6:07
|
آثار مطهری یک نقطه شروع است - Farsi
آثار مطهری یک نقطه شروع است - Farsi
سخنرانی حضرت آیتالله خامنهای در دهمین سالگرد شهادت استاد مطهری در ۶۸/۲/۱۱
آثار مطهری یک نقطه شروع است - Farsi
سخنرانی حضرت آیتالله خامنهای در دهمین سالگرد شهادت استاد مطهری در ۶۸/۲/۱۱
5:00
|
43:41
|
1:07
|
Video Tags:
Sahar,,,,,,,,,,
News,,,,,,,,,,
Bulletin,,,,,,,,,,
sahar,,,,,,,,,,
tv,,,,,,,,,,
urdu,,,,,,,,,,
news,,,,,,,,,,
khabrain,,,,,,,,,,
akhbarat,,,,,,,,,,
iran,,,,,,,,,,
tehran,,,,,,,,,,
india,,,,,,,,,,
pakistan,,,,,,,,,,
irib,,,,,,,,,,
transmission,,,,,,,,,,
world,,,,,,,,,,
affairs,,,,,,,,,,
economics,,,,,,,,,,
Haqiqat,,,,,,,,,,
Current,,,,,,,,,,
Issue,
2:08
|
Video Tags:
Wisdom,
Gateway,
Wisdom
Gateway,
Productions,
Imam,
Khomeini,
Leader
of
Revolution,
Islamic,
Revolution,
Islamic,
Republic,
Iran,
Shah,
Reza,
Scholar,
Inqilab,
Inqilabi,
1:00
|
Video Tags:
Tilaib,,Aur,,Makkah,,Mukarmah,,Kay,,Darmiyan,,Brah-e-Rast,,Pervaz,,
0:51
|
Video Tags:
Qatar,,Kay,,safeer,,Nay,,Tehran,,main,,Apna,,Kam,,Shuru,,Kar,,Dia,,Sahar,,Urdu,,News
1:15
|
Video Tags:
Pakistan,,man,,Jail,,Bharo,,Tehrek,,Shuru,,Hasan,,Zafar,,Naqvi,,Sathiyou,,Sumait,,Griftar,,Sahar,,Urdu,,News
2:05
|
Video Tags:
Ab,,Ummat,,Musalma,,Ki,,Yekjehti,,ka,,Imtihan,,Shuru,,Hogay,,Sahar,,
0:53
|
Video Tags:
Rohnigian,,Musalmano,,Per,,Hamlay,,Dobarah,,Shuru,,Sahar,,Urdu,,News
2:08
|
Video Tags:
Wisdom,
Gateway,
WisdomGateway,
Imam,
Khomeini,
Islamic,
Revolution,
Scholar,
Sayyid,
Haidar,
Ali,
Jafari,
Syed,
2:14
|
Video Tags:
Dushmano,,nay,,Musalmano,,Kay,,Khilaf,,Shahdeed,,Nafsiyati,,Jang,,Shuru,,Ker,,Rakhi,,Hay,,Sahar,,Urdu,,News
5:31
|
Video Tags:
Amrica,,Nay,,Mohida,,Tora,,To,,Iran,,Itemi,,Sergarmian,,Tezi,,Shuru,,Ker,,Day,,Ga,,Sahar,,Urdu,,News
0:53
|
Video Tags:
Proxy,,war,,Khatam,,Asal,,Larai,,Shuru,,Sahar,,Urdu,,News
5:09
|
Video Tags:
Khakji,,Mamla,,Saudi,,Turk,,Working,,Group,,Ka,,Tafshishi,,Kam,,Shuru,,Sahar,,Urdu,,News
4:33
|
4:27
|
ٓAllama Raja Nasir Abbas Jafri || شیعوں کے لئے نیا مرحلہ شروع | Urdu
ظہور امام زمانہ ؑ کے رستے کی رکاوٹیں ؟
شیعوں کے لئے نیا مرحلہ شروع
قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ...
ظہور امام زمانہ ؑ کے رستے کی رکاوٹیں ؟
شیعوں کے لئے نیا مرحلہ شروع
قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ اللہ کے برسی امام خمینی کے خطاب سے اقتباس
More...
Description:
ظہور امام زمانہ ؑ کے رستے کی رکاوٹیں ؟
شیعوں کے لئے نیا مرحلہ شروع
قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ اللہ کے برسی امام خمینی کے خطاب سے اقتباس
43:21
|
[Speech] Triangle of a successful plan (کامیاب منصوبہ) Kamyab Masooba By Syed Ali Murtaza Zaidi - Ur
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں...
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں سچا ہوں یا نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے پوچھوں کہ میں سچا ہوں کہ نہیں ہوں؟ بچے وہ مخلوق ہیں کہ جو سچ بولتے ہیں۔ اگر باپ کہے کہ میں یہ لے کر دوں گا اور نہ لے کر دے تو اس کا مطلب کہ بچہ کا باپ پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اگر بچہ کہے کہ یہ بات تو ہونی ہے کیوںکہ میرے باپ نے کہا ہے تو اس کا مطلب باپ سچ بولتا ہے یہ معیار ہے۔ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں تو جو مدرسہ، این جی او، یا بلڈنگ ہو پہلے اعتماد ہو اعتماد سچائی سے آتا ہے آپ کی چھوٹی بات میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے آپ کی بات میں وزن آئیگا۔ جو انسان سچ بولتا ہے تو خدا اس کی کہی ہوئی بات کو بھی صحی کروادیتا ہے گویہ خدا اس کی بات یا زبان کی حفاظت کرتا ہے کہ کہیں میرے مومن بندے کی بات جھوٹ نہ ہوجائے۔ آپ کہہ دیں گے جو آپ نے اپنی دانست میں صحی کہا ہوگا تو خدا اس کو بھی صحی کروا دے گا۔ جو لوگ ادہر بیٹھے ہیں اگر یہ سب کہ سب سچے ہوگئے تو شہدادکوٹ دس سال میں جنت بن جائیگا یہ کنفرم ہے۔ مجھے ایک چیز سمجھ میں آئی ہے کہ معاشرے کو بہتر کرنے میں اکثریت کا بہتر ہونا ضروری نہیں ہے اگر کچھ اقلیت بھی اچھی ہو جائے تو معاشرہ اچھا ہوجائیگااس کو ہم کہتے ہیں خواص کا کردار۔ بہت سی چیزیں معاشرے میں خواص کے کردار پر ڈپینٖڈ کرتی ہیں۔ اعتماد کیلئے سچ بولنا ہوگا سچ بولنے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہوگا۔ دوسری چیز منصوبہ ہے۔ آپ کے پاس منصوبہ ہے یا اڑتی ہوئی فکر۔اڑتی ہوئی فکر سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو منصوبہ کا پتا ہو کہ اگر آپ یہ کریں گے تو یہ ہوگا ، یہاں سے شروع کیا ہے تو یہاں پھنچیں گے۔ ہرچیز کلیئر ہو۔ ارادہ، وسائل، خرچہ ، متوقعہ رکاوٹیں،آپ کتنی رکاوٹیں جھیل پائین گے۔ سب چیزیں منصوبہ کا حصہ ہیں جن کو ہم فزیبلٹی رپورٹ کہتے ہیں۔ ہم نے اپنا آفس بنایا تو لوگ آکر کہتے تھے کہ آپ یہ کریں اب یہ کریں ہم سنتے تھے کہ کیا ہم چوراہے پر ہیں کہ جو آتا ہے ترکیب بتا کر جاتا ہے تو میں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے سوچا کہ آپ کی ترکیب بہت اچھی ہے آپ اس پر پانچ صفحے لکھ کر لے آئو جس میں تفصیل ہو شاید ہی کوئی واپس آیا ہو۔ ترکیب دینے والے بہت ہیں آپ ان کو کہیں کہ منصوبہ دیں۔ کتنا خرچہ، پیسا کہاں سے آئیگا تمہارا کیا کردار کیا ہوگا۔ میں ٹریولنگ زیادہ کرتا ہوں جس پر لوگ ترکیب بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب یہاں پر یہ کام ہوسکتا ہے میں کہتا ہون پانچ صفحہ لکھھ کر ایمیؒ کردیں۔ مجھے پتا ہے کہ بہت ترکیں ہوائی فکریں ہیں ترتیب نہیں ہیں۔ اب اتنی مہارت ہوگئی ہے کہ منصوبہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ چلے گا یا نہیں۔ کبھی کسی مین پوٹینسل ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کام کرو کچھ وقت کے بعد اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا۔ منصوبہ چھوٹی جگہ سے شروع کریں۔ اگر مجھے منصوبہ شروع کرنا ہوا تو میں پہلے ایک گلی پکڑوں گا اس کو درست کروں گا۔ اس گلی کی صفائئ ستھرائی نکاسی وغیرہ کو درست کرانا ہوگا پھر دس گلیاں لائن میں لگیں گی۔ آپ ایک گلی صحی کریں۔ شہداد کوٹ میں سبزہ ہو، صفاےئ ستھرائی ہو تو پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کریں۔ جو کچھ کرنا ہے اپنے گھر سے شروع کریں پھر آپ نے کرلیا تو آپ کو پتا چلے گا اس کی قیمت کا ۔ اس کو کون کرے گا اور کون نہیں کرے گا۔ ہم میں سے اگر کوئی کام کسی کو کرنے کیلئے دیتے ہیں تو پہلے کہتے ہیں کہ ہم تین لوگ خود کریں بعد میان کسی اور کو دیں گے۔ سورج کی گرمی، پہلے میں خود کرونں پھر کہت سکتا ہوں کہ یہ پبلک کرے گی یا نہیں اور اس کے بعد دوسروں کو دینا ہے جن کے اند مجھھ جیسا حوصلہ ہے۔ پھر اس کو کہوں گا تم کرو۔ تیسرا ٹیم ورک ہے۔ آپ دنیا کا ہر کام اکیلے کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیلئے آپ کو ٹیم ورک چاہیئے۔ ہم نے اسکول بنایا ہے جس میں 6 سو بچے ہیں اس نے کہا کہ میں یہ بھی کری ہوں وہ بھی کرتی ہوں لمبی لسٹ بتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد آپ بیمار ہوجائیں تو یہ ہونا ہی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں میں دو جملے کہتا ہوں اسکول کے اندر ہر کام کی ذمیدار آپ ہیں مگر سب کام آپ نے نہیں کرنے ہیں کسی اور نے کرنا ہے مگر ذمیدار آپ ہیں۔ آپ نے نظارت کرنی ہے مینئج کریں۔ شروع مین سب کام آپ نے کرنا ہے۔ گلگت میں اسپتال کا پراجیکٹ شروع کرنا تھا ہم نے کلنک سے شروع کیا ہم کو شام کو افتتاح کرنا تھا صحن میں صفائی ستھرائی نہیں تھی پراجیکٹ مینیجر نے کہا کہ جھاڑو والا دیر سے آئیگا میں نے کہا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے جھاڑو لگایا شام تک فارغ بیٹھا ہوا ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اگر م میرے پاس کوئی اور کام ہو جو اس سے بڑا ہو اور میں نے جھارو والا کام کیا تو میں نے یہ ظلم کیا اگر بڑا کام نہیں ہے تو یہ کام کرنا ہے جھاڑو بھی تو کسی نے لگانا ہے۔ یہ کام کسی بندے نے کرنا ہے تو میں کیوں نہ کرون۔ ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام نہین ہے اگر آپ کوئی اور کام نہیں کر رہے تو یہ کام بھی کسی انسان نے کرنا ہے۔ آپ کرلین۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کام ہوگا کیسے۔ ہمارئ ملک کے بڑا لوگ جو راشن کا ڈبہ دیتے ہیں یہ دکھاوا کرتے ہیں۔ اور پبلک کو الو بنوانے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے کرتے ہیں یہ کھتے ہیں کہ پبلک دیکھے گی تو کچھ ہوگا کیا اوپر خدا نہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بندون سے توقع لگائے بیٹھے ہیں خدا سے توقع نہیں کرتے ہیں۔ یہ جو دکھاوے کیلئے دے رہا ہے کتنوں کو دے گا اور کس وقت تک دے گا؟ تصویر کس لئے کھنچوائی ہئ کیوں کہ اس کے اندر خدا نہین ہے اگر خدا ہوتا تو باہر یہ حرکت نہیں کرتا۔
پھلی چیز اعتماد دوسرا عملی منصوبہ تیسرا ٹیم ورک۔ دوسرے لوگ آپ کیساتھ چلین گے کب؟ دھوکہ بازی پر تو ٹیم کوئی بھی بنا لےگا ٹیم تب بنے گی جب آپ اپنے آپ کو ان سب سے نیچے سمھیں تو تیم بنے گی؟ اپنے مقدر کو اپنی ٹیم سے علیحدہ نہ کریں۔ نبی اکرم صہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے ٹیم ورک پر مبنی۔ دشمن باہر سے حملہ اور یہودی سازش کر رہے ہیں حضرت سلمان فارسی نے کہا کہ خندق کھودتے ہیں آپ نے کہا کہ میں بھی خندق کھودوں گا۔ خندق کھودنا شروع ہوگئے باھر بھی دشمن اور کھانے پینے کا سامان بھی کم لوگ بھوکے بھی تھے اور خندق بھی کھودنی تھی۔ لوگوں نے پیٹ سے پتھر باندھے ہوئے تھے ۔ رسول اکرم نے بھی شکم سے پتھر باندہا ہوا تھا۔ خندق کھودتے ہوئے ایک پتھر پر پھنچے اور اس کو نکال نہیں سکتے تھے نبی اکمر کے پاس آئے کی پتھر نکالنے میں دشواری ہے ایک پتھر ہے ہم بیجان ہوگئے۔ پتھر نکل جا، کوئی دعا نہین پڑی انھوں نے کھدال ماری۔ کام ہونا ہے جبرائیل نہیں آئیگا۔ پتھر نہیں ٹوٹا مگر چنگاریان نکلی۔ اس زمانے میں ایران اور روم دو سپر پاور تھے۔ نبی کرم نے پہلئ چنگاریوں پر فرمایہ کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں ایران فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں، دوبارہ کھدال مارا چنگاریاں نکلیں تو آپ نے کہا کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں روم فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں،تیسرا کھدال مارا پتھر ٹوٹ گیا۔ آپ اپنا مقدر علیحدہ نہ کریں۔ ڈوبنا ہے تو ساتھ ڈوبیں لڑنا ہے تو ساتھ لڑیں۔ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر خرابی ہے تو یہاں پر ٹکو۔ پبلک جھیل رہی ہے تو آپ بھی جھیلیں۔ کراشی م یں سیکیورٹی نہیں ہے تو میں اس کا حل یہ نکالوں کہ سوئزرلینڈ چلا جائوں پھر میں کراچی کیلئے کچھ کر سکوں گا۔ اگر لوگ تیں دن گھر میں محصور ہیں تو میں بھی نہ نکلوں۔ آپ مقدر کو الگ نہ کریں آپ کی ملکیت اور پراپرٹی باہر ہو اور آپ پبلک کو کہیں کہ آپ کا ساتھ دے یہ نہیں ہوگا۔ ساتھ اس وقت دنیا ہے جنب آپ مصیبت میں ہیں تو مین بھی مصیبت میں رہون۔
اللہ کے رسول مکہ سے مدینہ آئے تو سب کو ساتھ لے کر آئے جب بھی کوئی مصیبت پڑی اپنے اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا سب سے بڑا معرکہ مباہلہ کا میدان تھا جس میں انہوں نے خود کو اور ایل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا۔ نبی اکرم ان کو لے کر آئے اگر خدانخواستی کچھ ہو جا تا تو نبی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خچرناک جگہ پر ان کو لے کر آئے جو نبی کی کل کائنات تھی۔ نبی کی نسل، خاندان دولت اور جو کچھ تھا یہی تھا۔ میان خطر میں کود پڑے یہ ٹعم ورک ہے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ساتھ چلیں انہوں نے کہا کہ ہم جائیں گے۔ حتی الامکان کاموں کو خود کرنے کی کوشش کریں۔
کامیابی کا ٹرائی اینگل کیا ہو؟ اعتماد جو سچائی سے پیدا ہوگا، منصوبہ اور ٹیم ورک۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹیم خودسازی سے بنتی ہے۔ اپنی نمائش کریں گے تو ٹیم نہیں بنے گی؟ اپنے آپ کو پل بنائیں اپنے آپ کو ستوں قرار نہ دیں۔ اگر لیڈر کہتا ہے کہ میں اونچا نظر آئوں تو یہ رکاوٹ ہے۔ لیڈر وہ ہے جو اپنے آپ کو بچھائے ۔
۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کام کیا ہے پرخلوص اگر منصوبہ یہ بنایا ہے کہ آخر میں جاکر آپ کو اتنی دولت ملنی ہے تو یہ منصوبہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو بنانا ہے تو بے لوث منصوبہ بنائیں۔ ٹیم کس لیے بنائیں گے اس لئے نہیں کہ آپ کہیں کہ میری ٹیم میں 5 ہزار لوگ ہیں بلکہ اس لیئ کہ آٌپ بچھ جائیں تو یہ کھڑے ہوجائیں۔ آپ کے پاس خلوص ہے تو کامیابی ہے۔ خلوص کسے کہتے ہیں کاموں کو اللہ کیلئے انجام دینا۔ اس کا مثال یہ ہے کہ اگر بینر پر میرے لئے لکھے ہوئے جملے پڑہ کر مجھے خوشی ہوئی ہے تو یہ خلوص نہیں ہے۔ خلوص اس وقت ہو جب آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ آپ کو کیا ملنا ہے۔
ہم لوگوں کیساتھ خرابی یہ ہے کہ ہم میں خلوص کی کمی ہے اور ہم نے بے خلوص لوگوں کو دل پر بٹھا دیا ہے۔ یہ ہم نے گڑبڑ کی ہے ہم کو پتا ہے کہ یہ پرخلوص نہیں ہے پھر بھی ہم نے سر پر بٹھا دیا یے۔
آیت اللہ اشتھاردی جو میرے استاد تھے اور بڑے نفیس انسان تھے ان کا واقعہ ہے کہ خلوص کی انتھا بتاتا ہوں۔ واقعہ مشھد مقدس کا ہے وہ طالبعلم تھے تو ایک عورت نے اس کو کہا کہ میرے گائوں مجلس پڑہنے آئوگے؟ میں نے کہا کہ میں چلا آئوں گا۔ اس کا گائوں بہت دور تھا میں مصیبتیں جھیلتا ہوا اس طرف گئے میں اس گائوں میں پہنچا تو مجھے پروگرام کے آثار بہت کم نظر آئے۔ ہم اتنی دور سے آئے کوئی شامیانہ بھی نہیں لگا ہوا تھا لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرف گئی۔ میں اس کے گھر پھنچا۔ اس نے اپنے گھر میں بٹھایا اور کہا کہ مجلس شروع کریں میں نے کہا کہ اور لوگ کب آئیں گے اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے میں ہوں تم مجلس پڑہو۔ میں ایک عورت کیلئے مجلس پڑہوں میں نے ایک سامع کے خاطر مجلس پڑہی میں نے مصائب بھی پڑہے اس عورت نے خوب گریہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ایک کام کردیا اس نے پیسے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا فلاں تاریخ کو پھر آنا۔ پیسے بھی اتنے تھے کہ کرایہ ہی مشکل سے پورا ہوا۔ اس عورت نے کہا کہ دوبارہ بھی آنا جب وہ تاریخ آئی تو میں نے سوچا کہ اس ایک عورت کیلئے اتنا دور جائیں اس کو کہیں گے کہ وہ مشھد آجائے میں اس کو ادہر ہی سنادوں گا۔ میں نہیں گیا میں نے حرم کی زیارت کی پھر واپس آیا تو لیٹا خواب میں سید الشھدا ع آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ہماری مجلس میں بھی نہیں جاتے ہو؟ ۔ یہ ان کی توفیق تھی کہ سید الشھدا ان کے خواب میں آئے ہم غلطی کریں گے تو سید الشھدا ہمارے خواب میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ سید الشھدا اس مجلس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میں بیدار ہوااور سفر طئی کرتا ہوا استغفار کرتا ہوا اس کے گھر میں گیا وہ رو رہی تھی جب تک ڈانٹ نہیں پڑی آئے نہیں نا یہ بڑہیا کا خلوص ہے اگر سید الشھدا کو عزیز نہیں ہوتی تو سید الشھدا خواب میں نہیں آتے۔ ہم نے غلطی کیا کی ہے کہ بے خلوص لوگوں کو سید الشھدا کے منبر پر بٹھایا ہے اگر ہم بے خلوص کو منبر پر بٹھائیں گے تو ہم کو خلوص ملے گا؟ انسان غلطی کرے تو خدا معاف کرنے والا ہے ہم جان بوجھ کر غلطیاں کریں تو پھر؟؟؟ہم جان بوجھ کر غلطی کروں خدا کے حکم کو اہمیت نہ دوں پھر جو وہ چاہ ریے ہیں وہ نہیں ہوگا باقی سب کچھ ہو جائیگا۔ جو اصل میں ہونا تھا وہ نہیں ہوگا۔ سمندر کے نمکین پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی؟ پانی پئیں گے مگر پیاس نہیں جائے گئ۔ آپ خدا کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کریں اور کہیں کہ یہ ہوجائے وہ نہیں ہونے والا ہے۔ اثر نہین آئے گا لوگ تبدیل نہیں ہونگے۔ نافرمانی جان بوجھ کر کی ہے لوگ اللہ کے راستے پر نہیں آئیںگے۔ جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کریں۔ ایک بندہ فجر کی نماز نہیں پڑہ پاتا خدا اس کو معاف کرے گا مگر ہم جان بوجھ کر نماز فجر ادا نہ کریں خدا معاف کرے گا۔ طئی کر کے سویا کہ نہیں اٹھوں گا اب سزا ملے گی۔ آپ طئی کر کے نافرمانی اور گناہ نہ کریں۔ آپ طئی کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں کہ فحاشہ دیکھیں گے اب تو سزا ملے گی۔ سزا کیا ملے گی جو آپ کے نزدیک عزیز تھا وہ دور ہوجائیگا۔ آپ ٹی وی، فحاشہ اور میوزک مزے لینے کیلئے کر رہے تھے تو یہ دنیا آپ کو نہین ملے گی۔ میں نے کل لاڑکانہ میں ارض کیا تھا کہ ہم کو سیلاب کیوجہ سے آئی ڈی پیز نظر آ رہے ہیں جن کی حالت خراب ہے ان کی حالت پہلے بھی بھتر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں دو کروڑ آئی ڈی پیز نہیں ہیں کم از کم آٹھ دس کروڑ آئی ڈی پیز ہیں کچھ ابھی ہوئے ہیں اور کچھ پہلے سے چل رہے ہیں۔
اب بھی صحی نہیں کرنا اب پھر بھی فحاشہ دیکھیں گے چلو لگے رہو۔ اتنے سال 50 سال سے کرپشن ہو رہئ ہے کیا اس کے کچھ ملے گا؟ اس سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر کرپشن سے کچھ ملنا ہے تو اگلے پچاس برس اور کرپشن کرو اگر تھک گئے ہو تو اللہ کے دین پر واپس آئو۔ اگر مایوس ہوگئے ہو تو واپس آجائو۔ ظہور بھی اس طرح ہوگا ۔ جب ہم کو ظلم سے امید ہے کہ کچھ ملنے والا ہے تو عدل محض تشریف نہیں لائیں گے جب ہم سمجھ لیں کہ ظلم سے کچھ نہیں ملنے والا سب کچھ عدل سے ملے گا در اہلبیت سے ملے گا تو پھر امام کا ظھور ہوگا۔
لب لباب یہ ہوا کہ تقریر ختم ہونے کے بعد 80 فیصد باتیں لوگ بھول جاتے ہیں ہم دس منٹ میں نوی فیصد بھول جائیں گے۔ ریکاردنگ پڑی رہتی ہیں کوئی دوبارہ نہیں دیکھتا ہے آپ دیکھیں گے اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کچھ اور لوگ دیکھ لیں گے۔ نوابشاہ میں عید غدیر کا پروگرام تھا جس میں پچیس یا تیس لوگ تھے ہم نے اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اب دیکھتے ہیں کہ ناس کے دیکھنے والے کئی ہزار ہیں۔ لوگ بھول جائیں گے۔ آخر میں اس کو دوبارہ دہراتے ہیں تا کہ رہ جائیں واقعات رہ جاتے ہیں مفھوم نکل جاتا ہے۔ مفھوم پر اصرار کرتے ہیں مفھوم کو تصویر میں لے کر آئیں۔ معقول کو محسوس میں لے کر آئیں تو باقی رہے گا۔
میں نے معقول کو محسوس میں رکھا تھا ایک ٹرائی اینگل ہے جس کے ایک کونہ پر اعتماد، دوسرے پر منصوبہ اور تیسرے کونے پر ٹیم ورک ہے جس کو ہم نے ایک دائرہ میں رکھا ہے دائرہ اخلاص ہے۔ میں نے پل بننا ہے جس سے پر سے لوگوں نے گذرنا ہے آپ نے ستون نہیں بننا ہے۔ معاشرہ کیلئے کام کرنا ہے تو جھیلنا بہت پڑے گا۔ اگر صحی کرتا ہے تو پھر بھی جھیلنا پڑے گا اگر غلط کرتا ہے تو پھر زیادہ جھیلنا پڑے گا۔ پرخلوص ہونا ضروری ہے۔ جس چیز میں جان بوجھ کر نافرمانی کریں گے وہ آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔ نیند کیلئے نماز کو چھوڑا تو اچھی نیند نہیں ملے گی آپ نے خدا کو چھوڑا ہے۔
More...
Description:
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں سچا ہوں یا نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے پوچھوں کہ میں سچا ہوں کہ نہیں ہوں؟ بچے وہ مخلوق ہیں کہ جو سچ بولتے ہیں۔ اگر باپ کہے کہ میں یہ لے کر دوں گا اور نہ لے کر دے تو اس کا مطلب کہ بچہ کا باپ پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اگر بچہ کہے کہ یہ بات تو ہونی ہے کیوںکہ میرے باپ نے کہا ہے تو اس کا مطلب باپ سچ بولتا ہے یہ معیار ہے۔ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں تو جو مدرسہ، این جی او، یا بلڈنگ ہو پہلے اعتماد ہو اعتماد سچائی سے آتا ہے آپ کی چھوٹی بات میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے آپ کی بات میں وزن آئیگا۔ جو انسان سچ بولتا ہے تو خدا اس کی کہی ہوئی بات کو بھی صحی کروادیتا ہے گویہ خدا اس کی بات یا زبان کی حفاظت کرتا ہے کہ کہیں میرے مومن بندے کی بات جھوٹ نہ ہوجائے۔ آپ کہہ دیں گے جو آپ نے اپنی دانست میں صحی کہا ہوگا تو خدا اس کو بھی صحی کروا دے گا۔ جو لوگ ادہر بیٹھے ہیں اگر یہ سب کہ سب سچے ہوگئے تو شہدادکوٹ دس سال میں جنت بن جائیگا یہ کنفرم ہے۔ مجھے ایک چیز سمجھ میں آئی ہے کہ معاشرے کو بہتر کرنے میں اکثریت کا بہتر ہونا ضروری نہیں ہے اگر کچھ اقلیت بھی اچھی ہو جائے تو معاشرہ اچھا ہوجائیگااس کو ہم کہتے ہیں خواص کا کردار۔ بہت سی چیزیں معاشرے میں خواص کے کردار پر ڈپینٖڈ کرتی ہیں۔ اعتماد کیلئے سچ بولنا ہوگا سچ بولنے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہوگا۔ دوسری چیز منصوبہ ہے۔ آپ کے پاس منصوبہ ہے یا اڑتی ہوئی فکر۔اڑتی ہوئی فکر سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو منصوبہ کا پتا ہو کہ اگر آپ یہ کریں گے تو یہ ہوگا ، یہاں سے شروع کیا ہے تو یہاں پھنچیں گے۔ ہرچیز کلیئر ہو۔ ارادہ، وسائل، خرچہ ، متوقعہ رکاوٹیں،آپ کتنی رکاوٹیں جھیل پائین گے۔ سب چیزیں منصوبہ کا حصہ ہیں جن کو ہم فزیبلٹی رپورٹ کہتے ہیں۔ ہم نے اپنا آفس بنایا تو لوگ آکر کہتے تھے کہ آپ یہ کریں اب یہ کریں ہم سنتے تھے کہ کیا ہم چوراہے پر ہیں کہ جو آتا ہے ترکیب بتا کر جاتا ہے تو میں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے سوچا کہ آپ کی ترکیب بہت اچھی ہے آپ اس پر پانچ صفحے لکھ کر لے آئو جس میں تفصیل ہو شاید ہی کوئی واپس آیا ہو۔ ترکیب دینے والے بہت ہیں آپ ان کو کہیں کہ منصوبہ دیں۔ کتنا خرچہ، پیسا کہاں سے آئیگا تمہارا کیا کردار کیا ہوگا۔ میں ٹریولنگ زیادہ کرتا ہوں جس پر لوگ ترکیب بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب یہاں پر یہ کام ہوسکتا ہے میں کہتا ہون پانچ صفحہ لکھھ کر ایمیؒ کردیں۔ مجھے پتا ہے کہ بہت ترکیں ہوائی فکریں ہیں ترتیب نہیں ہیں۔ اب اتنی مہارت ہوگئی ہے کہ منصوبہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ چلے گا یا نہیں۔ کبھی کسی مین پوٹینسل ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کام کرو کچھ وقت کے بعد اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا۔ منصوبہ چھوٹی جگہ سے شروع کریں۔ اگر مجھے منصوبہ شروع کرنا ہوا تو میں پہلے ایک گلی پکڑوں گا اس کو درست کروں گا۔ اس گلی کی صفائئ ستھرائی نکاسی وغیرہ کو درست کرانا ہوگا پھر دس گلیاں لائن میں لگیں گی۔ آپ ایک گلی صحی کریں۔ شہداد کوٹ میں سبزہ ہو، صفاےئ ستھرائی ہو تو پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کریں۔ جو کچھ کرنا ہے اپنے گھر سے شروع کریں پھر آپ نے کرلیا تو آپ کو پتا چلے گا اس کی قیمت کا ۔ اس کو کون کرے گا اور کون نہیں کرے گا۔ ہم میں سے اگر کوئی کام کسی کو کرنے کیلئے دیتے ہیں تو پہلے کہتے ہیں کہ ہم تین لوگ خود کریں بعد میان کسی اور کو دیں گے۔ سورج کی گرمی، پہلے میں خود کرونں پھر کہت سکتا ہوں کہ یہ پبلک کرے گی یا نہیں اور اس کے بعد دوسروں کو دینا ہے جن کے اند مجھھ جیسا حوصلہ ہے۔ پھر اس کو کہوں گا تم کرو۔ تیسرا ٹیم ورک ہے۔ آپ دنیا کا ہر کام اکیلے کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیلئے آپ کو ٹیم ورک چاہیئے۔ ہم نے اسکول بنایا ہے جس میں 6 سو بچے ہیں اس نے کہا کہ میں یہ بھی کری ہوں وہ بھی کرتی ہوں لمبی لسٹ بتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد آپ بیمار ہوجائیں تو یہ ہونا ہی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں میں دو جملے کہتا ہوں اسکول کے اندر ہر کام کی ذمیدار آپ ہیں مگر سب کام آپ نے نہیں کرنے ہیں کسی اور نے کرنا ہے مگر ذمیدار آپ ہیں۔ آپ نے نظارت کرنی ہے مینئج کریں۔ شروع مین سب کام آپ نے کرنا ہے۔ گلگت میں اسپتال کا پراجیکٹ شروع کرنا تھا ہم نے کلنک سے شروع کیا ہم کو شام کو افتتاح کرنا تھا صحن میں صفائی ستھرائی نہیں تھی پراجیکٹ مینیجر نے کہا کہ جھاڑو والا دیر سے آئیگا میں نے کہا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے جھاڑو لگایا شام تک فارغ بیٹھا ہوا ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اگر م میرے پاس کوئی اور کام ہو جو اس سے بڑا ہو اور میں نے جھارو والا کام کیا تو میں نے یہ ظلم کیا اگر بڑا کام نہیں ہے تو یہ کام کرنا ہے جھاڑو بھی تو کسی نے لگانا ہے۔ یہ کام کسی بندے نے کرنا ہے تو میں کیوں نہ کرون۔ ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام نہین ہے اگر آپ کوئی اور کام نہیں کر رہے تو یہ کام بھی کسی انسان نے کرنا ہے۔ آپ کرلین۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کام ہوگا کیسے۔ ہمارئ ملک کے بڑا لوگ جو راشن کا ڈبہ دیتے ہیں یہ دکھاوا کرتے ہیں۔ اور پبلک کو الو بنوانے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے کرتے ہیں یہ کھتے ہیں کہ پبلک دیکھے گی تو کچھ ہوگا کیا اوپر خدا نہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بندون سے توقع لگائے بیٹھے ہیں خدا سے توقع نہیں کرتے ہیں۔ یہ جو دکھاوے کیلئے دے رہا ہے کتنوں کو دے گا اور کس وقت تک دے گا؟ تصویر کس لئے کھنچوائی ہئ کیوں کہ اس کے اندر خدا نہین ہے اگر خدا ہوتا تو باہر یہ حرکت نہیں کرتا۔
پھلی چیز اعتماد دوسرا عملی منصوبہ تیسرا ٹیم ورک۔ دوسرے لوگ آپ کیساتھ چلین گے کب؟ دھوکہ بازی پر تو ٹیم کوئی بھی بنا لےگا ٹیم تب بنے گی جب آپ اپنے آپ کو ان سب سے نیچے سمھیں تو تیم بنے گی؟ اپنے مقدر کو اپنی ٹیم سے علیحدہ نہ کریں۔ نبی اکرم صہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے ٹیم ورک پر مبنی۔ دشمن باہر سے حملہ اور یہودی سازش کر رہے ہیں حضرت سلمان فارسی نے کہا کہ خندق کھودتے ہیں آپ نے کہا کہ میں بھی خندق کھودوں گا۔ خندق کھودنا شروع ہوگئے باھر بھی دشمن اور کھانے پینے کا سامان بھی کم لوگ بھوکے بھی تھے اور خندق بھی کھودنی تھی۔ لوگوں نے پیٹ سے پتھر باندھے ہوئے تھے ۔ رسول اکرم نے بھی شکم سے پتھر باندہا ہوا تھا۔ خندق کھودتے ہوئے ایک پتھر پر پھنچے اور اس کو نکال نہیں سکتے تھے نبی اکمر کے پاس آئے کی پتھر نکالنے میں دشواری ہے ایک پتھر ہے ہم بیجان ہوگئے۔ پتھر نکل جا، کوئی دعا نہین پڑی انھوں نے کھدال ماری۔ کام ہونا ہے جبرائیل نہیں آئیگا۔ پتھر نہیں ٹوٹا مگر چنگاریان نکلی۔ اس زمانے میں ایران اور روم دو سپر پاور تھے۔ نبی کرم نے پہلئ چنگاریوں پر فرمایہ کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں ایران فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں، دوبارہ کھدال مارا چنگاریاں نکلیں تو آپ نے کہا کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں روم فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں،تیسرا کھدال مارا پتھر ٹوٹ گیا۔ آپ اپنا مقدر علیحدہ نہ کریں۔ ڈوبنا ہے تو ساتھ ڈوبیں لڑنا ہے تو ساتھ لڑیں۔ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر خرابی ہے تو یہاں پر ٹکو۔ پبلک جھیل رہی ہے تو آپ بھی جھیلیں۔ کراشی م یں سیکیورٹی نہیں ہے تو میں اس کا حل یہ نکالوں کہ سوئزرلینڈ چلا جائوں پھر میں کراچی کیلئے کچھ کر سکوں گا۔ اگر لوگ تیں دن گھر میں محصور ہیں تو میں بھی نہ نکلوں۔ آپ مقدر کو الگ نہ کریں آپ کی ملکیت اور پراپرٹی باہر ہو اور آپ پبلک کو کہیں کہ آپ کا ساتھ دے یہ نہیں ہوگا۔ ساتھ اس وقت دنیا ہے جنب آپ مصیبت میں ہیں تو مین بھی مصیبت میں رہون۔
اللہ کے رسول مکہ سے مدینہ آئے تو سب کو ساتھ لے کر آئے جب بھی کوئی مصیبت پڑی اپنے اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا سب سے بڑا معرکہ مباہلہ کا میدان تھا جس میں انہوں نے خود کو اور ایل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا۔ نبی اکرم ان کو لے کر آئے اگر خدانخواستی کچھ ہو جا تا تو نبی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خچرناک جگہ پر ان کو لے کر آئے جو نبی کی کل کائنات تھی۔ نبی کی نسل، خاندان دولت اور جو کچھ تھا یہی تھا۔ میان خطر میں کود پڑے یہ ٹعم ورک ہے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ساتھ چلیں انہوں نے کہا کہ ہم جائیں گے۔ حتی الامکان کاموں کو خود کرنے کی کوشش کریں۔
کامیابی کا ٹرائی اینگل کیا ہو؟ اعتماد جو سچائی سے پیدا ہوگا، منصوبہ اور ٹیم ورک۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹیم خودسازی سے بنتی ہے۔ اپنی نمائش کریں گے تو ٹیم نہیں بنے گی؟ اپنے آپ کو پل بنائیں اپنے آپ کو ستوں قرار نہ دیں۔ اگر لیڈر کہتا ہے کہ میں اونچا نظر آئوں تو یہ رکاوٹ ہے۔ لیڈر وہ ہے جو اپنے آپ کو بچھائے ۔
۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کام کیا ہے پرخلوص اگر منصوبہ یہ بنایا ہے کہ آخر میں جاکر آپ کو اتنی دولت ملنی ہے تو یہ منصوبہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو بنانا ہے تو بے لوث منصوبہ بنائیں۔ ٹیم کس لیے بنائیں گے اس لئے نہیں کہ آپ کہیں کہ میری ٹیم میں 5 ہزار لوگ ہیں بلکہ اس لیئ کہ آٌپ بچھ جائیں تو یہ کھڑے ہوجائیں۔ آپ کے پاس خلوص ہے تو کامیابی ہے۔ خلوص کسے کہتے ہیں کاموں کو اللہ کیلئے انجام دینا۔ اس کا مثال یہ ہے کہ اگر بینر پر میرے لئے لکھے ہوئے جملے پڑہ کر مجھے خوشی ہوئی ہے تو یہ خلوص نہیں ہے۔ خلوص اس وقت ہو جب آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ آپ کو کیا ملنا ہے۔
ہم لوگوں کیساتھ خرابی یہ ہے کہ ہم میں خلوص کی کمی ہے اور ہم نے بے خلوص لوگوں کو دل پر بٹھا دیا ہے۔ یہ ہم نے گڑبڑ کی ہے ہم کو پتا ہے کہ یہ پرخلوص نہیں ہے پھر بھی ہم نے سر پر بٹھا دیا یے۔
آیت اللہ اشتھاردی جو میرے استاد تھے اور بڑے نفیس انسان تھے ان کا واقعہ ہے کہ خلوص کی انتھا بتاتا ہوں۔ واقعہ مشھد مقدس کا ہے وہ طالبعلم تھے تو ایک عورت نے اس کو کہا کہ میرے گائوں مجلس پڑہنے آئوگے؟ میں نے کہا کہ میں چلا آئوں گا۔ اس کا گائوں بہت دور تھا میں مصیبتیں جھیلتا ہوا اس طرف گئے میں اس گائوں میں پہنچا تو مجھے پروگرام کے آثار بہت کم نظر آئے۔ ہم اتنی دور سے آئے کوئی شامیانہ بھی نہیں لگا ہوا تھا لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرف گئی۔ میں اس کے گھر پھنچا۔ اس نے اپنے گھر میں بٹھایا اور کہا کہ مجلس شروع کریں میں نے کہا کہ اور لوگ کب آئیں گے اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے میں ہوں تم مجلس پڑہو۔ میں ایک عورت کیلئے مجلس پڑہوں میں نے ایک سامع کے خاطر مجلس پڑہی میں نے مصائب بھی پڑہے اس عورت نے خوب گریہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ایک کام کردیا اس نے پیسے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا فلاں تاریخ کو پھر آنا۔ پیسے بھی اتنے تھے کہ کرایہ ہی مشکل سے پورا ہوا۔ اس عورت نے کہا کہ دوبارہ بھی آنا جب وہ تاریخ آئی تو میں نے سوچا کہ اس ایک عورت کیلئے اتنا دور جائیں اس کو کہیں گے کہ وہ مشھد آجائے میں اس کو ادہر ہی سنادوں گا۔ میں نہیں گیا میں نے حرم کی زیارت کی پھر واپس آیا تو لیٹا خواب میں سید الشھدا ع آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ہماری مجلس میں بھی نہیں جاتے ہو؟ ۔ یہ ان کی توفیق تھی کہ سید الشھدا ان کے خواب میں آئے ہم غلطی کریں گے تو سید الشھدا ہمارے خواب میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ سید الشھدا اس مجلس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میں بیدار ہوااور سفر طئی کرتا ہوا استغفار کرتا ہوا اس کے گھر میں گیا وہ رو رہی تھی جب تک ڈانٹ نہیں پڑی آئے نہیں نا یہ بڑہیا کا خلوص ہے اگر سید الشھدا کو عزیز نہیں ہوتی تو سید الشھدا خواب میں نہیں آتے۔ ہم نے غلطی کیا کی ہے کہ بے خلوص لوگوں کو سید الشھدا کے منبر پر بٹھایا ہے اگر ہم بے خلوص کو منبر پر بٹھائیں گے تو ہم کو خلوص ملے گا؟ انسان غلطی کرے تو خدا معاف کرنے والا ہے ہم جان بوجھ کر غلطیاں کریں تو پھر؟؟؟ہم جان بوجھ کر غلطی کروں خدا کے حکم کو اہمیت نہ دوں پھر جو وہ چاہ ریے ہیں وہ نہیں ہوگا باقی سب کچھ ہو جائیگا۔ جو اصل میں ہونا تھا وہ نہیں ہوگا۔ سمندر کے نمکین پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی؟ پانی پئیں گے مگر پیاس نہیں جائے گئ۔ آپ خدا کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کریں اور کہیں کہ یہ ہوجائے وہ نہیں ہونے والا ہے۔ اثر نہین آئے گا لوگ تبدیل نہیں ہونگے۔ نافرمانی جان بوجھ کر کی ہے لوگ اللہ کے راستے پر نہیں آئیںگے۔ جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کریں۔ ایک بندہ فجر کی نماز نہیں پڑہ پاتا خدا اس کو معاف کرے گا مگر ہم جان بوجھ کر نماز فجر ادا نہ کریں خدا معاف کرے گا۔ طئی کر کے سویا کہ نہیں اٹھوں گا اب سزا ملے گی۔ آپ طئی کر کے نافرمانی اور گناہ نہ کریں۔ آپ طئی کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں کہ فحاشہ دیکھیں گے اب تو سزا ملے گی۔ سزا کیا ملے گی جو آپ کے نزدیک عزیز تھا وہ دور ہوجائیگا۔ آپ ٹی وی، فحاشہ اور میوزک مزے لینے کیلئے کر رہے تھے تو یہ دنیا آپ کو نہین ملے گی۔ میں نے کل لاڑکانہ میں ارض کیا تھا کہ ہم کو سیلاب کیوجہ سے آئی ڈی پیز نظر آ رہے ہیں جن کی حالت خراب ہے ان کی حالت پہلے بھی بھتر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں دو کروڑ آئی ڈی پیز نہیں ہیں کم از کم آٹھ دس کروڑ آئی ڈی پیز ہیں کچھ ابھی ہوئے ہیں اور کچھ پہلے سے چل رہے ہیں۔
اب بھی صحی نہیں کرنا اب پھر بھی فحاشہ دیکھیں گے چلو لگے رہو۔ اتنے سال 50 سال سے کرپشن ہو رہئ ہے کیا اس کے کچھ ملے گا؟ اس سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر کرپشن سے کچھ ملنا ہے تو اگلے پچاس برس اور کرپشن کرو اگر تھک گئے ہو تو اللہ کے دین پر واپس آئو۔ اگر مایوس ہوگئے ہو تو واپس آجائو۔ ظہور بھی اس طرح ہوگا ۔ جب ہم کو ظلم سے امید ہے کہ کچھ ملنے والا ہے تو عدل محض تشریف نہیں لائیں گے جب ہم سمجھ لیں کہ ظلم سے کچھ نہیں ملنے والا سب کچھ عدل سے ملے گا در اہلبیت سے ملے گا تو پھر امام کا ظھور ہوگا۔
لب لباب یہ ہوا کہ تقریر ختم ہونے کے بعد 80 فیصد باتیں لوگ بھول جاتے ہیں ہم دس منٹ میں نوی فیصد بھول جائیں گے۔ ریکاردنگ پڑی رہتی ہیں کوئی دوبارہ نہیں دیکھتا ہے آپ دیکھیں گے اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کچھ اور لوگ دیکھ لیں گے۔ نوابشاہ میں عید غدیر کا پروگرام تھا جس میں پچیس یا تیس لوگ تھے ہم نے اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اب دیکھتے ہیں کہ ناس کے دیکھنے والے کئی ہزار ہیں۔ لوگ بھول جائیں گے۔ آخر میں اس کو دوبارہ دہراتے ہیں تا کہ رہ جائیں واقعات رہ جاتے ہیں مفھوم نکل جاتا ہے۔ مفھوم پر اصرار کرتے ہیں مفھوم کو تصویر میں لے کر آئیں۔ معقول کو محسوس میں لے کر آئیں تو باقی رہے گا۔
میں نے معقول کو محسوس میں رکھا تھا ایک ٹرائی اینگل ہے جس کے ایک کونہ پر اعتماد، دوسرے پر منصوبہ اور تیسرے کونے پر ٹیم ورک ہے جس کو ہم نے ایک دائرہ میں رکھا ہے دائرہ اخلاص ہے۔ میں نے پل بننا ہے جس سے پر سے لوگوں نے گذرنا ہے آپ نے ستون نہیں بننا ہے۔ معاشرہ کیلئے کام کرنا ہے تو جھیلنا بہت پڑے گا۔ اگر صحی کرتا ہے تو پھر بھی جھیلنا پڑے گا اگر غلط کرتا ہے تو پھر زیادہ جھیلنا پڑے گا۔ پرخلوص ہونا ضروری ہے۔ جس چیز میں جان بوجھ کر نافرمانی کریں گے وہ آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔ نیند کیلئے نماز کو چھوڑا تو اچھی نیند نہیں ملے گی آپ نے خدا کو چھوڑا ہے۔
Supreme Leader Meets with Pilgrims at Imam Ridha (a.s) Shrine - 21 March 2013 - Mashhad - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم...
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
More...
Description:
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
4:16
|
دریایی آرامش - عبدالرضا هلالی | Farsi sub English Urdu Arabic
مداحی: برای شب جمعه و دلتنگ کربلا و حرم و نوحه امام حسینؑ
نماهنگ: دریایی آرامش
شروع عاشقی مون از همین جا بود...
مداحی: برای شب جمعه و دلتنگ کربلا و حرم و نوحه امام حسینؑ
نماهنگ: دریایی آرامش
شروع عاشقی مون از همین جا بود
با نوای: حاج عبدالرضا هلالی و کربلایی یوسف بهشتی
و صدای گروه سرود دخترانه احسان
بازیرنویس: عربي (مترجم للعربية)، انگلیسی، اردو
شاعر: سید جواد پرئی
تنظیم کننده: احسان جوادی
مجری طرح: موسسه فرهنگی هنری عصر انتظار
تهیه شده در: ماوا
سینوا - مرکز تخصصی هنرهای جمع خوانی
Sea of Peace (Daryae Aaramesh) Nasheed about Missing Karbala and Imam Hussain (a) by Haj Abdolreza Helali and Karbalae Yousef Beheshti with Group of Ehsan Sorud
Best Farsi Noha and Maddahi with English Urdu Arabic Subtitles, translation, and Farsi Lyrics 2021
متن:
شروع عاشقیمون از همین جا بود
قدیم ندیما زیر این پرچم
با مادرم راهی شدم روضه
زلفم گره خورد به همین پرچم
عاشق شدن تو بچگی لطفش همینه
عاشق میشی دل میدی تو اوج صداقت
اصلا محاله که جدا شی از رفیقت
از کودکی وقتی شروع میشه رفاقت
من واست سر میدم
جونمو آخر میدم
بابی انت و امی
پدر و مادر میدم
امیری حسین و نعم الامیر
جان مادرت دستمو بگیر
روزای سخت دنیا ساده میشه
تا وقتی که باشی کنار من
نداشتمت دستام خالی بود
ممنون شدی دار و ندار من
من دوست دارم غرق رویای تو باشم
دریای آرامش منو حالا بغل کن
من درد دارم درد دوری از حرم رو
آقا بیا یه جوری این مشکل و حل کن
عاشقی واگیره
دل عاشق گیره
فاصلهمون زیاد بشه
عاشقت میمیره
امیری حسین و نعم الامیر
جان مادرت دستمو بگیر
Thanks for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Join this channel as a Member: https://www.youtube.com/channel/UCrfWHP2hw8x8MIiHzB6GyTA/join
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Down load this video on our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyountv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://vk.com/zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
مداحی: برای شب جمعه و دلتنگ کربلا و حرم و نوحه امام حسینؑ
نماهنگ: دریایی آرامش
شروع عاشقی مون از همین جا بود
با نوای: حاج عبدالرضا هلالی و کربلایی یوسف بهشتی
و صدای گروه سرود دخترانه احسان
بازیرنویس: عربي (مترجم للعربية)، انگلیسی، اردو
شاعر: سید جواد پرئی
تنظیم کننده: احسان جوادی
مجری طرح: موسسه فرهنگی هنری عصر انتظار
تهیه شده در: ماوا
سینوا - مرکز تخصصی هنرهای جمع خوانی
Sea of Peace (Daryae Aaramesh) Nasheed about Missing Karbala and Imam Hussain (a) by Haj Abdolreza Helali and Karbalae Yousef Beheshti with Group of Ehsan Sorud
Best Farsi Noha and Maddahi with English Urdu Arabic Subtitles, translation, and Farsi Lyrics 2021
متن:
شروع عاشقیمون از همین جا بود
قدیم ندیما زیر این پرچم
با مادرم راهی شدم روضه
زلفم گره خورد به همین پرچم
عاشق شدن تو بچگی لطفش همینه
عاشق میشی دل میدی تو اوج صداقت
اصلا محاله که جدا شی از رفیقت
از کودکی وقتی شروع میشه رفاقت
من واست سر میدم
جونمو آخر میدم
بابی انت و امی
پدر و مادر میدم
امیری حسین و نعم الامیر
جان مادرت دستمو بگیر
روزای سخت دنیا ساده میشه
تا وقتی که باشی کنار من
نداشتمت دستام خالی بود
ممنون شدی دار و ندار من
من دوست دارم غرق رویای تو باشم
دریای آرامش منو حالا بغل کن
من درد دارم درد دوری از حرم رو
آقا بیا یه جوری این مشکل و حل کن
عاشقی واگیره
دل عاشق گیره
فاصلهمون زیاد بشه
عاشقت میمیره
امیری حسین و نعم الامیر
جان مادرت دستمو بگیر
Thanks for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Join this channel as a Member: https://www.youtube.com/channel/UCrfWHP2hw8x8MIiHzB6GyTA/join
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Down load this video on our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyountv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://vk.com/zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
93:04
|
KHAMSA MAJALIS AT MASOMIN PS BADAH | KARBALA KI TAREEKH AUR BOOKS | SYED HUSSAIN MOOSAVI | SINDHI
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم...
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و...
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
More...
Description:
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
6:55
|
جہاد نکاح کا شکار ایک معصوم لڑکی Arabic sub English
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15 سالہ نوجوان شامی لڑکی نے اپنی...
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15 سالہ نوجوان شامی لڑکی نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔ انٹرویو میں دہشت گردوں کی جنسی درندگی بننے والی نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا نام روان میلادالدہ ہے اور 1997 میں پیدا ہوئی تھی۔جس کے باپ کا نام میلاد موسی الدہ ہے۔ہمارا گھرانہ 5 افراد پر مشتمل ہے۔میں ایک کسان کی بیٹی ہوں جو جنگ سے پہلے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جاتی تو گھر والے یقینا مجھے سزا دیتے تھے۔ جب ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو میرا باپ شامی باغیوں کو گھر میں لاتا تھا۔جن کے ساتھ 3،4 ہتھیار ہوتے تھے۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ یہاں کیوں آتے تھے۔میں 15 دن سے خوف زدہ تھی کہ میرا باپ، ماں، بہن اور بھائی میرے کمرے میں نہیں آئے اور نہ ہی کسی قسم کی بات چیت کی۔میرے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی نہ ٹی وی، نہ ریڈیو اور نہ ٹیلی فون وغیرہ۔میں باتھ روم میں اور جیسے ہی کمرے میں واپس آئی۔میں حیران رہ گئی کہ میرا باپ مجھے خوراک یا جو کچھ میں چاہتی مجھے مہیا کرتا تھا۔لیکن اس نے مجھے گھر سے باہر کچھ بھی کرنے سے منع کر دیا۔ حتی کہ مجھے سکول جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔15دن کے بعد میرا باپ میرے پاس آکر کہنے لگاکہ جا کر نہا لو۔میں اپنے کی یہ بات سن کر حیران ہو گئی۔میں نے اپنے کپڑے لیے اور نہانے کے لئے چلی گئی۔جب میں نہا رہی تھی تو ایک شخص اندر آ گیا جس کی عمر50 سال کے قریب تھی۔جس نے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب ہونے لگ گیا۔اس نے کسی قسم کا خیال نہ کیا جب کہ چھوٹے سے باتھ میں میں چلا رہی تھی۔اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور کمرے میں لے گیا۔جب کہ چیخنے چلانے کی آوازیں میرا باپ سن رہا تھا۔ لیکن اس نے مجھے اس آدمی سے چھڑانے کی کسی قسم کی کوشش نہ کی۔جو کچھ وہ میرے ساتھ کر سکتا تھا اس نے کیا اور اسی دوران دوسرا آدمی بھی آگیا۔اس نے بھی وہی کیا جو پہلے والا کر چکا تھا۔ جس کے بعد میں ہوش و حواس کھو بیٹھی اور تقریبا 45 منٹ کے بعد مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں نے اپنے باپ کو بلایا جب وہ کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا کہ جب میں چیخ اور چلا رہی تھی تو آپ مجھے اس مصیبت سے نجات دلانے کیوں نہیں آئے۔اس نے بتایا کہ یہ سب سہی تھا اور یہ جہاد تھا۔ لہذا آپ اس کو ہر وقت کر سکتی ہو اور مجاہدین آپ کے ساتھ سو سکتے ہیں۔اس سے آپ کے گناہ مٹ جائیں گے اور آپ مرنے کے بعدشہید کہلاو گی اور سیدھا جنت میں جاو گی۔میں نے پوچھا کہ یہ کیسا جہاد ہے؟ جس کے میں مسلسل 23 دن بیمار رہی۔ میں اپنے باپ سے کہا کہ مجھے دوائی لا دو یا ڈاکٹر کو معائنہ کراو لیکن اس نے انکار کردیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ سے وہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔یہ عرصہ ایک ہفتے تک جاری رہا۔جب بھی میرا باپ ان آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دیتا تو میں ان سے بچنے کی کوشش کرتی لیکن وہ مجھے زیادتی کا نشانہ بنا دیتے۔ایک بار ایک آدمی جس کو میں جانتی تھی کمرے میں آیا میں نے اسے کچھ نہ کرنے کا کہا تو اس نے کہا کہ آپ کا باپ مجھے آپ کے ساتھ سونے سے منع نہیں کرے گا۔ جس کے بعد میرا باپ مجھے نہانے کے لئے کہا لیکن میں وہاں سے فرار ہونا چاہتی تھی۔ گھر کا دروازہ ایک ہونے کی وجہ سے فرار ہونا مشکل تھا۔ اگر وہاں سے فرار ہوتی تو فوجیوں کی نظر میں آجاتی۔ باغی فوجی مجھے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو میں نے سنا کہ میرا باپ انہیں اس گاوں کو چھوڑنے کا کہ رہا تھا۔ جس کے بعد وہ دوسرے گاوں تصل میں چلے گئے۔اس کے بعد میری والدہ، بھائی اور بہن گھر واپس آئے تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ مجھے اکیلا کیوں یہاں چھوڑ گئے تھے۔لیکن اس نے مجھے بتایا کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے اچھا ہوا ہے۔ جس کے بعد اس نے مجھے دھمکی دی کہ کسی کو بتانا نہیں ورنہ آپ کو مار دوں گی۔جب میری ماں باہر جاتی یا واپس آتی تو نہاتی تھی۔وہ اسے ْجہاد النکاح۔کہتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد میرے باپ نے ماں سے کہا کہ وہ مجھے روان لے آئے۔جس سے مجھے فورا خیال آیا کہ وہ مجھے دوسرے گاوں لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ جہاد النکاح کرنےجاتی ہے۔ میں اس کے باوجود ماں کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ ہوگئی۔ ہم تصل گاوں جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوئےاور جب وہ فوجی چیک پوائنٹ پر رکی۔ تو میں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا جس کے باعث ایک فوج میرے پاس آیا اور گاڑی سے باہر نکالا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں چیخ رہی ہو تو میں نے اسے سارا واقعہ بتا دیا۔جو میرے ساتھ ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے کار میں بیٹھا کر ایک پرامن گھر میں منتقل کر دیا
More...
Description:
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15 سالہ نوجوان شامی لڑکی نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔ انٹرویو میں دہشت گردوں کی جنسی درندگی بننے والی نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا نام روان میلادالدہ ہے اور 1997 میں پیدا ہوئی تھی۔جس کے باپ کا نام میلاد موسی الدہ ہے۔ہمارا گھرانہ 5 افراد پر مشتمل ہے۔میں ایک کسان کی بیٹی ہوں جو جنگ سے پہلے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جاتی تو گھر والے یقینا مجھے سزا دیتے تھے۔ جب ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو میرا باپ شامی باغیوں کو گھر میں لاتا تھا۔جن کے ساتھ 3،4 ہتھیار ہوتے تھے۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ یہاں کیوں آتے تھے۔میں 15 دن سے خوف زدہ تھی کہ میرا باپ، ماں، بہن اور بھائی میرے کمرے میں نہیں آئے اور نہ ہی کسی قسم کی بات چیت کی۔میرے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی نہ ٹی وی، نہ ریڈیو اور نہ ٹیلی فون وغیرہ۔میں باتھ روم میں اور جیسے ہی کمرے میں واپس آئی۔میں حیران رہ گئی کہ میرا باپ مجھے خوراک یا جو کچھ میں چاہتی مجھے مہیا کرتا تھا۔لیکن اس نے مجھے گھر سے باہر کچھ بھی کرنے سے منع کر دیا۔ حتی کہ مجھے سکول جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔15دن کے بعد میرا باپ میرے پاس آکر کہنے لگاکہ جا کر نہا لو۔میں اپنے کی یہ بات سن کر حیران ہو گئی۔میں نے اپنے کپڑے لیے اور نہانے کے لئے چلی گئی۔جب میں نہا رہی تھی تو ایک شخص اندر آ گیا جس کی عمر50 سال کے قریب تھی۔جس نے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب ہونے لگ گیا۔اس نے کسی قسم کا خیال نہ کیا جب کہ چھوٹے سے باتھ میں میں چلا رہی تھی۔اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور کمرے میں لے گیا۔جب کہ چیخنے چلانے کی آوازیں میرا باپ سن رہا تھا۔ لیکن اس نے مجھے اس آدمی سے چھڑانے کی کسی قسم کی کوشش نہ کی۔جو کچھ وہ میرے ساتھ کر سکتا تھا اس نے کیا اور اسی دوران دوسرا آدمی بھی آگیا۔اس نے بھی وہی کیا جو پہلے والا کر چکا تھا۔ جس کے بعد میں ہوش و حواس کھو بیٹھی اور تقریبا 45 منٹ کے بعد مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں نے اپنے باپ کو بلایا جب وہ کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا کہ جب میں چیخ اور چلا رہی تھی تو آپ مجھے اس مصیبت سے نجات دلانے کیوں نہیں آئے۔اس نے بتایا کہ یہ سب سہی تھا اور یہ جہاد تھا۔ لہذا آپ اس کو ہر وقت کر سکتی ہو اور مجاہدین آپ کے ساتھ سو سکتے ہیں۔اس سے آپ کے گناہ مٹ جائیں گے اور آپ مرنے کے بعدشہید کہلاو گی اور سیدھا جنت میں جاو گی۔میں نے پوچھا کہ یہ کیسا جہاد ہے؟ جس کے میں مسلسل 23 دن بیمار رہی۔ میں اپنے باپ سے کہا کہ مجھے دوائی لا دو یا ڈاکٹر کو معائنہ کراو لیکن اس نے انکار کردیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ سے وہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔یہ عرصہ ایک ہفتے تک جاری رہا۔جب بھی میرا باپ ان آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دیتا تو میں ان سے بچنے کی کوشش کرتی لیکن وہ مجھے زیادتی کا نشانہ بنا دیتے۔ایک بار ایک آدمی جس کو میں جانتی تھی کمرے میں آیا میں نے اسے کچھ نہ کرنے کا کہا تو اس نے کہا کہ آپ کا باپ مجھے آپ کے ساتھ سونے سے منع نہیں کرے گا۔ جس کے بعد میرا باپ مجھے نہانے کے لئے کہا لیکن میں وہاں سے فرار ہونا چاہتی تھی۔ گھر کا دروازہ ایک ہونے کی وجہ سے فرار ہونا مشکل تھا۔ اگر وہاں سے فرار ہوتی تو فوجیوں کی نظر میں آجاتی۔ باغی فوجی مجھے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو میں نے سنا کہ میرا باپ انہیں اس گاوں کو چھوڑنے کا کہ رہا تھا۔ جس کے بعد وہ دوسرے گاوں تصل میں چلے گئے۔اس کے بعد میری والدہ، بھائی اور بہن گھر واپس آئے تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ مجھے اکیلا کیوں یہاں چھوڑ گئے تھے۔لیکن اس نے مجھے بتایا کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے اچھا ہوا ہے۔ جس کے بعد اس نے مجھے دھمکی دی کہ کسی کو بتانا نہیں ورنہ آپ کو مار دوں گی۔جب میری ماں باہر جاتی یا واپس آتی تو نہاتی تھی۔وہ اسے ْجہاد النکاح۔کہتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد میرے باپ نے ماں سے کہا کہ وہ مجھے روان لے آئے۔جس سے مجھے فورا خیال آیا کہ وہ مجھے دوسرے گاوں لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ جہاد النکاح کرنےجاتی ہے۔ میں اس کے باوجود ماں کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ ہوگئی۔ ہم تصل گاوں جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوئےاور جب وہ فوجی چیک پوائنٹ پر رکی۔ تو میں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا جس کے باعث ایک فوج میرے پاس آیا اور گاڑی سے باہر نکالا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں چیخ رہی ہو تو میں نے اسے سارا واقعہ بتا دیا۔جو میرے ساتھ ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے کار میں بیٹھا کر ایک پرامن گھر میں منتقل کر دیا
8:23
|
امتحان ولایت مداری - Wilayat Madari ka Imtehan - Farsi sub Urdu
جسطرح حضرت موسی کی چالیس دن کی غیبت میں امت نے گوسالہ پرستی (گائے کی پرستش) شروع کردی ۔۔
کیا ایسا تو نہیں...
جسطرح حضرت موسی کی چالیس دن کی غیبت میں امت نے گوسالہ پرستی (گائے کی پرستش) شروع کردی ۔۔
کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے بھی امام زمانہ علیہ السلام کی چودہ سو سال کی غیبت میں گوسالہ پرستی شروع کردی؟
گوسالہ پرستی کیا ہوتی ہے؟
آج کے دور کا گوسالہ کیا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم گوسالہ پرستی بھی جاری رکھیں اور امت بن سکیں؟
More...
Description:
جسطرح حضرت موسی کی چالیس دن کی غیبت میں امت نے گوسالہ پرستی (گائے کی پرستش) شروع کردی ۔۔
کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے بھی امام زمانہ علیہ السلام کی چودہ سو سال کی غیبت میں گوسالہ پرستی شروع کردی؟
گوسالہ پرستی کیا ہوتی ہے؟
آج کے دور کا گوسالہ کیا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم گوسالہ پرستی بھی جاری رکھیں اور امت بن سکیں؟
6:14
|
Sepidar - Hamed Zamani | Farsi sub English Urdu Arabic
نماهنگ: سپیدار
باصدای: حامد زمانی
بازیرنویس: عربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
آهنگ: با عشق این قصه...
نماهنگ: سپیدار
باصدای: حامد زمانی
بازیرنویس: عربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
آهنگ: با عشق این قصه شروع میشه
نشيد جدید بصوت حامد زماني
مداحی: برای سردار دلها
تنطیم کننده: امیر جمالفرد
شاعر: سید حسین متولیان
ادیو: استودیو ایستاده
Sepidar (Poplar) New Song by Hamed Zamani
Best Farsi Song / Nasheed with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2020
Audio: Ista Studio
متن:
با عشق این قصه شروع میشه
اونجا که عطر یاس میپیچه...
من مردمی رو میشناسم که
دنیا کنار عشقشون هیچه...
آتشفشان تو قلبِ مرداشه
کوهان که سر به زیر و آرومان
من رشته کوهایی رو میشناسم
که از ته دنیام معلومان ...
مشقِ شهادت میکنن مردای این خاک
از روی دست و بازوی سقای بی دست
یه نخلِ بی سر سوخته تو خون و آتیش
هر جای این خونه چراغِ روشنی هست
هیشکی ندیده قبلِ این مردم،سپیدار
شالِ دلیری و سلحشوری ببنده ...
این جنگلِ افرا یه عمره نذر کرده...
وقتِ تبر خوردن میونِ خون بخنده
کلِ عشیره باز پا میشن ...
وقتی که جنگ و خون به پا میشه
کل قبیله کوه میپوشن ...
هر مرد همسنگِ دنا میشه
وقتی برای عشق میجنگن
رنگِ سفر میگیره دنیاشون
با موج و طوفان هم قسم میشن
پای قطارای فشنگاشون ...
عطری که توی شهر پیچیده
با باد از آزادگی گفته ...
وقتی که فتحِ عشق نزدیکه
پرچم به دستِ باد میفته ...
هرجا یکی عاشق بشه اونجا ...
بازارِ جنگ و عشق و خون میشه
عطر گلای یاس میپیچه ...
اونجا که لاله واژگون میشه...
Thanks for watching our video on Zainabiyoun TV
#HaiderNohe #Zainabiyontv #HamedZamani
Install our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Youtube: https://youtube.com/haidernohe
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
نماهنگ: سپیدار
باصدای: حامد زمانی
بازیرنویس: عربي (الترجمة العربية)، انگلیسی، اردو
آهنگ: با عشق این قصه شروع میشه
نشيد جدید بصوت حامد زماني
مداحی: برای سردار دلها
تنطیم کننده: امیر جمالفرد
شاعر: سید حسین متولیان
ادیو: استودیو ایستاده
Sepidar (Poplar) New Song by Hamed Zamani
Best Farsi Song / Nasheed with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2020
Audio: Ista Studio
متن:
با عشق این قصه شروع میشه
اونجا که عطر یاس میپیچه...
من مردمی رو میشناسم که
دنیا کنار عشقشون هیچه...
آتشفشان تو قلبِ مرداشه
کوهان که سر به زیر و آرومان
من رشته کوهایی رو میشناسم
که از ته دنیام معلومان ...
مشقِ شهادت میکنن مردای این خاک
از روی دست و بازوی سقای بی دست
یه نخلِ بی سر سوخته تو خون و آتیش
هر جای این خونه چراغِ روشنی هست
هیشکی ندیده قبلِ این مردم،سپیدار
شالِ دلیری و سلحشوری ببنده ...
این جنگلِ افرا یه عمره نذر کرده...
وقتِ تبر خوردن میونِ خون بخنده
کلِ عشیره باز پا میشن ...
وقتی که جنگ و خون به پا میشه
کل قبیله کوه میپوشن ...
هر مرد همسنگِ دنا میشه
وقتی برای عشق میجنگن
رنگِ سفر میگیره دنیاشون
با موج و طوفان هم قسم میشن
پای قطارای فشنگاشون ...
عطری که توی شهر پیچیده
با باد از آزادگی گفته ...
وقتی که فتحِ عشق نزدیکه
پرچم به دستِ باد میفته ...
هرجا یکی عاشق بشه اونجا ...
بازارِ جنگ و عشق و خون میشه
عطر گلای یاس میپیچه ...
اونجا که لاله واژگون میشه...
Thanks for watching our video on Zainabiyoun TV
#HaiderNohe #Zainabiyontv #HamedZamani
Install our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Youtube: https://youtube.com/haidernohe
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
2:33
|
CLIP | ہر صبح کا سوال | H.I. Syed Ali Murtaza Zaidi | Urdu
اگر ہم روز صبح اٹھ کر خود سے یہ سوال کرنا شروع کردیں تو ہمارا اپنے امام سے رابطہ برقرار ہونا شروع بوجائے گا....
اگر ہم روز صبح اٹھ کر خود سے یہ سوال کرنا شروع کردیں تو ہمارا اپنے امام سے رابطہ برقرار ہونا شروع بوجائے گا. مزید...
YouTube Channel:
https://www.youtube.com/c/jawadhemani-abasaleh
Facebook Page:
https://www.facebook.com/AbaSalehProductions
More...
Description:
اگر ہم روز صبح اٹھ کر خود سے یہ سوال کرنا شروع کردیں تو ہمارا اپنے امام سے رابطہ برقرار ہونا شروع بوجائے گا. مزید...
YouTube Channel:
https://www.youtube.com/c/jawadhemani-abasaleh
Facebook Page:
https://www.facebook.com/AbaSalehProductions
2:03
|
[Balaghatul Hussain] Khutba No 4 to 6 | Babar Ali | Sindhi
خطبه 4
بيشڪ سهپ سينگار آهي، وفا انسانيت جي تقاضا آ، مائٽن سان ڀلائي نعمت آ، تڪبر بي غيرتي آهي، تڪڙ ناداني...
خطبه 4
بيشڪ سهپ سينگار آهي، وفا انسانيت جي تقاضا آ، مائٽن سان ڀلائي نعمت آ، تڪبر بي غيرتي آهي، تڪڙ ناداني آهي، ناداني لاچاري آ، وڌاءُ خطرو آ، ڪمينن جي صحبت برائي آ ۽ فاسقن جي صحبت تهمت ( جو سبب) آهي.
( ڪشف الغمه)
خطبه 5
(سندن خطبي جو حصو جنهن ۾ پاڻ ماڻهن کي پنهنجي والد سان گڏ جهاد خاطر شام ڏانهن وڃڻ جي دعوت ڏني آهي)
پاڻ اٿي بيٺا، الله جي شايان شان حمد ۽ ثنا بيان ڪيائون پوءِ فرمايائون:
ڪوفي وارو! اوهان ڪريم محب آهيو. اوهان جي محبت دل سان آهي صرف ظاهري ناهي. توهان پنهنجي وچ ۾ ڀڙڪيل باهه وسائڻ ۽ پاڻ تي ڪڙڪيل مشڪلن کي مٽائڻ جي ڪوشش ڪريو.
سمجهي ڇڏيو ته جنگ جا نتيجا وسيع ۽ ان جو مزو اڻ وڻندڙ هوندو آهي. جيڪو ان مقابلي لاءِ ثمر ڪٺو ڪري، پوري طرح ان لاءِ تيار ٿي وڃي ۽ جنگ شروع ٿيڻ کان اڳ ان جي تڪليفن کي نظر ۾ رکي ته اهو ئي ميدان جو اچڻ کان اڳ تڪڙ ڪري ۽ جنگ شروع ڪرڻ جي ڪوشش ڪري ته اهو پنهنجي قوم کي فائدو ته ڪو به نه پهچائيندو البت پاڻ کي به تباهه ڪندو. اسان الله کان دعا ٿا گهرون ته هو اوهان کي حق ڏانهن ڌيان ڏيڻ جي همت عطا فرمائي .
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
خطبه 6
حضرت ابوذر سان سندن گفتگو
(جڏهن عثمان ابن عفان جي حڪم سان حضرت ابوذر غفاريءَ کي جلاوطن ڪري ربذه ڏانهن موڪليو پئي ويو ته امام ع جن فرمايو)
چاچا سائين! جيڪي اوهان تي گذري رهيو آهي الله ان کي بلائڻ جي قدرت رکي ٿو. هر ڏينهن هو نئين شان ۾ آهي.
ماڻهن پنهنجي دنيا اوهان کان بچائي ورتي ۽ اوهان کانئن پنهنجو دين بچايو. جيڪا شيءِ هنن اوهان کان بچائي ان کان اوهان بي نياز آهيو. البت اوهان جنهن شيءِ کان هنن کي محروم ڪيو آهي ان جا هو ڏاڍا محتاج آهن. اوهان الله کان صبر ۽ ڪاميابي جي دعا ڪريو. فرياد ۽ واويلا ڪرڻ کان بچو. ڇو ته صبر دين جو حصو ۽ ڪرامت آهي. لالچ رزق کي قريب آڻي نٿي سگهي ۽ واويلا موت کي ٽاري نٿي سگهي.
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
More...
Description:
خطبه 4
بيشڪ سهپ سينگار آهي، وفا انسانيت جي تقاضا آ، مائٽن سان ڀلائي نعمت آ، تڪبر بي غيرتي آهي، تڪڙ ناداني آهي، ناداني لاچاري آ، وڌاءُ خطرو آ، ڪمينن جي صحبت برائي آ ۽ فاسقن جي صحبت تهمت ( جو سبب) آهي.
( ڪشف الغمه)
خطبه 5
(سندن خطبي جو حصو جنهن ۾ پاڻ ماڻهن کي پنهنجي والد سان گڏ جهاد خاطر شام ڏانهن وڃڻ جي دعوت ڏني آهي)
پاڻ اٿي بيٺا، الله جي شايان شان حمد ۽ ثنا بيان ڪيائون پوءِ فرمايائون:
ڪوفي وارو! اوهان ڪريم محب آهيو. اوهان جي محبت دل سان آهي صرف ظاهري ناهي. توهان پنهنجي وچ ۾ ڀڙڪيل باهه وسائڻ ۽ پاڻ تي ڪڙڪيل مشڪلن کي مٽائڻ جي ڪوشش ڪريو.
سمجهي ڇڏيو ته جنگ جا نتيجا وسيع ۽ ان جو مزو اڻ وڻندڙ هوندو آهي. جيڪو ان مقابلي لاءِ ثمر ڪٺو ڪري، پوري طرح ان لاءِ تيار ٿي وڃي ۽ جنگ شروع ٿيڻ کان اڳ ان جي تڪليفن کي نظر ۾ رکي ته اهو ئي ميدان جو اچڻ کان اڳ تڪڙ ڪري ۽ جنگ شروع ڪرڻ جي ڪوشش ڪري ته اهو پنهنجي قوم کي فائدو ته ڪو به نه پهچائيندو البت پاڻ کي به تباهه ڪندو. اسان الله کان دعا ٿا گهرون ته هو اوهان کي حق ڏانهن ڌيان ڏيڻ جي همت عطا فرمائي .
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
خطبه 6
حضرت ابوذر سان سندن گفتگو
(جڏهن عثمان ابن عفان جي حڪم سان حضرت ابوذر غفاريءَ کي جلاوطن ڪري ربذه ڏانهن موڪليو پئي ويو ته امام ع جن فرمايو)
چاچا سائين! جيڪي اوهان تي گذري رهيو آهي الله ان کي بلائڻ جي قدرت رکي ٿو. هر ڏينهن هو نئين شان ۾ آهي.
ماڻهن پنهنجي دنيا اوهان کان بچائي ورتي ۽ اوهان کانئن پنهنجو دين بچايو. جيڪا شيءِ هنن اوهان کان بچائي ان کان اوهان بي نياز آهيو. البت اوهان جنهن شيءِ کان هنن کي محروم ڪيو آهي ان جا هو ڏاڍا محتاج آهن. اوهان الله کان صبر ۽ ڪاميابي جي دعا ڪريو. فرياد ۽ واويلا ڪرڻ کان بچو. ڇو ته صبر دين جو حصو ۽ ڪرامت آهي. لالچ رزق کي قريب آڻي نٿي سگهي ۽ واويلا موت کي ٽاري نٿي سگهي.
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
1:58
|
طوفان الاقصیٰ ختم نہیں ہوگا | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
صیہونیوں نے ان ۵۰ دنوں میں کتنا ظلم کیا ہے؟ کیا صیہونیوں کا ظلم آج شروع ہوا ہے؟ صیہونیوں کے وجود کی بنیاد کس...
صیہونیوں نے ان ۵۰ دنوں میں کتنا ظلم کیا ہے؟ کیا صیہونیوں کا ظلم آج شروع ہوا ہے؟ صیہونیوں کے وجود کی بنیاد کس بات پر قائم ہوئی تھی؟ صیہونی بستیاں کہاں پر قائم ہوئی ہیں؟ اللہ کا ارادہ کیا ہے؟ کیا طوفان الاقصیٰ شروع ہوا اور ختم ہو گیا؟ کیا صیہونیوں کو ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کرنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ صورتحال جاری رہے گی؟
ان اہم سوالات کے جوابات کےلیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی یہ ویڈیو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #عبرتناک_شکست #ناک_اؤٹ #غزہ_اسرائیل_جنگ #اسرائیلی_جرائم #حقائق #امریکہ_اسرائیل #مستقبل #مکتب_اہل_بیت #مکتب_امام_خمینی #حقیقی_تشیع
More...
Description:
صیہونیوں نے ان ۵۰ دنوں میں کتنا ظلم کیا ہے؟ کیا صیہونیوں کا ظلم آج شروع ہوا ہے؟ صیہونیوں کے وجود کی بنیاد کس بات پر قائم ہوئی تھی؟ صیہونی بستیاں کہاں پر قائم ہوئی ہیں؟ اللہ کا ارادہ کیا ہے؟ کیا طوفان الاقصیٰ شروع ہوا اور ختم ہو گیا؟ کیا صیہونیوں کو ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کرنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ صورتحال جاری رہے گی؟
ان اہم سوالات کے جوابات کےلیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی یہ ویڈیو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #عبرتناک_شکست #ناک_اؤٹ #غزہ_اسرائیل_جنگ #اسرائیلی_جرائم #حقائق #امریکہ_اسرائیل #مستقبل #مکتب_اہل_بیت #مکتب_امام_خمینی #حقیقی_تشیع