة لفلسطین طوال نیّف و ستین عاماً الماضیة أمام أنظارنا حالیاً. ینبغی تنظیم المستقبل بالنظر لهذا الماضی و استلهام الدروس منه.
ینبغی قبل کل شیء إیضاح نقطتین:
الأولی: إن دعوانا هی تحریر فلسطین و لیس تحریر جزء من فلسطین. أی مشروع یرید تقسیم فلسطین مرفوض بالمرة. مشروع الدولتین الذی خلعوا علیه لبوس الشرعیة «الاعتراف بحکومة فلسطین کعضو فی منظمة الأمم المتحدة» لیس سوی الاستسلام لإرادة الصهاینة، أی «الاعتراف للدولة الصهیونیة بالأرض الفلسطینیة». و هذا معناه سحق حقوق الشعب الفلسطینی و تجاهل الحق التاریخی للمشردین الفلسطینین، بل و تهدید حقوق الفلسطینیین الساکنین علی أراضی 1948 . و هو یعنی بقاء الغدة السرطانیة و التهدید الدائم لجسد الأمة الإسلامیة و خصوصاً شعوب المنطقة. و هو بمعنی تکرار آلام و محن عشرات الأعوام و سحق دماء الشهداء.
أی مشروع عملیاتی یجب أن یکون علی أساس مبدأ: «کل فلسطین لکل الشعب الفلسطینی». فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»، و لیس أقل من ذلک حتی بمقدار شبر. طبعاً یجب عدم نسیان أن الشعب الفلسطینی کما فعل فی غزة، سوف یتولی إدارة شؤونه بنفسه عن طریق حکومته المنتخبة فی أی جزء من تراب فلسطین یستطیع أن یحرره، لکنه لن ینسی الهدف النهائی علی الإطلاق.
النقطة الثانیة: هی أنه من أجل الوصول إلی هذا الهدف السامی لا بد من العمل و لیس الکلام، و لا بد من الجدّ و لیس الممارسات الاستعراضیة، و لا بد من الصبر و التدبیر لا السلوکیات المتلونة غیر الصبورة. ینبغی النظر للآفاق البعیدة و التقدم للأمام خطوة خطوة بعزم و توکل و أمل. یمکن لکل واحدة من الحکومات و الشعوب المسلمة و الجماعات المقاومة فی فلسطین و لبنان و باقی البلدان أن تعرف نصیبها و دورها من هذا الجهاد العام، و أن تملأ بإذن الله جدول المقاومة.
مشروع الجمهوریة الإسلامیة لحل قضیة فلسطین و لمداواة هذا الجرح القدیم مشروع واضح و منطقی و مطابق للعرف السیاسی المقبول لدی الرأی العام العالمی، و قد سبق أن عرض بالتفصیل. إننا لا نقترح الحرب الکلاسیکیة لجیوش البلدان الإسلامیة، و لا رمی الیهود المهاجرین فی البحر، و لا طبعاً تحکیم منظمة الأمم المتحدة و سائر المنظمات الدولیة. إننا نقترح إجراء استفتاء للشعب الفلسطینی. من حق الشعب الفلسطینی کأی شعب آخر أن یقرر مصیره و یختار النظام الذی یحکم بلاده. یشارک کل الفلسطینیین الأصلیین من مسلمین و مسیحیین و یهود - و لیس المهاجرون الأجانب - أین ما کانوا، فی داخل فلسطین أو فی المخیمات أو فی أی مکان آخر، فی استفتاء عام و منضبط و یحددوا النظام المستقبلی لفلسطین. و بعد أن یستقر ذلک النظام و الحکومة المنبثقة عنه سوف یقرر أمر المهاجرین غیر الفلسطینیین الذین انتقلوا إلی هذا البلد خلال الأعوام الماضیة. هذا مشروع عادل و منطقی یستوعبه الرأی العام العالمی بصورة صحیحة، و یمکن أن یتمتع بدعم الشعوب و الحکومات المستقلة. بالطبع، لا نتوقع أن یرضخ الصهاینة الغاصبون له بسهولة، و هنا یتکون دور الحکومات و الشعوب و منظمات المقاومة و یکتسب معناه.
الرکن الأهم لدعم الشعب الفلسطینی هو قطع الدعم للعدو الغاصب، و هذا هو الواجب الکبیر الذی یقع علی عاتق الحکومات الإسلامیة. الآن و بعد نزول الشعوب إلی الساحة و شعاراتهم المقتدرة ضد الکیان الصهیونی بأی منطق تواصل الحکومات المسلمة علاقاتها مع الکیان الغاصب؟ وثیقة صدق الحکومات المسلمة فی مناصرتها للشعب الفلسطینی هو قطع علاقاتها السیاسیة و الاقتصادیة الجلیة و الخفیة مع ذلک الکیان. الحکومات التی تستضیف سفارات الصهاینة أو مکاتبهم الاقتصادیة لا تستطیع أن تدعی الدفاع عن فلسطین، و أی شعار معاد للصهیونیة لن یأخذ منهم علی مأخذ الجد و الحقیقة.
منظمات المقاومة الإسلامیة التی تحملت فی الأعوام الماضیة أعباء الجهاد الثقیلة لا تزال الیوم أیضاً أمام هذا الواجب الکبیر. مقاومتهم المنظمة هی الذراع الفاعل الذی بمقدوره أخذ الشعب الفلسطینی نحو هذا الهدف النهائی. المقاومة الشجاعة للجماهیر التی احتلت دیارهم و بلادهم معترف بها رسمیاً و ممدوحة و مشاد بها فی کل المواثیق الدولیة. تهمة الإرهاب التی تطلقها الشبکات السیاسیة و الإعلامیة التابعة للصهیونیة کلام أجوف لا قیمة له. الإرهابی العلنی هو الکیان الصهیونی و حماته الغربیون، و المقاومة الفلسطینیة حرکة إنسانیة مقدسة مناهضة للإرهابیین.
و فی هذا الخضم، من الجدیر بالبلدان الغربیة أیضاً أن تکون لها نظرتها الواقعیة. الغرب الیوم علی مفترق طرق. إما أن یتخلی عن منطق القوة الذی استخدمه زمناً طویلاً و یعترف بحقوق الشعب الفلسطینی، و لا یواصل أکثر من هذا اتباع المخططات الصهیونیة التعسفیة اللاإنسانیة، و إما أن ینتظر ضربات أقسی فی المستقبل غیر البعید. و هذه الضربات الشالة لیست مجرد السقوط المتتابع للحکومات المطیعة لهم فی المنطقة الإسلامیة، إنما یوم تدرک الشعوب فی أوربا و أمریکا أن أغلب مشکلاتهم الاقتصادیة و الاجتماعیة و الأخلاقیة نابعة من الهیمنة الأخطبوطیة للصهیونیة الدولیة علی حکوماتهم، و أن ساستهم یطیعون و یسلمون لتعسف أصحاب الشرکات الصهیونیة المصاصة للدماء فی أمریکا و أوربا من أجل الحفاظ علی مصالحهم الشخصیة و الحزبیة، فسوف یخلقون لهم جحیماً لا یمکن تصور أی سبیل للخلاص منه.
یقول رئیس جمهوریة أمریکا إن أمن إسرائیل هو خطنا الأحمر. من الذی رسم هذا الخط الأحمر؟ مصالح الشعب الأمریکی أم حاجة أوباما الشخصیة للمال و دعم الشرکات الصهیونیة للحصول علی کرسی الرئاسة فی الدورة الرئاسیة الثانیة؟ إلی متی ستستطیعون خداع شعبکم؟ ماذا سیفعل الشعب الأمریکی یوم یدرک عن حق أنکم رضیتم بالذلة و التبعیة و التمرّغ فی التراب أمام أرباب المال الصهاینة، و نحرتم مصالح شعب کبیر أمام أقدامهم من أجل البقاء فی السلطة أیاماً أضافیة؟
أیها الإخوة و الأخوات الأعزاء، إعلموا أن هذا الخط الأحمر لأوباما و أمثاله سوف یتحطم علی ید الشعوب المسلمة الثائرة. ما یهدد الکیان الصهیونی لیس صواریخ إیران أو جماعات المقاومة حتی تنصبوا أمامه درعاً صاروخیاً هنا و هناک. التهدید الحقیقی و الذی لا علاج له هو العزیمة الراسخة للرجال و النساء و الشباب فی البلدان الإسلامیة الذین لم یعودوا یریدون أن تتحکم فیهم أمریکا و أوربا و عملاؤهم، و یفرضون علیهم الهوان.
و بالطبع، فإن تلک الصواریخ سوف تؤدی واجباتها متی ما ظهر تهدید من قبل العدو.
«فاصبر إن وعد الله حق و لا یستخفنک الذین لا یوقنون».
و السلام عليكم و رحمة الله.
http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1224&Itemid=127
More...
Description:
الإمام الخامنئی فی مؤتمر نصرة الانتفاضة الفلسطینیة: فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»
01/10/2011
بسم الله الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمة الله..
الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین، و علی من تبعهم بإحسان إلی یوم الدین.
قال الله الحکیم: «أذن للذین یقاتلون بأنهم ظلموا و إن الله علی نصرهم لقدیر، الذین أخرجوا من دیارهم بغیر حق إلا أن یقولوا ربنا الله و لو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیها اسم الله کثیراً و لینصرن الله من ینصره إن الله لقوی عزیز».
أرحب بالضیوف الأعزاء و جمیع الحضور المحترمین.
تتمیز القضیة الفلسطینیة بخصوصیة فریدة من بین کل الموضوعات التی یجدر بالنخبة الدینیة و السیاسیة فی کل العالم الإسلامی أن تتطرق لها. فلسطین هی القضیة الأولی بین کل الموضوعات المشترکة للبلدان الإسلامیة. و ثمة خصوصیات منقطعة النظیر فی هذه القضیة:
أولاً: أن یغتصب بلد مسلم من شعبه، و یعطی لأجانب جُمّعوا من بلدان شتی، و کوّنوا مجتمعاً موزائیکیاً مزیفاً.
ثانیاً: أن هذا الحدث غیر المسبوق فی التاریخ جری بواسطة المذابح و الجرائم و الظلم و الإهانات المستمرة.
ثالثاً: أن قبلة المسلمین الأولی و الکثیر من المراکز الدینیة المحترمة فی هذا البلد مهدَّدة بالهدم و الامتهان و الزوال.
رابعاً: أن هذه الحکومة و المجتمع المزیّفین مارسا فی أکثر مناطق العالم الإسلامی حساسیة، منذ بدایة ظهورهما و إلی الآن، دور القاعدة العسکریة و الأمنیة و السیاسیة للحکومات الاستکباریة، و دور المحور للغرب الاستعماری الذی هو - و لأسباب متعددة - عدو اتحاد البلدان الإسلامیة و رفعتها و تقدمها، و قد استخدمه کالخنجر فی خاصرةَ الأمة الإسلامیة.
خامساً: أن الصهیونیة التی تعدّ خطراً أخلاقیاً و سیاسیاً و اقتصادیاً کبیراً علی المجتمع البشری استخدمت محطّ الأقدام هذا وسیلة و نقطة انطلاق لتوسیع نفوذها و هیمنتها فی العالم.
و یمکن إضافة نقاط أخری للنقاط السابقة منها التکالیف المالیة و البشریة الجسیمة التی تحمّلتها البلدان الإسلامیة لحد الآن، و الانشغال الذهنی للحکومات و الشعوب المسلمة، و معاناة و محن ملایین المشردین الفلسطینیین الذین لا یزال البعض منهم یعیشون لحد الآن و بعد ستة عقود فی المخیمات، و الانقطاع التاریخی لقطب حضاری مهم فی العالم الإسلامی، و .... الخ.
و قد أضیفت الیوم نقطة أساسیة أخری إلی تلک النقاط، ألا و هی نهضة الصحوة الإسلامیة التی عمّت کل المنطقة، و فتحت فصلاً جدیداً حاسماً فی تاریخ الأمة الإسلامیة. هذه الحرکة العظیمة التی یمکنها بلا شک أن تؤدی إلی إیجاد منظومة إسلامیة مقتدرة و متقدمة و منسجمة فی هذه المنطقة الحساسة من العالم، و تضع بحول الله و قوته و بالعزیمة الراسخة لرواد هذه النهضة نهایة لعصر التخلف و الضعف و المهانة الذی عاشته الشعوب المسلمة، استمدت جانباً مهماً من طاقتها و حماسها من قضیة فلسطین.
الظلم و العسف المتصاعد الذی یمارسه الکیان الصهیونی و مواکبة بعض الحکام المستبدین الفاسدین المرتزقین لأمریکا لهذا العسف من جهة، و انبعاث المقاومة الفلسطینیة و اللبنانیة المستمیتة و الانتصارات المعجزة للشباب المؤمن فی حربی الـ 33 یوماً فی لبنان و الـ 22 یوماً فی غزة من جهة أخری، هی من جملة العوامل المهمة التی أطلقت الطوفان فی المحیط الهادئ فی ظاهره للشعوب فی مصر و تونس و لیبیا و باقی بلدان المنطقة.
إنها لحقیقة أن الکیان الصهیونی المدجج بالسلاح و المدعی أنه عصیّ علی الهزیمة تلقی فی حرب غیر متکافئة فی لبنان هزیمة قاسیة مذلة من القضبات المشدودة للمجاهدین المؤمنین الأبطال، و بعد ذلک اختبر سیفه الکلیل مرة أخری أمام المقاومة الفولاذیة المظلومة لغزة و ذاق طعم الإخفاق.
هذه أمور یجب أخذها بعین الجد فی تحلیل الأوضاع الحالیة للمنطقة، و قیاس صحة أی قرار یتخذ علی ضوئها.
إذن، إنه لرأی و حکم دقیق بأن قضیة فلسطین اکتسبت الیوم أهمیة و فوریة مضاعفة، و من حق الشعب الفلسطینی أن یتوقع المزید من البلدان المسلمة فی الوضع الراهن للمنطقة.
لنلق نظرة علی الماضی و الحاضر و نرسم خارطة طریق للمستقبل. و أنا أطرح هاهنا بعض رؤوس النقاط.
مضت علی فاجعة اغتصاب فلسطین أکثر من ستة عقود. و جمیع المسببین الرئیسیین لهذه الفاجعة الدامیة معرفون، و علی رأسهم الحکومة البریطانیة المستعمرة، حیث استخدمت سیاستها و قواها العسکریة و الأمنیة و الاقتصادیة و الثقافیة، هی و سائر الحکومات الغربیة و الشرقیة المستکبرة من بعد ذلک، لخدمة هذا الظلم الکبیر. و قد طرد الشعب الفلسطینی المشرد تحت وطأة قبضات المحتلین التی لا تعرف الرحمة، و قتل و أخرج من موطنه و دیاره. و إلی الیوم لم یجر تصویر حتی واحد بالمائة من الفاجعة الإنسانیة و المدنیة التی وقعت علی ید أدعیاء التحضر و الأخلاق فی ذلک الحین، و لم تحظ بنصیب من الفنون الإعلامیة و المرئیة، فهذا ما لم یشأه کبار أرباب الفنون التصویریة و السینمائیة و التلفزیونیة و المافیات الغربیة لإنتاج الأفلام، و لم یسمحوا به. شعب کامل قتل و تشرد وسط صمت مطبق.
ظهرت حالات المقاومة فی بدایة الأمر، و قد قمعت بقسوة و شدة. و بذل رجال علی الحدود الفلسطینیة، و خصوصاً من مصر، جهوداً بمحفزات إسلامیة، لکنها لم تحظ بالدعم اللازم و لم تستطع التأثیر فی الساحة.
و بعد ذلک جاء الدور للحروب الرسمیة و الکلاسیکیة بین عدة بلدان عربیة و الجیش الصهیونی. جندت مصر و سوریة و الأردن قواتها العسکریة فی الساحة، لکن المساعدات العسکریة و الإمدادیة و المالیة السخیة و الزاخرة و المتزایدة التی قدمتها أمریکا و بریطانیا و فرنسا للکیان الغاصب فرضت الإخفاق علی الجیوش العربیة. إنهم لم یعجزوا عن مساعدة الشعب الفلسطینی و حسب، بل و خسروا أجزاء مهمة من أراضیهم فی هذه الحروب.
و مع اتضاح عجز الحکومات العربیة الجارة لفلسطین تکوّنت تدریجیاً خلایا المقاومة المنظمة فی معظم الجماعات الفلطسینیة المسلحة، و بعد فترة من اجتماعها تأسست منظمة التحریر الفلسطینیة. و کان هذه بصیص أمل تألق تألقاً حسناً لکنه لم یستمر طویلاً حتی خبا. و یمکن ردّ هذا الإخفاق إلی العدید من الأسباب، بید أن السبب الرئیسی هو ابتعادهم عن الجماهیر و عن عقیدتهم و إیمانهم الإسلامی. الإیدیولوجیا الیساریة أو مجرد المشاعر القومیة لم تکن الشیء الذی تحتاجه قضیة فلسطین المعقدة الصعبة. ما کان بوسعه إنزال شعب بکامله إلی ساحة المقاومة و خلق قوة عصیة علی الهزیمة من أبناء الشعب هو الإسلام و الجهاد و الشهادة. أولئک لم یدرکوا هذه الفکرة بصورة صحیحة. فی الأشهر الأولی لانتصار الثورة الإسلامیة الکبری حیث کان زعماء منظمة التحریر الفلسطینیة قد اکتسبوا معنویات جدیدة و راحوا یترددون علی طهران، سألت أحد شخصیاتهم المهمة: لماذا لا ترفعون رایة الإسلام فی کفاحکم الحق. و کان جوابه إن بیننا بعض المسیحیین. و قد جری اغتیال هذا الشخص بعد ذلک فی أحد البلدان العربیة علی ید الصهاینة، و نتمنی إن یکون الغفران الإلهی قد شمله إن شاء الله، لکن استدلاله هذا کان ناقصاً و غیر ناهض. أعتقد أن المناضل المسیحی المؤمن یکتسب إلی جانب الجماعة المجاهدة المضحیة التی تقاتل بإخلاص من منطلق الإیمان بالله و القیامة و الأمل بالمعونة الإلهیة، و تتمتع بالدعم المادی و المعنوی لشعبها، یکتسب محفزات أکبر و أکثر للنضال مما لو کان إلی جانب جماعة عدیمة الإیمان و معتمدة علی مشاعر متزعزعة و بعیدةً عن الإسناد الشعبی الوفی.
عدم توفر الإیمان الدینی الراسخ و الانقطاع عن الشعب جعلهم بمرور الوقت عاجزین و عدیمی التأثیر. طبعاً کان بینهم رجال شرفاء و متحفزون و غیورون، بید أن الجماعة و التنظیم سار فی طریق آخر. انحرافهم وجّه و لا یزال الضربات للقضیة الفلسطینیة. هم أیضاً تنکروا کبعض الحکومات العربیة الخائنة لأهداف المقاومة التی کانت و لا تزال السبیل الوحید لإنقاذ فلسطین، و قد وجّهوا الضربات لا لفلسطین و حسب بل لأنفسهم أیضاً. و علی حد تعبیر الشاعر المسیحی العربی:
لئن أضعتم فلسطيناً فعيشكم طول الحياة مضاضات و آلامٌ
و هکذا مضت إثنتان و ثلاثون سنة من عمر النکبة.. لکن ید القدرة الإلهیة قلبت الصفحة فجأة. و قلب انتصار الثورة الإسلامیة فی إیران فی سنة 1979 (1357 هجری شمسی) الأوضاع فی هذه المنطقة رأساً علی عقب، و فتح صفحة جدیدة. و من بین التأثیرات العالمیة المذهلة لهذه الثورة کانت الضربة التی وجّهتها للحکومة الصهیونیة هی الأسرع و الأوضح من بین الضربات الشدیدة و العمیقة التی وجّهتها للسیاسات الاستکباریة. و کانت تصریحات ساسة الکیان الصهیونی فی تلک الأیام جدیرة بالقراءة و تنمّ عن وضعهم الأسود الغارق فی الاضطراب. فی الأسابیع الأولی للانتصار أغلقت السفارة الإسرائیلیة فی طهران، و أخرج العاملون فیها، و جری تسلیم مکانها رسمیاً لممثلی منظمة التحریر الفلسطینیة، و هم موجودن هناک لحد الآن. أعلن إمامنا الجلیل أن أحد أهداف هذه الثورة تحریر الأرض الفلسطینیة و استئصال غدة إسرائیل السرطانیة. الأمواج القویة لهذه الثورة التی عمّت العالم کله فی ذلک الحین حملت معها إین ما ذهبت هذه الرسالة: «یجب تحریر فلسطین». المشاکل المتتابعة و الکبیرة التی فرضها أعداء الثورة علی نظام الجمهوریة الإسلامیة الإیرانیة و إحداها حرب الأعوام الثمانیة التی شنها نظام صدام حسین بتحریض من أمریکا و بریطانیا و دعم الأنظمة العربیة الرجعیة، لم تستطع هی الأخری سلب الجمهوریة الإسلامیة محفزات الدفاع عن فلسطین.
و هکذا تم ضخّ دماء جدیدة فی عروق فلسطین، و انبثقت الجماعات الفلسطینیة المجاهدة الإسلامیة، و فتحت المقاومة فی لبنان جبهة قویة جدیدة أمام العدو و حماته. و اعتمدت فلسطین بدل الاستناد إلی الحکومات العربیة و من دون مدّ الید للأوساط العالمیة من قبیل منظمة الأمم المتحدة - و هی شریکة إجرام الحکومات الاستکباریة - اعتمدت علی نفسها و علی شبابها و علی إیمانها الإسلامی العمیق و علی رجالها و نسائها المضحین.
هذا هو مفتاح کل الفتوحات و النجاحات.
لقد تقدم هذا السیاق و تصاعد خلال العقود الثلاثة الأخیرة یوماً بعد یوم. و کانت الهزیمة الذلیلة للکیان الصهیونی فی لبنان عام 2006 (1385 هجری شمسی)، و الأخفاق الفاضح الذی منی به ذلک الجیش المتشدق فی غزة سنة 2008 (1387 هجری شمسی)، و الفرار من جنوب لبنان و الانسحاب من غزة، و تأسیس حکومة المقاومة فی غزة، و بکلمة واحدة تحول الشعب الفلسطینی من مجموعة من الناس الیائسین العاجزین إلی شعب متفائل مقاوم له ثقته بنفسه، کانت هذه کلها من الخصائص البارزة للأعوام الثلاثین الأخیرة.
هذه الصورة الکلیة الإجمالیة سوف تکتمل حینما یُنظر بصورة صحیحة للتحرکات الاستسلامیة و الخیانیة التی تهدف إلی إطفاء المقاومة و انتزاع الاعتراف الرسمی بشرعیة إسرائیل من الجماعات الفلسطینیة و الحکومات العربیة.
هذه التحرکات التی بدأت علی ید الخلیفة الخائن و اللاخلف لجمال عبد الناصر فی معاهدة کامب دیفید المخزیة أرادت دوماً ممارسة دور التثبیط حیال العزیمة الفولاذیة للمقاومة. فی معاهدة کامب دیفید اعترفت حکومة عربیة رسمیاً و لأول مرة بصهیونیة الأراضی الإسلامیة فی فلسطین، و ترکت توقیعها تحت سطور اعترفت بإسرائیل داراً قومیاً للیهود.
و بعد ذلک وصولاً إلی معاهدة أوسلو فی سنة 1993 (1372 هجری شمسی) و المشاریع التکمیلیة الأخری التی أعقبتها و التی أدارتها أمریکا، و واکبتها البلدان الأوربیة الاستعماریة، و فُرِضت عبأً علی عاتق الجماعات الاستسلامیة عدیمة الهمّة من الفلسطینیین، انصبت کل مساعی العدو علی صرف الشعب و الجماعات الفلسطینیة عن خیار المقاومة بوعود مخادعة جوفاء و إشغالهم بألاعیب صبیانیة فی الساحات السیاسیة. و سرعان ما تجلی عدم اعتبار کل هذه المعاهدات، و أثبت الصهاینة و حماتهم مراراً أنهم ینظرون لما کتب علی أنه مجرد قصاصات ورق لا قیمة لها. کان الهدف من هذه المشاریع بث الشکوک و التردید فی قلوب الفلسطینیین، و تطمیع الأفراد عدیمی الإیمان و طلاب الدنیا، و شلّ حرکة المقاومة الإسلامیة لیس إلا.
و قد کان المضاد لهذا السمّ فی کل هذه الألاعیب الخیانیة لحد الآن هو روح المقاومة لدی الجماعات الإسلامیة و الشعب الفلسطینی. لقد صمد هؤلاء أمام العدو بإذن الله، و کما وعد الله «و لینصرن الله من ینصره، إن الله لقوی عزیز» فقد حظوا بالمعونة و النصرة الإلهیة. لقد کان صمود غزة علی الرغم من المحاصرة المطلقة نصراً إلهیاً. و سقوط النظام الخائن الفاسد لحسنی مبارک نصراً إلهیاً، و ظهور موجة الصحوة الإسلامیة القویة فی المنطقة نصراً إلهیاً، و سقوط أستار النفاق و الزیف عن وجوه أمریکا و بریطانیا و فرنسا، و الکراهیة المتصاعدة لشعوب المنطقة لهم کانت نصرة إلهیة. و المشکلات المتتابعة و العصیة علی الحصر للکیان الصهیونی ابتداء من المشکلات السیاسیة و الاقتصادیة و الاجتماعیة الداخلیة إلی عزلته العالمیة و الکراهیة العامة له حتی فی الجامعات الأوربیة، کلها من مظاهر النصرة الإلهیة.
الکیان الصهیونی الیوم مکروه و ضعیف و معزول أکثر من أی وقت آخر، و حامیته الرئیسیة أمریکا مبتلاة متحیرة أکثر من أی وقت آخر.
الصفحة الکلیة و الإجمالیة لفلسطین طوال نیّف و ستین عاماً الماضیة أمام أنظارنا حالیاً. ینبغی تنظیم المستقبل بالنظر لهذا الماضی و استلهام الدروس منه.
ینبغی قبل کل شیء إیضاح نقطتین:
الأولی: إن دعوانا هی تحریر فلسطین و لیس تحریر جزء من فلسطین. أی مشروع یرید تقسیم فلسطین مرفوض بالمرة. مشروع الدولتین الذی خلعوا علیه لبوس الشرعیة «الاعتراف بحکومة فلسطین کعضو فی منظمة الأمم المتحدة» لیس سوی الاستسلام لإرادة الصهاینة، أی «الاعتراف للدولة الصهیونیة بالأرض الفلسطینیة». و هذا معناه سحق حقوق الشعب الفلسطینی و تجاهل الحق التاریخی للمشردین الفلسطینین، بل و تهدید حقوق الفلسطینیین الساکنین علی أراضی 1948 . و هو یعنی بقاء الغدة السرطانیة و التهدید الدائم لجسد الأمة الإسلامیة و خصوصاً شعوب المنطقة. و هو بمعنی تکرار آلام و محن عشرات الأعوام و سحق دماء الشهداء.
أی مشروع عملیاتی یجب أن یکون علی أساس مبدأ: «کل فلسطین لکل الشعب الفلسطینی». فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»، و لیس أقل من ذلک حتی بمقدار شبر. طبعاً یجب عدم نسیان أن الشعب الفلسطینی کما فعل فی غزة، سوف یتولی إدارة شؤونه بنفسه عن طریق حکومته المنتخبة فی أی جزء من تراب فلسطین یستطیع أن یحرره، لکنه لن ینسی الهدف النهائی علی الإطلاق.
النقطة الثانیة: هی أنه من أجل الوصول إلی هذا الهدف السامی لا بد من العمل و لیس الکلام، و لا بد من الجدّ و لیس الممارسات الاستعراضیة، و لا بد من الصبر و التدبیر لا السلوکیات المتلونة غیر الصبورة. ینبغی النظر للآفاق البعیدة و التقدم للأمام خطوة خطوة بعزم و توکل و أمل. یمکن لکل واحدة من الحکومات و الشعوب المسلمة و الجماعات المقاومة فی فلسطین و لبنان و باقی البلدان أن تعرف نصیبها و دورها من هذا الجهاد العام، و أن تملأ بإذن الله جدول المقاومة.
مشروع الجمهوریة الإسلامیة لحل قضیة فلسطین و لمداواة هذا الجرح القدیم مشروع واضح و منطقی و مطابق للعرف السیاسی المقبول لدی الرأی العام العالمی، و قد سبق أن عرض بالتفصیل. إننا لا نقترح الحرب الکلاسیکیة لجیوش البلدان الإسلامیة، و لا رمی الیهود المهاجرین فی البحر، و لا طبعاً تحکیم منظمة الأمم المتحدة و سائر المنظمات الدولیة. إننا نقترح إجراء استفتاء للشعب الفلسطینی. من حق الشعب الفلسطینی کأی شعب آخر أن یقرر مصیره و یختار النظام الذی یحکم بلاده. یشارک کل الفلسطینیین الأصلیین من مسلمین و مسیحیین و یهود - و لیس المهاجرون الأجانب - أین ما کانوا، فی داخل فلسطین أو فی المخیمات أو فی أی مکان آخر، فی استفتاء عام و منضبط و یحددوا النظام المستقبلی لفلسطین. و بعد أن یستقر ذلک النظام و الحکومة المنبثقة عنه سوف یقرر أمر المهاجرین غیر الفلسطینیین الذین انتقلوا إلی هذا البلد خلال الأعوام الماضیة. هذا مشروع عادل و منطقی یستوعبه الرأی العام العالمی بصورة صحیحة، و یمکن أن یتمتع بدعم الشعوب و الحکومات المستقلة. بالطبع، لا نتوقع أن یرضخ الصهاینة الغاصبون له بسهولة، و هنا یتکون دور الحکومات و الشعوب و منظمات المقاومة و یکتسب معناه.
الرکن الأهم لدعم الشعب الفلسطینی هو قطع الدعم للعدو الغاصب، و هذا هو الواجب الکبیر الذی یقع علی عاتق الحکومات الإسلامیة. الآن و بعد نزول الشعوب إلی الساحة و شعاراتهم المقتدرة ضد الکیان الصهیونی بأی منطق تواصل الحکومات المسلمة علاقاتها مع الکیان الغاصب؟ وثیقة صدق الحکومات المسلمة فی مناصرتها للشعب الفلسطینی هو قطع علاقاتها السیاسیة و الاقتصادیة الجلیة و الخفیة مع ذلک الکیان. الحکومات التی تستضیف سفارات الصهاینة أو مکاتبهم الاقتصادیة لا تستطیع أن تدعی الدفاع عن فلسطین، و أی شعار معاد للصهیونیة لن یأخذ منهم علی مأخذ الجد و الحقیقة.
منظمات المقاومة الإسلامیة التی تحملت فی الأعوام الماضیة أعباء الجهاد الثقیلة لا تزال الیوم أیضاً أمام هذا الواجب الکبیر. مقاومتهم المنظمة هی الذراع الفاعل الذی بمقدوره أخذ الشعب الفلسطینی نحو هذا الهدف النهائی. المقاومة الشجاعة للجماهیر التی احتلت دیارهم و بلادهم معترف بها رسمیاً و ممدوحة و مشاد بها فی کل المواثیق الدولیة. تهمة الإرهاب التی تطلقها الشبکات السیاسیة و الإعلامیة التابعة للصهیونیة کلام أجوف لا قیمة له. الإرهابی العلنی هو الکیان الصهیونی و حماته الغربیون، و المقاومة الفلسطینیة حرکة إنسانیة مقدسة مناهضة للإرهابیین.
و فی هذا الخضم، من الجدیر بالبلدان الغربیة أیضاً أن تکون لها نظرتها الواقعیة. الغرب الیوم علی مفترق طرق. إما أن یتخلی عن منطق القوة الذی استخدمه زمناً طویلاً و یعترف بحقوق الشعب الفلسطینی، و لا یواصل أکثر من هذا اتباع المخططات الصهیونیة التعسفیة اللاإنسانیة، و إما أن ینتظر ضربات أقسی فی المستقبل غیر البعید. و هذه الضربات الشالة لیست مجرد السقوط المتتابع للحکومات المطیعة لهم فی المنطقة الإسلامیة، إنما یوم تدرک الشعوب فی أوربا و أمریکا أن أغلب مشکلاتهم الاقتصادیة و الاجتماعیة و الأخلاقیة نابعة من الهیمنة الأخطبوطیة للصهیونیة الدولیة علی حکوماتهم، و أن ساستهم یطیعون و یسلمون لتعسف أصحاب الشرکات الصهیونیة المصاصة للدماء فی أمریکا و أوربا من أجل الحفاظ علی مصالحهم الشخصیة و الحزبیة، فسوف یخلقون لهم جحیماً لا یمکن تصور أی سبیل للخلاص منه.
یقول رئیس جمهوریة أمریکا إن أمن إسرائیل هو خطنا الأحمر. من الذی رسم هذا الخط الأحمر؟ مصالح الشعب الأمریکی أم حاجة أوباما الشخصیة للمال و دعم الشرکات الصهیونیة للحصول علی کرسی الرئاسة فی الدورة الرئاسیة الثانیة؟ إلی متی ستستطیعون خداع شعبکم؟ ماذا سیفعل الشعب الأمریکی یوم یدرک عن حق أنکم رضیتم بالذلة و التبعیة و التمرّغ فی التراب أمام أرباب المال الصهاینة، و نحرتم مصالح شعب کبیر أمام أقدامهم من أجل البقاء فی السلطة أیاماً أضافیة؟
أیها الإخوة و الأخوات الأعزاء، إعلموا أن هذا الخط الأحمر لأوباما و أمثاله سوف یتحطم علی ید الشعوب المسلمة الثائرة. ما یهدد الکیان الصهیونی لیس صواریخ إیران أو جماعات المقاومة حتی تنصبوا أمامه درعاً صاروخیاً هنا و هناک. التهدید الحقیقی و الذی لا علاج له هو العزیمة الراسخة للرجال و النساء و الشباب فی البلدان الإسلامیة الذین لم یعودوا یریدون أن تتحکم فیهم أمریکا و أوربا و عملاؤهم، و یفرضون علیهم الهوان.
و بالطبع، فإن تلک الصواریخ سوف تؤدی واجباتها متی ما ظهر تهدید من قبل العدو.
«فاصبر إن وعد الله حق و لا یستخفنک الذین لا یوقنون».
و السلام عليكم و رحمة الله.
http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1224&Itemid=127
0:50
|
8th Dec 08 - Protest against USA and Israel in Arafat - All languages
مشرکین کی بیزاری کا اعلان؛ سرزمین وحی پر حجاج کا اجتماع
Disavowal of Pagans ceremony started in the sacred Arafat Desert on Sunday in Saudi Arabia...
مشرکین کی بیزاری کا اعلان؛ سرزمین وحی پر حجاج کا اجتماع
Disavowal of Pagans ceremony started in the sacred Arafat Desert on Sunday in Saudi Arabia with a huge crowd of Hajj pilgrims, mainly Iranians in attendance. They chanted slogans including "God is beyond description," "There is no god but Allah," "Muhammad is the messenger of Allah," "America is the enemy of Allah," "Israel is the enemy of Allah," and "O, Muslims. Let's get united."
سرزمین عرفات پر آج اس وقت حجاج کرام کے اللہ اکبر امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے نعرے گونج اٹھے جب حجاج کرام نے سنت ابراہیمی کے مطابق برائت از مشرکین کا روح پرور اجتماع منعقد کیا ۔اس موقع پر ایرانی حج مشن کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمدی ری شہری نے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام بڑھ کر سنایا ۔ برائت از مشرکین کے اس روح پرور اجتماع میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے حجاج کرام کے علاوہ ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان ، عراق ، لبنان ، فلسطین سمیت دنیا کے سبھی ملکوں کے حجاج اور نمائندہ وفود نے شرکت کی اور عالم اسلام کی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور خصوصا" قدس کی غاصب صیہونی حکومت سے اپنے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ۔حجاج کرام نے عراق ، لبنان ، فلسطین اور دنیا کے دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا اور رہبر انقلاب اسلامی کے حج پیغام کے تائید میں اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے پیغام میں اسلامی امۃ کے روش اور امید افزا مستقبل نیز مسلمانوں کے مقابل امریکہ اور صہونیت کی شکست پرتاکید فرمائي ہے ۔رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام حج میں میدان عرفات میں مشرکین سے اظہار بیزاری کئے جانے کی ضرورت پرزوردیتےہوئے فرمایاہےکہ اسلامی امۃ خدا کے سچے وعدوں پریقین رکھتے ہوئے ایمان اخلاص، امید وجہاد اور صبر بصیرت کےساتھ دشوار منزلوں کو سرکرلے گي۔ولی امر مسلمین حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایاکہ اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی تہذیب وتمدن کی حکمرانی کا مستحکم مرکزاورمغرب کے سیاسی اور اقتصادی مکاتب فکر کی کمزوری اور اضمحلال کا سبب بن چکا ہے۔ آپ نے فرمایا فلسطین کی تحریک انتفاضہ، صیہونی حکومت کے خلاف حزب اللہ کی تاريخي کامیابی نیز عراق میں عوامی اور اسلامی حکومت کی تشکیل، مشرق وسطی پر تسلط جمانے کی امریکہ کی سامراجی سازشوں کی ناکامی، صیہونی حکومت کے ناقابل علاج اندرونی مسائل، ایران کے خلاف ہمہ گیر پابندیوں اور اقتصادی محاصرے کےباوجود سائينسی اور ٹکنالوجیکل ترقی یہ سب کی سب دشمنوں کے مقابلے اس صدی میں اسلام کی کامیابیوں کی نشانیاں ہیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایاکہ زخم خوردہ دشمن اپنی تمام تر توانائيوں کے ساتھ میدان میں اترآيا ہے ۔آپ نے مسلم امۃ کو انتباہ دیا کہ خدا کے سچے وعدوں سے مایوس نہ ہوں اورنہ ان کے تعلق سے منفی خیالات بد گمانی اور عدم التفات کا شکارنہ ہوں ۔آپ نے تاکید فرمائي کہ مسلم امۃ کےایمان واخلاص،امید وجہاد بصیرت وہوشیاری اور دانشمندی سے دشمن کی سازشیں ناکام ہوجائيں گي ۔آپ نے اپنے پیغام حج میں فرمایا ہے کہ غزہ پٹی میں دشمن کے بے رحمانہ اقدامات اور درندگي کہ جس کی مثال تاریخی بشریت میں بہت کم ملتی ہے ان عورتوں مردوں جوانوں اور بچوں کے مستحکم ارادے پر فائق آنے اور کچلنے کی سعی رائيگان اور کی علامت ہے جو غاصب اور اس کے حامی یعنی سپرپاور امریکہ کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کے مطالبے کو جوکہ حماس کی حکومت سے روگردانی کرنا ہے نظرانداز کردیاہے ۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغام حج میں فرمایا ہےکہ فلسطین کی مظلوم اور صابر قوم سرانجام دشمن پرکامیاب ہوکررہے گي اور آج بھی ہم شاہد ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی اکثر حکومتیں فلسطینیوں کی مزاحمت کو توڑنے میں ناکام ہیں اور حریت پسندی جمہوریت نیز انسانی حقوق کے جھوٹے دعوےکرنے والی ان حکومتوں کوسیاسی میدان میں بھی سخت شکست ہوئي ہےاور اس شکست کی اتنی جلدی تلافی نہ ہوسکے گي ۔
More...
Description:
مشرکین کی بیزاری کا اعلان؛ سرزمین وحی پر حجاج کا اجتماع
Disavowal of Pagans ceremony started in the sacred Arafat Desert on Sunday in Saudi Arabia with a huge crowd of Hajj pilgrims, mainly Iranians in attendance. They chanted slogans including "God is beyond description," "There is no god but Allah," "Muhammad is the messenger of Allah," "America is the enemy of Allah," "Israel is the enemy of Allah," and "O, Muslims. Let's get united."
سرزمین عرفات پر آج اس وقت حجاج کرام کے اللہ اکبر امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے نعرے گونج اٹھے جب حجاج کرام نے سنت ابراہیمی کے مطابق برائت از مشرکین کا روح پرور اجتماع منعقد کیا ۔اس موقع پر ایرانی حج مشن کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محمدی ری شہری نے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام بڑھ کر سنایا ۔ برائت از مشرکین کے اس روح پرور اجتماع میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے حجاج کرام کے علاوہ ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان ، عراق ، لبنان ، فلسطین سمیت دنیا کے سبھی ملکوں کے حجاج اور نمائندہ وفود نے شرکت کی اور عالم اسلام کی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور خصوصا" قدس کی غاصب صیہونی حکومت سے اپنے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ۔حجاج کرام نے عراق ، لبنان ، فلسطین اور دنیا کے دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا اور رہبر انقلاب اسلامی کے حج پیغام کے تائید میں اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے پیغام میں اسلامی امۃ کے روش اور امید افزا مستقبل نیز مسلمانوں کے مقابل امریکہ اور صہونیت کی شکست پرتاکید فرمائي ہے ۔رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام حج میں میدان عرفات میں مشرکین سے اظہار بیزاری کئے جانے کی ضرورت پرزوردیتےہوئے فرمایاہےکہ اسلامی امۃ خدا کے سچے وعدوں پریقین رکھتے ہوئے ایمان اخلاص، امید وجہاد اور صبر بصیرت کےساتھ دشوار منزلوں کو سرکرلے گي۔ولی امر مسلمین حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایاکہ اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی تہذیب وتمدن کی حکمرانی کا مستحکم مرکزاورمغرب کے سیاسی اور اقتصادی مکاتب فکر کی کمزوری اور اضمحلال کا سبب بن چکا ہے۔ آپ نے فرمایا فلسطین کی تحریک انتفاضہ، صیہونی حکومت کے خلاف حزب اللہ کی تاريخي کامیابی نیز عراق میں عوامی اور اسلامی حکومت کی تشکیل، مشرق وسطی پر تسلط جمانے کی امریکہ کی سامراجی سازشوں کی ناکامی، صیہونی حکومت کے ناقابل علاج اندرونی مسائل، ایران کے خلاف ہمہ گیر پابندیوں اور اقتصادی محاصرے کےباوجود سائينسی اور ٹکنالوجیکل ترقی یہ سب کی سب دشمنوں کے مقابلے اس صدی میں اسلام کی کامیابیوں کی نشانیاں ہیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایاکہ زخم خوردہ دشمن اپنی تمام تر توانائيوں کے ساتھ میدان میں اترآيا ہے ۔آپ نے مسلم امۃ کو انتباہ دیا کہ خدا کے سچے وعدوں سے مایوس نہ ہوں اورنہ ان کے تعلق سے منفی خیالات بد گمانی اور عدم التفات کا شکارنہ ہوں ۔آپ نے تاکید فرمائي کہ مسلم امۃ کےایمان واخلاص،امید وجہاد بصیرت وہوشیاری اور دانشمندی سے دشمن کی سازشیں ناکام ہوجائيں گي ۔آپ نے اپنے پیغام حج میں فرمایا ہے کہ غزہ پٹی میں دشمن کے بے رحمانہ اقدامات اور درندگي کہ جس کی مثال تاریخی بشریت میں بہت کم ملتی ہے ان عورتوں مردوں جوانوں اور بچوں کے مستحکم ارادے پر فائق آنے اور کچلنے کی سعی رائيگان اور کی علامت ہے جو غاصب اور اس کے حامی یعنی سپرپاور امریکہ کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کے مطالبے کو جوکہ حماس کی حکومت سے روگردانی کرنا ہے نظرانداز کردیاہے ۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغام حج میں فرمایا ہےکہ فلسطین کی مظلوم اور صابر قوم سرانجام دشمن پرکامیاب ہوکررہے گي اور آج بھی ہم شاہد ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی اکثر حکومتیں فلسطینیوں کی مزاحمت کو توڑنے میں ناکام ہیں اور حریت پسندی جمہوریت نیز انسانی حقوق کے جھوٹے دعوےکرنے والی ان حکومتوں کوسیاسی میدان میں بھی سخت شکست ہوئي ہےاور اس شکست کی اتنی جلدی تلافی نہ ہوسکے گي ۔
12:32
|
[Speech] Imam Khamenei - Quds Day | آیت اللہ خامنہ ای یوم القدس خطاب | Urdu
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
یوم القدس کے موقع پر مسئلہ فلسطین اور امریکہ و اسرائیل کی دشمنی سے متعلق...
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
یوم القدس کے موقع پر مسئلہ فلسطین اور امریکہ و اسرائیل کی دشمنی سے متعلق
اُمت مسلمہ بالخصوص عرب دنیا سے اہم خطاب
29/04/2022
البلاغ : ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
یوم القدس کے موقع پر مسئلہ فلسطین اور امریکہ و اسرائیل کی دشمنی سے متعلق
اُمت مسلمہ بالخصوص عرب دنیا سے اہم خطاب
29/04/2022
البلاغ : ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
11:50
|
4:50
|
Ayatollah Sayyid Ali Khamenei Letter to Palestinian Islamic Jihad Movement Secretary General Jihad Nakhala | 2022 | Urdu
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا
فلسطین کی تنظیم جہاد اسلامی کے سکیریٹری جنرل جناب جہاد نخالہ کےخط...
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا
فلسطین کی تنظیم جہاد اسلامی کے سکیریٹری جنرل جناب جہاد نخالہ کےخط کا جواب
گذشتہ دنوں فلسطین پر غاصب اسرائیل کی جانب سے تین روزہ مسلط کردہ جنگ کے اختتام پر جناب جہاد نخالہ نے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے نام ایک خط ارسال کیا جس کے جواب میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے خط کا جواب ارسال فرمایا
مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ
البلاغ:ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا
فلسطین کی تنظیم جہاد اسلامی کے سکیریٹری جنرل جناب جہاد نخالہ کےخط کا جواب
گذشتہ دنوں فلسطین پر غاصب اسرائیل کی جانب سے تین روزہ مسلط کردہ جنگ کے اختتام پر جناب جہاد نخالہ نے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے نام ایک خط ارسال کیا جس کے جواب میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے خط کا جواب ارسال فرمایا
مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ
البلاغ:ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
3:07
|
مسئلہ فلسطین کا علاج ’’مقاومت‘‘ | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ بیت المقدس اور فلسطین میں ہونے والی مقاومت کے بارے میں کیا فرماتے...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ بیت المقدس اور فلسطین میں ہونے والی مقاومت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ سنگدل اور بے رحم صیہونی حکومت کا واحد علاج کیا ہے؟ اسرائیل کے نابود ہونے تک اس کا علاج کیا ہے؟ انقلاب اسلامی ایران نے فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر فلسطین کے مظلوم اہلسنت بھائیوں کی کس کس طرح مدد کی؟ امام خمینی رضوان اللہ علیہ مسلمانوں کو کس چیز کی تلقین فرماتے ہیں؟ انقلابِ اسلامی کی طرف سے فلسطینی مظلوموں کی مدد کے کیا نتائج نکلے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#وہڈیو #مسئلہ_فسلطین #مقاومت #علاج #مسجد_الاقصی #بیت_المقدس #بنیادی_مسئلہ #قبلہ_اول #وحشی #بھیڑیا_صفت_حکومت #حزب_اللہ #حماس
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ بیت المقدس اور فلسطین میں ہونے والی مقاومت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ سنگدل اور بے رحم صیہونی حکومت کا واحد علاج کیا ہے؟ اسرائیل کے نابود ہونے تک اس کا علاج کیا ہے؟ انقلاب اسلامی ایران نے فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر فلسطین کے مظلوم اہلسنت بھائیوں کی کس کس طرح مدد کی؟ امام خمینی رضوان اللہ علیہ مسلمانوں کو کس چیز کی تلقین فرماتے ہیں؟ انقلابِ اسلامی کی طرف سے فلسطینی مظلوموں کی مدد کے کیا نتائج نکلے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#وہڈیو #مسئلہ_فسلطین #مقاومت #علاج #مسجد_الاقصی #بیت_المقدس #بنیادی_مسئلہ #قبلہ_اول #وحشی #بھیڑیا_صفت_حکومت #حزب_اللہ #حماس
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
muqawemat,
falastine,
palestine,
ilaaj,
sayyid
ali
khamenei,
wali
amre
muslemeen,
al
qods,
hezbollah,
qibla
e
awwal,
bait
al
muqaddas,
bunyadi
masla,
wehshi,
hukumat,
bhediya,
hamas,
iran,
israel,
gaza,
inqelab
e
islami,
mazhabi
tassub,
ahle
sunnat.
shia,
sunni,
mazloom,
zalim,
madad,
musalman,
ummat
e
wahida,
[ARABIC][25MAY11] كلمة السيد حسن نصر الله - Liberation Day
القى الامين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصرالله خطابا تاريخيا بمهرجان عيد المقاومة والتحرير في بلدة...
القى الامين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصرالله خطابا تاريخيا بمهرجان عيد المقاومة والتحرير في بلدة النبي شيت ، رد فيه على خطابي الرئيس الاميركي باراك اوباما ورئيس وزراء العدو بنيامين نتنياهو داعيا الامة الى الرد بلاءات ضد الاحتلال ووجود الكيان الصهيوني وبنعم للمقاومة ولفت الى ان اتهام اوباما لحزب الله بالاغتيالات اكد ما كنا نقوله ان المحكمة اميركية ، واكد سماحته ان اسقاط النظام السوري هو هدف اميركي صهيوني، وبشأن التأخر في تشكيل الحكومة قال سماحته "عسى ان تكرهو شيئا وهو خير لكم" وجدد التاكيد على استمرار المقاومة والحفاظ على صواريخها وشدد على ان ما جرى في مارون الراس ومجدل شمس اثبت مجددا ان " اسرائيل اوهن من بيت العنكبوت"
More...
Description:
القى الامين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصرالله خطابا تاريخيا بمهرجان عيد المقاومة والتحرير في بلدة النبي شيت ، رد فيه على خطابي الرئيس الاميركي باراك اوباما ورئيس وزراء العدو بنيامين نتنياهو داعيا الامة الى الرد بلاءات ضد الاحتلال ووجود الكيان الصهيوني وبنعم للمقاومة ولفت الى ان اتهام اوباما لحزب الله بالاغتيالات اكد ما كنا نقوله ان المحكمة اميركية ، واكد سماحته ان اسقاط النظام السوري هو هدف اميركي صهيوني، وبشأن التأخر في تشكيل الحكومة قال سماحته "عسى ان تكرهو شيئا وهو خير لكم" وجدد التاكيد على استمرار المقاومة والحفاظ على صواريخها وشدد على ان ما جرى في مارون الراس ومجدل شمس اثبت مجددا ان " اسرائيل اوهن من بيت العنكبوت"
Must Listen Beautiful Poetry on Imam e Rahil (RA) - Urdu
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان...
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان تھا
عالم اسلام خالص دین سے انجان تھا
آج ہی کے دور جیسے کم نہ تھے علما سو
جن کی نظروں میں خدا ایک قصرے عالی شان تھا
حج و زیارت کی دکانیں کھل رہیں تھی جا بجا
تھی زبانی الله ہو یہ دل مگر سنسان تھا
کربلا دل میں بسا ئی تھی مگر ایک شخصں نے
اوج پہ پوھنچا ہوا اس شخص کا عرفان تھا
اس زمانے میں اٹھا ایک نائب مہدی حق
جس زمانے میں زبان کا کھولنا نسیاں تھا
در بدر پھرتا نہی ہرگز غلام پنجتن
نہ ہی مشرق نا ہی مغرب نعرے مستان تھا
حق کی خاطر اٹھ گیا اور حق کی خاطر ڈٹ گیا
غیر معصومین میں عجب انسان تھا
نقش الاللہ جو ابھرا خمینی بت شکن
ہو گئی قائم ولایت خم کا جو اعلان تھا
سن چکی دنیا بوہت صامت قرآن اور صامت حدیث
وہ امام عصر کا ایک بولتا فرمان تھا
جانور صدام جیسے چھوڑے تھے طاغوت نے
سر پے ایک حضرت کا سایہ فتح کا عنوان تھا
ہم علی والے کبھی میدان سے بھاگے نہی
ویسا ہی لبنان نکلا جیسا کے ایران تھا
کس طرح ہوتے ہیں فائز آج دنیا دیکھ لے
جیب میں تھی سجدہ گھ اور ہاتھ میں قران تھا
اس لئے ائی مقابل فوج اسرائیل کی
فوج اسرائیل کو جانا جو قبرستان تھا
طالبانی ہاتھ پر ہے بے گناہوں کا لہو
ان کو اس پر فخر ہے کے جد ابو سفیان تھا
فتوے نے دیکھو الٹ دی رشدی کے رخ سے نقاب
لکھنے والا اس کتاب شر کا خود شیطان تھا
نام پر اسلام کے وہ دے گیا لاکھوں شہید
جان تو بچ جاتی لیکن دین کا نقصان تھا
روح زندہ ہو گئی رو ح اللہ کے اقدام سے
متقی زاہد مجاہد عالم زی شان تھا
More...
Description:
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان تھا
عالم اسلام خالص دین سے انجان تھا
آج ہی کے دور جیسے کم نہ تھے علما سو
جن کی نظروں میں خدا ایک قصرے عالی شان تھا
حج و زیارت کی دکانیں کھل رہیں تھی جا بجا
تھی زبانی الله ہو یہ دل مگر سنسان تھا
کربلا دل میں بسا ئی تھی مگر ایک شخصں نے
اوج پہ پوھنچا ہوا اس شخص کا عرفان تھا
اس زمانے میں اٹھا ایک نائب مہدی حق
جس زمانے میں زبان کا کھولنا نسیاں تھا
در بدر پھرتا نہی ہرگز غلام پنجتن
نہ ہی مشرق نا ہی مغرب نعرے مستان تھا
حق کی خاطر اٹھ گیا اور حق کی خاطر ڈٹ گیا
غیر معصومین میں عجب انسان تھا
نقش الاللہ جو ابھرا خمینی بت شکن
ہو گئی قائم ولایت خم کا جو اعلان تھا
سن چکی دنیا بوہت صامت قرآن اور صامت حدیث
وہ امام عصر کا ایک بولتا فرمان تھا
جانور صدام جیسے چھوڑے تھے طاغوت نے
سر پے ایک حضرت کا سایہ فتح کا عنوان تھا
ہم علی والے کبھی میدان سے بھاگے نہی
ویسا ہی لبنان نکلا جیسا کے ایران تھا
کس طرح ہوتے ہیں فائز آج دنیا دیکھ لے
جیب میں تھی سجدہ گھ اور ہاتھ میں قران تھا
اس لئے ائی مقابل فوج اسرائیل کی
فوج اسرائیل کو جانا جو قبرستان تھا
طالبانی ہاتھ پر ہے بے گناہوں کا لہو
ان کو اس پر فخر ہے کے جد ابو سفیان تھا
فتوے نے دیکھو الٹ دی رشدی کے رخ سے نقاب
لکھنے والا اس کتاب شر کا خود شیطان تھا
نام پر اسلام کے وہ دے گیا لاکھوں شہید
جان تو بچ جاتی لیکن دین کا نقصان تھا
روح زندہ ہو گئی رو ح اللہ کے اقدام سے
متقی زاہد مجاہد عالم زی شان تھا
امریکہ و اسرائیل کی ایران کو جنگ کی دھمکیاں Hamari Nigah [Al-Balagh Studio] - Urdu
War threats to Iran by U.S. & israel
امریکہ و اسرائیل کی ایران کو جنگ کی دھمکیاں
پروگرام ہماری نگاہ
مہمان ناصر شیرازی...
War threats to Iran by U.S. & israel
امریکہ و اسرائیل کی ایران کو جنگ کی دھمکیاں
پروگرام ہماری نگاہ
مہمان ناصر شیرازی
The guest of this discussion is:
Brother Nasir Shirazi.
More...
Description:
War threats to Iran by U.S. & israel
امریکہ و اسرائیل کی ایران کو جنگ کی دھمکیاں
پروگرام ہماری نگاہ
مہمان ناصر شیرازی
The guest of this discussion is:
Brother Nasir Shirazi.
2:40
|
بسیجی جوانوں نے امریکی استکبار کو شکست دی | Farsi sub Urdu
بسیجی جوانوں نے اس خطے میں امریکی استکبار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور عالمی طاغوت کے اہداف کو ناکام بنا...
بسیجی جوانوں نے اس خطے میں امریکی استکبار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور عالمی طاغوت کے اہداف کو ناکام بنا دیا۔
#ویڈیو #استکبار _ستیزی #ولی_امرمسلمین #بسیج #امریکہ #اسرائیل #داعش
More...
Description:
بسیجی جوانوں نے اس خطے میں امریکی استکبار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور عالمی طاغوت کے اہداف کو ناکام بنا دیا۔
#ویڈیو #استکبار _ستیزی #ولی_امرمسلمین #بسیج #امریکہ #اسرائیل #داعش
2:34
|
یمن پر آل سعود کی جارحیت | Farsi sub Urdu
جو کام صیہونیوں نے غزہ کے ساتھ کیا تھا وہی کام آل سعود نے یمن کے ساتھ کیا ہے۔۔ آل سعود یمن پر ظلم کی اس روایت...
جو کام صیہونیوں نے غزہ کے ساتھ کیا تھا وہی کام آل سعود نے یمن کے ساتھ کیا ہے۔۔ آل سعود یمن پر ظلم کی اس روایت کو دہرا رہے ہیں لیکن آل سعود کی یمن کے معاملے میں شکست حتمی ہے۔۔
یمن کے معاملے پر امریکی سعودی گٹھ جوڑ اور آل سعود اور صیہونیوں کی ظلم کی مماثلت پر ولی امرمسلمین سید علی خامنہ ای کی انتہائی اہم گفتگو سے اقتباس
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #یمن #آل_سعود #امریکہ #اسرائیل #صیہونی #ظلم #جارحیت
More...
Description:
جو کام صیہونیوں نے غزہ کے ساتھ کیا تھا وہی کام آل سعود نے یمن کے ساتھ کیا ہے۔۔ آل سعود یمن پر ظلم کی اس روایت کو دہرا رہے ہیں لیکن آل سعود کی یمن کے معاملے میں شکست حتمی ہے۔۔
یمن کے معاملے پر امریکی سعودی گٹھ جوڑ اور آل سعود اور صیہونیوں کی ظلم کی مماثلت پر ولی امرمسلمین سید علی خامنہ ای کی انتہائی اہم گفتگو سے اقتباس
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #یمن #آل_سعود #امریکہ #اسرائیل #صیہونی #ظلم #جارحیت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
Wilayat
Media,
Productions,
Islam,
Inqilaab,
Islami,
Pakistan,
Urdu,
Subtitles,
Leader
of
Muslim,
Ummah,
Sayyid,
Ali,
Khamanei,
Rahbar,
Ale
Saud,
Saudia,
Arab,
Hajj,
0:51
|
[01] Tareekh e Bani Israel Aur Asre Hazir - H.I. Syed Ali Murtaza Zaidi - 14th Nov 2015/1437 - IRC Karachi - Urdu
Majlis
Topic: Tareekh e Bani Israel Aur Asre Hazir | تاریخ بنی اسرائیل اور عصر حاضر
Speaker: H.I. Syed Ali Murtaza Zaidi
Date: 14th Nov 2015/1437
Venue: Islamic...
Majlis
Topic: Tareekh e Bani Israel Aur Asre Hazir | تاریخ بنی اسرائیل اور عصر حاضر
Speaker: H.I. Syed Ali Murtaza Zaidi
Date: 14th Nov 2015/1437
Venue: Islamic Research Center, Karachi
More...
Description:
Majlis
Topic: Tareekh e Bani Israel Aur Asre Hazir | تاریخ بنی اسرائیل اور عصر حاضر
Speaker: H.I. Syed Ali Murtaza Zaidi
Date: 14th Nov 2015/1437
Venue: Islamic Research Center, Karachi
2:22
|
6:29
|
2:24
|
اسرائیلی حکومت کا خاتمہ | Farsi Sub Urdu
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور انقلاب اسلامی کے ذمہ داران نے جو اسرائیلی حکومت کے خاتمے کی بات کی ہے وہ کس...
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور انقلاب اسلامی کے ذمہ داران نے جو اسرائیلی حکومت کے خاتمے کی بات کی ہے وہ کس معنی میں کی گئی ہے؟ دُشمن عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے انقلاب اسلامی کے اسرائیل کے حوالے سے مؤقف کو کس طرح سے بیان کرتا ہے؟ ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ اسرائیلی حکومت کے خاتمے کے معنی کو کس طرح سے بیان فرماتے ہیں؟ کیا موجودہ اسرائیلی قابض حکومت فلسطینی عوام کی نمائندہ حکومت ہے؟ کیا 70 سال گزر جانے کے بعد اسرائیلی حکومت کا خاتمہ اور فلسطین کی خود مختاری ممکن ہے؟ ایران میں موجود یہودی کس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں؟
#ویڈیو #اسرائیلی_حکومت_خاتمہ #امام_خمینی #اسلامی_جمہوریہ #مسلط #حکومت #خاتمہ #مسلمان #عیسائی #یہودی #بد_معاش #غنڈے #امن_و_امان
More...
Description:
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور انقلاب اسلامی کے ذمہ داران نے جو اسرائیلی حکومت کے خاتمے کی بات کی ہے وہ کس معنی میں کی گئی ہے؟ دُشمن عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے انقلاب اسلامی کے اسرائیل کے حوالے سے مؤقف کو کس طرح سے بیان کرتا ہے؟ ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ اسرائیلی حکومت کے خاتمے کے معنی کو کس طرح سے بیان فرماتے ہیں؟ کیا موجودہ اسرائیلی قابض حکومت فلسطینی عوام کی نمائندہ حکومت ہے؟ کیا 70 سال گزر جانے کے بعد اسرائیلی حکومت کا خاتمہ اور فلسطین کی خود مختاری ممکن ہے؟ ایران میں موجود یہودی کس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں؟
#ویڈیو #اسرائیلی_حکومت_خاتمہ #امام_خمینی #اسلامی_جمہوریہ #مسلط #حکومت #خاتمہ #مسلمان #عیسائی #یہودی #بد_معاش #غنڈے #امن_و_امان
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
israeli,
hukumat,
khatma,
imam,
khomenie,
inqilab,
islami,
dushman,
waliamr,
muslimeen,
sayid,
ali,
khamenei,
falestini,
awaam,
khudmukhtari,