44:12
|
43:04
|
42:11
|
1:35
|
23:16
|
Video Tags:
Zehni,,Mazoor,,Bachoon,,Kay,,Sath,,Bertawo,,sahar,,Urdu,,News
19:47
|
Video Tags:
Mazoor,,afrad,,main,,nafsiyati,,masyel,,sahar,,urdu,,naseem,,zindgi,,,
1:07
|
Video Tags:
Israeli,Fauj,,Falastiniuyou,,Ko,,Jan,,boojh,,Ker,,Madoor,,Bana,,Rahi,,HAy,,Sahar,,Urdu,,NEws
URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
More...
Description:
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
12:21
|
عید نوروز کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی کا پیغام - Urdu
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا...
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
More...
Description:
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
2:04
|
ناگاساکی اور ہیروشیما پر امریکی بمباری | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی بمباری کے حوالے سے کیا...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی بمباری کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ کس سن میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیا؟ امریکی ایٹمی حملے کے نتیجے میں ہیروشیما میں فوری طور پر کتنے افراد ہلاک ہوئے؟ ایٹمی حملے کے بعد میں کیا نتائج نکلے؟ دوسرے امریکی ایٹمی حملے کے نتیجے میں ناگاساکی میں کتنے افراد مارے گئے؟ امریکہ نے ایٹمی حملے کا کیا مضحکہ خیز جواز پیش کیا تھا؟ امریکی فوج کس فطرت اور عادت کی حامل فوج ہے؟
#ویڈیو #امریکہ #ہیروشیما #ناگاساکی #ایک_لاکھ #پچاس_ہزار #ہلاک #معذور #ایٹمی_امواج #یورینیم #پلاٹینیم #استکباری_فوج
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی بمباری کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ کس سن میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیا؟ امریکی ایٹمی حملے کے نتیجے میں ہیروشیما میں فوری طور پر کتنے افراد ہلاک ہوئے؟ ایٹمی حملے کے بعد میں کیا نتائج نکلے؟ دوسرے امریکی ایٹمی حملے کے نتیجے میں ناگاساکی میں کتنے افراد مارے گئے؟ امریکہ نے ایٹمی حملے کا کیا مضحکہ خیز جواز پیش کیا تھا؟ امریکی فوج کس فطرت اور عادت کی حامل فوج ہے؟
#ویڈیو #امریکہ #ہیروشیما #ناگاساکی #ایک_لاکھ #پچاس_ہزار #ہلاک #معذور #ایٹمی_امواج #یورینیم #پلاٹینیم #استکباری_فوج
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
nagasaki,
hiroshima,
amrica,
bambari,
atom
bomb,
hamla,
atomi
hamla,
WW2,
wali
amre
muslemeen,
sayyid
ali
khamenei,
japan,
halakat,
mazhaka,
jawaz,
shaytan
e
buzurg,
amrici
fauj,
fitrat,
aadat,
halak,
maazoor,
atomi
amwaaj,
uranium,
plutonium,
istekbari
fauj,
5:17
|
الحقائق المكتومة و الأمة المخدوعة (5) - في المعاد - Arabic
#العقائد_الحقة
#الإمامة
#الحقيقة
#الوحدة_الإسلامية
#الإمامية
#ولاية_الفقيه
و اعتقادنا في المعاد أنّه حقّ...
#العقائد_الحقة
#الإمامة
#الحقيقة
#الوحدة_الإسلامية
#الإمامية
#ولاية_الفقيه
و اعتقادنا في المعاد أنّه حقّ واجب «لِتُجْزى كُلُّ نَفْسٍ بِما تَسْعى» و لو لم يكن معادٌ لزم العبثُ في التكليفِ و إرسالِ الرّسل و إنزالِ الكتب.
و جميعُ ما وَرَدَ في القرآن أو الرّواياتِ المتواترةِ من الصراطِ و الميزانِ و انطاقِ الجوارح و غيرِ ذلك حقٌّ.
و الثوابُ و العقابُ لأهل الاستحقاق، و الأعواض لأصحاب الضُرّ و البلاء واجبٌ.
و التفضلُ لمن لا يستحقّ شيئا كالموتى بعمل الأحياء لهم، حقٌّ واقعٌ أيضا.
و اعتقادنا أنّ الاحباطَ باطلٌ و هو أن يقعَ العملُ بشرائط الصحّة ثمّ يبطُلُ ثوابُه بوقوعِ معصيةٍ. فان ورد لفظُ الاحباط في القرآن و الرّوايات فهو بمعنىً آخر غيرِ معناهُ الاصطلاحيّ. فمثلاً الموافاةُ (أي بقاءُ الإيمان حتي اللحظة الأخري من الحيوة الدنيوية) مِنْ شرائطِ صِحَّةِ الأعمال و قبولها. فعدمُها يعني عدمَ وقوعِهِ بشرائط الصحّة.فعدم الثواب لعدم وجودِ شرائطِ الصِحَّةِ و القبول. لماذا؟ لئلا يخالِفَ الإحباطُ ما دلّ على وجوبِ الجزاء.
و اعتقادنا أنّ المكلّفَ معذورٌ في الفروع إذا خالفَ مُؤَدَّى اجتهاده أو فتوى مجتهدِهِ الحكمَ الواقعي، إذ لا يقْدِرُ على غيرِه.
و ما ورد في ذمّ الاجتهاد يشير إلي ما صَدَرَ مِن أهل الخلاف، البكرية و العمرية و مَنْ تَبِعَهُم بِظُلمٍ وَ بِدْعَةٍ وَ إفسَادٍ، مِنَ القياسِ و الإستحسانِ و المصالحِ المرسلةِ و جعلِ غيرِ الحجةِ بمكانةِ الحجةِ و الرجوعِ إلي غيرِ المعصومين و الإستناد إلي سنة غيرهم في المعارف و الأحكام، أعني الأخذَ من الصَّحابةِ الفسقَةِ و الأخذَ من الشرائع المحرفة المنسوخة و و الأخذَ مِنْ علماءِ السوء و أهلِ البدعة و الضلالةِ و أهلِ السياسةِ و الخونةِ المنحرفة.
و اعتقادنا أنّ قبولَ التوبة تفضلٌ من اللّه تعالى و غيرُ واجب و لذلك يمكن أن يؤخَّرَ عن التوبة.
و اعتقادنا أنّ كلَّ مشقّةٍ تحمّلَهَا ا لمكلّف في سبيل أمر الشارع، فقد وقع أجرُه على اللّه، سواءٌ في ذلك مقدّماتُ الواجب أو نفسِهِ و إن لم يُوفَّقْ لاتمامِهِ لِعُذرٍ من جانب اللّه كمجاهد أو حاجٍّ مات في الطريق لأنّ تركَ اثابتِهِ بعد المشقّة ظلمٌ قبيح.
ثمّ إن وُجِدَ شيءٌ في بعض الآثار مخالفاً لهذه الاصولِ و أمثالهِا المستفادةِ من القرآنِ الكريم المؤيّدةِ بالعقولِ و الاخبارِ المتواترةِ الّتي استخرجَهَا علماؤُنا منها بفكرِهِمُ الدّقيق و جمعُوها في كتبِهِم ، يجب تأويلُها ان ثبتتْ صحّتُها بحيث يرفعُ التنافي. و في النهاية ذكر العلماء ُأنَّ إنكارَ الضروري من الدين الإسلامي دليلٌ علي إنكار الرسالة و علامة ُالخروج عن ربقة الإسلام و بديهةً أنَّ أعظمَ ما جاء به النبي صلي الله عليه و آله و سلم هو ولايةُ مولانا أمير المؤمنين علي بن ابيطالب و اولاده المعصومين عليه و عليهم أفضل الصلوات وأزكى التحيات، لِقَولِ اللهِ عزَّ و جَلَّ : و إن لم تفعل فما بلغت رسالته . فمن أنكرها عالماً عامداً لا عن شبهةٍ ، فقد كفر بما أنكر.
More...
Description:
#العقائد_الحقة
#الإمامة
#الحقيقة
#الوحدة_الإسلامية
#الإمامية
#ولاية_الفقيه
و اعتقادنا في المعاد أنّه حقّ واجب «لِتُجْزى كُلُّ نَفْسٍ بِما تَسْعى» و لو لم يكن معادٌ لزم العبثُ في التكليفِ و إرسالِ الرّسل و إنزالِ الكتب.
و جميعُ ما وَرَدَ في القرآن أو الرّواياتِ المتواترةِ من الصراطِ و الميزانِ و انطاقِ الجوارح و غيرِ ذلك حقٌّ.
و الثوابُ و العقابُ لأهل الاستحقاق، و الأعواض لأصحاب الضُرّ و البلاء واجبٌ.
و التفضلُ لمن لا يستحقّ شيئا كالموتى بعمل الأحياء لهم، حقٌّ واقعٌ أيضا.
و اعتقادنا أنّ الاحباطَ باطلٌ و هو أن يقعَ العملُ بشرائط الصحّة ثمّ يبطُلُ ثوابُه بوقوعِ معصيةٍ. فان ورد لفظُ الاحباط في القرآن و الرّوايات فهو بمعنىً آخر غيرِ معناهُ الاصطلاحيّ. فمثلاً الموافاةُ (أي بقاءُ الإيمان حتي اللحظة الأخري من الحيوة الدنيوية) مِنْ شرائطِ صِحَّةِ الأعمال و قبولها. فعدمُها يعني عدمَ وقوعِهِ بشرائط الصحّة.فعدم الثواب لعدم وجودِ شرائطِ الصِحَّةِ و القبول. لماذا؟ لئلا يخالِفَ الإحباطُ ما دلّ على وجوبِ الجزاء.
و اعتقادنا أنّ المكلّفَ معذورٌ في الفروع إذا خالفَ مُؤَدَّى اجتهاده أو فتوى مجتهدِهِ الحكمَ الواقعي، إذ لا يقْدِرُ على غيرِه.
و ما ورد في ذمّ الاجتهاد يشير إلي ما صَدَرَ مِن أهل الخلاف، البكرية و العمرية و مَنْ تَبِعَهُم بِظُلمٍ وَ بِدْعَةٍ وَ إفسَادٍ، مِنَ القياسِ و الإستحسانِ و المصالحِ المرسلةِ و جعلِ غيرِ الحجةِ بمكانةِ الحجةِ و الرجوعِ إلي غيرِ المعصومين و الإستناد إلي سنة غيرهم في المعارف و الأحكام، أعني الأخذَ من الصَّحابةِ الفسقَةِ و الأخذَ من الشرائع المحرفة المنسوخة و و الأخذَ مِنْ علماءِ السوء و أهلِ البدعة و الضلالةِ و أهلِ السياسةِ و الخونةِ المنحرفة.
و اعتقادنا أنّ قبولَ التوبة تفضلٌ من اللّه تعالى و غيرُ واجب و لذلك يمكن أن يؤخَّرَ عن التوبة.
و اعتقادنا أنّ كلَّ مشقّةٍ تحمّلَهَا ا لمكلّف في سبيل أمر الشارع، فقد وقع أجرُه على اللّه، سواءٌ في ذلك مقدّماتُ الواجب أو نفسِهِ و إن لم يُوفَّقْ لاتمامِهِ لِعُذرٍ من جانب اللّه كمجاهد أو حاجٍّ مات في الطريق لأنّ تركَ اثابتِهِ بعد المشقّة ظلمٌ قبيح.
ثمّ إن وُجِدَ شيءٌ في بعض الآثار مخالفاً لهذه الاصولِ و أمثالهِا المستفادةِ من القرآنِ الكريم المؤيّدةِ بالعقولِ و الاخبارِ المتواترةِ الّتي استخرجَهَا علماؤُنا منها بفكرِهِمُ الدّقيق و جمعُوها في كتبِهِم ، يجب تأويلُها ان ثبتتْ صحّتُها بحيث يرفعُ التنافي. و في النهاية ذكر العلماء ُأنَّ إنكارَ الضروري من الدين الإسلامي دليلٌ علي إنكار الرسالة و علامة ُالخروج عن ربقة الإسلام و بديهةً أنَّ أعظمَ ما جاء به النبي صلي الله عليه و آله و سلم هو ولايةُ مولانا أمير المؤمنين علي بن ابيطالب و اولاده المعصومين عليه و عليهم أفضل الصلوات وأزكى التحيات، لِقَولِ اللهِ عزَّ و جَلَّ : و إن لم تفعل فما بلغت رسالته . فمن أنكرها عالماً عامداً لا عن شبهةٍ ، فقد كفر بما أنكر.
Video Tags:
الإمام,الإمامية,العدالة,العدل,الإجتماعية,الحق,التكليف,و
العصر,الخسران,ألأخسرين,الزيدية,البكرية,العمرية,البترية,ولاية
الفقيه,الإنتظار,انتظار
الفرج,تيار
الوحدة
و
الأخوة,البدعة,حزب
الله,الإرهاب,الجهاد,الدفاع,إسرائيل,ايران,لبنان,الجميلات,الحقائق
المكتومة,الأمة
المخدوعة,الإمامة
الكاذبة,العلماء,الفقهاء,علماء
السوء,الخيانة,خان
الله
و
رسوله,السياسة,الإدارة,الحب,الرومانسي,أهل
السنة
و
الجماعة,الحماقة,الجهل,النفاق,أهل
السياسة,الرجال,النساء,البنات,الشباب,الإسلام
المزيف,الإنحراف
9:01
|
تعصب و تقلید (6) | قلت بضاعت و قصور علم و عدم عصمت | Farsi
#التفسير_الأقوم
التفسير الأقوم - آیات 78 و 79 سوره مبارکه بقره :
وَ مِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ...
#التفسير_الأقوم
التفسير الأقوم - آیات 78 و 79 سوره مبارکه بقره :
وَ مِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلاَّ أَمانِيَّ وَ إِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ (78) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هذا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَ وَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79)
فقیه ، باید حد خود را شناخته و پا را از گلیم خود فراتر نگذارد و به قلت و قصور علم و غیر معصوم بودن و خطا کار بودن خود معترف باشد. فقیه عادل در دوران غیبت کبرای امام زمان ارواحنا لتراب مقدمه الفداء، فتاوی خود را احکامی واقعی نمی داند، بلکه احکامی اضطراری و ظاهری می داند که ممکن است در آینده دور یا نزدیک، خلاف آنها ثابت شود.
شخص عالم هرقدر هم که مقام علمىاش والا باشد، نبايد مطالب یا یافته های خود را به طور قطع و حتم به خدا و پيامبر یا ائمه معصومین (ع) نسبت بدهد. مثلا بگوید اين مطلب، این نکته، این فتوا، این حکم واقعيّتى است که در لوح محفوظ نوشته شده یا به اصطلاح حکم واقعی است. بنابراين، فقیه یا مجتهد، وقتى به واجب و يا حرام بودن چیزی فتوا مىدهد، يا در مقام قضاوت بین طرفین دعوا حكم مىكند كه فلان چيز حقّ است و يا آيه و روايتى را تبیین، تفسير و یا تأویل مىكند، بايد اين كار را به استناى قول و فعل و تقرير چهارده نور مقدس عليهم السلام و در كمال احتياط انجام بدهد و توجّه داشته باشد كه فتوا و يا حکم و یا تفسير او صرفا يك برداشت ، یک رأى و یک نظريّه است كه ممكن است خطا، و يا صواب باشد، نه اينكه تصويرى تام و بی نقص و عیب از مراد الهی و از قول و فعل و تقریر معصوم باشد و حکم واقعی باشد و واقعيّت همین باشه و بس. بنابر این اگر فقیه فراتر از آنچه ذکر شد، شأنی برای خود قائل باشد، پا را از گلیم خود فراتر نهاده است و در مورد خود اشتباه می کند و شاید به خطای خود دیگران را هم به اشتباه بیاندازد. در نتیجه نوعی تعصب غیر معقول و نامشروع در شخصیت او و طرفداران او شکل می گیرد که می تواند مبدأ فساد و افساد شود.
البته، اگر فقیه مجتهد برای دستیابی به معارف و شرایع ، به قدر وسع خود بذل جهد کند، تلاش کند و سعى كند، در پيشگاه خداوند سبحان معذور است و اگر در تلاش و تحقيق كوتاهى كند و يا در اين امر كوتاهى نكند؛ لكن به زعم خود خیال کند كه سخن او عينا همان سخن خدا و رسول خدا و ائمه هدی علیهم السلام است و نه چيزى ديگر، در اين صورت، او همانند كسانى است كه به خدا دروغ مىبندند و ادعای او افتراء علی الله است، حتّى اگر اعلم علماء و اعظم فقهاء هم باشد. زيرا فقیه، عالم و مجتهد، حتی اگر به عالی ترین مدارج علمی هم رسیده باشد، به خوبی می داند که مصون از خطا و سهو و نسیان و اشتباه نیست و ممکن است در دریافت مطلب و استنباط حکم یا تطبیق حکم بر موضوع خطا کرده باشد. لذا اگر عادل باشد، هیچگاه به طور قاطع و به عنوان واقع، فتوا نمىدهد و به عنوان حق حكم نمىكند، بلكه به اعتقاد اينكه ممکن است فتوای او مطابق با واقع باشد، فتوا مىدهد و یا به احتمال این که در ترافع فیما بین، حقیقت را کشف کرده است، حكمی را له یا علیه یکی از طرفین صادر مىكند و اين امر نشان مىدهد كه او معصوم و مصون از خطا و سهو و نسیان و اشتباه نيست.
با کمال تأسف، پاره ای از افراد که فقیه نیستند یا لااقل فقاهت ایشان به شدت مورد تردید است، ولی ادعای فقاهت دارند، با گریم ها و ژست های مخصوص، خود را در میان عوام به عنوان فقیه و مرجع معارف و شرایع الهی قلمداد می کنند و به گونه ای با اعتماد کامل بر هوای نفس، سخن می گویند و رفتار می کنند. گویا معصوم، و مصون از هرگونه خطا و سهو و نسیان و اشتباه هستند. حتی گاهی بر این ادعا پافشاری هم می کنند به طوری که هرکس ادعای ایشان را تایید کند، او را دوست می دارند و از مواهب خود او را سرشار می کنند. اما بدا به حال کسی که حقیقت را بگوید و به شمه ای از خطاهای فاحش ایشان اشاره کند. او را از درگاه خود می رانند و با تحقیر و و اهانت و تهدید و تهمت و افتراء بر او می تازند. ایشان همان فقهای متعصب و مغروری هستند که تعریض آیه شریفه متوجه آنها است و پا جای پای علماء یهود و نصاری و فقهای بکریه و عمریه و زیدیه و بتریه گذاشته اند. أعاذنا الله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا.
More...
Description:
#التفسير_الأقوم
التفسير الأقوم - آیات 78 و 79 سوره مبارکه بقره :
وَ مِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلاَّ أَمانِيَّ وَ إِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ (78) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هذا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَ وَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79)
فقیه ، باید حد خود را شناخته و پا را از گلیم خود فراتر نگذارد و به قلت و قصور علم و غیر معصوم بودن و خطا کار بودن خود معترف باشد. فقیه عادل در دوران غیبت کبرای امام زمان ارواحنا لتراب مقدمه الفداء، فتاوی خود را احکامی واقعی نمی داند، بلکه احکامی اضطراری و ظاهری می داند که ممکن است در آینده دور یا نزدیک، خلاف آنها ثابت شود.
شخص عالم هرقدر هم که مقام علمىاش والا باشد، نبايد مطالب یا یافته های خود را به طور قطع و حتم به خدا و پيامبر یا ائمه معصومین (ع) نسبت بدهد. مثلا بگوید اين مطلب، این نکته، این فتوا، این حکم واقعيّتى است که در لوح محفوظ نوشته شده یا به اصطلاح حکم واقعی است. بنابراين، فقیه یا مجتهد، وقتى به واجب و يا حرام بودن چیزی فتوا مىدهد، يا در مقام قضاوت بین طرفین دعوا حكم مىكند كه فلان چيز حقّ است و يا آيه و روايتى را تبیین، تفسير و یا تأویل مىكند، بايد اين كار را به استناى قول و فعل و تقرير چهارده نور مقدس عليهم السلام و در كمال احتياط انجام بدهد و توجّه داشته باشد كه فتوا و يا حکم و یا تفسير او صرفا يك برداشت ، یک رأى و یک نظريّه است كه ممكن است خطا، و يا صواب باشد، نه اينكه تصويرى تام و بی نقص و عیب از مراد الهی و از قول و فعل و تقریر معصوم باشد و حکم واقعی باشد و واقعيّت همین باشه و بس. بنابر این اگر فقیه فراتر از آنچه ذکر شد، شأنی برای خود قائل باشد، پا را از گلیم خود فراتر نهاده است و در مورد خود اشتباه می کند و شاید به خطای خود دیگران را هم به اشتباه بیاندازد. در نتیجه نوعی تعصب غیر معقول و نامشروع در شخصیت او و طرفداران او شکل می گیرد که می تواند مبدأ فساد و افساد شود.
البته، اگر فقیه مجتهد برای دستیابی به معارف و شرایع ، به قدر وسع خود بذل جهد کند، تلاش کند و سعى كند، در پيشگاه خداوند سبحان معذور است و اگر در تلاش و تحقيق كوتاهى كند و يا در اين امر كوتاهى نكند؛ لكن به زعم خود خیال کند كه سخن او عينا همان سخن خدا و رسول خدا و ائمه هدی علیهم السلام است و نه چيزى ديگر، در اين صورت، او همانند كسانى است كه به خدا دروغ مىبندند و ادعای او افتراء علی الله است، حتّى اگر اعلم علماء و اعظم فقهاء هم باشد. زيرا فقیه، عالم و مجتهد، حتی اگر به عالی ترین مدارج علمی هم رسیده باشد، به خوبی می داند که مصون از خطا و سهو و نسیان و اشتباه نیست و ممکن است در دریافت مطلب و استنباط حکم یا تطبیق حکم بر موضوع خطا کرده باشد. لذا اگر عادل باشد، هیچگاه به طور قاطع و به عنوان واقع، فتوا نمىدهد و به عنوان حق حكم نمىكند، بلكه به اعتقاد اينكه ممکن است فتوای او مطابق با واقع باشد، فتوا مىدهد و یا به احتمال این که در ترافع فیما بین، حقیقت را کشف کرده است، حكمی را له یا علیه یکی از طرفین صادر مىكند و اين امر نشان مىدهد كه او معصوم و مصون از خطا و سهو و نسیان و اشتباه نيست.
با کمال تأسف، پاره ای از افراد که فقیه نیستند یا لااقل فقاهت ایشان به شدت مورد تردید است، ولی ادعای فقاهت دارند، با گریم ها و ژست های مخصوص، خود را در میان عوام به عنوان فقیه و مرجع معارف و شرایع الهی قلمداد می کنند و به گونه ای با اعتماد کامل بر هوای نفس، سخن می گویند و رفتار می کنند. گویا معصوم، و مصون از هرگونه خطا و سهو و نسیان و اشتباه هستند. حتی گاهی بر این ادعا پافشاری هم می کنند به طوری که هرکس ادعای ایشان را تایید کند، او را دوست می دارند و از مواهب خود او را سرشار می کنند. اما بدا به حال کسی که حقیقت را بگوید و به شمه ای از خطاهای فاحش ایشان اشاره کند. او را از درگاه خود می رانند و با تحقیر و و اهانت و تهدید و تهمت و افتراء بر او می تازند. ایشان همان فقهای متعصب و مغروری هستند که تعریض آیه شریفه متوجه آنها است و پا جای پای علماء یهود و نصاری و فقهای بکریه و عمریه و زیدیه و بتریه گذاشته اند. أعاذنا الله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا.