کلام اسلامی(بحث امامت) | امام کا لغوی معنی Dars no. 2 | مولانا سید ا?
Description:#امامت
#امام
لغوی اور اصطلاحی معنی
امامت لغت میں پیشوائی اور رہبری کے...
Read...
#امام
لغوی اور اصطلاحی معنی
امامت لغت میں پیشوائی اور رہبری کے معنی میں ہے۔عربی زبان میں امام کا لفظ اس شخص یا چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔ اسی معنا کے پیش نظر قرآن کریم، پیامبر گرامی اسلام، جانشینِ پیغمبرؐ، پیش امام، سپہ سالار، مسافروں کا راہنما، ساربان اور اونٹوں کے راہنما کو امام کے مصادیق میں سے جانا گیا ہے۔[معجم المقاییس فی اللغہ، ص۴۸؛ المصباح المنیر، ج۱، ص۳۱ـ ۳۲؛ لسان العرب، ج۱، ص۱۵۷؛ المفردات فی غریب القرآن، ص۲۴؛ اقرب الموارد، ج۱، ص۱۹؛ المعجم الوسیط، ج۱، ص۲۷]
متکلمین امامت کی دو طرح سے تعریف کرتے ہیں: پہلا تعریف عام ہے اور یہ نبوت کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق امام \"دینی اور دنیوی مسائل میں عمومی رہنما\" کو کہا جاتا ہے۔[یر سید شریف، التعریفات، ۱۴۱۲ق، ص۲۸؛ بحرانی، قواعد المرام، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۴؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۵؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۴؛ میر سید شریف، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۴۵] دوسرا تعریف ایک خاص تفسیر کا حامل ہے جس کے مطابق \"امام\" اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دینی امور میں پیغمبر اکرمؐ کا جانشین ہو۔[حلی، الباب الحادی عشر، ۱۳۶۵ش، ص۶۶؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۵-۳۲۶؛ فاضل مقداد، اللوامع الإلہیۃ، ۱۴۲۲ق، ص۳۱۹-۳۲۰؛ میر سید شریف، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۴۵؛ آمدی، أبکار الأفکار، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۴۱۶؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۴]
امام کی یہ تعریف کہ \"دینی اور دنیوی امور میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشین کے عنوان سے مسلمانوں کا رہنما اور پیشوا\"، تمام اسلامی فرقوں کے لئے قابل قبول تعریف ہے۔[فیاض لاہیجی، گوہر مراد، ۱۳۸۳ش، ص۴۶۱-۴۶۲؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۷]
قرآن میں لفظ امام
قرآن کریم میں امام کا لفظ انسانوں اور دیگر موجودات کیلئے استعمال ہوا ہے:
https://youtu.be/PtONTL39g58
#اصول
#Allmasyedahmednaqvi
#کلام
امامت، پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی میں اسلامی معاشرے کی قیادت و رہبری کا ایک الہی نظام ہے۔ شیعوں کے نزدیک امامت اصول دین میں سے ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مختلف حوالے سے اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعوں کو امامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے امامیہ بھی کہا جاتا ہے۔
شیعہ تعلیمات کے مطابق رسول خداؐ اپنی رسالت کے ابتدائی ایام سے ہی اپنے جانشین کے اعلان کا قطعی ارادہ رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر قریش کے سامنے حضرت علیؑ کا نام لے کر کیا۔ اس کے علاوہ 18 ذی الحجہ کو حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر حجاج کرام کے سامنے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں قلم اور دوات مانگنے کے واقعے میں بھی حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان فرمایا۔
اہل سنت بھی امام کی ضرورت اور اس کی اطاعت کے لزوم پر عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے مطابق امام کے انتخاب کا اختیار لوگوں کو حاصل ہے اور رسول اللہؐ نے اپنے بعد کسی کو امام کی حیثیت سے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا۔
شیعوں میں زیدیہ اور اسماعیلیہ اماموں کی تعداد اور اشخاص کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک اماموں کی تعداد 12 ہیں جن میں پہلے امام حضرت علیؑ اور آخری امام حضرت مہدیؑ ہیں۔
امام کے وجود کا فلسفہ دین اسلام کی حفاظت، دینی معارف کی وضاحت اور انسانوں کی ہدایت کرنا ہے۔ لہذا اس ذمہ داری کو بہتر اور احسن طریقے سے نبھانے کیلئے امام کو عصمت علم لدنی اور ولایت کا مالک ہونا چاہئے۔
#امامت
#اسلام
#Allmasyedahmednaqvi
Description:
#امامت#امام
لغوی اور اصطلاحی معنی
امامت لغت میں پیشوائی اور رہبری کے معنی میں ہے۔عربی زبان میں امام کا لفظ اس شخص یا چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔ اسی معنا کے پیش نظر قرآن کریم، پیامبر گرامی اسلام، جانشینِ پیغمبرؐ، پیش امام، سپہ سالار، مسافروں کا راہنما، ساربان اور اونٹوں کے راہنما کو امام کے مصادیق میں سے جانا گیا ہے۔[معجم المقاییس فی اللغہ، ص۴۸؛ المصباح المنیر، ج۱، ص۳۱ـ ۳۲؛ لسان العرب، ج۱، ص۱۵۷؛ المفردات فی غریب القرآن، ص۲۴؛ اقرب الموارد، ج۱، ص۱۹؛ المعجم الوسیط، ج۱، ص۲۷]
متکلمین امامت کی دو طرح سے تعریف کرتے ہیں: پہلا تعریف عام ہے اور یہ نبوت کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق امام \"دینی اور دنیوی مسائل میں عمومی رہنما\" کو کہا جاتا ہے۔[یر سید شریف، التعریفات، ۱۴۱۲ق، ص۲۸؛ بحرانی، قواعد المرام، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۴؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۵؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۴؛ میر سید شریف، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۴۵] دوسرا تعریف ایک خاص تفسیر کا حامل ہے جس کے مطابق \"امام\" اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دینی امور میں پیغمبر اکرمؐ کا جانشین ہو۔[حلی، الباب الحادی عشر، ۱۳۶۵ش، ص۶۶؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۵-۳۲۶؛ فاضل مقداد، اللوامع الإلہیۃ، ۱۴۲۲ق، ص۳۱۹-۳۲۰؛ میر سید شریف، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۴۵؛ آمدی، أبکار الأفکار، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۴۱۶؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۴]
امام کی یہ تعریف کہ \"دینی اور دنیوی امور میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشین کے عنوان سے مسلمانوں کا رہنما اور پیشوا\"، تمام اسلامی فرقوں کے لئے قابل قبول تعریف ہے۔[فیاض لاہیجی، گوہر مراد، ۱۳۸۳ش، ص۴۶۱-۴۶۲؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۷]
قرآن میں لفظ امام
قرآن کریم میں امام کا لفظ انسانوں اور دیگر موجودات کیلئے استعمال ہوا ہے:
https://youtu.be/PtONTL39g58
#اصول
#Allmasyedahmednaqvi
#کلام
امامت، پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی میں اسلامی معاشرے کی قیادت و رہبری کا ایک الہی نظام ہے۔ شیعوں کے نزدیک امامت اصول دین میں سے ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مختلف حوالے سے اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعوں کو امامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے امامیہ بھی کہا جاتا ہے۔
شیعہ تعلیمات کے مطابق رسول خداؐ اپنی رسالت کے ابتدائی ایام سے ہی اپنے جانشین کے اعلان کا قطعی ارادہ رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر قریش کے سامنے حضرت علیؑ کا نام لے کر کیا۔ اس کے علاوہ 18 ذی الحجہ کو حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر حجاج کرام کے سامنے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں قلم اور دوات مانگنے کے واقعے میں بھی حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان فرمایا۔
اہل سنت بھی امام کی ضرورت اور اس کی اطاعت کے لزوم پر عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے مطابق امام کے انتخاب کا اختیار لوگوں کو حاصل ہے اور رسول اللہؐ نے اپنے بعد کسی کو امام کی حیثیت سے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا۔
شیعوں میں زیدیہ اور اسماعیلیہ اماموں کی تعداد اور اشخاص کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک اماموں کی تعداد 12 ہیں جن میں پہلے امام حضرت علیؑ اور آخری امام حضرت مہدیؑ ہیں۔
امام کے وجود کا فلسفہ دین اسلام کی حفاظت، دینی معارف کی وضاحت اور انسانوں کی ہدایت کرنا ہے۔ لہذا اس ذمہ داری کو بہتر اور احسن طریقے سے نبھانے کیلئے امام کو عصمت علم لدنی اور ولایت کا مالک ہونا چاہئے۔
#امامت
#اسلام
#Allmasyedahmednaqvi