58:44
|
66:53
|
53:58
|
13:21
|
66:28
|
67:16
|
70:39
|
67:16
|
70:39
|
37:00
|
51:51
|
Majlis Aza 1443Hijri I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I DokriI Sindhi
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ...
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔مجالس عزا درسگاہ امام حسین ع ہیں جس میں ہر انسان کس آنے کی دعوت ہے جس کی دل، روح اور فطرت سلامت ہے۔ ان مجالس سے اہلبیت کے مذہب، سوچ اور فکر کا بیان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری مجالس میں سننے والا مزا لینے اور سنانے والا مزا دینے والا ہے۔
لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں خوشی تلاش کرنے کیلئے مگر یہ قوم پیسہ خرچ کر کے غم تلاش کرتے ہیں۔
اپنا ذاتی غم چھپانے کا حکم ہے مگر غم حسین کے اظہارِ کا حکم ہے
اصول کافی سے بھی پرانی کتاب کامل الزیارات میں ہے کہ ہر طرح کی بے صبری، اہ و زاری مکروہ ہے سوائے اس آ ہ و زاری کیلئے جو امام حسین کیلئے ہے ہو وہ پسندیدہ ہے
غم حسین ذات کا نہیں بلکہ دین کا غم ہے۔ اپنا غم ہو تو بھی غم حسین کو یاد کریں۔ غم حسین پہیلانے کا فائدہ ہے انسان کا دل مظلوم سے محبت کرتا ہے اور ظالم سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا کو مظلومیت اہلبیت بتائیں گے تو ان کے اندر امام حسین ع کی محبت پئدا ہوگی۔
جب انسان اہلبیت کے دروازے پر ایا تو اس کی دین و دنیا روشن ہوگی۔
عزاداری حسینی قبیلہ بناتی ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں۔غم حسین انسانوں کو دیندار بناتا ہے۔عزادری نہ ہوتی تو دینداری نہیں ہوتی
کربلا انسانوں کو دین و ایمان دیتی ہے۔مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ذرائع وسیلہ ہیں۔
نماز سے اللہ پاک کی یاد مطلوب ہے۔ سورہ طہ جسے سورہ محبت بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے کہ نماز قائم کروتاکہ تم میں یاد رکھوں۔اللہ کی یاد کیلئے نماز ہے مطلوب یاد خدا ہے
نمازی نہیں بلکہ بندہ بننے کی دعا کریں۔ روزہ صبر و شکر کیلئے ہے۔
روزہ کے ذریعے صبر مطلوب ہے۔ اللہ پاک نے عبادات کسی ہدف کیلئے رکھی ہیں۔ زکوات اسلئے ہے کہ مال کی محبت کم ہو اور دولت اللہ کی امانت ہے۔ جو زکوات اللہ کی محبت نہ دے وہ ایڈورٹائزمنٹ ہے۔
جس طرح سب عبادات بامقصد ہیں اس طرح عزاداری کا بھی مقصد ہے۔عزاداری کے تین مقاصد ہیں۔ امام حسین کے غم کا اظہار۔ دوم مقصد امام حسین کا بیان۔ سوم کربلا کا بیان۔کربلا مجاہد تیار کرتی ہے۔
امام حسین کے غم میں اپنے غم کا اظہار کریں غم حسین کے اظہار سے اللہ کی محبت ائیگی۔ غم کیلئے اختیاری اور اضطراری ہے تو بھی کریں۔
مقصد امام حسین بیان کرنے کیلئے نعرہ، بینر، شعر بیان کریں۔ مقصد امام بیان کرنا عزاداری ہے۔ عزادار کربلا کا مبلغ ہے۔ ہر عزادار مقصد امام حسین دنیا تک پہنچائے۔ کم کربلا کا پیغام چاردیواری میں انے والوں کیلئے بھی دیتے ہیں اور چاردیواری سے باہر نہ انے والوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ عزادار گشتی مبلغ ہے۔
کربلا بیان ہوگی تو کیا ہوگا۔ کربلا دینی غیرت کیلئے پاور ہائوس ہے کربلا زمین پر گرے ہوئے انسان کو ظالم کیخلاف لڑنے کی قوت دیتی ہے۔ مجاہد کربلا تیار کرتی ہے۔ علی اصغر کربلا مجاہد اعظم ہے۔ کربلا ظالم اور وقت کے یزید کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ظلم کیخلاف لڑنے کی قوت کربلا و امام حسین نے دی۔
بدقسمتی سے خطیبوں نے کربلا کو دکان بنادیا ہے۔ خطیب ایمان بیچ دہے ہیں۔ خطیبوں کی بنائی ہوئی کربلا مجاہد نہیں بلکہ رلانے والے پیدا کرتی ہے۔جھوٹی کربلا سلائے گی اصل کربلا بیداری دے گی۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کے صدقے میں ابراہیم کو امامت ملی ہے۔
اے ابراہیم تم کو اپنی جان پیاری ہے یا محبوب مصطفیٰ زیادہ پیارے ہیں۔
تجھے اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے یا محبوب مصطفی کا بیٹا زیادہ پیارا ہے
تجھے اسماعیل ذبح ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی یا مصطفیٰ کا حسین ذبع ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی۔
اللہ پاک نے ابراہیم ع کو بعد میں ہونے والی کربلا دکھائی۔ کربلا کا منظر دیکھنے کے بعد تین دن تک حضرت ابراہیم حزن وغم میں رہنے کے بعد اللہ نے کہا کہ تم کو انسانوں کا امام بنایا۔
ابراہیم ع نے چھری چلائی تو ہاتھ نہیں کانپا ابراہیم بیٹا دیتے وقت اتنا طاقتور اور برداشت والا ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو فخر ابراہیم ہیں اپنا بیٹا دے گا تو گرے گا نہیں۔ امام حسین کو کمزور و لاچار دکھایا جاتا ہے امام حسین ع لاچار نہیں تھے انہوں نے مصیبتیں
جھوٹے مصائب دینی غیرت ختم کرتے ہیں۔ خطیب کی کربلا کا مقصد رلانا ہے جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔
حسینی وکربلائی موت سے نہیں ڈرتے۔ خطیب کی کربلا اور ہے اور امام حسین کی کربلا اور ہے۔
امام حسین دوسروں کو ابھارنے اور جلا بخشنے والا ہے۔
بحار الانوار پڑہیں۔ جنہوں نے اصل کربلا سے سبق سیکھا وہ حزب اللہ ہے جس سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
اصل کربلا بیان کرنا عزادار کی ذمیداری ہے۔ ہماری زبان صرف حسین کی ہو۔
ہمارے پاس کربلا عاشورہ پر ختم ہوتی ہے مگر کربلا تو عاشورہ سے شروع ہوتی ہے۔ زمین کی کر بلا امام حسین نے بنائی جبکہ دنیا کی کربلا زینب س نے بنائی۔عاشور تک حسین پھر سارا سال زینب ہے۔ سیدہ زینب کسی مقام پر نہیں گھبرائی بلکہ علیہ السلام کے لھجے میں یزید و ابن زیاد کو للکارا۔
کربلا کے 72 شہدا کی کوشش دین بھی بچے اور امام بھی بچے 72 نے جہاد کیا دین بچایا امام نہیں بچا سکے۔ حسین کی بہن نے دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ 72 کا کارنامہ ایک طرف سیدہ کا کارنامہ دوسری طرف۔
72 کا مقابلہ ابن زیاد اور یزید کے لشکر سے تھا۔ سیدہ زینب نے بندہے ہاتھوں سے قیدی ہوکر یزید اور ابن زیاد کا مقابلہ کیا اور دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ ہم سب سیدہ زینب کا صدقہ ہیں۔
السلام علیک یا اباعبداللہ
السلام علیک یا زینب الکبریٰ
ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان۔
سید حسین موسوی کی مجلس سے انتخاب
14 Comments
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
More...
Description:
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔مجالس عزا درسگاہ امام حسین ع ہیں جس میں ہر انسان کس آنے کی دعوت ہے جس کی دل، روح اور فطرت سلامت ہے۔ ان مجالس سے اہلبیت کے مذہب، سوچ اور فکر کا بیان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری مجالس میں سننے والا مزا لینے اور سنانے والا مزا دینے والا ہے۔
لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں خوشی تلاش کرنے کیلئے مگر یہ قوم پیسہ خرچ کر کے غم تلاش کرتے ہیں۔
اپنا ذاتی غم چھپانے کا حکم ہے مگر غم حسین کے اظہارِ کا حکم ہے
اصول کافی سے بھی پرانی کتاب کامل الزیارات میں ہے کہ ہر طرح کی بے صبری، اہ و زاری مکروہ ہے سوائے اس آ ہ و زاری کیلئے جو امام حسین کیلئے ہے ہو وہ پسندیدہ ہے
غم حسین ذات کا نہیں بلکہ دین کا غم ہے۔ اپنا غم ہو تو بھی غم حسین کو یاد کریں۔ غم حسین پہیلانے کا فائدہ ہے انسان کا دل مظلوم سے محبت کرتا ہے اور ظالم سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا کو مظلومیت اہلبیت بتائیں گے تو ان کے اندر امام حسین ع کی محبت پئدا ہوگی۔
جب انسان اہلبیت کے دروازے پر ایا تو اس کی دین و دنیا روشن ہوگی۔
عزاداری حسینی قبیلہ بناتی ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں۔غم حسین انسانوں کو دیندار بناتا ہے۔عزادری نہ ہوتی تو دینداری نہیں ہوتی
کربلا انسانوں کو دین و ایمان دیتی ہے۔مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ذرائع وسیلہ ہیں۔
نماز سے اللہ پاک کی یاد مطلوب ہے۔ سورہ طہ جسے سورہ محبت بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے کہ نماز قائم کروتاکہ تم میں یاد رکھوں۔اللہ کی یاد کیلئے نماز ہے مطلوب یاد خدا ہے
نمازی نہیں بلکہ بندہ بننے کی دعا کریں۔ روزہ صبر و شکر کیلئے ہے۔
روزہ کے ذریعے صبر مطلوب ہے۔ اللہ پاک نے عبادات کسی ہدف کیلئے رکھی ہیں۔ زکوات اسلئے ہے کہ مال کی محبت کم ہو اور دولت اللہ کی امانت ہے۔ جو زکوات اللہ کی محبت نہ دے وہ ایڈورٹائزمنٹ ہے۔
جس طرح سب عبادات بامقصد ہیں اس طرح عزاداری کا بھی مقصد ہے۔عزاداری کے تین مقاصد ہیں۔ امام حسین کے غم کا اظہار۔ دوم مقصد امام حسین کا بیان۔ سوم کربلا کا بیان۔کربلا مجاہد تیار کرتی ہے۔
امام حسین کے غم میں اپنے غم کا اظہار کریں غم حسین کے اظہار سے اللہ کی محبت ائیگی۔ غم کیلئے اختیاری اور اضطراری ہے تو بھی کریں۔
مقصد امام حسین بیان کرنے کیلئے نعرہ، بینر، شعر بیان کریں۔ مقصد امام بیان کرنا عزاداری ہے۔ عزادار کربلا کا مبلغ ہے۔ ہر عزادار مقصد امام حسین دنیا تک پہنچائے۔ کم کربلا کا پیغام چاردیواری میں انے والوں کیلئے بھی دیتے ہیں اور چاردیواری سے باہر نہ انے والوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ عزادار گشتی مبلغ ہے۔
کربلا بیان ہوگی تو کیا ہوگا۔ کربلا دینی غیرت کیلئے پاور ہائوس ہے کربلا زمین پر گرے ہوئے انسان کو ظالم کیخلاف لڑنے کی قوت دیتی ہے۔ مجاہد کربلا تیار کرتی ہے۔ علی اصغر کربلا مجاہد اعظم ہے۔ کربلا ظالم اور وقت کے یزید کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ظلم کیخلاف لڑنے کی قوت کربلا و امام حسین نے دی۔
بدقسمتی سے خطیبوں نے کربلا کو دکان بنادیا ہے۔ خطیب ایمان بیچ دہے ہیں۔ خطیبوں کی بنائی ہوئی کربلا مجاہد نہیں بلکہ رلانے والے پیدا کرتی ہے۔جھوٹی کربلا سلائے گی اصل کربلا بیداری دے گی۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کے صدقے میں ابراہیم کو امامت ملی ہے۔
اے ابراہیم تم کو اپنی جان پیاری ہے یا محبوب مصطفیٰ زیادہ پیارے ہیں۔
تجھے اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے یا محبوب مصطفی کا بیٹا زیادہ پیارا ہے
تجھے اسماعیل ذبح ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی یا مصطفیٰ کا حسین ذبع ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی۔
اللہ پاک نے ابراہیم ع کو بعد میں ہونے والی کربلا دکھائی۔ کربلا کا منظر دیکھنے کے بعد تین دن تک حضرت ابراہیم حزن وغم میں رہنے کے بعد اللہ نے کہا کہ تم کو انسانوں کا امام بنایا۔
ابراہیم ع نے چھری چلائی تو ہاتھ نہیں کانپا ابراہیم بیٹا دیتے وقت اتنا طاقتور اور برداشت والا ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو فخر ابراہیم ہیں اپنا بیٹا دے گا تو گرے گا نہیں۔ امام حسین کو کمزور و لاچار دکھایا جاتا ہے امام حسین ع لاچار نہیں تھے انہوں نے مصیبتیں
جھوٹے مصائب دینی غیرت ختم کرتے ہیں۔ خطیب کی کربلا کا مقصد رلانا ہے جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔
حسینی وکربلائی موت سے نہیں ڈرتے۔ خطیب کی کربلا اور ہے اور امام حسین کی کربلا اور ہے۔
امام حسین دوسروں کو ابھارنے اور جلا بخشنے والا ہے۔
بحار الانوار پڑہیں۔ جنہوں نے اصل کربلا سے سبق سیکھا وہ حزب اللہ ہے جس سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
اصل کربلا بیان کرنا عزادار کی ذمیداری ہے۔ ہماری زبان صرف حسین کی ہو۔
ہمارے پاس کربلا عاشورہ پر ختم ہوتی ہے مگر کربلا تو عاشورہ سے شروع ہوتی ہے۔ زمین کی کر بلا امام حسین نے بنائی جبکہ دنیا کی کربلا زینب س نے بنائی۔عاشور تک حسین پھر سارا سال زینب ہے۔ سیدہ زینب کسی مقام پر نہیں گھبرائی بلکہ علیہ السلام کے لھجے میں یزید و ابن زیاد کو للکارا۔
کربلا کے 72 شہدا کی کوشش دین بھی بچے اور امام بھی بچے 72 نے جہاد کیا دین بچایا امام نہیں بچا سکے۔ حسین کی بہن نے دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ 72 کا کارنامہ ایک طرف سیدہ کا کارنامہ دوسری طرف۔
72 کا مقابلہ ابن زیاد اور یزید کے لشکر سے تھا۔ سیدہ زینب نے بندہے ہاتھوں سے قیدی ہوکر یزید اور ابن زیاد کا مقابلہ کیا اور دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ ہم سب سیدہ زینب کا صدقہ ہیں۔
السلام علیک یا اباعبداللہ
السلام علیک یا زینب الکبریٰ
ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان۔
سید حسین موسوی کی مجلس سے انتخاب
14 Comments
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
64:07
|
4th Majlis Aza 1443Hijri I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I DokriI Sindhi
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو...
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
More...
Description:
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
57:55
|
5th Majlis Aza 1443 Hijri I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I DokriI Sindhi
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو...
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
More...
Description:
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
66:41
|
I2 Majlis Aza 1443 hijra I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I Dokri Sindhi
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48...
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48 نسلیں گذر گئی ہیں۔ سو سال میں چار نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ہم اہلبیت کے علم کے دروازے سے دور ہیں۔علم سے دوری ہوگی تو معرفت کم ہوگی۔ ان مجالس میں شیعت کی فکری، علمی اور معاشرتی بنیاد بیان کریں گے۔شیعت کے فکر کی بنیاد توحید پر ہے۔مومن کی توحید مضبوط اور منافق کی توحید کمزور ہوتی ہے توحید کی بنیاد عقل پر ہے۔
حکمران لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر علم سے دور کرتے ہیں۔نماز روزہ افضل عبادت نہیں بلکہ توحید کی معرفت اصل عبادت ہےنماز روزہ افضل عبادت نہیں جس کی توحید مضبوط نہں ان کا جھکا نہ جھکنا برابر ہے
فرعون لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر ان پر بادشاہت مسلط کرتا ہے۔
قبلہ غلام مہدی نجفی صاحب کہتے تھے کہ مشکل مجالس کو سنیں بھلے نیند آئے۔ لوگوں کو مجالس میں نیند جبکہ راگ کی مخفل مں نیند نہیں اتی۔گناہ کانٹوں کی سیج کے مانند ہیں جہاں نیند نہیں اتی۔ مجالس پہولوں کی سیج کے مانند ہے جہاں نیند اتی ہے
شب قدر میں افضل عبادات علمی مباحثہ کرنا ہے۔
قرآن مجید نے ظالم بادشاہ کے طور پرفرعون، مال کے پوجاری کے طور پر قارون، مال پرست ملاں کے طور پر بلعم باعورا اور اچھے کردار کے حامل کے طور پر لقمان و مریم کا ذکر کیا ہے۔جب ملاں ظالم بادشاہ اور مال کا بندہ بن گیا تو اس کی مثال کتے کی ہے۔
اپنے عقل سے رب اور امام سے پہچانیں۔
سورہ زخرف کی ایت 51 میں ہے کہ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرےقدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو پست حیثیت کا آ دمی ہے اور صاف بول بھی نہیں پاتا ہے۔ پھر کیوں اس کے اوپر سونے کے کنگن نہیں نازل کئے گئے اور کیوں اس کے ساتھ ملائکہ جمع ہوکر نہیں آ ئے۔
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنادیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔
فرعون نے کہا کہ اے میری قوم کیا یہ مصر میرا ملک نہیں ہے۔نہریں میرے حکم سے نہیں چلتی (نیل فرعون کے حکم پر چلتا ہے)فرعون نے بیوقوف قوم کو بے شعور رکھا موسی کو خطابت بھی نہیں اتی ہے اگر موسی حق پر ہوتا تو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں۔ مالدار ہو تو حق پر غریب ہے تو حق پر نہیں ہے۔ غربت یا امیری حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ہم مالدار کو ووٹ دیں گے غریب کو ووٹ نہیں دیں گے۔ فرعون نے قوم کو اس طرح بتایا کہ مال راہ حق پر ہے۔ ہماری اور فرعون کی حکومت ایک جیسی ہے کیونکہ عوام کے ذہن کو خفیف کیا گیا ہے۔ سندہ کی تعلیم تباہ ہے قوم کی تعلیم برباد کے۔ عقل کو بیدار کریں پیسے صرف کھانے پینے پر خرچ نہ کریں۔ علم پر بھی پیسہ خرچ کریں۔ اصول کافی اور نھج البلاغہ ہر مومن کے گھر میں ہونی چاہیے۔ بے شعوری ہو تو فرعون بادشاہ بنے گا موسی نہیں بنے گا۔ جاہل نہ بنیں۔ اہلبیت کو جاہل پسند نہیں ہیں۔
قران مجید سوچ پر لگے تالے کھولنا چاہتا ہے۔ بے دین کو بے دین پسند ہوتے ہیں۔ جاہل جاہل کو پسند کرے گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماننے والے علم کے دروازے کے ہیں مگر گھر میں اصول کافی اور نھج البلاغہ بھی نہیں۔ اصول کافی کا پہلا باب عقل دوسرا علم اور تیسرا توحید کا ہے۔ سامعیں کی راگ سے محبت ہے ان کو سر اچھا لگتا ہے وہ علی کے عاشق نہیں۔امام علی سے محبت ہو اور نھج البلاغہ گھر میں نہ ہو۔ ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک دن سیکھنے کے لئے وقف کریں۔
ا
حدیث: اصول کافی کے پہلے جلد کے بات عقل و جہل میں 26 حدیث ہے کہ امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ خدا نے عقل کو پئدا کیا۔پس اس سے کہا اگے آ وہ آ گے آ ئی۔ پہر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنی عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہی میں تجھ کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔عقل سے بڑہ کر محبوب چیز اللہ نے پیدا نہیں کی ہے۔ عقل مومن کی رہنما ہے جہالت سے بڑہ کر محتاجی نہیں ہے عقل کو اس میں کامل کروں گا جس سے اللہ محبت کرے گا۔
حضرت جبرائیل حضرت آ دم ع کے پاس ائے اور کہا کہ عقل دین اور حیا میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں۔ حضرت آدم نے عقل کو لیا۔ دین اور حیا نے کہا کہ ہم ادہر رہیں گے جہاں پر عقل رہتا ہے۔
ذہن کے گڑ کو پگھلائیں عقل کو استعمال کریں اور دین پہچانیں۔
صوفی حضرات عقل اور عشق میں جگھڑا کر وا کر کہتے ہیں کہ کون بہتر ہے۔ اونچے درجے والے عقل کا نام عشق ہے۔عشق عقل سے برتر ہے۔ کربلا والوں کے پاس عقل برتر ہے کہ ہر ماں کہتی ہے کہ پہلے میرا بیٹا جائے۔
میدان کربلا میں سیک مومنہ عور ت کا شوہر شہید ہوا اور اس نے اپنے ایک بچے کو جو 14 برس سے کم تھا میدان جنگ میں بھیجا۔ اس کو امام حسین نے کہا کہ اپ کے خاندان نے وفا کی ہے۔ کیا تم نے اپنی ماں سے اجازت لی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ ماں نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ نہیں اتا دودہ نہیں بخشوں گی۔ عقل برتر یہ ہے کہ امام حسین کو سمجھنا ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کیا۔ شوہر بھی دیا اور بیٹا بھی دیا۔ لشکر یزید نے بیٹے کا کٹا سر ماں کیطرف بھیجا۔ عورت نے واپس سر بھیجا اور عقل برتر رکھنے والی ماں نے کہا کہ جو حسین پر قربان کیا ہے وہ واپس نہیں لوں گی۔عشق سے سرشار عورت خود نکلتی ہے اور 30 ہزار کے لشکر پر حملہ کرتی ہے جس میں سے 3 یزید کے سپاہیوں کو مارتی ہے۔
بیٹا بھی عزیز ہے مگر حسین سے مقابلہ نہیں۔ سب حسین پر قربان ہے۔حسین پر قربان ہوں تو حسین دینے والا ہے۔
شیعہ شناسی پر استاد محترم کی دوسری مجلس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم:سعید علی پٹھان
More...
Description:
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48 نسلیں گذر گئی ہیں۔ سو سال میں چار نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ہم اہلبیت کے علم کے دروازے سے دور ہیں۔علم سے دوری ہوگی تو معرفت کم ہوگی۔ ان مجالس میں شیعت کی فکری، علمی اور معاشرتی بنیاد بیان کریں گے۔شیعت کے فکر کی بنیاد توحید پر ہے۔مومن کی توحید مضبوط اور منافق کی توحید کمزور ہوتی ہے توحید کی بنیاد عقل پر ہے۔
حکمران لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر علم سے دور کرتے ہیں۔نماز روزہ افضل عبادت نہیں بلکہ توحید کی معرفت اصل عبادت ہےنماز روزہ افضل عبادت نہیں جس کی توحید مضبوط نہں ان کا جھکا نہ جھکنا برابر ہے
فرعون لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر ان پر بادشاہت مسلط کرتا ہے۔
قبلہ غلام مہدی نجفی صاحب کہتے تھے کہ مشکل مجالس کو سنیں بھلے نیند آئے۔ لوگوں کو مجالس میں نیند جبکہ راگ کی مخفل مں نیند نہیں اتی۔گناہ کانٹوں کی سیج کے مانند ہیں جہاں نیند نہیں اتی۔ مجالس پہولوں کی سیج کے مانند ہے جہاں نیند اتی ہے
شب قدر میں افضل عبادات علمی مباحثہ کرنا ہے۔
قرآن مجید نے ظالم بادشاہ کے طور پرفرعون، مال کے پوجاری کے طور پر قارون، مال پرست ملاں کے طور پر بلعم باعورا اور اچھے کردار کے حامل کے طور پر لقمان و مریم کا ذکر کیا ہے۔جب ملاں ظالم بادشاہ اور مال کا بندہ بن گیا تو اس کی مثال کتے کی ہے۔
اپنے عقل سے رب اور امام سے پہچانیں۔
سورہ زخرف کی ایت 51 میں ہے کہ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرےقدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو پست حیثیت کا آ دمی ہے اور صاف بول بھی نہیں پاتا ہے۔ پھر کیوں اس کے اوپر سونے کے کنگن نہیں نازل کئے گئے اور کیوں اس کے ساتھ ملائکہ جمع ہوکر نہیں آ ئے۔
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنادیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔
فرعون نے کہا کہ اے میری قوم کیا یہ مصر میرا ملک نہیں ہے۔نہریں میرے حکم سے نہیں چلتی (نیل فرعون کے حکم پر چلتا ہے)فرعون نے بیوقوف قوم کو بے شعور رکھا موسی کو خطابت بھی نہیں اتی ہے اگر موسی حق پر ہوتا تو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں۔ مالدار ہو تو حق پر غریب ہے تو حق پر نہیں ہے۔ غربت یا امیری حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ہم مالدار کو ووٹ دیں گے غریب کو ووٹ نہیں دیں گے۔ فرعون نے قوم کو اس طرح بتایا کہ مال راہ حق پر ہے۔ ہماری اور فرعون کی حکومت ایک جیسی ہے کیونکہ عوام کے ذہن کو خفیف کیا گیا ہے۔ سندہ کی تعلیم تباہ ہے قوم کی تعلیم برباد کے۔ عقل کو بیدار کریں پیسے صرف کھانے پینے پر خرچ نہ کریں۔ علم پر بھی پیسہ خرچ کریں۔ اصول کافی اور نھج البلاغہ ہر مومن کے گھر میں ہونی چاہیے۔ بے شعوری ہو تو فرعون بادشاہ بنے گا موسی نہیں بنے گا۔ جاہل نہ بنیں۔ اہلبیت کو جاہل پسند نہیں ہیں۔
قران مجید سوچ پر لگے تالے کھولنا چاہتا ہے۔ بے دین کو بے دین پسند ہوتے ہیں۔ جاہل جاہل کو پسند کرے گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماننے والے علم کے دروازے کے ہیں مگر گھر میں اصول کافی اور نھج البلاغہ بھی نہیں۔ اصول کافی کا پہلا باب عقل دوسرا علم اور تیسرا توحید کا ہے۔ سامعیں کی راگ سے محبت ہے ان کو سر اچھا لگتا ہے وہ علی کے عاشق نہیں۔امام علی سے محبت ہو اور نھج البلاغہ گھر میں نہ ہو۔ ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک دن سیکھنے کے لئے وقف کریں۔
ا
حدیث: اصول کافی کے پہلے جلد کے بات عقل و جہل میں 26 حدیث ہے کہ امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ خدا نے عقل کو پئدا کیا۔پس اس سے کہا اگے آ وہ آ گے آ ئی۔ پہر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنی عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہی میں تجھ کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔عقل سے بڑہ کر محبوب چیز اللہ نے پیدا نہیں کی ہے۔ عقل مومن کی رہنما ہے جہالت سے بڑہ کر محتاجی نہیں ہے عقل کو اس میں کامل کروں گا جس سے اللہ محبت کرے گا۔
حضرت جبرائیل حضرت آ دم ع کے پاس ائے اور کہا کہ عقل دین اور حیا میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں۔ حضرت آدم نے عقل کو لیا۔ دین اور حیا نے کہا کہ ہم ادہر رہیں گے جہاں پر عقل رہتا ہے۔
ذہن کے گڑ کو پگھلائیں عقل کو استعمال کریں اور دین پہچانیں۔
صوفی حضرات عقل اور عشق میں جگھڑا کر وا کر کہتے ہیں کہ کون بہتر ہے۔ اونچے درجے والے عقل کا نام عشق ہے۔عشق عقل سے برتر ہے۔ کربلا والوں کے پاس عقل برتر ہے کہ ہر ماں کہتی ہے کہ پہلے میرا بیٹا جائے۔
میدان کربلا میں سیک مومنہ عور ت کا شوہر شہید ہوا اور اس نے اپنے ایک بچے کو جو 14 برس سے کم تھا میدان جنگ میں بھیجا۔ اس کو امام حسین نے کہا کہ اپ کے خاندان نے وفا کی ہے۔ کیا تم نے اپنی ماں سے اجازت لی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ ماں نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ نہیں اتا دودہ نہیں بخشوں گی۔ عقل برتر یہ ہے کہ امام حسین کو سمجھنا ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کیا۔ شوہر بھی دیا اور بیٹا بھی دیا۔ لشکر یزید نے بیٹے کا کٹا سر ماں کیطرف بھیجا۔ عورت نے واپس سر بھیجا اور عقل برتر رکھنے والی ماں نے کہا کہ جو حسین پر قربان کیا ہے وہ واپس نہیں لوں گی۔عشق سے سرشار عورت خود نکلتی ہے اور 30 ہزار کے لشکر پر حملہ کرتی ہے جس میں سے 3 یزید کے سپاہیوں کو مارتی ہے۔
بیٹا بھی عزیز ہے مگر حسین سے مقابلہ نہیں۔ سب حسین پر قربان ہے۔حسین پر قربان ہوں تو حسین دینے والا ہے۔
شیعہ شناسی پر استاد محترم کی دوسری مجلس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم:سعید علی پٹھان
66:01
|
3rd Majlis Aza 1443 Hijri I Shia Shanasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I DokriI Sindh
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو...
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
More...
Description:
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
65:25
|
40:16
|
56:37
|
13:57
|
34:33
|
56:36
|
66:26
|
6:24
|