3:27
|
6:45
|
4:30
|
و من مگر چیستم - علی فانی و صابر خرسانی | Urdu, English, Farsi, Arabic Subtitles
مناجات امام سجاد علیه السلام (دعاء أبي حمزة الثمالي -دعائے ابوحمزہ ثمالی)
و من مگر چیستم - باصدای علی...
مناجات امام سجاد علیه السلام (دعاء أبي حمزة الثمالي -دعائے ابوحمزہ ثمالی)
و من مگر چیستم - باصدای علی فانی و صابر خرسانی
بازیرنویس انگلیسی، اردو، فارسی، العربيه 1397
And What Am I - Ali Fani & Saber Khorasani with Englisg, Urdu, Farsi( Persian), Arabic Subtitle Translation
Munajat Imam Sajjad (as) Dua Abu Hamza Thumali 2018
More...
Description:
مناجات امام سجاد علیه السلام (دعاء أبي حمزة الثمالي -دعائے ابوحمزہ ثمالی)
و من مگر چیستم - باصدای علی فانی و صابر خرسانی
بازیرنویس انگلیسی، اردو، فارسی، العربيه 1397
And What Am I - Ali Fani & Saber Khorasani with Englisg, Urdu, Farsi( Persian), Arabic Subtitle Translation
Munajat Imam Sajjad (as) Dua Abu Hamza Thumali 2018
22:52
|
بابا کی سادہ گونجی اے میرے جوان قاسم - Urdu Nohay at Urwarth ul wusqa 7thMuharrum 1437- 201
١٤٣٧ ہجری ٧ محرم الحرام
مولا کی صدا گونجی اے میرے جواں قاسم
کمسن ہے مگر شیروں کا ہے جگر اسکا
سرداران جوان...
١٤٣٧ ہجری ٧ محرم الحرام
مولا کی صدا گونجی اے میرے جواں قاسم
کمسن ہے مگر شیروں کا ہے جگر اسکا
سرداران جوان جنت ہے پدر اسکا
کیسے ہو بیان تیرے اوصاف قاسم
More...
Description:
١٤٣٧ ہجری ٧ محرم الحرام
مولا کی صدا گونجی اے میرے جواں قاسم
کمسن ہے مگر شیروں کا ہے جگر اسکا
سرداران جوان جنت ہے پدر اسکا
کیسے ہو بیان تیرے اوصاف قاسم
0:44
|
Video Tags:
UAE,,Wehshi,,Magar,,Sath,,Rakna,,Zarori,,Hay,,Sahar,,Urdu,,News
7:04
|
28:38
|
[Clip] Hussaini VS Yazidi | Sachy Hussaini Kesy Banty Hen | H.I Molana Syed Ali Murtaza Zaidi | Urdu
حسینی کیسے بنتے ہیں؟ یزیدی کیسے بنتے ہیں؟
حسینی بننے کی تین صفات یزیدی بننے کی تین صفات۔
سوال یہ ہے کہ جس...
حسینی کیسے بنتے ہیں؟ یزیدی کیسے بنتے ہیں؟
حسینی بننے کی تین صفات یزیدی بننے کی تین صفات۔
سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں امام حسین شہید ہوئے اس سوسائٹی نے ساتھ کیوں نہیں دیا۔ معاشرہ مردہ کیوں ہوا کیوں امام حسین کی نصرت نہیں کی۔ امام کی شہادت کے بعد ری ایکشن نہیں دیا۔ یہ معاشرہ رسول اللہ اور امام حسین کو جانتا تھا۔ امام حسین ع کو امام مانتے تھے۔ رسول اللہ کی حدیث سنی ہوئی تھی۔ امام مانتے تھے مگر ساتھ نہیں دیا۔
حسینی وہ ہے جو امام کے لشکر کیساتھ یا امام سے ذہنی طور پر تھے۔
یزیدی وہ تھے جو لشکر یزید میں تھے یا اس کے فکر رکھتے تھے۔
فردک نے کہا کہ \"کوفیوں کے دل ساتھ ہیں مگر شمشیریں آپ کے خلاف تھی\"۔
دلوں کا ساتھ ہونا حسینی ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ دل و زبان اور جذبات میں حسینی ہیں مگر عمل میں امام نہیں ہے۔ عمل میں ریفلیکٹ ہونا چاہئے۔
مجلس، جلوس میں جاتے ہیں عمل میں ریفلیکشن جھلک آتی ہے مگر امام کیلئے کچھ کرو بھی تو۔ دل، زبان اور جذبات میں امام ہے مگر عمل میں امام کیساتھ نہیں ہیں۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ کام نہیں کرتے جو کرنا چاہئے تھے۔
رسول اکرم صہ سانحہ کربلا سے 50 برس مدینہ میں آئے اور تھوڑے سے لوگوں سے اسلامی معاشرہ قائم کیا۔لوگوں نے دل، زبان جذبات اور عمل مین رسول اللہ کا ساتھ دیا۔ 50 برس کے بعد کیا ہوا کہ امام حسین ع کا ساتھ نہیں دیا۔ 60 سال پہلے 313 تھے، خندق میں ہزار، فتح مکہ میں ایک لاکھ تھے مگر 50 برس کے بعد کیا عجیب ہوا اور رسول اللہ کے نواسہ نے ندا دی مگر اس کا ساتھ نہیں دیا۔
جنگ بدر کے وقت تو قرآن نازل نہیں ہوا تھا، اہلبیت کا 60سال کا کریکٹر کافی نہیں تھا کہ لوگ ساتھ دے دیتے؟
کیا مصیبت تھی؟ ہم کو گہرائی میں جانا پڑے گا۔
ہم مجلس میں ہیں تو امتحان میں بھی حسینی ہونگے یہ دہوکا نہیں ہونا چاہئے۔
13 محرم کو جو کوفی آئے انہوں نے گریا کیا۔ کیا انہوں نے وہ کیا جو کرنا چاہئے تھا؟.
عبیداللہ ابن زیاد کی دربار میں جاتے اور دارامارہ میں جاکر کہتے کہ ہم تیرے دہوکہ میں نہیں آئیں گے یہ ہونا چاہئے تھا۔ جو بعد میں مختار نے ان سے انتقام لیا۔
کوفی بزدل اور ڈرپوک تھے ان کے دلوں میں خوف تھا اس وجہ سے سید الشہدا کا ساتھ نہیں دیا۔ اپنے سامنے دین کا جنازہ دیکھ رہے تھے ان کو عبیداللہ سے ڈر تھا کہ وہ گلے کٹوا دیتا تھا۔
نابینہ صحابی نے عبیداللہ کے دربار میں اس کو کہا کہ اہلبیت حق پر تھے اور اس کا تعلق ازدی قبیلہ سے تھا۔ اس نے دربار میں اپنے قبیلہ کو پکارا مگر اس کو دربار میں چھوڑ دیا اور رات کو اس کو اس کے گھر میں شہید کروا دیا۔ دن ہی دن میں ساز باز کرلی ازدی قبیلہ والوں کیساتھ ۔ اس صحابی رسول کو رات کو گہر میں شہید کرلیا اور قبیلہ نے ساتھ نہیں دیا۔
قبیلہ والے دن میں ساتھ دیں گے اور سردار کو کہتا ہے کہ میرا ساتھ دینا ہے۔
عبید اللہ نے خوف پھلایا۔ امام نے پکارا کہ ساتھ دو مگر عبیداللہ نے سرداروں کیساتھ ساز باز کرلی
سردار کی سننی تھی یا حسین ابن علی کی سننی تھی؟
خواص کو ایلیٹ اور عوام کو پبلک کہتے ہیں ایلیٹ دولتمند، علما, بڑے عہدوں پر براجمان تھے ۔
عبید اللہ نے سرداروں سے کہا کہ سائیڈ پر ہوجایو۔ سردار خوف اور دولت کی لالچ میں اگئے۔ خواص کو خوف اور لالچ نے مروا دیا۔ سرداروں کو پیسا ملا۔ عصبیت یہ ہے کہ میں سردار کیساتھ چلوں گا۔
خوف، لالچ اور عصبیت نے معاشرہ کو امام حسین سے دور کیا۔
جہاں یزید اور عبیداللہ جیت گئے تو جان، مال،اور عہدہ کا لالچ۔
جہاں پر خوف، لالچ یا عصبیت ہوگی تو یزیدیت کا جہنڈا جھلائیگا
خوف، لالچ اور عصبیت ہوگی تو امام حسین کا ساتھ نہیں دیں گے۔
دل، زبان اور جذبات میں امام کیساتھ تھے مگر ساتھ نہیں دیں گے چاہے لبیک یا حسین ہی کیوں نہ کہیں۔
خوف نہ ہو،لالچ نہ ہو اور حق پر چلنا جانتے ہوں تو وہ امام حسین کا ساتھ دیں گے۔
کسی مذمت کرنے والے کی مذمت سے حق پر چلنے سے نہیں ڈرتے۔
نہ خوف، نہ لالچ اور نہ ڈر ہو تو لبیک یا حسین کہے تو یہ حسینی ہے۔
استاد محترم سید علی مرتضی زیدی کی مجلس سے انتخاب
#AllamaAliMurtazaZaidi
#Hussaini
......
Like page on Facebook👇
https://www.facebook.com/alirazahiraj5/
•Like,Share And Subscribe Channel
Copyright Disclaimer Under Section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for \'Fair Use\'
for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research,
Fair use is a permitted by copyright statute that might otherwise be infringing,
Non-profit, educational or personal use tips the balance in favor of fair use
Contact Info
https://www.instagram.com/alirazahiraj/
More...
Description:
حسینی کیسے بنتے ہیں؟ یزیدی کیسے بنتے ہیں؟
حسینی بننے کی تین صفات یزیدی بننے کی تین صفات۔
سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں امام حسین شہید ہوئے اس سوسائٹی نے ساتھ کیوں نہیں دیا۔ معاشرہ مردہ کیوں ہوا کیوں امام حسین کی نصرت نہیں کی۔ امام کی شہادت کے بعد ری ایکشن نہیں دیا۔ یہ معاشرہ رسول اللہ اور امام حسین کو جانتا تھا۔ امام حسین ع کو امام مانتے تھے۔ رسول اللہ کی حدیث سنی ہوئی تھی۔ امام مانتے تھے مگر ساتھ نہیں دیا۔
حسینی وہ ہے جو امام کے لشکر کیساتھ یا امام سے ذہنی طور پر تھے۔
یزیدی وہ تھے جو لشکر یزید میں تھے یا اس کے فکر رکھتے تھے۔
فردک نے کہا کہ \"کوفیوں کے دل ساتھ ہیں مگر شمشیریں آپ کے خلاف تھی\"۔
دلوں کا ساتھ ہونا حسینی ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ دل و زبان اور جذبات میں حسینی ہیں مگر عمل میں امام نہیں ہے۔ عمل میں ریفلیکٹ ہونا چاہئے۔
مجلس، جلوس میں جاتے ہیں عمل میں ریفلیکشن جھلک آتی ہے مگر امام کیلئے کچھ کرو بھی تو۔ دل، زبان اور جذبات میں امام ہے مگر عمل میں امام کیساتھ نہیں ہیں۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ کام نہیں کرتے جو کرنا چاہئے تھے۔
رسول اکرم صہ سانحہ کربلا سے 50 برس مدینہ میں آئے اور تھوڑے سے لوگوں سے اسلامی معاشرہ قائم کیا۔لوگوں نے دل، زبان جذبات اور عمل مین رسول اللہ کا ساتھ دیا۔ 50 برس کے بعد کیا ہوا کہ امام حسین ع کا ساتھ نہیں دیا۔ 60 سال پہلے 313 تھے، خندق میں ہزار، فتح مکہ میں ایک لاکھ تھے مگر 50 برس کے بعد کیا عجیب ہوا اور رسول اللہ کے نواسہ نے ندا دی مگر اس کا ساتھ نہیں دیا۔
جنگ بدر کے وقت تو قرآن نازل نہیں ہوا تھا، اہلبیت کا 60سال کا کریکٹر کافی نہیں تھا کہ لوگ ساتھ دے دیتے؟
کیا مصیبت تھی؟ ہم کو گہرائی میں جانا پڑے گا۔
ہم مجلس میں ہیں تو امتحان میں بھی حسینی ہونگے یہ دہوکا نہیں ہونا چاہئے۔
13 محرم کو جو کوفی آئے انہوں نے گریا کیا۔ کیا انہوں نے وہ کیا جو کرنا چاہئے تھا؟.
عبیداللہ ابن زیاد کی دربار میں جاتے اور دارامارہ میں جاکر کہتے کہ ہم تیرے دہوکہ میں نہیں آئیں گے یہ ہونا چاہئے تھا۔ جو بعد میں مختار نے ان سے انتقام لیا۔
کوفی بزدل اور ڈرپوک تھے ان کے دلوں میں خوف تھا اس وجہ سے سید الشہدا کا ساتھ نہیں دیا۔ اپنے سامنے دین کا جنازہ دیکھ رہے تھے ان کو عبیداللہ سے ڈر تھا کہ وہ گلے کٹوا دیتا تھا۔
نابینہ صحابی نے عبیداللہ کے دربار میں اس کو کہا کہ اہلبیت حق پر تھے اور اس کا تعلق ازدی قبیلہ سے تھا۔ اس نے دربار میں اپنے قبیلہ کو پکارا مگر اس کو دربار میں چھوڑ دیا اور رات کو اس کو اس کے گھر میں شہید کروا دیا۔ دن ہی دن میں ساز باز کرلی ازدی قبیلہ والوں کیساتھ ۔ اس صحابی رسول کو رات کو گہر میں شہید کرلیا اور قبیلہ نے ساتھ نہیں دیا۔
قبیلہ والے دن میں ساتھ دیں گے اور سردار کو کہتا ہے کہ میرا ساتھ دینا ہے۔
عبید اللہ نے خوف پھلایا۔ امام نے پکارا کہ ساتھ دو مگر عبیداللہ نے سرداروں کیساتھ ساز باز کرلی
سردار کی سننی تھی یا حسین ابن علی کی سننی تھی؟
خواص کو ایلیٹ اور عوام کو پبلک کہتے ہیں ایلیٹ دولتمند، علما, بڑے عہدوں پر براجمان تھے ۔
عبید اللہ نے سرداروں سے کہا کہ سائیڈ پر ہوجایو۔ سردار خوف اور دولت کی لالچ میں اگئے۔ خواص کو خوف اور لالچ نے مروا دیا۔ سرداروں کو پیسا ملا۔ عصبیت یہ ہے کہ میں سردار کیساتھ چلوں گا۔
خوف، لالچ اور عصبیت نے معاشرہ کو امام حسین سے دور کیا۔
جہاں یزید اور عبیداللہ جیت گئے تو جان، مال،اور عہدہ کا لالچ۔
جہاں پر خوف، لالچ یا عصبیت ہوگی تو یزیدیت کا جہنڈا جھلائیگا
خوف، لالچ اور عصبیت ہوگی تو امام حسین کا ساتھ نہیں دیں گے۔
دل، زبان اور جذبات میں امام کیساتھ تھے مگر ساتھ نہیں دیں گے چاہے لبیک یا حسین ہی کیوں نہ کہیں۔
خوف نہ ہو،لالچ نہ ہو اور حق پر چلنا جانتے ہوں تو وہ امام حسین کا ساتھ دیں گے۔
کسی مذمت کرنے والے کی مذمت سے حق پر چلنے سے نہیں ڈرتے۔
نہ خوف، نہ لالچ اور نہ ڈر ہو تو لبیک یا حسین کہے تو یہ حسینی ہے۔
استاد محترم سید علی مرتضی زیدی کی مجلس سے انتخاب
#AllamaAliMurtazaZaidi
#Hussaini
......
Like page on Facebook👇
https://www.facebook.com/alirazahiraj5/
•Like,Share And Subscribe Channel
Copyright Disclaimer Under Section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for \'Fair Use\'
for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research,
Fair use is a permitted by copyright statute that might otherwise be infringing,
Non-profit, educational or personal use tips the balance in favor of fair use
Contact Info
https://www.instagram.com/alirazahiraj/
60:42
|
| Jashn e Wiladat Imam Ali Raza a.s | Shia kon? Imam Baqir ki Hadith I HIWM Syed Ali Murtaza zaidi I Karachi | 11 June 2022 - Urdu
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت...
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت سے نوازا ہے۔ آج کا مبارک اور نورانی دن ہے امام علی رضا کی ولادت کا دن ہے۔ امام کے القاب میں سے ایک لقب یا معین االضعفا و لفقرا ہے ہے جس کی معنی ہے ضعیفوں اور وطن سے دور لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں۔
آج کا دن امام علی رضا سے عیدی حاصل کرنے کا دن ہے۔ ہم اس دنیا کے اندر چند دن رہیں گے اور کہیں جائیں گے یہ چند دن امتحان ہیں اس امتحان کو گذارنے کیلئے ہم کو اہلبیت کی مودت دے۔ ہم سے اللہ پاک نے کچھ امتحان چاہے تھے۔ ہم سے جو خدا نے چاہا ہم نے سمجھا کہ اس کا امتحان نہیں ہوگا اور جو خدا نے نہیں چاہا ہم نے سمجھا کہ اصل امتحان اس کا ہوگا۔
نھج البلاغہ سے سیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھا۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کیا چاہا تھا کہ یہ واجب ہے اور ہم کس کو واجب سمجھتے ہیں؟
کوئی آدمی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس کو دے گا۔
انسان کسی کام میں مہارت کس طرح لیتا ہے؟۔ مجھے بولتے ہوئے پچیس برس ہوئے ہیں۔ جو بچپنے میں سنتے تھے اب وہ بچوں والے ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر کس کام کو دس ہزار گھنٹے بجا لائے تو وہ اس میں ماہر ہوجاتا ہے۔ ایک کرکیٹر نے کہا کہ میں روزانہ300بالیں کھیلتا ہوں۔ جو محنت کرے گا وہ بن جائیگا۔
آپ زندگی کا اصل وقت کہاں لگا رہے ہو، اگر کوئی بچہ روزانہ 8 گھنۓ وڈیو گیم کھیلتا ہے تو اس نے اس کام کو واجب سمجھا ہوا ہے۔ ایک آدمی کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ سو رہا ہے تو اس نے سونا واجب سمجھا ہوا ہے۔ دیہات میں ایک چائے کے کپ پر لوگ دو فلمیں دیکھتے ہیں اس کی زندگی میں یہ واجب ہے۔ اس کی قیمت وہ چیز ہے جس کو اس نے واجب سمجھا ہے جس بچے نے گیم کو واجب سمجھا ہے اس کی قیمت وڈیو گیم ہے۔ آپ تلاش کریں کہ آپ کی زندگی میں کیا واجب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز کو واجب سمجھا جاتا ہے کمانے کو واجب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اچھا کما لے تو صحی اگر اچھا نہ کما سکے تو وہ صحی نہیں۔ معاشرے اور مساجد میں عزت اس کو ملتی ہے جو زیادہ کماتا ہے۔ ہم جس نماز کو واجب سمجھتے ہیں اس کی محفل میں بھی ہم واجب اس کو سمجھتے ہیں اور عزت اس کو دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کمانا واجب نہیں کیا تھا۔ خدا نے حلال کمانا واجب کیا تھا یا رزق پہنچانے کا واعدہ کیا تھا۔ خدا نے کمانا واجب نہیں کیا ہے اس نے \"محنت کرنا\" واجب کیا ہے اور رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔
ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کر رہے رزق ہم دیں گے۔
جو کماتا اس کو عزت دیں گے۔ جو بچا کما کر نہیں لائے اس کو احترام کم دیتے ہیں۔ رزق کا واعدہ خدا پر ہے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے حلال کمائیں۔ کمانا ذمیداری نہیں ہے محنت کرنا ذمیداری ہے۔
اللہ پاک نے کیا واجب کیا تھا۔ نماز، روزہ، حج واجب کیا تھا۔ جب میں فروع دین گنواتا ہوں تو حج تک بس کر لیتا ہوں ، زکوات اور خمس کی بات کروں گا تو آپ کا موڈ خراب ہوجائیگا۔ جہاد کی بات کی تو پھر ساری دنیا مخالف ہوجائیگی۔ ان سے زیادہ کچھ اور واجب ہے۔
میں طالبعلم رہا ۔ 17 برس میں طالبعلم رہا اب 55 برس کا ہوں اگر مجھ میں اور دوسرے میں فرق نہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہو تم نے وقت کہاں گذارا ؟
بچے اسکول میں جائیں گے۔ کچھ جابس میں کچھ کاروبار اور کچھ پرائیوٹ جاب کریں گے۔ ہمارے دوست بھی رشوت لیتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ اپنے آپ سے سوال کریں۔ ہم اہلبیت کے ماننے والے ہیں فرق کہاں ہونا چاہئے۔ ہم چند فرق بیان کریں گے۔
معصومیں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماننے والے کو کیسے پہچانیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ میں نے ملک کے صدر سے رشتہ جورا وہ مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میں ہاتھ کھولتا ہوں اور روزہ پانچ منٹ دیر سے کھولتا ہوں یہ رشتہ انہوں نے دیا ہے؟ یا ہم نے بنایا ہے
آئمہ ہم کو کب اپنا مانتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن گذاریں اور اہلبیت کی ایک روایت بھی نہیں پڑہی تو آپ نے زندگی کا ایک دن ضائع کیا۔ تم خزانے پر بیٹھے تھے اور کہا کہ میں فقیر ہوں میں فقیر ہوں مگر اس خزانے سے کچھ نہیں لیا۔ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں۔ کیا ہم احمق ہیں؟ جو اہلبیت نے خزانہ دیا ہے اس کو ہم نے پڑہا ہے؟۔ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے من لا یحضر الفقیہ جس کی معنی ہیں جب فقیہ نہ ہو۔ ہم نے کبھی پڑہی ہے۔
مولا علی ع نے 250 خطبے مدرسوں میں بیٹھ کر دیئے بلکہ یہ بازار، مسجد، میدان جنگ میں دیئے ہیں ۔ کیا مولا کی وہ گیدہرنگ سلیکٹیڈ تھی۔ دنیا کے علم پڑہنے کو تیار ہیں مگر نہیں پڑہ رہے تو ان کا علم۔ کاش دنیا میں ہی بہتر ہوجاتے وہ بھی نہیں بنائی؟ ہم دعویدار ہیں کہ ان کے ماننے والے ہیں۔
لإمام الباقر (عليه السلام):
🔰«كيف من انتحل قول الشيعة و أحبنا أهل البيت؟ فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ و أطاعه، و ما كانوا يُعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشّع والإنابة و كثرة ذكر اللّہ والصوم و الصلاة و البرّ بالوالدين وتعاهد الجيران من الفقراء و ذوي المسكنة والغارمين و الأيتام، وصدق الحديث وتلاوة القرآن وكفّ الألسن عن الناس الا من خير.» (السرائر ٣-٣٣٦)
🔹ای جابر!جو شخص شیعہ ہونے کا دعویدار ہے کیا اُس کیلئے کافی ہے کہ وہ صرف ہم اھلبیت علیھم السّلام کی محبّت کا دم بھرے؟! اللّہ کی قسم!ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقوا اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے۔اے جابر!انہیں پہچانا نہیں جاتا مگر انکساری ،خشوع،امانت داری،ذکرالٰہی میں کثرت،روزہ،نماز،والدین کے ساتھ نیکی،پڑوسیوں فقیروں در ماندہ افراد قرضداروں اور یتتموں سے اچھا سلوک،سچی بات،قرآن کی تلاوت اور اپنی زبانوں کو صرف لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے علاوہ روکنے سے پہچانا جاتا ہے-
پیسہ کا تکبر دکھائیں گے؟ دنیا میں پاکیزہ چیزیں علم اور تقوی ہے اگر ان پر بھی تکبر دکھائے تو ذلیل ہے۔ پیسہ پست چیز ہے جو اس پر تکبر دکھائے وہ تو ذلیل پھر ذلیل ہے۔ دنیا میں پاکیزہ علم اور تقوی پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام شیطان کے برابر ہے۔ دولت اور ذلیلوں کے درمیان شہرت پانے پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام کیا ہے یہ تو گندی نالی کے کیڑے کے برابر ہے۔ ایمانداروں میں شہرت دکھائے۔
خوف خدا کیا ہےَ حج پر جائیں بدترین لوگ بھی ادہر توبہ کریں گے۔ منی کے میدان توبہ کرتے ہیں۔ بھائی جب تنھائی میں گناہ کرتے ہو خدا یاد آتا ہے کہ نہیں۔ کمزور کے سامنے کھڑے ہو کر گناہ نہ کرو۔ سب کے سامنے رہ کر پاکیزہ رہنا نہیں بلکہ اکیلے رہ کر پاکیزہ رہنا۔۔ کسی نے کہا کہ یہ چیز لو گے 100 کی ملے گی میں نے وہ چیز 95 کی لوں اور رسید بنوائوں 100 روہے کی۔ دوسرے کو 100 میں دی۔ میں نے 5 روپے پر اپنا دین بیچا ہے کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کو خدا جانتا ہے اور میں نے اس پر بھروسہ کیا تھا مگر اس نے 5 روپے کا چونا لگانے کا موقع ملا تو اس نے 5 روپے کا چونا لگایا۔ ہم کہتے ہیں سیاستدان ذلیل ہیں۔ تم کو 5 روپے کھانے کا موقع ملا تھا تم نہیں چھوڑا تھا۔ ان کو کیوں گالیاں دے رہے ہو؟۔ عالم یہ ہے کہ مسجد کے کام کیلئے کسی کو 4 روپے دو تو بھول جائو۔ جب تک یہ پورا بل نہیں بنائےگا واپس نہیں آئیگا۔
اس کے بعد ہم کہیں کہ ہم کو خوف خدا ہے۔ کسی آدمی کی عزت میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا۔ خوف خدا کسی کی عزت کو چھپانا ہوتا ہے یا اچھالنا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے تھوڑی رقم پر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
ضیاالحق کی معنی ہیں حق کی روشنی ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ نام غلط بندے کیساتھ لگ گیا اب کوئی رکھے گا یہ نام؟ ہم نے زندگی میں صرف دو بار خدا سے سرگوشیوں میں بات کی ہے۔ کیا ہم تنھائی میں خدا سے کلام کرتے ہیں؟۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں عالم اور کتاب نہیں ہیں۔ تم خدا سے کلام کرو تم کو کیا چاہئے؟ اکیلے میں بیٹھو اللہ سے کلام کرو۔ کیوں نہیں کرتے۔ دماغ میں اتنی اور چیزیں بھری ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خدا سے سجدے میں کلام کریں۔ ایک منٹ سجدہ میں گذرا تو دیکھیں۔ ہمارے دماغ میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے کہ اس میں خدا نہیں آسکتا۔ لوگ سنتے سنتے بوڑہے ہوگئے تو پھر ہم نے ان کو کیا سکھایا؟
٭ذکر خدا اس کو کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کام کروں تو اللہ یاد آئے۔ ذکر کو انگریزی میں ریمائنڈر کہتے ہیں جس کی معنی ہیں یاد دلانا۔ اس کو بار بار یاد آئے کہ خدا ہے۔ ادہر ( مسجد میں ) اللہ یاد آے کمال ہے یا باہر اللہ یاد آئے کیا کمال ہے؟ یہ مہارت نہیں بلکہ باہر خدا یاد آتا یے؟۔ مسکین بندہ آپ کے پاس آیا۔ یاد آیا خدا کے کمزور پر رحم کرنا، رشتیداروں میں بھی طاقتور اور کمزور کون ہے یہ سب پیسے پر ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ خاندان میں بڑا کون ہے۔ اب طاقتور کون ہے اس نے بول دیا تو اس کی چلے گی۔ طاقت کے بل پر احترام ملے تو یہ کمینے پن کا زمانہ ہے۔ دولت چوری سے آتی ہے۔ ہم دین کے نام پر بھی وہ سننا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
والدین سے نیکی کرنا کوئی زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں سے برائی کرتے تھے مگر والدین اور بیوی بچوں سے برائی نہیں کرتے تھے۔ اب وہ کیمنے پن کا زمانہ ہے کہ انسان صرف اپنے آپ سے باوفا ہے۔ جو ہم کو ان مسائل سے نکال سکتے ہیں ان سے ہمارا تمسک نہیں ہے۔ ہمارا اہلبیت سے تمسک رہ گیا ہے صرف دینا لینے کیلئے۔ ہم علم پر، زیارتوں پھی جاتے ہیں دنیا لینے کیلئے۔ کیا خدا نے ان کو دنیا دینے کیلئے بھیجا تھا۔ ہمارا تعلق کونسا ہے۔
ہمارے ہاں کمزوروں اور مسکیوں کی مدد کرتا ہے واٹس اپ پر ڈالتا ہے۔ کوئی کام کرتا ہے اس کے نیچے تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے۔ اللہ کیلئے تھا تو تختی پر نام کیوں؟ مرحوم کے فاتحہ کیلئے نام نہ لیا تو ناراض۔ کیا فرشتوں کو حساب کتاب میں بھول ہوتی ہے؟۔
دین خدا میں اللہ نیکیاں دیکھتا ہے۔ دکھاوا کریں کوئی ثواب نہیں ملے گا تم نے دکھاوے کیلئے کیا وہ مل گیا۔ میرے پاس مسکین آگیا تو میں نے نہیں دینا ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ جب بڑی گاڑی والے نے مانگا تو دے دیا۔ میرا دینا خدا کیلئے نہیں تھا۔ ہمارے پاس چند ظاہری چیزیں رہ گئی ہیں۔ دین کی روح \"نکلی\" ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں روش خدائی نہیں ہے۔ مادہ پرستوں کے پاس جو پیسا دے گا اس کو فنڈ ریز کرنے کیلئے جو اتنے پیسے دے گا۔ آسٹریلیا میں دعائے کمیل کیلئے 50 ڈالر کا ٹکٹ رکھا گیا کہ جو 50 ڈالر کا ٹکٹ خریدے گا پڑہنے والے کے پیچھے بیٹھے گا۔ دعا کمیل میں کہاں بیٹھے گا اس کا ٹکٹ ہوگا۔ یہ ہو رہا ہے۔ یہ عالم ہےاس نے لوگوں کے دلوں میں ہے کہ عزت اس وجہ سے جو پیسا زیادہ دے گا اس کو زیادہ عزت ملے گا۔ اس کو آفیشل کردیا۔
1970 میں میڈیا فحش نہیں تھا اب کیوں ہے؟۔ اگر لوگوں میں فحاشی کی طلب نہ ہو تو وہ نہ دکھائیں۔ اب میڈیا فحش اس لیے ہے کہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے دکھا رہے ہیں کہ اس کو دیکھا جا رہا ہے۔ معاشرے سے فحاشی ختم کرنی ہے تو پہلے اپنی دل سے فحاشی نکالیں۔
اگر کسی بچی کو پتا چل جائے کہ بے حیائی سے اس کی بے عزتی ہوگی تو وہ بے حیائی کرے گی؟ وہ میک اپ کرتی ہی اس لئے ہے کہ اس کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔ میک اپ کر کے بن سنور کر نکلوں گی تو بے عزتی ہوگئ تو وہ بن سنور کر نکلے گی؟
اس کی زبان سے لوگوں کو برائی نہیں ملے گی، ہمارے گھروں میں بچوں کو گالیاں دیتا ہے بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا ہم لوگ شیعہ ہیں
آپ ان احادیث کو پڑہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے آپ کی معاشرے میں بے عزتی ہوگی؟ معاشرہ سچوں کو پسند کرتا ہے تکبر نہ کرنے والوں کو اچھا سمجھتا۔
امام حسن ع کی حدیث ہے کہ اے جوانوں خدا کی قسم ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دین کے پیچھے گیا ہو تو خدا نے اس کو دنیا بھی دے دی ہو اور خدا کی قسم ہم نے نہیں دیکھا کہ جس نے دنیا مانگی ہو اس کو دین بھی ملا ہو۔
جو دین کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے اور جو دنیا کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے۔
استاد محترم حجتہ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی کے درس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت سے نوازا ہے۔ آج کا مبارک اور نورانی دن ہے امام علی رضا کی ولادت کا دن ہے۔ امام کے القاب میں سے ایک لقب یا معین االضعفا و لفقرا ہے ہے جس کی معنی ہے ضعیفوں اور وطن سے دور لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں۔
آج کا دن امام علی رضا سے عیدی حاصل کرنے کا دن ہے۔ ہم اس دنیا کے اندر چند دن رہیں گے اور کہیں جائیں گے یہ چند دن امتحان ہیں اس امتحان کو گذارنے کیلئے ہم کو اہلبیت کی مودت دے۔ ہم سے اللہ پاک نے کچھ امتحان چاہے تھے۔ ہم سے جو خدا نے چاہا ہم نے سمجھا کہ اس کا امتحان نہیں ہوگا اور جو خدا نے نہیں چاہا ہم نے سمجھا کہ اصل امتحان اس کا ہوگا۔
نھج البلاغہ سے سیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھا۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کیا چاہا تھا کہ یہ واجب ہے اور ہم کس کو واجب سمجھتے ہیں؟
کوئی آدمی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس کو دے گا۔
انسان کسی کام میں مہارت کس طرح لیتا ہے؟۔ مجھے بولتے ہوئے پچیس برس ہوئے ہیں۔ جو بچپنے میں سنتے تھے اب وہ بچوں والے ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر کس کام کو دس ہزار گھنٹے بجا لائے تو وہ اس میں ماہر ہوجاتا ہے۔ ایک کرکیٹر نے کہا کہ میں روزانہ300بالیں کھیلتا ہوں۔ جو محنت کرے گا وہ بن جائیگا۔
آپ زندگی کا اصل وقت کہاں لگا رہے ہو، اگر کوئی بچہ روزانہ 8 گھنۓ وڈیو گیم کھیلتا ہے تو اس نے اس کام کو واجب سمجھا ہوا ہے۔ ایک آدمی کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ سو رہا ہے تو اس نے سونا واجب سمجھا ہوا ہے۔ دیہات میں ایک چائے کے کپ پر لوگ دو فلمیں دیکھتے ہیں اس کی زندگی میں یہ واجب ہے۔ اس کی قیمت وہ چیز ہے جس کو اس نے واجب سمجھا ہے جس بچے نے گیم کو واجب سمجھا ہے اس کی قیمت وڈیو گیم ہے۔ آپ تلاش کریں کہ آپ کی زندگی میں کیا واجب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز کو واجب سمجھا جاتا ہے کمانے کو واجب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اچھا کما لے تو صحی اگر اچھا نہ کما سکے تو وہ صحی نہیں۔ معاشرے اور مساجد میں عزت اس کو ملتی ہے جو زیادہ کماتا ہے۔ ہم جس نماز کو واجب سمجھتے ہیں اس کی محفل میں بھی ہم واجب اس کو سمجھتے ہیں اور عزت اس کو دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کمانا واجب نہیں کیا تھا۔ خدا نے حلال کمانا واجب کیا تھا یا رزق پہنچانے کا واعدہ کیا تھا۔ خدا نے کمانا واجب نہیں کیا ہے اس نے \"محنت کرنا\" واجب کیا ہے اور رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔
ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کر رہے رزق ہم دیں گے۔
جو کماتا اس کو عزت دیں گے۔ جو بچا کما کر نہیں لائے اس کو احترام کم دیتے ہیں۔ رزق کا واعدہ خدا پر ہے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے حلال کمائیں۔ کمانا ذمیداری نہیں ہے محنت کرنا ذمیداری ہے۔
اللہ پاک نے کیا واجب کیا تھا۔ نماز، روزہ، حج واجب کیا تھا۔ جب میں فروع دین گنواتا ہوں تو حج تک بس کر لیتا ہوں ، زکوات اور خمس کی بات کروں گا تو آپ کا موڈ خراب ہوجائیگا۔ جہاد کی بات کی تو پھر ساری دنیا مخالف ہوجائیگی۔ ان سے زیادہ کچھ اور واجب ہے۔
میں طالبعلم رہا ۔ 17 برس میں طالبعلم رہا اب 55 برس کا ہوں اگر مجھ میں اور دوسرے میں فرق نہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہو تم نے وقت کہاں گذارا ؟
بچے اسکول میں جائیں گے۔ کچھ جابس میں کچھ کاروبار اور کچھ پرائیوٹ جاب کریں گے۔ ہمارے دوست بھی رشوت لیتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ اپنے آپ سے سوال کریں۔ ہم اہلبیت کے ماننے والے ہیں فرق کہاں ہونا چاہئے۔ ہم چند فرق بیان کریں گے۔
معصومیں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماننے والے کو کیسے پہچانیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ میں نے ملک کے صدر سے رشتہ جورا وہ مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میں ہاتھ کھولتا ہوں اور روزہ پانچ منٹ دیر سے کھولتا ہوں یہ رشتہ انہوں نے دیا ہے؟ یا ہم نے بنایا ہے
آئمہ ہم کو کب اپنا مانتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن گذاریں اور اہلبیت کی ایک روایت بھی نہیں پڑہی تو آپ نے زندگی کا ایک دن ضائع کیا۔ تم خزانے پر بیٹھے تھے اور کہا کہ میں فقیر ہوں میں فقیر ہوں مگر اس خزانے سے کچھ نہیں لیا۔ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں۔ کیا ہم احمق ہیں؟ جو اہلبیت نے خزانہ دیا ہے اس کو ہم نے پڑہا ہے؟۔ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے من لا یحضر الفقیہ جس کی معنی ہیں جب فقیہ نہ ہو۔ ہم نے کبھی پڑہی ہے۔
مولا علی ع نے 250 خطبے مدرسوں میں بیٹھ کر دیئے بلکہ یہ بازار، مسجد، میدان جنگ میں دیئے ہیں ۔ کیا مولا کی وہ گیدہرنگ سلیکٹیڈ تھی۔ دنیا کے علم پڑہنے کو تیار ہیں مگر نہیں پڑہ رہے تو ان کا علم۔ کاش دنیا میں ہی بہتر ہوجاتے وہ بھی نہیں بنائی؟ ہم دعویدار ہیں کہ ان کے ماننے والے ہیں۔
لإمام الباقر (عليه السلام):
🔰«كيف من انتحل قول الشيعة و أحبنا أهل البيت؟ فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ و أطاعه، و ما كانوا يُعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشّع والإنابة و كثرة ذكر اللّہ والصوم و الصلاة و البرّ بالوالدين وتعاهد الجيران من الفقراء و ذوي المسكنة والغارمين و الأيتام، وصدق الحديث وتلاوة القرآن وكفّ الألسن عن الناس الا من خير.» (السرائر ٣-٣٣٦)
🔹ای جابر!جو شخص شیعہ ہونے کا دعویدار ہے کیا اُس کیلئے کافی ہے کہ وہ صرف ہم اھلبیت علیھم السّلام کی محبّت کا دم بھرے؟! اللّہ کی قسم!ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقوا اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے۔اے جابر!انہیں پہچانا نہیں جاتا مگر انکساری ،خشوع،امانت داری،ذکرالٰہی میں کثرت،روزہ،نماز،والدین کے ساتھ نیکی،پڑوسیوں فقیروں در ماندہ افراد قرضداروں اور یتتموں سے اچھا سلوک،سچی بات،قرآن کی تلاوت اور اپنی زبانوں کو صرف لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے علاوہ روکنے سے پہچانا جاتا ہے-
پیسہ کا تکبر دکھائیں گے؟ دنیا میں پاکیزہ چیزیں علم اور تقوی ہے اگر ان پر بھی تکبر دکھائے تو ذلیل ہے۔ پیسہ پست چیز ہے جو اس پر تکبر دکھائے وہ تو ذلیل پھر ذلیل ہے۔ دنیا میں پاکیزہ علم اور تقوی پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام شیطان کے برابر ہے۔ دولت اور ذلیلوں کے درمیان شہرت پانے پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام کیا ہے یہ تو گندی نالی کے کیڑے کے برابر ہے۔ ایمانداروں میں شہرت دکھائے۔
خوف خدا کیا ہےَ حج پر جائیں بدترین لوگ بھی ادہر توبہ کریں گے۔ منی کے میدان توبہ کرتے ہیں۔ بھائی جب تنھائی میں گناہ کرتے ہو خدا یاد آتا ہے کہ نہیں۔ کمزور کے سامنے کھڑے ہو کر گناہ نہ کرو۔ سب کے سامنے رہ کر پاکیزہ رہنا نہیں بلکہ اکیلے رہ کر پاکیزہ رہنا۔۔ کسی نے کہا کہ یہ چیز لو گے 100 کی ملے گی میں نے وہ چیز 95 کی لوں اور رسید بنوائوں 100 روہے کی۔ دوسرے کو 100 میں دی۔ میں نے 5 روپے پر اپنا دین بیچا ہے کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کو خدا جانتا ہے اور میں نے اس پر بھروسہ کیا تھا مگر اس نے 5 روپے کا چونا لگانے کا موقع ملا تو اس نے 5 روپے کا چونا لگایا۔ ہم کہتے ہیں سیاستدان ذلیل ہیں۔ تم کو 5 روپے کھانے کا موقع ملا تھا تم نہیں چھوڑا تھا۔ ان کو کیوں گالیاں دے رہے ہو؟۔ عالم یہ ہے کہ مسجد کے کام کیلئے کسی کو 4 روپے دو تو بھول جائو۔ جب تک یہ پورا بل نہیں بنائےگا واپس نہیں آئیگا۔
اس کے بعد ہم کہیں کہ ہم کو خوف خدا ہے۔ کسی آدمی کی عزت میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا۔ خوف خدا کسی کی عزت کو چھپانا ہوتا ہے یا اچھالنا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے تھوڑی رقم پر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
ضیاالحق کی معنی ہیں حق کی روشنی ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ نام غلط بندے کیساتھ لگ گیا اب کوئی رکھے گا یہ نام؟ ہم نے زندگی میں صرف دو بار خدا سے سرگوشیوں میں بات کی ہے۔ کیا ہم تنھائی میں خدا سے کلام کرتے ہیں؟۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں عالم اور کتاب نہیں ہیں۔ تم خدا سے کلام کرو تم کو کیا چاہئے؟ اکیلے میں بیٹھو اللہ سے کلام کرو۔ کیوں نہیں کرتے۔ دماغ میں اتنی اور چیزیں بھری ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خدا سے سجدے میں کلام کریں۔ ایک منٹ سجدہ میں گذرا تو دیکھیں۔ ہمارے دماغ میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے کہ اس میں خدا نہیں آسکتا۔ لوگ سنتے سنتے بوڑہے ہوگئے تو پھر ہم نے ان کو کیا سکھایا؟
٭ذکر خدا اس کو کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کام کروں تو اللہ یاد آئے۔ ذکر کو انگریزی میں ریمائنڈر کہتے ہیں جس کی معنی ہیں یاد دلانا۔ اس کو بار بار یاد آئے کہ خدا ہے۔ ادہر ( مسجد میں ) اللہ یاد آے کمال ہے یا باہر اللہ یاد آئے کیا کمال ہے؟ یہ مہارت نہیں بلکہ باہر خدا یاد آتا یے؟۔ مسکین بندہ آپ کے پاس آیا۔ یاد آیا خدا کے کمزور پر رحم کرنا، رشتیداروں میں بھی طاقتور اور کمزور کون ہے یہ سب پیسے پر ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ خاندان میں بڑا کون ہے۔ اب طاقتور کون ہے اس نے بول دیا تو اس کی چلے گی۔ طاقت کے بل پر احترام ملے تو یہ کمینے پن کا زمانہ ہے۔ دولت چوری سے آتی ہے۔ ہم دین کے نام پر بھی وہ سننا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
والدین سے نیکی کرنا کوئی زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں سے برائی کرتے تھے مگر والدین اور بیوی بچوں سے برائی نہیں کرتے تھے۔ اب وہ کیمنے پن کا زمانہ ہے کہ انسان صرف اپنے آپ سے باوفا ہے۔ جو ہم کو ان مسائل سے نکال سکتے ہیں ان سے ہمارا تمسک نہیں ہے۔ ہمارا اہلبیت سے تمسک رہ گیا ہے صرف دینا لینے کیلئے۔ ہم علم پر، زیارتوں پھی جاتے ہیں دنیا لینے کیلئے۔ کیا خدا نے ان کو دنیا دینے کیلئے بھیجا تھا۔ ہمارا تعلق کونسا ہے۔
ہمارے ہاں کمزوروں اور مسکیوں کی مدد کرتا ہے واٹس اپ پر ڈالتا ہے۔ کوئی کام کرتا ہے اس کے نیچے تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے۔ اللہ کیلئے تھا تو تختی پر نام کیوں؟ مرحوم کے فاتحہ کیلئے نام نہ لیا تو ناراض۔ کیا فرشتوں کو حساب کتاب میں بھول ہوتی ہے؟۔
دین خدا میں اللہ نیکیاں دیکھتا ہے۔ دکھاوا کریں کوئی ثواب نہیں ملے گا تم نے دکھاوے کیلئے کیا وہ مل گیا۔ میرے پاس مسکین آگیا تو میں نے نہیں دینا ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ جب بڑی گاڑی والے نے مانگا تو دے دیا۔ میرا دینا خدا کیلئے نہیں تھا۔ ہمارے پاس چند ظاہری چیزیں رہ گئی ہیں۔ دین کی روح \"نکلی\" ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں روش خدائی نہیں ہے۔ مادہ پرستوں کے پاس جو پیسا دے گا اس کو فنڈ ریز کرنے کیلئے جو اتنے پیسے دے گا۔ آسٹریلیا میں دعائے کمیل کیلئے 50 ڈالر کا ٹکٹ رکھا گیا کہ جو 50 ڈالر کا ٹکٹ خریدے گا پڑہنے والے کے پیچھے بیٹھے گا۔ دعا کمیل میں کہاں بیٹھے گا اس کا ٹکٹ ہوگا۔ یہ ہو رہا ہے۔ یہ عالم ہےاس نے لوگوں کے دلوں میں ہے کہ عزت اس وجہ سے جو پیسا زیادہ دے گا اس کو زیادہ عزت ملے گا۔ اس کو آفیشل کردیا۔
1970 میں میڈیا فحش نہیں تھا اب کیوں ہے؟۔ اگر لوگوں میں فحاشی کی طلب نہ ہو تو وہ نہ دکھائیں۔ اب میڈیا فحش اس لیے ہے کہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے دکھا رہے ہیں کہ اس کو دیکھا جا رہا ہے۔ معاشرے سے فحاشی ختم کرنی ہے تو پہلے اپنی دل سے فحاشی نکالیں۔
اگر کسی بچی کو پتا چل جائے کہ بے حیائی سے اس کی بے عزتی ہوگی تو وہ بے حیائی کرے گی؟ وہ میک اپ کرتی ہی اس لئے ہے کہ اس کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔ میک اپ کر کے بن سنور کر نکلوں گی تو بے عزتی ہوگئ تو وہ بن سنور کر نکلے گی؟
اس کی زبان سے لوگوں کو برائی نہیں ملے گی، ہمارے گھروں میں بچوں کو گالیاں دیتا ہے بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا ہم لوگ شیعہ ہیں
آپ ان احادیث کو پڑہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے آپ کی معاشرے میں بے عزتی ہوگی؟ معاشرہ سچوں کو پسند کرتا ہے تکبر نہ کرنے والوں کو اچھا سمجھتا۔
امام حسن ع کی حدیث ہے کہ اے جوانوں خدا کی قسم ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دین کے پیچھے گیا ہو تو خدا نے اس کو دنیا بھی دے دی ہو اور خدا کی قسم ہم نے نہیں دیکھا کہ جس نے دنیا مانگی ہو اس کو دین بھی ملا ہو۔
جو دین کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے اور جو دنیا کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے۔
استاد محترم حجتہ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی کے درس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
43:21
|
[Speech] Triangle of a successful plan (کامیاب منصوبہ) Kamyab Masooba By Syed Ali Murtaza Zaidi - Ur
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں...
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں سچا ہوں یا نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے پوچھوں کہ میں سچا ہوں کہ نہیں ہوں؟ بچے وہ مخلوق ہیں کہ جو سچ بولتے ہیں۔ اگر باپ کہے کہ میں یہ لے کر دوں گا اور نہ لے کر دے تو اس کا مطلب کہ بچہ کا باپ پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اگر بچہ کہے کہ یہ بات تو ہونی ہے کیوںکہ میرے باپ نے کہا ہے تو اس کا مطلب باپ سچ بولتا ہے یہ معیار ہے۔ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں تو جو مدرسہ، این جی او، یا بلڈنگ ہو پہلے اعتماد ہو اعتماد سچائی سے آتا ہے آپ کی چھوٹی بات میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے آپ کی بات میں وزن آئیگا۔ جو انسان سچ بولتا ہے تو خدا اس کی کہی ہوئی بات کو بھی صحی کروادیتا ہے گویہ خدا اس کی بات یا زبان کی حفاظت کرتا ہے کہ کہیں میرے مومن بندے کی بات جھوٹ نہ ہوجائے۔ آپ کہہ دیں گے جو آپ نے اپنی دانست میں صحی کہا ہوگا تو خدا اس کو بھی صحی کروا دے گا۔ جو لوگ ادہر بیٹھے ہیں اگر یہ سب کہ سب سچے ہوگئے تو شہدادکوٹ دس سال میں جنت بن جائیگا یہ کنفرم ہے۔ مجھے ایک چیز سمجھ میں آئی ہے کہ معاشرے کو بہتر کرنے میں اکثریت کا بہتر ہونا ضروری نہیں ہے اگر کچھ اقلیت بھی اچھی ہو جائے تو معاشرہ اچھا ہوجائیگااس کو ہم کہتے ہیں خواص کا کردار۔ بہت سی چیزیں معاشرے میں خواص کے کردار پر ڈپینٖڈ کرتی ہیں۔ اعتماد کیلئے سچ بولنا ہوگا سچ بولنے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہوگا۔ دوسری چیز منصوبہ ہے۔ آپ کے پاس منصوبہ ہے یا اڑتی ہوئی فکر۔اڑتی ہوئی فکر سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو منصوبہ کا پتا ہو کہ اگر آپ یہ کریں گے تو یہ ہوگا ، یہاں سے شروع کیا ہے تو یہاں پھنچیں گے۔ ہرچیز کلیئر ہو۔ ارادہ، وسائل، خرچہ ، متوقعہ رکاوٹیں،آپ کتنی رکاوٹیں جھیل پائین گے۔ سب چیزیں منصوبہ کا حصہ ہیں جن کو ہم فزیبلٹی رپورٹ کہتے ہیں۔ ہم نے اپنا آفس بنایا تو لوگ آکر کہتے تھے کہ آپ یہ کریں اب یہ کریں ہم سنتے تھے کہ کیا ہم چوراہے پر ہیں کہ جو آتا ہے ترکیب بتا کر جاتا ہے تو میں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے سوچا کہ آپ کی ترکیب بہت اچھی ہے آپ اس پر پانچ صفحے لکھ کر لے آئو جس میں تفصیل ہو شاید ہی کوئی واپس آیا ہو۔ ترکیب دینے والے بہت ہیں آپ ان کو کہیں کہ منصوبہ دیں۔ کتنا خرچہ، پیسا کہاں سے آئیگا تمہارا کیا کردار کیا ہوگا۔ میں ٹریولنگ زیادہ کرتا ہوں جس پر لوگ ترکیب بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب یہاں پر یہ کام ہوسکتا ہے میں کہتا ہون پانچ صفحہ لکھھ کر ایمیؒ کردیں۔ مجھے پتا ہے کہ بہت ترکیں ہوائی فکریں ہیں ترتیب نہیں ہیں۔ اب اتنی مہارت ہوگئی ہے کہ منصوبہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ چلے گا یا نہیں۔ کبھی کسی مین پوٹینسل ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کام کرو کچھ وقت کے بعد اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا۔ منصوبہ چھوٹی جگہ سے شروع کریں۔ اگر مجھے منصوبہ شروع کرنا ہوا تو میں پہلے ایک گلی پکڑوں گا اس کو درست کروں گا۔ اس گلی کی صفائئ ستھرائی نکاسی وغیرہ کو درست کرانا ہوگا پھر دس گلیاں لائن میں لگیں گی۔ آپ ایک گلی صحی کریں۔ شہداد کوٹ میں سبزہ ہو، صفاےئ ستھرائی ہو تو پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کریں۔ جو کچھ کرنا ہے اپنے گھر سے شروع کریں پھر آپ نے کرلیا تو آپ کو پتا چلے گا اس کی قیمت کا ۔ اس کو کون کرے گا اور کون نہیں کرے گا۔ ہم میں سے اگر کوئی کام کسی کو کرنے کیلئے دیتے ہیں تو پہلے کہتے ہیں کہ ہم تین لوگ خود کریں بعد میان کسی اور کو دیں گے۔ سورج کی گرمی، پہلے میں خود کرونں پھر کہت سکتا ہوں کہ یہ پبلک کرے گی یا نہیں اور اس کے بعد دوسروں کو دینا ہے جن کے اند مجھھ جیسا حوصلہ ہے۔ پھر اس کو کہوں گا تم کرو۔ تیسرا ٹیم ورک ہے۔ آپ دنیا کا ہر کام اکیلے کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیلئے آپ کو ٹیم ورک چاہیئے۔ ہم نے اسکول بنایا ہے جس میں 6 سو بچے ہیں اس نے کہا کہ میں یہ بھی کری ہوں وہ بھی کرتی ہوں لمبی لسٹ بتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد آپ بیمار ہوجائیں تو یہ ہونا ہی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں میں دو جملے کہتا ہوں اسکول کے اندر ہر کام کی ذمیدار آپ ہیں مگر سب کام آپ نے نہیں کرنے ہیں کسی اور نے کرنا ہے مگر ذمیدار آپ ہیں۔ آپ نے نظارت کرنی ہے مینئج کریں۔ شروع مین سب کام آپ نے کرنا ہے۔ گلگت میں اسپتال کا پراجیکٹ شروع کرنا تھا ہم نے کلنک سے شروع کیا ہم کو شام کو افتتاح کرنا تھا صحن میں صفائی ستھرائی نہیں تھی پراجیکٹ مینیجر نے کہا کہ جھاڑو والا دیر سے آئیگا میں نے کہا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے جھاڑو لگایا شام تک فارغ بیٹھا ہوا ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اگر م میرے پاس کوئی اور کام ہو جو اس سے بڑا ہو اور میں نے جھارو والا کام کیا تو میں نے یہ ظلم کیا اگر بڑا کام نہیں ہے تو یہ کام کرنا ہے جھاڑو بھی تو کسی نے لگانا ہے۔ یہ کام کسی بندے نے کرنا ہے تو میں کیوں نہ کرون۔ ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام نہین ہے اگر آپ کوئی اور کام نہیں کر رہے تو یہ کام بھی کسی انسان نے کرنا ہے۔ آپ کرلین۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کام ہوگا کیسے۔ ہمارئ ملک کے بڑا لوگ جو راشن کا ڈبہ دیتے ہیں یہ دکھاوا کرتے ہیں۔ اور پبلک کو الو بنوانے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے کرتے ہیں یہ کھتے ہیں کہ پبلک دیکھے گی تو کچھ ہوگا کیا اوپر خدا نہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بندون سے توقع لگائے بیٹھے ہیں خدا سے توقع نہیں کرتے ہیں۔ یہ جو دکھاوے کیلئے دے رہا ہے کتنوں کو دے گا اور کس وقت تک دے گا؟ تصویر کس لئے کھنچوائی ہئ کیوں کہ اس کے اندر خدا نہین ہے اگر خدا ہوتا تو باہر یہ حرکت نہیں کرتا۔
پھلی چیز اعتماد دوسرا عملی منصوبہ تیسرا ٹیم ورک۔ دوسرے لوگ آپ کیساتھ چلین گے کب؟ دھوکہ بازی پر تو ٹیم کوئی بھی بنا لےگا ٹیم تب بنے گی جب آپ اپنے آپ کو ان سب سے نیچے سمھیں تو تیم بنے گی؟ اپنے مقدر کو اپنی ٹیم سے علیحدہ نہ کریں۔ نبی اکرم صہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے ٹیم ورک پر مبنی۔ دشمن باہر سے حملہ اور یہودی سازش کر رہے ہیں حضرت سلمان فارسی نے کہا کہ خندق کھودتے ہیں آپ نے کہا کہ میں بھی خندق کھودوں گا۔ خندق کھودنا شروع ہوگئے باھر بھی دشمن اور کھانے پینے کا سامان بھی کم لوگ بھوکے بھی تھے اور خندق بھی کھودنی تھی۔ لوگوں نے پیٹ سے پتھر باندھے ہوئے تھے ۔ رسول اکرم نے بھی شکم سے پتھر باندہا ہوا تھا۔ خندق کھودتے ہوئے ایک پتھر پر پھنچے اور اس کو نکال نہیں سکتے تھے نبی اکمر کے پاس آئے کی پتھر نکالنے میں دشواری ہے ایک پتھر ہے ہم بیجان ہوگئے۔ پتھر نکل جا، کوئی دعا نہین پڑی انھوں نے کھدال ماری۔ کام ہونا ہے جبرائیل نہیں آئیگا۔ پتھر نہیں ٹوٹا مگر چنگاریان نکلی۔ اس زمانے میں ایران اور روم دو سپر پاور تھے۔ نبی کرم نے پہلئ چنگاریوں پر فرمایہ کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں ایران فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں، دوبارہ کھدال مارا چنگاریاں نکلیں تو آپ نے کہا کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں روم فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں،تیسرا کھدال مارا پتھر ٹوٹ گیا۔ آپ اپنا مقدر علیحدہ نہ کریں۔ ڈوبنا ہے تو ساتھ ڈوبیں لڑنا ہے تو ساتھ لڑیں۔ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر خرابی ہے تو یہاں پر ٹکو۔ پبلک جھیل رہی ہے تو آپ بھی جھیلیں۔ کراشی م یں سیکیورٹی نہیں ہے تو میں اس کا حل یہ نکالوں کہ سوئزرلینڈ چلا جائوں پھر میں کراچی کیلئے کچھ کر سکوں گا۔ اگر لوگ تیں دن گھر میں محصور ہیں تو میں بھی نہ نکلوں۔ آپ مقدر کو الگ نہ کریں آپ کی ملکیت اور پراپرٹی باہر ہو اور آپ پبلک کو کہیں کہ آپ کا ساتھ دے یہ نہیں ہوگا۔ ساتھ اس وقت دنیا ہے جنب آپ مصیبت میں ہیں تو مین بھی مصیبت میں رہون۔
اللہ کے رسول مکہ سے مدینہ آئے تو سب کو ساتھ لے کر آئے جب بھی کوئی مصیبت پڑی اپنے اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا سب سے بڑا معرکہ مباہلہ کا میدان تھا جس میں انہوں نے خود کو اور ایل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا۔ نبی اکرم ان کو لے کر آئے اگر خدانخواستی کچھ ہو جا تا تو نبی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خچرناک جگہ پر ان کو لے کر آئے جو نبی کی کل کائنات تھی۔ نبی کی نسل، خاندان دولت اور جو کچھ تھا یہی تھا۔ میان خطر میں کود پڑے یہ ٹعم ورک ہے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ساتھ چلیں انہوں نے کہا کہ ہم جائیں گے۔ حتی الامکان کاموں کو خود کرنے کی کوشش کریں۔
کامیابی کا ٹرائی اینگل کیا ہو؟ اعتماد جو سچائی سے پیدا ہوگا، منصوبہ اور ٹیم ورک۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹیم خودسازی سے بنتی ہے۔ اپنی نمائش کریں گے تو ٹیم نہیں بنے گی؟ اپنے آپ کو پل بنائیں اپنے آپ کو ستوں قرار نہ دیں۔ اگر لیڈر کہتا ہے کہ میں اونچا نظر آئوں تو یہ رکاوٹ ہے۔ لیڈر وہ ہے جو اپنے آپ کو بچھائے ۔
۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کام کیا ہے پرخلوص اگر منصوبہ یہ بنایا ہے کہ آخر میں جاکر آپ کو اتنی دولت ملنی ہے تو یہ منصوبہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو بنانا ہے تو بے لوث منصوبہ بنائیں۔ ٹیم کس لیے بنائیں گے اس لئے نہیں کہ آپ کہیں کہ میری ٹیم میں 5 ہزار لوگ ہیں بلکہ اس لیئ کہ آٌپ بچھ جائیں تو یہ کھڑے ہوجائیں۔ آپ کے پاس خلوص ہے تو کامیابی ہے۔ خلوص کسے کہتے ہیں کاموں کو اللہ کیلئے انجام دینا۔ اس کا مثال یہ ہے کہ اگر بینر پر میرے لئے لکھے ہوئے جملے پڑہ کر مجھے خوشی ہوئی ہے تو یہ خلوص نہیں ہے۔ خلوص اس وقت ہو جب آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ آپ کو کیا ملنا ہے۔
ہم لوگوں کیساتھ خرابی یہ ہے کہ ہم میں خلوص کی کمی ہے اور ہم نے بے خلوص لوگوں کو دل پر بٹھا دیا ہے۔ یہ ہم نے گڑبڑ کی ہے ہم کو پتا ہے کہ یہ پرخلوص نہیں ہے پھر بھی ہم نے سر پر بٹھا دیا یے۔
آیت اللہ اشتھاردی جو میرے استاد تھے اور بڑے نفیس انسان تھے ان کا واقعہ ہے کہ خلوص کی انتھا بتاتا ہوں۔ واقعہ مشھد مقدس کا ہے وہ طالبعلم تھے تو ایک عورت نے اس کو کہا کہ میرے گائوں مجلس پڑہنے آئوگے؟ میں نے کہا کہ میں چلا آئوں گا۔ اس کا گائوں بہت دور تھا میں مصیبتیں جھیلتا ہوا اس طرف گئے میں اس گائوں میں پہنچا تو مجھے پروگرام کے آثار بہت کم نظر آئے۔ ہم اتنی دور سے آئے کوئی شامیانہ بھی نہیں لگا ہوا تھا لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرف گئی۔ میں اس کے گھر پھنچا۔ اس نے اپنے گھر میں بٹھایا اور کہا کہ مجلس شروع کریں میں نے کہا کہ اور لوگ کب آئیں گے اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے میں ہوں تم مجلس پڑہو۔ میں ایک عورت کیلئے مجلس پڑہوں میں نے ایک سامع کے خاطر مجلس پڑہی میں نے مصائب بھی پڑہے اس عورت نے خوب گریہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ایک کام کردیا اس نے پیسے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا فلاں تاریخ کو پھر آنا۔ پیسے بھی اتنے تھے کہ کرایہ ہی مشکل سے پورا ہوا۔ اس عورت نے کہا کہ دوبارہ بھی آنا جب وہ تاریخ آئی تو میں نے سوچا کہ اس ایک عورت کیلئے اتنا دور جائیں اس کو کہیں گے کہ وہ مشھد آجائے میں اس کو ادہر ہی سنادوں گا۔ میں نہیں گیا میں نے حرم کی زیارت کی پھر واپس آیا تو لیٹا خواب میں سید الشھدا ع آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ہماری مجلس میں بھی نہیں جاتے ہو؟ ۔ یہ ان کی توفیق تھی کہ سید الشھدا ان کے خواب میں آئے ہم غلطی کریں گے تو سید الشھدا ہمارے خواب میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ سید الشھدا اس مجلس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میں بیدار ہوااور سفر طئی کرتا ہوا استغفار کرتا ہوا اس کے گھر میں گیا وہ رو رہی تھی جب تک ڈانٹ نہیں پڑی آئے نہیں نا یہ بڑہیا کا خلوص ہے اگر سید الشھدا کو عزیز نہیں ہوتی تو سید الشھدا خواب میں نہیں آتے۔ ہم نے غلطی کیا کی ہے کہ بے خلوص لوگوں کو سید الشھدا کے منبر پر بٹھایا ہے اگر ہم بے خلوص کو منبر پر بٹھائیں گے تو ہم کو خلوص ملے گا؟ انسان غلطی کرے تو خدا معاف کرنے والا ہے ہم جان بوجھ کر غلطیاں کریں تو پھر؟؟؟ہم جان بوجھ کر غلطی کروں خدا کے حکم کو اہمیت نہ دوں پھر جو وہ چاہ ریے ہیں وہ نہیں ہوگا باقی سب کچھ ہو جائیگا۔ جو اصل میں ہونا تھا وہ نہیں ہوگا۔ سمندر کے نمکین پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی؟ پانی پئیں گے مگر پیاس نہیں جائے گئ۔ آپ خدا کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کریں اور کہیں کہ یہ ہوجائے وہ نہیں ہونے والا ہے۔ اثر نہین آئے گا لوگ تبدیل نہیں ہونگے۔ نافرمانی جان بوجھ کر کی ہے لوگ اللہ کے راستے پر نہیں آئیںگے۔ جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کریں۔ ایک بندہ فجر کی نماز نہیں پڑہ پاتا خدا اس کو معاف کرے گا مگر ہم جان بوجھ کر نماز فجر ادا نہ کریں خدا معاف کرے گا۔ طئی کر کے سویا کہ نہیں اٹھوں گا اب سزا ملے گی۔ آپ طئی کر کے نافرمانی اور گناہ نہ کریں۔ آپ طئی کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں کہ فحاشہ دیکھیں گے اب تو سزا ملے گی۔ سزا کیا ملے گی جو آپ کے نزدیک عزیز تھا وہ دور ہوجائیگا۔ آپ ٹی وی، فحاشہ اور میوزک مزے لینے کیلئے کر رہے تھے تو یہ دنیا آپ کو نہین ملے گی۔ میں نے کل لاڑکانہ میں ارض کیا تھا کہ ہم کو سیلاب کیوجہ سے آئی ڈی پیز نظر آ رہے ہیں جن کی حالت خراب ہے ان کی حالت پہلے بھی بھتر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں دو کروڑ آئی ڈی پیز نہیں ہیں کم از کم آٹھ دس کروڑ آئی ڈی پیز ہیں کچھ ابھی ہوئے ہیں اور کچھ پہلے سے چل رہے ہیں۔
اب بھی صحی نہیں کرنا اب پھر بھی فحاشہ دیکھیں گے چلو لگے رہو۔ اتنے سال 50 سال سے کرپشن ہو رہئ ہے کیا اس کے کچھ ملے گا؟ اس سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر کرپشن سے کچھ ملنا ہے تو اگلے پچاس برس اور کرپشن کرو اگر تھک گئے ہو تو اللہ کے دین پر واپس آئو۔ اگر مایوس ہوگئے ہو تو واپس آجائو۔ ظہور بھی اس طرح ہوگا ۔ جب ہم کو ظلم سے امید ہے کہ کچھ ملنے والا ہے تو عدل محض تشریف نہیں لائیں گے جب ہم سمجھ لیں کہ ظلم سے کچھ نہیں ملنے والا سب کچھ عدل سے ملے گا در اہلبیت سے ملے گا تو پھر امام کا ظھور ہوگا۔
لب لباب یہ ہوا کہ تقریر ختم ہونے کے بعد 80 فیصد باتیں لوگ بھول جاتے ہیں ہم دس منٹ میں نوی فیصد بھول جائیں گے۔ ریکاردنگ پڑی رہتی ہیں کوئی دوبارہ نہیں دیکھتا ہے آپ دیکھیں گے اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کچھ اور لوگ دیکھ لیں گے۔ نوابشاہ میں عید غدیر کا پروگرام تھا جس میں پچیس یا تیس لوگ تھے ہم نے اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اب دیکھتے ہیں کہ ناس کے دیکھنے والے کئی ہزار ہیں۔ لوگ بھول جائیں گے۔ آخر میں اس کو دوبارہ دہراتے ہیں تا کہ رہ جائیں واقعات رہ جاتے ہیں مفھوم نکل جاتا ہے۔ مفھوم پر اصرار کرتے ہیں مفھوم کو تصویر میں لے کر آئیں۔ معقول کو محسوس میں لے کر آئیں تو باقی رہے گا۔
میں نے معقول کو محسوس میں رکھا تھا ایک ٹرائی اینگل ہے جس کے ایک کونہ پر اعتماد، دوسرے پر منصوبہ اور تیسرے کونے پر ٹیم ورک ہے جس کو ہم نے ایک دائرہ میں رکھا ہے دائرہ اخلاص ہے۔ میں نے پل بننا ہے جس سے پر سے لوگوں نے گذرنا ہے آپ نے ستون نہیں بننا ہے۔ معاشرہ کیلئے کام کرنا ہے تو جھیلنا بہت پڑے گا۔ اگر صحی کرتا ہے تو پھر بھی جھیلنا پڑے گا اگر غلط کرتا ہے تو پھر زیادہ جھیلنا پڑے گا۔ پرخلوص ہونا ضروری ہے۔ جس چیز میں جان بوجھ کر نافرمانی کریں گے وہ آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔ نیند کیلئے نماز کو چھوڑا تو اچھی نیند نہیں ملے گی آپ نے خدا کو چھوڑا ہے۔
More...
Description:
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں سچا ہوں یا نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے پوچھوں کہ میں سچا ہوں کہ نہیں ہوں؟ بچے وہ مخلوق ہیں کہ جو سچ بولتے ہیں۔ اگر باپ کہے کہ میں یہ لے کر دوں گا اور نہ لے کر دے تو اس کا مطلب کہ بچہ کا باپ پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اگر بچہ کہے کہ یہ بات تو ہونی ہے کیوںکہ میرے باپ نے کہا ہے تو اس کا مطلب باپ سچ بولتا ہے یہ معیار ہے۔ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں تو جو مدرسہ، این جی او، یا بلڈنگ ہو پہلے اعتماد ہو اعتماد سچائی سے آتا ہے آپ کی چھوٹی بات میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے آپ کی بات میں وزن آئیگا۔ جو انسان سچ بولتا ہے تو خدا اس کی کہی ہوئی بات کو بھی صحی کروادیتا ہے گویہ خدا اس کی بات یا زبان کی حفاظت کرتا ہے کہ کہیں میرے مومن بندے کی بات جھوٹ نہ ہوجائے۔ آپ کہہ دیں گے جو آپ نے اپنی دانست میں صحی کہا ہوگا تو خدا اس کو بھی صحی کروا دے گا۔ جو لوگ ادہر بیٹھے ہیں اگر یہ سب کہ سب سچے ہوگئے تو شہدادکوٹ دس سال میں جنت بن جائیگا یہ کنفرم ہے۔ مجھے ایک چیز سمجھ میں آئی ہے کہ معاشرے کو بہتر کرنے میں اکثریت کا بہتر ہونا ضروری نہیں ہے اگر کچھ اقلیت بھی اچھی ہو جائے تو معاشرہ اچھا ہوجائیگااس کو ہم کہتے ہیں خواص کا کردار۔ بہت سی چیزیں معاشرے میں خواص کے کردار پر ڈپینٖڈ کرتی ہیں۔ اعتماد کیلئے سچ بولنا ہوگا سچ بولنے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہوگا۔ دوسری چیز منصوبہ ہے۔ آپ کے پاس منصوبہ ہے یا اڑتی ہوئی فکر۔اڑتی ہوئی فکر سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو منصوبہ کا پتا ہو کہ اگر آپ یہ کریں گے تو یہ ہوگا ، یہاں سے شروع کیا ہے تو یہاں پھنچیں گے۔ ہرچیز کلیئر ہو۔ ارادہ، وسائل، خرچہ ، متوقعہ رکاوٹیں،آپ کتنی رکاوٹیں جھیل پائین گے۔ سب چیزیں منصوبہ کا حصہ ہیں جن کو ہم فزیبلٹی رپورٹ کہتے ہیں۔ ہم نے اپنا آفس بنایا تو لوگ آکر کہتے تھے کہ آپ یہ کریں اب یہ کریں ہم سنتے تھے کہ کیا ہم چوراہے پر ہیں کہ جو آتا ہے ترکیب بتا کر جاتا ہے تو میں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے سوچا کہ آپ کی ترکیب بہت اچھی ہے آپ اس پر پانچ صفحے لکھ کر لے آئو جس میں تفصیل ہو شاید ہی کوئی واپس آیا ہو۔ ترکیب دینے والے بہت ہیں آپ ان کو کہیں کہ منصوبہ دیں۔ کتنا خرچہ، پیسا کہاں سے آئیگا تمہارا کیا کردار کیا ہوگا۔ میں ٹریولنگ زیادہ کرتا ہوں جس پر لوگ ترکیب بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب یہاں پر یہ کام ہوسکتا ہے میں کہتا ہون پانچ صفحہ لکھھ کر ایمیؒ کردیں۔ مجھے پتا ہے کہ بہت ترکیں ہوائی فکریں ہیں ترتیب نہیں ہیں۔ اب اتنی مہارت ہوگئی ہے کہ منصوبہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ چلے گا یا نہیں۔ کبھی کسی مین پوٹینسل ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کام کرو کچھ وقت کے بعد اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا۔ منصوبہ چھوٹی جگہ سے شروع کریں۔ اگر مجھے منصوبہ شروع کرنا ہوا تو میں پہلے ایک گلی پکڑوں گا اس کو درست کروں گا۔ اس گلی کی صفائئ ستھرائی نکاسی وغیرہ کو درست کرانا ہوگا پھر دس گلیاں لائن میں لگیں گی۔ آپ ایک گلی صحی کریں۔ شہداد کوٹ میں سبزہ ہو، صفاےئ ستھرائی ہو تو پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کریں۔ جو کچھ کرنا ہے اپنے گھر سے شروع کریں پھر آپ نے کرلیا تو آپ کو پتا چلے گا اس کی قیمت کا ۔ اس کو کون کرے گا اور کون نہیں کرے گا۔ ہم میں سے اگر کوئی کام کسی کو کرنے کیلئے دیتے ہیں تو پہلے کہتے ہیں کہ ہم تین لوگ خود کریں بعد میان کسی اور کو دیں گے۔ سورج کی گرمی، پہلے میں خود کرونں پھر کہت سکتا ہوں کہ یہ پبلک کرے گی یا نہیں اور اس کے بعد دوسروں کو دینا ہے جن کے اند مجھھ جیسا حوصلہ ہے۔ پھر اس کو کہوں گا تم کرو۔ تیسرا ٹیم ورک ہے۔ آپ دنیا کا ہر کام اکیلے کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیلئے آپ کو ٹیم ورک چاہیئے۔ ہم نے اسکول بنایا ہے جس میں 6 سو بچے ہیں اس نے کہا کہ میں یہ بھی کری ہوں وہ بھی کرتی ہوں لمبی لسٹ بتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد آپ بیمار ہوجائیں تو یہ ہونا ہی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں میں دو جملے کہتا ہوں اسکول کے اندر ہر کام کی ذمیدار آپ ہیں مگر سب کام آپ نے نہیں کرنے ہیں کسی اور نے کرنا ہے مگر ذمیدار آپ ہیں۔ آپ نے نظارت کرنی ہے مینئج کریں۔ شروع مین سب کام آپ نے کرنا ہے۔ گلگت میں اسپتال کا پراجیکٹ شروع کرنا تھا ہم نے کلنک سے شروع کیا ہم کو شام کو افتتاح کرنا تھا صحن میں صفائی ستھرائی نہیں تھی پراجیکٹ مینیجر نے کہا کہ جھاڑو والا دیر سے آئیگا میں نے کہا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے جھاڑو لگایا شام تک فارغ بیٹھا ہوا ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اگر م میرے پاس کوئی اور کام ہو جو اس سے بڑا ہو اور میں نے جھارو والا کام کیا تو میں نے یہ ظلم کیا اگر بڑا کام نہیں ہے تو یہ کام کرنا ہے جھاڑو بھی تو کسی نے لگانا ہے۔ یہ کام کسی بندے نے کرنا ہے تو میں کیوں نہ کرون۔ ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام نہین ہے اگر آپ کوئی اور کام نہیں کر رہے تو یہ کام بھی کسی انسان نے کرنا ہے۔ آپ کرلین۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کام ہوگا کیسے۔ ہمارئ ملک کے بڑا لوگ جو راشن کا ڈبہ دیتے ہیں یہ دکھاوا کرتے ہیں۔ اور پبلک کو الو بنوانے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے کرتے ہیں یہ کھتے ہیں کہ پبلک دیکھے گی تو کچھ ہوگا کیا اوپر خدا نہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بندون سے توقع لگائے بیٹھے ہیں خدا سے توقع نہیں کرتے ہیں۔ یہ جو دکھاوے کیلئے دے رہا ہے کتنوں کو دے گا اور کس وقت تک دے گا؟ تصویر کس لئے کھنچوائی ہئ کیوں کہ اس کے اندر خدا نہین ہے اگر خدا ہوتا تو باہر یہ حرکت نہیں کرتا۔
پھلی چیز اعتماد دوسرا عملی منصوبہ تیسرا ٹیم ورک۔ دوسرے لوگ آپ کیساتھ چلین گے کب؟ دھوکہ بازی پر تو ٹیم کوئی بھی بنا لےگا ٹیم تب بنے گی جب آپ اپنے آپ کو ان سب سے نیچے سمھیں تو تیم بنے گی؟ اپنے مقدر کو اپنی ٹیم سے علیحدہ نہ کریں۔ نبی اکرم صہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے ٹیم ورک پر مبنی۔ دشمن باہر سے حملہ اور یہودی سازش کر رہے ہیں حضرت سلمان فارسی نے کہا کہ خندق کھودتے ہیں آپ نے کہا کہ میں بھی خندق کھودوں گا۔ خندق کھودنا شروع ہوگئے باھر بھی دشمن اور کھانے پینے کا سامان بھی کم لوگ بھوکے بھی تھے اور خندق بھی کھودنی تھی۔ لوگوں نے پیٹ سے پتھر باندھے ہوئے تھے ۔ رسول اکرم نے بھی شکم سے پتھر باندہا ہوا تھا۔ خندق کھودتے ہوئے ایک پتھر پر پھنچے اور اس کو نکال نہیں سکتے تھے نبی اکمر کے پاس آئے کی پتھر نکالنے میں دشواری ہے ایک پتھر ہے ہم بیجان ہوگئے۔ پتھر نکل جا، کوئی دعا نہین پڑی انھوں نے کھدال ماری۔ کام ہونا ہے جبرائیل نہیں آئیگا۔ پتھر نہیں ٹوٹا مگر چنگاریان نکلی۔ اس زمانے میں ایران اور روم دو سپر پاور تھے۔ نبی کرم نے پہلئ چنگاریوں پر فرمایہ کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں ایران فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں، دوبارہ کھدال مارا چنگاریاں نکلیں تو آپ نے کہا کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں روم فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں،تیسرا کھدال مارا پتھر ٹوٹ گیا۔ آپ اپنا مقدر علیحدہ نہ کریں۔ ڈوبنا ہے تو ساتھ ڈوبیں لڑنا ہے تو ساتھ لڑیں۔ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر خرابی ہے تو یہاں پر ٹکو۔ پبلک جھیل رہی ہے تو آپ بھی جھیلیں۔ کراشی م یں سیکیورٹی نہیں ہے تو میں اس کا حل یہ نکالوں کہ سوئزرلینڈ چلا جائوں پھر میں کراچی کیلئے کچھ کر سکوں گا۔ اگر لوگ تیں دن گھر میں محصور ہیں تو میں بھی نہ نکلوں۔ آپ مقدر کو الگ نہ کریں آپ کی ملکیت اور پراپرٹی باہر ہو اور آپ پبلک کو کہیں کہ آپ کا ساتھ دے یہ نہیں ہوگا۔ ساتھ اس وقت دنیا ہے جنب آپ مصیبت میں ہیں تو مین بھی مصیبت میں رہون۔
اللہ کے رسول مکہ سے مدینہ آئے تو سب کو ساتھ لے کر آئے جب بھی کوئی مصیبت پڑی اپنے اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا سب سے بڑا معرکہ مباہلہ کا میدان تھا جس میں انہوں نے خود کو اور ایل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا۔ نبی اکرم ان کو لے کر آئے اگر خدانخواستی کچھ ہو جا تا تو نبی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خچرناک جگہ پر ان کو لے کر آئے جو نبی کی کل کائنات تھی۔ نبی کی نسل، خاندان دولت اور جو کچھ تھا یہی تھا۔ میان خطر میں کود پڑے یہ ٹعم ورک ہے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ساتھ چلیں انہوں نے کہا کہ ہم جائیں گے۔ حتی الامکان کاموں کو خود کرنے کی کوشش کریں۔
کامیابی کا ٹرائی اینگل کیا ہو؟ اعتماد جو سچائی سے پیدا ہوگا، منصوبہ اور ٹیم ورک۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹیم خودسازی سے بنتی ہے۔ اپنی نمائش کریں گے تو ٹیم نہیں بنے گی؟ اپنے آپ کو پل بنائیں اپنے آپ کو ستوں قرار نہ دیں۔ اگر لیڈر کہتا ہے کہ میں اونچا نظر آئوں تو یہ رکاوٹ ہے۔ لیڈر وہ ہے جو اپنے آپ کو بچھائے ۔
۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کام کیا ہے پرخلوص اگر منصوبہ یہ بنایا ہے کہ آخر میں جاکر آپ کو اتنی دولت ملنی ہے تو یہ منصوبہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو بنانا ہے تو بے لوث منصوبہ بنائیں۔ ٹیم کس لیے بنائیں گے اس لئے نہیں کہ آپ کہیں کہ میری ٹیم میں 5 ہزار لوگ ہیں بلکہ اس لیئ کہ آٌپ بچھ جائیں تو یہ کھڑے ہوجائیں۔ آپ کے پاس خلوص ہے تو کامیابی ہے۔ خلوص کسے کہتے ہیں کاموں کو اللہ کیلئے انجام دینا۔ اس کا مثال یہ ہے کہ اگر بینر پر میرے لئے لکھے ہوئے جملے پڑہ کر مجھے خوشی ہوئی ہے تو یہ خلوص نہیں ہے۔ خلوص اس وقت ہو جب آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ آپ کو کیا ملنا ہے۔
ہم لوگوں کیساتھ خرابی یہ ہے کہ ہم میں خلوص کی کمی ہے اور ہم نے بے خلوص لوگوں کو دل پر بٹھا دیا ہے۔ یہ ہم نے گڑبڑ کی ہے ہم کو پتا ہے کہ یہ پرخلوص نہیں ہے پھر بھی ہم نے سر پر بٹھا دیا یے۔
آیت اللہ اشتھاردی جو میرے استاد تھے اور بڑے نفیس انسان تھے ان کا واقعہ ہے کہ خلوص کی انتھا بتاتا ہوں۔ واقعہ مشھد مقدس کا ہے وہ طالبعلم تھے تو ایک عورت نے اس کو کہا کہ میرے گائوں مجلس پڑہنے آئوگے؟ میں نے کہا کہ میں چلا آئوں گا۔ اس کا گائوں بہت دور تھا میں مصیبتیں جھیلتا ہوا اس طرف گئے میں اس گائوں میں پہنچا تو مجھے پروگرام کے آثار بہت کم نظر آئے۔ ہم اتنی دور سے آئے کوئی شامیانہ بھی نہیں لگا ہوا تھا لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرف گئی۔ میں اس کے گھر پھنچا۔ اس نے اپنے گھر میں بٹھایا اور کہا کہ مجلس شروع کریں میں نے کہا کہ اور لوگ کب آئیں گے اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے میں ہوں تم مجلس پڑہو۔ میں ایک عورت کیلئے مجلس پڑہوں میں نے ایک سامع کے خاطر مجلس پڑہی میں نے مصائب بھی پڑہے اس عورت نے خوب گریہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ایک کام کردیا اس نے پیسے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا فلاں تاریخ کو پھر آنا۔ پیسے بھی اتنے تھے کہ کرایہ ہی مشکل سے پورا ہوا۔ اس عورت نے کہا کہ دوبارہ بھی آنا جب وہ تاریخ آئی تو میں نے سوچا کہ اس ایک عورت کیلئے اتنا دور جائیں اس کو کہیں گے کہ وہ مشھد آجائے میں اس کو ادہر ہی سنادوں گا۔ میں نہیں گیا میں نے حرم کی زیارت کی پھر واپس آیا تو لیٹا خواب میں سید الشھدا ع آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ہماری مجلس میں بھی نہیں جاتے ہو؟ ۔ یہ ان کی توفیق تھی کہ سید الشھدا ان کے خواب میں آئے ہم غلطی کریں گے تو سید الشھدا ہمارے خواب میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ سید الشھدا اس مجلس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میں بیدار ہوااور سفر طئی کرتا ہوا استغفار کرتا ہوا اس کے گھر میں گیا وہ رو رہی تھی جب تک ڈانٹ نہیں پڑی آئے نہیں نا یہ بڑہیا کا خلوص ہے اگر سید الشھدا کو عزیز نہیں ہوتی تو سید الشھدا خواب میں نہیں آتے۔ ہم نے غلطی کیا کی ہے کہ بے خلوص لوگوں کو سید الشھدا کے منبر پر بٹھایا ہے اگر ہم بے خلوص کو منبر پر بٹھائیں گے تو ہم کو خلوص ملے گا؟ انسان غلطی کرے تو خدا معاف کرنے والا ہے ہم جان بوجھ کر غلطیاں کریں تو پھر؟؟؟ہم جان بوجھ کر غلطی کروں خدا کے حکم کو اہمیت نہ دوں پھر جو وہ چاہ ریے ہیں وہ نہیں ہوگا باقی سب کچھ ہو جائیگا۔ جو اصل میں ہونا تھا وہ نہیں ہوگا۔ سمندر کے نمکین پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی؟ پانی پئیں گے مگر پیاس نہیں جائے گئ۔ آپ خدا کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کریں اور کہیں کہ یہ ہوجائے وہ نہیں ہونے والا ہے۔ اثر نہین آئے گا لوگ تبدیل نہیں ہونگے۔ نافرمانی جان بوجھ کر کی ہے لوگ اللہ کے راستے پر نہیں آئیںگے۔ جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کریں۔ ایک بندہ فجر کی نماز نہیں پڑہ پاتا خدا اس کو معاف کرے گا مگر ہم جان بوجھ کر نماز فجر ادا نہ کریں خدا معاف کرے گا۔ طئی کر کے سویا کہ نہیں اٹھوں گا اب سزا ملے گی۔ آپ طئی کر کے نافرمانی اور گناہ نہ کریں۔ آپ طئی کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں کہ فحاشہ دیکھیں گے اب تو سزا ملے گی۔ سزا کیا ملے گی جو آپ کے نزدیک عزیز تھا وہ دور ہوجائیگا۔ آپ ٹی وی، فحاشہ اور میوزک مزے لینے کیلئے کر رہے تھے تو یہ دنیا آپ کو نہین ملے گی۔ میں نے کل لاڑکانہ میں ارض کیا تھا کہ ہم کو سیلاب کیوجہ سے آئی ڈی پیز نظر آ رہے ہیں جن کی حالت خراب ہے ان کی حالت پہلے بھی بھتر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں دو کروڑ آئی ڈی پیز نہیں ہیں کم از کم آٹھ دس کروڑ آئی ڈی پیز ہیں کچھ ابھی ہوئے ہیں اور کچھ پہلے سے چل رہے ہیں۔
اب بھی صحی نہیں کرنا اب پھر بھی فحاشہ دیکھیں گے چلو لگے رہو۔ اتنے سال 50 سال سے کرپشن ہو رہئ ہے کیا اس کے کچھ ملے گا؟ اس سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر کرپشن سے کچھ ملنا ہے تو اگلے پچاس برس اور کرپشن کرو اگر تھک گئے ہو تو اللہ کے دین پر واپس آئو۔ اگر مایوس ہوگئے ہو تو واپس آجائو۔ ظہور بھی اس طرح ہوگا ۔ جب ہم کو ظلم سے امید ہے کہ کچھ ملنے والا ہے تو عدل محض تشریف نہیں لائیں گے جب ہم سمجھ لیں کہ ظلم سے کچھ نہیں ملنے والا سب کچھ عدل سے ملے گا در اہلبیت سے ملے گا تو پھر امام کا ظھور ہوگا۔
لب لباب یہ ہوا کہ تقریر ختم ہونے کے بعد 80 فیصد باتیں لوگ بھول جاتے ہیں ہم دس منٹ میں نوی فیصد بھول جائیں گے۔ ریکاردنگ پڑی رہتی ہیں کوئی دوبارہ نہیں دیکھتا ہے آپ دیکھیں گے اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کچھ اور لوگ دیکھ لیں گے۔ نوابشاہ میں عید غدیر کا پروگرام تھا جس میں پچیس یا تیس لوگ تھے ہم نے اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اب دیکھتے ہیں کہ ناس کے دیکھنے والے کئی ہزار ہیں۔ لوگ بھول جائیں گے۔ آخر میں اس کو دوبارہ دہراتے ہیں تا کہ رہ جائیں واقعات رہ جاتے ہیں مفھوم نکل جاتا ہے۔ مفھوم پر اصرار کرتے ہیں مفھوم کو تصویر میں لے کر آئیں۔ معقول کو محسوس میں لے کر آئیں تو باقی رہے گا۔
میں نے معقول کو محسوس میں رکھا تھا ایک ٹرائی اینگل ہے جس کے ایک کونہ پر اعتماد، دوسرے پر منصوبہ اور تیسرے کونے پر ٹیم ورک ہے جس کو ہم نے ایک دائرہ میں رکھا ہے دائرہ اخلاص ہے۔ میں نے پل بننا ہے جس سے پر سے لوگوں نے گذرنا ہے آپ نے ستون نہیں بننا ہے۔ معاشرہ کیلئے کام کرنا ہے تو جھیلنا بہت پڑے گا۔ اگر صحی کرتا ہے تو پھر بھی جھیلنا پڑے گا اگر غلط کرتا ہے تو پھر زیادہ جھیلنا پڑے گا۔ پرخلوص ہونا ضروری ہے۔ جس چیز میں جان بوجھ کر نافرمانی کریں گے وہ آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔ نیند کیلئے نماز کو چھوڑا تو اچھی نیند نہیں ملے گی آپ نے خدا کو چھوڑا ہے۔
93:04
|
KHAMSA MAJALIS AT MASOMIN PS BADAH | KARBALA KI TAREEKH AUR BOOKS | SYED HUSSAIN MOOSAVI | SINDHI
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم...
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و...
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
More...
Description:
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
51:51
|
Majlis Aza 1443Hijri I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I DokriI Sindhi
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ...
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔مجالس عزا درسگاہ امام حسین ع ہیں جس میں ہر انسان کس آنے کی دعوت ہے جس کی دل، روح اور فطرت سلامت ہے۔ ان مجالس سے اہلبیت کے مذہب، سوچ اور فکر کا بیان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری مجالس میں سننے والا مزا لینے اور سنانے والا مزا دینے والا ہے۔
لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں خوشی تلاش کرنے کیلئے مگر یہ قوم پیسہ خرچ کر کے غم تلاش کرتے ہیں۔
اپنا ذاتی غم چھپانے کا حکم ہے مگر غم حسین کے اظہارِ کا حکم ہے
اصول کافی سے بھی پرانی کتاب کامل الزیارات میں ہے کہ ہر طرح کی بے صبری، اہ و زاری مکروہ ہے سوائے اس آ ہ و زاری کیلئے جو امام حسین کیلئے ہے ہو وہ پسندیدہ ہے
غم حسین ذات کا نہیں بلکہ دین کا غم ہے۔ اپنا غم ہو تو بھی غم حسین کو یاد کریں۔ غم حسین پہیلانے کا فائدہ ہے انسان کا دل مظلوم سے محبت کرتا ہے اور ظالم سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا کو مظلومیت اہلبیت بتائیں گے تو ان کے اندر امام حسین ع کی محبت پئدا ہوگی۔
جب انسان اہلبیت کے دروازے پر ایا تو اس کی دین و دنیا روشن ہوگی۔
عزاداری حسینی قبیلہ بناتی ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں۔غم حسین انسانوں کو دیندار بناتا ہے۔عزادری نہ ہوتی تو دینداری نہیں ہوتی
کربلا انسانوں کو دین و ایمان دیتی ہے۔مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ذرائع وسیلہ ہیں۔
نماز سے اللہ پاک کی یاد مطلوب ہے۔ سورہ طہ جسے سورہ محبت بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے کہ نماز قائم کروتاکہ تم میں یاد رکھوں۔اللہ کی یاد کیلئے نماز ہے مطلوب یاد خدا ہے
نمازی نہیں بلکہ بندہ بننے کی دعا کریں۔ روزہ صبر و شکر کیلئے ہے۔
روزہ کے ذریعے صبر مطلوب ہے۔ اللہ پاک نے عبادات کسی ہدف کیلئے رکھی ہیں۔ زکوات اسلئے ہے کہ مال کی محبت کم ہو اور دولت اللہ کی امانت ہے۔ جو زکوات اللہ کی محبت نہ دے وہ ایڈورٹائزمنٹ ہے۔
جس طرح سب عبادات بامقصد ہیں اس طرح عزاداری کا بھی مقصد ہے۔عزاداری کے تین مقاصد ہیں۔ امام حسین کے غم کا اظہار۔ دوم مقصد امام حسین کا بیان۔ سوم کربلا کا بیان۔کربلا مجاہد تیار کرتی ہے۔
امام حسین کے غم میں اپنے غم کا اظہار کریں غم حسین کے اظہار سے اللہ کی محبت ائیگی۔ غم کیلئے اختیاری اور اضطراری ہے تو بھی کریں۔
مقصد امام حسین بیان کرنے کیلئے نعرہ، بینر، شعر بیان کریں۔ مقصد امام بیان کرنا عزاداری ہے۔ عزادار کربلا کا مبلغ ہے۔ ہر عزادار مقصد امام حسین دنیا تک پہنچائے۔ کم کربلا کا پیغام چاردیواری میں انے والوں کیلئے بھی دیتے ہیں اور چاردیواری سے باہر نہ انے والوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ عزادار گشتی مبلغ ہے۔
کربلا بیان ہوگی تو کیا ہوگا۔ کربلا دینی غیرت کیلئے پاور ہائوس ہے کربلا زمین پر گرے ہوئے انسان کو ظالم کیخلاف لڑنے کی قوت دیتی ہے۔ مجاہد کربلا تیار کرتی ہے۔ علی اصغر کربلا مجاہد اعظم ہے۔ کربلا ظالم اور وقت کے یزید کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ظلم کیخلاف لڑنے کی قوت کربلا و امام حسین نے دی۔
بدقسمتی سے خطیبوں نے کربلا کو دکان بنادیا ہے۔ خطیب ایمان بیچ دہے ہیں۔ خطیبوں کی بنائی ہوئی کربلا مجاہد نہیں بلکہ رلانے والے پیدا کرتی ہے۔جھوٹی کربلا سلائے گی اصل کربلا بیداری دے گی۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کے صدقے میں ابراہیم کو امامت ملی ہے۔
اے ابراہیم تم کو اپنی جان پیاری ہے یا محبوب مصطفیٰ زیادہ پیارے ہیں۔
تجھے اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے یا محبوب مصطفی کا بیٹا زیادہ پیارا ہے
تجھے اسماعیل ذبح ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی یا مصطفیٰ کا حسین ذبع ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی۔
اللہ پاک نے ابراہیم ع کو بعد میں ہونے والی کربلا دکھائی۔ کربلا کا منظر دیکھنے کے بعد تین دن تک حضرت ابراہیم حزن وغم میں رہنے کے بعد اللہ نے کہا کہ تم کو انسانوں کا امام بنایا۔
ابراہیم ع نے چھری چلائی تو ہاتھ نہیں کانپا ابراہیم بیٹا دیتے وقت اتنا طاقتور اور برداشت والا ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو فخر ابراہیم ہیں اپنا بیٹا دے گا تو گرے گا نہیں۔ امام حسین کو کمزور و لاچار دکھایا جاتا ہے امام حسین ع لاچار نہیں تھے انہوں نے مصیبتیں
جھوٹے مصائب دینی غیرت ختم کرتے ہیں۔ خطیب کی کربلا کا مقصد رلانا ہے جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔
حسینی وکربلائی موت سے نہیں ڈرتے۔ خطیب کی کربلا اور ہے اور امام حسین کی کربلا اور ہے۔
امام حسین دوسروں کو ابھارنے اور جلا بخشنے والا ہے۔
بحار الانوار پڑہیں۔ جنہوں نے اصل کربلا سے سبق سیکھا وہ حزب اللہ ہے جس سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
اصل کربلا بیان کرنا عزادار کی ذمیداری ہے۔ ہماری زبان صرف حسین کی ہو۔
ہمارے پاس کربلا عاشورہ پر ختم ہوتی ہے مگر کربلا تو عاشورہ سے شروع ہوتی ہے۔ زمین کی کر بلا امام حسین نے بنائی جبکہ دنیا کی کربلا زینب س نے بنائی۔عاشور تک حسین پھر سارا سال زینب ہے۔ سیدہ زینب کسی مقام پر نہیں گھبرائی بلکہ علیہ السلام کے لھجے میں یزید و ابن زیاد کو للکارا۔
کربلا کے 72 شہدا کی کوشش دین بھی بچے اور امام بھی بچے 72 نے جہاد کیا دین بچایا امام نہیں بچا سکے۔ حسین کی بہن نے دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ 72 کا کارنامہ ایک طرف سیدہ کا کارنامہ دوسری طرف۔
72 کا مقابلہ ابن زیاد اور یزید کے لشکر سے تھا۔ سیدہ زینب نے بندہے ہاتھوں سے قیدی ہوکر یزید اور ابن زیاد کا مقابلہ کیا اور دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ ہم سب سیدہ زینب کا صدقہ ہیں۔
السلام علیک یا اباعبداللہ
السلام علیک یا زینب الکبریٰ
ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان۔
سید حسین موسوی کی مجلس سے انتخاب
14 Comments
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
More...
Description:
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔مجالس عزا درسگاہ امام حسین ع ہیں جس میں ہر انسان کس آنے کی دعوت ہے جس کی دل، روح اور فطرت سلامت ہے۔ ان مجالس سے اہلبیت کے مذہب، سوچ اور فکر کا بیان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری مجالس میں سننے والا مزا لینے اور سنانے والا مزا دینے والا ہے۔
لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں خوشی تلاش کرنے کیلئے مگر یہ قوم پیسہ خرچ کر کے غم تلاش کرتے ہیں۔
اپنا ذاتی غم چھپانے کا حکم ہے مگر غم حسین کے اظہارِ کا حکم ہے
اصول کافی سے بھی پرانی کتاب کامل الزیارات میں ہے کہ ہر طرح کی بے صبری، اہ و زاری مکروہ ہے سوائے اس آ ہ و زاری کیلئے جو امام حسین کیلئے ہے ہو وہ پسندیدہ ہے
غم حسین ذات کا نہیں بلکہ دین کا غم ہے۔ اپنا غم ہو تو بھی غم حسین کو یاد کریں۔ غم حسین پہیلانے کا فائدہ ہے انسان کا دل مظلوم سے محبت کرتا ہے اور ظالم سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا کو مظلومیت اہلبیت بتائیں گے تو ان کے اندر امام حسین ع کی محبت پئدا ہوگی۔
جب انسان اہلبیت کے دروازے پر ایا تو اس کی دین و دنیا روشن ہوگی۔
عزاداری حسینی قبیلہ بناتی ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں۔غم حسین انسانوں کو دیندار بناتا ہے۔عزادری نہ ہوتی تو دینداری نہیں ہوتی
کربلا انسانوں کو دین و ایمان دیتی ہے۔مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ذرائع وسیلہ ہیں۔
نماز سے اللہ پاک کی یاد مطلوب ہے۔ سورہ طہ جسے سورہ محبت بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے کہ نماز قائم کروتاکہ تم میں یاد رکھوں۔اللہ کی یاد کیلئے نماز ہے مطلوب یاد خدا ہے
نمازی نہیں بلکہ بندہ بننے کی دعا کریں۔ روزہ صبر و شکر کیلئے ہے۔
روزہ کے ذریعے صبر مطلوب ہے۔ اللہ پاک نے عبادات کسی ہدف کیلئے رکھی ہیں۔ زکوات اسلئے ہے کہ مال کی محبت کم ہو اور دولت اللہ کی امانت ہے۔ جو زکوات اللہ کی محبت نہ دے وہ ایڈورٹائزمنٹ ہے۔
جس طرح سب عبادات بامقصد ہیں اس طرح عزاداری کا بھی مقصد ہے۔عزاداری کے تین مقاصد ہیں۔ امام حسین کے غم کا اظہار۔ دوم مقصد امام حسین کا بیان۔ سوم کربلا کا بیان۔کربلا مجاہد تیار کرتی ہے۔
امام حسین کے غم میں اپنے غم کا اظہار کریں غم حسین کے اظہار سے اللہ کی محبت ائیگی۔ غم کیلئے اختیاری اور اضطراری ہے تو بھی کریں۔
مقصد امام حسین بیان کرنے کیلئے نعرہ، بینر، شعر بیان کریں۔ مقصد امام بیان کرنا عزاداری ہے۔ عزادار کربلا کا مبلغ ہے۔ ہر عزادار مقصد امام حسین دنیا تک پہنچائے۔ کم کربلا کا پیغام چاردیواری میں انے والوں کیلئے بھی دیتے ہیں اور چاردیواری سے باہر نہ انے والوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ عزادار گشتی مبلغ ہے۔
کربلا بیان ہوگی تو کیا ہوگا۔ کربلا دینی غیرت کیلئے پاور ہائوس ہے کربلا زمین پر گرے ہوئے انسان کو ظالم کیخلاف لڑنے کی قوت دیتی ہے۔ مجاہد کربلا تیار کرتی ہے۔ علی اصغر کربلا مجاہد اعظم ہے۔ کربلا ظالم اور وقت کے یزید کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ظلم کیخلاف لڑنے کی قوت کربلا و امام حسین نے دی۔
بدقسمتی سے خطیبوں نے کربلا کو دکان بنادیا ہے۔ خطیب ایمان بیچ دہے ہیں۔ خطیبوں کی بنائی ہوئی کربلا مجاہد نہیں بلکہ رلانے والے پیدا کرتی ہے۔جھوٹی کربلا سلائے گی اصل کربلا بیداری دے گی۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کے صدقے میں ابراہیم کو امامت ملی ہے۔
اے ابراہیم تم کو اپنی جان پیاری ہے یا محبوب مصطفیٰ زیادہ پیارے ہیں۔
تجھے اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے یا محبوب مصطفی کا بیٹا زیادہ پیارا ہے
تجھے اسماعیل ذبح ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی یا مصطفیٰ کا حسین ذبع ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی۔
اللہ پاک نے ابراہیم ع کو بعد میں ہونے والی کربلا دکھائی۔ کربلا کا منظر دیکھنے کے بعد تین دن تک حضرت ابراہیم حزن وغم میں رہنے کے بعد اللہ نے کہا کہ تم کو انسانوں کا امام بنایا۔
ابراہیم ع نے چھری چلائی تو ہاتھ نہیں کانپا ابراہیم بیٹا دیتے وقت اتنا طاقتور اور برداشت والا ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو فخر ابراہیم ہیں اپنا بیٹا دے گا تو گرے گا نہیں۔ امام حسین کو کمزور و لاچار دکھایا جاتا ہے امام حسین ع لاچار نہیں تھے انہوں نے مصیبتیں
جھوٹے مصائب دینی غیرت ختم کرتے ہیں۔ خطیب کی کربلا کا مقصد رلانا ہے جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔
حسینی وکربلائی موت سے نہیں ڈرتے۔ خطیب کی کربلا اور ہے اور امام حسین کی کربلا اور ہے۔
امام حسین دوسروں کو ابھارنے اور جلا بخشنے والا ہے۔
بحار الانوار پڑہیں۔ جنہوں نے اصل کربلا سے سبق سیکھا وہ حزب اللہ ہے جس سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
اصل کربلا بیان کرنا عزادار کی ذمیداری ہے۔ ہماری زبان صرف حسین کی ہو۔
ہمارے پاس کربلا عاشورہ پر ختم ہوتی ہے مگر کربلا تو عاشورہ سے شروع ہوتی ہے۔ زمین کی کر بلا امام حسین نے بنائی جبکہ دنیا کی کربلا زینب س نے بنائی۔عاشور تک حسین پھر سارا سال زینب ہے۔ سیدہ زینب کسی مقام پر نہیں گھبرائی بلکہ علیہ السلام کے لھجے میں یزید و ابن زیاد کو للکارا۔
کربلا کے 72 شہدا کی کوشش دین بھی بچے اور امام بھی بچے 72 نے جہاد کیا دین بچایا امام نہیں بچا سکے۔ حسین کی بہن نے دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ 72 کا کارنامہ ایک طرف سیدہ کا کارنامہ دوسری طرف۔
72 کا مقابلہ ابن زیاد اور یزید کے لشکر سے تھا۔ سیدہ زینب نے بندہے ہاتھوں سے قیدی ہوکر یزید اور ابن زیاد کا مقابلہ کیا اور دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ ہم سب سیدہ زینب کا صدقہ ہیں۔
السلام علیک یا اباعبداللہ
السلام علیک یا زینب الکبریٰ
ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان۔
سید حسین موسوی کی مجلس سے انتخاب
14 Comments
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
18:21
|
[Clip] Imam Zamana (ajf) ke Nasir kon hain | Molana Ali Murtaza Zaidi | Urdu
اکستان میں نئی حکومت بنی ہے سب لوگ نیا نیا کی کہ کرتے ہیں مگر اپنے اندر سے اچھا ہونے کی بات نہیں کرتے۔ جو امام...
اکستان میں نئی حکومت بنی ہے سب لوگ نیا نیا کی کہ کرتے ہیں مگر اپنے اندر سے اچھا ہونے کی بات نہیں کرتے۔ جو امام پوری دنیا پر عدل کی حکومت ہوگی مگر وہ ظالم سے مدد نہ لیں گے۔
زمین پر عدل پہیلانے کا وارث ظالم سے مدد نہیں لے گا۔ ہر وہ چیز جو سمجھ رہے ہیں اس ظلم سے لڑیں اندر کے ظلم سے بھی اور باہر کے ظلم سے بھی۔
دنیا کی محبت، لالچ اور طمع ہے تو عدل نہیں کرسکتے۔
اللہ امام کی محبت کیوجہ سے لوگوں کے دلوں کو بے نیاز کر دے گا۔ دنیا میں رہیں مگر دنیا کیلئے نہ رہیں۔
دعائے مکارم الاخلاق کی اسٹڈی کریں۔ دعائیں مانگیں۔
مولانا ایک تعویذ دے دیں۔ زمین پر سوشل جسٹس کی باتیں۔
اگر میں ماں کی عزت نہیں کروں تو کوئی تعویذ کام کرے گا۔ حرض۔ اور تعویذ کام آتے ہیں پہلے عمل کریں۔
دلوں میں بے نیازی ہو۔ دنیا کیلئے حریص نہ ہوں۔ کام کرو، بزنس کرو خوب کمائو اللہ کیلئے خرچ کریں۔
ہم نے اللہ کو مالک نہیں سمجھا خود کو مالک سمجھا ہوا ہے
توحید کو اور مالکیت کو سمجھو، دنیا پرستی نکالو، قربانی کریں۔ ہمارے پاس ہر چیئرٹی کے پیچھے بینر ہیں۔ روح کو زندگی دیں۔ اپنے اندر بے نیازی لائیں اور اللہ کے فقیر بن جائیں
اللہ جب تک ژندہ رکھ ان کاموں کیلئے جن کیلئے تم نے بنایا تھا
میرا ابجیکٹو شہرت نہیں بلکہ دین کو بیان کرنا۔
خدا جب زندگی شیطان کی چراگاہ بن جائے اور شیطان کو فیڈنگ ہو رہی ہے تو خاتمہ کردے۔
ہم نے منبر کو پرفارمینس دکھانے کا اسٹیج بنا دیا ہے۔
ان آبجیکٹو پر کام کروں جن کیلئے پیدا کیا ہے۔
غنا اور بے نیازی ہوگی تو امام کی نصرت کریں گے۔ دنیا کی چیزیں ہم کو لالچ میں نہ ڈالیں۔
More...
Description:
اکستان میں نئی حکومت بنی ہے سب لوگ نیا نیا کی کہ کرتے ہیں مگر اپنے اندر سے اچھا ہونے کی بات نہیں کرتے۔ جو امام پوری دنیا پر عدل کی حکومت ہوگی مگر وہ ظالم سے مدد نہ لیں گے۔
زمین پر عدل پہیلانے کا وارث ظالم سے مدد نہیں لے گا۔ ہر وہ چیز جو سمجھ رہے ہیں اس ظلم سے لڑیں اندر کے ظلم سے بھی اور باہر کے ظلم سے بھی۔
دنیا کی محبت، لالچ اور طمع ہے تو عدل نہیں کرسکتے۔
اللہ امام کی محبت کیوجہ سے لوگوں کے دلوں کو بے نیاز کر دے گا۔ دنیا میں رہیں مگر دنیا کیلئے نہ رہیں۔
دعائے مکارم الاخلاق کی اسٹڈی کریں۔ دعائیں مانگیں۔
مولانا ایک تعویذ دے دیں۔ زمین پر سوشل جسٹس کی باتیں۔
اگر میں ماں کی عزت نہیں کروں تو کوئی تعویذ کام کرے گا۔ حرض۔ اور تعویذ کام آتے ہیں پہلے عمل کریں۔
دلوں میں بے نیازی ہو۔ دنیا کیلئے حریص نہ ہوں۔ کام کرو، بزنس کرو خوب کمائو اللہ کیلئے خرچ کریں۔
ہم نے اللہ کو مالک نہیں سمجھا خود کو مالک سمجھا ہوا ہے
توحید کو اور مالکیت کو سمجھو، دنیا پرستی نکالو، قربانی کریں۔ ہمارے پاس ہر چیئرٹی کے پیچھے بینر ہیں۔ روح کو زندگی دیں۔ اپنے اندر بے نیازی لائیں اور اللہ کے فقیر بن جائیں
اللہ جب تک ژندہ رکھ ان کاموں کیلئے جن کیلئے تم نے بنایا تھا
میرا ابجیکٹو شہرت نہیں بلکہ دین کو بیان کرنا۔
خدا جب زندگی شیطان کی چراگاہ بن جائے اور شیطان کو فیڈنگ ہو رہی ہے تو خاتمہ کردے۔
ہم نے منبر کو پرفارمینس دکھانے کا اسٹیج بنا دیا ہے۔
ان آبجیکٹو پر کام کروں جن کیلئے پیدا کیا ہے۔
غنا اور بے نیازی ہوگی تو امام کی نصرت کریں گے۔ دنیا کی چیزیں ہم کو لالچ میں نہ ڈالیں۔
5:05
|
ہم کشتی بنا رہے ہیں! | استاد علی رضا پناہیان | Farsi Sub Urdu
قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب نہیں مگر اس کے باوجود گزشتہ انبیاء علیہم السّلام اور ان کی امتوں کی تاریخی...
قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب نہیں مگر اس کے باوجود گزشتہ انبیاء علیہم السّلام اور ان کی امتوں کی تاریخی داستانوں کی جانب اشارہ ہوا ہے تاکہ ہر دور میں انسان، سابقہ امتوں کی داستانوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو عقلی نہج پر سنوارنے کی کوشش کرتا رہے، چنانچہ انہی قرآنی داستانوں میں ایک اہم داستان، حضرت نوح علیہ السّلام کی ہے جس کا نمایاں پہلو کشتی کی تعمیر پر مشتمل ہے، حضرت نوحؑ اللہ کے حکم کے مطابق بظاہر ایک کشتی جبکہ حقیقت میں ایک نئی دنیا بنا رہے تھے اور مذاق اڑانے والوں نے اس نئی دنیا میں ہونا ہی نہیں تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی نجات کی کشتیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا مگر ان کی نوعیت اور شکلیں بدلتی رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں عصائے موسیٰؑ، کشتی نجات کا حکم رکھتا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں دَمِ عیسی علیہ السلام! اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور آج کے دور میں بھی نجات کی ایک کشتی بن رہی ہے مگر اس کے بارے میں سوال یہ ہے کہ وہ کشتی کس نوعیت کی ہے؟ امام صادقؑ نے موجودہ کشتی کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ اس میں کون سے لوگ سوار ہوں گے؟ چنانچہ ان اہم سوالات کے جوابات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے استاد علی رضا پناہیان کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #علی_رضا_پناہیان #کشتی #حضرت_نوح #ایران #جہاد_تبیین #انحراف #تمدن_جدید #حاج_قاسم #یمن #غالب #معجزہ #عقل #جمہوریت #مقاومت #سازش
More...
Description:
قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب نہیں مگر اس کے باوجود گزشتہ انبیاء علیہم السّلام اور ان کی امتوں کی تاریخی داستانوں کی جانب اشارہ ہوا ہے تاکہ ہر دور میں انسان، سابقہ امتوں کی داستانوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو عقلی نہج پر سنوارنے کی کوشش کرتا رہے، چنانچہ انہی قرآنی داستانوں میں ایک اہم داستان، حضرت نوح علیہ السّلام کی ہے جس کا نمایاں پہلو کشتی کی تعمیر پر مشتمل ہے، حضرت نوحؑ اللہ کے حکم کے مطابق بظاہر ایک کشتی جبکہ حقیقت میں ایک نئی دنیا بنا رہے تھے اور مذاق اڑانے والوں نے اس نئی دنیا میں ہونا ہی نہیں تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی نجات کی کشتیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا مگر ان کی نوعیت اور شکلیں بدلتی رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں عصائے موسیٰؑ، کشتی نجات کا حکم رکھتا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں دَمِ عیسی علیہ السلام! اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور آج کے دور میں بھی نجات کی ایک کشتی بن رہی ہے مگر اس کے بارے میں سوال یہ ہے کہ وہ کشتی کس نوعیت کی ہے؟ امام صادقؑ نے موجودہ کشتی کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ اس میں کون سے لوگ سوار ہوں گے؟ چنانچہ ان اہم سوالات کے جوابات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے استاد علی رضا پناہیان کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #علی_رضا_پناہیان #کشتی #حضرت_نوح #ایران #جہاد_تبیین #انحراف #تمدن_جدید #حاج_قاسم #یمن #غالب #معجزہ #عقل #جمہوریت #مقاومت #سازش
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
keshty,
Kashti,
Ali
Reza
Panahian,
Quran,
Tarikh,
Nabi,
Dastan,
Insan,
Hazrat
Noh,
Hazrat
Noah,
Haqiqat,
Nejat,
Hazrat
Musa,
Hazrat
Isa,
Imam,
Imam
Sadiq,
Iran,
Jihad
Tabyin,
Tamadduan,
Haj
Qasim,
Yemen,
Jumhuri,
Muqavemat,
Sazesh,
کشتی,
استاد,
استاد
علی
رضا
پناہیان,
علی
رضا
پناہیان,
استاد
پناہیان,
4:51
|
علیؑ ولی اللہ | منقبت | Farsi Sub Urdu
امام علیؑ، اللہ کی سب سے عظیم نعمت ہیں۔ فضائل علیؑ کا احاطہ بشریت کے لیے ممکن نہیں مگر انسان مومن اپنے مولا ؑ...
امام علیؑ، اللہ کی سب سے عظیم نعمت ہیں۔ فضائل علیؑ کا احاطہ بشریت کے لیے ممکن نہیں مگر انسان مومن اپنے مولا ؑ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اگرچہ جس قدر بھی بیان ہو مگر کم ہے، مگر وِلا کا تقاضہ ہے کہ ہم انکے فضائل بیان کریں، انکی خوشیوں میں خوش اور انکے غموں میں غمزدہ ہوں۔ میلادِ مولا علیؑ کے پُرمسرت موقع پر گروہِ ہمخوانی نورالرضاؑ کی یہ ویڈیو دیکھیں۔
#ویڈیو #قصیدہ #منقبت #امام_علی #مولا_علی #مولود_کعبہ #ایمان #علی_ولی_اللہ
More...
Description:
امام علیؑ، اللہ کی سب سے عظیم نعمت ہیں۔ فضائل علیؑ کا احاطہ بشریت کے لیے ممکن نہیں مگر انسان مومن اپنے مولا ؑ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اگرچہ جس قدر بھی بیان ہو مگر کم ہے، مگر وِلا کا تقاضہ ہے کہ ہم انکے فضائل بیان کریں، انکی خوشیوں میں خوش اور انکے غموں میں غمزدہ ہوں۔ میلادِ مولا علیؑ کے پُرمسرت موقع پر گروہِ ہمخوانی نورالرضاؑ کی یہ ویڈیو دیکھیں۔
#ویڈیو #قصیدہ #منقبت #امام_علی #مولا_علی #مولود_کعبہ #ایمان #علی_ولی_اللہ
Video Tags:
Wilayat
Media,
Production,
Imam
Ali,
Wali
Allah,
Manqabat,
Nemat,
Fazael,
Bashariyat,
Insaan,
Muhabbat,
maula,
kaaba,
Imaan,
علی,
ولی
اللہ,
منقبت,
نعمت,
فضائل,
بشریت,
مومن,
محبت,
مولا,
Dec 7 2008 پيغام حج By Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei - Urdu
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
More...
Description:
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
Must Listen Beautiful Poetry on Imam e Rahil (RA) - Urdu
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان...
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان تھا
عالم اسلام خالص دین سے انجان تھا
آج ہی کے دور جیسے کم نہ تھے علما سو
جن کی نظروں میں خدا ایک قصرے عالی شان تھا
حج و زیارت کی دکانیں کھل رہیں تھی جا بجا
تھی زبانی الله ہو یہ دل مگر سنسان تھا
کربلا دل میں بسا ئی تھی مگر ایک شخصں نے
اوج پہ پوھنچا ہوا اس شخص کا عرفان تھا
اس زمانے میں اٹھا ایک نائب مہدی حق
جس زمانے میں زبان کا کھولنا نسیاں تھا
در بدر پھرتا نہی ہرگز غلام پنجتن
نہ ہی مشرق نا ہی مغرب نعرے مستان تھا
حق کی خاطر اٹھ گیا اور حق کی خاطر ڈٹ گیا
غیر معصومین میں عجب انسان تھا
نقش الاللہ جو ابھرا خمینی بت شکن
ہو گئی قائم ولایت خم کا جو اعلان تھا
سن چکی دنیا بوہت صامت قرآن اور صامت حدیث
وہ امام عصر کا ایک بولتا فرمان تھا
جانور صدام جیسے چھوڑے تھے طاغوت نے
سر پے ایک حضرت کا سایہ فتح کا عنوان تھا
ہم علی والے کبھی میدان سے بھاگے نہی
ویسا ہی لبنان نکلا جیسا کے ایران تھا
کس طرح ہوتے ہیں فائز آج دنیا دیکھ لے
جیب میں تھی سجدہ گھ اور ہاتھ میں قران تھا
اس لئے ائی مقابل فوج اسرائیل کی
فوج اسرائیل کو جانا جو قبرستان تھا
طالبانی ہاتھ پر ہے بے گناہوں کا لہو
ان کو اس پر فخر ہے کے جد ابو سفیان تھا
فتوے نے دیکھو الٹ دی رشدی کے رخ سے نقاب
لکھنے والا اس کتاب شر کا خود شیطان تھا
نام پر اسلام کے وہ دے گیا لاکھوں شہید
جان تو بچ جاتی لیکن دین کا نقصان تھا
روح زندہ ہو گئی رو ح اللہ کے اقدام سے
متقی زاہد مجاہد عالم زی شان تھا
More...
Description:
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان تھا
عالم اسلام خالص دین سے انجان تھا
آج ہی کے دور جیسے کم نہ تھے علما سو
جن کی نظروں میں خدا ایک قصرے عالی شان تھا
حج و زیارت کی دکانیں کھل رہیں تھی جا بجا
تھی زبانی الله ہو یہ دل مگر سنسان تھا
کربلا دل میں بسا ئی تھی مگر ایک شخصں نے
اوج پہ پوھنچا ہوا اس شخص کا عرفان تھا
اس زمانے میں اٹھا ایک نائب مہدی حق
جس زمانے میں زبان کا کھولنا نسیاں تھا
در بدر پھرتا نہی ہرگز غلام پنجتن
نہ ہی مشرق نا ہی مغرب نعرے مستان تھا
حق کی خاطر اٹھ گیا اور حق کی خاطر ڈٹ گیا
غیر معصومین میں عجب انسان تھا
نقش الاللہ جو ابھرا خمینی بت شکن
ہو گئی قائم ولایت خم کا جو اعلان تھا
سن چکی دنیا بوہت صامت قرآن اور صامت حدیث
وہ امام عصر کا ایک بولتا فرمان تھا
جانور صدام جیسے چھوڑے تھے طاغوت نے
سر پے ایک حضرت کا سایہ فتح کا عنوان تھا
ہم علی والے کبھی میدان سے بھاگے نہی
ویسا ہی لبنان نکلا جیسا کے ایران تھا
کس طرح ہوتے ہیں فائز آج دنیا دیکھ لے
جیب میں تھی سجدہ گھ اور ہاتھ میں قران تھا
اس لئے ائی مقابل فوج اسرائیل کی
فوج اسرائیل کو جانا جو قبرستان تھا
طالبانی ہاتھ پر ہے بے گناہوں کا لہو
ان کو اس پر فخر ہے کے جد ابو سفیان تھا
فتوے نے دیکھو الٹ دی رشدی کے رخ سے نقاب
لکھنے والا اس کتاب شر کا خود شیطان تھا
نام پر اسلام کے وہ دے گیا لاکھوں شہید
جان تو بچ جاتی لیکن دین کا نقصان تھا
روح زندہ ہو گئی رو ح اللہ کے اقدام سے
متقی زاہد مجاہد عالم زی شان تھا
5:22
|
سیدنا المظلوم سیدنا عطشان (نوحه دلنشین) محمود کریمی | فاطمیه 97
مداحی نوحه شهادت حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها:
تک شور: سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین عبد...
مداحی نوحه شهادت حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها:
تک شور: سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین عبد توام اگر ز کرم باورم کنی باصدای حاج محمود کریمی
شب اول ایام فاطمیه دوم جدید 1397 هیأت ثارالله مسجد امام الهادی تهران
Haj Mahmoud Karimi- Shahadat Hazrat Fatima Zahra Farsi Noha with Lyrics 2019
متن: سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین عبد توام اگر ز کرم باورم کنی پا بر سرم بنه که ز عالم سرم کنی عمری به زخم های تنت گریه کرده ام تا وقت مرگ، خنده به چشم ترم کنی سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین.. خار رهم، مگر به نگاه تو گل شوم خاک در توام، تو مگر گوهرم کنی یک عمر سائل در این خانه بوده ام حاشا که وقت مرگ، جدا زین درم کنی سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین... تنها شراب روح من از جام چشم توست چشمی گشا که مست از این ساغرم کنی یک عمر دوختم، به نگاه تو، چشم خویش تا یک نگاه، در نگه آخرم کنی سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین... از ذرّه کمترم، تو توانی به یک نگاه برتر ز آفتاب جهان پرورم کنی هرگز به جز در تو دری را نمی زنم ای وای اگر گدای در دیگرم کنی! ما از تو به غیر تو نداریم تمنا! حلوا به کسی ده، که محبت نچشیده
More...
Description:
مداحی نوحه شهادت حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها:
تک شور: سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین عبد توام اگر ز کرم باورم کنی باصدای حاج محمود کریمی
شب اول ایام فاطمیه دوم جدید 1397 هیأت ثارالله مسجد امام الهادی تهران
Haj Mahmoud Karimi- Shahadat Hazrat Fatima Zahra Farsi Noha with Lyrics 2019
متن: سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین عبد توام اگر ز کرم باورم کنی پا بر سرم بنه که ز عالم سرم کنی عمری به زخم های تنت گریه کرده ام تا وقت مرگ، خنده به چشم ترم کنی سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین.. خار رهم، مگر به نگاه تو گل شوم خاک در توام، تو مگر گوهرم کنی یک عمر سائل در این خانه بوده ام حاشا که وقت مرگ، جدا زین درم کنی سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین... تنها شراب روح من از جام چشم توست چشمی گشا که مست از این ساغرم کنی یک عمر دوختم، به نگاه تو، چشم خویش تا یک نگاه، در نگه آخرم کنی سیدنا المظلوم سیدنا العطشان سیدنا الغریب، حسین... از ذرّه کمترم، تو توانی به یک نگاه برتر ز آفتاب جهان پرورم کنی هرگز به جز در تو دری را نمی زنم ای وای اگر گدای در دیگرم کنی! ما از تو به غیر تو نداریم تمنا! حلوا به کسی ده، که محبت نچشیده
0:57
|
میلکم ایکس کی یاد میں | ولی امرِ مسلمین جہان | Farsi Sub Urdu
میلکم ایکس کی یاد میں | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
میلکم ایکس ، امریکی سیاہ فام...
میلکم ایکس کی یاد میں | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
میلکم ایکس ، امریکی سیاہ فام مسلمانوں کے رہبر و رہنما تھے۔ وہ 19 مئی 1925 کو امریکہ کی ریاست نیبراسکا میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں اسلام قبول کیا اور اسلام کے صحیح تصور کو پھیلانا شروع کر دیا۔ مگر دشمنوں کو یہ بات پسند نہ تھی۔ میلکم بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے مگر میں اس کی پروا نہیں کروں گا۔ 21 فروری 1965ء کو نیویارک میں لیکچر کے دوران اگلی قطار میں موجود تین آدمیوں نے ریوالور اور شاٹ گن سے ان پر بے دریغ فائرنگ کی جس سے میلکم ایکس موقع پر ہی شہید ہو گئے۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #میلکم_ایکس #انسانی_حقوق #میلکم #امریکہ #مغرب
More...
Description:
میلکم ایکس کی یاد میں | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
میلکم ایکس ، امریکی سیاہ فام مسلمانوں کے رہبر و رہنما تھے۔ وہ 19 مئی 1925 کو امریکہ کی ریاست نیبراسکا میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں اسلام قبول کیا اور اسلام کے صحیح تصور کو پھیلانا شروع کر دیا۔ مگر دشمنوں کو یہ بات پسند نہ تھی۔ میلکم بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے مگر میں اس کی پروا نہیں کروں گا۔ 21 فروری 1965ء کو نیویارک میں لیکچر کے دوران اگلی قطار میں موجود تین آدمیوں نے ریوالور اور شاٹ گن سے ان پر بے دریغ فائرنگ کی جس سے میلکم ایکس موقع پر ہی شہید ہو گئے۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #میلکم_ایکس #انسانی_حقوق #میلکم #امریکہ #مغرب
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
malcomx,
imam,
khamenei,
america,
musalman,
dushman,
islam,
newyork,
ralley,
shortgun,
firing,
shaheed,
1:51
|
سب سے بڑا گناہ | آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا | Farsi Sub Urdu
سب سے بڑا گناہ | آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا
کیا شراب پینا ہی بڑا گناہ ہے؟ یا اِس سے بڑھ کر بھی کوئی گناہ...
سب سے بڑا گناہ | آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا
کیا شراب پینا ہی بڑا گناہ ہے؟ یا اِس سے بڑھ کر بھی کوئی گناہ ہے؟ گناہ تو بہت سارے ہیں، مگر سب سے بڑا گناہ کونسا ھے؟ شاید اِن معروف عالم دین آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا کی بات آپ کو ھلا دے مگر اگر آپ معصومین کی تاریخ اور روایات کا مطالعہ کریں اور تفکر کریں تو یہ بات آپ کے لیے روز روشن کی طرح واضح اور آشکار ہو جائے گی۔۔۔ ضرور دیکھیں۔۔۔
#ویڈیو #فاطمی #بڑاگناہ #نظام #انقلاب #رہبر #ایران
More...
Description:
سب سے بڑا گناہ | آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا
کیا شراب پینا ہی بڑا گناہ ہے؟ یا اِس سے بڑھ کر بھی کوئی گناہ ہے؟ گناہ تو بہت سارے ہیں، مگر سب سے بڑا گناہ کونسا ھے؟ شاید اِن معروف عالم دین آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا کی بات آپ کو ھلا دے مگر اگر آپ معصومین کی تاریخ اور روایات کا مطالعہ کریں اور تفکر کریں تو یہ بات آپ کے لیے روز روشن کی طرح واضح اور آشکار ہو جائے گی۔۔۔ ضرور دیکھیں۔۔۔
#ویڈیو #فاطمی #بڑاگناہ #نظام #انقلاب #رہبر #ایران
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
gunah,
ayatollah,
sayyid,
abdullah,
fatimi,
nia,
sharab,
masumeen,
tarikh,
riwayaat,
tafakur,
roshan,
aashkar,
5:16
|
ها علی بشر کیف بشر - محمود کریمی | Farsi sub English Urdu Arabic
مداحی: ها علی بشر کیف بشر ربه فیه تجلى و ظهر مانده عالم همه در حیرت تو که بشر میشود این گونه مگر علی مولا...
مداحی: ها علی بشر کیف بشر ربه فیه تجلى و ظهر مانده عالم همه در حیرت تو که بشر میشود این گونه مگر علی مولا بانوای حاج محمود کریمی بازیرنویس انگلیسی، اردو سبٹائٹل، ترجمه فارسی و مترجم عربي
سرود جدید و مولودی دلنشین برای جشن میلاد امیرالمومنین امام علی (ع) 13 رجب 1398 1440
ویدیو از مراسم شب عید غدیر خم 1396 هیأت رایة العباس علیه السلام تهران
Ha Ali (as) Bashar Kaifa Bashar by Hai Mahmoud Karimi Melad Imam Ali 13 Rajab & Eid e Ghadir Manqabat with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن کامل : ها علي بشر کيف بشر ربه فيه تجلى و ظهر، مانده عالم همه در حیرت تو که بشر میشود این گونه مگر، شب سرشار ز اسرار غدیر شب عشق علمدار غدیر شب حیدر شب حجت حق شب رحمت به احرار غدیر همه مستیم خم و باده علی، یم رحمت بود یاد علی، به نبی گفته حبریل امین که الا یا نبی ناد علی، قمرت را فلک مشتری است نجفت خانهی مادری است، تو سرا پا وجودت ز رسول و محمد خودش حیدری است، فلك فى فلك فيه نجوم صدف فى صدف فيه درر، خاک نعلین علی در و گهر، مشعل نور رخت شمس و قمر
Thank you for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #ImamAli #FarsiNohay #13Rajab
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
Twitter: https://twitter.com/zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
مداحی: ها علی بشر کیف بشر ربه فیه تجلى و ظهر مانده عالم همه در حیرت تو که بشر میشود این گونه مگر علی مولا بانوای حاج محمود کریمی بازیرنویس انگلیسی، اردو سبٹائٹل، ترجمه فارسی و مترجم عربي
سرود جدید و مولودی دلنشین برای جشن میلاد امیرالمومنین امام علی (ع) 13 رجب 1398 1440
ویدیو از مراسم شب عید غدیر خم 1396 هیأت رایة العباس علیه السلام تهران
Ha Ali (as) Bashar Kaifa Bashar by Hai Mahmoud Karimi Melad Imam Ali 13 Rajab & Eid e Ghadir Manqabat with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن کامل : ها علي بشر کيف بشر ربه فيه تجلى و ظهر، مانده عالم همه در حیرت تو که بشر میشود این گونه مگر، شب سرشار ز اسرار غدیر شب عشق علمدار غدیر شب حیدر شب حجت حق شب رحمت به احرار غدیر همه مستیم خم و باده علی، یم رحمت بود یاد علی، به نبی گفته حبریل امین که الا یا نبی ناد علی، قمرت را فلک مشتری است نجفت خانهی مادری است، تو سرا پا وجودت ز رسول و محمد خودش حیدری است، فلك فى فلك فيه نجوم صدف فى صدف فيه درر، خاک نعلین علی در و گهر، مشعل نور رخت شمس و قمر
Thank you for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #ImamAli #FarsiNohay #13Rajab
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
Twitter: https://twitter.com/zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
5:09
|
شہداء کے پیغامات اور ہم | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
خدا بھی اہل ہمت کو پر پرواز دیتا ہے
مکتب عاشورہ کے تربیت یافتہ شاگردوں...
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
خدا بھی اہل ہمت کو پر پرواز دیتا ہے
مکتب عاشورہ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے عَالَمی کفر و استکبار کے خلاف اپنے لہو سے وہ تاریخ رقم کی ہے جو دنیا کے تمام مستضعفین اور مظلومین کے لیے نمونہ عمل ہے۔ شہید قرآنی تعلیمات کے مطابق زندہ ہوتا ہے مگر ہم اُسے دیکھ نہیں پاتے، شہید خدا کی بارگاہ سے رزق پاتے ہیں اور اپنی پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں۔ شہداء ہم سے ہمیشہ ہم کلام ہوتے ہیں مگر یہ ان کی آواز فقط وہ سُن سکتے ہیں جن کے کانوں پر مادیات کے اور نفسانی آلودگیوں کے غلاف نہ چڑھے ہوئے ہوں۔
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے شہداء کے حوالے سے روح پرور بیانات سننے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #ویستبشرون #شہادت #شہداء #حیات_بخش #اہداف #دفاع #معنوی_صدا #کامیابی
More...
Description:
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
خدا بھی اہل ہمت کو پر پرواز دیتا ہے
مکتب عاشورہ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے عَالَمی کفر و استکبار کے خلاف اپنے لہو سے وہ تاریخ رقم کی ہے جو دنیا کے تمام مستضعفین اور مظلومین کے لیے نمونہ عمل ہے۔ شہید قرآنی تعلیمات کے مطابق زندہ ہوتا ہے مگر ہم اُسے دیکھ نہیں پاتے، شہید خدا کی بارگاہ سے رزق پاتے ہیں اور اپنی پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں۔ شہداء ہم سے ہمیشہ ہم کلام ہوتے ہیں مگر یہ ان کی آواز فقط وہ سُن سکتے ہیں جن کے کانوں پر مادیات کے اور نفسانی آلودگیوں کے غلاف نہ چڑھے ہوئے ہوں۔
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے شہداء کے حوالے سے روح پرور بیانات سننے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #ویستبشرون #شہادت #شہداء #حیات_بخش #اہداف #دفاع #معنوی_صدا #کامیابی
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
shohada,
payghamat,
sayyid
ali
khamenei,
shaheed,
lahu,
aawaaz,
khuda,
himmat,
par,
parwaz,
maktabe
ashura,
kufr,
istekbar,
mustazafeen,
mazloomeen,
qurani
taaleemat,
rizq,
pakeeza,
kalam,
maaddiyaat,
nafsani
aalodagi,
rooh
parwar,
66:41
|
I2 Majlis Aza 1443 hijra I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I Dokri Sindhi
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48...
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48 نسلیں گذر گئی ہیں۔ سو سال میں چار نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ہم اہلبیت کے علم کے دروازے سے دور ہیں۔علم سے دوری ہوگی تو معرفت کم ہوگی۔ ان مجالس میں شیعت کی فکری، علمی اور معاشرتی بنیاد بیان کریں گے۔شیعت کے فکر کی بنیاد توحید پر ہے۔مومن کی توحید مضبوط اور منافق کی توحید کمزور ہوتی ہے توحید کی بنیاد عقل پر ہے۔
حکمران لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر علم سے دور کرتے ہیں۔نماز روزہ افضل عبادت نہیں بلکہ توحید کی معرفت اصل عبادت ہےنماز روزہ افضل عبادت نہیں جس کی توحید مضبوط نہں ان کا جھکا نہ جھکنا برابر ہے
فرعون لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر ان پر بادشاہت مسلط کرتا ہے۔
قبلہ غلام مہدی نجفی صاحب کہتے تھے کہ مشکل مجالس کو سنیں بھلے نیند آئے۔ لوگوں کو مجالس میں نیند جبکہ راگ کی مخفل مں نیند نہیں اتی۔گناہ کانٹوں کی سیج کے مانند ہیں جہاں نیند نہیں اتی۔ مجالس پہولوں کی سیج کے مانند ہے جہاں نیند اتی ہے
شب قدر میں افضل عبادات علمی مباحثہ کرنا ہے۔
قرآن مجید نے ظالم بادشاہ کے طور پرفرعون، مال کے پوجاری کے طور پر قارون، مال پرست ملاں کے طور پر بلعم باعورا اور اچھے کردار کے حامل کے طور پر لقمان و مریم کا ذکر کیا ہے۔جب ملاں ظالم بادشاہ اور مال کا بندہ بن گیا تو اس کی مثال کتے کی ہے۔
اپنے عقل سے رب اور امام سے پہچانیں۔
سورہ زخرف کی ایت 51 میں ہے کہ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرےقدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو پست حیثیت کا آ دمی ہے اور صاف بول بھی نہیں پاتا ہے۔ پھر کیوں اس کے اوپر سونے کے کنگن نہیں نازل کئے گئے اور کیوں اس کے ساتھ ملائکہ جمع ہوکر نہیں آ ئے۔
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنادیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔
فرعون نے کہا کہ اے میری قوم کیا یہ مصر میرا ملک نہیں ہے۔نہریں میرے حکم سے نہیں چلتی (نیل فرعون کے حکم پر چلتا ہے)فرعون نے بیوقوف قوم کو بے شعور رکھا موسی کو خطابت بھی نہیں اتی ہے اگر موسی حق پر ہوتا تو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں۔ مالدار ہو تو حق پر غریب ہے تو حق پر نہیں ہے۔ غربت یا امیری حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ہم مالدار کو ووٹ دیں گے غریب کو ووٹ نہیں دیں گے۔ فرعون نے قوم کو اس طرح بتایا کہ مال راہ حق پر ہے۔ ہماری اور فرعون کی حکومت ایک جیسی ہے کیونکہ عوام کے ذہن کو خفیف کیا گیا ہے۔ سندہ کی تعلیم تباہ ہے قوم کی تعلیم برباد کے۔ عقل کو بیدار کریں پیسے صرف کھانے پینے پر خرچ نہ کریں۔ علم پر بھی پیسہ خرچ کریں۔ اصول کافی اور نھج البلاغہ ہر مومن کے گھر میں ہونی چاہیے۔ بے شعوری ہو تو فرعون بادشاہ بنے گا موسی نہیں بنے گا۔ جاہل نہ بنیں۔ اہلبیت کو جاہل پسند نہیں ہیں۔
قران مجید سوچ پر لگے تالے کھولنا چاہتا ہے۔ بے دین کو بے دین پسند ہوتے ہیں۔ جاہل جاہل کو پسند کرے گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماننے والے علم کے دروازے کے ہیں مگر گھر میں اصول کافی اور نھج البلاغہ بھی نہیں۔ اصول کافی کا پہلا باب عقل دوسرا علم اور تیسرا توحید کا ہے۔ سامعیں کی راگ سے محبت ہے ان کو سر اچھا لگتا ہے وہ علی کے عاشق نہیں۔امام علی سے محبت ہو اور نھج البلاغہ گھر میں نہ ہو۔ ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک دن سیکھنے کے لئے وقف کریں۔
ا
حدیث: اصول کافی کے پہلے جلد کے بات عقل و جہل میں 26 حدیث ہے کہ امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ خدا نے عقل کو پئدا کیا۔پس اس سے کہا اگے آ وہ آ گے آ ئی۔ پہر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنی عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہی میں تجھ کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔عقل سے بڑہ کر محبوب چیز اللہ نے پیدا نہیں کی ہے۔ عقل مومن کی رہنما ہے جہالت سے بڑہ کر محتاجی نہیں ہے عقل کو اس میں کامل کروں گا جس سے اللہ محبت کرے گا۔
حضرت جبرائیل حضرت آ دم ع کے پاس ائے اور کہا کہ عقل دین اور حیا میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں۔ حضرت آدم نے عقل کو لیا۔ دین اور حیا نے کہا کہ ہم ادہر رہیں گے جہاں پر عقل رہتا ہے۔
ذہن کے گڑ کو پگھلائیں عقل کو استعمال کریں اور دین پہچانیں۔
صوفی حضرات عقل اور عشق میں جگھڑا کر وا کر کہتے ہیں کہ کون بہتر ہے۔ اونچے درجے والے عقل کا نام عشق ہے۔عشق عقل سے برتر ہے۔ کربلا والوں کے پاس عقل برتر ہے کہ ہر ماں کہتی ہے کہ پہلے میرا بیٹا جائے۔
میدان کربلا میں سیک مومنہ عور ت کا شوہر شہید ہوا اور اس نے اپنے ایک بچے کو جو 14 برس سے کم تھا میدان جنگ میں بھیجا۔ اس کو امام حسین نے کہا کہ اپ کے خاندان نے وفا کی ہے۔ کیا تم نے اپنی ماں سے اجازت لی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ ماں نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ نہیں اتا دودہ نہیں بخشوں گی۔ عقل برتر یہ ہے کہ امام حسین کو سمجھنا ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کیا۔ شوہر بھی دیا اور بیٹا بھی دیا۔ لشکر یزید نے بیٹے کا کٹا سر ماں کیطرف بھیجا۔ عورت نے واپس سر بھیجا اور عقل برتر رکھنے والی ماں نے کہا کہ جو حسین پر قربان کیا ہے وہ واپس نہیں لوں گی۔عشق سے سرشار عورت خود نکلتی ہے اور 30 ہزار کے لشکر پر حملہ کرتی ہے جس میں سے 3 یزید کے سپاہیوں کو مارتی ہے۔
بیٹا بھی عزیز ہے مگر حسین سے مقابلہ نہیں۔ سب حسین پر قربان ہے۔حسین پر قربان ہوں تو حسین دینے والا ہے۔
شیعہ شناسی پر استاد محترم کی دوسری مجلس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم:سعید علی پٹھان
More...
Description:
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48 نسلیں گذر گئی ہیں۔ سو سال میں چار نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ہم اہلبیت کے علم کے دروازے سے دور ہیں۔علم سے دوری ہوگی تو معرفت کم ہوگی۔ ان مجالس میں شیعت کی فکری، علمی اور معاشرتی بنیاد بیان کریں گے۔شیعت کے فکر کی بنیاد توحید پر ہے۔مومن کی توحید مضبوط اور منافق کی توحید کمزور ہوتی ہے توحید کی بنیاد عقل پر ہے۔
حکمران لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر علم سے دور کرتے ہیں۔نماز روزہ افضل عبادت نہیں بلکہ توحید کی معرفت اصل عبادت ہےنماز روزہ افضل عبادت نہیں جس کی توحید مضبوط نہں ان کا جھکا نہ جھکنا برابر ہے
فرعون لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر ان پر بادشاہت مسلط کرتا ہے۔
قبلہ غلام مہدی نجفی صاحب کہتے تھے کہ مشکل مجالس کو سنیں بھلے نیند آئے۔ لوگوں کو مجالس میں نیند جبکہ راگ کی مخفل مں نیند نہیں اتی۔گناہ کانٹوں کی سیج کے مانند ہیں جہاں نیند نہیں اتی۔ مجالس پہولوں کی سیج کے مانند ہے جہاں نیند اتی ہے
شب قدر میں افضل عبادات علمی مباحثہ کرنا ہے۔
قرآن مجید نے ظالم بادشاہ کے طور پرفرعون، مال کے پوجاری کے طور پر قارون، مال پرست ملاں کے طور پر بلعم باعورا اور اچھے کردار کے حامل کے طور پر لقمان و مریم کا ذکر کیا ہے۔جب ملاں ظالم بادشاہ اور مال کا بندہ بن گیا تو اس کی مثال کتے کی ہے۔
اپنے عقل سے رب اور امام سے پہچانیں۔
سورہ زخرف کی ایت 51 میں ہے کہ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرےقدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو پست حیثیت کا آ دمی ہے اور صاف بول بھی نہیں پاتا ہے۔ پھر کیوں اس کے اوپر سونے کے کنگن نہیں نازل کئے گئے اور کیوں اس کے ساتھ ملائکہ جمع ہوکر نہیں آ ئے۔
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنادیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔
فرعون نے کہا کہ اے میری قوم کیا یہ مصر میرا ملک نہیں ہے۔نہریں میرے حکم سے نہیں چلتی (نیل فرعون کے حکم پر چلتا ہے)فرعون نے بیوقوف قوم کو بے شعور رکھا موسی کو خطابت بھی نہیں اتی ہے اگر موسی حق پر ہوتا تو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں۔ مالدار ہو تو حق پر غریب ہے تو حق پر نہیں ہے۔ غربت یا امیری حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ہم مالدار کو ووٹ دیں گے غریب کو ووٹ نہیں دیں گے۔ فرعون نے قوم کو اس طرح بتایا کہ مال راہ حق پر ہے۔ ہماری اور فرعون کی حکومت ایک جیسی ہے کیونکہ عوام کے ذہن کو خفیف کیا گیا ہے۔ سندہ کی تعلیم تباہ ہے قوم کی تعلیم برباد کے۔ عقل کو بیدار کریں پیسے صرف کھانے پینے پر خرچ نہ کریں۔ علم پر بھی پیسہ خرچ کریں۔ اصول کافی اور نھج البلاغہ ہر مومن کے گھر میں ہونی چاہیے۔ بے شعوری ہو تو فرعون بادشاہ بنے گا موسی نہیں بنے گا۔ جاہل نہ بنیں۔ اہلبیت کو جاہل پسند نہیں ہیں۔
قران مجید سوچ پر لگے تالے کھولنا چاہتا ہے۔ بے دین کو بے دین پسند ہوتے ہیں۔ جاہل جاہل کو پسند کرے گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماننے والے علم کے دروازے کے ہیں مگر گھر میں اصول کافی اور نھج البلاغہ بھی نہیں۔ اصول کافی کا پہلا باب عقل دوسرا علم اور تیسرا توحید کا ہے۔ سامعیں کی راگ سے محبت ہے ان کو سر اچھا لگتا ہے وہ علی کے عاشق نہیں۔امام علی سے محبت ہو اور نھج البلاغہ گھر میں نہ ہو۔ ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک دن سیکھنے کے لئے وقف کریں۔
ا
حدیث: اصول کافی کے پہلے جلد کے بات عقل و جہل میں 26 حدیث ہے کہ امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ خدا نے عقل کو پئدا کیا۔پس اس سے کہا اگے آ وہ آ گے آ ئی۔ پہر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنی عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہی میں تجھ کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔عقل سے بڑہ کر محبوب چیز اللہ نے پیدا نہیں کی ہے۔ عقل مومن کی رہنما ہے جہالت سے بڑہ کر محتاجی نہیں ہے عقل کو اس میں کامل کروں گا جس سے اللہ محبت کرے گا۔
حضرت جبرائیل حضرت آ دم ع کے پاس ائے اور کہا کہ عقل دین اور حیا میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں۔ حضرت آدم نے عقل کو لیا۔ دین اور حیا نے کہا کہ ہم ادہر رہیں گے جہاں پر عقل رہتا ہے۔
ذہن کے گڑ کو پگھلائیں عقل کو استعمال کریں اور دین پہچانیں۔
صوفی حضرات عقل اور عشق میں جگھڑا کر وا کر کہتے ہیں کہ کون بہتر ہے۔ اونچے درجے والے عقل کا نام عشق ہے۔عشق عقل سے برتر ہے۔ کربلا والوں کے پاس عقل برتر ہے کہ ہر ماں کہتی ہے کہ پہلے میرا بیٹا جائے۔
میدان کربلا میں سیک مومنہ عور ت کا شوہر شہید ہوا اور اس نے اپنے ایک بچے کو جو 14 برس سے کم تھا میدان جنگ میں بھیجا۔ اس کو امام حسین نے کہا کہ اپ کے خاندان نے وفا کی ہے۔ کیا تم نے اپنی ماں سے اجازت لی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ ماں نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ نہیں اتا دودہ نہیں بخشوں گی۔ عقل برتر یہ ہے کہ امام حسین کو سمجھنا ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کیا۔ شوہر بھی دیا اور بیٹا بھی دیا۔ لشکر یزید نے بیٹے کا کٹا سر ماں کیطرف بھیجا۔ عورت نے واپس سر بھیجا اور عقل برتر رکھنے والی ماں نے کہا کہ جو حسین پر قربان کیا ہے وہ واپس نہیں لوں گی۔عشق سے سرشار عورت خود نکلتی ہے اور 30 ہزار کے لشکر پر حملہ کرتی ہے جس میں سے 3 یزید کے سپاہیوں کو مارتی ہے۔
بیٹا بھی عزیز ہے مگر حسین سے مقابلہ نہیں۔ سب حسین پر قربان ہے۔حسین پر قربان ہوں تو حسین دینے والا ہے۔
شیعہ شناسی پر استاد محترم کی دوسری مجلس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم:سعید علی پٹھان
6:52
|
ظلم و جور حکام و شیوع آسیب های اجتماعی (37) - Farsi
#التفسير_الأقوم
#ظلم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
مولانا امیرالمؤمنین على علیهالسلام در...
#التفسير_الأقوم
#ظلم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
مولانا امیرالمؤمنین على علیهالسلام در خصوص اهمیت اجرای عدالت از سوی حاکمان مى فرمایند:
فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ إِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ فَإِذَا أَدَّتْ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّهُ وَ أَدَّى الْوَالِي إِلَيْهَا حَقَّهَا عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وَ قَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ وَ اعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وَ جَرَتْ عَلَى أَذْلَالِهَا السُّنَنُ فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ وَ طُمِعَ فِي بَقَاءِ الدَّوْلَةِ وَ يَئِسَتْ مَطَامِعُ الْأَعْدَاءِ. (نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص: 334)
مردم اصلاح نمى شوند، مگر با صلاح و شایستگى حاکمان و وضع زمامداران و رهبران جامعه صلاح نپذیرد، مگر با استقامت مردم، پس اگر مردم با پایدارى و استقامت خویش، حق حکومت را ادا کردند، و زمامدار با برقرار کردن عدالت، حق مردم را ادا کرد، آنگاه حق در میان مردم عزت پیدا مى کند و شیوه هاى دین استوار مى شود و نشانه هاى عدالت برپا و راه و رسم هاى صحیح در مجارى اصلى خود جریان مى یابند. در چنین روزگارى مردم اصلاح مى شوند و به بقاى حکومت امیدوار مى گردند و دشمنان به یأس و ناامیدى کشیده مى شوند. (نهج البلاغه، خطبه 216)
در آیات و روایات، قوام و پایدارى دولت و ملت، وابسته به صلاح و اصلاح رهبران جامعه و امت است. تعالى و رشد جوامع بشری، گام نهادن افراد جامعه در مسیر کمال و فضیلت و دور شدن آنها از قلمرو حیوانیت، مرهون برقراری عدالت در جامعه است.
مولاى متقیان، در ادامه سخنان پیش گفته مى فرمایند:
وَ إِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِهِ اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ وَ ظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وَ كَثُرَ الْإِدْغَالُ فِي الدِّينِ وَ تُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى وَ عُطِّلَتِ الْأَحْكَامُ وَ كَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ وَ لَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الْأَبْرَارُ وَ تَعِزُّ الْأَشْرَارُ وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّهِ سُبْحَانَهُ عِنْدَ الْعِبَادِ. (نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص: 334)
اگر ظلم و بى عدالتى در جامعه شیوع پیدا کند، یعنى زمامدار حقوق مردم را با بى عدالتى و ظلم زیر پا گذارد و نیز مردم حق رهبران خویش که دفاع و پشتیبانى از آنها است را ادا نکنند، اتحاد و وحدت از میان مردم رخت بر می بندد و اختلاف و تفرقه بر ایشان حاکم می شود و عَلَم ظلم برافراشته مى شود. مردم از آداب دینى دور مى شوند و بدعتها در دین ایجاد و توسعه پیدا می کنند. مردم اسیر هواى نفس خود و دیگران می شوند و شهوات نفسانى را امام و اله خویش قرار مى دهند. تعالیم و احکام شریعت تعطیل مى شوند و بیماریهاى اخلاقى رواج یافته و آسیب های اجتماعی شایع می شوند. (نهج البلاغه، خطبه 216)
با دقت در بیانات مولانا امیرالمؤمنین على علیهالسلام و نامههایى که خطاب به کارگزاران خود تدوین و ارسال مى کردند، این نکته به دست مى آید که بارزترین نشانه حکومت الهى، تحقق عدالت از طرف حکومت در عرصه جامعه و بین مردم است و همچنین روشن ترین علامت جامعه یکتاپرست، اقامه قسط و عدل، در روابط اجتماعى است.
اگر در نهادهای حکومتی و عرصه جامعه، ویژگى عدالت مورد توجه قرار نگیرد و نمود های اجرای قسط و عدل به صورتی عیان و آشکارا دیده نشود، اصل دینی بودن و الهى بودن آن حکومت و اسلامی بودن آن جامعه ، مخدوش و محل تردید شدید است.
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#ظلم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
مولانا امیرالمؤمنین على علیهالسلام در خصوص اهمیت اجرای عدالت از سوی حاکمان مى فرمایند:
فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ إِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ فَإِذَا أَدَّتْ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّهُ وَ أَدَّى الْوَالِي إِلَيْهَا حَقَّهَا عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وَ قَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ وَ اعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وَ جَرَتْ عَلَى أَذْلَالِهَا السُّنَنُ فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ وَ طُمِعَ فِي بَقَاءِ الدَّوْلَةِ وَ يَئِسَتْ مَطَامِعُ الْأَعْدَاءِ. (نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص: 334)
مردم اصلاح نمى شوند، مگر با صلاح و شایستگى حاکمان و وضع زمامداران و رهبران جامعه صلاح نپذیرد، مگر با استقامت مردم، پس اگر مردم با پایدارى و استقامت خویش، حق حکومت را ادا کردند، و زمامدار با برقرار کردن عدالت، حق مردم را ادا کرد، آنگاه حق در میان مردم عزت پیدا مى کند و شیوه هاى دین استوار مى شود و نشانه هاى عدالت برپا و راه و رسم هاى صحیح در مجارى اصلى خود جریان مى یابند. در چنین روزگارى مردم اصلاح مى شوند و به بقاى حکومت امیدوار مى گردند و دشمنان به یأس و ناامیدى کشیده مى شوند. (نهج البلاغه، خطبه 216)
در آیات و روایات، قوام و پایدارى دولت و ملت، وابسته به صلاح و اصلاح رهبران جامعه و امت است. تعالى و رشد جوامع بشری، گام نهادن افراد جامعه در مسیر کمال و فضیلت و دور شدن آنها از قلمرو حیوانیت، مرهون برقراری عدالت در جامعه است.
مولاى متقیان، در ادامه سخنان پیش گفته مى فرمایند:
وَ إِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِهِ اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ وَ ظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وَ كَثُرَ الْإِدْغَالُ فِي الدِّينِ وَ تُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى وَ عُطِّلَتِ الْأَحْكَامُ وَ كَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ وَ لَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الْأَبْرَارُ وَ تَعِزُّ الْأَشْرَارُ وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّهِ سُبْحَانَهُ عِنْدَ الْعِبَادِ. (نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص: 334)
اگر ظلم و بى عدالتى در جامعه شیوع پیدا کند، یعنى زمامدار حقوق مردم را با بى عدالتى و ظلم زیر پا گذارد و نیز مردم حق رهبران خویش که دفاع و پشتیبانى از آنها است را ادا نکنند، اتحاد و وحدت از میان مردم رخت بر می بندد و اختلاف و تفرقه بر ایشان حاکم می شود و عَلَم ظلم برافراشته مى شود. مردم از آداب دینى دور مى شوند و بدعتها در دین ایجاد و توسعه پیدا می کنند. مردم اسیر هواى نفس خود و دیگران می شوند و شهوات نفسانى را امام و اله خویش قرار مى دهند. تعالیم و احکام شریعت تعطیل مى شوند و بیماریهاى اخلاقى رواج یافته و آسیب های اجتماعی شایع می شوند. (نهج البلاغه، خطبه 216)
با دقت در بیانات مولانا امیرالمؤمنین على علیهالسلام و نامههایى که خطاب به کارگزاران خود تدوین و ارسال مى کردند، این نکته به دست مى آید که بارزترین نشانه حکومت الهى، تحقق عدالت از طرف حکومت در عرصه جامعه و بین مردم است و همچنین روشن ترین علامت جامعه یکتاپرست، اقامه قسط و عدل، در روابط اجتماعى است.
اگر در نهادهای حکومتی و عرصه جامعه، ویژگى عدالت مورد توجه قرار نگیرد و نمود های اجرای قسط و عدل به صورتی عیان و آشکارا دیده نشود، اصل دینی بودن و الهى بودن آن حکومت و اسلامی بودن آن جامعه ، مخدوش و محل تردید شدید است.
Video Tags:
Press,Farsi,Russian,Persian,BBC,CNN,Arabic,Iran,Iranian,,Indian,Songs,
اهل
بیت,ولاية,آل
محمد,الشيعة,الرافضي,الرفضة,القزويني,آل
سيف,ولاية
الفقيه,الوائلي,الخميني,الخامنئي,فدك,صوت
العترة,أهل
السنة
و
الجماعة,ایران,خمینی,خامنه
ای,ولایت
فقیه,خبر,,Ahlulbayt
TV,Imam
Hussain
TV,,al-shia,IMAM
ALI
TV,
31:10
|
شگردها و ترفندهای فرعون صفتان | بخش دوم | Farsi
اساساً طول عمر و ميزان موفقيت و ثبات هر نظام سياسي بستگي تام دارد به مقدار تأثيري كه در اذهان و نفوس و باورهاي...
اساساً طول عمر و ميزان موفقيت و ثبات هر نظام سياسي بستگي تام دارد به مقدار تأثيري كه در اذهان و نفوس و باورهاي مردم كرده است. ارتشها بيفايدهاند مگر آنكه سربازان به امري كه برايش ميجنگند باور داشته باشند. قوانين بياثرند مگر آنكه عموم مردم حرمت آنها را پذيرفته باشند و نگه دارند. در امور اجتماعي قدرت اصلي همانا قدرت باور است». به همين جهت است كه حاكمان ستمگر همواره با سوء استفاده از عوامل فكري و فرهنگي سعي دارند كه حقانيت و مشروعيت قدرت و سلطه خود را به مردم بباورانند و از اين طريق آنان را زبون و برده خود سازند.
فسق و فجور، هم آدمي را سبك مغز و كم خرد ميسازد و هم موجبات ضعف روحيه و حقارت شخصيت را فراهم ميآورد، و رمز موفقيت فرعون نيز همين فسق و فجور مردم بود، كساني كه در پي فسق و فجور و به دنبال ارضاء شهوات حيواني باشند به تدريج از مسائل اساسي زندگي و از هدفهاي والاي انساني غافل ميشوند و قدرت تفكر و رشد عقلاني خود را از كف ميدهند؛ علاوه بر اين، مناعت طبع، آزادگي، و عزت نفس خود را نيز ميبازند، زيرا استقلال و حريت شخصيت با بندگي شكم و دامن به هيچ وجه سازگاري ندارد. آنكه ميخواهد مطيع و تابع ستمگران و تبهكاران و خود كامگان نشود و در دام آنان گرفتار نيايد بايد هم مغزش را قوي سازد و هم دلش را، يعني هم رشد فكري و عقلاني بيابد و هم استقلال و حريت روحي و نفساني؛ و براي حصول اين مقصود بايد، قبل از هر چيز، از اسارت و بردگي شكم و دامن رهيد. هم از اين روست كه همه حباران و ستم پيشگان جهان در راه ترويج و اشاعه فسق و فجور سعي بليغ دارند.
More...
Description:
اساساً طول عمر و ميزان موفقيت و ثبات هر نظام سياسي بستگي تام دارد به مقدار تأثيري كه در اذهان و نفوس و باورهاي مردم كرده است. ارتشها بيفايدهاند مگر آنكه سربازان به امري كه برايش ميجنگند باور داشته باشند. قوانين بياثرند مگر آنكه عموم مردم حرمت آنها را پذيرفته باشند و نگه دارند. در امور اجتماعي قدرت اصلي همانا قدرت باور است». به همين جهت است كه حاكمان ستمگر همواره با سوء استفاده از عوامل فكري و فرهنگي سعي دارند كه حقانيت و مشروعيت قدرت و سلطه خود را به مردم بباورانند و از اين طريق آنان را زبون و برده خود سازند.
فسق و فجور، هم آدمي را سبك مغز و كم خرد ميسازد و هم موجبات ضعف روحيه و حقارت شخصيت را فراهم ميآورد، و رمز موفقيت فرعون نيز همين فسق و فجور مردم بود، كساني كه در پي فسق و فجور و به دنبال ارضاء شهوات حيواني باشند به تدريج از مسائل اساسي زندگي و از هدفهاي والاي انساني غافل ميشوند و قدرت تفكر و رشد عقلاني خود را از كف ميدهند؛ علاوه بر اين، مناعت طبع، آزادگي، و عزت نفس خود را نيز ميبازند، زيرا استقلال و حريت شخصيت با بندگي شكم و دامن به هيچ وجه سازگاري ندارد. آنكه ميخواهد مطيع و تابع ستمگران و تبهكاران و خود كامگان نشود و در دام آنان گرفتار نيايد بايد هم مغزش را قوي سازد و هم دلش را، يعني هم رشد فكري و عقلاني بيابد و هم استقلال و حريت روحي و نفساني؛ و براي حصول اين مقصود بايد، قبل از هر چيز، از اسارت و بردگي شكم و دامن رهيد. هم از اين روست كه همه حباران و ستم پيشگان جهان در راه ترويج و اشاعه فسق و فجور سعي بليغ دارند.
8:14
|
Karbala Zinda Rahi | Dasta e Imamia 2022 | Atir Haider | Muharram 1444 | Urdu
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Dasta E Imamia Karachi
ALBUM 2022 | 1444
کربلا زندہ رہی
KARBALA ZINDA RAHI
Reciter | Atir Haider
Poet | DR Hilal Naqvi
Chorus |...
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Dasta E Imamia Karachi
ALBUM 2022 | 1444
کربلا زندہ رہی
KARBALA ZINDA RAHI
Reciter | Atir Haider
Poet | DR Hilal Naqvi
Chorus | Own Rizvi & Co.
Audio | Lawa Studio
Video | 313 Productions
InshaAllah Releasing On The Official YouTube Channel:
http://www.youtube.com/c/DastaEImamiaKarachi
Follow Us On:
Facebook | YouTube | Twitter | Instagram | SoundCloud | Telegram | WhatsApp
Lyrics:
مرگئے سارے فسانے ، کربلا زندہ رہی
استغاثے میں جو گونجی وہ صدا زندہ رہی
1) یہ جو ہل من ناصراً ہے استغاثے میں عیاں
مقصدِ ابنِ علیؑ ہے اس کے تیور میں نہاں
عصرِ عاشورہ کی یہ ہم پر عطا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
2) استغاثہ دے رہا ہے آج بھی ہم کو صدا
سوئے حق بڑھتے رہو لوگو بنامِ کربلا
یہ وہ مقتل ہے جہاں حق کی رضا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
3) تھا شہیدانِ وفا کا یہ زمانے کو پیام
ہم نہ ہوں لیکن ہمارے حوصلوں کا ہو قیام
یہ شہیدوں کی تمنا جابجا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
4) کٹ گئے بازو مگر اونچا رہا حق کا علم
مٹ نہیں سکتا کبھی ایسی شہادت کا حشم
سوگیا غازیؑ ترائی میں وفا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
5) درد کے منظر جو نظروں سے ہٹا سکتے نہیں
کربلا کی پیاس کو دل سے بُھلا سکتے نہیں
دل کے ویرانے میں یادِ علقمہ زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
6) بے ردا بی بیؑ کی حرمت پر زمانے کا سلام
آج بھی باقی ہے اس سر کی ردا کا احترام
عالمِ نسواں میں زینبؑ کی ردا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
7) یہ فُغاں یہ ذکر یہ رسمِ عزاء زینبؑ سے ہے
یہ عزاداری کا سارا سلسلہ زینبؑ سے ہے
جو کہ زینبؑ سے چلی وہ ابتداء زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
8) کیوں نہ ہم اس درد سے اُن کی عزاداری کریں
آج بھی ہر گھر میں برپا ہیں اُنہی کی مجلسیں
سب گھروں میں حرمتِ فرشِ عزاء زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
9) کمسنی میں صبر کا حق یوں ادا کرتے رہے
سوکھے ہونٹوں سے مگر شکرِ خدا کرتے رہے
پیاسے بچوں کی نگاہوں میں دُعا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
10) مرثیے، نوحے ہماری ترجمانی ہیں ہلالؔ
گھٹ نہیں سکتا کبھی روحِ شہادت کا جلال
مرثیوں، نوحوں میں فکرِ کربلا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
#ایام_عزاء
#محرم_الحرام
#یاحسین_ع
#کربلا
More...
Description:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Dasta E Imamia Karachi
ALBUM 2022 | 1444
کربلا زندہ رہی
KARBALA ZINDA RAHI
Reciter | Atir Haider
Poet | DR Hilal Naqvi
Chorus | Own Rizvi & Co.
Audio | Lawa Studio
Video | 313 Productions
InshaAllah Releasing On The Official YouTube Channel:
http://www.youtube.com/c/DastaEImamiaKarachi
Follow Us On:
Facebook | YouTube | Twitter | Instagram | SoundCloud | Telegram | WhatsApp
Lyrics:
مرگئے سارے فسانے ، کربلا زندہ رہی
استغاثے میں جو گونجی وہ صدا زندہ رہی
1) یہ جو ہل من ناصراً ہے استغاثے میں عیاں
مقصدِ ابنِ علیؑ ہے اس کے تیور میں نہاں
عصرِ عاشورہ کی یہ ہم پر عطا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
2) استغاثہ دے رہا ہے آج بھی ہم کو صدا
سوئے حق بڑھتے رہو لوگو بنامِ کربلا
یہ وہ مقتل ہے جہاں حق کی رضا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
3) تھا شہیدانِ وفا کا یہ زمانے کو پیام
ہم نہ ہوں لیکن ہمارے حوصلوں کا ہو قیام
یہ شہیدوں کی تمنا جابجا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
4) کٹ گئے بازو مگر اونچا رہا حق کا علم
مٹ نہیں سکتا کبھی ایسی شہادت کا حشم
سوگیا غازیؑ ترائی میں وفا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
5) درد کے منظر جو نظروں سے ہٹا سکتے نہیں
کربلا کی پیاس کو دل سے بُھلا سکتے نہیں
دل کے ویرانے میں یادِ علقمہ زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
6) بے ردا بی بیؑ کی حرمت پر زمانے کا سلام
آج بھی باقی ہے اس سر کی ردا کا احترام
عالمِ نسواں میں زینبؑ کی ردا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
7) یہ فُغاں یہ ذکر یہ رسمِ عزاء زینبؑ سے ہے
یہ عزاداری کا سارا سلسلہ زینبؑ سے ہے
جو کہ زینبؑ سے چلی وہ ابتداء زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
8) کیوں نہ ہم اس درد سے اُن کی عزاداری کریں
آج بھی ہر گھر میں برپا ہیں اُنہی کی مجلسیں
سب گھروں میں حرمتِ فرشِ عزاء زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
9) کمسنی میں صبر کا حق یوں ادا کرتے رہے
سوکھے ہونٹوں سے مگر شکرِ خدا کرتے رہے
پیاسے بچوں کی نگاہوں میں دُعا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
10) مرثیے، نوحے ہماری ترجمانی ہیں ہلالؔ
گھٹ نہیں سکتا کبھی روحِ شہادت کا جلال
مرثیوں، نوحوں میں فکرِ کربلا زندہ رہی
مرگئے سارے فسانے، کربلا زندہ رہی
#ایام_عزاء
#محرم_الحرام
#یاحسین_ع
#کربلا
حٌبِ علی اور حقِ غدير Love of imam Ali and rights of Ghadeer(Nawabshah) 26 Dec - Part 01
ھم سب ظالم ہيں مگر کيسے
ھم عيد غدير مناتے ہيں صرف اس کو ذندہٰٰ
رکھنے کے لۓ-جيسے مريض ہسپتال ٰ
ميں نہ کہ...
ھم سب ظالم ہيں مگر کيسے
ھم عيد غدير مناتے ہيں صرف اس کو ذندہٰٰ
رکھنے کے لۓ-جيسے مريض ہسپتال ٰ
ميں نہ کہ ولايتِ علی ع کو جاری رکھنے کے لۓٰٰ
by AMZ
We are Celebrating Eid-E-Ghadeer as one of the greatest Eid just for keeping it alive like a patient in Hospital (ICU)– Not for running of Vilyat-E-Ameer ul Momineen
Hum sub Zalim hain Magar Kaisay ?
Is it time to Enjoy or Cry , what happened with Ghadeer ?
Did we ask ourselves, what happened with the Vilayat E Ameer ul Momineen (a.s)?
Did followers or Mohibs fullfill their duties?
Is talking about the size of stage and crowd is enough?
Suppose after one year during Haj Abuzar, Mesum Tammar, Ammar E Yasir and Salman Farsi were asked about Ghadeer
What would they respond, will they enjoy or cry? They will cry because Bibi Fatima (a.s) was the first sacrifice of Ghadeer and the Vilyat was taken away.
Is Ghadeer Vilayt E Tashrihee or Takwini
What is Vilayat E Tashrihee:
How to pass our life – The way Ali like?
How to act against Zalemeen – The way Ali like?
How we celebrate our marriages – the way Ali like?
What time we wake up – the time Ali wants?
This is called Vilayat Tashrihee
What is Tasheeah Janaza ? Janazay kay saath chalnay wala
What is shia E Ali (a.s) – Ali ( a.s) kay saath Chalna wala
More...
Description:
ھم سب ظالم ہيں مگر کيسے
ھم عيد غدير مناتے ہيں صرف اس کو ذندہٰٰ
رکھنے کے لۓ-جيسے مريض ہسپتال ٰ
ميں نہ کہ ولايتِ علی ع کو جاری رکھنے کے لۓٰٰ
by AMZ
We are Celebrating Eid-E-Ghadeer as one of the greatest Eid just for keeping it alive like a patient in Hospital (ICU)– Not for running of Vilyat-E-Ameer ul Momineen
Hum sub Zalim hain Magar Kaisay ?
Is it time to Enjoy or Cry , what happened with Ghadeer ?
Did we ask ourselves, what happened with the Vilayat E Ameer ul Momineen (a.s)?
Did followers or Mohibs fullfill their duties?
Is talking about the size of stage and crowd is enough?
Suppose after one year during Haj Abuzar, Mesum Tammar, Ammar E Yasir and Salman Farsi were asked about Ghadeer
What would they respond, will they enjoy or cry? They will cry because Bibi Fatima (a.s) was the first sacrifice of Ghadeer and the Vilyat was taken away.
Is Ghadeer Vilayt E Tashrihee or Takwini
What is Vilayat E Tashrihee:
How to pass our life – The way Ali like?
How to act against Zalemeen – The way Ali like?
How we celebrate our marriages – the way Ali like?
What time we wake up – the time Ali wants?
This is called Vilayat Tashrihee
What is Tasheeah Janaza ? Janazay kay saath chalnay wala
What is shia E Ali (a.s) – Ali ( a.s) kay saath Chalna wala
Must watch حٌبِ علی اور حق غدير Love of imam Ali and rights of Ghadeer(Nawabshah) 26 Dec - Part
ھم سب ظالم ہيں مگر کيسے
ھم عيد غدير مناتے ہيں صرف اس کو ذندہٰٰ
رکھنے کے لۓ-جيسے مريض ہسپتال ٰ
ميں نہ کہ...
ھم سب ظالم ہيں مگر کيسے
ھم عيد غدير مناتے ہيں صرف اس کو ذندہٰٰ
رکھنے کے لۓ-جيسے مريض ہسپتال ٰ
ميں نہ کہ ولايتِ علی ع کو جاری رکھنے کے لۓٰٰ
seminar By AMZ
We are Celebrating Eid-E-Ghadeer as one of the greatest Eid just for keeping it alive like a patient in Hospital (ICU)– Not for running of Vilyat-E-Ameer ul Momineen
Hum sub Zalim hain Magar Kaisay ?
Is it time to Enjoy or Cry , what happened with Ghadeer ?
Did we ask ourselves, what happened with the Vilayat E Ameer ul Momineen (a.s)?
Did followers or Mohibs fullfill their duties?
Is talking about the size of stage and crowd is enough?
Suppose after one year during Haj Abuzar, Mesum Tammar, Ammar E Yasir and Salman Farsi were asked about Ghadeer
What would they respond, will they enjoy or cry? They will cry because Bibi Fatima (a.s) was the first sacrifice of Ghadeer and the Vilyat was taken away.
Is Ghadeer Vilayt E Tashrihee or Takwini
What is Vilayat E Tashrihee:
How to pass our life – The way Ali like?
How to act against Zalemeen – The way Ali like?
How we celebrate our marriages – the way Ali like?
What time we wake up – the time Ali wants?
This is called Vilayat Tashrihee
What is Tasheeah Janaza ? Janazay kay saath chalnay wala
What is shia E Ali (a.s) – Ali ( a.s) kay saath Chalna wala
More...
Description:
ھم سب ظالم ہيں مگر کيسے
ھم عيد غدير مناتے ہيں صرف اس کو ذندہٰٰ
رکھنے کے لۓ-جيسے مريض ہسپتال ٰ
ميں نہ کہ ولايتِ علی ع کو جاری رکھنے کے لۓٰٰ
seminar By AMZ
We are Celebrating Eid-E-Ghadeer as one of the greatest Eid just for keeping it alive like a patient in Hospital (ICU)– Not for running of Vilyat-E-Ameer ul Momineen
Hum sub Zalim hain Magar Kaisay ?
Is it time to Enjoy or Cry , what happened with Ghadeer ?
Did we ask ourselves, what happened with the Vilayat E Ameer ul Momineen (a.s)?
Did followers or Mohibs fullfill their duties?
Is talking about the size of stage and crowd is enough?
Suppose after one year during Haj Abuzar, Mesum Tammar, Ammar E Yasir and Salman Farsi were asked about Ghadeer
What would they respond, will they enjoy or cry? They will cry because Bibi Fatima (a.s) was the first sacrifice of Ghadeer and the Vilyat was taken away.
Is Ghadeer Vilayt E Tashrihee or Takwini
What is Vilayat E Tashrihee:
How to pass our life – The way Ali like?
How to act against Zalemeen – The way Ali like?
How we celebrate our marriages – the way Ali like?
What time we wake up – the time Ali wants?
This is called Vilayat Tashrihee
What is Tasheeah Janaza ? Janazay kay saath chalnay wala
What is shia E Ali (a.s) – Ali ( a.s) kay saath Chalna wala