25:44
|
2:31
|
سوال میت کے بعد میں ملا ہوا حصے کا کیا کرنا چائیے - Urdu
سوال جواب ۔۔ کیا میت کا بعد میں ملا ہوا حصہ میت کے جسم سے اسی جگہ ملانا ضروری ہے یا صرف میت پر رکھ دیں؟ اگر دفن...
سوال جواب ۔۔ کیا میت کا بعد میں ملا ہوا حصہ میت کے جسم سے اسی جگہ ملانا ضروری ہے یا صرف میت پر رکھ دیں؟ اگر دفن کیئے ہوئے کافی دن گزر گئے ہیں تو کیا کریں؟
More...
Description:
سوال جواب ۔۔ کیا میت کا بعد میں ملا ہوا حصہ میت کے جسم سے اسی جگہ ملانا ضروری ہے یا صرف میت پر رکھ دیں؟ اگر دفن کیئے ہوئے کافی دن گزر گئے ہیں تو کیا کریں؟
1:59
|
درباری ملّا اور فسادی افراد | امام خمینی رضوان اللہ علیہ | Farsi Sub Urdu
امام خمینی رضوان اللہ علیہ ایسے افراد کو جو دینی القابات اور دینی لبادہ اوڑھ کر حکمرانوں کے شُوم مقاصد کی...
امام خمینی رضوان اللہ علیہ ایسے افراد کو جو دینی القابات اور دینی لبادہ اوڑھ کر حکمرانوں کے شُوم مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم رہتے ہیں ایسے افراد کو \"درباری ملا\" کے نام سے پکارتے ہیں. درباری ملا اسلام کی فقط وہ تصویر پیش کرتے ہیں جو حکمرانوں کی من پسند ہوتی ہے اور اس طرح اسلام کی اس آفاقی اور اجتماعی تصویر کی نفی کرتے ہیں اور اسے چھپاتے ہیں جو انسانوں کی سعادت اور فلاح کی ضمانت فراہم کرتی ہے.
اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #دربای_ملا #فسادی #تبلیغ #تفرقہ #امیر_المومنین #سید_الشہدا #کربلا #تلوار #فکر #فراری #قید
More...
Description:
امام خمینی رضوان اللہ علیہ ایسے افراد کو جو دینی القابات اور دینی لبادہ اوڑھ کر حکمرانوں کے شُوم مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم رہتے ہیں ایسے افراد کو \"درباری ملا\" کے نام سے پکارتے ہیں. درباری ملا اسلام کی فقط وہ تصویر پیش کرتے ہیں جو حکمرانوں کی من پسند ہوتی ہے اور اس طرح اسلام کی اس آفاقی اور اجتماعی تصویر کی نفی کرتے ہیں اور اسے چھپاتے ہیں جو انسانوں کی سعادت اور فلاح کی ضمانت فراہم کرتی ہے.
اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #دربای_ملا #فسادی #تبلیغ #تفرقہ #امیر_المومنین #سید_الشہدا #کربلا #تلوار #فکر #فراری #قید
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
darbar,
mulla,
fesad,
imam,
imam
khomeini,
hukamran,
islam,
pasand,
ejtemaei,
insna,
saeadat,
tabligh,
tafaqa,
karbala,
fekr,
5:59
|
3:45
|
[02 Sep 2016] پاکستان کی طرف سے سعودی وزیر جنگ کو کیا جواب ملا - Urdu
پاکستان کی طرف سے سعودی وزیر جنگ کو کیا جواب ملا ۔ اہم تجزیہ - اندازہ جہاں - 02 ستمبر 2016
تجزیہ نگار : عمر ریاض...
پاکستان کی طرف سے سعودی وزیر جنگ کو کیا جواب ملا ۔ اہم تجزیہ - اندازہ جہاں - 02 ستمبر 2016
تجزیہ نگار : عمر ریاض عباسی پروگرام: اندازہ جہاں - 02 ستمبر 2016
More...
Description:
پاکستان کی طرف سے سعودی وزیر جنگ کو کیا جواب ملا ۔ اہم تجزیہ - اندازہ جہاں - 02 ستمبر 2016
تجزیہ نگار : عمر ریاض عباسی پروگرام: اندازہ جہاں - 02 ستمبر 2016
4:08
|
Video Tags:
Amirca,,Aisa,,kia,,Chata,,Thaa,,Jo,,Usay,,Pakistan,,main,,Nahi,,Mila,,Sahar,,Urdu,,News
48:30
|
[Lecture] Mullah Sadra | Shaksiyat Shanasi | H.I Syed Kazim Abbas Naqvi | Urdu
Mullah Sadra | Shaksiyat Shanasi
ملا صدرا | شخصیت شناسی
Speaker: H.I Syed Kazim Abbas Naqvi
حجۃ الاسلام سید کاظم عباس نقوی
Venue : Masjid Imamia,...
Mullah Sadra | Shaksiyat Shanasi
ملا صدرا | شخصیت شناسی
Speaker: H.I Syed Kazim Abbas Naqvi
حجۃ الاسلام سید کاظم عباس نقوی
Venue : Masjid Imamia, Karachi
بمقام : مسجد امامیہ ، کراچی
More...
Description:
Mullah Sadra | Shaksiyat Shanasi
ملا صدرا | شخصیت شناسی
Speaker: H.I Syed Kazim Abbas Naqvi
حجۃ الاسلام سید کاظم عباس نقوی
Venue : Masjid Imamia, Karachi
بمقام : مسجد امامیہ ، کراچی
1:41
|
درباری ملاؤں سے پہنچنے والا نقصان | امام خمینی رضوان اللہ علیہ | Farsi Sub Urdu
درباری ملا یعنی وہ علمائے سو جو اپنے پست نفسانی مفادات کی خاطر اپنے دین کو، اپنے ضمیر کو فاسق و فاجر حکمرانوں...
درباری ملا یعنی وہ علمائے سو جو اپنے پست نفسانی مفادات کی خاطر اپنے دین کو، اپنے ضمیر کو فاسق و فاجر حکمرانوں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں اور اپنے اس مذموم فعل کی پردہ پوشی اور ظالم، جابر اور فاسق حکمرانوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی خاطر دینی حقیقی تعلیمات کو مختلف توجیہات کے ذریعے بدلنے کے سنگین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں. ایسے ضمیر فروش علما کے لباس میں چھپے ہوئے افراد سے سادہ لوح افراد ان کے ظاہری روپ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں.
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں یہ سننے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#درباری_ملا #امریکہ #نقصان #ظاہری_روپ #زندہ_حج #جرائم_پیشہ #سوویت_یونین #ظالم
More...
Description:
درباری ملا یعنی وہ علمائے سو جو اپنے پست نفسانی مفادات کی خاطر اپنے دین کو، اپنے ضمیر کو فاسق و فاجر حکمرانوں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں اور اپنے اس مذموم فعل کی پردہ پوشی اور ظالم، جابر اور فاسق حکمرانوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی خاطر دینی حقیقی تعلیمات کو مختلف توجیہات کے ذریعے بدلنے کے سنگین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں. ایسے ضمیر فروش علما کے لباس میں چھپے ہوئے افراد سے سادہ لوح افراد ان کے ظاہری روپ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں.
امام خمینی رضوان اللہ علیہ اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں یہ سننے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#درباری_ملا #امریکہ #نقصان #ظاہری_روپ #زندہ_حج #جرائم_پیشہ #سوویت_یونین #ظالم
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
nuqsan,
imam,
imam
khomeini,
mafadat,
faseq,
hukamran,
zalem,
jaber,
taelimat,
America,
2:35
|
ميثم مطيعي جديد 2020 | اربا اربا مثلما الأكبر رحت شهيدا | في رثاء الشه
بعد إحرازها المرتبة الثانية بين القنوات الفعّالة عبر اليوتيوب في إيران و نظراً لشكاوى روّاد اليوتيوب من...
بعد إحرازها المرتبة الثانية بين القنوات الفعّالة عبر اليوتيوب في إيران و نظراً لشكاوى روّاد اليوتيوب من النواصب والدواعش ... تم حذف قناة \"صوت الأهواز\"
ولأجل كلّ من دعمَنا من خلال اشتراكه المجاني بالقناة ومشاهدته للمقاطع ونشره للروابط في واتساب وتليغرام وآبارات، تم افتتاح قناة جديدة، فنرجو من الجميع دعم هذه القناة كما فعلوا سابقاً بالاشتراك و النشر و التوزيع.
https://www.youtube.com/channel/UCyDTY794sIrzIovVMebCD8Q?sub_confirmation=1
🔘 🔘
صوت الأهواز Ahwaz Voice
-----------------------------
صفحة صوت الأهواز : https://www.facebook.com/AhvazVoice
شبکه صدای اهواز در آپارات : http://www.aparat.com/AhvazVoice
للإشتراك عبر التلغرام : https://telegram.me/AhvazVoice
------------------------------------------------
خرمشهر / المحمرة / مسجد جامع / آبادان / عبادان / الأحواز / الأهواز / احواز / اهواز / بوشهر / خوزستان / عربستان / سوسنگرد / الحويزة / دشت آزادگان / دزفول / أميديه / بهبهان/ بندر ماهشهر / شادگان / الفلاحيه/ رامهرمز / رامز / ثورة الأحواز العربية / ثورة الأهواز العربية / الحسينية العدنانية / ملا موسی العتيقي / راضي الفيصلي / عزيز الفيصلي / الرادود نعيم الرشيدي/ الرادود سيد عقيل الموسوي / منتديات الأحواز العربي / المقاومة الوطنية الأحوازية/ طهران / تهران / شيراز / أصفهان / مشهد المقدسة / قم المقدسة /صوت الأهواز / قناة صوت الأحواز/ ابو نزار المحمرة / طه الدليمي / قناة الأهواز الفضائية / شبکه جهانی اهواز / ملا حسن الأميري / ملا حسن الامیری ... عدنان العرعور ... الدمشقية ... الكلباني .... السنة .. الشيعة.. العبيكان ... مقتدى الصدر ... الشيخ الكوراني... السيد السيستاني.. الدراجي .. التميمي .. السعودي .. العراقي .. الأهوازي .. الأحواز .. المحمرة .. خرمشهر .. عبادان .. آبادان .. غرفة ديوان الأحواز العربي .. غرفة الغدير .. غرفة علي مع الحق .. غرفة نور العترة .. يا حسين .. لبنان الوعد الصادق .. غرفة حراس العقيدة .. غرفة انصار آل محمد .. ثورة تونس .. ثورة ليبيا .. ثورة البحرين .. ثورة الأردن .. ثورة الأحواز العربية .. ثورة السعودية .. ثورة اليمن .. ثورة مصر .. ثائر الدراجي .. الشيخ علي الكوراني...الشيخ المهاجر الصدر .باسم الكربلائي ..ياسر الحبيب..كمال الحيدي ..حسن خانجي / حسن خانچی ... محسن ..جليل ... السيستاني ... السيد حسن نصر الله..عاشوراء الحسين .. و يبقی الحسين / عبدالحميد المهاجر/ السيد علي السيستاني / السيد كمال الحيدري / السيد محمد باقر الفالي / الشيخ عبد الرضا معاش / الشيخ هاني شعبان / الشيخ الدكتور احمد الوائلي / السيد محمد رضا الشيرازي / السيد جاسم الطويرجاوي / الشيخ مهدي الطرفي / السيد نصرات قشاقش / الشيخ حيدر المولى / شيخ حسين الأكرف / قناة الكوفي / جليل الكربلائي / قحطان البديري أحمد الباوي / احمد جميعان / امير الكاظمي / حجاز / شبكة شبير عليه السلام المرئية / مسلسل باب المراد / تحميل مسلسل باب المراد/ مشاهدة مسلسل باب المراد / مسلسل القربان / فیلم روز رستاخیز/ الفيلم الإیراني محمد رسول الله / سيد كريم الموسوي / سید کریم الموسوی / مشاهدة فيلم القربان / مشاهدة مسلسل القربان
#أشترك_بالقناة_وفعل_جرس_التنبيهات_ليصلك_كل_جديد
More...
Description:
بعد إحرازها المرتبة الثانية بين القنوات الفعّالة عبر اليوتيوب في إيران و نظراً لشكاوى روّاد اليوتيوب من النواصب والدواعش ... تم حذف قناة \"صوت الأهواز\"
ولأجل كلّ من دعمَنا من خلال اشتراكه المجاني بالقناة ومشاهدته للمقاطع ونشره للروابط في واتساب وتليغرام وآبارات، تم افتتاح قناة جديدة، فنرجو من الجميع دعم هذه القناة كما فعلوا سابقاً بالاشتراك و النشر و التوزيع.
https://www.youtube.com/channel/UCyDTY794sIrzIovVMebCD8Q?sub_confirmation=1
🔘 🔘
صوت الأهواز Ahwaz Voice
-----------------------------
صفحة صوت الأهواز : https://www.facebook.com/AhvazVoice
شبکه صدای اهواز در آپارات : http://www.aparat.com/AhvazVoice
للإشتراك عبر التلغرام : https://telegram.me/AhvazVoice
------------------------------------------------
خرمشهر / المحمرة / مسجد جامع / آبادان / عبادان / الأحواز / الأهواز / احواز / اهواز / بوشهر / خوزستان / عربستان / سوسنگرد / الحويزة / دشت آزادگان / دزفول / أميديه / بهبهان/ بندر ماهشهر / شادگان / الفلاحيه/ رامهرمز / رامز / ثورة الأحواز العربية / ثورة الأهواز العربية / الحسينية العدنانية / ملا موسی العتيقي / راضي الفيصلي / عزيز الفيصلي / الرادود نعيم الرشيدي/ الرادود سيد عقيل الموسوي / منتديات الأحواز العربي / المقاومة الوطنية الأحوازية/ طهران / تهران / شيراز / أصفهان / مشهد المقدسة / قم المقدسة /صوت الأهواز / قناة صوت الأحواز/ ابو نزار المحمرة / طه الدليمي / قناة الأهواز الفضائية / شبکه جهانی اهواز / ملا حسن الأميري / ملا حسن الامیری ... عدنان العرعور ... الدمشقية ... الكلباني .... السنة .. الشيعة.. العبيكان ... مقتدى الصدر ... الشيخ الكوراني... السيد السيستاني.. الدراجي .. التميمي .. السعودي .. العراقي .. الأهوازي .. الأحواز .. المحمرة .. خرمشهر .. عبادان .. آبادان .. غرفة ديوان الأحواز العربي .. غرفة الغدير .. غرفة علي مع الحق .. غرفة نور العترة .. يا حسين .. لبنان الوعد الصادق .. غرفة حراس العقيدة .. غرفة انصار آل محمد .. ثورة تونس .. ثورة ليبيا .. ثورة البحرين .. ثورة الأردن .. ثورة الأحواز العربية .. ثورة السعودية .. ثورة اليمن .. ثورة مصر .. ثائر الدراجي .. الشيخ علي الكوراني...الشيخ المهاجر الصدر .باسم الكربلائي ..ياسر الحبيب..كمال الحيدي ..حسن خانجي / حسن خانچی ... محسن ..جليل ... السيستاني ... السيد حسن نصر الله..عاشوراء الحسين .. و يبقی الحسين / عبدالحميد المهاجر/ السيد علي السيستاني / السيد كمال الحيدري / السيد محمد باقر الفالي / الشيخ عبد الرضا معاش / الشيخ هاني شعبان / الشيخ الدكتور احمد الوائلي / السيد محمد رضا الشيرازي / السيد جاسم الطويرجاوي / الشيخ مهدي الطرفي / السيد نصرات قشاقش / الشيخ حيدر المولى / شيخ حسين الأكرف / قناة الكوفي / جليل الكربلائي / قحطان البديري أحمد الباوي / احمد جميعان / امير الكاظمي / حجاز / شبكة شبير عليه السلام المرئية / مسلسل باب المراد / تحميل مسلسل باب المراد/ مشاهدة مسلسل باب المراد / مسلسل القربان / فیلم روز رستاخیز/ الفيلم الإیراني محمد رسول الله / سيد كريم الموسوي / سید کریم الموسوی / مشاهدة فيلم القربان / مشاهدة مسلسل القربان
#أشترك_بالقناة_وفعل_جرس_التنبيهات_ليصلك_كل_جديد
8:54
|
حصرياً / ينشر لأول مرة - قراءة دعاء كميل بصوت الشهيد الفريق قاسم - Ara
Qassem Soleimani reads Dua Kumayl
بعد إحرازها المرتبة الثانية بين القنوات الفعّالة عبر اليوتيوب في إيران و نظراً لشكاوى...
Qassem Soleimani reads Dua Kumayl
بعد إحرازها المرتبة الثانية بين القنوات الفعّالة عبر اليوتيوب في إيران و نظراً لشكاوى روّاد اليوتيوب من النواصب والدواعش ... تم حذف قناة \"صوت الأهواز\"
ولأجل كلّ من دعمَنا من خلال اشتراكه المجاني بالقناة ومشاهدته للمقاطع ونشره للروابط في واتساب وتليغرام وآبارات، تم افتتاح قناة جديدة، فنرجو من الجميع دعم هذه القناة كما فعلوا سابقاً بالاشتراك و النشر و التوزيع.
https://www.youtube.com/channel/UCyDTY794sIrzIovVMebCD8Q?sub_confirmation=1
🔘 قراءة دعاء كميل بصوت الشهيد الفريق قاسم سليماني 🔘
صوت الأهواز Ahwaz Voice
-----------------------------
صفحة صوت الأهواز : https://www.facebook.com/AhvazVoice
شبکه صدای اهواز در آپارات : http://www.aparat.com/AhvazVoice
للإشتراك عبر التلغرام : https://telegram.me/AhvazVoice
------------------------------------------------
خرمشهر / المحمرة / مسجد جامع / آبادان / عبادان / الأحواز / الأهواز / احواز / اهواز / بوشهر / خوزستان / عربستان / سوسنگرد / الحويزة / دشت آزادگان / دزفول / أميديه / بهبهان/ بندر ماهشهر / شادگان / الفلاحيه/ رامهرمز / رامز / ثورة الأحواز العربية / ثورة الأهواز العربية / الحسينية العدنانية / ملا موسی العتيقي / راضي الفيصلي / عزيز الفيصلي / الرادود نعيم الرشيدي/ الرادود سيد عقيل الموسوي / منتديات الأحواز العربي / المقاومة الوطنية الأحوازية/ طهران / تهران / شيراز / أصفهان / مشهد المقدسة / قم المقدسة /صوت الأهواز / قناة صوت الأحواز/ ابو نزار المحمرة / طه الدليمي / قناة الأهواز الفضائية / شبکه جهانی اهواز / ملا حسن الأميري / ملا حسن الامیری ... عدنان العرعور ... الدمشقية ... الكلباني .... السنة .. الشيعة.. العبيكان ... مقتدى الصدر ... الشيخ الكوراني... السيد السيستاني.. الدراجي .. التميمي .. السعودي .. العراقي .. الأهوازي .. الأحواز .. المحمرة .. خرمشهر .. عبادان .. آبادان .. غرفة ديوان الأحواز العربي .. غرفة الغدير .. غرفة علي مع الحق .. غرفة نور العترة .. يا حسين .. لبنان الوعد الصادق .. غرفة حراس العقيدة .. غرفة انصار آل محمد .. ثورة تونس .. ثورة ليبيا .. ثورة البحرين .. ثورة الأردن .. ثورة الأحواز العربية .. ثورة السعودية .. ثورة اليمن .. ثورة مصر .. ثائر الدراجي .. الشيخ علي الكوراني...الشيخ المهاجر الصدر .باسم الكربلائي ..ياسر الحبيب..كمال الحيدي ..حسن خانجي / حسن خانچی ... محسن ..جليل ... السيستاني ... السيد حسن نصر الله..عاشوراء الحسين .. و يبقی الحسين / عبدالحميد المهاجر/ السيد علي السيستاني / السيد كمال الحيدري / السيد محمد باقر الفالي / الشيخ عبد الرضا معاش / الشيخ هاني شعبان / الشيخ الدكتور احمد الوائلي / السيد محمد رضا الشيرازي / السيد جاسم الطويرجاوي / الشيخ مهدي الطرفي / السيد نصرات قشاقش / الشيخ حيدر المولى / شيخ حسين الأكرف / قناة الكوفي / جليل الكربلائي / قحطان البديري أحمد الباوي / احمد جميعان / امير الكاظمي / حجاز / شبكة شبير عليه السلام المرئية / مسلسل باب المراد / تحميل مسلسل باب المراد/ مشاهدة مسلسل باب المراد / مسلسل القربان / فیلم روز رستاخیز/ الفيلم الإیراني محمد رسول الله / سيد كريم الموسوي / سید کریم الموسوی / مشاهدة فيلم القربان / مشاهدة مسلسل القربان
#أشترك_بالقناة_وفعل_جرس_التنبيهات_ليصلك_كل_جديد
More...
Description:
Qassem Soleimani reads Dua Kumayl
بعد إحرازها المرتبة الثانية بين القنوات الفعّالة عبر اليوتيوب في إيران و نظراً لشكاوى روّاد اليوتيوب من النواصب والدواعش ... تم حذف قناة \"صوت الأهواز\"
ولأجل كلّ من دعمَنا من خلال اشتراكه المجاني بالقناة ومشاهدته للمقاطع ونشره للروابط في واتساب وتليغرام وآبارات، تم افتتاح قناة جديدة، فنرجو من الجميع دعم هذه القناة كما فعلوا سابقاً بالاشتراك و النشر و التوزيع.
https://www.youtube.com/channel/UCyDTY794sIrzIovVMebCD8Q?sub_confirmation=1
🔘 قراءة دعاء كميل بصوت الشهيد الفريق قاسم سليماني 🔘
صوت الأهواز Ahwaz Voice
-----------------------------
صفحة صوت الأهواز : https://www.facebook.com/AhvazVoice
شبکه صدای اهواز در آپارات : http://www.aparat.com/AhvazVoice
للإشتراك عبر التلغرام : https://telegram.me/AhvazVoice
------------------------------------------------
خرمشهر / المحمرة / مسجد جامع / آبادان / عبادان / الأحواز / الأهواز / احواز / اهواز / بوشهر / خوزستان / عربستان / سوسنگرد / الحويزة / دشت آزادگان / دزفول / أميديه / بهبهان/ بندر ماهشهر / شادگان / الفلاحيه/ رامهرمز / رامز / ثورة الأحواز العربية / ثورة الأهواز العربية / الحسينية العدنانية / ملا موسی العتيقي / راضي الفيصلي / عزيز الفيصلي / الرادود نعيم الرشيدي/ الرادود سيد عقيل الموسوي / منتديات الأحواز العربي / المقاومة الوطنية الأحوازية/ طهران / تهران / شيراز / أصفهان / مشهد المقدسة / قم المقدسة /صوت الأهواز / قناة صوت الأحواز/ ابو نزار المحمرة / طه الدليمي / قناة الأهواز الفضائية / شبکه جهانی اهواز / ملا حسن الأميري / ملا حسن الامیری ... عدنان العرعور ... الدمشقية ... الكلباني .... السنة .. الشيعة.. العبيكان ... مقتدى الصدر ... الشيخ الكوراني... السيد السيستاني.. الدراجي .. التميمي .. السعودي .. العراقي .. الأهوازي .. الأحواز .. المحمرة .. خرمشهر .. عبادان .. آبادان .. غرفة ديوان الأحواز العربي .. غرفة الغدير .. غرفة علي مع الحق .. غرفة نور العترة .. يا حسين .. لبنان الوعد الصادق .. غرفة حراس العقيدة .. غرفة انصار آل محمد .. ثورة تونس .. ثورة ليبيا .. ثورة البحرين .. ثورة الأردن .. ثورة الأحواز العربية .. ثورة السعودية .. ثورة اليمن .. ثورة مصر .. ثائر الدراجي .. الشيخ علي الكوراني...الشيخ المهاجر الصدر .باسم الكربلائي ..ياسر الحبيب..كمال الحيدي ..حسن خانجي / حسن خانچی ... محسن ..جليل ... السيستاني ... السيد حسن نصر الله..عاشوراء الحسين .. و يبقی الحسين / عبدالحميد المهاجر/ السيد علي السيستاني / السيد كمال الحيدري / السيد محمد باقر الفالي / الشيخ عبد الرضا معاش / الشيخ هاني شعبان / الشيخ الدكتور احمد الوائلي / السيد محمد رضا الشيرازي / السيد جاسم الطويرجاوي / الشيخ مهدي الطرفي / السيد نصرات قشاقش / الشيخ حيدر المولى / شيخ حسين الأكرف / قناة الكوفي / جليل الكربلائي / قحطان البديري أحمد الباوي / احمد جميعان / امير الكاظمي / حجاز / شبكة شبير عليه السلام المرئية / مسلسل باب المراد / تحميل مسلسل باب المراد/ مشاهدة مسلسل باب المراد / مسلسل القربان / فیلم روز رستاخیز/ الفيلم الإیراني محمد رسول الله / سيد كريم الموسوي / سید کریم الموسوی / مشاهدة فيلم القربان / مشاهدة مسلسل القربان
#أشترك_بالقناة_وفعل_جرس_التنبيهات_ليصلك_كل_جديد
93:04
|
KHAMSA MAJALIS AT MASOMIN PS BADAH | KARBALA KI TAREEKH AUR BOOKS | SYED HUSSAIN MOOSAVI | SINDHI
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم...
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
60:42
|
| Jashn e Wiladat Imam Ali Raza a.s | Shia kon? Imam Baqir ki Hadith I HIWM Syed Ali Murtaza zaidi I Karachi | 11 June 2022 - Urdu
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت...
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت سے نوازا ہے۔ آج کا مبارک اور نورانی دن ہے امام علی رضا کی ولادت کا دن ہے۔ امام کے القاب میں سے ایک لقب یا معین االضعفا و لفقرا ہے ہے جس کی معنی ہے ضعیفوں اور وطن سے دور لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں۔
آج کا دن امام علی رضا سے عیدی حاصل کرنے کا دن ہے۔ ہم اس دنیا کے اندر چند دن رہیں گے اور کہیں جائیں گے یہ چند دن امتحان ہیں اس امتحان کو گذارنے کیلئے ہم کو اہلبیت کی مودت دے۔ ہم سے اللہ پاک نے کچھ امتحان چاہے تھے۔ ہم سے جو خدا نے چاہا ہم نے سمجھا کہ اس کا امتحان نہیں ہوگا اور جو خدا نے نہیں چاہا ہم نے سمجھا کہ اصل امتحان اس کا ہوگا۔
نھج البلاغہ سے سیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھا۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کیا چاہا تھا کہ یہ واجب ہے اور ہم کس کو واجب سمجھتے ہیں؟
کوئی آدمی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس کو دے گا۔
انسان کسی کام میں مہارت کس طرح لیتا ہے؟۔ مجھے بولتے ہوئے پچیس برس ہوئے ہیں۔ جو بچپنے میں سنتے تھے اب وہ بچوں والے ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر کس کام کو دس ہزار گھنٹے بجا لائے تو وہ اس میں ماہر ہوجاتا ہے۔ ایک کرکیٹر نے کہا کہ میں روزانہ300بالیں کھیلتا ہوں۔ جو محنت کرے گا وہ بن جائیگا۔
آپ زندگی کا اصل وقت کہاں لگا رہے ہو، اگر کوئی بچہ روزانہ 8 گھنۓ وڈیو گیم کھیلتا ہے تو اس نے اس کام کو واجب سمجھا ہوا ہے۔ ایک آدمی کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ سو رہا ہے تو اس نے سونا واجب سمجھا ہوا ہے۔ دیہات میں ایک چائے کے کپ پر لوگ دو فلمیں دیکھتے ہیں اس کی زندگی میں یہ واجب ہے۔ اس کی قیمت وہ چیز ہے جس کو اس نے واجب سمجھا ہے جس بچے نے گیم کو واجب سمجھا ہے اس کی قیمت وڈیو گیم ہے۔ آپ تلاش کریں کہ آپ کی زندگی میں کیا واجب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز کو واجب سمجھا جاتا ہے کمانے کو واجب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اچھا کما لے تو صحی اگر اچھا نہ کما سکے تو وہ صحی نہیں۔ معاشرے اور مساجد میں عزت اس کو ملتی ہے جو زیادہ کماتا ہے۔ ہم جس نماز کو واجب سمجھتے ہیں اس کی محفل میں بھی ہم واجب اس کو سمجھتے ہیں اور عزت اس کو دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کمانا واجب نہیں کیا تھا۔ خدا نے حلال کمانا واجب کیا تھا یا رزق پہنچانے کا واعدہ کیا تھا۔ خدا نے کمانا واجب نہیں کیا ہے اس نے \"محنت کرنا\" واجب کیا ہے اور رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔
ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کر رہے رزق ہم دیں گے۔
جو کماتا اس کو عزت دیں گے۔ جو بچا کما کر نہیں لائے اس کو احترام کم دیتے ہیں۔ رزق کا واعدہ خدا پر ہے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے حلال کمائیں۔ کمانا ذمیداری نہیں ہے محنت کرنا ذمیداری ہے۔
اللہ پاک نے کیا واجب کیا تھا۔ نماز، روزہ، حج واجب کیا تھا۔ جب میں فروع دین گنواتا ہوں تو حج تک بس کر لیتا ہوں ، زکوات اور خمس کی بات کروں گا تو آپ کا موڈ خراب ہوجائیگا۔ جہاد کی بات کی تو پھر ساری دنیا مخالف ہوجائیگی۔ ان سے زیادہ کچھ اور واجب ہے۔
میں طالبعلم رہا ۔ 17 برس میں طالبعلم رہا اب 55 برس کا ہوں اگر مجھ میں اور دوسرے میں فرق نہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہو تم نے وقت کہاں گذارا ؟
بچے اسکول میں جائیں گے۔ کچھ جابس میں کچھ کاروبار اور کچھ پرائیوٹ جاب کریں گے۔ ہمارے دوست بھی رشوت لیتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ اپنے آپ سے سوال کریں۔ ہم اہلبیت کے ماننے والے ہیں فرق کہاں ہونا چاہئے۔ ہم چند فرق بیان کریں گے۔
معصومیں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماننے والے کو کیسے پہچانیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ میں نے ملک کے صدر سے رشتہ جورا وہ مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میں ہاتھ کھولتا ہوں اور روزہ پانچ منٹ دیر سے کھولتا ہوں یہ رشتہ انہوں نے دیا ہے؟ یا ہم نے بنایا ہے
آئمہ ہم کو کب اپنا مانتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن گذاریں اور اہلبیت کی ایک روایت بھی نہیں پڑہی تو آپ نے زندگی کا ایک دن ضائع کیا۔ تم خزانے پر بیٹھے تھے اور کہا کہ میں فقیر ہوں میں فقیر ہوں مگر اس خزانے سے کچھ نہیں لیا۔ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں۔ کیا ہم احمق ہیں؟ جو اہلبیت نے خزانہ دیا ہے اس کو ہم نے پڑہا ہے؟۔ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے من لا یحضر الفقیہ جس کی معنی ہیں جب فقیہ نہ ہو۔ ہم نے کبھی پڑہی ہے۔
مولا علی ع نے 250 خطبے مدرسوں میں بیٹھ کر دیئے بلکہ یہ بازار، مسجد، میدان جنگ میں دیئے ہیں ۔ کیا مولا کی وہ گیدہرنگ سلیکٹیڈ تھی۔ دنیا کے علم پڑہنے کو تیار ہیں مگر نہیں پڑہ رہے تو ان کا علم۔ کاش دنیا میں ہی بہتر ہوجاتے وہ بھی نہیں بنائی؟ ہم دعویدار ہیں کہ ان کے ماننے والے ہیں۔
لإمام الباقر (عليه السلام):
🔰«كيف من انتحل قول الشيعة و أحبنا أهل البيت؟ فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ و أطاعه، و ما كانوا يُعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشّع والإنابة و كثرة ذكر اللّہ والصوم و الصلاة و البرّ بالوالدين وتعاهد الجيران من الفقراء و ذوي المسكنة والغارمين و الأيتام، وصدق الحديث وتلاوة القرآن وكفّ الألسن عن الناس الا من خير.» (السرائر ٣-٣٣٦)
🔹ای جابر!جو شخص شیعہ ہونے کا دعویدار ہے کیا اُس کیلئے کافی ہے کہ وہ صرف ہم اھلبیت علیھم السّلام کی محبّت کا دم بھرے؟! اللّہ کی قسم!ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقوا اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے۔اے جابر!انہیں پہچانا نہیں جاتا مگر انکساری ،خشوع،امانت داری،ذکرالٰہی میں کثرت،روزہ،نماز،والدین کے ساتھ نیکی،پڑوسیوں فقیروں در ماندہ افراد قرضداروں اور یتتموں سے اچھا سلوک،سچی بات،قرآن کی تلاوت اور اپنی زبانوں کو صرف لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے علاوہ روکنے سے پہچانا جاتا ہے-
پیسہ کا تکبر دکھائیں گے؟ دنیا میں پاکیزہ چیزیں علم اور تقوی ہے اگر ان پر بھی تکبر دکھائے تو ذلیل ہے۔ پیسہ پست چیز ہے جو اس پر تکبر دکھائے وہ تو ذلیل پھر ذلیل ہے۔ دنیا میں پاکیزہ علم اور تقوی پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام شیطان کے برابر ہے۔ دولت اور ذلیلوں کے درمیان شہرت پانے پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام کیا ہے یہ تو گندی نالی کے کیڑے کے برابر ہے۔ ایمانداروں میں شہرت دکھائے۔
خوف خدا کیا ہےَ حج پر جائیں بدترین لوگ بھی ادہر توبہ کریں گے۔ منی کے میدان توبہ کرتے ہیں۔ بھائی جب تنھائی میں گناہ کرتے ہو خدا یاد آتا ہے کہ نہیں۔ کمزور کے سامنے کھڑے ہو کر گناہ نہ کرو۔ سب کے سامنے رہ کر پاکیزہ رہنا نہیں بلکہ اکیلے رہ کر پاکیزہ رہنا۔۔ کسی نے کہا کہ یہ چیز لو گے 100 کی ملے گی میں نے وہ چیز 95 کی لوں اور رسید بنوائوں 100 روہے کی۔ دوسرے کو 100 میں دی۔ میں نے 5 روپے پر اپنا دین بیچا ہے کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کو خدا جانتا ہے اور میں نے اس پر بھروسہ کیا تھا مگر اس نے 5 روپے کا چونا لگانے کا موقع ملا تو اس نے 5 روپے کا چونا لگایا۔ ہم کہتے ہیں سیاستدان ذلیل ہیں۔ تم کو 5 روپے کھانے کا موقع ملا تھا تم نہیں چھوڑا تھا۔ ان کو کیوں گالیاں دے رہے ہو؟۔ عالم یہ ہے کہ مسجد کے کام کیلئے کسی کو 4 روپے دو تو بھول جائو۔ جب تک یہ پورا بل نہیں بنائےگا واپس نہیں آئیگا۔
اس کے بعد ہم کہیں کہ ہم کو خوف خدا ہے۔ کسی آدمی کی عزت میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا۔ خوف خدا کسی کی عزت کو چھپانا ہوتا ہے یا اچھالنا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے تھوڑی رقم پر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
ضیاالحق کی معنی ہیں حق کی روشنی ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ نام غلط بندے کیساتھ لگ گیا اب کوئی رکھے گا یہ نام؟ ہم نے زندگی میں صرف دو بار خدا سے سرگوشیوں میں بات کی ہے۔ کیا ہم تنھائی میں خدا سے کلام کرتے ہیں؟۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں عالم اور کتاب نہیں ہیں۔ تم خدا سے کلام کرو تم کو کیا چاہئے؟ اکیلے میں بیٹھو اللہ سے کلام کرو۔ کیوں نہیں کرتے۔ دماغ میں اتنی اور چیزیں بھری ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خدا سے سجدے میں کلام کریں۔ ایک منٹ سجدہ میں گذرا تو دیکھیں۔ ہمارے دماغ میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے کہ اس میں خدا نہیں آسکتا۔ لوگ سنتے سنتے بوڑہے ہوگئے تو پھر ہم نے ان کو کیا سکھایا؟
٭ذکر خدا اس کو کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کام کروں تو اللہ یاد آئے۔ ذکر کو انگریزی میں ریمائنڈر کہتے ہیں جس کی معنی ہیں یاد دلانا۔ اس کو بار بار یاد آئے کہ خدا ہے۔ ادہر ( مسجد میں ) اللہ یاد آے کمال ہے یا باہر اللہ یاد آئے کیا کمال ہے؟ یہ مہارت نہیں بلکہ باہر خدا یاد آتا یے؟۔ مسکین بندہ آپ کے پاس آیا۔ یاد آیا خدا کے کمزور پر رحم کرنا، رشتیداروں میں بھی طاقتور اور کمزور کون ہے یہ سب پیسے پر ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ خاندان میں بڑا کون ہے۔ اب طاقتور کون ہے اس نے بول دیا تو اس کی چلے گی۔ طاقت کے بل پر احترام ملے تو یہ کمینے پن کا زمانہ ہے۔ دولت چوری سے آتی ہے۔ ہم دین کے نام پر بھی وہ سننا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
والدین سے نیکی کرنا کوئی زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں سے برائی کرتے تھے مگر والدین اور بیوی بچوں سے برائی نہیں کرتے تھے۔ اب وہ کیمنے پن کا زمانہ ہے کہ انسان صرف اپنے آپ سے باوفا ہے۔ جو ہم کو ان مسائل سے نکال سکتے ہیں ان سے ہمارا تمسک نہیں ہے۔ ہمارا اہلبیت سے تمسک رہ گیا ہے صرف دینا لینے کیلئے۔ ہم علم پر، زیارتوں پھی جاتے ہیں دنیا لینے کیلئے۔ کیا خدا نے ان کو دنیا دینے کیلئے بھیجا تھا۔ ہمارا تعلق کونسا ہے۔
ہمارے ہاں کمزوروں اور مسکیوں کی مدد کرتا ہے واٹس اپ پر ڈالتا ہے۔ کوئی کام کرتا ہے اس کے نیچے تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے۔ اللہ کیلئے تھا تو تختی پر نام کیوں؟ مرحوم کے فاتحہ کیلئے نام نہ لیا تو ناراض۔ کیا فرشتوں کو حساب کتاب میں بھول ہوتی ہے؟۔
دین خدا میں اللہ نیکیاں دیکھتا ہے۔ دکھاوا کریں کوئی ثواب نہیں ملے گا تم نے دکھاوے کیلئے کیا وہ مل گیا۔ میرے پاس مسکین آگیا تو میں نے نہیں دینا ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ جب بڑی گاڑی والے نے مانگا تو دے دیا۔ میرا دینا خدا کیلئے نہیں تھا۔ ہمارے پاس چند ظاہری چیزیں رہ گئی ہیں۔ دین کی روح \"نکلی\" ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں روش خدائی نہیں ہے۔ مادہ پرستوں کے پاس جو پیسا دے گا اس کو فنڈ ریز کرنے کیلئے جو اتنے پیسے دے گا۔ آسٹریلیا میں دعائے کمیل کیلئے 50 ڈالر کا ٹکٹ رکھا گیا کہ جو 50 ڈالر کا ٹکٹ خریدے گا پڑہنے والے کے پیچھے بیٹھے گا۔ دعا کمیل میں کہاں بیٹھے گا اس کا ٹکٹ ہوگا۔ یہ ہو رہا ہے۔ یہ عالم ہےاس نے لوگوں کے دلوں میں ہے کہ عزت اس وجہ سے جو پیسا زیادہ دے گا اس کو زیادہ عزت ملے گا۔ اس کو آفیشل کردیا۔
1970 میں میڈیا فحش نہیں تھا اب کیوں ہے؟۔ اگر لوگوں میں فحاشی کی طلب نہ ہو تو وہ نہ دکھائیں۔ اب میڈیا فحش اس لیے ہے کہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے دکھا رہے ہیں کہ اس کو دیکھا جا رہا ہے۔ معاشرے سے فحاشی ختم کرنی ہے تو پہلے اپنی دل سے فحاشی نکالیں۔
اگر کسی بچی کو پتا چل جائے کہ بے حیائی سے اس کی بے عزتی ہوگی تو وہ بے حیائی کرے گی؟ وہ میک اپ کرتی ہی اس لئے ہے کہ اس کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔ میک اپ کر کے بن سنور کر نکلوں گی تو بے عزتی ہوگئ تو وہ بن سنور کر نکلے گی؟
اس کی زبان سے لوگوں کو برائی نہیں ملے گی، ہمارے گھروں میں بچوں کو گالیاں دیتا ہے بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا ہم لوگ شیعہ ہیں
آپ ان احادیث کو پڑہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے آپ کی معاشرے میں بے عزتی ہوگی؟ معاشرہ سچوں کو پسند کرتا ہے تکبر نہ کرنے والوں کو اچھا سمجھتا۔
امام حسن ع کی حدیث ہے کہ اے جوانوں خدا کی قسم ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دین کے پیچھے گیا ہو تو خدا نے اس کو دنیا بھی دے دی ہو اور خدا کی قسم ہم نے نہیں دیکھا کہ جس نے دنیا مانگی ہو اس کو دین بھی ملا ہو۔
جو دین کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے اور جو دنیا کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے۔
استاد محترم حجتہ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی کے درس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت سے نوازا ہے۔ آج کا مبارک اور نورانی دن ہے امام علی رضا کی ولادت کا دن ہے۔ امام کے القاب میں سے ایک لقب یا معین االضعفا و لفقرا ہے ہے جس کی معنی ہے ضعیفوں اور وطن سے دور لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں۔
آج کا دن امام علی رضا سے عیدی حاصل کرنے کا دن ہے۔ ہم اس دنیا کے اندر چند دن رہیں گے اور کہیں جائیں گے یہ چند دن امتحان ہیں اس امتحان کو گذارنے کیلئے ہم کو اہلبیت کی مودت دے۔ ہم سے اللہ پاک نے کچھ امتحان چاہے تھے۔ ہم سے جو خدا نے چاہا ہم نے سمجھا کہ اس کا امتحان نہیں ہوگا اور جو خدا نے نہیں چاہا ہم نے سمجھا کہ اصل امتحان اس کا ہوگا۔
نھج البلاغہ سے سیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھا۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کیا چاہا تھا کہ یہ واجب ہے اور ہم کس کو واجب سمجھتے ہیں؟
کوئی آدمی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس کو دے گا۔
انسان کسی کام میں مہارت کس طرح لیتا ہے؟۔ مجھے بولتے ہوئے پچیس برس ہوئے ہیں۔ جو بچپنے میں سنتے تھے اب وہ بچوں والے ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر کس کام کو دس ہزار گھنٹے بجا لائے تو وہ اس میں ماہر ہوجاتا ہے۔ ایک کرکیٹر نے کہا کہ میں روزانہ300بالیں کھیلتا ہوں۔ جو محنت کرے گا وہ بن جائیگا۔
آپ زندگی کا اصل وقت کہاں لگا رہے ہو، اگر کوئی بچہ روزانہ 8 گھنۓ وڈیو گیم کھیلتا ہے تو اس نے اس کام کو واجب سمجھا ہوا ہے۔ ایک آدمی کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ سو رہا ہے تو اس نے سونا واجب سمجھا ہوا ہے۔ دیہات میں ایک چائے کے کپ پر لوگ دو فلمیں دیکھتے ہیں اس کی زندگی میں یہ واجب ہے۔ اس کی قیمت وہ چیز ہے جس کو اس نے واجب سمجھا ہے جس بچے نے گیم کو واجب سمجھا ہے اس کی قیمت وڈیو گیم ہے۔ آپ تلاش کریں کہ آپ کی زندگی میں کیا واجب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز کو واجب سمجھا جاتا ہے کمانے کو واجب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اچھا کما لے تو صحی اگر اچھا نہ کما سکے تو وہ صحی نہیں۔ معاشرے اور مساجد میں عزت اس کو ملتی ہے جو زیادہ کماتا ہے۔ ہم جس نماز کو واجب سمجھتے ہیں اس کی محفل میں بھی ہم واجب اس کو سمجھتے ہیں اور عزت اس کو دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کمانا واجب نہیں کیا تھا۔ خدا نے حلال کمانا واجب کیا تھا یا رزق پہنچانے کا واعدہ کیا تھا۔ خدا نے کمانا واجب نہیں کیا ہے اس نے \"محنت کرنا\" واجب کیا ہے اور رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔
ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کر رہے رزق ہم دیں گے۔
جو کماتا اس کو عزت دیں گے۔ جو بچا کما کر نہیں لائے اس کو احترام کم دیتے ہیں۔ رزق کا واعدہ خدا پر ہے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے حلال کمائیں۔ کمانا ذمیداری نہیں ہے محنت کرنا ذمیداری ہے۔
اللہ پاک نے کیا واجب کیا تھا۔ نماز، روزہ، حج واجب کیا تھا۔ جب میں فروع دین گنواتا ہوں تو حج تک بس کر لیتا ہوں ، زکوات اور خمس کی بات کروں گا تو آپ کا موڈ خراب ہوجائیگا۔ جہاد کی بات کی تو پھر ساری دنیا مخالف ہوجائیگی۔ ان سے زیادہ کچھ اور واجب ہے۔
میں طالبعلم رہا ۔ 17 برس میں طالبعلم رہا اب 55 برس کا ہوں اگر مجھ میں اور دوسرے میں فرق نہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہو تم نے وقت کہاں گذارا ؟
بچے اسکول میں جائیں گے۔ کچھ جابس میں کچھ کاروبار اور کچھ پرائیوٹ جاب کریں گے۔ ہمارے دوست بھی رشوت لیتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ اپنے آپ سے سوال کریں۔ ہم اہلبیت کے ماننے والے ہیں فرق کہاں ہونا چاہئے۔ ہم چند فرق بیان کریں گے۔
معصومیں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماننے والے کو کیسے پہچانیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ میں نے ملک کے صدر سے رشتہ جورا وہ مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میں ہاتھ کھولتا ہوں اور روزہ پانچ منٹ دیر سے کھولتا ہوں یہ رشتہ انہوں نے دیا ہے؟ یا ہم نے بنایا ہے
آئمہ ہم کو کب اپنا مانتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن گذاریں اور اہلبیت کی ایک روایت بھی نہیں پڑہی تو آپ نے زندگی کا ایک دن ضائع کیا۔ تم خزانے پر بیٹھے تھے اور کہا کہ میں فقیر ہوں میں فقیر ہوں مگر اس خزانے سے کچھ نہیں لیا۔ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں۔ کیا ہم احمق ہیں؟ جو اہلبیت نے خزانہ دیا ہے اس کو ہم نے پڑہا ہے؟۔ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے من لا یحضر الفقیہ جس کی معنی ہیں جب فقیہ نہ ہو۔ ہم نے کبھی پڑہی ہے۔
مولا علی ع نے 250 خطبے مدرسوں میں بیٹھ کر دیئے بلکہ یہ بازار، مسجد، میدان جنگ میں دیئے ہیں ۔ کیا مولا کی وہ گیدہرنگ سلیکٹیڈ تھی۔ دنیا کے علم پڑہنے کو تیار ہیں مگر نہیں پڑہ رہے تو ان کا علم۔ کاش دنیا میں ہی بہتر ہوجاتے وہ بھی نہیں بنائی؟ ہم دعویدار ہیں کہ ان کے ماننے والے ہیں۔
لإمام الباقر (عليه السلام):
🔰«كيف من انتحل قول الشيعة و أحبنا أهل البيت؟ فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ و أطاعه، و ما كانوا يُعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشّع والإنابة و كثرة ذكر اللّہ والصوم و الصلاة و البرّ بالوالدين وتعاهد الجيران من الفقراء و ذوي المسكنة والغارمين و الأيتام، وصدق الحديث وتلاوة القرآن وكفّ الألسن عن الناس الا من خير.» (السرائر ٣-٣٣٦)
🔹ای جابر!جو شخص شیعہ ہونے کا دعویدار ہے کیا اُس کیلئے کافی ہے کہ وہ صرف ہم اھلبیت علیھم السّلام کی محبّت کا دم بھرے؟! اللّہ کی قسم!ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقوا اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے۔اے جابر!انہیں پہچانا نہیں جاتا مگر انکساری ،خشوع،امانت داری،ذکرالٰہی میں کثرت،روزہ،نماز،والدین کے ساتھ نیکی،پڑوسیوں فقیروں در ماندہ افراد قرضداروں اور یتتموں سے اچھا سلوک،سچی بات،قرآن کی تلاوت اور اپنی زبانوں کو صرف لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے علاوہ روکنے سے پہچانا جاتا ہے-
پیسہ کا تکبر دکھائیں گے؟ دنیا میں پاکیزہ چیزیں علم اور تقوی ہے اگر ان پر بھی تکبر دکھائے تو ذلیل ہے۔ پیسہ پست چیز ہے جو اس پر تکبر دکھائے وہ تو ذلیل پھر ذلیل ہے۔ دنیا میں پاکیزہ علم اور تقوی پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام شیطان کے برابر ہے۔ دولت اور ذلیلوں کے درمیان شہرت پانے پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام کیا ہے یہ تو گندی نالی کے کیڑے کے برابر ہے۔ ایمانداروں میں شہرت دکھائے۔
خوف خدا کیا ہےَ حج پر جائیں بدترین لوگ بھی ادہر توبہ کریں گے۔ منی کے میدان توبہ کرتے ہیں۔ بھائی جب تنھائی میں گناہ کرتے ہو خدا یاد آتا ہے کہ نہیں۔ کمزور کے سامنے کھڑے ہو کر گناہ نہ کرو۔ سب کے سامنے رہ کر پاکیزہ رہنا نہیں بلکہ اکیلے رہ کر پاکیزہ رہنا۔۔ کسی نے کہا کہ یہ چیز لو گے 100 کی ملے گی میں نے وہ چیز 95 کی لوں اور رسید بنوائوں 100 روہے کی۔ دوسرے کو 100 میں دی۔ میں نے 5 روپے پر اپنا دین بیچا ہے کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کو خدا جانتا ہے اور میں نے اس پر بھروسہ کیا تھا مگر اس نے 5 روپے کا چونا لگانے کا موقع ملا تو اس نے 5 روپے کا چونا لگایا۔ ہم کہتے ہیں سیاستدان ذلیل ہیں۔ تم کو 5 روپے کھانے کا موقع ملا تھا تم نہیں چھوڑا تھا۔ ان کو کیوں گالیاں دے رہے ہو؟۔ عالم یہ ہے کہ مسجد کے کام کیلئے کسی کو 4 روپے دو تو بھول جائو۔ جب تک یہ پورا بل نہیں بنائےگا واپس نہیں آئیگا۔
اس کے بعد ہم کہیں کہ ہم کو خوف خدا ہے۔ کسی آدمی کی عزت میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا۔ خوف خدا کسی کی عزت کو چھپانا ہوتا ہے یا اچھالنا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے تھوڑی رقم پر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
ضیاالحق کی معنی ہیں حق کی روشنی ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ نام غلط بندے کیساتھ لگ گیا اب کوئی رکھے گا یہ نام؟ ہم نے زندگی میں صرف دو بار خدا سے سرگوشیوں میں بات کی ہے۔ کیا ہم تنھائی میں خدا سے کلام کرتے ہیں؟۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں عالم اور کتاب نہیں ہیں۔ تم خدا سے کلام کرو تم کو کیا چاہئے؟ اکیلے میں بیٹھو اللہ سے کلام کرو۔ کیوں نہیں کرتے۔ دماغ میں اتنی اور چیزیں بھری ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خدا سے سجدے میں کلام کریں۔ ایک منٹ سجدہ میں گذرا تو دیکھیں۔ ہمارے دماغ میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے کہ اس میں خدا نہیں آسکتا۔ لوگ سنتے سنتے بوڑہے ہوگئے تو پھر ہم نے ان کو کیا سکھایا؟
٭ذکر خدا اس کو کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کام کروں تو اللہ یاد آئے۔ ذکر کو انگریزی میں ریمائنڈر کہتے ہیں جس کی معنی ہیں یاد دلانا۔ اس کو بار بار یاد آئے کہ خدا ہے۔ ادہر ( مسجد میں ) اللہ یاد آے کمال ہے یا باہر اللہ یاد آئے کیا کمال ہے؟ یہ مہارت نہیں بلکہ باہر خدا یاد آتا یے؟۔ مسکین بندہ آپ کے پاس آیا۔ یاد آیا خدا کے کمزور پر رحم کرنا، رشتیداروں میں بھی طاقتور اور کمزور کون ہے یہ سب پیسے پر ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ خاندان میں بڑا کون ہے۔ اب طاقتور کون ہے اس نے بول دیا تو اس کی چلے گی۔ طاقت کے بل پر احترام ملے تو یہ کمینے پن کا زمانہ ہے۔ دولت چوری سے آتی ہے۔ ہم دین کے نام پر بھی وہ سننا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
والدین سے نیکی کرنا کوئی زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں سے برائی کرتے تھے مگر والدین اور بیوی بچوں سے برائی نہیں کرتے تھے۔ اب وہ کیمنے پن کا زمانہ ہے کہ انسان صرف اپنے آپ سے باوفا ہے۔ جو ہم کو ان مسائل سے نکال سکتے ہیں ان سے ہمارا تمسک نہیں ہے۔ ہمارا اہلبیت سے تمسک رہ گیا ہے صرف دینا لینے کیلئے۔ ہم علم پر، زیارتوں پھی جاتے ہیں دنیا لینے کیلئے۔ کیا خدا نے ان کو دنیا دینے کیلئے بھیجا تھا۔ ہمارا تعلق کونسا ہے۔
ہمارے ہاں کمزوروں اور مسکیوں کی مدد کرتا ہے واٹس اپ پر ڈالتا ہے۔ کوئی کام کرتا ہے اس کے نیچے تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے۔ اللہ کیلئے تھا تو تختی پر نام کیوں؟ مرحوم کے فاتحہ کیلئے نام نہ لیا تو ناراض۔ کیا فرشتوں کو حساب کتاب میں بھول ہوتی ہے؟۔
دین خدا میں اللہ نیکیاں دیکھتا ہے۔ دکھاوا کریں کوئی ثواب نہیں ملے گا تم نے دکھاوے کیلئے کیا وہ مل گیا۔ میرے پاس مسکین آگیا تو میں نے نہیں دینا ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ جب بڑی گاڑی والے نے مانگا تو دے دیا۔ میرا دینا خدا کیلئے نہیں تھا۔ ہمارے پاس چند ظاہری چیزیں رہ گئی ہیں۔ دین کی روح \"نکلی\" ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں روش خدائی نہیں ہے۔ مادہ پرستوں کے پاس جو پیسا دے گا اس کو فنڈ ریز کرنے کیلئے جو اتنے پیسے دے گا۔ آسٹریلیا میں دعائے کمیل کیلئے 50 ڈالر کا ٹکٹ رکھا گیا کہ جو 50 ڈالر کا ٹکٹ خریدے گا پڑہنے والے کے پیچھے بیٹھے گا۔ دعا کمیل میں کہاں بیٹھے گا اس کا ٹکٹ ہوگا۔ یہ ہو رہا ہے۔ یہ عالم ہےاس نے لوگوں کے دلوں میں ہے کہ عزت اس وجہ سے جو پیسا زیادہ دے گا اس کو زیادہ عزت ملے گا۔ اس کو آفیشل کردیا۔
1970 میں میڈیا فحش نہیں تھا اب کیوں ہے؟۔ اگر لوگوں میں فحاشی کی طلب نہ ہو تو وہ نہ دکھائیں۔ اب میڈیا فحش اس لیے ہے کہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے دکھا رہے ہیں کہ اس کو دیکھا جا رہا ہے۔ معاشرے سے فحاشی ختم کرنی ہے تو پہلے اپنی دل سے فحاشی نکالیں۔
اگر کسی بچی کو پتا چل جائے کہ بے حیائی سے اس کی بے عزتی ہوگی تو وہ بے حیائی کرے گی؟ وہ میک اپ کرتی ہی اس لئے ہے کہ اس کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔ میک اپ کر کے بن سنور کر نکلوں گی تو بے عزتی ہوگئ تو وہ بن سنور کر نکلے گی؟
اس کی زبان سے لوگوں کو برائی نہیں ملے گی، ہمارے گھروں میں بچوں کو گالیاں دیتا ہے بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا ہم لوگ شیعہ ہیں
آپ ان احادیث کو پڑہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے آپ کی معاشرے میں بے عزتی ہوگی؟ معاشرہ سچوں کو پسند کرتا ہے تکبر نہ کرنے والوں کو اچھا سمجھتا۔
امام حسن ع کی حدیث ہے کہ اے جوانوں خدا کی قسم ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دین کے پیچھے گیا ہو تو خدا نے اس کو دنیا بھی دے دی ہو اور خدا کی قسم ہم نے نہیں دیکھا کہ جس نے دنیا مانگی ہو اس کو دین بھی ملا ہو۔
جو دین کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے اور جو دنیا کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے۔
استاد محترم حجتہ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی کے درس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
10:10
|
التفسير الأقوم - مروری کوتاه بر مهمترین تفاسیر روایی شیعه - Farsi
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
قبل از بیان فهرستی از...
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
قبل از بیان فهرستی از تفاسیر روایی پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) لازم است بر این نکته تأکید کنم که تفاسیر روایی شیعه، در مقایسه با تفاسیر روایی پیروان ابو بکر و عمر که خود را به نا حق اهل سنت و جماعت می نامند، دارای امتیازی مشترک و برجسته هستند و آن توجه به روایات تفسیری ائمه معصومین و حجج الهی (ع) است. بنابر این توجه به روایات تفسیری همواره مورد نظر مفسران شیعه بوده است. ولی همه مفسران شیعه، در گردآوری و طبقه بندی و تدوین روایات، روش واحدی نداشته اند. برخی به ذکر روایات در ذیل آیات اکتفاء کرده اند؛ برخی در تفسیر آیات با اینکه از غیر روایات نیز کمک گرفته اند ، بیش از هر چیز به روایات استناد کرده اند؛ برخی با روش اجتهادی نسبتا جامع، به تفسیر آیات پرداخته اند، ولی یکی از مستندات عمده آنها روایات است؛ و برخی دیگر در تفسیر آیات استنادشان به روایات اندک است، و در کنار تفسیر و اجتهاد ، روایات تفسیری و مربوط به آیات را تبیین و تحلیل کرده اند.
بی شک، هر یک از روشهایی که ذکر شد، به نوبه خود، دارای فواید و امتیازهایی است. اما متأسفانه در این روش ها، کاستی هایی هم مشاهده می شود که از این منظر ، هیچ یک از روش ها را نمی توان روش کاملی در تفسیر روایی قرآن کریم دانست.
تفاسير روايی شيعه
از مهم ترین تفاسیر روایی شیعه می توانیم به موارد زیر اشاره کنیم:
تفسیر ابوحمزه ثمالی، ابوحمزه ثابت بندینار ثمالی ازدی کوفی (م ۱۴۸ ق)؛
تفسیر (منسوب به) امام حسن عسکری، به نقل از محمد بنقاسم استرآبادى (م ح ۳۸۰ ق)؛
تفسیر فراتکوفی، ابوالقاسم فرات بنابراهیم کوفی (از اعلام قرن سوم و چهارم قمری)؛
تفسیر قمی، ابوالحسن علی بنابراهیم بنهاشم قمی (از بزرگان شیعه در اواخر قرن سوم و اوایل قرن چهارم)؛
تفسیر عیاشی، ابونصر محمد بنمسعود بنعیاش (از نامدارترین تفاسیر روایی شیعه در قرن سوم هجری)؛
منهج الصادقین فی الزام المخالفین، ملا فتحالله کاشانی (م ۹۸۸ ق)؛
تفسیر شریف لاهیجی، بهاءالدین (قطبالدین) محمد بنشیخ علی الشریف اللاهیجی (م ۱۰۸۸)
الصافی فی تفسیر القرآن، ملا محسن محمد بنمرتضی معروف به فیض کاشانی (م ۱۰۹۱ ق)؛
البرهان فی تفسیر القرآن، سید هاشم بنسلیمان بناسماعیل الحسینی البحرانی کتکانی (م ۱۱۰۷ ق)؛
نورالثقلین، عبدالعلی بنجمعۀ الحویزی الشیرازی (م ۱۱۱۲ ق)؛
تفسیر المعین، مولی نورالدین محمد بنمرتضی کاشانی (م ۱۱۱۵ ق)؛
کنز الدقائق و بحرالغرائب، محمد بنمحمدرضا بناسماعیل بنجمالالدین قمی معروف به میرزا محمد مشهدی (م ۱۱۲۵ ق)؛
تفسیر کبیر یا صفوۀ التفاسیر، سید عبدالله شبّر (م ۱۲۴۲ ق)؛
بحرالعرفان و معدن العرفان، ملا صالح بنآغامحمد برغانی قزوینی حائری (م ۱۲۷۰ ق)؛
مقتنیات الدرر و ملتقطات الثمر، حاج میر سیدعلی حائریطهرانی معروف به مفسر (م۱۳۴۰ ق)؛
نفحات الرحمن فی تفسیر القرآن، شیخ محمد بنعبدالرحیم نهاوندی طهرانی (م ۱۳۷۰ ق)؛
التبیین فی شرح آیات المواعظ و البراهین، شیخ میرزا ابوتراب شهیدی(م ۱۳۷۵ ق)؛
تفسیر اثنیعشری، حسین بناحمد الحسینی الشاه عبدالعظیمی (م ۱۳۸۴ ق)؛
الجدید فی تفسیر القرآن المجید، شیخ محمد حبیبالله سبزواری (م ۱۴۰۹ ق)؛
اطیبالبیان فی تفسیر القرآن، سید عبدالحسین الطیب (م ۱۴۱۱ ق)؛
تفسیر احسن الحدیث، سید علیاکبر قرشی (معاصر)؛
تفسیر جامع، سید ابراهیم بروجردی (معاصر)؛
تفسیر البصائر ، یعسوب الدین رستگار جویباری (م ۱۴۲۱ ق)
تفسیر الأثری الجامع، محمدهادی معرفت (م ۱۴۲۸ ق).
تفسير اهل البيت (ع)
آنچه عرض شد ، اشارهای کلی بود به مهمترین تفسیرهای شیعه که بیشتر بر روش تفسیر روایی و نقلی استوارند. اما تفاسیر دیگری هم هستند که گرچه روش غالب آنها روشی دیگر است، اما ضمنا ، از روش نقلی هم برای شرح و بیان آیات قرآن بهره بردهاند.
با توجه به جایگاه ممتاز چهارده نور مقدس (ع) در تفسیر قرآن و ضرورت رجوع به تفاسیر آن بزرگواران و همچنین گستردگی حجم روایات تفسیری، اهمّیّت پژوهش و دقت نظر در ابعاد مختلف روایات آن بزرگواران و بحث و بررسی و تحلیل و دسته بندی آن ها در تفسیر قرآن کریم روشن است.
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
قبل از بیان فهرستی از تفاسیر روایی پیروان حقیقی اهل بیت عصمت و طهارت (ع) لازم است بر این نکته تأکید کنم که تفاسیر روایی شیعه، در مقایسه با تفاسیر روایی پیروان ابو بکر و عمر که خود را به نا حق اهل سنت و جماعت می نامند، دارای امتیازی مشترک و برجسته هستند و آن توجه به روایات تفسیری ائمه معصومین و حجج الهی (ع) است. بنابر این توجه به روایات تفسیری همواره مورد نظر مفسران شیعه بوده است. ولی همه مفسران شیعه، در گردآوری و طبقه بندی و تدوین روایات، روش واحدی نداشته اند. برخی به ذکر روایات در ذیل آیات اکتفاء کرده اند؛ برخی در تفسیر آیات با اینکه از غیر روایات نیز کمک گرفته اند ، بیش از هر چیز به روایات استناد کرده اند؛ برخی با روش اجتهادی نسبتا جامع، به تفسیر آیات پرداخته اند، ولی یکی از مستندات عمده آنها روایات است؛ و برخی دیگر در تفسیر آیات استنادشان به روایات اندک است، و در کنار تفسیر و اجتهاد ، روایات تفسیری و مربوط به آیات را تبیین و تحلیل کرده اند.
بی شک، هر یک از روشهایی که ذکر شد، به نوبه خود، دارای فواید و امتیازهایی است. اما متأسفانه در این روش ها، کاستی هایی هم مشاهده می شود که از این منظر ، هیچ یک از روش ها را نمی توان روش کاملی در تفسیر روایی قرآن کریم دانست.
تفاسير روايی شيعه
از مهم ترین تفاسیر روایی شیعه می توانیم به موارد زیر اشاره کنیم:
تفسیر ابوحمزه ثمالی، ابوحمزه ثابت بندینار ثمالی ازدی کوفی (م ۱۴۸ ق)؛
تفسیر (منسوب به) امام حسن عسکری، به نقل از محمد بنقاسم استرآبادى (م ح ۳۸۰ ق)؛
تفسیر فراتکوفی، ابوالقاسم فرات بنابراهیم کوفی (از اعلام قرن سوم و چهارم قمری)؛
تفسیر قمی، ابوالحسن علی بنابراهیم بنهاشم قمی (از بزرگان شیعه در اواخر قرن سوم و اوایل قرن چهارم)؛
تفسیر عیاشی، ابونصر محمد بنمسعود بنعیاش (از نامدارترین تفاسیر روایی شیعه در قرن سوم هجری)؛
منهج الصادقین فی الزام المخالفین، ملا فتحالله کاشانی (م ۹۸۸ ق)؛
تفسیر شریف لاهیجی، بهاءالدین (قطبالدین) محمد بنشیخ علی الشریف اللاهیجی (م ۱۰۸۸)
الصافی فی تفسیر القرآن، ملا محسن محمد بنمرتضی معروف به فیض کاشانی (م ۱۰۹۱ ق)؛
البرهان فی تفسیر القرآن، سید هاشم بنسلیمان بناسماعیل الحسینی البحرانی کتکانی (م ۱۱۰۷ ق)؛
نورالثقلین، عبدالعلی بنجمعۀ الحویزی الشیرازی (م ۱۱۱۲ ق)؛
تفسیر المعین، مولی نورالدین محمد بنمرتضی کاشانی (م ۱۱۱۵ ق)؛
کنز الدقائق و بحرالغرائب، محمد بنمحمدرضا بناسماعیل بنجمالالدین قمی معروف به میرزا محمد مشهدی (م ۱۱۲۵ ق)؛
تفسیر کبیر یا صفوۀ التفاسیر، سید عبدالله شبّر (م ۱۲۴۲ ق)؛
بحرالعرفان و معدن العرفان، ملا صالح بنآغامحمد برغانی قزوینی حائری (م ۱۲۷۰ ق)؛
مقتنیات الدرر و ملتقطات الثمر، حاج میر سیدعلی حائریطهرانی معروف به مفسر (م۱۳۴۰ ق)؛
نفحات الرحمن فی تفسیر القرآن، شیخ محمد بنعبدالرحیم نهاوندی طهرانی (م ۱۳۷۰ ق)؛
التبیین فی شرح آیات المواعظ و البراهین، شیخ میرزا ابوتراب شهیدی(م ۱۳۷۵ ق)؛
تفسیر اثنیعشری، حسین بناحمد الحسینی الشاه عبدالعظیمی (م ۱۳۸۴ ق)؛
الجدید فی تفسیر القرآن المجید، شیخ محمد حبیبالله سبزواری (م ۱۴۰۹ ق)؛
اطیبالبیان فی تفسیر القرآن، سید عبدالحسین الطیب (م ۱۴۱۱ ق)؛
تفسیر احسن الحدیث، سید علیاکبر قرشی (معاصر)؛
تفسیر جامع، سید ابراهیم بروجردی (معاصر)؛
تفسیر البصائر ، یعسوب الدین رستگار جویباری (م ۱۴۲۱ ق)
تفسیر الأثری الجامع، محمدهادی معرفت (م ۱۴۲۸ ق).
تفسير اهل البيت (ع)
آنچه عرض شد ، اشارهای کلی بود به مهمترین تفسیرهای شیعه که بیشتر بر روش تفسیر روایی و نقلی استوارند. اما تفاسیر دیگری هم هستند که گرچه روش غالب آنها روشی دیگر است، اما ضمنا ، از روش نقلی هم برای شرح و بیان آیات قرآن بهره بردهاند.
با توجه به جایگاه ممتاز چهارده نور مقدس (ع) در تفسیر قرآن و ضرورت رجوع به تفاسیر آن بزرگواران و همچنین گستردگی حجم روایات تفسیری، اهمّیّت پژوهش و دقت نظر در ابعاد مختلف روایات آن بزرگواران و بحث و بررسی و تحلیل و دسته بندی آن ها در تفسیر قرآن کریم روشن است.
Video Tags:
التفسير
الأقوم,رویکرد
صحیح
به
روایات
تفسیری,مشهور,غیر
مشهور,علما
و
محدثان
و
فقها,سلسله
سند,وثوق
و
اطمینان,معصوم,علم
درایت
حدیث,علم
رجال,علم
اصول
فقه,الکافی,وسائل
الشیعه,مرحوم
کلینی,علوم
تجربی,دانش
بشر,مدعیان
تشیع,روایات
غیر
معتبر,فاطمه
الزهراء,حجج
الاهی,ائمه
هدی,بکریه
و
عمریه,دعوا
ما
وافق
القوم,فان
الرشد
في
خلافهم,ما
خالف
العامة
ففيه
الرشاد,فان
الحق
في
ما
خالفهم,چهارده
نور
مقدس,تولید
علم,توزیع
علم,معصومين,العياشي,نور
الثقلين,معجزه,قرآن,عترت
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای : Islamic Awakening and Youth Conference
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
More...
Description:
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
7:50
|
[URDU] HAJJ Message 2014 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام...
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
More...
Description:
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
2:37
|
آرومم کن (دلتنگی) محمد فصولی و محمد حسین دامنی | Farsi sub English Urdu Arab
مداحی و نوحه دلتنگی کربلا و شب جمعه و دلتنگ حرم و امام حسینؑ
نماهنگ: دلتنگی و آرومم کن
شور: دل دیوونه ای که تو...
مداحی و نوحه دلتنگی کربلا و شب جمعه و دلتنگ حرم و امام حسینؑ
نماهنگ: دلتنگی و آرومم کن
شور: دل دیوونه ای که تو سینمه داره رسوای زمونم میکنه
با صدای: کربلایی محمد فصولی و کربلایی محمد حسین دامنی
بازیرنویس: العربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
لطمية بصوت ملا محمد فصولي ملا محمد حسين دامني
Del Devoneh (Missing Karbala) New Maddahi by Mohammad Fosoli and Muhammad Hossein Damani
Best Farsi Noha with English Urdu Arabic Farsi Subtitles, translation, and Lyrics 2021
متن:
دل دیوونه ای که تو سینمه
داره رسوای زمونم میکنه
روز و شب فقط میگه کرب و بلا
داره بدجوری دیوونم میکنه
شبایی که دلتنگتم میشینم و
به عکس کربلای تو زُل میزنم
از تو دل حسینیه تا دلِ
بین الحرمینِ تو آقا پل میزنم
چجوری آرومش کنم
دلی رو که با عکس گنبد تو هق هق میکنه
چجوری آرومش کنم
دلی رو که اگه زیارتت نیاد دق میکنه
آرومم کن نذار گریه کنم تو حسرت کرب وبلا
آرومم کن داره گِریَم میگیره وقتی میرن زائرا
آرومم کن آقا تورو خدا ، تورو خدا ، تورو خدا
آرومم کن دوباره بنویس اسممو بین زائرات
آرومم کن بخدا میمیرم اگه نیام کرب و بلات
آرومم کن بذار خیره بشم بازم به گنبد طلات
Thanks for watching our video
#Karbala #HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Join this channel as a Member: https://www.youtube.com/channel/UCrfWHP2hw8x8MIiHzB6GyTA/join
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Down load this video on our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyontv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
مداحی و نوحه دلتنگی کربلا و شب جمعه و دلتنگ حرم و امام حسینؑ
نماهنگ: دلتنگی و آرومم کن
شور: دل دیوونه ای که تو سینمه داره رسوای زمونم میکنه
با صدای: کربلایی محمد فصولی و کربلایی محمد حسین دامنی
بازیرنویس: العربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
لطمية بصوت ملا محمد فصولي ملا محمد حسين دامني
Del Devoneh (Missing Karbala) New Maddahi by Mohammad Fosoli and Muhammad Hossein Damani
Best Farsi Noha with English Urdu Arabic Farsi Subtitles, translation, and Lyrics 2021
متن:
دل دیوونه ای که تو سینمه
داره رسوای زمونم میکنه
روز و شب فقط میگه کرب و بلا
داره بدجوری دیوونم میکنه
شبایی که دلتنگتم میشینم و
به عکس کربلای تو زُل میزنم
از تو دل حسینیه تا دلِ
بین الحرمینِ تو آقا پل میزنم
چجوری آرومش کنم
دلی رو که با عکس گنبد تو هق هق میکنه
چجوری آرومش کنم
دلی رو که اگه زیارتت نیاد دق میکنه
آرومم کن نذار گریه کنم تو حسرت کرب وبلا
آرومم کن داره گِریَم میگیره وقتی میرن زائرا
آرومم کن آقا تورو خدا ، تورو خدا ، تورو خدا
آرومم کن دوباره بنویس اسممو بین زائرات
آرومم کن بخدا میمیرم اگه نیام کرب و بلات
آرومم کن بذار خیره بشم بازم به گنبد طلات
Thanks for watching our video
#Karbala #HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Join this channel as a Member: https://www.youtube.com/channel/UCrfWHP2hw8x8MIiHzB6GyTA/join
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Down load this video on our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyontv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
3:30
|
بابای حیدر - باسم کربلایی | وفات حضرت ابوطالب | Farsi sub English Urdu Arabic
نوحه: وفات حضرت ابوطالب علیه السلام
مداحی فارسی: از ابوطالب بخوان بابای حیدر
با صدای: حاج ملا باسم کربلایی...
نوحه: وفات حضرت ابوطالب علیه السلام
مداحی فارسی: از ابوطالب بخوان بابای حیدر
با صدای: حاج ملا باسم کربلایی
بازیرنویس: عربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
قصيدة فارسية سيدنا ابو طالب (ع) بصوت ملا باسم الكربلائي
شاعر: شاکرمحمودالکربلائی
زمان: 26 رجب مراسم عزا وفات حضرت ابوطالب 1393 1435
مکان: حسینیه کاظمینی ها (حسينية اهالي الكاظمية المقدسیه) دولت آباد شهرری تهران
Az Abu Talib behon Babae Haider (Father of Haider) Elegy Latimya about Hazrat Abutalib (as) by Karbalae Javad Moghadam
Best Farsi Maddahi Noha with English Urdu Arabic Farsi Subtitles, translation, and #HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Join this channel as a Member: https://www.youtube.com/channel/UCrfWHP2hw8x8MIiHzB6GyTA/join
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Down load this video on our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyountv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://vk.com/zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
نوحه: وفات حضرت ابوطالب علیه السلام
مداحی فارسی: از ابوطالب بخوان بابای حیدر
با صدای: حاج ملا باسم کربلایی
بازیرنویس: عربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
قصيدة فارسية سيدنا ابو طالب (ع) بصوت ملا باسم الكربلائي
شاعر: شاکرمحمودالکربلائی
زمان: 26 رجب مراسم عزا وفات حضرت ابوطالب 1393 1435
مکان: حسینیه کاظمینی ها (حسينية اهالي الكاظمية المقدسیه) دولت آباد شهرری تهران
Az Abu Talib behon Babae Haider (Father of Haider) Elegy Latimya about Hazrat Abutalib (as) by Karbalae Javad Moghadam
Best Farsi Maddahi Noha with English Urdu Arabic Farsi Subtitles, translation, and #HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Join this channel as a Member: https://www.youtube.com/channel/UCrfWHP2hw8x8MIiHzB6GyTA/join
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Down load this video on our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyountv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://vk.com/zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
10:52
|
[۱۳۹۱/۱۰/۱۹] تشریح اهداف دشمن برای انتخابات ریاست جمهوری - Farsi
پیوندهای مرتبطبياناتبياناتعکسعکسفيلمفيلمصوتصوتمرور سریعمرور سریع
۱۳۹۱/۱۰/۱۹
تشریح اهداف دشمن برای...
پیوندهای مرتبطبياناتبياناتعکسعکسفيلمفيلمصوتصوتمرور سریعمرور سریع
۱۳۹۱/۱۰/۱۹
تشریح اهداف دشمن برای انتخابات ریاست جمهوری یازدهم
امروز آنچه بنده تشخيص ميدهم - كه بررسى حركات دشمن نشان ميدهد - اين است: با اينكه ما حدود پنج ماه به انتخابات داريم، ذهن دشمن متوجه انتخابات ماست. انتخاباتى كه در خرداد آينده در پيش داريم، از نظر ما مهم است، از نظر دشمن هم مهم است؛ حواسش به آن انتخابات است. اگر ميتوانستند كارى ميكردند كه اصلاً انتخابات انجام نگيرد، اين كار را ميكردند. خب، اين كار براى آنها ميسور نيست، مقدور نيست؛ مأيوسند از اين كه بتوانند اين كار را انجام دهند. يك بار بعضىها تلاش كردند كه انتخابات مجلس را عقب بيندازند؛ حتّى به ما گفتند اگر ميشود، دو هفته عقب بيندازيد. گفتيم نميشود؛ انتخابات بايد در همان روزِ خودش انجام بگيرد؛ يك روز هم نبايد عقب بيفتد. نتوانستند، دستشان به جائى نرسيد. آنها اين را تجربه كردهاند، ميدانند انتخابات عقبافتادنى نيست؛ لذا دنبال راههاى ديگرند.
يكى از هدفها اين است كه كارى كنند كه انتخابات بدون حضور پرشور و همگانى مردم برگزار شود. اين را از حالا همه بدانند: آن كسانى كه ممكن است از سر دلسوزى، راجع به انتخابات يك توصيههاى عمومى بكنند كه آقا انتخابات اينجورى باشد، آنجورى نباشد، حواسشان باشد به اين مقصود دشمن كمك نكنند؛ مردم را از انتخابات مأيوس نكنند، هى نگويند انتخابات بايد آزاد باشد. خب، معلوم است كه انتخابات بايد آزاد باشد. ما از اول انقلاب تا حالا سى و چند تا انتخابات داشتهايم؛ كدامش آزاد نبوده است؟ در كدام كشور ديگر، انتخابات از آنچه كه در ايران ميگذرد، آزادتر است؟ كجا صلاحيتها ملاحظه نميشود، كه اينجا روى اين مسائل هى تكيه بكنند، هى تكيه بكنند، هى بگويند، هى تكرار كنند و يواش يواش اين ذهنيت را به خيال خودشان در مردم به وجود بياورند كه خب، اين انتخابات فايدهاى ندارد؟ اين يكى از خواستههاى دشمن است. آن كسانى كه در داخل، اين حرفها را ميزنند، ممكن است غفلت كنند. من ميگويم غفلت نكنيد، حواستان باشد، كار شما جدول مورد نظر دشمن را پر نكند؛ مقصود او را تكميل و تتميم نكند. اين يكى از راههاى از شور و هيجان انداختنِ انتخابات است.
يك مسئلهى ديگر اين است كه به مردم گفته شود، تلقين شود كه انتخابات سلامت لازم را ندارد. البته بنده هم تأكيد ميكنم كه انتخابات بايد سالم برگزار شود؛ منتها اين، راه دارد. در جمهورى اسلامى، در قوانين ما، راههاى قانونىِ بسيار خوبى براى حفظ سلامت انتخابات پيشبينى شده است. البته كسانى بخواهند از طرق غير قانونى عمل كنند، خب به ضرر كشور ميكنند؛ كمااينكه در سال 88 از راههاى غير قانونى وارد شدند، كشور را دچار هزينه كردند، براى مردم اسباب زحمت درست كردند، براى خودشان هم اسباب بدبختى و سرشكستگى در زمين و در ملأ اعلى شدند. راههاى قانونىِ خوبى وجود دارد. بله، بنده هم اصرار دارم كه انتخابات بايد با سلامت كامل، با رعايت امانتِ كامل انجام بگيرد. مسئولين دولتى و مسئولين غير دولتى كه در كار انتخابات دستاندركارند و مسئول هستند، همه بايد طبق قانون، با دقت كامل، با رعايت كمال تقوا و پاكدستى عمل كنند تا انتخابات سالمى پيش بيايد؛ و مطمئناً هم چنين خواهد شد.
يكى از راهها هم اين است كه سعى كنند در ايام انتخابات، سر مردم را به يك چيز ديگرى گرم كنند؛ يك حادثهاى پيش بياورند، يك ماجرائى درست كنند؛ يك ماجراى سياسى، يك ماجراى اقتصادى، يك ماجراى امنيتى. البته اين هم جزو نقشههاى دشمن است، اما بنده مطمئنم كه ملت ايران بسيار بصيرتر و باهوشتر از اين است كه با يك چنين ترفندهاى خصمانهى دشمنان يا عوامل دشمنان فريب بخورد؛ نه، انشاءاللّه انتخابات به اذناللّه، به حول و قوهى الهى، به فضل پروردگار، انتخابات خوب و پرشورى خواهد شد.
البته در باب انتخابات، بنده زياد حرف دارم. اگر عمرى بود، در آينده راجع به انتخابات باز صحبت خواهم كرد. توصيهها، حرفها و نكاتى وجود دارد، اما حالا به همين اندازه اكتفاء ميكنم. توجه داشته باشيد؛ انتخابات يك حق است و يك وظيفه است. ما هر كداممان به عنوان يك فرد از افراد اين ملت، هم حق داريم در انتخابات شركت كنيم، هم وظيفه داريم. آن كسانى كه به نظام جمهورى اسلامى معتقدند، قانون اساسى را قبول دارند، هم از اين حق ميخواهند استفاده كنند، هم اين وظيفه را ميخواهند انجام دهند. همه بايد اين وظيفه را انجام دهند. يكى وظيفهاش اين است كه بيايد صلاحيتهاى خودش را در معرض انتخاب مردم قرار دهد. هر كسى كه در خود صلاحيتى احساس ميكند و كار اجرائى بلد است، مىآيد و خود را در معرض انتخاب مردم ميگذارد. ادارهى مملكت و كار اجرائى، كار كوچكى نيست. كارهاى بزرگ و بارهاى سنگينى بر دوش مجريان سطوح بالاست. ممكن است كسانى كه در سطوح ديگرى كار ميكنند، ابعاد اين سنگينى را هم بعضاً تشخيص ندهند كه چقدر اين بار سنگين است. آن كسانى كه وارد ميدان ميشوند، بايد كسانى باشند كه در خود توانائىِ كشيدن اين بار را بيابند؛ صلاحيتهائى را هم كه در قانون اساسى است و شوراى محترم نگهبان بر روى آنها تكيه خواهد كرد، در خودشان ملاحظه كنند و واقعاً وابسته و دلبستهى به نظام و قانون اساسى باشند؛ بخواهند قانون اساسى را اجرا كنند؛ چون رئيس جمهور سوگند ميخورد كه قانون اساسى را اجرا كند؛ قسم دروغ كه نميشود خورد. كسانى كه اين را احساس ميكنند، در آن ميدان مىآيند؛ كسانى هم كه نه، قصد ندارند در اين صحنه حاضر شوند، در صحنهى انتخاب كردن و كمك به پرشور شدن انتخابات شركت خواهند كرد.
من به شما عرض ميكنم؛ با اعتمادى كه ما به وعدهى الهى داريم - و وعدهى الهى حق است و صدق است - بدون ترديد خداى متعال اين ملت را، هم در اين مرحله، هم در همهى مراحل آينده، بر دشمنانش پيروز خواهد كرد. خدا را شكر ميكنيم كه ما را دچار سوءظن به خودش نكرد؛ «الظّانّين باللّه ظنّ السّوء»؛(7) ما را از اينها قرار نداد. ما به وعدهى الهى حسن ظن داريم، به وعدهى الهى اعتماد داريم. از طرفى مىبينيم كه خداى متعال وعدهى نصرت داده است، از طرفى هم انسان اين مردم را مشاهده ميكند؛ حضورشان، علاقهشان، همتشان، اخلاص اين جوانها، پاكى اين جوانها، پدر و مادرهاى مؤمن و علاقهمند در سطح كشور، در همهى قشرها، با همهى شكلها و ظواهر. انسان مشاهده ميكند كه اين ملت، ملتى است كه بحمداللّه در صحنه است.
More...
Description:
پیوندهای مرتبطبياناتبياناتعکسعکسفيلمفيلمصوتصوتمرور سریعمرور سریع
۱۳۹۱/۱۰/۱۹
تشریح اهداف دشمن برای انتخابات ریاست جمهوری یازدهم
امروز آنچه بنده تشخيص ميدهم - كه بررسى حركات دشمن نشان ميدهد - اين است: با اينكه ما حدود پنج ماه به انتخابات داريم، ذهن دشمن متوجه انتخابات ماست. انتخاباتى كه در خرداد آينده در پيش داريم، از نظر ما مهم است، از نظر دشمن هم مهم است؛ حواسش به آن انتخابات است. اگر ميتوانستند كارى ميكردند كه اصلاً انتخابات انجام نگيرد، اين كار را ميكردند. خب، اين كار براى آنها ميسور نيست، مقدور نيست؛ مأيوسند از اين كه بتوانند اين كار را انجام دهند. يك بار بعضىها تلاش كردند كه انتخابات مجلس را عقب بيندازند؛ حتّى به ما گفتند اگر ميشود، دو هفته عقب بيندازيد. گفتيم نميشود؛ انتخابات بايد در همان روزِ خودش انجام بگيرد؛ يك روز هم نبايد عقب بيفتد. نتوانستند، دستشان به جائى نرسيد. آنها اين را تجربه كردهاند، ميدانند انتخابات عقبافتادنى نيست؛ لذا دنبال راههاى ديگرند.
يكى از هدفها اين است كه كارى كنند كه انتخابات بدون حضور پرشور و همگانى مردم برگزار شود. اين را از حالا همه بدانند: آن كسانى كه ممكن است از سر دلسوزى، راجع به انتخابات يك توصيههاى عمومى بكنند كه آقا انتخابات اينجورى باشد، آنجورى نباشد، حواسشان باشد به اين مقصود دشمن كمك نكنند؛ مردم را از انتخابات مأيوس نكنند، هى نگويند انتخابات بايد آزاد باشد. خب، معلوم است كه انتخابات بايد آزاد باشد. ما از اول انقلاب تا حالا سى و چند تا انتخابات داشتهايم؛ كدامش آزاد نبوده است؟ در كدام كشور ديگر، انتخابات از آنچه كه در ايران ميگذرد، آزادتر است؟ كجا صلاحيتها ملاحظه نميشود، كه اينجا روى اين مسائل هى تكيه بكنند، هى تكيه بكنند، هى بگويند، هى تكرار كنند و يواش يواش اين ذهنيت را به خيال خودشان در مردم به وجود بياورند كه خب، اين انتخابات فايدهاى ندارد؟ اين يكى از خواستههاى دشمن است. آن كسانى كه در داخل، اين حرفها را ميزنند، ممكن است غفلت كنند. من ميگويم غفلت نكنيد، حواستان باشد، كار شما جدول مورد نظر دشمن را پر نكند؛ مقصود او را تكميل و تتميم نكند. اين يكى از راههاى از شور و هيجان انداختنِ انتخابات است.
يك مسئلهى ديگر اين است كه به مردم گفته شود، تلقين شود كه انتخابات سلامت لازم را ندارد. البته بنده هم تأكيد ميكنم كه انتخابات بايد سالم برگزار شود؛ منتها اين، راه دارد. در جمهورى اسلامى، در قوانين ما، راههاى قانونىِ بسيار خوبى براى حفظ سلامت انتخابات پيشبينى شده است. البته كسانى بخواهند از طرق غير قانونى عمل كنند، خب به ضرر كشور ميكنند؛ كمااينكه در سال 88 از راههاى غير قانونى وارد شدند، كشور را دچار هزينه كردند، براى مردم اسباب زحمت درست كردند، براى خودشان هم اسباب بدبختى و سرشكستگى در زمين و در ملأ اعلى شدند. راههاى قانونىِ خوبى وجود دارد. بله، بنده هم اصرار دارم كه انتخابات بايد با سلامت كامل، با رعايت امانتِ كامل انجام بگيرد. مسئولين دولتى و مسئولين غير دولتى كه در كار انتخابات دستاندركارند و مسئول هستند، همه بايد طبق قانون، با دقت كامل، با رعايت كمال تقوا و پاكدستى عمل كنند تا انتخابات سالمى پيش بيايد؛ و مطمئناً هم چنين خواهد شد.
يكى از راهها هم اين است كه سعى كنند در ايام انتخابات، سر مردم را به يك چيز ديگرى گرم كنند؛ يك حادثهاى پيش بياورند، يك ماجرائى درست كنند؛ يك ماجراى سياسى، يك ماجراى اقتصادى، يك ماجراى امنيتى. البته اين هم جزو نقشههاى دشمن است، اما بنده مطمئنم كه ملت ايران بسيار بصيرتر و باهوشتر از اين است كه با يك چنين ترفندهاى خصمانهى دشمنان يا عوامل دشمنان فريب بخورد؛ نه، انشاءاللّه انتخابات به اذناللّه، به حول و قوهى الهى، به فضل پروردگار، انتخابات خوب و پرشورى خواهد شد.
البته در باب انتخابات، بنده زياد حرف دارم. اگر عمرى بود، در آينده راجع به انتخابات باز صحبت خواهم كرد. توصيهها، حرفها و نكاتى وجود دارد، اما حالا به همين اندازه اكتفاء ميكنم. توجه داشته باشيد؛ انتخابات يك حق است و يك وظيفه است. ما هر كداممان به عنوان يك فرد از افراد اين ملت، هم حق داريم در انتخابات شركت كنيم، هم وظيفه داريم. آن كسانى كه به نظام جمهورى اسلامى معتقدند، قانون اساسى را قبول دارند، هم از اين حق ميخواهند استفاده كنند، هم اين وظيفه را ميخواهند انجام دهند. همه بايد اين وظيفه را انجام دهند. يكى وظيفهاش اين است كه بيايد صلاحيتهاى خودش را در معرض انتخاب مردم قرار دهد. هر كسى كه در خود صلاحيتى احساس ميكند و كار اجرائى بلد است، مىآيد و خود را در معرض انتخاب مردم ميگذارد. ادارهى مملكت و كار اجرائى، كار كوچكى نيست. كارهاى بزرگ و بارهاى سنگينى بر دوش مجريان سطوح بالاست. ممكن است كسانى كه در سطوح ديگرى كار ميكنند، ابعاد اين سنگينى را هم بعضاً تشخيص ندهند كه چقدر اين بار سنگين است. آن كسانى كه وارد ميدان ميشوند، بايد كسانى باشند كه در خود توانائىِ كشيدن اين بار را بيابند؛ صلاحيتهائى را هم كه در قانون اساسى است و شوراى محترم نگهبان بر روى آنها تكيه خواهد كرد، در خودشان ملاحظه كنند و واقعاً وابسته و دلبستهى به نظام و قانون اساسى باشند؛ بخواهند قانون اساسى را اجرا كنند؛ چون رئيس جمهور سوگند ميخورد كه قانون اساسى را اجرا كند؛ قسم دروغ كه نميشود خورد. كسانى كه اين را احساس ميكنند، در آن ميدان مىآيند؛ كسانى هم كه نه، قصد ندارند در اين صحنه حاضر شوند، در صحنهى انتخاب كردن و كمك به پرشور شدن انتخابات شركت خواهند كرد.
من به شما عرض ميكنم؛ با اعتمادى كه ما به وعدهى الهى داريم - و وعدهى الهى حق است و صدق است - بدون ترديد خداى متعال اين ملت را، هم در اين مرحله، هم در همهى مراحل آينده، بر دشمنانش پيروز خواهد كرد. خدا را شكر ميكنيم كه ما را دچار سوءظن به خودش نكرد؛ «الظّانّين باللّه ظنّ السّوء»؛(7) ما را از اينها قرار نداد. ما به وعدهى الهى حسن ظن داريم، به وعدهى الهى اعتماد داريم. از طرفى مىبينيم كه خداى متعال وعدهى نصرت داده است، از طرفى هم انسان اين مردم را مشاهده ميكند؛ حضورشان، علاقهشان، همتشان، اخلاص اين جوانها، پاكى اين جوانها، پدر و مادرهاى مؤمن و علاقهمند در سطح كشور، در همهى قشرها، با همهى شكلها و ظواهر. انسان مشاهده ميكند كه اين ملت، ملتى است كه بحمداللّه در صحنه است.
5:17
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in a moment (one night) - Part 2
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in...
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
More...
Description:
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
40:01
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in one night - Part 1 - Farsi
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
More...
Description:
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
97:08
|
ملا إلياس المرزوق - يوم 10 محرم 1435هـ 14-11-2013 Arabic
الخطيب الملا إلياس المرزوق - حسينية آل عبد الحي - البحرين / السنابس - الخميس 10 محرم 1435 هـ الموافق 14 نوفمبر 2013 م
الخطيب الملا إلياس المرزوق - حسينية آل عبد الحي - البحرين / السنابس - الخميس 10 محرم 1435 هـ الموافق 14 نوفمبر 2013 م
50:58
|
ملا إلياس المرزوق - يوم 10 محرم 1435هـ 14-11-2013 Arabic
الخطيب الملا إلياس المرزوق - حسينية آل عبد الحي - البحرين / السنابس - الخميس 10 محرم 1435 هـ الموافق 14 نوفمبر 2013 م
الخطيب الملا إلياس المرزوق - حسينية آل عبد الحي - البحرين / السنابس - الخميس 10 محرم 1435 هـ الموافق 14 نوفمبر 2013 م
7:15
|
68:46
|
مراسم بیست و پنجمین سالگرد رحلت حضرت امام خمینی Farsi
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله...
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
More...
Description:
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
34:53
|
21:53
|
{01} [Scout Camp] اسکاؤٹ اور نظم - Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
{01} [Scout Camp] اسکاؤٹ اور نظم - Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
علامہ صادق تقوی نے نوجوانی کی اھمیت کی جانب اشارہ کرتے...
{01} [Scout Camp] اسکاؤٹ اور نظم - Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
علامہ صادق تقوی نے نوجوانی کی اھمیت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کہا:
آپ نوجوانوں کا دل مجھ سے بہت زیادہ نورانی اور روح مجھ سے زیادہ پاک ہے ، وجہ یہ ہے کہ آپ نوجوان اور اپنی فطرت سے قریب ھیں ، اس کی حفاظت کریں۔
امام علی ع نے دعائے کمیل میں فرمایا:
اللھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم
اے خدا ! میرے وہ گناہ بخش دے جو عصمت و حیاء کے پردے کو پھاڑ دیتے ہیں۔
شیطان سب سے پہلے ایک نوجوان کو گمراہ کرنے کیلئے اس کا دوست اور خیر خوان بن کر سامنے آتا ھے اور اُس کی شھوت کو بڑھکاتے ھوئے سب سے پہلے اس کی حیاء و عصمت کو نشانہ بناتا ھے۔ جب ایک نوجوان بار بار گناہ کرے اور توبہ نہ کرے تو وہ آھستہ آھستہ بے حیاء ھونے لگ جاتا ھے۔
ماہ رمضان قریب ھے ، یہ خدا سے دوستی کا مہینہ ھے اور اس میں اللہ نے آپ کو یہ فرصت دی ھے کہ آپ اپنے اعضاء و جوارح کی روحانی تربیت کریں۔
حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ھوئے انہوں نے کہا:
ھمیں امام کا سپاھی بننے کیلئے کوشش کرنی ھو گی تا کہ دشمن کے منصوبوں کو مٹی میں ملا دیں
امامیہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے تین روزہ اسکاؤٹ کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ کیمپ کے دوسرے روز 21 جون کو مشاور جوانان اور اسلامی مشاورہ کے ماھر حجۃ الاسلام علامہ سید صادق تقوی نے کیمپ کا دورہ کیا اور سنیئر طلبہ سے خطاب کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اسکاؤٹ کیمپ کی اھمیت کے بارے میں فرمایا:
ھمیں کائنات میں ایک نظم و ترتیب نظر آتی ھے اور اگر یہ نظم ھٹا دیا جائے تو زندگی برباد ہو جائے گی۔اسی طرح اسکاؤٹ کی زندگی بھی نظم سے عبارت ھے۔ یہ نظم اور ڈسپلین اس کی وردی اور یونیوفارم میں بھی نظر آتا ھے اور اس کی انفرادی زندگی میں بھی۔ اس اسکاؤٹ کیمپ کا مقصد آپ میں نظم و منظم ھونے کی روح کو بیدار کرنا ھے۔
آپ یہاں اہنی روز مرہ کی معمول کی زندگی اور روٹین لائف سے ھٹ کر بے آرامی اور مشکلات میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کرتے ھیں۔ آپ جو یہاں سیکھتے ھیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نہیں سیکھ سکتے۔ یہ آغاز ھے ایک تبدیلی اور انقلاب کا۔
اکثر نوجوان ھم سے برائیوں اور گناھوں کو ترک کرنے کا طریقہ معلوم کرتے ھیں تو ان کی خدمت میں عرض کرتا ھوں کہ آپ کو اپنے خلاف اٹھنا، لڑنا اور قیام کرنا ھوگا۔
More...
Description:
{01} [Scout Camp] اسکاؤٹ اور نظم - Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
علامہ صادق تقوی نے نوجوانی کی اھمیت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کہا:
آپ نوجوانوں کا دل مجھ سے بہت زیادہ نورانی اور روح مجھ سے زیادہ پاک ہے ، وجہ یہ ہے کہ آپ نوجوان اور اپنی فطرت سے قریب ھیں ، اس کی حفاظت کریں۔
امام علی ع نے دعائے کمیل میں فرمایا:
اللھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم
اے خدا ! میرے وہ گناہ بخش دے جو عصمت و حیاء کے پردے کو پھاڑ دیتے ہیں۔
شیطان سب سے پہلے ایک نوجوان کو گمراہ کرنے کیلئے اس کا دوست اور خیر خوان بن کر سامنے آتا ھے اور اُس کی شھوت کو بڑھکاتے ھوئے سب سے پہلے اس کی حیاء و عصمت کو نشانہ بناتا ھے۔ جب ایک نوجوان بار بار گناہ کرے اور توبہ نہ کرے تو وہ آھستہ آھستہ بے حیاء ھونے لگ جاتا ھے۔
ماہ رمضان قریب ھے ، یہ خدا سے دوستی کا مہینہ ھے اور اس میں اللہ نے آپ کو یہ فرصت دی ھے کہ آپ اپنے اعضاء و جوارح کی روحانی تربیت کریں۔
حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ھوئے انہوں نے کہا:
ھمیں امام کا سپاھی بننے کیلئے کوشش کرنی ھو گی تا کہ دشمن کے منصوبوں کو مٹی میں ملا دیں
امامیہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے تین روزہ اسکاؤٹ کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ کیمپ کے دوسرے روز 21 جون کو مشاور جوانان اور اسلامی مشاورہ کے ماھر حجۃ الاسلام علامہ سید صادق تقوی نے کیمپ کا دورہ کیا اور سنیئر طلبہ سے خطاب کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اسکاؤٹ کیمپ کی اھمیت کے بارے میں فرمایا:
ھمیں کائنات میں ایک نظم و ترتیب نظر آتی ھے اور اگر یہ نظم ھٹا دیا جائے تو زندگی برباد ہو جائے گی۔اسی طرح اسکاؤٹ کی زندگی بھی نظم سے عبارت ھے۔ یہ نظم اور ڈسپلین اس کی وردی اور یونیوفارم میں بھی نظر آتا ھے اور اس کی انفرادی زندگی میں بھی۔ اس اسکاؤٹ کیمپ کا مقصد آپ میں نظم و منظم ھونے کی روح کو بیدار کرنا ھے۔
آپ یہاں اہنی روز مرہ کی معمول کی زندگی اور روٹین لائف سے ھٹ کر بے آرامی اور مشکلات میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کرتے ھیں۔ آپ جو یہاں سیکھتے ھیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نہیں سیکھ سکتے۔ یہ آغاز ھے ایک تبدیلی اور انقلاب کا۔
اکثر نوجوان ھم سے برائیوں اور گناھوں کو ترک کرنے کا طریقہ معلوم کرتے ھیں تو ان کی خدمت میں عرض کرتا ھوں کہ آپ کو اپنے خلاف اٹھنا، لڑنا اور قیام کرنا ھوگا۔
25:05
|
{02} [Scout Camp] Nojawani Ki Ahmiyat Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
{02} [Scout Camp] Nojawani Ki Ahmiyat Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
علامہ صادق تقوی نے نوجوانی کی اھمیت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے...
{02} [Scout Camp] Nojawani Ki Ahmiyat Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
علامہ صادق تقوی نے نوجوانی کی اھمیت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کہا:
آپ نوجوانوں کا دل مجھ سے بہت زیادہ نورانی اور روح مجھ سے زیادہ پاک ہے ، وجہ یہ ہے کہ آپ نوجوان اور اپنی فطرت سے قریب ھیں ، اس کی حفاظت کریں۔
امام علی ع نے دعائے کمیل میں فرمایا:
اللھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم
اے خدا ! میرے وہ گناہ بخش دے جو عصمت و حیاء کے پردے کو پھاڑ دیتے ہیں۔
شیطان سب سے پہلے ایک نوجوان کو گمراہ کرنے کیلئے اس کا دوست اور خیر خوان بن کر سامنے آتا ھے اور اُس کی شھوت کو بڑھکاتے ھوئے سب سے پہلے اس کی حیاء و عصمت کو نشانہ بناتا ھے۔ جب ایک نوجوان بار بار گناہ کرے اور توبہ نہ کرے تو وہ آھستہ آھستہ بے حیاء ھونے لگ جاتا ھے۔
ماہ رمضان قریب ھے ، یہ خدا سے دوستی کا مہینہ ھے اور اس میں اللہ نے آپ کو یہ فرصت دی ھے کہ آپ اپنے اعضاء و جوارح کی روحانی تربیت کریں۔
حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ھوئے انہوں نے کہا:
ھمیں امام کا سپاھی بننے کیلئے کوشش کرنی ھو گی تا کہ دشمن کے منصوبوں کو مٹی میں ملا دیں
امامیہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے تین روزہ اسکاؤٹ کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ کیمپ کے دوسرے روز 21 جون کو مشاور جوانان اور اسلامی مشاورہ کے ماھر حجۃ الاسلام علامہ سید صادق تقوی نے کیمپ کا دورہ کیا اور سنیئر طلبہ سے خطاب کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اسکاؤٹ کیمپ کی اھمیت کے بارے میں فرمایا:
ھمیں کائنات میں ایک نظم و ترتیب نظر آتی ھے اور اگر یہ نظم ھٹا دیا جائے تو زندگی برباد ہو جائے گی۔اسی طرح اسکاؤٹ کی زندگی بھی نظم سے عبارت ھے۔ یہ نظم اور ڈسپلین اس کی وردی اور یونیوفارم میں بھی نظر آتا ھے اور اس کی انفرادی زندگی میں بھی۔ اس اسکاؤٹ کیمپ کا مقصد آپ میں نظم و منظم ھونے کی روح کو بیدار کرنا ھے۔
آپ یہاں اہنی روز مرہ کی معمول کی زندگی اور روٹین لائف سے ھٹ کر بے آرامی اور مشکلات میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کرتے ھیں۔ آپ جو یہاں سیکھتے ھیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نہیں سیکھ سکتے۔ یہ آغاز ھے ایک تبدیلی اور انقلاب کا۔
اکثر نوجوان ھم سے برائیوں اور گناھوں کو ترک کرنے کا طریقہ معلوم کرتے ھیں تو ان کی خدمت میں عرض کرتا ھوں کہ آپ کو اپنے خلاف اٹھنا، لڑنا اور قیام کرنا ھوگا۔
More...
Description:
{02} [Scout Camp] Nojawani Ki Ahmiyat Speech : H.I Sadiq Taqvi - 21 June 2014 - Urdu
علامہ صادق تقوی نے نوجوانی کی اھمیت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کہا:
آپ نوجوانوں کا دل مجھ سے بہت زیادہ نورانی اور روح مجھ سے زیادہ پاک ہے ، وجہ یہ ہے کہ آپ نوجوان اور اپنی فطرت سے قریب ھیں ، اس کی حفاظت کریں۔
امام علی ع نے دعائے کمیل میں فرمایا:
اللھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم
اے خدا ! میرے وہ گناہ بخش دے جو عصمت و حیاء کے پردے کو پھاڑ دیتے ہیں۔
شیطان سب سے پہلے ایک نوجوان کو گمراہ کرنے کیلئے اس کا دوست اور خیر خوان بن کر سامنے آتا ھے اور اُس کی شھوت کو بڑھکاتے ھوئے سب سے پہلے اس کی حیاء و عصمت کو نشانہ بناتا ھے۔ جب ایک نوجوان بار بار گناہ کرے اور توبہ نہ کرے تو وہ آھستہ آھستہ بے حیاء ھونے لگ جاتا ھے۔
ماہ رمضان قریب ھے ، یہ خدا سے دوستی کا مہینہ ھے اور اس میں اللہ نے آپ کو یہ فرصت دی ھے کہ آپ اپنے اعضاء و جوارح کی روحانی تربیت کریں۔
حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ھوئے انہوں نے کہا:
ھمیں امام کا سپاھی بننے کیلئے کوشش کرنی ھو گی تا کہ دشمن کے منصوبوں کو مٹی میں ملا دیں
امامیہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے تین روزہ اسکاؤٹ کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ کیمپ کے دوسرے روز 21 جون کو مشاور جوانان اور اسلامی مشاورہ کے ماھر حجۃ الاسلام علامہ سید صادق تقوی نے کیمپ کا دورہ کیا اور سنیئر طلبہ سے خطاب کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اسکاؤٹ کیمپ کی اھمیت کے بارے میں فرمایا:
ھمیں کائنات میں ایک نظم و ترتیب نظر آتی ھے اور اگر یہ نظم ھٹا دیا جائے تو زندگی برباد ہو جائے گی۔اسی طرح اسکاؤٹ کی زندگی بھی نظم سے عبارت ھے۔ یہ نظم اور ڈسپلین اس کی وردی اور یونیوفارم میں بھی نظر آتا ھے اور اس کی انفرادی زندگی میں بھی۔ اس اسکاؤٹ کیمپ کا مقصد آپ میں نظم و منظم ھونے کی روح کو بیدار کرنا ھے۔
آپ یہاں اہنی روز مرہ کی معمول کی زندگی اور روٹین لائف سے ھٹ کر بے آرامی اور مشکلات میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کرتے ھیں۔ آپ جو یہاں سیکھتے ھیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نہیں سیکھ سکتے۔ یہ آغاز ھے ایک تبدیلی اور انقلاب کا۔
اکثر نوجوان ھم سے برائیوں اور گناھوں کو ترک کرنے کا طریقہ معلوم کرتے ھیں تو ان کی خدمت میں عرض کرتا ھوں کہ آپ کو اپنے خلاف اٹھنا، لڑنا اور قیام کرنا ھوگا۔
1:24
|
سوال ۔۔ کسی چیز کی خرید و فروخت سے منافع حاصل کرنا - Urdu
سوال ۔۔ کسی چیز کی خرید و فروخت سے منافع حاصل ہوا اور لاٹری سے پیسا ملا کیا اس رقم کو زیارات کے لیئے خرچ کر...
سوال ۔۔ کسی چیز کی خرید و فروخت سے منافع حاصل ہوا اور لاٹری سے پیسا ملا کیا اس رقم کو زیارات کے لیئے خرچ کر سکتے ہیں؟
More...
Description:
سوال ۔۔ کسی چیز کی خرید و فروخت سے منافع حاصل ہوا اور لاٹری سے پیسا ملا کیا اس رقم کو زیارات کے لیئے خرچ کر سکتے ہیں؟