14:42
|
53:38
|
[Majlis] Topic: Quran, Shahadat Or Shaaori Shahadat | H.I Sadiq Raza Taqvi - Urdu
Topic: Quran, Shahadat Or Shaaori Shahadat
موضوع: قرآن ، شہادت اور شعوری شہادت
Speaker: H.I Sadiq Raza Taqvi
خطاب: حجۃ الاسلام سید صادق...
Topic: Quran, Shahadat Or Shaaori Shahadat
موضوع: قرآن ، شہادت اور شعوری شہادت
Speaker: H.I Sadiq Raza Taqvi
خطاب: حجۃ الاسلام سید صادق رضا تقوی
Venue: Masjid Wa Imambargah Shah-e-Karbala, Rizvia Society, Karachi
بمقام: مسجد و امام بارگاہ شاہ کربلا ، رضویہ سوسائٹی ، کراچی
Date: 12 January 2020
More...
Description:
Topic: Quran, Shahadat Or Shaaori Shahadat
موضوع: قرآن ، شہادت اور شعوری شہادت
Speaker: H.I Sadiq Raza Taqvi
خطاب: حجۃ الاسلام سید صادق رضا تقوی
Venue: Masjid Wa Imambargah Shah-e-Karbala, Rizvia Society, Karachi
بمقام: مسجد و امام بارگاہ شاہ کربلا ، رضویہ سوسائٹی ، کراچی
Date: 12 January 2020
[URDU] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن...
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
More...
Description:
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
42:18
|
Ayam-e-Aza Rasam Ya Amanat | H.I. Syed Ali Afzal Rizvi - Urdu
Record date: 17 Sep 2017 - عزاداری رسم یا امانت
AL-Mehdi Educational Society proudly presents new Executive Refresher Course for the year 2017 under the supervision of specialist...
Record date: 17 Sep 2017 - عزاداری رسم یا امانت
AL-Mehdi Educational Society proudly presents new Executive Refresher Course for the year 2017 under the supervision of specialist Ulema and Scholars who will deliver though provoking lectures Every Weekend.
These video lectures are presented by almehdi educational society, Karachi for our youth.
🚩 زیارت میں حضرت عباس کو کس نام سے پکارا گیا ہے؟
🚩 شب عاشور امام نے کیا فرمایا؟
🚩 دین جیسا تحفہ ہمارے پاس کیسے ہے؟
🚩 علم و تابوت کیوں نکالا جا تاہے؟
🚩 کربلا کیا ہے؟
🚩 شعوری مجلس کیا ہے اور شرکت کیوں ضروری ہے؟
🚩 عزاداری کا مقصد کیا ہونا چاہیئے؟
🚩 کیون اتنی ذیادہ تاکید ہے مشی پر امام حسین کی؟
🚩 عزاداری کی معنویات کیا ہیں؟
For more details visit:
📡 www.almehdies.com
🖥 www.facebook.com/groups/almehdies
🎥 www.youtube.com/almehdies
🎥 www.shiatv.net
More...
Description:
Record date: 17 Sep 2017 - عزاداری رسم یا امانت
AL-Mehdi Educational Society proudly presents new Executive Refresher Course for the year 2017 under the supervision of specialist Ulema and Scholars who will deliver though provoking lectures Every Weekend.
These video lectures are presented by almehdi educational society, Karachi for our youth.
🚩 زیارت میں حضرت عباس کو کس نام سے پکارا گیا ہے؟
🚩 شب عاشور امام نے کیا فرمایا؟
🚩 دین جیسا تحفہ ہمارے پاس کیسے ہے؟
🚩 علم و تابوت کیوں نکالا جا تاہے؟
🚩 کربلا کیا ہے؟
🚩 شعوری مجلس کیا ہے اور شرکت کیوں ضروری ہے؟
🚩 عزاداری کا مقصد کیا ہونا چاہیئے؟
🚩 کیون اتنی ذیادہ تاکید ہے مشی پر امام حسین کی؟
🚩 عزاداری کی معنویات کیا ہیں؟
For more details visit:
📡 www.almehdies.com
🖥 www.facebook.com/groups/almehdies
🎥 www.youtube.com/almehdies
🎥 www.shiatv.net
3:23
|
نجات دہندے کی ضرورت کا شدید احساس | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ا
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عصرِ حاضر میں نجات دہندے کی منتظر انسانیت کے حوالے سے کیا فرماتے...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عصرِ حاضر میں نجات دہندے کی منتظر انسانیت کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ نجات دہندے کی ضرورت کا احساس ماضی کی نسبت آج شدت سے کیوں کیا جا رہا ہے؟ عصر حاضر میں حیرت انگیز ترقی کے باوجود انسان کیوں آرام و سکون کا احساس نہیں کر رہا ہے؟ کیا انسانوں کے بنائے ہوئے خودساختہ نظام مثلاً مغربی جمہوریت، کمیونزم، لبرل ڈیموکریسی وغیرہ انسان کی سعادت کی ضمانت فراہم کرتے ہیں؟ عصرِ حاضر میں ترقی کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود دنیا کن مسائل کا شکار ہے؟ کیا دنیا کی بڑی طاقتیں علم کا درست استعمال کر رہی ہیں؟ کیا دنیا میں سائنسی انکشافات سے حاصل ہونے والی توانائیوں کا درست استعمال کیا جارہا ہے؟ آج انسان کس چیز کا احساس اور کس چیز کی ضرورت کا احساس کر رہا ہے؟
#ویڈیو #نجات_دہندہ #ضرورت #احساس #تاریخ_بشریت #انسانی_معاشرہ #شعوری #لاشعوری #الہی_قدرت #معصوم #امامت #مکاتب #مسالک #آرام #سکون #سعادت #بیماری #گناہ #فحشاء #بے_عدالتی #طبقاتی_فاصلے #علم #غلط_استفادہ #تھکن
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عصرِ حاضر میں نجات دہندے کی منتظر انسانیت کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ نجات دہندے کی ضرورت کا احساس ماضی کی نسبت آج شدت سے کیوں کیا جا رہا ہے؟ عصر حاضر میں حیرت انگیز ترقی کے باوجود انسان کیوں آرام و سکون کا احساس نہیں کر رہا ہے؟ کیا انسانوں کے بنائے ہوئے خودساختہ نظام مثلاً مغربی جمہوریت، کمیونزم، لبرل ڈیموکریسی وغیرہ انسان کی سعادت کی ضمانت فراہم کرتے ہیں؟ عصرِ حاضر میں ترقی کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود دنیا کن مسائل کا شکار ہے؟ کیا دنیا کی بڑی طاقتیں علم کا درست استعمال کر رہی ہیں؟ کیا دنیا میں سائنسی انکشافات سے حاصل ہونے والی توانائیوں کا درست استعمال کیا جارہا ہے؟ آج انسان کس چیز کا احساس اور کس چیز کی ضرورت کا احساس کر رہا ہے؟
#ویڈیو #نجات_دہندہ #ضرورت #احساس #تاریخ_بشریت #انسانی_معاشرہ #شعوری #لاشعوری #الہی_قدرت #معصوم #امامت #مکاتب #مسالک #آرام #سکون #سعادت #بیماری #گناہ #فحشاء #بے_عدالتی #طبقاتی_فاصلے #علم #غلط_استفادہ #تھکن
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
NajatDahande,
zarurat,
ehsaas,
WaliAmreMuslemeen,
SayyidAliKhamenei,
muntazir,
insaniyat,
hayratangez,
taraqqi,
sukoon,
aaraam,
khudsaakhta,
MaghribiJamhooriyat,
communism,
LiberalDemocracy,
saadat,
zamanat,
shikar,
taaqatein,
inkeshafaat,
istemaal,
66:41
|
I2 Majlis Aza 1443 hijra I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I Dokri Sindhi
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48...
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48 نسلیں گذر گئی ہیں۔ سو سال میں چار نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ہم اہلبیت کے علم کے دروازے سے دور ہیں۔علم سے دوری ہوگی تو معرفت کم ہوگی۔ ان مجالس میں شیعت کی فکری، علمی اور معاشرتی بنیاد بیان کریں گے۔شیعت کے فکر کی بنیاد توحید پر ہے۔مومن کی توحید مضبوط اور منافق کی توحید کمزور ہوتی ہے توحید کی بنیاد عقل پر ہے۔
حکمران لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر علم سے دور کرتے ہیں۔نماز روزہ افضل عبادت نہیں بلکہ توحید کی معرفت اصل عبادت ہےنماز روزہ افضل عبادت نہیں جس کی توحید مضبوط نہں ان کا جھکا نہ جھکنا برابر ہے
فرعون لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر ان پر بادشاہت مسلط کرتا ہے۔
قبلہ غلام مہدی نجفی صاحب کہتے تھے کہ مشکل مجالس کو سنیں بھلے نیند آئے۔ لوگوں کو مجالس میں نیند جبکہ راگ کی مخفل مں نیند نہیں اتی۔گناہ کانٹوں کی سیج کے مانند ہیں جہاں نیند نہیں اتی۔ مجالس پہولوں کی سیج کے مانند ہے جہاں نیند اتی ہے
شب قدر میں افضل عبادات علمی مباحثہ کرنا ہے۔
قرآن مجید نے ظالم بادشاہ کے طور پرفرعون، مال کے پوجاری کے طور پر قارون، مال پرست ملاں کے طور پر بلعم باعورا اور اچھے کردار کے حامل کے طور پر لقمان و مریم کا ذکر کیا ہے۔جب ملاں ظالم بادشاہ اور مال کا بندہ بن گیا تو اس کی مثال کتے کی ہے۔
اپنے عقل سے رب اور امام سے پہچانیں۔
سورہ زخرف کی ایت 51 میں ہے کہ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرےقدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو پست حیثیت کا آ دمی ہے اور صاف بول بھی نہیں پاتا ہے۔ پھر کیوں اس کے اوپر سونے کے کنگن نہیں نازل کئے گئے اور کیوں اس کے ساتھ ملائکہ جمع ہوکر نہیں آ ئے۔
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنادیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔
فرعون نے کہا کہ اے میری قوم کیا یہ مصر میرا ملک نہیں ہے۔نہریں میرے حکم سے نہیں چلتی (نیل فرعون کے حکم پر چلتا ہے)فرعون نے بیوقوف قوم کو بے شعور رکھا موسی کو خطابت بھی نہیں اتی ہے اگر موسی حق پر ہوتا تو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں۔ مالدار ہو تو حق پر غریب ہے تو حق پر نہیں ہے۔ غربت یا امیری حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ہم مالدار کو ووٹ دیں گے غریب کو ووٹ نہیں دیں گے۔ فرعون نے قوم کو اس طرح بتایا کہ مال راہ حق پر ہے۔ ہماری اور فرعون کی حکومت ایک جیسی ہے کیونکہ عوام کے ذہن کو خفیف کیا گیا ہے۔ سندہ کی تعلیم تباہ ہے قوم کی تعلیم برباد کے۔ عقل کو بیدار کریں پیسے صرف کھانے پینے پر خرچ نہ کریں۔ علم پر بھی پیسہ خرچ کریں۔ اصول کافی اور نھج البلاغہ ہر مومن کے گھر میں ہونی چاہیے۔ بے شعوری ہو تو فرعون بادشاہ بنے گا موسی نہیں بنے گا۔ جاہل نہ بنیں۔ اہلبیت کو جاہل پسند نہیں ہیں۔
قران مجید سوچ پر لگے تالے کھولنا چاہتا ہے۔ بے دین کو بے دین پسند ہوتے ہیں۔ جاہل جاہل کو پسند کرے گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماننے والے علم کے دروازے کے ہیں مگر گھر میں اصول کافی اور نھج البلاغہ بھی نہیں۔ اصول کافی کا پہلا باب عقل دوسرا علم اور تیسرا توحید کا ہے۔ سامعیں کی راگ سے محبت ہے ان کو سر اچھا لگتا ہے وہ علی کے عاشق نہیں۔امام علی سے محبت ہو اور نھج البلاغہ گھر میں نہ ہو۔ ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک دن سیکھنے کے لئے وقف کریں۔
ا
حدیث: اصول کافی کے پہلے جلد کے بات عقل و جہل میں 26 حدیث ہے کہ امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ خدا نے عقل کو پئدا کیا۔پس اس سے کہا اگے آ وہ آ گے آ ئی۔ پہر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنی عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہی میں تجھ کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔عقل سے بڑہ کر محبوب چیز اللہ نے پیدا نہیں کی ہے۔ عقل مومن کی رہنما ہے جہالت سے بڑہ کر محتاجی نہیں ہے عقل کو اس میں کامل کروں گا جس سے اللہ محبت کرے گا۔
حضرت جبرائیل حضرت آ دم ع کے پاس ائے اور کہا کہ عقل دین اور حیا میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں۔ حضرت آدم نے عقل کو لیا۔ دین اور حیا نے کہا کہ ہم ادہر رہیں گے جہاں پر عقل رہتا ہے۔
ذہن کے گڑ کو پگھلائیں عقل کو استعمال کریں اور دین پہچانیں۔
صوفی حضرات عقل اور عشق میں جگھڑا کر وا کر کہتے ہیں کہ کون بہتر ہے۔ اونچے درجے والے عقل کا نام عشق ہے۔عشق عقل سے برتر ہے۔ کربلا والوں کے پاس عقل برتر ہے کہ ہر ماں کہتی ہے کہ پہلے میرا بیٹا جائے۔
میدان کربلا میں سیک مومنہ عور ت کا شوہر شہید ہوا اور اس نے اپنے ایک بچے کو جو 14 برس سے کم تھا میدان جنگ میں بھیجا۔ اس کو امام حسین نے کہا کہ اپ کے خاندان نے وفا کی ہے۔ کیا تم نے اپنی ماں سے اجازت لی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ ماں نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ نہیں اتا دودہ نہیں بخشوں گی۔ عقل برتر یہ ہے کہ امام حسین کو سمجھنا ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کیا۔ شوہر بھی دیا اور بیٹا بھی دیا۔ لشکر یزید نے بیٹے کا کٹا سر ماں کیطرف بھیجا۔ عورت نے واپس سر بھیجا اور عقل برتر رکھنے والی ماں نے کہا کہ جو حسین پر قربان کیا ہے وہ واپس نہیں لوں گی۔عشق سے سرشار عورت خود نکلتی ہے اور 30 ہزار کے لشکر پر حملہ کرتی ہے جس میں سے 3 یزید کے سپاہیوں کو مارتی ہے۔
بیٹا بھی عزیز ہے مگر حسین سے مقابلہ نہیں۔ سب حسین پر قربان ہے۔حسین پر قربان ہوں تو حسین دینے والا ہے۔
شیعہ شناسی پر استاد محترم کی دوسری مجلس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم:سعید علی پٹھان
More...
Description:
فرعون صفت حکمران اور عقل کا کردار
شیعت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ہم 1100 سے 1200 برس کے دوراہے پر کھڑے ہیں جس میں 48 نسلیں گذر گئی ہیں۔ سو سال میں چار نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ہم اہلبیت کے علم کے دروازے سے دور ہیں۔علم سے دوری ہوگی تو معرفت کم ہوگی۔ ان مجالس میں شیعت کی فکری، علمی اور معاشرتی بنیاد بیان کریں گے۔شیعت کے فکر کی بنیاد توحید پر ہے۔مومن کی توحید مضبوط اور منافق کی توحید کمزور ہوتی ہے توحید کی بنیاد عقل پر ہے۔
حکمران لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر علم سے دور کرتے ہیں۔نماز روزہ افضل عبادت نہیں بلکہ توحید کی معرفت اصل عبادت ہےنماز روزہ افضل عبادت نہیں جس کی توحید مضبوط نہں ان کا جھکا نہ جھکنا برابر ہے
فرعون لوگوں کے ذہن کو سادہ رکھ کر ان پر بادشاہت مسلط کرتا ہے۔
قبلہ غلام مہدی نجفی صاحب کہتے تھے کہ مشکل مجالس کو سنیں بھلے نیند آئے۔ لوگوں کو مجالس میں نیند جبکہ راگ کی مخفل مں نیند نہیں اتی۔گناہ کانٹوں کی سیج کے مانند ہیں جہاں نیند نہیں اتی۔ مجالس پہولوں کی سیج کے مانند ہے جہاں نیند اتی ہے
شب قدر میں افضل عبادات علمی مباحثہ کرنا ہے۔
قرآن مجید نے ظالم بادشاہ کے طور پرفرعون، مال کے پوجاری کے طور پر قارون، مال پرست ملاں کے طور پر بلعم باعورا اور اچھے کردار کے حامل کے طور پر لقمان و مریم کا ذکر کیا ہے۔جب ملاں ظالم بادشاہ اور مال کا بندہ بن گیا تو اس کی مثال کتے کی ہے۔
اپنے عقل سے رب اور امام سے پہچانیں۔
سورہ زخرف کی ایت 51 میں ہے کہ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرےقدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو پست حیثیت کا آ دمی ہے اور صاف بول بھی نہیں پاتا ہے۔ پھر کیوں اس کے اوپر سونے کے کنگن نہیں نازل کئے گئے اور کیوں اس کے ساتھ ملائکہ جمع ہوکر نہیں آ ئے۔
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنادیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔
فرعون نے کہا کہ اے میری قوم کیا یہ مصر میرا ملک نہیں ہے۔نہریں میرے حکم سے نہیں چلتی (نیل فرعون کے حکم پر چلتا ہے)فرعون نے بیوقوف قوم کو بے شعور رکھا موسی کو خطابت بھی نہیں اتی ہے اگر موسی حق پر ہوتا تو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں۔ مالدار ہو تو حق پر غریب ہے تو حق پر نہیں ہے۔ غربت یا امیری حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ہم مالدار کو ووٹ دیں گے غریب کو ووٹ نہیں دیں گے۔ فرعون نے قوم کو اس طرح بتایا کہ مال راہ حق پر ہے۔ ہماری اور فرعون کی حکومت ایک جیسی ہے کیونکہ عوام کے ذہن کو خفیف کیا گیا ہے۔ سندہ کی تعلیم تباہ ہے قوم کی تعلیم برباد کے۔ عقل کو بیدار کریں پیسے صرف کھانے پینے پر خرچ نہ کریں۔ علم پر بھی پیسہ خرچ کریں۔ اصول کافی اور نھج البلاغہ ہر مومن کے گھر میں ہونی چاہیے۔ بے شعوری ہو تو فرعون بادشاہ بنے گا موسی نہیں بنے گا۔ جاہل نہ بنیں۔ اہلبیت کو جاہل پسند نہیں ہیں۔
قران مجید سوچ پر لگے تالے کھولنا چاہتا ہے۔ بے دین کو بے دین پسند ہوتے ہیں۔ جاہل جاہل کو پسند کرے گا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماننے والے علم کے دروازے کے ہیں مگر گھر میں اصول کافی اور نھج البلاغہ بھی نہیں۔ اصول کافی کا پہلا باب عقل دوسرا علم اور تیسرا توحید کا ہے۔ سامعیں کی راگ سے محبت ہے ان کو سر اچھا لگتا ہے وہ علی کے عاشق نہیں۔امام علی سے محبت ہو اور نھج البلاغہ گھر میں نہ ہو۔ ہفتے کے سات دنوں میں سے ایک دن سیکھنے کے لئے وقف کریں۔
ا
حدیث: اصول کافی کے پہلے جلد کے بات عقل و جہل میں 26 حدیث ہے کہ امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ خدا نے عقل کو پئدا کیا۔پس اس سے کہا اگے آ وہ آ گے آ ئی۔ پہر کہا پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹی۔ پھر فرمایا قسم ہے اپنی عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق تجھ سے زیادہ اچھی پیدا نہی میں تجھ کو امر و نہی کا حکم دیتا ہوں اور تجھ ہی سے ثواب دوں گا اور تجھ ہی سے عذاب دوں گا۔عقل سے بڑہ کر محبوب چیز اللہ نے پیدا نہیں کی ہے۔ عقل مومن کی رہنما ہے جہالت سے بڑہ کر محتاجی نہیں ہے عقل کو اس میں کامل کروں گا جس سے اللہ محبت کرے گا۔
حضرت جبرائیل حضرت آ دم ع کے پاس ائے اور کہا کہ عقل دین اور حیا میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں۔ حضرت آدم نے عقل کو لیا۔ دین اور حیا نے کہا کہ ہم ادہر رہیں گے جہاں پر عقل رہتا ہے۔
ذہن کے گڑ کو پگھلائیں عقل کو استعمال کریں اور دین پہچانیں۔
صوفی حضرات عقل اور عشق میں جگھڑا کر وا کر کہتے ہیں کہ کون بہتر ہے۔ اونچے درجے والے عقل کا نام عشق ہے۔عشق عقل سے برتر ہے۔ کربلا والوں کے پاس عقل برتر ہے کہ ہر ماں کہتی ہے کہ پہلے میرا بیٹا جائے۔
میدان کربلا میں سیک مومنہ عور ت کا شوہر شہید ہوا اور اس نے اپنے ایک بچے کو جو 14 برس سے کم تھا میدان جنگ میں بھیجا۔ اس کو امام حسین نے کہا کہ اپ کے خاندان نے وفا کی ہے۔ کیا تم نے اپنی ماں سے اجازت لی ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ ماں نے کہا ہے کہ جب تک جنازہ نہیں اتا دودہ نہیں بخشوں گی۔ عقل برتر یہ ہے کہ امام حسین کو سمجھنا ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کیا۔ شوہر بھی دیا اور بیٹا بھی دیا۔ لشکر یزید نے بیٹے کا کٹا سر ماں کیطرف بھیجا۔ عورت نے واپس سر بھیجا اور عقل برتر رکھنے والی ماں نے کہا کہ جو حسین پر قربان کیا ہے وہ واپس نہیں لوں گی۔عشق سے سرشار عورت خود نکلتی ہے اور 30 ہزار کے لشکر پر حملہ کرتی ہے جس میں سے 3 یزید کے سپاہیوں کو مارتی ہے۔
بیٹا بھی عزیز ہے مگر حسین سے مقابلہ نہیں۔ سب حسین پر قربان ہے۔حسین پر قربان ہوں تو حسین دینے والا ہے۔
شیعہ شناسی پر استاد محترم کی دوسری مجلس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم:سعید علی پٹھان