4:55
|
[Motion Graphics] سوداگر یا مفاد پرست مافیا اور اس کا سد باب - Urdu
موضوع : سوداگر یا مفاد پرست مافیا اور اس کا سد باب
موشن گرافک
ادارہ البلاغ پاکستان کی فخریہ پیشکش
اسلامی...
موضوع : سوداگر یا مفاد پرست مافیا اور اس کا سد باب
موشن گرافک
ادارہ البلاغ پاکستان کی فخریہ پیشکش
اسلامی تعلیمات موشن گرافیک سلسلہ
موشن گرافیک کا یہ سلسلہ متعدد موضوعات جسمیں اسلامیات، اسلامی قوانین، سیاسیات ،معاشیات ،اقتصادیات ،اجتماعیات وغیرہ جیسے موضوع شامل ہیں جنہیں ہر ۱۵ دن میں ایک موشن گرافیک ویڈیو کی شکل میں نشر کیا جائے گا
اس حوالے سے آپ کی آراء کے منتظر ہیں
البلاغ ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
موضوع : سوداگر یا مفاد پرست مافیا اور اس کا سد باب
موشن گرافک
ادارہ البلاغ پاکستان کی فخریہ پیشکش
اسلامی تعلیمات موشن گرافیک سلسلہ
موشن گرافیک کا یہ سلسلہ متعدد موضوعات جسمیں اسلامیات، اسلامی قوانین، سیاسیات ،معاشیات ،اقتصادیات ،اجتماعیات وغیرہ جیسے موضوع شامل ہیں جنہیں ہر ۱۵ دن میں ایک موشن گرافیک ویڈیو کی شکل میں نشر کیا جائے گا
اس حوالے سے آپ کی آراء کے منتظر ہیں
البلاغ ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
2:54
|
🎦 کلپ 6 - جناب سیدہ(س) کا مفاد پرستی کے مقابلے میں حق کا دفاع - urd
جناب سیدہ (س) نے کیسے مفاد پرستی کے مقابلے میں حق کا دفاع کیا؟ مفاد پرستوں نے کیوں امام علیؑ کو تنھا چھوڑ...
جناب سیدہ (س) نے کیسے مفاد پرستی کے مقابلے میں حق کا دفاع کیا؟ مفاد پرستوں نے کیوں امام علیؑ کو تنھا چھوڑ دیا؟ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا سید حیدر علی جعفری (قم)
ویڈیو : ہدایت ٹی وی
پروگرام : صبحِ ہدایت
17 جنوری 2020
دورانیہ: 02:54
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
#ویڈیو #کلپ #فاطمیہ #ہدایت #ایام #صبح #مفاد_پرستی #سیدہ #مولانا_حیدر_علی #انقلابی_میڈیا #انقلابی #دفاع #شہادت
More...
Description:
جناب سیدہ (س) نے کیسے مفاد پرستی کے مقابلے میں حق کا دفاع کیا؟ مفاد پرستوں نے کیوں امام علیؑ کو تنھا چھوڑ دیا؟ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا سید حیدر علی جعفری (قم)
ویڈیو : ہدایت ٹی وی
پروگرام : صبحِ ہدایت
17 جنوری 2020
دورانیہ: 02:54
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
#ویڈیو #کلپ #فاطمیہ #ہدایت #ایام #صبح #مفاد_پرستی #سیدہ #مولانا_حیدر_علی #انقلابی_میڈیا #انقلابی #دفاع #شہادت
2:51
|
امریکی باتوں کو دُہرانا! | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
عام طور پر جمہوری اسلامیہ کے عہدیداروں کی ذمہ داری انقلاب اسلامی سمیت ملکی نظام اور اسکی داخلی اور خارجہ...
عام طور پر جمہوری اسلامیہ کے عہدیداروں کی ذمہ داری انقلاب اسلامی سمیت ملکی نظام اور اسکی داخلی اور خارجہ پالیسی کا بھر پور دفاع کرنا ہے اور انہیں کبھی بھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جو ملک کی سیاست کے خلاف اور دشمن کے مفاد میں ہو، تاہم بعض عہدیداران دانستہ یا نادانستہ طور پر بسا اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو دشمن کے مفاد میں ہوتی ہیں اور وہ گویا دشمن کی زبان میں بات کر رہے ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ انکے منہ میں دشمن کی زبان رکھ دی گئی ہو جو قابل افسوس ہونے کے ساتھ حیرت انگیز بھی ہے، کبھی بھی اسلامی جمہوریہ کے عہدیداروں میں سے کسی کو بھی کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے ایسا لگے کہ وہ دشمن کی باتوں کو ہی دُہرا رہے ہیں۔ خواہ وہ قُدس فورس کے بارے میں ہوں یا پھر شہید حاج قاسم سلیمانیؒ کی شخصیت کے بارے میں! ملک کے حکمرانوں اور عہدیداروں کو تمام مسائل میں ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان دینے کی ضرورت ہے اور ملک کی پالیسی کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے۔
ملکی سیاست میں کونسے کونسے عناصر شامل ہیں؟ ملکی عہدیداروں کو کس طرح آگے بڑھنا چاہئے؟ ملکی سیاست کے حوالے سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے؟ \"قُدس فورس\" نے مغربی ایشیا میں کونسا اہم کردار ادا کیا ہے؟ دشمن کو \"قُدس فورس\" سے کیونکر خوف لاحق ہے اور\"قُدس فورس\" کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی کو کس لئے شہید کردیا گیا؟ انہی تمام سوالات سے آگاہی کیلئے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #جمہوریت #عہدیدار #باتیں #ایران #قدس_فورس #مغربی_ایشیا #سفارت_کاری #عنصر #ملک #شہید_سلیمانی #خارجہ_پالیسی #سفارت_کاری #امریکہ
More...
Description:
عام طور پر جمہوری اسلامیہ کے عہدیداروں کی ذمہ داری انقلاب اسلامی سمیت ملکی نظام اور اسکی داخلی اور خارجہ پالیسی کا بھر پور دفاع کرنا ہے اور انہیں کبھی بھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جو ملک کی سیاست کے خلاف اور دشمن کے مفاد میں ہو، تاہم بعض عہدیداران دانستہ یا نادانستہ طور پر بسا اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو دشمن کے مفاد میں ہوتی ہیں اور وہ گویا دشمن کی زبان میں بات کر رہے ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ انکے منہ میں دشمن کی زبان رکھ دی گئی ہو جو قابل افسوس ہونے کے ساتھ حیرت انگیز بھی ہے، کبھی بھی اسلامی جمہوریہ کے عہدیداروں میں سے کسی کو بھی کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے ایسا لگے کہ وہ دشمن کی باتوں کو ہی دُہرا رہے ہیں۔ خواہ وہ قُدس فورس کے بارے میں ہوں یا پھر شہید حاج قاسم سلیمانیؒ کی شخصیت کے بارے میں! ملک کے حکمرانوں اور عہدیداروں کو تمام مسائل میں ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان دینے کی ضرورت ہے اور ملک کی پالیسی کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے۔
ملکی سیاست میں کونسے کونسے عناصر شامل ہیں؟ ملکی عہدیداروں کو کس طرح آگے بڑھنا چاہئے؟ ملکی سیاست کے حوالے سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے؟ \"قُدس فورس\" نے مغربی ایشیا میں کونسا اہم کردار ادا کیا ہے؟ دشمن کو \"قُدس فورس\" سے کیونکر خوف لاحق ہے اور\"قُدس فورس\" کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی کو کس لئے شہید کردیا گیا؟ انہی تمام سوالات سے آگاہی کیلئے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #جمہوریت #عہدیدار #باتیں #ایران #قدس_فورس #مغربی_ایشیا #سفارت_کاری #عنصر #ملک #شہید_سلیمانی #خارجہ_پالیسی #سفارت_کاری #امریکہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
America,
Imam,
Imam
Khamenei,
Islam,
Islami
jumhuri,
enqelab,
enqelab
Islami,
nezam,
defae,
siyasat,
dushman,
quds,
Quds
force,
haj
qasim,
qaseem
soleimani,
mulk,
maghreb,
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای : Islamic Awakening and Youth Conference
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
More...
Description:
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
8:30
|
التفسير الأقوم - تولید علم به جای توزیع علم - Farsi
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
به منظور تولید علم به جای توزیع...
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
به منظور تولید علم به جای توزیع علم و دستیابی به یافته های علمی جدید، دقیق، ارزشمند و خالص در گرو تعیین دقیق مرزهای دانش در موضوع مورد پژوهش است. به عبارت دیگر ابتدا باید وضعیت یافته های پیشین دقیقاً مورد بررسی قرار گیرد تا پژوهش های جدید، با رویکرد تکمیل و تصحیح آ نها انجام شوند. با وجود فراوانی بالای روایات تفسیری، هنوز بسیاری از فرازهای آیات به خصوص فرازهای پایانی آن ها بدون روایت مانده اند. آیات بیروایت، تکرر در ذکر برخی از روایات، جامع نبودن و اکتفای حداقلی به روایات ذیل هر آیه، مانع نبودن، عدم تلاش برای یافتن منابع دست اول، حذف اسناد و فارغ بودن از بررسیهای سندی و ... از جمله کاستی های قابل ملاحظه تفاسیر گذشته است.
بنابراین می توان گفت بسیاری از مفسّران، اغلب به روایات موجود در کتب تفسیری پیش از خود نظر داشته اند و به روایات در دسترس بسنده نموده اند یا حدّاقل همان روایاتی را یافته اند که مفسّران قبلی در کتابهای خود آورده اند. این امر در میان مفسّران متأخّر نمود بیشتری دارد.
لازم به ذکر است ، از لحاظ فراوانی روایات نویافته، به ترتیب تفاسیر اهل بیت (ع) ، تفسیر العياشي، نورالثّقلین، البرهان، الفرقان، الصّافی، در رتبه های برتر قرار دارند.
پیشنهاد
اما امروز به عنوان یک ضرورت اجتناب ناپذیر، باید به دنبال تدوین تفسیری روایی باشیم که عاری از نابسامانی ها و کاستی های موجود در تفاسیر روایی گذشته باشد ، لذا باید به نکات زیر توجه کنیم:
اول اینکه باید در تفسیر هر آیه ضمن کوشش بلیغ و بذل جهد کامل و جامع در فهم معنای آن به همه روایاتی که به نحوی در بیان معنا و مصداق و ظاهر و باطن آن مؤثر است، توجه کرد. با یک نگاه اجمالی در می یابیم ، کلیه تفاسیر روایی موجود روی هم رفته تنها 40% از روایاتی را که لفظا یا معنا به آیات قرآن کریم مربوط می باشند، آورده اند. بنابر این ، با توجه به پراکندگی و تنوع و تکرار احادیث تفسیری، باید از امکانات تکنولوژیک موجود استفاده شایسته به عمل آید و استقصائی تام صورت پذیرد تا نتیجه مطلوب حاصل شود.
دوم اینکه باید مأخذ و سند روایات بررسی شوند، باید معنا و مفاد آنها تبیین شود و از نظر موافقت و مخالفت با نصوص و ظواهر قرآن، سنت قطعیه و روایات معتبره ، ضروریات دین و مذهب و معلومات عقلی مورد واکاوی قرار بگیرند و با در نظر گرفتن مجموع آن مباحث و با نگاهی جامع نگرانه ، میزان اعتبار آنها مشخص شود. یعنی روایات ساختگی و اسرائیلیات باطل حذف شوند و سایر روایات هم از نظر درجه صحت و اعتبار طبقه بندی و علامتگذاری و کد گذاری شوند و به تبع آن به هر روایتی به میزان صحت و اعتبارش ترتیب اثر داده شود.
سوم اینکه روایات فضائل و خواص سور و آیات، و روایات مربوط به قرائت های گوناگون که از منظر لفظ حائز اهمیت و بعضا حاکی از وقوع تحریف لفظی غیر مخل به حجیت، در آیات قرآن کریم هستند ، از روایات تقسیری و مرتبط با معنا و محتوای آیات تفکیک و مدلول هر روایتی از جهت بیان ظاهر ، باطن ، مفهوم و مصداق آیات و تخصیص ، تقیید، توسعه و تعمیم معنا و مفاد آیات تبیین و تعیین شود.
چهارم اینکه با توجه به امکانات تکنولوژیک موجود، این کار بر روی بستر وب به صورت سایتی مستقل و با اپلیکیشن مناسب و با امکانات جستجو، فهرست سازی و نمایش تطبیقی و به زبانهای مختلف ارائه و در اختیار علاقه مندان قرار بگیرد.
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
به منظور تولید علم به جای توزیع علم و دستیابی به یافته های علمی جدید، دقیق، ارزشمند و خالص در گرو تعیین دقیق مرزهای دانش در موضوع مورد پژوهش است. به عبارت دیگر ابتدا باید وضعیت یافته های پیشین دقیقاً مورد بررسی قرار گیرد تا پژوهش های جدید، با رویکرد تکمیل و تصحیح آ نها انجام شوند. با وجود فراوانی بالای روایات تفسیری، هنوز بسیاری از فرازهای آیات به خصوص فرازهای پایانی آن ها بدون روایت مانده اند. آیات بیروایت، تکرر در ذکر برخی از روایات، جامع نبودن و اکتفای حداقلی به روایات ذیل هر آیه، مانع نبودن، عدم تلاش برای یافتن منابع دست اول، حذف اسناد و فارغ بودن از بررسیهای سندی و ... از جمله کاستی های قابل ملاحظه تفاسیر گذشته است.
بنابراین می توان گفت بسیاری از مفسّران، اغلب به روایات موجود در کتب تفسیری پیش از خود نظر داشته اند و به روایات در دسترس بسنده نموده اند یا حدّاقل همان روایاتی را یافته اند که مفسّران قبلی در کتابهای خود آورده اند. این امر در میان مفسّران متأخّر نمود بیشتری دارد.
لازم به ذکر است ، از لحاظ فراوانی روایات نویافته، به ترتیب تفاسیر اهل بیت (ع) ، تفسیر العياشي، نورالثّقلین، البرهان، الفرقان، الصّافی، در رتبه های برتر قرار دارند.
پیشنهاد
اما امروز به عنوان یک ضرورت اجتناب ناپذیر، باید به دنبال تدوین تفسیری روایی باشیم که عاری از نابسامانی ها و کاستی های موجود در تفاسیر روایی گذشته باشد ، لذا باید به نکات زیر توجه کنیم:
اول اینکه باید در تفسیر هر آیه ضمن کوشش بلیغ و بذل جهد کامل و جامع در فهم معنای آن به همه روایاتی که به نحوی در بیان معنا و مصداق و ظاهر و باطن آن مؤثر است، توجه کرد. با یک نگاه اجمالی در می یابیم ، کلیه تفاسیر روایی موجود روی هم رفته تنها 40% از روایاتی را که لفظا یا معنا به آیات قرآن کریم مربوط می باشند، آورده اند. بنابر این ، با توجه به پراکندگی و تنوع و تکرار احادیث تفسیری، باید از امکانات تکنولوژیک موجود استفاده شایسته به عمل آید و استقصائی تام صورت پذیرد تا نتیجه مطلوب حاصل شود.
دوم اینکه باید مأخذ و سند روایات بررسی شوند، باید معنا و مفاد آنها تبیین شود و از نظر موافقت و مخالفت با نصوص و ظواهر قرآن، سنت قطعیه و روایات معتبره ، ضروریات دین و مذهب و معلومات عقلی مورد واکاوی قرار بگیرند و با در نظر گرفتن مجموع آن مباحث و با نگاهی جامع نگرانه ، میزان اعتبار آنها مشخص شود. یعنی روایات ساختگی و اسرائیلیات باطل حذف شوند و سایر روایات هم از نظر درجه صحت و اعتبار طبقه بندی و علامتگذاری و کد گذاری شوند و به تبع آن به هر روایتی به میزان صحت و اعتبارش ترتیب اثر داده شود.
سوم اینکه روایات فضائل و خواص سور و آیات، و روایات مربوط به قرائت های گوناگون که از منظر لفظ حائز اهمیت و بعضا حاکی از وقوع تحریف لفظی غیر مخل به حجیت، در آیات قرآن کریم هستند ، از روایات تقسیری و مرتبط با معنا و محتوای آیات تفکیک و مدلول هر روایتی از جهت بیان ظاهر ، باطن ، مفهوم و مصداق آیات و تخصیص ، تقیید، توسعه و تعمیم معنا و مفاد آیات تبیین و تعیین شود.
چهارم اینکه با توجه به امکانات تکنولوژیک موجود، این کار بر روی بستر وب به صورت سایتی مستقل و با اپلیکیشن مناسب و با امکانات جستجو، فهرست سازی و نمایش تطبیقی و به زبانهای مختلف ارائه و در اختیار علاقه مندان قرار بگیرد.
Video Tags:
التفسير
الأقوم,رویکرد
صحیح
به
روایات
تفسیری,مشهور,غیر
مشهور,علما
و
محدثان
و
فقها,سلسله
سند,وثوق
و
اطمینان,معصوم,علم
درایت
حدیث,علم
رجال,علم
اصول
فقه,الکافی,وسائل
الشیعه,مرحوم
کلینی,علوم
تجربی,دانش
بشر,مدعیان
تشیع,روایات
غیر
معتبر,فاطمه
الزهراء,حجج
الاهی,ائمه
هدی,بکریه
و
عمریه,دعوا
ما
وافق
القوم,فان
الرشد
في
خلافهم,ما
خالف
العامة
ففيه
الرشاد,فان
الحق
في
ما
خالفهم,چهارده
نور
مقدس,تولید
علم,توزیع
علم,معصومين,العياشي,نور
الثقلين,معجزه,قرآن,عترت
1:12
|
Competition announcement from Mashhad Iran - Farsi
فراخوان نهمین جشنواره بین المللی امام رضا (ع) امروز چهارشنبه 25 اسفند ماهDetails : http://shamstoos.ir/
1389 با چاپ در...
فراخوان نهمین جشنواره بین المللی امام رضا (ع) امروز چهارشنبه 25 اسفند ماهDetails : http://shamstoos.ir/
1389 با چاپ در روزنامه قدس به صورت عمومی انتشار یافت.
این فراخوان در پایگاه اطلاع رسانی دبیرخانه دائمی این جشنواره نیز برای علاقه مندان در دسترس قرار گرفته است. همچنین روزنامه خراسان در شماره پنجشنبه 26 اسفند ماه اقدام به چاپ این فراخوان خواهد نمود.
علاقه مندان محترم می تواند با مطالعه مفاد فراخوان نسبت به ثبت نام اقدام نمایند. شایان ذکر است ثبت نام در یک یا چند برنامه برای مخاطبان آزاد می باشد.
جدول برنامه ها را از فایل انتهای خبر دریافت نمائید.
More...
Description:
فراخوان نهمین جشنواره بین المللی امام رضا (ع) امروز چهارشنبه 25 اسفند ماهDetails : http://shamstoos.ir/
1389 با چاپ در روزنامه قدس به صورت عمومی انتشار یافت.
این فراخوان در پایگاه اطلاع رسانی دبیرخانه دائمی این جشنواره نیز برای علاقه مندان در دسترس قرار گرفته است. همچنین روزنامه خراسان در شماره پنجشنبه 26 اسفند ماه اقدام به چاپ این فراخوان خواهد نمود.
علاقه مندان محترم می تواند با مطالعه مفاد فراخوان نسبت به ثبت نام اقدام نمایند. شایان ذکر است ثبت نام در یک یا چند برنامه برای مخاطبان آزاد می باشد.
جدول برنامه ها را از فایل انتهای خبر دریافت نمائید.
23:14
|
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali Khamenei - Urdu translation
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں،...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
More...
Description:
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
15:48
|
[Media Watch] Press Conference | H.I Raja Nasir Abbas - 20 Mar 2014 - Urdu
[Media Watch] Press Conference | H.I Raja Nasir Abbas - 20 Mar 2014 - Urdu
علامہ راجہ ناصر عباس اور دیگر رہنماوں کی پریس کانفرنس
سیاستدانوں...
[Media Watch] Press Conference | H.I Raja Nasir Abbas - 20 Mar 2014 - Urdu
علامہ راجہ ناصر عباس اور دیگر رہنماوں کی پریس کانفرنس
سیاستدانوں کو پاکستان سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے،
علامہ راجہ ناصر نے کہا کہ کیا اسلام کے خلاف، آئین کے خلاف قدم اٹحانے کو اسلام دوستی و وطن دوستی تصور کیا جانا چاہئے؟
More...
Description:
[Media Watch] Press Conference | H.I Raja Nasir Abbas - 20 Mar 2014 - Urdu
علامہ راجہ ناصر عباس اور دیگر رہنماوں کی پریس کانفرنس
سیاستدانوں کو پاکستان سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے،
علامہ راجہ ناصر نے کہا کہ کیا اسلام کے خلاف، آئین کے خلاف قدم اٹحانے کو اسلام دوستی و وطن دوستی تصور کیا جانا چاہئے؟
9:36
|
Power Shifting Towards East to Asia | Allama Raja Nasir Abbas Jafri | Part 2
طاقت کےتوازن کی ایشیا کی جانب منتقلی کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ؟
پاکستان کوکیوں غیر مستحکم کرنے کی کوشش...
طاقت کےتوازن کی ایشیا کی جانب منتقلی کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ؟
پاکستان کوکیوں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟
پاکستان مقاومت کی زنجیر میں کیاحیثت رکھتا ہے ؟
بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے ؟
کیا قومی مفاد تمام مفادات سے مقدم ہیں ؟
ان تمام سوالوں کے جواب سننے کے لئے مکمل ویڈیو دیکھئے
حجت الاسلام والمسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ اللہ
سربراہ ایم ڈبلیوایم پاکستان
More...
Description:
طاقت کےتوازن کی ایشیا کی جانب منتقلی کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ؟
پاکستان کوکیوں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟
پاکستان مقاومت کی زنجیر میں کیاحیثت رکھتا ہے ؟
بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے ؟
کیا قومی مفاد تمام مفادات سے مقدم ہیں ؟
ان تمام سوالوں کے جواب سننے کے لئے مکمل ویڈیو دیکھئے
حجت الاسلام والمسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ اللہ
سربراہ ایم ڈبلیوایم پاکستان
1:05
|
کیا مغربی دنیا ہماری خیر خواہ ہے! | امام خمینی رضوان اللہ علیہ | Farsi Sub Urdu
تری حریف ہے یا ربّ سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
مغرب کی مادی ترقی اور علوم میں ترقی کی وجہ...
تری حریف ہے یا ربّ سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
مغرب کی مادی ترقی اور علوم میں ترقی کی وجہ سے کچھ نافہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا انسانیت کی خیر خواہ دنیا ہے جب کہ ہم تاریخ پر نگاہ کریں اور اُن کی موجودہ سیاست پر دقیق نگاہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ فقط اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر قسم کے حربے اپناتے ہیں۔ علم کے غلط استعمال کے ذریعے آج دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا سہرا مغرب کے سر جاتا ہے۔ وہ اپنا مفاد اِس چیز میں سمجھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص مسلمان ممالک ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوں کیونکہ یہ چیز اُن کے مفادات کے خلاف ہے اِس چیز کا اظہار باقاعدہ طور پر کچھ مغربی سیاسیی افراد برملا کر بھی چکے ہیں۔ مسلمانوں کی بقا اور ترقی باہمی وحدت، علم و ٹیکنالوجی کی طرف توجہ، خود مختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ میں ہے۔
اِس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو سے استفادہ کیجئے۔
#ویڈیو #مغرب #تحفہ #ترقی #نچلی_سطح #استعمال #استعماری #مشیت #اسلام_کی_برکت #قید
More...
Description:
تری حریف ہے یا ربّ سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
مغرب کی مادی ترقی اور علوم میں ترقی کی وجہ سے کچھ نافہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا انسانیت کی خیر خواہ دنیا ہے جب کہ ہم تاریخ پر نگاہ کریں اور اُن کی موجودہ سیاست پر دقیق نگاہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ فقط اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر قسم کے حربے اپناتے ہیں۔ علم کے غلط استعمال کے ذریعے آج دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا سہرا مغرب کے سر جاتا ہے۔ وہ اپنا مفاد اِس چیز میں سمجھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص مسلمان ممالک ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوں کیونکہ یہ چیز اُن کے مفادات کے خلاف ہے اِس چیز کا اظہار باقاعدہ طور پر کچھ مغربی سیاسیی افراد برملا کر بھی چکے ہیں۔ مسلمانوں کی بقا اور ترقی باہمی وحدت، علم و ٹیکنالوجی کی طرف توجہ، خود مختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ میں ہے۔
اِس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو سے استفادہ کیجئے۔
#ویڈیو #مغرب #تحفہ #ترقی #نچلی_سطح #استعمال #استعماری #مشیت #اسلام_کی_برکت #قید
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
maghribi
dunya,
khair
khaah,
imam
khomeini,
maaddi
taraqqi,
musalman,
nafehem,
insaniyat,
maujooda
siyasat,
mafadaat,
husool,
harbe,
tabahi,
sehra,
mamalik,
wehdat,
ilm,
technology,
khudmukhtari,
islami
aqdaar,
tahaffuz,
2:03
|
امریکہ کا اپنے دوست ممالک کی پشت پر خنجر | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
بھیڑیا صفت انسانوں سے اور بھیڑیا صفت ممالک سے دوستی سراسر حماقت کے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے اندر کے وحشی...
بھیڑیا صفت انسانوں سے اور بھیڑیا صفت ممالک سے دوستی سراسر حماقت کے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے اندر کے وحشی پن اور درندگی سے کوئی بھی امان میں نہیں ہوتا ہے.
امریکہ کی تاریخ ماضی سے لے کر اب تک اس کے وحشی پن اور درندگی پر واضح گواہ ہے. یہ کسی بھی ملک کو اس وقت تک اپنے ساتھ رکھتا ہے جب تک اسے مکمل استعمال نہ کر لے جیسے ہی اس ملک سے اس کے مفادات پورے ہو جاتے ہیں اسے بیچ بھنور میں لا کر اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جب بھی اس کے مفاد کا تقاضا ہوتا ہے اپنے ہی دوست سمجھے جانے والے ملک کی پشت پر خنجر مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے جس کی مثالیں بھری پڑی ہیں خواہ ایشیا کے اس کے دوست سمجھے جانے والے ممالک ہوں یا افریقی و یورپی ممالک کوئی بھی اس وحشی درندے کے شر سے اب تک محفوظ نہیں رہا ہے.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بصیرت افروز فرامین اس ویڈیو میں ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #امریکہ #دوست_ممالک #پشت_پر_خنجر #مدارات #امریکہ_کا_منصوبہ #پالیسی #مشترکہ_مفادات #جگر #چاک #یورپی_ممالک #انٹرنیٹ #موبائل_فون #جاسوسی #سیاسی_مسائل #اسٹریٹجک_غلطی
More...
Description:
بھیڑیا صفت انسانوں سے اور بھیڑیا صفت ممالک سے دوستی سراسر حماقت کے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے اندر کے وحشی پن اور درندگی سے کوئی بھی امان میں نہیں ہوتا ہے.
امریکہ کی تاریخ ماضی سے لے کر اب تک اس کے وحشی پن اور درندگی پر واضح گواہ ہے. یہ کسی بھی ملک کو اس وقت تک اپنے ساتھ رکھتا ہے جب تک اسے مکمل استعمال نہ کر لے جیسے ہی اس ملک سے اس کے مفادات پورے ہو جاتے ہیں اسے بیچ بھنور میں لا کر اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جب بھی اس کے مفاد کا تقاضا ہوتا ہے اپنے ہی دوست سمجھے جانے والے ملک کی پشت پر خنجر مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے جس کی مثالیں بھری پڑی ہیں خواہ ایشیا کے اس کے دوست سمجھے جانے والے ممالک ہوں یا افریقی و یورپی ممالک کوئی بھی اس وحشی درندے کے شر سے اب تک محفوظ نہیں رہا ہے.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بصیرت افروز فرامین اس ویڈیو میں ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #امریکہ #دوست_ممالک #پشت_پر_خنجر #مدارات #امریکہ_کا_منصوبہ #پالیسی #مشترکہ_مفادات #جگر #چاک #یورپی_ممالک #انٹرنیٹ #موبائل_فون #جاسوسی #سیاسی_مسائل #اسٹریٹجک_غلطی
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
AMERICA,
dost,
khanjar,
imam,
imam
khamenei,
imam
sayyid
ali
khamenei,
mobile,
internet,
jasosi,
siasy,
strategic
ghalti,
9:22
|
التفسير الأقوم - نقد اجمالی نظریه تفسیر قرآن به قرآن - Farsi
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
#ولایت_فقیه
در همین جا باید به...
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
#ولایت_فقیه
در همین جا باید به روش موسوم به تفسیر قرآن به قرآن اشاره کنیم که مدعی است برای فهم مقاصد، مفاهیم، معارف و شرایع قرآن کریم، نیازی به هیچ منبع دیگری جز خود قرآن نیست و مفسر می تواند در تفسیر هر آیه ای با مراجعه به آیات دیگر قرآن، مقصود و مفاد آیه را دریابد. مهمترین استدلال مدافعان این نظریه آن است که قران خود را «کتاب مبین» و «تبیانا لکل شئ» توصیف و معرفی می کند؛ با این لحاظ اگر سخن از نیاز به منبعی دیگر غیر از خود قرآن به میان آید، نافی این توصیفات می باشد.
پاسخ این سفسطه آن است که اولا این سخن بازپردازشی از سخن منافقانه عمر بن الخطاب است که طبق حدیث قرطاس در واپسین روزهای زندگی رسول خدا (ص) آن هنگام که آن حضرت قلم و کتف خواستند تا بر امت چیزی بنویسند که هرگز گمراه نشوند، عمر گفت: دعوه قد غلبه الوجع ان الرجل لیهجر حسبنا کتاب الله. او را رها کنید بیماری بر او غالب شده است، این مرد هذیان می گوید، کتاب خدا ما را بس است. تمام پاسخ هایی که برای شکستن این سفسطه عمر بن الخطاب ذکر شده است، اینجا هم کاربرد دارند. لازم به ذکر است ماجرای قرطاس به همراه مستندات و نقد این عبارت عمر بن الخطاب از منظر عقل، قرآن، سنت نبوی، سیره اصحاب رسول خدا و ائمه هدی(ع) و موازین علم حدیث طی برنامه مستقلی تحت عنوان: «عمر بن الخطاب: دعوه قد غلبه الوجع ان الرجل لیهجر حسبنا کتاب الله» تقدیم حضور علاقه مندان شده است.
به علاوه معتقدان به این رأی و روش بی اساس یعنی (روش موسوم به تفسیر قرآن به قرآن) باید توضیح دهند: عدد رکعات و جزئیات احکام نماز و روزه و خمس و موارد و حد نصاب زکات و جزئیات حج و عمره و جهاد و هزاران هزار مسأله و مستحدثه دیگر ، در کجای قرآن کریم توضیح داده شده است؟ اگر سنت حضرت ختمی مرتبت رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم صلوات الله نبود، جزئیات معارف و شرایع دین از کجای آیات قرآن کریم بیان می شد؟ تازه چگونه انسان عادی با نقصان علم و کندی ذهن و خطا کار بودن خویش و سهو و غفلت و نسیان و غرض ورزی و آلودگی به انواع هوی و هوس، می تواند برداشتی معصومانه از آیات قرآن کریم داشته باشد؟ آیا شکل گیری هزاران نظریه و تفسیر به رأی و وجود اختلاف بین به اصطلاح علمای دین در برداشت از آیات قرآن کریم و استناد به آن برای اثبات دعاوی پوچ و خیال پردازانه خود و اختلاف فتاوای آنها برای رد این رأی نادرست و کج اندیشی سخیف کافی نیست؟
به علاوه با توجه به آیات و روایاتی که در ابتدای عرایضم ذکر شد، می گوییم: بله قرآن کتاب مبین و تبیانا لکل شئ است اما در پرتو تعالیم و آموزه های مفسرین و معلمین حقیقی قرآن که رسول خدا ، بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام هستند. همان گونه که دیدیم، هم قرآن و هم ده ها روایت بر نقش چهارده نور مقدس علیهم السلام در تبیین و تفسیر قرآن تصریح می کنند و به صراحت بر این گمان که بدون مراجعه به آن بزرگواران می توان به تفسیر و تأویل قرآن کریم دست یافت ، خط بطلان می کشند.
در الكافي (ط - الإسلامية)، ج2، ص: 632 روایتی از امام صادق علیه السلام نقل شده است که می فرماید: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَبِي ع مَا ضَرَبَ رَجُلٌ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ إِلَّا كَفَرَ.
کسی بعضی از قرآن را بر بعضی دیگر از آن نزده جز آن که کافر شده است.
همین روایت را شیخ صدوق نقل کردند و از استاد خود می پرسند: مقصود از زدن بعضی از قرآن بر بعض دیگر چیست؟ استاد جواب می دهند: یعنی این که شخص در تفسیر آیه ای با تفسیر آیه ای دیگر جواب گوید.
و سألت محمد بن الحسن رحمه الله عن معنى هذا الحديث فقال هو أن تجيب الرجل في تفسير آية بتفسير آية اخرى
خود قرآن در سوره الإسراء : 82 می فرماید: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنينَ وَ لا يَزيدُ الظَّالِمينَ إِلاَّ خَساراً
قرآن کریم برای کسانی است که مؤمن به ولایت چهارده نور مقدس (ع) هستند، شفاء و رحمت است و از شؤون ولایت آن عزیزان ، تبیین و تفسیر و تأویل آیات قرآن کریم است. و همین قرآن برای کسانی که به آن بزرگواران ظلم کنند و ولایت ایشان که بزرگترین حق آن حضرات است را انکار کنند و نپذیرند، و خود را از نظر علمی یا عملی ، بی نیاز از ایشان ببینند یا خود را جایگزین آن بزرگواران کنند و بدون هیچ فضیلتی، ادعای برخورداری از تمامی اختیارات حجج الهی را داشته باشند، موجب فزونی خسارت و زیان است و نتیجه ای جز فساد و افساد بی حد و حصر ندارد . چون با بی توجهی به تبیین ، تفسیر و تأویل چهارده نور مقدس(ع) از آیات قرآن کریم، انسانها با برداشت های غیر معصومانه و آمیخته به هوی و هوس، سهو و نسیان و غفلت و خطا و اشتباه و غرض ورزی، به بیراهه ضلالت می روند و سر از جهنم در می آورند و دیگران را نیز به ورطه هلاکت می کشانند:
باران که در لطافت طبعش خلاف نیست+ در بوستان گل بروید و در شوره زار خس
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
#درایت_حدیث
#تفسیر_قرآن
#تفقه_و_استنباط
#تفاسیر_روایی
#ولایت_فقیه
در همین جا باید به روش موسوم به تفسیر قرآن به قرآن اشاره کنیم که مدعی است برای فهم مقاصد، مفاهیم، معارف و شرایع قرآن کریم، نیازی به هیچ منبع دیگری جز خود قرآن نیست و مفسر می تواند در تفسیر هر آیه ای با مراجعه به آیات دیگر قرآن، مقصود و مفاد آیه را دریابد. مهمترین استدلال مدافعان این نظریه آن است که قران خود را «کتاب مبین» و «تبیانا لکل شئ» توصیف و معرفی می کند؛ با این لحاظ اگر سخن از نیاز به منبعی دیگر غیر از خود قرآن به میان آید، نافی این توصیفات می باشد.
پاسخ این سفسطه آن است که اولا این سخن بازپردازشی از سخن منافقانه عمر بن الخطاب است که طبق حدیث قرطاس در واپسین روزهای زندگی رسول خدا (ص) آن هنگام که آن حضرت قلم و کتف خواستند تا بر امت چیزی بنویسند که هرگز گمراه نشوند، عمر گفت: دعوه قد غلبه الوجع ان الرجل لیهجر حسبنا کتاب الله. او را رها کنید بیماری بر او غالب شده است، این مرد هذیان می گوید، کتاب خدا ما را بس است. تمام پاسخ هایی که برای شکستن این سفسطه عمر بن الخطاب ذکر شده است، اینجا هم کاربرد دارند. لازم به ذکر است ماجرای قرطاس به همراه مستندات و نقد این عبارت عمر بن الخطاب از منظر عقل، قرآن، سنت نبوی، سیره اصحاب رسول خدا و ائمه هدی(ع) و موازین علم حدیث طی برنامه مستقلی تحت عنوان: «عمر بن الخطاب: دعوه قد غلبه الوجع ان الرجل لیهجر حسبنا کتاب الله» تقدیم حضور علاقه مندان شده است.
به علاوه معتقدان به این رأی و روش بی اساس یعنی (روش موسوم به تفسیر قرآن به قرآن) باید توضیح دهند: عدد رکعات و جزئیات احکام نماز و روزه و خمس و موارد و حد نصاب زکات و جزئیات حج و عمره و جهاد و هزاران هزار مسأله و مستحدثه دیگر ، در کجای قرآن کریم توضیح داده شده است؟ اگر سنت حضرت ختمی مرتبت رسول خدا و بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم صلوات الله نبود، جزئیات معارف و شرایع دین از کجای آیات قرآن کریم بیان می شد؟ تازه چگونه انسان عادی با نقصان علم و کندی ذهن و خطا کار بودن خویش و سهو و غفلت و نسیان و غرض ورزی و آلودگی به انواع هوی و هوس، می تواند برداشتی معصومانه از آیات قرآن کریم داشته باشد؟ آیا شکل گیری هزاران نظریه و تفسیر به رأی و وجود اختلاف بین به اصطلاح علمای دین در برداشت از آیات قرآن کریم و استناد به آن برای اثبات دعاوی پوچ و خیال پردازانه خود و اختلاف فتاوای آنها برای رد این رأی نادرست و کج اندیشی سخیف کافی نیست؟
به علاوه با توجه به آیات و روایاتی که در ابتدای عرایضم ذکر شد، می گوییم: بله قرآن کتاب مبین و تبیانا لکل شئ است اما در پرتو تعالیم و آموزه های مفسرین و معلمین حقیقی قرآن که رسول خدا ، بی بی دو عالم فاطمه زهراء و ائمه هدی علیهم السلام هستند. همان گونه که دیدیم، هم قرآن و هم ده ها روایت بر نقش چهارده نور مقدس علیهم السلام در تبیین و تفسیر قرآن تصریح می کنند و به صراحت بر این گمان که بدون مراجعه به آن بزرگواران می توان به تفسیر و تأویل قرآن کریم دست یافت ، خط بطلان می کشند.
در الكافي (ط - الإسلامية)، ج2، ص: 632 روایتی از امام صادق علیه السلام نقل شده است که می فرماید: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَبِي ع مَا ضَرَبَ رَجُلٌ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ إِلَّا كَفَرَ.
کسی بعضی از قرآن را بر بعضی دیگر از آن نزده جز آن که کافر شده است.
همین روایت را شیخ صدوق نقل کردند و از استاد خود می پرسند: مقصود از زدن بعضی از قرآن بر بعض دیگر چیست؟ استاد جواب می دهند: یعنی این که شخص در تفسیر آیه ای با تفسیر آیه ای دیگر جواب گوید.
و سألت محمد بن الحسن رحمه الله عن معنى هذا الحديث فقال هو أن تجيب الرجل في تفسير آية بتفسير آية اخرى
خود قرآن در سوره الإسراء : 82 می فرماید: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنينَ وَ لا يَزيدُ الظَّالِمينَ إِلاَّ خَساراً
قرآن کریم برای کسانی است که مؤمن به ولایت چهارده نور مقدس (ع) هستند، شفاء و رحمت است و از شؤون ولایت آن عزیزان ، تبیین و تفسیر و تأویل آیات قرآن کریم است. و همین قرآن برای کسانی که به آن بزرگواران ظلم کنند و ولایت ایشان که بزرگترین حق آن حضرات است را انکار کنند و نپذیرند، و خود را از نظر علمی یا عملی ، بی نیاز از ایشان ببینند یا خود را جایگزین آن بزرگواران کنند و بدون هیچ فضیلتی، ادعای برخورداری از تمامی اختیارات حجج الهی را داشته باشند، موجب فزونی خسارت و زیان است و نتیجه ای جز فساد و افساد بی حد و حصر ندارد . چون با بی توجهی به تبیین ، تفسیر و تأویل چهارده نور مقدس(ع) از آیات قرآن کریم، انسانها با برداشت های غیر معصومانه و آمیخته به هوی و هوس، سهو و نسیان و غفلت و خطا و اشتباه و غرض ورزی، به بیراهه ضلالت می روند و سر از جهنم در می آورند و دیگران را نیز به ورطه هلاکت می کشانند:
باران که در لطافت طبعش خلاف نیست+ در بوستان گل بروید و در شوره زار خس
Video Tags:
التفسير
الأقوم,رویکرد
صحیح
به
روایات
تفسیری,مشهور,غیر
مشهور,علما
و
محدثان
و
فقها,سلسله
سند,وثوق
و
اطمینان,معصوم,علم
درایت
حدیث,علم
رجال,علم
اصول
فقه,الکافی,وسائل
الشیعه,مرحوم
کلینی,علوم
تجربی,دانش
بشر,مدعیان
تشیع,روایات
غیر
معتبر,فاطمه
الزهراء,حجج
الاهی,ائمه
هدی,بکریه
و
عمریه,دعوا
ما
وافق
القوم,فان
الرشد
في
خلافهم,ما
خالف
العامة
ففيه
الرشاد,فان
الحق
في
ما
خالفهم,چهارده
نور
مقدس,تولید
علم,توزیع
علم,معصومين,العياشي,نور
الثقلين,معجزه,قرآن,عترت