2:25
|
5:52
|
7:23
|
CLIP | شیعت کے خلاف داخلی سازشیں | Hujjat ul Islam Maulana Syed Ali Raza Rizvi | Urdu
آج شیعت کیخلاف سازشیں دو قسم کی ہیں. پہلی قسم خارجی سازشیں ہیں جبکہ دوسری قسم داخلی/اندرونی سازشیں ہیں. خارجی...
آج شیعت کیخلاف سازشیں دو قسم کی ہیں. پہلی قسم خارجی سازشیں ہیں جبکہ دوسری قسم داخلی/اندرونی سازشیں ہیں. خارجی سازش کا مقابله نسبتا آسان ہے. داخلی سازشیں بهی دو قسم کی ہیں. پہلی قسم عزاداری پر حملہ جبکه دوسری قسم مرجعیت پر حملہ ہے. نظام مرجعیت نے ایامِ غیبت امام عصر(عج) میں تشیع کو سنبهالا ہے.
(Original Seminar (Khoja TV & Radio:
https://youtu.be/QC2ws6k_F2Y
More...
Description:
آج شیعت کیخلاف سازشیں دو قسم کی ہیں. پہلی قسم خارجی سازشیں ہیں جبکہ دوسری قسم داخلی/اندرونی سازشیں ہیں. خارجی سازش کا مقابله نسبتا آسان ہے. داخلی سازشیں بهی دو قسم کی ہیں. پہلی قسم عزاداری پر حملہ جبکه دوسری قسم مرجعیت پر حملہ ہے. نظام مرجعیت نے ایامِ غیبت امام عصر(عج) میں تشیع کو سنبهالا ہے.
(Original Seminar (Khoja TV & Radio:
https://youtu.be/QC2ws6k_F2Y
42:19
|
[Dec - 20 - 2011] Andaz-e- Jahan - پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
[Dec - 20 - 2011] Andaz-e- Jahan - پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
مہمان : ڈاکٹر اسرار شاہ-محترم محمد فیصل خان-ڈاکٹر...
[Dec - 20 - 2011] Andaz-e- Jahan - پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
مہمان : ڈاکٹر اسرار شاہ-محترم محمد فیصل خان-ڈاکٹر طاہر واسطی
More...
Description:
[Dec - 20 - 2011] Andaz-e- Jahan - پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
مہمان : ڈاکٹر اسرار شاہ-محترم محمد فیصل خان-ڈاکٹر طاہر واسطی
40:38
|
[10 Jan 2012] Andaz-e- Jahan موضوع : پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
[10 Jan 2012] Andaz-e- Jahan موضوع : پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
مہمان : ڈاکٹر طاہر واسطی-پروفیسر عرفان...
[10 Jan 2012] Andaz-e- Jahan موضوع : پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
مہمان : ڈاکٹر طاہر واسطی-پروفیسر عرفان صدیقی-محترم آغا مسعود حسین-
More...
Description:
[10 Jan 2012] Andaz-e- Jahan موضوع : پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات - Urdu
مہمان : ڈاکٹر طاہر واسطی-پروفیسر عرفان صدیقی-محترم آغا مسعود حسین-
1:51
|
1:21
|
Video Tags:
Sahar,,,,,
News,,,,,
Bulletin,,,,,
sahar,,,,,
tv,,,,,
urdu,news,,,,,
khabrain,,,,,
akhbarat,,,,,
iran,,,,,
tehran,,,,,,,
irib,transmission,,,,,
world,,,,,
affairs,,,,,
economics,,,,,
Haqiqat,,,,,
Current,,,,,
Issue,,,,
0:56
|
Video Tags:
Qatari,,Sheri,,Masjid,,Al,,Haram,,Dakhla,,Pabandi,,Sahar,,Urdu,,News
4:56
|
Video Tags:
Wisdom,
Gateway,
WisdomGateway,
Scholar,
Sayyid,
Jawad,
Naqvi,
Islamic,
Revolution,
Enemies,
Iran,
Islamic,
Republic,
7:00
|
دشمن شناسی [33] | منافق، داخلی سیاسی دشمن | Urdu
اس درس میں آپ اِن سوالات کے جواب ملاحظہ فرمائیں گے:
● داخلی سیاسی دشمن سے کیا مراد ہے؟
● کن قرآنی آیات میں...
اس درس میں آپ اِن سوالات کے جواب ملاحظہ فرمائیں گے:
● داخلی سیاسی دشمن سے کیا مراد ہے؟
● کن قرآنی آیات میں منافق کو دشمن معرفی کروایا گیا ہے؟
مولانا سید میثم ہمدانی
More...
Description:
اس درس میں آپ اِن سوالات کے جواب ملاحظہ فرمائیں گے:
● داخلی سیاسی دشمن سے کیا مراد ہے؟
● کن قرآنی آیات میں منافق کو دشمن معرفی کروایا گیا ہے؟
مولانا سید میثم ہمدانی
Video Tags:
noorulwilayah,
production,
dushman,
shanasi,
munafiq,
dakhli,
siyasi,
dushman,
murad,
Qurani,
ayaat,
muarfi,
molana,
sayyid,
meesum,
hamedani,
5:23
|
اَشعَث کا کردار! | استاد علی رضا پناہیان | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ داخلی سطح پر اختلاف اور تفرقہ بازی کو فروغ دینا دشمن کا شیوہ ہے اور اسی راستے سے فائدہ اٹھا...
اس میں شک نہیں کہ داخلی سطح پر اختلاف اور تفرقہ بازی کو فروغ دینا دشمن کا شیوہ ہے اور اسی راستے سے فائدہ اٹھا تا ہے اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پہلے مرحلے میں داخلی سطح پر اختلاف کو ہوا دیتے ہوئے ملت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور داخلی سطح پر اختلاف ایجاد کرنے کے بعد اگلے مرحلے میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ ملک کو تباہ کرنے کیلئے باضابطہ طور پر منصوبہ بناتا ہے، یہ دشمن کا پرانا حربہ ہے جس کی مثالیں ہمیں تاریخ میں بھی ملتی ہیں، جیسے جنگ صفین میں امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر میں شامل اشعث بن قیس جیسے منافق شخص کی ایک تقریر سے جنگ کا نقشہ بدل جاتا ہے اور مسئلہ حکمیت تک جا پہنچتا ہے، چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ملک (ایران) میں ہونے والے حالیہ فسادات اور شورش کے تانے بانے 2009 کے فتنے سے ملتے ہیںأ 2009 کے بعد بعض سیاسی پارٹیوں کی جانب سے داخلی سطح پر دشمن کو اختلاف کا عندیہ مل چکا تھا اور اسی سے دشمن نے فائدہ اٹھاتے ہوئے داخلی سطح پر فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں حالیہ فسادات کی مثال ملک میں دیکھنے کوملی۔
دشمن کیلئے فسادات کو ہوا دینے کا موقع کب اور کہاں سے ملا؟ اشعث بن قیس جیسے منافق کی تقریر نے نیزوں پر قرآن کو اٹھا نے سے زیادہ اثر کس طرح دکھایا؟ رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کے بے سود ہونے پر مبنی تاکید کے باوجود برسر اقتدار حکومت کے اختلاف پر مشتمل سیاسی موقف نے دشمن کو کس طرح کا سگنل بھیجا؟
چنانچہ انہی تمام سوالات کے تفصیلی جوابات سے آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای اور حجت الاسلام والمسلمین پناہیان کے بیانات پر مبنی اس ویڈیو کوضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اشعث #معاویہ #فسادات #2009 #فتنے #اخلتلافات #معاویہ #ایٹمی_مذاکرات #قاسم_سلیمانی #امریکہ #دہشتگر_گرد
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ داخلی سطح پر اختلاف اور تفرقہ بازی کو فروغ دینا دشمن کا شیوہ ہے اور اسی راستے سے فائدہ اٹھا تا ہے اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پہلے مرحلے میں داخلی سطح پر اختلاف کو ہوا دیتے ہوئے ملت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور داخلی سطح پر اختلاف ایجاد کرنے کے بعد اگلے مرحلے میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ ملک کو تباہ کرنے کیلئے باضابطہ طور پر منصوبہ بناتا ہے، یہ دشمن کا پرانا حربہ ہے جس کی مثالیں ہمیں تاریخ میں بھی ملتی ہیں، جیسے جنگ صفین میں امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر میں شامل اشعث بن قیس جیسے منافق شخص کی ایک تقریر سے جنگ کا نقشہ بدل جاتا ہے اور مسئلہ حکمیت تک جا پہنچتا ہے، چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ملک (ایران) میں ہونے والے حالیہ فسادات اور شورش کے تانے بانے 2009 کے فتنے سے ملتے ہیںأ 2009 کے بعد بعض سیاسی پارٹیوں کی جانب سے داخلی سطح پر دشمن کو اختلاف کا عندیہ مل چکا تھا اور اسی سے دشمن نے فائدہ اٹھاتے ہوئے داخلی سطح پر فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں حالیہ فسادات کی مثال ملک میں دیکھنے کوملی۔
دشمن کیلئے فسادات کو ہوا دینے کا موقع کب اور کہاں سے ملا؟ اشعث بن قیس جیسے منافق کی تقریر نے نیزوں پر قرآن کو اٹھا نے سے زیادہ اثر کس طرح دکھایا؟ رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کے بے سود ہونے پر مبنی تاکید کے باوجود برسر اقتدار حکومت کے اختلاف پر مشتمل سیاسی موقف نے دشمن کو کس طرح کا سگنل بھیجا؟
چنانچہ انہی تمام سوالات کے تفصیلی جوابات سے آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای اور حجت الاسلام والمسلمین پناہیان کے بیانات پر مبنی اس ویڈیو کوضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اشعث #معاویہ #فسادات #2009 #فتنے #اخلتلافات #معاویہ #ایٹمی_مذاکرات #قاسم_سلیمانی #امریکہ #دہشتگر_گرد
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
kerdar,
Ostad
Alireza
Panahian,
Alireza
Panahian,
dushman,
tafraqe,
tarikh,
Imam,
Imam
Ali,
Iran,
siyasat,
fesad,
Quran,
rahbar,
enqelab,
Imam
khamenei,
14:43
|
[FARSI] HAJJ Message 2013 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند....
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند.
متن این پیام كه روز دوشنبه بیست و دوم آبانماه ۱۳۹۲ توسط حجتالاسلام قاضیعسكر -نماينده ولی فقيه و سرپرست حجاج ایرانی- در مراسم برائت از مشركان در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
والحمدللّه ربّ العالمین و الصّلاة والسّلام علی سیّدالانبیاء و المرسلین و علی آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
فرا رسیدن موسم حج را باید عید بزرگ امّت اسلامی به شمار آورد. فرصت مغتنمی كه این روزهای گرانبها در همهی سالها برای مسلمانان جهان پدید میآورد، كیمیای معجزهگری است كه اگر قدر آن شناخته و چنانكه شایسته است به كار گرفته شود، بسیاری از آسیبها و آسیبپذیریهای دنیای اسلام، علاج خواهد شد.
حج، چشمهی جوشان فیض الهی است. یكایك شما حاجیان سعادتمند، اكنون این اقبال بلند را به دست آوردهاید كه در این اعمال و مناسكِ آكنده از صفا و معنویّت، دل و جان را شستشویی بسزا داده، از این منبع رحمت و عزّت و قدرت، ذخیرهای برای همهی عمر خویش بردارید. خشوع و تسلیم در برابر خدای رحیم، تعهّد به وظائفی كه بر دوش مسلمان نهاده شده است، نشاط و حركت و اقدام در كار دین و دنیا، رحم و گذشت در تعامل با برادران، جرأت و اعتماد به نفس در برابر حوادث دشوار، امید به كمك و دستگیری خداوند در همه جا و همه چیز، و كوتاهِ سخن ساخت و پرداخت انسانی در طراز مسلمانی را در این عرصهی الهیِ آموزش و پرورش، میتوانید برای خویش تدارك ببینید و خودِ آراسته به این زیورها و بهرهیافته از این ذخیرهها را برای كشور خویش و ملّت خویش و در نهایت برای امّت اسلامی، سوغات برید.
امّت اسلامی امروز بیش از هر چیز به انسانهایی نیاز دارد كه اندیشه و عمل را در كنار ایمان و صفا و اخلاص، و مقاومت در برابر دشمنان كینهورز را در كنار خودسازی معنوی و روحی، فراهم سازند. این یگانه راه نجات جامعهی بزرگ مسلمانان از گرفتاریهایی است كه یا آشكارا به دست دشمن و یا با سستیِ عزم و ایمان و بصیرت، از زمانهای دور در آنها فروافتاده است.
بیشك دوران كنونی، دوران بیداری و هویّتیابی مسلمانان است؛ این حقیقت را از خلال چالشهایی كه كشورهای مسلمان با آن روبهرو شدهاند نیز بروشنی میتوان دریافت. درست در همین شرایط است كه عزم و ارادهی متّكی به ایمان و توكّل و بصیرت و تدبیر، میتواند ملّتهای مسلمان را در این چالشها به پیروزی و سرافرازی برساند و عزّت و كرامت را در سرنوشت آنان رقم زند. جبههی مقابل كه بیداری و عزّت مسلمانان را بر نمیتابد، با همهی توان به میدان آمده و از همهی ابزارهای امنیّتی، روانی، نظامی، اقتصادی و تبلیغاتی برای انفعال و سركوب مسلمانان و به خود مشغول ساختنِ آنان بهره میگیرد. نگاهی به وضعیّت كشورهای غرب آسیا از پاكستان و افغانستان تا سوریّه و عراق و فلسطین و كشورهای خلیج فارس، و نیز كشورهای شمال آفریقا از لیبی و مصر و تونس تا سودان و برخی كشورهای دیگر، حقایق بسیاری را روشن میسازد. جنگهای داخلی؛ عصبیّتهای كور دینی و مذهبی؛ بیثباتیهای سیاسی؛ رواج تروریسم قساوتآمیز؛ ظهور گروهها و جریانهای افراطگر كه به شیوهی اقوام وحشی تاریخ، سینهی انسانها را میشكافند و قلب آنان را با دندان میدرند؛ مسلّحینی كه كودكان و زنان را میكشند، مردان را سر میبرند و به نوامیس تجاوز میكنند، و حتّی در مواردی این جنایات شرمآور و مشمئزكننده را به نام و زیر پرچم دین مرتكب میشوند؛ همه و همه محصول نقشهی شیطانی و استكباری سرویسهای امنیّتی بیگانگان و عوامل حكومتی همدست آنان در منطقه است كه در زمینههای مستعدّ داخلی كشورها امكان وقوع مییابد و روز ملّتها را سیاه و كام آنان را تلخ میكند. یقیناً در چنین اوضاع و احوالی نمیتوان انتظار داشت كه كشورهای مسلمان، خلأهای مادّی و معنوی خود را ترمیم كنند و به امنیّت و رفاه و پیشرفت علمی و اقتدار بینالمللی كه بركات بیداری و هویّتیابی است، دست یابند. این اوضاع محنتبار، میتواند بیداری اسلامی را عقیم و آمادگیهای روحی پدید آمده در دنیای اسلام را ضایع سازد و بار دیگر، سالهای دراز، ملّتهای مسلمان را به ركود و انزوا و انحطاط بكشاند و مسائل اساسی و مهمّ آنان همچون نجات فلسطین و نجات ملّتهای مسلمان از دستاندازی آمریكا و صهیونیسم را به دست فراموشی بسپارد.
علاج بنیانی و اساسی را میتوان در دو جملهی كلیدی خلاصه كرد كه هر دو از بارزترین درسهای حج است:
اوّل: اتّحاد و برادری مسلمانان در زیر لوای توحید،
و دوّم: شناخت دشمن و مقابله با نقشهها و شیوههای او.
تقویت روح اخوّت و همدلی، درس بزرگ حج است. در اینجا حتّی جدال و درشتگویی با دیگران ممنوع است. پوشش یكسان و اَعمال یكسان و حركات یكسان و رفتار مهربان در اینجا به معنی برابری و برادریِ همهی آن كسانی است كه به این كانون توحید معتقد و دلبستهاند. این ردّ صریح اسلام بر هر فكر و عقیده و دعوتی است كه گروهی از مسلمانان و معتقدان به كعبه و توحید را از دائرهی اسلام بیرون بداند. عناصر تكفیری كه امروز بازیچهی سیاست صهیونیستهای غدّار و حامیان غربی آنان شده و دست به جنایتهای سهمگین میزنند و خون مسلمانان و بیگناهان را میریزند، و كسانی از مدّعیان دینداری و ملبّسین به لباس روحانیّت كه در آتش اختلافات شیعه و سنّی و امثال آن میدمند، بدانند كه نفس مراسم حج، باطلكنندهی مدّعای آنان است. شگفتا! كسانی كه مراسم برائت از مشركان را كه ریشه در عمل پیامبر اعظم صلّیاللّه علیه و آله و سلّم دارد، جدال ممنوع قلمداد میكنند، خود از مؤثّرترین دستاندركاران ایجاد منازعههای خونین میان مسلمانانند. اینجانب همچون بسیاری از علمای اسلام و دلسوزان امّت اسلامی بار دیگر اعلام میكنم كه هر گفته و عملی كه موجب برافروختن آتش اختلاف میان مسلمانان شود و نیز اهانت به مقدّسات هر یك از گروههای مسلمان یا تكفیر یكی از مذاهب اسلامی، خدمت به اردوگاه كفر و شرك و خیانت به اسلام و حرام شرعی است.
شناخت دشمن و شیوههای او نیز دوّمین ركن است. اوّلاً وجود دشمن كینتوز را نباید به دست غفلت و فراموشی سپرد و مراسم چندبارهی رمی جمرات در حج، نشانهی نمادین این حضور ذهن همیشگی است. ثانیاً در شناخت دشمن اصلی كه امروزه همان جبههی استكبار جهانی و شبكهی جنایتكار صهیونیسم است، نباید دچار خطا شد. و ثالثاً شیوههای این دشمن عنود را كه تفرقهافكنی میان مسلمانان، و ترویج فساد سیاسی و اخلاقی، و تهدید و تطمیع نخبگان، و فشار اقتصادی بر ملّتها، و ایجاد تردید در باورهای اسلامی است، باید بخوبی تشخیص داد و وابستگان و ایادیِ دانسته و نادانستهی آنان را از این راه شناسایی كرد.
دولتهای استكباری و پیشاپیش آنان آمریكا، به كمك ابزارهای رسانهای فراگیر و پیشرفته، چهرهی واقعی خود را میپوشانند و با دعوی طرفداری از حقوق بشر و دموكراسی، رفتاری خدعهآمیز در برابر افكار عمومی ملّتها در پیش میگیرند. آنان در حالی دم از حقوق ملّتها میزنند كه ملّتهای مسلمان، هر روز بیشتر از گذشته، آتش فتنههای آنان را با جسم و جان خود لمس میكنند. یك نگاه به ملّت مظلوم فلسطین كه دهها سال است روزانه زخمِ جنایات رژیم صهیونیستی و حامیانش را دریافت میكند؛ یا به كشورهای افغانستان و پاكستان و عراق كه تروریسمِ زاییدهی سیاستهای استكبار و ایادی منطقهای آنان، زندگی را به كام ملّتهای آنان تلخ كرده است؛ یا به سوریّه كه به جرم پشتیبانی از جریان مقاومت ضدّ صهیونیستی، آماج كینهی سلطهگران بینالمللی و كارگزاران منطقهای آنان شده و به جنگ خونین داخلی گرفتار آمده است؛ یا به بحرین یا به میانمار كه در هر یك به نحوی، مسلمانان محنتزده و مغفول، و دشمنانشان مورد حمایتند؛ یا به ملّتهای دیگری كه از سوی آمریكا و متّحدانش، پیدرپی به تهاجم نظامی یا تحریم اقتصادی یا خرابكاری امنیّتی تهدید میشوند؛ میتواند چهرهی واقعی این سردمداران نظام سلطه را به همه نشان دهد. نخبگان سیاسی و فرهنگی و دینی در همه جای جهان اسلام باید خود را به افشای این حقایق، متعهّد بدانند. این وظیفهی اخلاقی و دینی همهی ما است. كشورهای شمال آفریقا كه متأسّفانه امروز در معرض اختلافات عمیق داخلی قرار گرفتهاند، بیش از همه باید به این مسئولیّت عظیم، یعنی شناخت دشمن و شیوهها و ترفندهایش توجّه كنند. ادامهی اختلافات میان جریانهای ملّی و غفلت از خطر جنگ خانگی در این كشورها، خطر بزرگی است كه خسارت آن برای امّت اسلامی به این زودیها جبران نخواهد شد.
ما البتّه تردید نداریم كه ملّتهای بهپاخاستهی آن منطقه كه بیداری اسلامی را تجسّم بخشیدند، بإذنالله اجازه نخواهند داد كه عقربهی زمان به عقب برگردد و دوران زمامداران فاسد و وابسته و دیكتاتور، تكرار شود، لیكن غفلت از نقش قدرتهای استكباری در فتنهانگیزی و دخالتهای ویرانگر، كار آنان را دشوار خواهد كرد و دوران عزّت و امنیّت و رفاه را سالها به عقب خواهد افكند. ما به توانایی ملّتها و قدرتی كه خداوند حكیم در عزم و ایمان و بصیرت تودههای مردم قرار داده است، از اعماق دل باور داریم و آن را در بیش از سه دهه در جمهوری اسلامی ایران، به چشم خود دیده و با همهی وجود خود آزمودهایم؛ همّت ما، فراخوان همهی ملّتهای مسلمان به این تجربهی برادرانشان در این كشور سرافراز و خستگیناپذیر است.
از خداوند متعال صلاح حال مسلمانان و دفع كید دشمنان را خواستارم و حجّ مقبول و سلامت جسم و جان و ذخیرهی سرشار معنوی را برای همهی شما حجّاج بیتالله مسألت میكنم.
والسّلام علیكم و رحمة اللّه
سیّد علی خامنهای
پنجم ذیالحجّه ۱۴۳۴ مصادف با ۱۹ مهرماه ۱۳۹۲
More...
Description:
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند.
متن این پیام كه روز دوشنبه بیست و دوم آبانماه ۱۳۹۲ توسط حجتالاسلام قاضیعسكر -نماينده ولی فقيه و سرپرست حجاج ایرانی- در مراسم برائت از مشركان در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
والحمدللّه ربّ العالمین و الصّلاة والسّلام علی سیّدالانبیاء و المرسلین و علی آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
فرا رسیدن موسم حج را باید عید بزرگ امّت اسلامی به شمار آورد. فرصت مغتنمی كه این روزهای گرانبها در همهی سالها برای مسلمانان جهان پدید میآورد، كیمیای معجزهگری است كه اگر قدر آن شناخته و چنانكه شایسته است به كار گرفته شود، بسیاری از آسیبها و آسیبپذیریهای دنیای اسلام، علاج خواهد شد.
حج، چشمهی جوشان فیض الهی است. یكایك شما حاجیان سعادتمند، اكنون این اقبال بلند را به دست آوردهاید كه در این اعمال و مناسكِ آكنده از صفا و معنویّت، دل و جان را شستشویی بسزا داده، از این منبع رحمت و عزّت و قدرت، ذخیرهای برای همهی عمر خویش بردارید. خشوع و تسلیم در برابر خدای رحیم، تعهّد به وظائفی كه بر دوش مسلمان نهاده شده است، نشاط و حركت و اقدام در كار دین و دنیا، رحم و گذشت در تعامل با برادران، جرأت و اعتماد به نفس در برابر حوادث دشوار، امید به كمك و دستگیری خداوند در همه جا و همه چیز، و كوتاهِ سخن ساخت و پرداخت انسانی در طراز مسلمانی را در این عرصهی الهیِ آموزش و پرورش، میتوانید برای خویش تدارك ببینید و خودِ آراسته به این زیورها و بهرهیافته از این ذخیرهها را برای كشور خویش و ملّت خویش و در نهایت برای امّت اسلامی، سوغات برید.
امّت اسلامی امروز بیش از هر چیز به انسانهایی نیاز دارد كه اندیشه و عمل را در كنار ایمان و صفا و اخلاص، و مقاومت در برابر دشمنان كینهورز را در كنار خودسازی معنوی و روحی، فراهم سازند. این یگانه راه نجات جامعهی بزرگ مسلمانان از گرفتاریهایی است كه یا آشكارا به دست دشمن و یا با سستیِ عزم و ایمان و بصیرت، از زمانهای دور در آنها فروافتاده است.
بیشك دوران كنونی، دوران بیداری و هویّتیابی مسلمانان است؛ این حقیقت را از خلال چالشهایی كه كشورهای مسلمان با آن روبهرو شدهاند نیز بروشنی میتوان دریافت. درست در همین شرایط است كه عزم و ارادهی متّكی به ایمان و توكّل و بصیرت و تدبیر، میتواند ملّتهای مسلمان را در این چالشها به پیروزی و سرافرازی برساند و عزّت و كرامت را در سرنوشت آنان رقم زند. جبههی مقابل كه بیداری و عزّت مسلمانان را بر نمیتابد، با همهی توان به میدان آمده و از همهی ابزارهای امنیّتی، روانی، نظامی، اقتصادی و تبلیغاتی برای انفعال و سركوب مسلمانان و به خود مشغول ساختنِ آنان بهره میگیرد. نگاهی به وضعیّت كشورهای غرب آسیا از پاكستان و افغانستان تا سوریّه و عراق و فلسطین و كشورهای خلیج فارس، و نیز كشورهای شمال آفریقا از لیبی و مصر و تونس تا سودان و برخی كشورهای دیگر، حقایق بسیاری را روشن میسازد. جنگهای داخلی؛ عصبیّتهای كور دینی و مذهبی؛ بیثباتیهای سیاسی؛ رواج تروریسم قساوتآمیز؛ ظهور گروهها و جریانهای افراطگر كه به شیوهی اقوام وحشی تاریخ، سینهی انسانها را میشكافند و قلب آنان را با دندان میدرند؛ مسلّحینی كه كودكان و زنان را میكشند، مردان را سر میبرند و به نوامیس تجاوز میكنند، و حتّی در مواردی این جنایات شرمآور و مشمئزكننده را به نام و زیر پرچم دین مرتكب میشوند؛ همه و همه محصول نقشهی شیطانی و استكباری سرویسهای امنیّتی بیگانگان و عوامل حكومتی همدست آنان در منطقه است كه در زمینههای مستعدّ داخلی كشورها امكان وقوع مییابد و روز ملّتها را سیاه و كام آنان را تلخ میكند. یقیناً در چنین اوضاع و احوالی نمیتوان انتظار داشت كه كشورهای مسلمان، خلأهای مادّی و معنوی خود را ترمیم كنند و به امنیّت و رفاه و پیشرفت علمی و اقتدار بینالمللی كه بركات بیداری و هویّتیابی است، دست یابند. این اوضاع محنتبار، میتواند بیداری اسلامی را عقیم و آمادگیهای روحی پدید آمده در دنیای اسلام را ضایع سازد و بار دیگر، سالهای دراز، ملّتهای مسلمان را به ركود و انزوا و انحطاط بكشاند و مسائل اساسی و مهمّ آنان همچون نجات فلسطین و نجات ملّتهای مسلمان از دستاندازی آمریكا و صهیونیسم را به دست فراموشی بسپارد.
علاج بنیانی و اساسی را میتوان در دو جملهی كلیدی خلاصه كرد كه هر دو از بارزترین درسهای حج است:
اوّل: اتّحاد و برادری مسلمانان در زیر لوای توحید،
و دوّم: شناخت دشمن و مقابله با نقشهها و شیوههای او.
تقویت روح اخوّت و همدلی، درس بزرگ حج است. در اینجا حتّی جدال و درشتگویی با دیگران ممنوع است. پوشش یكسان و اَعمال یكسان و حركات یكسان و رفتار مهربان در اینجا به معنی برابری و برادریِ همهی آن كسانی است كه به این كانون توحید معتقد و دلبستهاند. این ردّ صریح اسلام بر هر فكر و عقیده و دعوتی است كه گروهی از مسلمانان و معتقدان به كعبه و توحید را از دائرهی اسلام بیرون بداند. عناصر تكفیری كه امروز بازیچهی سیاست صهیونیستهای غدّار و حامیان غربی آنان شده و دست به جنایتهای سهمگین میزنند و خون مسلمانان و بیگناهان را میریزند، و كسانی از مدّعیان دینداری و ملبّسین به لباس روحانیّت كه در آتش اختلافات شیعه و سنّی و امثال آن میدمند، بدانند كه نفس مراسم حج، باطلكنندهی مدّعای آنان است. شگفتا! كسانی كه مراسم برائت از مشركان را كه ریشه در عمل پیامبر اعظم صلّیاللّه علیه و آله و سلّم دارد، جدال ممنوع قلمداد میكنند، خود از مؤثّرترین دستاندركاران ایجاد منازعههای خونین میان مسلمانانند. اینجانب همچون بسیاری از علمای اسلام و دلسوزان امّت اسلامی بار دیگر اعلام میكنم كه هر گفته و عملی كه موجب برافروختن آتش اختلاف میان مسلمانان شود و نیز اهانت به مقدّسات هر یك از گروههای مسلمان یا تكفیر یكی از مذاهب اسلامی، خدمت به اردوگاه كفر و شرك و خیانت به اسلام و حرام شرعی است.
شناخت دشمن و شیوههای او نیز دوّمین ركن است. اوّلاً وجود دشمن كینتوز را نباید به دست غفلت و فراموشی سپرد و مراسم چندبارهی رمی جمرات در حج، نشانهی نمادین این حضور ذهن همیشگی است. ثانیاً در شناخت دشمن اصلی كه امروزه همان جبههی استكبار جهانی و شبكهی جنایتكار صهیونیسم است، نباید دچار خطا شد. و ثالثاً شیوههای این دشمن عنود را كه تفرقهافكنی میان مسلمانان، و ترویج فساد سیاسی و اخلاقی، و تهدید و تطمیع نخبگان، و فشار اقتصادی بر ملّتها، و ایجاد تردید در باورهای اسلامی است، باید بخوبی تشخیص داد و وابستگان و ایادیِ دانسته و نادانستهی آنان را از این راه شناسایی كرد.
دولتهای استكباری و پیشاپیش آنان آمریكا، به كمك ابزارهای رسانهای فراگیر و پیشرفته، چهرهی واقعی خود را میپوشانند و با دعوی طرفداری از حقوق بشر و دموكراسی، رفتاری خدعهآمیز در برابر افكار عمومی ملّتها در پیش میگیرند. آنان در حالی دم از حقوق ملّتها میزنند كه ملّتهای مسلمان، هر روز بیشتر از گذشته، آتش فتنههای آنان را با جسم و جان خود لمس میكنند. یك نگاه به ملّت مظلوم فلسطین كه دهها سال است روزانه زخمِ جنایات رژیم صهیونیستی و حامیانش را دریافت میكند؛ یا به كشورهای افغانستان و پاكستان و عراق كه تروریسمِ زاییدهی سیاستهای استكبار و ایادی منطقهای آنان، زندگی را به كام ملّتهای آنان تلخ كرده است؛ یا به سوریّه كه به جرم پشتیبانی از جریان مقاومت ضدّ صهیونیستی، آماج كینهی سلطهگران بینالمللی و كارگزاران منطقهای آنان شده و به جنگ خونین داخلی گرفتار آمده است؛ یا به بحرین یا به میانمار كه در هر یك به نحوی، مسلمانان محنتزده و مغفول، و دشمنانشان مورد حمایتند؛ یا به ملّتهای دیگری كه از سوی آمریكا و متّحدانش، پیدرپی به تهاجم نظامی یا تحریم اقتصادی یا خرابكاری امنیّتی تهدید میشوند؛ میتواند چهرهی واقعی این سردمداران نظام سلطه را به همه نشان دهد. نخبگان سیاسی و فرهنگی و دینی در همه جای جهان اسلام باید خود را به افشای این حقایق، متعهّد بدانند. این وظیفهی اخلاقی و دینی همهی ما است. كشورهای شمال آفریقا كه متأسّفانه امروز در معرض اختلافات عمیق داخلی قرار گرفتهاند، بیش از همه باید به این مسئولیّت عظیم، یعنی شناخت دشمن و شیوهها و ترفندهایش توجّه كنند. ادامهی اختلافات میان جریانهای ملّی و غفلت از خطر جنگ خانگی در این كشورها، خطر بزرگی است كه خسارت آن برای امّت اسلامی به این زودیها جبران نخواهد شد.
ما البتّه تردید نداریم كه ملّتهای بهپاخاستهی آن منطقه كه بیداری اسلامی را تجسّم بخشیدند، بإذنالله اجازه نخواهند داد كه عقربهی زمان به عقب برگردد و دوران زمامداران فاسد و وابسته و دیكتاتور، تكرار شود، لیكن غفلت از نقش قدرتهای استكباری در فتنهانگیزی و دخالتهای ویرانگر، كار آنان را دشوار خواهد كرد و دوران عزّت و امنیّت و رفاه را سالها به عقب خواهد افكند. ما به توانایی ملّتها و قدرتی كه خداوند حكیم در عزم و ایمان و بصیرت تودههای مردم قرار داده است، از اعماق دل باور داریم و آن را در بیش از سه دهه در جمهوری اسلامی ایران، به چشم خود دیده و با همهی وجود خود آزمودهایم؛ همّت ما، فراخوان همهی ملّتهای مسلمان به این تجربهی برادرانشان در این كشور سرافراز و خستگیناپذیر است.
از خداوند متعال صلاح حال مسلمانان و دفع كید دشمنان را خواستارم و حجّ مقبول و سلامت جسم و جان و ذخیرهی سرشار معنوی را برای همهی شما حجّاج بیتالله مسألت میكنم.
والسّلام علیكم و رحمة اللّه
سیّد علی خامنهای
پنجم ذیالحجّه ۱۴۳۴ مصادف با ۱۹ مهرماه ۱۳۹۲
15:35
|
Rehbar - Effort of economy is competent arms of people and responsibles againt enemy bycott - 81811 - Farsi
Rehbar - Effort of economy is competent arms of people and responsibles againt enemy bycott - 81811 - Farsi
جهاد اقتصادی سلاح کارآمد مردم ومسئولان در...
Rehbar - Effort of economy is competent arms of people and responsibles againt enemy bycott - 81811 - Farsi
جهاد اقتصادی سلاح کارآمد مردم ومسئولان در مقابل تحریم دشمن
ساعت خبر: 6:17 - تاريخ خبر: 27/05/1390
فعالان و برگزیدگان بخش خصوصی ، مدیران عرصه های «اقتصادی – صنعتی – کشاورزی – بانکی – فناوری اطلاعات و خدمات» همراه با نمایندگان تشکلهای صنفی، عصر امروز (چهارشنبه) در دیدار با رهبر معظم انقلاب اسلامی به تبادل نظر و بررسی مسائل مختلف اقتصادی پرداختند.
به گزارش واحد مرکزی خبر ، در ابتدای این دیدار که بیش از 3 ساعت طول کشید، 18 نفر از فعالان اقتصادی، دیدگاههای خود را درباره اوضاع اقتصادی کشور بیان کردند.
حضرت آیت الله خامنه ای در این دیدار با تأکید بر تلاش، تدبیر و شتاب بیشتر در تحقق اهداف سند چشم انداز 20 ساله افزودند: دشمن با سلاح ناکارآمد تحریم درصدد زمین زدن ملت ایران و نظام اسلامی است اما این هدف خصمانه، با جهاد اقتصادی مسئولان و مردم ناکام می ماند و ملت بزرگ ایران، با امید سرشار به آینده، به جایگاه شایسته خود دست خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی دیدار با فعالان اقتصادی بخشهای دولتی و خصوصی را در مقطع حساس کنونی، اقدامی نمادین برای نشان دادن اهتمام نظام اسلامی به «مسئله اقتصاد» و «تحرک و پیشرفت اقتصادی» دانستند و تأکید کردند: پیام جلسه امروز، لزوم توجه بیشتر و جدی تر مسئولان و فعالان بخش های اقتصادی، و همچنین آحاد مردم به مسئله اقتصاد است.
حضرت آیت الله خامنه ای، بیان گزارش اوضاع اقتصادی کشور از زبان فعالان بخشهای خصوصی را یکی دیگر از اهداف دیدار امروز برشمردند و افزودند: همانگونه که در سخنان اغلب فعالان مشهود بود با همت مغزهای متفکر، و شخصیتهای علمی و فنی، پیشرفتهای چشمگیری در عرصه های تولید، خدمات، کشاورزی، صنعت و صنایع دانش بنیان به وقوع پیوسته که متأسفانه اغلب مردم از آن مطلع نیستند و باید این افتخارات ملی که متعلق به ملت ایران است، به اطلاع مردم رسانده شوند.
ایشان خاطرنشان کردند: بیان پیشرفتها به معنای نادیده گرفتن نقاط ضعف و کمبودها نیست اما بیان نقاط منفی باید با لحن علاج جویانه و امیدبخش باشد تا واقعیات کشور، وارونه جلوه داده نشود.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: یکی از شگردهای جنگ روانی دشمنان در شرایط کنونی، ناامید کردن مردم بویژه نسل جوان و فعال کشور است، بنابراین همواره باید پیشرفتها و ظرفیتهای شگرف کشور برای اطلاع مردم منعکس شود.
ایشان در بیان علت نامگذاری سال جاری به سال جهاد اقتصادی به هدف جبهه استکبار برای زمین زدن ملت مقاوم ایران و نظام اسلامی از راه اقتصاد اشاره کردند و افزودند: باید با شناخت «اهداف، ابزار و سلاح دشمن» و با جهاد اقتصادی به مقابله با این هدف رفت.
حضرت آیت الله خامنه ای در تبیین ویژگی های جهاد اقتصادی، به «استمرار، همه جانبه گی، هوشمندی و اخلاص» اشاره کردند و افزودند: باید این نکته را درک کرد که جهاد اقتصادی، در واقع حرکتی هدفدار در مقابله با حرکت غرض آلود و خصمانه دشمن است.
رهبر انقلاب اسلامی هدف واقعی تحریم های ایران را فلج کردن اقتصاد کشور خواندند و خاطرنشان کردند: عامل حقیقی این تحریم ها مسئله انرژی هسته ای نیست چرا که روند تحریم ها، 32 سال پیش هنگامی آغاز شد که نامی از مسائل هسته ای در کشور نبود.
حضرت آیت الله خامنه ای با تأکید بر مقابله هوشمندانه ملت ایران و مسئولان کشور با تحریم ها افزودند: اگر تحریم، مؤثر و برای دشمنان کارگشا بود همان سالهای اول انقلاب اهداف مستکبران را محقق می ساخت چه برسد به اکنون که ملت و نظام در مقابل تحریم ها، به تدریج حالت ضدضربه پیدا کرده اند.
ایشان دور زدن تحریم ها و مهمتر از آن روی آوردن به تواناییهای داخلی را از جمله شیوه های موفق ملت و مسئولان در شکست دادن تحریم ها برشمردند و افزودند: مقابله افتخارآمیز نظام اسلامی با تحریمها، همچون تمامی 32 سال اخیر، با موفقیت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب همچنین با تأکید بر لزوم تحقق اهداف سند چشم انداز 20 ساله و دستیابی ایران به رتبه اول کشورهای منطقه در عرصه های مهم و حیاتی افزودند: رقبای منطقه ای در حال کار و تلاش شدید هستند و دستیابی به اهداف سندچشم انداز، نیازمند سرعت بیشتر – تدبیر و حرکت منضبط تر و درواقع نیازمند جهاد اقتصادی است.
حضرت آیت الله خامنه ای دستیابی به رتبه اول منطقه در مسائل مهم و حیاتی را نه یک هوس بلکه یک نیاز واقعی و سرنوشت ساز خواندند و افزودند: در اوضاع کنونی منطقه و جهان، هر کشوری که نتواند از لحاظ اقتصادی علمی و زیرساختها از رشد لازم برخوردار شود بی رحمانه مورد تطاول قرار می گیرد بنابراین باید با استحکام درونی و پیشرفت اقتصادی، اهداف سند چشم انداز را محقق کرد.
رهبر انقلاب ظرفیت های کشور را از لحاظ «منابع، هوش و استعداد انسانی»، منابع طبیعی و موقعیت جغرافیایی، فوق العاده خواندند و افزودند باید این ظرفیتهای درجه یک را بالفعل کرد و رتبه اول منطقه را به دست آورد که این مهم، نیازمند کار و تلاش مضاعف است.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به گذشت 5 سال از آغاز اجرای سند چشم انداز 20 ساله، کارهای انجام شده در برنامه چهارم توسعه را خوب ارزیابی کردند اما افزودند: برخی اهداف آن برنامه از جمله رشد 8 درصدی، کاهش بیکاری، کاهش تورم و افزایش سرمایه گذاری محقق نشده است بنابراین در اجرای برنامه پنجم توسعه، باید همت و تلاش مضاعف انجام داد تا ضمن جبران این کمبودها، سهم برنامه پنجم در تحقق اهداف سند چشم انداز محقق شود.
رهبر انقلاب اسلامی با تأکید بر اینکه در زمینه اجرای سیاستهای کلی اصل 44، کارهای خوبی انجام شده اما کافی نیست، خاطرنشان کردند: براساس سیاستهای ابلاغی اصل 44، باید زمینه یک اقتصاد رقابتی با حضور بخش خصوصی بوجود آید که لازمه چنین کاری، تحرک بیشتر برای اجرای کامل سیاستهای اصل 44 است.
حضرت آیت الله خامنه ای افزودند: هدف از اجرای سیاستهای کلی اصل 44، فقط واگذاری بنگاهها نیست بلکه در کنار واگذاریها باید در زمینه توانمند کردن بخش خصوصی، فراهم کردن امکان مدیریت خوب، و نظارت جدی برای جلوگیری از سوءاستفاده های احتمالی نیز کارهای اساسی انجام شود.
ایشان برخورد قاطعانه و جدی با مفاسد اقتصادی را یکی از زمینه سازیهای مناسب برای تشویق حضور سالم و قانونمند بخش خصوصی دانستند و خاطرنشان کردند: مبارزه با مفاسد اقتصادی بسیار مهم و یک رکن اساسی است.
رهبر انقلاب اسلامی خطاب به مسئولان دولتی تأکید کردند: باید نسبت به بروز و نفوذ کوچکترین فساد اقتصادی در دستگاههای دولتی بشدت حساس باشید و با آن بیرحمانه و بدون هیچ ملاحظه ای برخورد کنید چرا که در غیر این صورت مفاسد اقتصادی همچون بیماری واگیر سریعاً گسترش خواهد یافت.
ایشان اجرای کامل سیاستهای حمایتی از بخش تولید را یکی دیگر از موارد مهم برشمردند و خاطرنشان کردند: تولید، اساس اقتصاد است و باید در چارچوب اجرای قانون هدفمندی یارانه ها، سهم بخش تولید حتماً اختصاص یابد.
رهبر انقلاب اسلامی در همین زمینه افزودند: البته بخش تولید هم در قبال این حمایت وظایفی دارد که از آن جمله، صرفه جویی در مصرف انرژی، افزایش بهره وری، و نوسازی ماشین آلات و تجهیزات است.
حضرت آیت الله خامنه ای افزودند: در کنار اعطای تسهیلات به بخش تولید و حمایت از تولید کنندگان، باید نظارت قوی نیز وجود داشته باشد تا برخی سوءاستفاده کنندگان، از تسهیلات اعطایی برای کارهای دیگر استفاده نکنند.
موضوع واردات و صادرات بخش دیگری از سخنان رهبر انقلاب اسلامی در جمع فعالان اقتصادی بود.
حضرت آیت الله خامنه ای، تنظیم و کنترل واردات را لازم دانستند و خاطرنشان کردند: در هر شرایطی باید ملاحظه تولید داخلی از جمله محصولات کشاورزی را کرد ضمن این که این توجیه که واردات به رقابت پذیری تولید داخلی کمک می کند، دارای منطق قوی نیست.
حضرت ایت الله خامنه ای درخصوص موضوع صادرات، به رشد بسیار خوب صادرات غیرنفتی در سالهای اخیر اشاره کردند و افزودند: انتظار این است که رشد صادرات غیرنفتی به گونه ای پیش رود که بخش صادرات بر واردات، غلبه پیدا کند و بتوانیم خود را از درآمد نفتی بی نیاز کنیم.
ایشان وابستگی به درآمد نفت را یکی از بلیات کشور دانستند و با یادآوری سخنان چند سال قبل خود مبنی بر قطع وابستگی به درآمد نفت تا حدی که امکان بستن درِ چاههای نفت برای هر مدتی امکان پذیر باشد، خاطرنشان کردند: رهایی اقتصاد کشور از درآمدهای نفتی، زمینه ساز اقتدار و پیشرفت عظیم ملت و نظام اسلامی خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: در کنار حمایت دولت از صادرات، صادرکنندگان نیز باید کیفیت، بسته بندی، تنوع، استحکام و زیبایی محصولات و تولیدات خود را ارتقاء دهند و آنها را در موعد مقرر به دست مشتری و خریدار برسانند.
حضرت آیت الله خامنه ای تأکید کردند: لازمه تحقق این موارد، نیازمند فرهنگ حُسن عمل در تولیدات است.
ایشان یکی دیگر از موارد ضروری در اقتصاد کشور را تدوین برنامه ای جامع برای رشد بخش تعاون دانستند و با اشاره به موضوع مهم لزوم دسترسی یکسان به اطلاعات اقتصادی، افزودند: همه فعالان بخش خصوصی باید به طور یکسان و بدون تبعیض از فرصتهای سرمایه گذاری مطلع باشند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأکید بر لزوم پیگیری جدی تر موضوع شفاف سازی اطلاعات، خاطرنشان کردند: محدود بودن دسترسی اطلاعات برای برخی افراد خاص، زمینه ساز ویژه خواریهای عجیبی می شود که برای مقابله با آن، باید دسترسی به اطلاعات، عمومی شود.
حضرت آیت الله خامنه ای در جمع بندی مطالب مطرح شده در دیدار فعالان اقتصادی بخش دولتی و خصوصی، اظهار امیدواری کردند: دیدار امروز زمینه ساز انگیزه بیشتر و فعالیت هوشمندانه، هدفدار و مضاعف همه علاقه مندان به ملت، کشور و نظام شود.
ایشان با تأکید بر لزوم توجه به همت مضاعف و کار مضاعف در کنار جهاد اقتصادی، افزودند: آینده کشور، آینده خوبی است و سابقه تاریخی، میراث فرهنگی، تواناییهای مردمی و ظرفیت های طبیعی ایران، همه مؤید این است که ایران می تواند با کار و تلاش بی وقفه و خستگی ناپذیر مسئولان و مردم به جایگاه والا و شایسته برسد.
در آغاز این دیدار آقایان و خانمها
- اسدالله عسگراولادی – فعال اقتصادی و صادرکننده
- سیدمحمد اتابکی – رئیس انجمن صنفی تولید کنندگان سیمان
- هاشم نامور – مدیرعامل پالایشگاه نفت بندرعباس
- قاسم نوده فراهانی – رئیس شورای اصناف کشور
- مجید قاسمی – مدیرعامل بانک پاسارگاد
- مجتبی شادلو – رئیس هیأت مدیره اتحادیه باغداران ایران
- حسین قالیباف اصل – مدیرعامل شرکت بورس
- لیلا لاریجانی – مدیرعامل شرکت گسترش انفورماتیک
- محمدرضا جبارزارع – مدیرعامل گروه همگام
- حمیدرضا جمشیدی – رئیس هیأت مدیره شرکت البرز دارو
- ایرج رهبر – رئیس کانون سراسری انبوه سازان کشور
- محمد آرام بنیار – مدیرعامل شرکت تأمین سرمایه امین
- ابوالحسن خلیلی – مدیرعامل اتحادیه تعاونی های دانه های روغنی
- غلامرضا حبیبی – مدیرعامل مؤسسه توسعه دانش، پژوهش و فناوری فرزان
- احمدحسن جزنی – نماینده تولیدکنندگان و صادرکنندگان آبزیان
- عطاءالله آیت اللهی – دبیر شورای رسته آب جامعه مهندسان مشاور ایران
- پرویز رحمتی – رئیس سازمان نظام صنفی رایانه ای کشور
- و احمد توکلی – نماینده مجلس شورای اسلامی
به تشریح دیدگاهها، انتقادها و پیشنهادهای خود در زمینه های مختلف اقتصادی پرداختند.
سخنان فعالان اقتصادی در این دیدار عبارت است از:
- هدفگذاری بخش خصوصی برای پیشی گرفتن صادرات غیر نفتی از واردات در پنج سال آینده
- ضرورت توجه بیشتر دولت به دیدگاهها و مشورتهای بخش خصوصی
- ناکارآمدی تحریم ها با توجه به افزایش 25 درصدی صادرات در چهار ماهه اول امسال در مقایسه با مدت مشابه سال قبل
- افزایش بی سابقه تولید سیمان به عنوان یکی از شاخص های عمران و آبادانی کشور
- توجه بیشتر به زیرساختهای صنعتی برای شتاب یافتن روند توسعه
- کاهش کارمزد تسهیلات بانکی ویژه صنایع
- ضرورت توجه به توانایی و ظرفیت اصناف در اجرای سیاستهای اصل 44
- کمک بیشتر دولت به واحدهای تولیدی – صنعتی و کشاورزی
- نگاه تقویت کننده بخش دولتی به بخش خصوصی
- ایجاد زمینه لازم برای رقابت سالم و قانونمند بانکهای خصوصی و دولتی
- مدیریت فشارهای ناشی از هدفمند کردن یارانه ها به بخش کشاورزی
- انتقاد از تعدد مراجع تصمیم گیری درباره مسائل کشاورزی
- پیشنهاد تشکیل شورایعالی فناوری اطلاعات
- لزوم حمایت بیشتر دولت از سرمایه گذاری در فناوریهای نوین
- افزایش ارزش بازار سرمایه به 118 هزار میلیارد تومان در سالجاری
- توجه به ظرفیت اقتصادی شرکتهای دانش بنیان
- پرهیز از تصمیم گیریهای لحظه ای در تعیین تعرفه های اقتصادی
- استفاده از ابزارهای جدید مالی برای استحکام بیشتر زیرساختهای اقتصادی کشور
- تأثیر منفی افزایش قیمت مواد اولیه بر روند تولید
- ضرورت اهتمام بیشتر به بخش تعاونی
- انتقاد از واردات بی رویه، بخصوص محصولات کشاورزی
- ظرفیت بی بدیل کشور برای خوداتکایی کشاورزی
- سرمایه گذاری و اتخاذ تدابیر ویژه برای حل مشکل راندمان پایین آب در بخش کشاورزی و مصارف خانگی
- راه اندازی نهضت کاهش قیمت تمام شده کالاها و خدمات
- توجه به ظرفیت فناوری اطلاعات و ارتباطات در تولید ثروت ملی، اشتغالزایی و ارتقای بهره وری
- و اهمیت مراکز خرد اقتصادی به موازات بنگاههای بزرگ اقتصادی
More...
Description:
Rehbar - Effort of economy is competent arms of people and responsibles againt enemy bycott - 81811 - Farsi
جهاد اقتصادی سلاح کارآمد مردم ومسئولان در مقابل تحریم دشمن
ساعت خبر: 6:17 - تاريخ خبر: 27/05/1390
فعالان و برگزیدگان بخش خصوصی ، مدیران عرصه های «اقتصادی – صنعتی – کشاورزی – بانکی – فناوری اطلاعات و خدمات» همراه با نمایندگان تشکلهای صنفی، عصر امروز (چهارشنبه) در دیدار با رهبر معظم انقلاب اسلامی به تبادل نظر و بررسی مسائل مختلف اقتصادی پرداختند.
به گزارش واحد مرکزی خبر ، در ابتدای این دیدار که بیش از 3 ساعت طول کشید، 18 نفر از فعالان اقتصادی، دیدگاههای خود را درباره اوضاع اقتصادی کشور بیان کردند.
حضرت آیت الله خامنه ای در این دیدار با تأکید بر تلاش، تدبیر و شتاب بیشتر در تحقق اهداف سند چشم انداز 20 ساله افزودند: دشمن با سلاح ناکارآمد تحریم درصدد زمین زدن ملت ایران و نظام اسلامی است اما این هدف خصمانه، با جهاد اقتصادی مسئولان و مردم ناکام می ماند و ملت بزرگ ایران، با امید سرشار به آینده، به جایگاه شایسته خود دست خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی دیدار با فعالان اقتصادی بخشهای دولتی و خصوصی را در مقطع حساس کنونی، اقدامی نمادین برای نشان دادن اهتمام نظام اسلامی به «مسئله اقتصاد» و «تحرک و پیشرفت اقتصادی» دانستند و تأکید کردند: پیام جلسه امروز، لزوم توجه بیشتر و جدی تر مسئولان و فعالان بخش های اقتصادی، و همچنین آحاد مردم به مسئله اقتصاد است.
حضرت آیت الله خامنه ای، بیان گزارش اوضاع اقتصادی کشور از زبان فعالان بخشهای خصوصی را یکی دیگر از اهداف دیدار امروز برشمردند و افزودند: همانگونه که در سخنان اغلب فعالان مشهود بود با همت مغزهای متفکر، و شخصیتهای علمی و فنی، پیشرفتهای چشمگیری در عرصه های تولید، خدمات، کشاورزی، صنعت و صنایع دانش بنیان به وقوع پیوسته که متأسفانه اغلب مردم از آن مطلع نیستند و باید این افتخارات ملی که متعلق به ملت ایران است، به اطلاع مردم رسانده شوند.
ایشان خاطرنشان کردند: بیان پیشرفتها به معنای نادیده گرفتن نقاط ضعف و کمبودها نیست اما بیان نقاط منفی باید با لحن علاج جویانه و امیدبخش باشد تا واقعیات کشور، وارونه جلوه داده نشود.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: یکی از شگردهای جنگ روانی دشمنان در شرایط کنونی، ناامید کردن مردم بویژه نسل جوان و فعال کشور است، بنابراین همواره باید پیشرفتها و ظرفیتهای شگرف کشور برای اطلاع مردم منعکس شود.
ایشان در بیان علت نامگذاری سال جاری به سال جهاد اقتصادی به هدف جبهه استکبار برای زمین زدن ملت مقاوم ایران و نظام اسلامی از راه اقتصاد اشاره کردند و افزودند: باید با شناخت «اهداف، ابزار و سلاح دشمن» و با جهاد اقتصادی به مقابله با این هدف رفت.
حضرت آیت الله خامنه ای در تبیین ویژگی های جهاد اقتصادی، به «استمرار، همه جانبه گی، هوشمندی و اخلاص» اشاره کردند و افزودند: باید این نکته را درک کرد که جهاد اقتصادی، در واقع حرکتی هدفدار در مقابله با حرکت غرض آلود و خصمانه دشمن است.
رهبر انقلاب اسلامی هدف واقعی تحریم های ایران را فلج کردن اقتصاد کشور خواندند و خاطرنشان کردند: عامل حقیقی این تحریم ها مسئله انرژی هسته ای نیست چرا که روند تحریم ها، 32 سال پیش هنگامی آغاز شد که نامی از مسائل هسته ای در کشور نبود.
حضرت آیت الله خامنه ای با تأکید بر مقابله هوشمندانه ملت ایران و مسئولان کشور با تحریم ها افزودند: اگر تحریم، مؤثر و برای دشمنان کارگشا بود همان سالهای اول انقلاب اهداف مستکبران را محقق می ساخت چه برسد به اکنون که ملت و نظام در مقابل تحریم ها، به تدریج حالت ضدضربه پیدا کرده اند.
ایشان دور زدن تحریم ها و مهمتر از آن روی آوردن به تواناییهای داخلی را از جمله شیوه های موفق ملت و مسئولان در شکست دادن تحریم ها برشمردند و افزودند: مقابله افتخارآمیز نظام اسلامی با تحریمها، همچون تمامی 32 سال اخیر، با موفقیت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب همچنین با تأکید بر لزوم تحقق اهداف سند چشم انداز 20 ساله و دستیابی ایران به رتبه اول کشورهای منطقه در عرصه های مهم و حیاتی افزودند: رقبای منطقه ای در حال کار و تلاش شدید هستند و دستیابی به اهداف سندچشم انداز، نیازمند سرعت بیشتر – تدبیر و حرکت منضبط تر و درواقع نیازمند جهاد اقتصادی است.
حضرت آیت الله خامنه ای دستیابی به رتبه اول منطقه در مسائل مهم و حیاتی را نه یک هوس بلکه یک نیاز واقعی و سرنوشت ساز خواندند و افزودند: در اوضاع کنونی منطقه و جهان، هر کشوری که نتواند از لحاظ اقتصادی علمی و زیرساختها از رشد لازم برخوردار شود بی رحمانه مورد تطاول قرار می گیرد بنابراین باید با استحکام درونی و پیشرفت اقتصادی، اهداف سند چشم انداز را محقق کرد.
رهبر انقلاب ظرفیت های کشور را از لحاظ «منابع، هوش و استعداد انسانی»، منابع طبیعی و موقعیت جغرافیایی، فوق العاده خواندند و افزودند باید این ظرفیتهای درجه یک را بالفعل کرد و رتبه اول منطقه را به دست آورد که این مهم، نیازمند کار و تلاش مضاعف است.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به گذشت 5 سال از آغاز اجرای سند چشم انداز 20 ساله، کارهای انجام شده در برنامه چهارم توسعه را خوب ارزیابی کردند اما افزودند: برخی اهداف آن برنامه از جمله رشد 8 درصدی، کاهش بیکاری، کاهش تورم و افزایش سرمایه گذاری محقق نشده است بنابراین در اجرای برنامه پنجم توسعه، باید همت و تلاش مضاعف انجام داد تا ضمن جبران این کمبودها، سهم برنامه پنجم در تحقق اهداف سند چشم انداز محقق شود.
رهبر انقلاب اسلامی با تأکید بر اینکه در زمینه اجرای سیاستهای کلی اصل 44، کارهای خوبی انجام شده اما کافی نیست، خاطرنشان کردند: براساس سیاستهای ابلاغی اصل 44، باید زمینه یک اقتصاد رقابتی با حضور بخش خصوصی بوجود آید که لازمه چنین کاری، تحرک بیشتر برای اجرای کامل سیاستهای اصل 44 است.
حضرت آیت الله خامنه ای افزودند: هدف از اجرای سیاستهای کلی اصل 44، فقط واگذاری بنگاهها نیست بلکه در کنار واگذاریها باید در زمینه توانمند کردن بخش خصوصی، فراهم کردن امکان مدیریت خوب، و نظارت جدی برای جلوگیری از سوءاستفاده های احتمالی نیز کارهای اساسی انجام شود.
ایشان برخورد قاطعانه و جدی با مفاسد اقتصادی را یکی از زمینه سازیهای مناسب برای تشویق حضور سالم و قانونمند بخش خصوصی دانستند و خاطرنشان کردند: مبارزه با مفاسد اقتصادی بسیار مهم و یک رکن اساسی است.
رهبر انقلاب اسلامی خطاب به مسئولان دولتی تأکید کردند: باید نسبت به بروز و نفوذ کوچکترین فساد اقتصادی در دستگاههای دولتی بشدت حساس باشید و با آن بیرحمانه و بدون هیچ ملاحظه ای برخورد کنید چرا که در غیر این صورت مفاسد اقتصادی همچون بیماری واگیر سریعاً گسترش خواهد یافت.
ایشان اجرای کامل سیاستهای حمایتی از بخش تولید را یکی دیگر از موارد مهم برشمردند و خاطرنشان کردند: تولید، اساس اقتصاد است و باید در چارچوب اجرای قانون هدفمندی یارانه ها، سهم بخش تولید حتماً اختصاص یابد.
رهبر انقلاب اسلامی در همین زمینه افزودند: البته بخش تولید هم در قبال این حمایت وظایفی دارد که از آن جمله، صرفه جویی در مصرف انرژی، افزایش بهره وری، و نوسازی ماشین آلات و تجهیزات است.
حضرت آیت الله خامنه ای افزودند: در کنار اعطای تسهیلات به بخش تولید و حمایت از تولید کنندگان، باید نظارت قوی نیز وجود داشته باشد تا برخی سوءاستفاده کنندگان، از تسهیلات اعطایی برای کارهای دیگر استفاده نکنند.
موضوع واردات و صادرات بخش دیگری از سخنان رهبر انقلاب اسلامی در جمع فعالان اقتصادی بود.
حضرت آیت الله خامنه ای، تنظیم و کنترل واردات را لازم دانستند و خاطرنشان کردند: در هر شرایطی باید ملاحظه تولید داخلی از جمله محصولات کشاورزی را کرد ضمن این که این توجیه که واردات به رقابت پذیری تولید داخلی کمک می کند، دارای منطق قوی نیست.
حضرت ایت الله خامنه ای درخصوص موضوع صادرات، به رشد بسیار خوب صادرات غیرنفتی در سالهای اخیر اشاره کردند و افزودند: انتظار این است که رشد صادرات غیرنفتی به گونه ای پیش رود که بخش صادرات بر واردات، غلبه پیدا کند و بتوانیم خود را از درآمد نفتی بی نیاز کنیم.
ایشان وابستگی به درآمد نفت را یکی از بلیات کشور دانستند و با یادآوری سخنان چند سال قبل خود مبنی بر قطع وابستگی به درآمد نفت تا حدی که امکان بستن درِ چاههای نفت برای هر مدتی امکان پذیر باشد، خاطرنشان کردند: رهایی اقتصاد کشور از درآمدهای نفتی، زمینه ساز اقتدار و پیشرفت عظیم ملت و نظام اسلامی خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: در کنار حمایت دولت از صادرات، صادرکنندگان نیز باید کیفیت، بسته بندی، تنوع، استحکام و زیبایی محصولات و تولیدات خود را ارتقاء دهند و آنها را در موعد مقرر به دست مشتری و خریدار برسانند.
حضرت آیت الله خامنه ای تأکید کردند: لازمه تحقق این موارد، نیازمند فرهنگ حُسن عمل در تولیدات است.
ایشان یکی دیگر از موارد ضروری در اقتصاد کشور را تدوین برنامه ای جامع برای رشد بخش تعاون دانستند و با اشاره به موضوع مهم لزوم دسترسی یکسان به اطلاعات اقتصادی، افزودند: همه فعالان بخش خصوصی باید به طور یکسان و بدون تبعیض از فرصتهای سرمایه گذاری مطلع باشند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأکید بر لزوم پیگیری جدی تر موضوع شفاف سازی اطلاعات، خاطرنشان کردند: محدود بودن دسترسی اطلاعات برای برخی افراد خاص، زمینه ساز ویژه خواریهای عجیبی می شود که برای مقابله با آن، باید دسترسی به اطلاعات، عمومی شود.
حضرت آیت الله خامنه ای در جمع بندی مطالب مطرح شده در دیدار فعالان اقتصادی بخش دولتی و خصوصی، اظهار امیدواری کردند: دیدار امروز زمینه ساز انگیزه بیشتر و فعالیت هوشمندانه، هدفدار و مضاعف همه علاقه مندان به ملت، کشور و نظام شود.
ایشان با تأکید بر لزوم توجه به همت مضاعف و کار مضاعف در کنار جهاد اقتصادی، افزودند: آینده کشور، آینده خوبی است و سابقه تاریخی، میراث فرهنگی، تواناییهای مردمی و ظرفیت های طبیعی ایران، همه مؤید این است که ایران می تواند با کار و تلاش بی وقفه و خستگی ناپذیر مسئولان و مردم به جایگاه والا و شایسته برسد.
در آغاز این دیدار آقایان و خانمها
- اسدالله عسگراولادی – فعال اقتصادی و صادرکننده
- سیدمحمد اتابکی – رئیس انجمن صنفی تولید کنندگان سیمان
- هاشم نامور – مدیرعامل پالایشگاه نفت بندرعباس
- قاسم نوده فراهانی – رئیس شورای اصناف کشور
- مجید قاسمی – مدیرعامل بانک پاسارگاد
- مجتبی شادلو – رئیس هیأت مدیره اتحادیه باغداران ایران
- حسین قالیباف اصل – مدیرعامل شرکت بورس
- لیلا لاریجانی – مدیرعامل شرکت گسترش انفورماتیک
- محمدرضا جبارزارع – مدیرعامل گروه همگام
- حمیدرضا جمشیدی – رئیس هیأت مدیره شرکت البرز دارو
- ایرج رهبر – رئیس کانون سراسری انبوه سازان کشور
- محمد آرام بنیار – مدیرعامل شرکت تأمین سرمایه امین
- ابوالحسن خلیلی – مدیرعامل اتحادیه تعاونی های دانه های روغنی
- غلامرضا حبیبی – مدیرعامل مؤسسه توسعه دانش، پژوهش و فناوری فرزان
- احمدحسن جزنی – نماینده تولیدکنندگان و صادرکنندگان آبزیان
- عطاءالله آیت اللهی – دبیر شورای رسته آب جامعه مهندسان مشاور ایران
- پرویز رحمتی – رئیس سازمان نظام صنفی رایانه ای کشور
- و احمد توکلی – نماینده مجلس شورای اسلامی
به تشریح دیدگاهها، انتقادها و پیشنهادهای خود در زمینه های مختلف اقتصادی پرداختند.
سخنان فعالان اقتصادی در این دیدار عبارت است از:
- هدفگذاری بخش خصوصی برای پیشی گرفتن صادرات غیر نفتی از واردات در پنج سال آینده
- ضرورت توجه بیشتر دولت به دیدگاهها و مشورتهای بخش خصوصی
- ناکارآمدی تحریم ها با توجه به افزایش 25 درصدی صادرات در چهار ماهه اول امسال در مقایسه با مدت مشابه سال قبل
- افزایش بی سابقه تولید سیمان به عنوان یکی از شاخص های عمران و آبادانی کشور
- توجه بیشتر به زیرساختهای صنعتی برای شتاب یافتن روند توسعه
- کاهش کارمزد تسهیلات بانکی ویژه صنایع
- ضرورت توجه به توانایی و ظرفیت اصناف در اجرای سیاستهای اصل 44
- کمک بیشتر دولت به واحدهای تولیدی – صنعتی و کشاورزی
- نگاه تقویت کننده بخش دولتی به بخش خصوصی
- ایجاد زمینه لازم برای رقابت سالم و قانونمند بانکهای خصوصی و دولتی
- مدیریت فشارهای ناشی از هدفمند کردن یارانه ها به بخش کشاورزی
- انتقاد از تعدد مراجع تصمیم گیری درباره مسائل کشاورزی
- پیشنهاد تشکیل شورایعالی فناوری اطلاعات
- لزوم حمایت بیشتر دولت از سرمایه گذاری در فناوریهای نوین
- افزایش ارزش بازار سرمایه به 118 هزار میلیارد تومان در سالجاری
- توجه به ظرفیت اقتصادی شرکتهای دانش بنیان
- پرهیز از تصمیم گیریهای لحظه ای در تعیین تعرفه های اقتصادی
- استفاده از ابزارهای جدید مالی برای استحکام بیشتر زیرساختهای اقتصادی کشور
- تأثیر منفی افزایش قیمت مواد اولیه بر روند تولید
- ضرورت اهتمام بیشتر به بخش تعاونی
- انتقاد از واردات بی رویه، بخصوص محصولات کشاورزی
- ظرفیت بی بدیل کشور برای خوداتکایی کشاورزی
- سرمایه گذاری و اتخاذ تدابیر ویژه برای حل مشکل راندمان پایین آب در بخش کشاورزی و مصارف خانگی
- راه اندازی نهضت کاهش قیمت تمام شده کالاها و خدمات
- توجه به ظرفیت فناوری اطلاعات و ارتباطات در تولید ثروت ملی، اشتغالزایی و ارتقای بهره وری
- و اهمیت مراکز خرد اقتصادی به موازات بنگاههای بزرگ اقتصادی
4:33
|
حقیقی جنگ، عالمی استکبار کے ساتھ ہے! | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے دستور کے مطابق بسیج کی تشکیل ہوئی جسے...
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے دستور کے مطابق بسیج کی تشکیل ہوئی جسے امام خمینی نے خدا کے مخلص لشکر کے نام سے یاد کیا، جس نے ہر میدان میں اسلامی اقدار اور انقلاب اسلامی کی پاسداری میں اہم کردار ادا کیا ہے، بسیج نے اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے، لیکن اسکا اصل مقابلہ داخلی سطح پر بعض شر پسند عناصر کے ذریعے ہونے والی شورشوں سے نہیں اگرچہ انکا علاج بھی اپنی جگہ ضروری ہے تاہم بسیجیوں کا اصل مقابلہ عالمی استکبار سے ہے لیکن عالمی استکبار، داخلی سطح پر شورشوں کو ہوا دیکر بسیج کی توجہ اندرونی معاملات کی جانب موڑنے کے ساتھ داخلی مسائل میں الجھاکر کمزور کرنا چاہتا ہے۔
چنانچہ ولی امر مسلیمن سید علی خامنہ ای نے اسی اہم نکتے کی جانب اس ویڈیو میں اشارہ کیا ہے جسے ہر بسیجی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مزید برآن ولی امر مسلمین نے دشمن کے اور کونسے منصوبوں کی جانب اشارہ کیا ہے جو عملی صورت اختیار کرنے کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران پر با آسانی حملہ کیا جا سکتا تھا؟ چنانچہ اسی بات کی تفصیل جاننے کیلئے رھبر معظم کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #بسیج #مقابلہ #جنگ #ایٹمی_مذاکرات #ہنگامہ #علاج #ڈرون #میدان #منصوبے #غافل
More...
Description:
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے دستور کے مطابق بسیج کی تشکیل ہوئی جسے امام خمینی نے خدا کے مخلص لشکر کے نام سے یاد کیا، جس نے ہر میدان میں اسلامی اقدار اور انقلاب اسلامی کی پاسداری میں اہم کردار ادا کیا ہے، بسیج نے اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے، لیکن اسکا اصل مقابلہ داخلی سطح پر بعض شر پسند عناصر کے ذریعے ہونے والی شورشوں سے نہیں اگرچہ انکا علاج بھی اپنی جگہ ضروری ہے تاہم بسیجیوں کا اصل مقابلہ عالمی استکبار سے ہے لیکن عالمی استکبار، داخلی سطح پر شورشوں کو ہوا دیکر بسیج کی توجہ اندرونی معاملات کی جانب موڑنے کے ساتھ داخلی مسائل میں الجھاکر کمزور کرنا چاہتا ہے۔
چنانچہ ولی امر مسلیمن سید علی خامنہ ای نے اسی اہم نکتے کی جانب اس ویڈیو میں اشارہ کیا ہے جسے ہر بسیجی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مزید برآن ولی امر مسلمین نے دشمن کے اور کونسے منصوبوں کی جانب اشارہ کیا ہے جو عملی صورت اختیار کرنے کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران پر با آسانی حملہ کیا جا سکتا تھا؟ چنانچہ اسی بات کی تفصیل جاننے کیلئے رھبر معظم کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #بسیج #مقابلہ #جنگ #ایٹمی_مذاکرات #ہنگامہ #علاج #ڈرون #میدان #منصوبے #غافل
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khamenei,
jang,
mozakerat,
droun,
video,
medan,
mansouba,
ghafel,
haqiqi
jang,
america,
estekbar,
imam
sayyid
ali
khamenei,
28:43
|
30Jun11 ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Farsi
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت...
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار مسئولان نظام و قشرهای مختلف مردم، با تبریك عید شریف مبعث به ملت ایران و امت اسلامی، بعثت پیامبر اكرم (ص) را بزرگترین نعمت الهی و برترین و پربركت ترین روزهای سال خواندند و تأكید كردند: بیداری اسلامی ملتهای منطقه، حركتی در مسیر نبوی است و ملتهای مسلمان و ملت بزرگ ایران، با هوشیاری اجازه نخواهند داد امریكایی ها و صهیونیستها، با ایجاد اختلاف و حیله های دیگر، این حركت عظیم را منحرف و یا بر آن موج سواری كنند.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به «آثار تعیین كننده، بسیار عمیق و پیش برنده» دوران 23 ساله بعثت پیامبر خاتم (ص) در تاریخ و سرنوشت بشریت افزودند: نبی مكرم اسلام (ص) در همین دوران كوتاه كه فقط 10 سال آن به ایجاد نظام اسلامی اختصاص داشت، جامعه ای بر پایه های ایمان، عقلانیت، مجاهدت و عزت بنا كردند كه تمدنهای امروز بشری نیز، مدیون تمدن اسلامیِ شكل گرفته برچنین پایه هایی است.
ایشان، مشكلات و دردهای دیروز و امروز امت اسلامی را ناشی از ناسپاسی نعمت عظیم بعثت دانستند و خاطرنشان كردند: اگر ملتهای مسلمان، ایمان را در دل و عمل تقویت كنند، از عقلانیت و خرد انسانی به عنوان هدیه بزرگ الهی بهره گیرند، جهاد فی سبیل الله را در میدانهای نظامی،سیاسی، اقتصادی و فرهنگی دنبال كنند و احساس عزت و كرامت انسانی را مغتنم بشمارند یقیناً به جایگاه شایسته خود دست می یابند.
حضرت آیت الله خامنه ای، حوادث جاری در برخی كشورهای شمال افریقا و خاورمیانه را، نشان دهنده توجه ملتهای مسلمان به نعمت سعادت بخش اسلام خواندند و افزودند: بیداری عظیم اسلامی در مصر و تونس و دیگر كشورها نشان می دهد موازنه ظالمانه و تحقیركننده ای كه غربی های سلطه گر و حكام وابسته، در 150 سال اخیر بر ملتهای منطقه تحمیل كرده بودند به هم خورده و فصل جدیدی در تاریخ منطقه آغاز شده است.
رهبر انقلاب اسلامی، آینده تحولات منطقه را به فضل الهی، روشن دانستند و با اشاره به لجاجت و «جان سختی» قدرتهای مستكبر برای انكار و مخفی كردن جنبه اسلامی این تحولات افزودند: امریكایی ها، صهیونیستها و مزدوران و همراهان آنها در منطقه، همه امكانات خود را به كار گرفته اند تا حركت عظیم ملتها را منحرف كنند و با روی كار آوردن عناصر وابسته، معادلات ظالمانه گذشته را دوباره حاكم سازند اما وقتی ملتی بیدار شد و جان بر كف به میدان آمد نمی توان او را شكست داد.
ایشان با اشاره به لزوم بیداری، هوشیاری و بصیرت ملتها و نخبگان جهان اسلام در مقابل تلاشها و طرحهای پیچیده امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی افزودند: البته تحركات سلطه گران، دردسرهایی را برای ملتهای بیدار شده به همراه خواهد آورد اما به بركت هوشیاری و مراقبت مردم و نخبگان امت اسلامی، مسیر روشنی كه در منطقه آغاز شده، انشاءالله با قوت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی، در همین زمینه با یادآوری توطئه های گوناگون دشمنان اسلام در قبال پیروزی انقلاب اسلامی خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف، نفوذ، ترور، «درگیریهای قومی مذهبی»، فتنه انگیزی و تحریك دشمن خارجی به حمله به ایران از جمله تحركات ناكام مستكبران برای تضعیف حركت عظیم ملت ایران بوده است كه همین توطئه ها یا نظائر آنها در قبال ملتهای بیدار شده منطقه نیز طراحی و اجرا خواهد شد.
ایشان در تشریح راههای اصولی مقابله با اینگونه توطئه ها، پرهیز ملتها و نخبگان جهان اسلام از مباحث بیهوده و كم اهمیت، بی توجهی به «اختلافات مذهبی، قومی و سلیقه ای» و درك عظمت تاریخی قیام ملتهای مسلمان را مورد تأكید قرار دادند.
حضرت آیت الله خامنه ای، با اشاره به حمایتهای همیشگی ملت ایران و نظام اسلامی از هر حركت عدالت طلبانه و ضد استكباری افزودند: هرجا حركتی علیه امریكا و صهیونیسم روی دهد و هر ملتی كه بر ضد دیكتاتوری بین المللی امریكا و دیكتاتورهای داخلی قیام كند با حمایت ملت فهیم ایران روبرو خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی، شبیه سازی را یكی از طرحهای پیچیده امریكا خواندند و با اشاره به حوادث سوریه افزودند: امریكایی ها با تلاش برای شبیه سازی حوادث مصر، تونس، یمن و لیبی، در سوریه، سعی می كنند این كشور را كه در خط مقاومت قرار دارد دچار مشكل كنند اما ماهیت حوادث سوریه با ماهیت حوادث دیگر كشورهای منطقه متفاوت است.
ایشان افزودند: جوهره بیداری اسلامی در كشورهای منطقه، حركت ضدصهیونیستی و ضد امریكایی است اما در حوادث سوریه، دست امریكا و اسرائیل آشكار است و «منطق و معیار ما ملت ایران» این است كه هرجا به نفع امریكا و صهیونیسم شعار داده شود حركت، انحرافی است.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: البته پایداری ملت ایران و نظام اسلامی بر این منطق و معیار دشمنان نظام را خشمگین می كند و بر توطئه های آنان می افزاید اما ملت آب دیده و مقاوم ایران، در مواضع خود سستی نخواهد كرد.
ایشان با اشاره به مظلومیت ملت بحرین افزودند: حركت مردم بحرین، ماهیتاً شبیه حركت ملت مصر و تونس و یمن است و تفكیك میان این تحركات مشابه، معنا ندارد اما متأسفانه برخی به جای توجه به حرف دل ملتها، همان راهی را می روند كه دشمنان اسلام می خواهند.
حضرت آیت الله خامنه ای در پایان سخنانشان با یادآوری كار و تلاش گسترده و پرامید دستگاههای گوناگون در سراسر كشور، موضوع ادغام وزارتخانه ها و كوچك كردن دولت را، بسیار مهم برشمردند و با اشاره به همكاری متقابل دولت و مجلس در این مسئله افزودند: اینگونه كارها باید با جدیت دنبال شود.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به طمع ورزیهای دشمنان به برخی مسائل و حوادث داخلی تأكید كردند: ملت ایران با ایستادگی، اعتماد و امید بی پایان به كمك پروردگار و مسئولان كشور با همكاری و وحدت كلمه، بار دیگر امید دشمنان را به یأس و نومیدی تبدیل خواهند كرد.
در آغاز این دیدار كه سفیران كشورهای اسلامی نیز حضور داشتند، رئیس جمهور، پیامبر خاتم را بزرگترین هدیه پروردگار به بشریت خواند و افزود: بعثت بزرگترین حادثه تاریخ است كه می تواند بشر را در گذر از مسیر نورانی كلمه توحید، به حیات طیبه و سعادت حقیقی برساند.
آقای احمدی نژاد جهل و غفلت بشر و ظلم و بی عدالتی طاغوتها را موانع اصلی بهره گیری كامل جوامع بشری از پیام حیات بخش بعثت پیامبر اعظم خواند و افزود: شیطان بزرگ امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی با سركوب ملتها، جامعه بشری را از حركت در صراط مستقیم الهی باز می دارند.
رئیس جمهور، بشر امروز را بیش از هر زمان دیگر نیازمند پیام بعثت خواند و افزودند: ظهور بقیه الله الاعظم (عج) تكمیل كننده حادثه تاریخی بعثت و نوید سعادت حقیقی بشر خواهد بود.
More...
Description:
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار مسئولان نظام و قشرهای مختلف مردم، با تبریك عید شریف مبعث به ملت ایران و امت اسلامی، بعثت پیامبر اكرم (ص) را بزرگترین نعمت الهی و برترین و پربركت ترین روزهای سال خواندند و تأكید كردند: بیداری اسلامی ملتهای منطقه، حركتی در مسیر نبوی است و ملتهای مسلمان و ملت بزرگ ایران، با هوشیاری اجازه نخواهند داد امریكایی ها و صهیونیستها، با ایجاد اختلاف و حیله های دیگر، این حركت عظیم را منحرف و یا بر آن موج سواری كنند.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به «آثار تعیین كننده، بسیار عمیق و پیش برنده» دوران 23 ساله بعثت پیامبر خاتم (ص) در تاریخ و سرنوشت بشریت افزودند: نبی مكرم اسلام (ص) در همین دوران كوتاه كه فقط 10 سال آن به ایجاد نظام اسلامی اختصاص داشت، جامعه ای بر پایه های ایمان، عقلانیت، مجاهدت و عزت بنا كردند كه تمدنهای امروز بشری نیز، مدیون تمدن اسلامیِ شكل گرفته برچنین پایه هایی است.
ایشان، مشكلات و دردهای دیروز و امروز امت اسلامی را ناشی از ناسپاسی نعمت عظیم بعثت دانستند و خاطرنشان كردند: اگر ملتهای مسلمان، ایمان را در دل و عمل تقویت كنند، از عقلانیت و خرد انسانی به عنوان هدیه بزرگ الهی بهره گیرند، جهاد فی سبیل الله را در میدانهای نظامی،سیاسی، اقتصادی و فرهنگی دنبال كنند و احساس عزت و كرامت انسانی را مغتنم بشمارند یقیناً به جایگاه شایسته خود دست می یابند.
حضرت آیت الله خامنه ای، حوادث جاری در برخی كشورهای شمال افریقا و خاورمیانه را، نشان دهنده توجه ملتهای مسلمان به نعمت سعادت بخش اسلام خواندند و افزودند: بیداری عظیم اسلامی در مصر و تونس و دیگر كشورها نشان می دهد موازنه ظالمانه و تحقیركننده ای كه غربی های سلطه گر و حكام وابسته، در 150 سال اخیر بر ملتهای منطقه تحمیل كرده بودند به هم خورده و فصل جدیدی در تاریخ منطقه آغاز شده است.
رهبر انقلاب اسلامی، آینده تحولات منطقه را به فضل الهی، روشن دانستند و با اشاره به لجاجت و «جان سختی» قدرتهای مستكبر برای انكار و مخفی كردن جنبه اسلامی این تحولات افزودند: امریكایی ها، صهیونیستها و مزدوران و همراهان آنها در منطقه، همه امكانات خود را به كار گرفته اند تا حركت عظیم ملتها را منحرف كنند و با روی كار آوردن عناصر وابسته، معادلات ظالمانه گذشته را دوباره حاكم سازند اما وقتی ملتی بیدار شد و جان بر كف به میدان آمد نمی توان او را شكست داد.
ایشان با اشاره به لزوم بیداری، هوشیاری و بصیرت ملتها و نخبگان جهان اسلام در مقابل تلاشها و طرحهای پیچیده امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی افزودند: البته تحركات سلطه گران، دردسرهایی را برای ملتهای بیدار شده به همراه خواهد آورد اما به بركت هوشیاری و مراقبت مردم و نخبگان امت اسلامی، مسیر روشنی كه در منطقه آغاز شده، انشاءالله با قوت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی، در همین زمینه با یادآوری توطئه های گوناگون دشمنان اسلام در قبال پیروزی انقلاب اسلامی خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف، نفوذ، ترور، «درگیریهای قومی مذهبی»، فتنه انگیزی و تحریك دشمن خارجی به حمله به ایران از جمله تحركات ناكام مستكبران برای تضعیف حركت عظیم ملت ایران بوده است كه همین توطئه ها یا نظائر آنها در قبال ملتهای بیدار شده منطقه نیز طراحی و اجرا خواهد شد.
ایشان در تشریح راههای اصولی مقابله با اینگونه توطئه ها، پرهیز ملتها و نخبگان جهان اسلام از مباحث بیهوده و كم اهمیت، بی توجهی به «اختلافات مذهبی، قومی و سلیقه ای» و درك عظمت تاریخی قیام ملتهای مسلمان را مورد تأكید قرار دادند.
حضرت آیت الله خامنه ای، با اشاره به حمایتهای همیشگی ملت ایران و نظام اسلامی از هر حركت عدالت طلبانه و ضد استكباری افزودند: هرجا حركتی علیه امریكا و صهیونیسم روی دهد و هر ملتی كه بر ضد دیكتاتوری بین المللی امریكا و دیكتاتورهای داخلی قیام كند با حمایت ملت فهیم ایران روبرو خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی، شبیه سازی را یكی از طرحهای پیچیده امریكا خواندند و با اشاره به حوادث سوریه افزودند: امریكایی ها با تلاش برای شبیه سازی حوادث مصر، تونس، یمن و لیبی، در سوریه، سعی می كنند این كشور را كه در خط مقاومت قرار دارد دچار مشكل كنند اما ماهیت حوادث سوریه با ماهیت حوادث دیگر كشورهای منطقه متفاوت است.
ایشان افزودند: جوهره بیداری اسلامی در كشورهای منطقه، حركت ضدصهیونیستی و ضد امریكایی است اما در حوادث سوریه، دست امریكا و اسرائیل آشكار است و «منطق و معیار ما ملت ایران» این است كه هرجا به نفع امریكا و صهیونیسم شعار داده شود حركت، انحرافی است.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: البته پایداری ملت ایران و نظام اسلامی بر این منطق و معیار دشمنان نظام را خشمگین می كند و بر توطئه های آنان می افزاید اما ملت آب دیده و مقاوم ایران، در مواضع خود سستی نخواهد كرد.
ایشان با اشاره به مظلومیت ملت بحرین افزودند: حركت مردم بحرین، ماهیتاً شبیه حركت ملت مصر و تونس و یمن است و تفكیك میان این تحركات مشابه، معنا ندارد اما متأسفانه برخی به جای توجه به حرف دل ملتها، همان راهی را می روند كه دشمنان اسلام می خواهند.
حضرت آیت الله خامنه ای در پایان سخنانشان با یادآوری كار و تلاش گسترده و پرامید دستگاههای گوناگون در سراسر كشور، موضوع ادغام وزارتخانه ها و كوچك كردن دولت را، بسیار مهم برشمردند و با اشاره به همكاری متقابل دولت و مجلس در این مسئله افزودند: اینگونه كارها باید با جدیت دنبال شود.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به طمع ورزیهای دشمنان به برخی مسائل و حوادث داخلی تأكید كردند: ملت ایران با ایستادگی، اعتماد و امید بی پایان به كمك پروردگار و مسئولان كشور با همكاری و وحدت كلمه، بار دیگر امید دشمنان را به یأس و نومیدی تبدیل خواهند كرد.
در آغاز این دیدار كه سفیران كشورهای اسلامی نیز حضور داشتند، رئیس جمهور، پیامبر خاتم را بزرگترین هدیه پروردگار به بشریت خواند و افزود: بعثت بزرگترین حادثه تاریخ است كه می تواند بشر را در گذر از مسیر نورانی كلمه توحید، به حیات طیبه و سعادت حقیقی برساند.
آقای احمدی نژاد جهل و غفلت بشر و ظلم و بی عدالتی طاغوتها را موانع اصلی بهره گیری كامل جوامع بشری از پیام حیات بخش بعثت پیامبر اعظم خواند و افزود: شیطان بزرگ امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی با سركوب ملتها، جامعه بشری را از حركت در صراط مستقیم الهی باز می دارند.
رئیس جمهور، بشر امروز را بیش از هر زمان دیگر نیازمند پیام بعثت خواند و افزودند: ظهور بقیه الله الاعظم (عج) تكمیل كننده حادثه تاریخی بعثت و نوید سعادت حقیقی بشر خواهد بود.
25:44
|
Supreme Leader Meets with Laborers - 29 April 2012 - Farsi
بازديد رهبر انقلاب از شركت كارخانجات داروپخش
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=19505
در سال تولید ملی و در آستانهی روز...
بازديد رهبر انقلاب از شركت كارخانجات داروپخش
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=19505
در سال تولید ملی و در آستانهی روز كارگر، حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح روز 10 اردیبهشت 1391، با حضور در كارخانجات تولیدی داروپخش، از نزدیك در جریان آخرین دستاوردهای تولیدِ دارو در كشور قرار گرفتند و در جمع هزاران نفر از كارگران نمونهی سراسر كشور تأكید كردند: تحقق واقعی اهداف مختلف كشور از جمله استقلال سیاسی، نیازمند خوداتكایی و استقلال اقتصادی است. استقلال اقتصادی نیز به شكلگیری تولید ملی مشروط است و تولید ملی نیز با احترام حقیقی، همگانی و عملی به كار ایرانی و سرمایهی ایرانی به وجود خواهد آمد.
رهبر انقلاب اسلامی در ابتدای ورودشان به محل شركت كارخانجات داروپخش، در جایگاه یادمان شهدای كارگر حضور یافتند و با قرائت فاتحه، برای ایشان علو درجات را از درگاه خداوند مسئلت كردند.
حضرت آیتالله خامنهای سپس در سالن استریل تولید داروهای تزریقی و قطره حضور یافتند و از مراحل مختلف تولید، كنترل و بستهبندی این داروها بازدید به عمل آوردند.
بخش تولید، كنترل و بستهبندی داروهای تزریقی و قطرههای استریل چشمی و بینی شركت تولیدی داروپخش در مدت یك سال و به دست متخصصان داخلی طراحی و ساخته و تجهیز شده است. از جمله داروهای تولیدی در این بخش، داروی هورمون رشد است كه مراحل تولید آن بسیار پیچیده و تنها در انحصار چند كشور معدود است.
امروز همزمان با بازدید رهبر انقلاب اسلامی از كارخانجات تولیدی داروپخش، نخستین داروی تزریقی این مجموعه با نام تجاری «انوكساپارین 6000» تولید و روانهی بازار شد.
در این دیدار همچنین وزاری بهداشت، درمان و آموزش پزشكی و نیز تعاون، كار و رفاه اجتماعی و همچنین وزیر صنعت، معدن و تجارت گزارشی از اهم فعالیتها را ارائه كردند.
خانم دكتر وحید دستجردی وزیر بهداشت، درمان و آموزش پزشكی با اشاره به دستاوردهای كارخانههای تولید داروی كشور با وجود تحریمها گفت: تحریمها به عنوان یك فرصت موجب شده است كه متخصصان داخلی با عزم جدی در تولید دارو و بهویژه داروهای با فناوریهای پیشرفته گام بردارند و جمهوری اسلامی ایران به كشور اول منطقه در تولید دارو تبدیل شده است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1627
Supreme Leader Meets with Laborers
29/04/2012
On the eve of International Labor Day, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution met today with a group of exemplary laborers from across the country. Speaking at the meeting, His Eminence described labor as the driving force behind the progress of all societies.
Ayatollah Khamenei said that socialist and capitalist governments take advantage of laborers and added that in contrast to socialism and capitalism, Islam is honest with laborers and considers labor as valuable.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is necessary to apply Islamic principles to labor and laborers. He added that investment and labor are two essential requirements for national production and progress. \\\"It is necessary to value Iranian labor and investment so that national production becomes viable in the real sense of the word.\\\"
His Eminence stressed that the enemies have focused their plots on economic issues and added: \\\"The signs of this great plot are becoming more visible on a daily basis in current conditions. But by Allah\\\'s favor, the Iranian nation will remove this obstacle from its path by relying on the same willpower that helped them remove the previous obstacles.\\\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution stated that the efforts of Iranian laborers, investors and managers are the requirement for overcoming the economic plots of the enemy. He reiterated: \\\"The people should also reveal their determination to oppose the enemy by consuming our domestic products.\\\"
Ayatollah Khamenei stressed that the government should pay attention to the issue of domestic production and stated: \\\"There is a need for fundamental work in this area. The strength our economy depends on constant efforts by the executive, legislative and judiciary branches of government.\\\"
His Eminence said that supporting healthy economic activities, labor, production and investment is among the responsibilities of the three branches of government. He referred to the measures that should be adopted in this regard and added: \\\"Improving skills, training the workforce, adopting the correct managerial perspective and creating a sense of security both for laborers and for investors are among the things that should be done.\\\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that confronting and combating economic disruption in an appropriate way is a necessity for strengthening domestic production. He added that smuggling and misusing the money that the people have invested in the banks are among the manifestations of economic disruption.
He explained: \\\"Receiving large amounts of money from our banks to spend on a particular project and then diverting the money to other things is an example of treachery and stealing from the people, and it is necessary to confront such people.\\\"
Ayatollah Khamenei said that creating competition, improving the quality of domestic products and minimizing the cost of production are other requirements for national production. He added: \\\"The government should help our production units in this regard.\\\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed: \\\"The three branches of government, different governmental organizations, the private sector, those who are in charge of improving the culture of our society, the IRIB and everybody else should be at the service of national production so that by Allah\\\'s favor, we can strike a serious blow to the blood-thirsty enemies of the Iranian nation.\\\"
More...
Description:
بازديد رهبر انقلاب از شركت كارخانجات داروپخش
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=19505
در سال تولید ملی و در آستانهی روز كارگر، حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح روز 10 اردیبهشت 1391، با حضور در كارخانجات تولیدی داروپخش، از نزدیك در جریان آخرین دستاوردهای تولیدِ دارو در كشور قرار گرفتند و در جمع هزاران نفر از كارگران نمونهی سراسر كشور تأكید كردند: تحقق واقعی اهداف مختلف كشور از جمله استقلال سیاسی، نیازمند خوداتكایی و استقلال اقتصادی است. استقلال اقتصادی نیز به شكلگیری تولید ملی مشروط است و تولید ملی نیز با احترام حقیقی، همگانی و عملی به كار ایرانی و سرمایهی ایرانی به وجود خواهد آمد.
رهبر انقلاب اسلامی در ابتدای ورودشان به محل شركت كارخانجات داروپخش، در جایگاه یادمان شهدای كارگر حضور یافتند و با قرائت فاتحه، برای ایشان علو درجات را از درگاه خداوند مسئلت كردند.
حضرت آیتالله خامنهای سپس در سالن استریل تولید داروهای تزریقی و قطره حضور یافتند و از مراحل مختلف تولید، كنترل و بستهبندی این داروها بازدید به عمل آوردند.
بخش تولید، كنترل و بستهبندی داروهای تزریقی و قطرههای استریل چشمی و بینی شركت تولیدی داروپخش در مدت یك سال و به دست متخصصان داخلی طراحی و ساخته و تجهیز شده است. از جمله داروهای تولیدی در این بخش، داروی هورمون رشد است كه مراحل تولید آن بسیار پیچیده و تنها در انحصار چند كشور معدود است.
امروز همزمان با بازدید رهبر انقلاب اسلامی از كارخانجات تولیدی داروپخش، نخستین داروی تزریقی این مجموعه با نام تجاری «انوكساپارین 6000» تولید و روانهی بازار شد.
در این دیدار همچنین وزاری بهداشت، درمان و آموزش پزشكی و نیز تعاون، كار و رفاه اجتماعی و همچنین وزیر صنعت، معدن و تجارت گزارشی از اهم فعالیتها را ارائه كردند.
خانم دكتر وحید دستجردی وزیر بهداشت، درمان و آموزش پزشكی با اشاره به دستاوردهای كارخانههای تولید داروی كشور با وجود تحریمها گفت: تحریمها به عنوان یك فرصت موجب شده است كه متخصصان داخلی با عزم جدی در تولید دارو و بهویژه داروهای با فناوریهای پیشرفته گام بردارند و جمهوری اسلامی ایران به كشور اول منطقه در تولید دارو تبدیل شده است.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1627
Supreme Leader Meets with Laborers
29/04/2012
On the eve of International Labor Day, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution met today with a group of exemplary laborers from across the country. Speaking at the meeting, His Eminence described labor as the driving force behind the progress of all societies.
Ayatollah Khamenei said that socialist and capitalist governments take advantage of laborers and added that in contrast to socialism and capitalism, Islam is honest with laborers and considers labor as valuable.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that it is necessary to apply Islamic principles to labor and laborers. He added that investment and labor are two essential requirements for national production and progress. \\\"It is necessary to value Iranian labor and investment so that national production becomes viable in the real sense of the word.\\\"
His Eminence stressed that the enemies have focused their plots on economic issues and added: \\\"The signs of this great plot are becoming more visible on a daily basis in current conditions. But by Allah\\\'s favor, the Iranian nation will remove this obstacle from its path by relying on the same willpower that helped them remove the previous obstacles.\\\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution stated that the efforts of Iranian laborers, investors and managers are the requirement for overcoming the economic plots of the enemy. He reiterated: \\\"The people should also reveal their determination to oppose the enemy by consuming our domestic products.\\\"
Ayatollah Khamenei stressed that the government should pay attention to the issue of domestic production and stated: \\\"There is a need for fundamental work in this area. The strength our economy depends on constant efforts by the executive, legislative and judiciary branches of government.\\\"
His Eminence said that supporting healthy economic activities, labor, production and investment is among the responsibilities of the three branches of government. He referred to the measures that should be adopted in this regard and added: \\\"Improving skills, training the workforce, adopting the correct managerial perspective and creating a sense of security both for laborers and for investors are among the things that should be done.\\\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that confronting and combating economic disruption in an appropriate way is a necessity for strengthening domestic production. He added that smuggling and misusing the money that the people have invested in the banks are among the manifestations of economic disruption.
He explained: \\\"Receiving large amounts of money from our banks to spend on a particular project and then diverting the money to other things is an example of treachery and stealing from the people, and it is necessary to confront such people.\\\"
Ayatollah Khamenei said that creating competition, improving the quality of domestic products and minimizing the cost of production are other requirements for national production. He added: \\\"The government should help our production units in this regard.\\\"
The Supreme Leader of the Islamic Revolution stressed: \\\"The three branches of government, different governmental organizations, the private sector, those who are in charge of improving the culture of our society, the IRIB and everybody else should be at the service of national production so that by Allah\\\'s favor, we can strike a serious blow to the blood-thirsty enemies of the Iranian nation.\\\"
12:21
|
عید نوروز کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی کا پیغام - Urdu
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا...
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
More...
Description:
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
5:17
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in a moment (one night) - Part 2
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in...
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
More...
Description:
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
40:01
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in one night - Part 1 - Farsi
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
More...
Description:
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
25:26
|
[19 January 2014] دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی Farsi
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در خجسته سالروز میلاد تاریخ سازِ نبی مكرم اسلام و ولادت پربركت امام صادق (ع) در دیدار «جمعی از مسئولان كشور، میهمانان كنفرانس وحدت اسلامی و گروههایی از مردم»، با دعوت از جهان اسلام برای برآورده ساختن انتظارات پیامبر خاتم، تاكید كردند: امروز مهمترین مساله ی دنیای اسلام، وحدت است و با وجود همه توطئه ها، آینده امت اسلامی در پرتو «وحدت، آگاهی و بیداری اسلامی»، درخشان و نوید بخش خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای با تبریك عید سعید میلاد پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) و ولادت پربركت امام جعفر صادق (ع)، «آزادی از تصورات و اوهام» و سپس تلاش برای «آزادی از ظلم و ستم حكومتهای مستبد و ایجاد حكومت عادلانه» را دو روش اساسی اسلام برای آزادی بشر برشمردند و افزودند: ملتهای مسلمان باید با ایجاد آزادی درونی و فكری، تلاش كنند با دستیابی به «استقلال سیاسی، استقرار حكومتهای مردمی، برپایی مردم سالاری دینی و حركت براساس شریعت اسلام»، خود را به آزادی مورد نظر اسلام عزیز برسانند.
ایشان، توطئه ها و تحركات دشمنان اسلام برای جلوگیری از آزادی حقیقی و سعادت امت اسلامی را، پیچیده و چند بعدی خواندند و خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف میان مسلمانان، محور اساسی ترفندهای استكبار است.
حضرت آیتالله خامنهای، تلاش ۶۵ ساله برای فراموش شدن مسئله فلسطین و تحمیل وجود رژیم جعلی، جنایتكار و غاصب صهیونیستی بر ملتهای مسلمان را، نمونه ای از تلاشهای مستبدانه امریكا و دیگر زورگویان جهانی خواندند و افزودند: جنگهای ۳۳ روزه لبنان، ۲۲ روزه و ۸ روزه غزه نشان داد بجز برخی دولتها كه عملاً حافظ منافع بیگانگان شده اند ملتهای مسلمان با هوشیاری، هویت و موجودیت فلسطین را حفظ كرده و به رژیم صهیونیستی و حامیانش سیلی می زنند.
رهبر انقلاب در نگاهی كلان به مسائل جهان اسلام، غافل كردن امت اسلامی از مسئله فلسطین را از جمله اهداف مهم دشمنان اسلام در به راه انداختن جنگهای داخلی، دامن زدن به اختلاف و ترویج تفكرات تكفیری و افراطی برشمردند.
ایشان با ابراز تأسف عمیق افزودند: عده ای تكفیری بجای توجه به رژیم خبیث صهیونیستی، به اسم اسلام و شریعت، اكثر مسلمانان را تكفیر می كنند و زمینه ساز جنگ و خشونت و اختلاف می شوند و به همین علت، وجود این جریان تكفیری، مژده ای برای دشمنان اسلام است.
رهبر انقلاب با اشاره به آیه شریفه «اَشدّاء علیَ الكُفّارِ رُحَماء بَینَهُم» افزودند: جریان تكفیری، این دستور صریح پروردگار را نادیده می گیرد و با تقسیم مسلمانان به «مسلمان و كافر»، آنها را به جان هم می اندازد.
ایشان سؤال كردند: با این وضع آیا كسی می تواند تردید كند كه وجود این جریان و پشتیبانی مالی و تسلیحاتی از آن، كار دستگاههای امنیتی و خبیث دولتهای استكباری و دست نشاندگان آنها نیست؟
حضرت آیتالله خامنهای با توجه به این واقعیات، جریان تكفیری را خطری بزرگ برای دنیای اسلام برشمردند و با توصیه به كشورهای اسلامی برای مراقبت و هوشیاری كامل، افزودند: متأسفانه برخی دولتهای مسلمان، به عواقب حمایت از این جریان بی توجهند و نمی فهمند كه این آتش، دامن همه آنها را هم خواهد گرفت.
رهبر انقلاب اسلامی، تشدید اختلافات میان شیعه و سنی و افزایش درگیریهای داخلی ملتهای مسلمان در سه چهار سال اخیر را عكس العمل ستم گران جهانی در مقابل تشدید بیداری اسلامی در تعدادی از كشورها برشمردند.
ایشان افزودند: مستكبران تلاش می كنند برای تحت الشعاع قرار دادن بیداری اسلامی، پیروان مذاهب مختلف اسلامی را با یكدیگر درگیر كنند و سپس با برجسته كردن اقدامات شنیع جریان تكفیری نظیرِ «جویدن جگر انسان های به قتل رسیده»، اصل اسلام را در افكار عمومی جهانیان، زشت جلوه دهند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: بدون تردید این مسائل یك باره به وجود نیامده است و قدرتهای جهانی برای ایجاد آنها، مدتها برنامه ریزی و سیاستگذاری كرده اند.
حضرت آیتالله خامنهای مقابله با هر عامل ضد وحدت را تكلیف بزرگ شیعه و سنی و دیگر شاخه های مذهبی خواندند و خاطرنشان كردند: نخبگان سیاسی، علمی و دینی برای ایجاد وحدت در جوامع اسلامی، وظایف سنگینی برعهده دارند.
رهبر انقلاب در همین زمینه، «علمای دنیای اسلام» را به برحذر داشتن ملتها از اختلافات فرقه ای و مذهبی، «دانشمندانِ دانشگاهها» را به تبیین اهمیت اهداف اسلامی برای دانشجویان و «نخبگان سیاسی امت اسلامی» را به تكیه بر مردم و دوری از بیگانگان و دشمنان اسلام فراخواندند و تاكید كردند: امروز مهمترین مساله در دنیای اسلام، وحدت است.
ایشان با اشاره به خروج تدریجی ملتهای مسلمان از زیر بار سلطه مستقیم استعمارگران، هشدار دادند: مستكبران درصددند منافع دوران سلطه مستقیم را با سلطه غیرمستقیم سیاسی، فرهنگی و اقتصادی تامین كنند.
حضرت آیتالله خامنهای «بیداری و آگاهی»، را تنها راه سعادت امت اسلامی برشمردند و خاطرنشان كردند: امكانات فراوان، موقعیت جغرافیایی ممتاز، میراث تاریخی بسیار ارزشمند و منابع اقتصادی بی نظیر كشورهای اسلامی، می تواند در سایه وحدت و همدلی، عزت و كرامت و آقایی مسلمانان را رقم بزند.
ایشان پیروزی انقلاب اسلامی و استحكام الگوی جمهوری اسلامی را با وجود ۳۵ سال توطئه های گوناگون مستكبران، از نشانه های آینده نوید بخش امت اسلامی دانستند و تأكید كردند: به فضل الهی ملت ایران و نظام اسلامی روز به روز قوی تر، ریشه دار تر و مقتدر تر خواهد شد.
در پایان این دیدار، حضرت آیتالله خامنهای، دقایقی در جمع میهمانان خارجی كنفرانس وحدت اسلامی حضور یافتند.
قبل از سخنان رهبر انقلاب اسلامی، آقای روحانی رئیس جمهور با تبریك میلاد مبارك پیامبر خاتم و حضرت امام جعفر صادق (ع)، به تاریكی مطلق فرهنگی، اجتماعی و سیاسی دوران جاهلیت اشاره كرد و گفت: در آن اوضاع اسف بار، میلاد پیامبر رحمت، نور هدایت و رستگاری را در تاریخ جاری كرد.
رئیس جمهور با اشاره به مشكلات و اختلافات موجود در جهان اسلام گفت بی تردید پیامبر اسلام در مقابل منحرفین و كسانی كه راه تكفیر و افراط و درگیری را در پیش گرفته اند در رنج است و جوامع اسلامی باید بار دیگر به یاری پیامبر رحمت به پا خیزند.
آقای روحانی پیروی از ندای وحدت بخش امام خمینی را تنها راه نجات امت اسلامی خواند و گفت: دین واحد، پیامبر واحد، منافع مشترك، دشمنان مشترك آرمانهایی همچون فلسطین اشغال شده و قدس عزیز می تواند مسلمانان را متحد كند.
رئیس جمهور افزود: امت اسلامی باید با رجوع به قرآن و در پرتو تدبیر، عقلانیت، اعتدال، امید و تلاش بی وقفه، تمدن اسلامی را دوباره احیا كند.
Source: http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=25049
More...
Description:
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در خجسته سالروز میلاد تاریخ سازِ نبی مكرم اسلام و ولادت پربركت امام صادق (ع) در دیدار «جمعی از مسئولان كشور، میهمانان كنفرانس وحدت اسلامی و گروههایی از مردم»، با دعوت از جهان اسلام برای برآورده ساختن انتظارات پیامبر خاتم، تاكید كردند: امروز مهمترین مساله ی دنیای اسلام، وحدت است و با وجود همه توطئه ها، آینده امت اسلامی در پرتو «وحدت، آگاهی و بیداری اسلامی»، درخشان و نوید بخش خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای با تبریك عید سعید میلاد پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) و ولادت پربركت امام جعفر صادق (ع)، «آزادی از تصورات و اوهام» و سپس تلاش برای «آزادی از ظلم و ستم حكومتهای مستبد و ایجاد حكومت عادلانه» را دو روش اساسی اسلام برای آزادی بشر برشمردند و افزودند: ملتهای مسلمان باید با ایجاد آزادی درونی و فكری، تلاش كنند با دستیابی به «استقلال سیاسی، استقرار حكومتهای مردمی، برپایی مردم سالاری دینی و حركت براساس شریعت اسلام»، خود را به آزادی مورد نظر اسلام عزیز برسانند.
ایشان، توطئه ها و تحركات دشمنان اسلام برای جلوگیری از آزادی حقیقی و سعادت امت اسلامی را، پیچیده و چند بعدی خواندند و خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف میان مسلمانان، محور اساسی ترفندهای استكبار است.
حضرت آیتالله خامنهای، تلاش ۶۵ ساله برای فراموش شدن مسئله فلسطین و تحمیل وجود رژیم جعلی، جنایتكار و غاصب صهیونیستی بر ملتهای مسلمان را، نمونه ای از تلاشهای مستبدانه امریكا و دیگر زورگویان جهانی خواندند و افزودند: جنگهای ۳۳ روزه لبنان، ۲۲ روزه و ۸ روزه غزه نشان داد بجز برخی دولتها كه عملاً حافظ منافع بیگانگان شده اند ملتهای مسلمان با هوشیاری، هویت و موجودیت فلسطین را حفظ كرده و به رژیم صهیونیستی و حامیانش سیلی می زنند.
رهبر انقلاب در نگاهی كلان به مسائل جهان اسلام، غافل كردن امت اسلامی از مسئله فلسطین را از جمله اهداف مهم دشمنان اسلام در به راه انداختن جنگهای داخلی، دامن زدن به اختلاف و ترویج تفكرات تكفیری و افراطی برشمردند.
ایشان با ابراز تأسف عمیق افزودند: عده ای تكفیری بجای توجه به رژیم خبیث صهیونیستی، به اسم اسلام و شریعت، اكثر مسلمانان را تكفیر می كنند و زمینه ساز جنگ و خشونت و اختلاف می شوند و به همین علت، وجود این جریان تكفیری، مژده ای برای دشمنان اسلام است.
رهبر انقلاب با اشاره به آیه شریفه «اَشدّاء علیَ الكُفّارِ رُحَماء بَینَهُم» افزودند: جریان تكفیری، این دستور صریح پروردگار را نادیده می گیرد و با تقسیم مسلمانان به «مسلمان و كافر»، آنها را به جان هم می اندازد.
ایشان سؤال كردند: با این وضع آیا كسی می تواند تردید كند كه وجود این جریان و پشتیبانی مالی و تسلیحاتی از آن، كار دستگاههای امنیتی و خبیث دولتهای استكباری و دست نشاندگان آنها نیست؟
حضرت آیتالله خامنهای با توجه به این واقعیات، جریان تكفیری را خطری بزرگ برای دنیای اسلام برشمردند و با توصیه به كشورهای اسلامی برای مراقبت و هوشیاری كامل، افزودند: متأسفانه برخی دولتهای مسلمان، به عواقب حمایت از این جریان بی توجهند و نمی فهمند كه این آتش، دامن همه آنها را هم خواهد گرفت.
رهبر انقلاب اسلامی، تشدید اختلافات میان شیعه و سنی و افزایش درگیریهای داخلی ملتهای مسلمان در سه چهار سال اخیر را عكس العمل ستم گران جهانی در مقابل تشدید بیداری اسلامی در تعدادی از كشورها برشمردند.
ایشان افزودند: مستكبران تلاش می كنند برای تحت الشعاع قرار دادن بیداری اسلامی، پیروان مذاهب مختلف اسلامی را با یكدیگر درگیر كنند و سپس با برجسته كردن اقدامات شنیع جریان تكفیری نظیرِ «جویدن جگر انسان های به قتل رسیده»، اصل اسلام را در افكار عمومی جهانیان، زشت جلوه دهند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: بدون تردید این مسائل یك باره به وجود نیامده است و قدرتهای جهانی برای ایجاد آنها، مدتها برنامه ریزی و سیاستگذاری كرده اند.
حضرت آیتالله خامنهای مقابله با هر عامل ضد وحدت را تكلیف بزرگ شیعه و سنی و دیگر شاخه های مذهبی خواندند و خاطرنشان كردند: نخبگان سیاسی، علمی و دینی برای ایجاد وحدت در جوامع اسلامی، وظایف سنگینی برعهده دارند.
رهبر انقلاب در همین زمینه، «علمای دنیای اسلام» را به برحذر داشتن ملتها از اختلافات فرقه ای و مذهبی، «دانشمندانِ دانشگاهها» را به تبیین اهمیت اهداف اسلامی برای دانشجویان و «نخبگان سیاسی امت اسلامی» را به تكیه بر مردم و دوری از بیگانگان و دشمنان اسلام فراخواندند و تاكید كردند: امروز مهمترین مساله در دنیای اسلام، وحدت است.
ایشان با اشاره به خروج تدریجی ملتهای مسلمان از زیر بار سلطه مستقیم استعمارگران، هشدار دادند: مستكبران درصددند منافع دوران سلطه مستقیم را با سلطه غیرمستقیم سیاسی، فرهنگی و اقتصادی تامین كنند.
حضرت آیتالله خامنهای «بیداری و آگاهی»، را تنها راه سعادت امت اسلامی برشمردند و خاطرنشان كردند: امكانات فراوان، موقعیت جغرافیایی ممتاز، میراث تاریخی بسیار ارزشمند و منابع اقتصادی بی نظیر كشورهای اسلامی، می تواند در سایه وحدت و همدلی، عزت و كرامت و آقایی مسلمانان را رقم بزند.
ایشان پیروزی انقلاب اسلامی و استحكام الگوی جمهوری اسلامی را با وجود ۳۵ سال توطئه های گوناگون مستكبران، از نشانه های آینده نوید بخش امت اسلامی دانستند و تأكید كردند: به فضل الهی ملت ایران و نظام اسلامی روز به روز قوی تر، ریشه دار تر و مقتدر تر خواهد شد.
در پایان این دیدار، حضرت آیتالله خامنهای، دقایقی در جمع میهمانان خارجی كنفرانس وحدت اسلامی حضور یافتند.
قبل از سخنان رهبر انقلاب اسلامی، آقای روحانی رئیس جمهور با تبریك میلاد مبارك پیامبر خاتم و حضرت امام جعفر صادق (ع)، به تاریكی مطلق فرهنگی، اجتماعی و سیاسی دوران جاهلیت اشاره كرد و گفت: در آن اوضاع اسف بار، میلاد پیامبر رحمت، نور هدایت و رستگاری را در تاریخ جاری كرد.
رئیس جمهور با اشاره به مشكلات و اختلافات موجود در جهان اسلام گفت بی تردید پیامبر اسلام در مقابل منحرفین و كسانی كه راه تكفیر و افراط و درگیری را در پیش گرفته اند در رنج است و جوامع اسلامی باید بار دیگر به یاری پیامبر رحمت به پا خیزند.
آقای روحانی پیروی از ندای وحدت بخش امام خمینی را تنها راه نجات امت اسلامی خواند و گفت: دین واحد، پیامبر واحد، منافع مشترك، دشمنان مشترك آرمانهایی همچون فلسطین اشغال شده و قدس عزیز می تواند مسلمانان را متحد كند.
رئیس جمهور افزود: امت اسلامی باید با رجوع به قرآن و در پرتو تدبیر، عقلانیت، اعتدال، امید و تلاش بی وقفه، تمدن اسلامی را دوباره احیا كند.
Source: http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=25049
1:49
|
[Clip] روی پای خودمان بایستیم - Sayyed Ali Khamenei - Farsi
حضرت آیتالله خامنهای: «دنیا بزرگ است؛ دنیا که فقط آمریکا و چند کشور اروپایی نیست؛ دنیا خیلی وسیع است؛...
حضرت آیتالله خامنهای: «دنیا بزرگ است؛ دنیا که فقط آمریکا و چند کشور اروپایی نیست؛ دنیا خیلی وسیع است؛ بروند ارتباطات را برقرار کنند به آن مقداری که لازم هست امّا چشم ندوزند به هیچ نیروی خارجی؛ چشم بدوزند به عنصر داخلی، چشم بدوزند به این ارزش بزرگ: نیروی انسانی داخل. وقتی مردم ببینند که ما مسئولین اصرار داریم بر اینکه مشکلاتمان را در داخل حل کنیم و از ظرفیّتهای داخلی استفاده کنیم، ولو یک سختیای هم برایشان پیش بیاید، تحمّل میکنند، کمکمان میکنند؛ این را مسئولین محترم کشور باید توجّه داشته باشند که تکیهی به خارج نبایستی کرد.» ۱۳۹۷/۰۲/۱۰
More...
Description:
حضرت آیتالله خامنهای: «دنیا بزرگ است؛ دنیا که فقط آمریکا و چند کشور اروپایی نیست؛ دنیا خیلی وسیع است؛ بروند ارتباطات را برقرار کنند به آن مقداری که لازم هست امّا چشم ندوزند به هیچ نیروی خارجی؛ چشم بدوزند به عنصر داخلی، چشم بدوزند به این ارزش بزرگ: نیروی انسانی داخل. وقتی مردم ببینند که ما مسئولین اصرار داریم بر اینکه مشکلاتمان را در داخل حل کنیم و از ظرفیّتهای داخلی استفاده کنیم، ولو یک سختیای هم برایشان پیش بیاید، تحمّل میکنند، کمکمان میکنند؛ این را مسئولین محترم کشور باید توجّه داشته باشند که تکیهی به خارج نبایستی کرد.» ۱۳۹۷/۰۲/۱۰
44:28
|
المحاضرة الرمضانية التاسعة للسيد عبدالملك بدرالدين الحوثي | 22 رمضان 1443ه 23-04-2022م | Arabic
ـ المحاضرة الرمضانية الـ22 لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 22-رمضان-1443هـ 23-04-2022م
من أهم المبادئ...
ـ المحاضرة الرمضانية الـ22 لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 22-رمضان-1443هـ 23-04-2022م
من أهم المبادئ الإسلامية، والفرائض الدينية، والمتطلبات الضرورية لواقع الحياة، وطبيعة المسؤولية، هي: الاعتصام بحبل الله جميعاً، والتوحد، والأخوّة بين المؤمنين، يعتبر هذا المبدأ العظيم فريضةً من فرائض الله \"سبحانه وتعالى\" الإلزامية، التي لابدَّ منها في تحقيق التقوى والالتزام الإيماني، أي: لا يمكن أن يُحسَب الإنسان عند الله من عباده المؤمنين الصادقين، ومن عباد الله المتقين، إذا لم يكن عنده اهتمامٌ وسعيٌ للالتزام بذلك، اهتمامٌ بتنفيذ ذلك، بتحقيق ذلك، وسعيٌ وفق توجيهات الله وتعليماته \"سبحانه وتعالى\".
وهي فريضةٌ ضروريةٌ للقيام بالمسؤوليات الجماعية الإيمانية، الله \"سبحانه وتعالى\" أمرنا بمسؤوليات، نتعاون فيها، نتحرك فيها بشكلٍ جماعي، على مبدأ الأمة الواحدة، ومنها: الجهاد في سبيل الله، والأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر، وإقامة القسط... ومسؤولياتٌ أخرى، وكذلك التعاون على البر والتقوى، كل هذه المسؤوليات الجماعية التي لابدَّ من التحرك فيها على نحوٍ جماعي، وبجهدٍ جماعي منظَّم، لابدَّ فيها من أخوة المؤمنين فيما بينهم، لابدَّ فيها من أن تقوم على أساس مبدأ التوحد.
وكذلك المشروع الإلهي في أساسه هو مشروعٌ جماعي؛ لأن الواقع البشري هو واقعٌ مترابط، والناس يتحركون في إطارٍ جماعيٍ: إمَّا في صف الحق، أو في صف الباطل، وفي أي اتجاهٍ كانوا، المجتمعات البشرية على الأرض هي مجتمعات تتحرك بشكلٍ جماعي، ضمن تكتلات وأطر، منها دول، منها كيانات، منها...إلخ. هذا شيءٌ معروف في الواقع البشري، فالمشروع الإلهي هو في نفسه مشروعٌ جماعيٌ، يجمع ويرسم المسؤوليات الجماعية، التي يتحرك فيها المؤمنون، على أساس القيام بها، والنهوض بها، والتحرك لتنفيذها.
إضافةً إلى ذلك، هو عامل قوة، وهذه مسألةٌ معروفةٌ في الواقع البشري، أنَّ التوحد قوة، وأنَّ التفرق ضعف، والقوة في التوحد قوةٌ في مواجهة الأعداء، قوةٌ في أداء المهام الجماعية، قوةٌ في إنجاز المشاريع الكبرى، قوةٌ في كل ما تحتاج الأمة فيه إلى قوة، قوةٌ في مواجهة التحديات والأخطار، قوةٌ في تحقيق الأهداف العظيمة والكبيرة والمهمة...إلخ. وهذه أيضاً مسألةٌ معروفة.
إضافةً إلى أنَّ التوحد، والتآخي، والتعاون، والتفاهم، والألفة، من أهم عوامل الاستقرار الداخلي، كل أمة تتحرك في واقع الحياة ضمن مسؤولياتها وأهدافها، تحتاج إلى استقرارٍ داخلي يساعدها على النهوض بمسؤولياتها كما ينبغي؛ لتحقق التعاون المطلوب، المبني على الانسجام القائم، والتفاهم القائم.
ثم أيضاً لتتحرك بجهدٍ كبير، بجهدٍ جماعيٍ قوي، يحتاج ذلك كله إلى أن يكون هناك تفاهم، انسجام، تعاون، استقرار داخلي، إذا فقد الاستقرار الداخلي، انشغل الناس أصلاً بالمشاكل التي تتكاثر، فتزعجهم، تؤثر عليهم، انشغالهم بها انشغالٌ تام، على المستوى الذهني، والنفسي، والفكري، وعلى مستوى الاهتمامات العملية، فيؤثر ذلك بشكلٍ مباشر على اهتماماتهم الرئيسية، على أعمالهم المهمة؛ وبالتالي على أهدافهم الكبيرة، وهذه أيضاً من المسائل المعروفة: الاستقرار الداخلي، الذي يؤمنه التوحد، وتؤمنه وتوفره الأخوّة، هو عاملٌ مهمٌ جداً في النجاح، وفي أداء المهام الكبرى، وفي النهوض بالمسؤوليات مهما كان حجمها، وبتحقيق النتائج الكبيرة والعظيمة، وهذه مسألة سنتحدث عنها على نحوٍ من التفصيل بشكلٍ أكثر.
مع كل ذلك، مع اعتبار هذه المسألة فريضة إيمانية، ومبدأً إسلامياً عظيماً ومهماً، ولابدَّ منها في الالتزام الديني وتحقيق التقوى، لابدَّ منها في النهوض بالمسؤوليات الجماعية، ومواجهة التحديات والأخطار، لابدَّ منها في تعزيز وترسيخ الاستقرار الداخلي، أهميتها الكبيرة جداً فيما يترتب عليها من نتائج لأي مجتمع ينطلق على أساسها، مع كل هذا، هي من الفرائض التي لا تحظى بالاهتمام المطلوب على المستوى العملي في الواقع، وتلقى محاربةً شرسةً جداً من الشيطان، وأولياء الشيطان، وقلة اهتمام في واقع المسلمين، إمَّا بشكلٍ عام، أو حتى على المستوى الداخلي لدى المسلمين.
وهذه من المفارقات العجيبة، مسألة بهذه الأهمية في موقعها في القرآن الكريم والآيات الكثيرة، وفي ما تحدث به الرسول \"صلوات الله عليه وعلى آله\"، لها هذه الأهمية، لها هذه الثمرة، لها هذه النتيجة، والإهمال لها، والتفريط بها، يترتب عليه خسائر كبيرة جداً، حالة الفرقة والاختلاف عليها وعيدٌ بعذاب الله العظيم، هو أمر رهيب جداً، كل إنسان مؤمن، صادق الإيمان، يسعى إلى نجاة نفسه من عذاب الله العظيم، يترتب عليها الخسائر الكبيرة، والفشل الكبير، على مستوى سعي الناس للقيام بمسؤولياتهم فلا يتمكنون من ذلك، يفشلون في أعمالهم، ينزعجون من بعضهم البعض، وينشغلون ببعضهم البعض، على حساب قضاياهم الكبيرة والعظيمة والمهمة، ومسؤولياتهم المقدسة، الآثار السلبية جداً شنيعة، وفظيعة، وخطيرة، يفتحون ثغرات للشيطان، فيعمل على توسيع الفجوة، على أن يبذر بذور الشقاق والفتنة، ويترتب على ذلك نتائج سيئة جداً من المعاصي والذنوب المتنوعة، والتي سنتحدث عنها- إن شاء الله- على نحوٍ من التفصيل.
أوامر الله \"سبحانه وتعالى\" في القرآن الكريم، التي تتعلق بهذا الموضوع كثيرة، وصريحة، وواضحة، ومؤكدة؛ إنما يبقى الاستجابة، الاستجابة من كل الذين يعتبرون أنفسهم منطلقين على أساس الاستجابة لله، الله يقول في القرآن الكريم: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}[آل عمران: من الآية103]، يرسم لنا الله في القرآن الكريم أرقى مستوى وأعظم نموذج من الوحدة، التي تفوق أي وحدة في واقع المجتمع البشري، هي: الوحدة الإيمانية، التي ننطلق فيها من منطلقاتٍ إيمانية، فنعتصم بحبل الله جميعاً، نلوذ به، تجتمع كلمتنا على أساس هدى الله \"سبحانه وتعالى\"، وتعليماته المباركة، الجامعة، المقدَّسة، العظيمة.
#رمضان 🌙 1443هـ
#محاضرة_السيد_القائد
لمتابعة آخر الأخبار والتقارير على منبر المركز الإعلامي لـ #أنصار_الله في التيليجرام:
https://t.me/AnsarAllahMC
More...
Description:
ـ المحاضرة الرمضانية الـ22 لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 22-رمضان-1443هـ 23-04-2022م
من أهم المبادئ الإسلامية، والفرائض الدينية، والمتطلبات الضرورية لواقع الحياة، وطبيعة المسؤولية، هي: الاعتصام بحبل الله جميعاً، والتوحد، والأخوّة بين المؤمنين، يعتبر هذا المبدأ العظيم فريضةً من فرائض الله \"سبحانه وتعالى\" الإلزامية، التي لابدَّ منها في تحقيق التقوى والالتزام الإيماني، أي: لا يمكن أن يُحسَب الإنسان عند الله من عباده المؤمنين الصادقين، ومن عباد الله المتقين، إذا لم يكن عنده اهتمامٌ وسعيٌ للالتزام بذلك، اهتمامٌ بتنفيذ ذلك، بتحقيق ذلك، وسعيٌ وفق توجيهات الله وتعليماته \"سبحانه وتعالى\".
وهي فريضةٌ ضروريةٌ للقيام بالمسؤوليات الجماعية الإيمانية، الله \"سبحانه وتعالى\" أمرنا بمسؤوليات، نتعاون فيها، نتحرك فيها بشكلٍ جماعي، على مبدأ الأمة الواحدة، ومنها: الجهاد في سبيل الله، والأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر، وإقامة القسط... ومسؤولياتٌ أخرى، وكذلك التعاون على البر والتقوى، كل هذه المسؤوليات الجماعية التي لابدَّ من التحرك فيها على نحوٍ جماعي، وبجهدٍ جماعي منظَّم، لابدَّ فيها من أخوة المؤمنين فيما بينهم، لابدَّ فيها من أن تقوم على أساس مبدأ التوحد.
وكذلك المشروع الإلهي في أساسه هو مشروعٌ جماعي؛ لأن الواقع البشري هو واقعٌ مترابط، والناس يتحركون في إطارٍ جماعيٍ: إمَّا في صف الحق، أو في صف الباطل، وفي أي اتجاهٍ كانوا، المجتمعات البشرية على الأرض هي مجتمعات تتحرك بشكلٍ جماعي، ضمن تكتلات وأطر، منها دول، منها كيانات، منها...إلخ. هذا شيءٌ معروف في الواقع البشري، فالمشروع الإلهي هو في نفسه مشروعٌ جماعيٌ، يجمع ويرسم المسؤوليات الجماعية، التي يتحرك فيها المؤمنون، على أساس القيام بها، والنهوض بها، والتحرك لتنفيذها.
إضافةً إلى ذلك، هو عامل قوة، وهذه مسألةٌ معروفةٌ في الواقع البشري، أنَّ التوحد قوة، وأنَّ التفرق ضعف، والقوة في التوحد قوةٌ في مواجهة الأعداء، قوةٌ في أداء المهام الجماعية، قوةٌ في إنجاز المشاريع الكبرى، قوةٌ في كل ما تحتاج الأمة فيه إلى قوة، قوةٌ في مواجهة التحديات والأخطار، قوةٌ في تحقيق الأهداف العظيمة والكبيرة والمهمة...إلخ. وهذه أيضاً مسألةٌ معروفة.
إضافةً إلى أنَّ التوحد، والتآخي، والتعاون، والتفاهم، والألفة، من أهم عوامل الاستقرار الداخلي، كل أمة تتحرك في واقع الحياة ضمن مسؤولياتها وأهدافها، تحتاج إلى استقرارٍ داخلي يساعدها على النهوض بمسؤولياتها كما ينبغي؛ لتحقق التعاون المطلوب، المبني على الانسجام القائم، والتفاهم القائم.
ثم أيضاً لتتحرك بجهدٍ كبير، بجهدٍ جماعيٍ قوي، يحتاج ذلك كله إلى أن يكون هناك تفاهم، انسجام، تعاون، استقرار داخلي، إذا فقد الاستقرار الداخلي، انشغل الناس أصلاً بالمشاكل التي تتكاثر، فتزعجهم، تؤثر عليهم، انشغالهم بها انشغالٌ تام، على المستوى الذهني، والنفسي، والفكري، وعلى مستوى الاهتمامات العملية، فيؤثر ذلك بشكلٍ مباشر على اهتماماتهم الرئيسية، على أعمالهم المهمة؛ وبالتالي على أهدافهم الكبيرة، وهذه أيضاً من المسائل المعروفة: الاستقرار الداخلي، الذي يؤمنه التوحد، وتؤمنه وتوفره الأخوّة، هو عاملٌ مهمٌ جداً في النجاح، وفي أداء المهام الكبرى، وفي النهوض بالمسؤوليات مهما كان حجمها، وبتحقيق النتائج الكبيرة والعظيمة، وهذه مسألة سنتحدث عنها على نحوٍ من التفصيل بشكلٍ أكثر.
مع كل ذلك، مع اعتبار هذه المسألة فريضة إيمانية، ومبدأً إسلامياً عظيماً ومهماً، ولابدَّ منها في الالتزام الديني وتحقيق التقوى، لابدَّ منها في النهوض بالمسؤوليات الجماعية، ومواجهة التحديات والأخطار، لابدَّ منها في تعزيز وترسيخ الاستقرار الداخلي، أهميتها الكبيرة جداً فيما يترتب عليها من نتائج لأي مجتمع ينطلق على أساسها، مع كل هذا، هي من الفرائض التي لا تحظى بالاهتمام المطلوب على المستوى العملي في الواقع، وتلقى محاربةً شرسةً جداً من الشيطان، وأولياء الشيطان، وقلة اهتمام في واقع المسلمين، إمَّا بشكلٍ عام، أو حتى على المستوى الداخلي لدى المسلمين.
وهذه من المفارقات العجيبة، مسألة بهذه الأهمية في موقعها في القرآن الكريم والآيات الكثيرة، وفي ما تحدث به الرسول \"صلوات الله عليه وعلى آله\"، لها هذه الأهمية، لها هذه الثمرة، لها هذه النتيجة، والإهمال لها، والتفريط بها، يترتب عليه خسائر كبيرة جداً، حالة الفرقة والاختلاف عليها وعيدٌ بعذاب الله العظيم، هو أمر رهيب جداً، كل إنسان مؤمن، صادق الإيمان، يسعى إلى نجاة نفسه من عذاب الله العظيم، يترتب عليها الخسائر الكبيرة، والفشل الكبير، على مستوى سعي الناس للقيام بمسؤولياتهم فلا يتمكنون من ذلك، يفشلون في أعمالهم، ينزعجون من بعضهم البعض، وينشغلون ببعضهم البعض، على حساب قضاياهم الكبيرة والعظيمة والمهمة، ومسؤولياتهم المقدسة، الآثار السلبية جداً شنيعة، وفظيعة، وخطيرة، يفتحون ثغرات للشيطان، فيعمل على توسيع الفجوة، على أن يبذر بذور الشقاق والفتنة، ويترتب على ذلك نتائج سيئة جداً من المعاصي والذنوب المتنوعة، والتي سنتحدث عنها- إن شاء الله- على نحوٍ من التفصيل.
أوامر الله \"سبحانه وتعالى\" في القرآن الكريم، التي تتعلق بهذا الموضوع كثيرة، وصريحة، وواضحة، ومؤكدة؛ إنما يبقى الاستجابة، الاستجابة من كل الذين يعتبرون أنفسهم منطلقين على أساس الاستجابة لله، الله يقول في القرآن الكريم: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}[آل عمران: من الآية103]، يرسم لنا الله في القرآن الكريم أرقى مستوى وأعظم نموذج من الوحدة، التي تفوق أي وحدة في واقع المجتمع البشري، هي: الوحدة الإيمانية، التي ننطلق فيها من منطلقاتٍ إيمانية، فنعتصم بحبل الله جميعاً، نلوذ به، تجتمع كلمتنا على أساس هدى الله \"سبحانه وتعالى\"، وتعليماته المباركة، الجامعة، المقدَّسة، العظيمة.
#رمضان 🌙 1443هـ
#محاضرة_السيد_القائد
لمتابعة آخر الأخبار والتقارير على منبر المركز الإعلامي لـ #أنصار_الله في التيليجرام:
https://t.me/AnsarAllahMC
2:34
|
ناقابلِ یقین انقلاب | امام سید علی خامنہ ای، شہید قاسم سلیمانیؒ | Farsi Sub Urdu
جس وقت ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا، پوری دنیا مشرقی اور مغربی بلاک میں منقسم تھی اور ان دو قوتوں کے...
جس وقت ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا، پوری دنیا مشرقی اور مغربی بلاک میں منقسم تھی اور ان دو قوتوں کے علاوہ کوئی تیسری قوت، موجود نہ تھی اور نہ ہی اس کا تصور کیا جا سکتا تھا۔ ایسے میں \"نہ شرقی اور نہ غربی\" کے نعرے کے ساتھ دنیا کے افق پر بطور مستقل ایک نئے انقلاب کا جنم لینا کسی معجزے سے کم نہیں تھا، جبکہ اس انقلاب کی کامیابی کے لیے بیرونی اور داخلی سطح پر بڑے پیمانے پر مزاحمت اور رکاوٹوں کا بھی سامنا تھا مگر ان تمام موانع اور رکاوٹوں کے باوجود دنیا کے افق پر انقلابِ اسلامی کا سورج طلوع ہو گیا۔
جس وقت دنیا کے منظر نامے میں اسلامی انقلاب رونما ہوا اس وقت بیرونی اور داخلی سطح پر حالات کیسے تھے؟ اور اس انقلاب کے پیچھے وہ طاقتور ہاتھ کس کا تھا جس کی بدولت دنیا کے افق پر یہ عظیم انقلاب معرض وجود میں آیا؟
ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای اور شہید قاسم سلیمانیؒ کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #شہید_قاسم_سلیمانی #انقلاب #قطب #امام_خمینی #مشرق_مغرب #سپر_پاور #تسلط #ایران #ساواک #فوج #فولادی_شخصیت #طاقتور_ہاتھ #ذوالفقاری_زبان
More...
Description:
جس وقت ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا، پوری دنیا مشرقی اور مغربی بلاک میں منقسم تھی اور ان دو قوتوں کے علاوہ کوئی تیسری قوت، موجود نہ تھی اور نہ ہی اس کا تصور کیا جا سکتا تھا۔ ایسے میں \"نہ شرقی اور نہ غربی\" کے نعرے کے ساتھ دنیا کے افق پر بطور مستقل ایک نئے انقلاب کا جنم لینا کسی معجزے سے کم نہیں تھا، جبکہ اس انقلاب کی کامیابی کے لیے بیرونی اور داخلی سطح پر بڑے پیمانے پر مزاحمت اور رکاوٹوں کا بھی سامنا تھا مگر ان تمام موانع اور رکاوٹوں کے باوجود دنیا کے افق پر انقلابِ اسلامی کا سورج طلوع ہو گیا۔
جس وقت دنیا کے منظر نامے میں اسلامی انقلاب رونما ہوا اس وقت بیرونی اور داخلی سطح پر حالات کیسے تھے؟ اور اس انقلاب کے پیچھے وہ طاقتور ہاتھ کس کا تھا جس کی بدولت دنیا کے افق پر یہ عظیم انقلاب معرض وجود میں آیا؟
ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای اور شہید قاسم سلیمانیؒ کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #شہید_قاسم_سلیمانی #انقلاب #قطب #امام_خمینی #مشرق_مغرب #سپر_پاور #تسلط #ایران #ساواک #فوج #فولادی_شخصیت #طاقتور_ہاتھ #ذوالفقاری_زبان
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Enqelab,
Imam,
Imam
Khamenei,
Shahid
Soleimani,
Haj
Qasem,
Iran,
mashreq,
maghreb,
Imam
Khomeini,
Savak,
Pahlavi,
2:17
|
اندرونی طور پر در پیش چیلنجز کا مقابلہ | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
داخلی سطح پر دشمن کی جانب سے ایجاد کئے جانے والے چیلنجز میں جو چیزیں سر فہرست ہیں وہ قومی یکجہتی کو ٹھیس...
داخلی سطح پر دشمن کی جانب سے ایجاد کئے جانے والے چیلنجز میں جو چیزیں سر فہرست ہیں وہ قومی یکجہتی کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ لوگوں کے اندر ناامیدی اور مایوسی کو فروغ دینا ہے، قومی سطح پر ہم آہنگی اوریکجہتی کے فقدان کی صورت میں داخلی سطح پر قوم، اختلاف کا شکار ہوسکتی ہے اور مایوسی کی صورت میں انسان کاہلی اور سستی کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجے میں ملک میں ترقی اور پیشرفت کا تصور ناپید ہوجاتا ہے اور دشمن اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ اس مشکل سے نمٹنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور اس مشکل کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ آئے دیکھئے رہبر انقلاب اسلامی کی اس ویڈیومیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #چیلنجز #اندرونی #اختلافات #یکجہتی #سرخیاں #امام_خمینیؒ #نقشہ #کاہلی #کام #جائزہ #ماہرین
More...
Description:
داخلی سطح پر دشمن کی جانب سے ایجاد کئے جانے والے چیلنجز میں جو چیزیں سر فہرست ہیں وہ قومی یکجہتی کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ لوگوں کے اندر ناامیدی اور مایوسی کو فروغ دینا ہے، قومی سطح پر ہم آہنگی اوریکجہتی کے فقدان کی صورت میں داخلی سطح پر قوم، اختلاف کا شکار ہوسکتی ہے اور مایوسی کی صورت میں انسان کاہلی اور سستی کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجے میں ملک میں ترقی اور پیشرفت کا تصور ناپید ہوجاتا ہے اور دشمن اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ اس مشکل سے نمٹنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور اس مشکل کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ آئے دیکھئے رہبر انقلاب اسلامی کی اس ویڈیومیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #چیلنجز #اندرونی #اختلافات #یکجہتی #سرخیاں #امام_خمینیؒ #نقشہ #کاہلی #کام #جائزہ #ماہرین
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
challenges,
andaroni,
ikhtilafat,
naqsha,
kahili,
jaiza,
muqaabla,
imam
SAYYED
Ali
KHAMENEI,
اندرونی,
چیلنجز,
مقابلہ
,
امام
سید
علی
خامنہ
ای
1:31
|
ملکی سطح پر معیشت کو فروغ دینے کی ضرورت | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ملکی سطح پر پیداوار میں اضافہ کرتےملکی سطح پر پیداوار میں اضافہ کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کی صورت...
ملکی سطح پر پیداوار میں اضافہ کرتےملکی سطح پر پیداوار میں اضافہ کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کی صورت میں جو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ان میں داخلی طور پر جہاں ملک کے شہریوں کو ملازمتیں فراہم ہوسکتی ہیں وہی بیرونی دباو سے بھی ملک محفوظ رہ سکتا ہے اوراستکباری قوتوں کی جانب سے پابندیوں کی صورت میں پابندیوں کا اثر بھی کم سے کم ہوسکتا ہے۔ اسی لئے معیشیت کو ملکی سطح پر استحکام بخشنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کی نوبت نہ آئیں اور ان سے کسی قسم کی وابستگی نہ ہو، کیونکہ اس طرح کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے، استکبار کے ہتھکنڈے ہیں جو ملکوں کی معیشت کو سدھارنے کے لئے نہیں تباہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #امام_سید_علی_خامنہ_ای #معیشت #فروغ #داخلی #غفلت #عالمی_بینک #رکاوٹ #قرضہ #غلطی #ملک #خصوصیات
More...
Description:
ملکی سطح پر پیداوار میں اضافہ کرتےملکی سطح پر پیداوار میں اضافہ کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کی صورت میں جو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ان میں داخلی طور پر جہاں ملک کے شہریوں کو ملازمتیں فراہم ہوسکتی ہیں وہی بیرونی دباو سے بھی ملک محفوظ رہ سکتا ہے اوراستکباری قوتوں کی جانب سے پابندیوں کی صورت میں پابندیوں کا اثر بھی کم سے کم ہوسکتا ہے۔ اسی لئے معیشیت کو ملکی سطح پر استحکام بخشنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کی نوبت نہ آئیں اور ان سے کسی قسم کی وابستگی نہ ہو، کیونکہ اس طرح کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے، استکبار کے ہتھکنڈے ہیں جو ملکوں کی معیشت کو سدھارنے کے لئے نہیں تباہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #امام_سید_علی_خامنہ_ای #معیشت #فروغ #داخلی #غفلت #عالمی_بینک #رکاوٹ #قرضہ #غلطی #ملک #خصوصیات
Video Tags:
ملک,
معیشت,
فروغ,
ضرورت,
امام
خامنہ
ای,
سطح,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Satah,
Mulk,
Maeishat,
Forugh,
Imam
Khamenei,
istihkam,
istitbar,
Rahbar,
Inqulab,
Islam,
43:43
|
پاکستان کے داخلی حالات - H.I. Ameen Shaheedi - Hamari Nigah [Al-Balagh Studio] - Urdu
The guest of this discussion is:
Deputy Secretary Majlis e Wahdat e Muslimeen (MWM), H.I. Ameen Shaheedi.
Date of the program 28 May 2011.
"Hamari Nigah" is a series of...
The guest of this discussion is:
Deputy Secretary Majlis e Wahdat e Muslimeen (MWM), H.I. Ameen Shaheedi.
Date of the program 28 May 2011.
"Hamari Nigah" is a series of talk shows in which our respected guests present their points of view about current affairs. The purpose of this discussion is to educate masses and make them aware of the happenings in their surroundings.
More...
Description:
The guest of this discussion is:
Deputy Secretary Majlis e Wahdat e Muslimeen (MWM), H.I. Ameen Shaheedi.
Date of the program 28 May 2011.
"Hamari Nigah" is a series of talk shows in which our respected guests present their points of view about current affairs. The purpose of this discussion is to educate masses and make them aware of the happenings in their surroundings.
[Quds Day 2011] Arabic - Sayyed Hasan Nasrallah Speech - August 2011 1432 A.H. Beirut Lebanon
[Arabic - Al-Quds Day] Hizballah General Secretary Sayyed Hasan Nasrallah Speech - August 2011 1432 A.H. Beirut Lebanon - Arabic
السيد نصر الله: لبنان اصبح مأزقا...
[Arabic - Al-Quds Day] Hizballah General Secretary Sayyed Hasan Nasrallah Speech - August 2011 1432 A.H. Beirut Lebanon - Arabic
السيد نصر الله: لبنان اصبح مأزقا لاسرائيل.. وسيأتي يوم نصلي فيه في الأقصى
محرر الموقع
أكد الامين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله أنه يوما بعد يوم يؤكد الشعب الفلسطيني أن خياره لتحرير أرضه هو المقاومة. ولفت الى ان "العملية النوعية التي حصلت قبل أيام في إيلات والتي هزت الكيان الغاصب وقيادته ما هي إلا دليل على خيار الشعب الفلسطيني بالمقاومة وهو الخيار الذي اختاره هذا الشعب بإراته من دون أن يدفعه أحد إليه"، ودعا "العرب والمسلمين الى دعم خيار الشعب الفلسطيني في المقاومة لتحرير أرضه"، مؤكدا ان "كل التحولات التي تجري في المنطقة الآن هامة جدا وتصب لمصلحة القضية الفلسطينية".
ونبه السيد نصر الله "لما تتعرض له القدس المحتلة من عمليات تهويد ولما تتعرض له من خطر التهديم والسعي الاسرائيلي لتهجير أهلها وبناء مستوطنات ومعابد يهودية هناك"، وأشار الى ان "هناك مسؤوليات يجب أن تتحملها دول وشعوب عالمنا العربي والاسلامي وجامعة الدول الاسلامي ومنظمة المؤتمر الاسلامي لحماية القدس وأهلها من المخاطر الاسرائيلية التي تتعرض لها المدينة المقدسة"، وشدد على انه "لا يجب التنازل عن اية حبة تراب ولا نقطة ماء في فلسطين ولا حتى التنازل عن أي حق من حقوق فلسطين النفطية وغيرها كما لا يجوز لاحد التنازل عنها أو حتى تفويض أحد للتنازل عنها".
وقال السيد نصر الله في كلمة له خلال الاحتفال الذي أقامه حزب الله الجمعة في بلدة مارون الرأس الجنوبية الحدودية مع فلسطين المحتلة بمناسبة "يوم القدس العالمي" إن "إقامة دولة فلسطينية على حدود 1967 هو شأن داخلي يقرره الشعب الفلسطيني لكن بما لا يؤدي الى التنازل عن حقوق الشعب الفلسطيني"، وأكد على "إقامة دولة فلسطين في يوم من الايام على كل أرض فلسطين من البحر الى النهر"، واضاف انه "في هذا اليوم يجب استذكار شهداء فلسطين والاسرى الفلسطنيين وكذلك اللاجئين الفلسطينيين والحفاظ على حق العودة الى ديارهم"، ولفت الى ان "كل هذه المشكلات التي يعاني منها الشعب الفلسطيني سببها الاحتلال وبدل معالجة المشكلات الطارئة يجب معالجة المشكلة الاساسية المتمثلة بالاحتلال الاسرائيلي"، وتابع انه "لو عالجنا السبب الحقيقي وهو الاحتلال لاستطعنا معالجة المشكلات الناتجة عنه من اسرى وإقامة دولة ونهب خيرات وغيرها"، مشددا على أن "الاحتلال هو سبب مآسي المنطقة كلها وليس فقط مآساة فلسطين".
وشدد السيد نصر الله على انه "سوف يأتي الزمان الذي لن تقفوا فيه فقط عند مارون الرأس لتنشق رائحة فلسطين بل سوف تتنشقون رائحتها من فلسطين وسيأتي اليوم لنصلي في المسجد الاقصى وكنيسة المهد ولبنان يكون حاضرا عندها بحماية المقاومة"، وأكد مخاطبا "أهل الصمود والمقاومة باسمكم جميعا وباسم كل المقاومين وشرفاء هذه الامة اقول لكم وللجنود الصهاينة المستنفرين مقابلتكم أن هذه الارض الطيبة ستعود لارضها"، وختم "هذه مشيئة الله والمقاومين فهؤلاء المؤمنون اليوم داخل فلسطين ومصر والاردن ولبنان وكل عالمنا العربي والاسلامي يتهيأون لليوم الذي يستعيدون فيه الارض والقدس والمقدسات".
وذكر السيد نصر الله الى انه "تم إختيار مارون الراس لاحياء يوم القدس العالنمي هو لما لهذا المكان من دلالة في المواجهة مع العدو وفي التضحيات التي قدمها الشعب اللبناني والبطولات التي قدمها المجاهدون خصوصا في حرب تموز 2006 بالاضافة الى تضحيات الجيش اللبناني"، وأضاف أن "هذه التضحيات جعلت من بعض الأماكن رموزا ومنها مارون الراس لموقعها ولما قدمته بالاضافة الى ما شهدته خلال يوم النكبة من تظاهرة شبابية حاشدة أكدت أنه لا يمكن أن تصبح فلسطين قضية منسية كما قدم العديد من الشهداء في ذلك اليوم على طريق تحرير فلسطين".
ولفت السيد نصر الله الى "ما تشهده مصر في هذه الايام من وقفة رسمية وشعبية أيا يكن حجمها وحجم التوقعات منها هي مؤشر على مرحلة جديدة في مصر"، واضاف انه "لو كانت قيادة مبارك هي القائمة لكان رد الفعل مختلفا والغضب المصري الرسمي سيحل على الفلسطينيين ويحملهم تبعات عملية إيلات"، وأشار الى انه "هناك فرق بين تحذير مصر لاسرائيل من ضرب غزة او ان تغطي عدوان غزة هناك فرق ان يتظاهر المصريون وينزعون العلم الاسرائيلي او ان يوجه الرصاض الى صدورهم"، وأوضخ انه "عندما تتحرك مصر يعني هناك تحول استراتيجي في المنطقة"، واضاف "تحركت مصر قليلا فاهتزّت اسرائيل ونتانياهو قال لا نستطيع ان نذهب الى عملية برية واسعة ضد غزة لان هذا سيؤثر على علاقتنا مع مصر"، وتابع "نراهن ان يتبدل الموقف المصري نتيجة اصالة الشعب المصري".
وفي الشأن الليبي، قال السيد نصر الله إنه "لا شك ان نظام القذافي ارتكب الكثير من الجرائم والأخطاء بحق شعبه والقضية الفلسطينية ومن جملة جرائمه إحتجاز الامام السيد موسى الصدر ورفيقيه"، وأكد أن "هذه الجريمة ارتُكبت خدمة للمشروع الاسرائيلي لان كلنا يعرف ماذا يعني موسى الصدر للمقاومة وللقضية الفلسطينية وبعد إختطافه حصل كل ما جرى بعد إحتجازه وهذه من النتائج التي كانت تستهدف المقاومة"، واشار الى ان "هذه اكبر جريمة ارتكبت ضد المقاومة وفلسطين فلو قدر للامام الصدر ان يبقى لكانت هناك تحولات كبرى للمقاومة والقضية الفلسطينية"، ودعا "الثوار في ليبيا ان يضعوا حدا نهائيا لهذه القضية الانسانية"، وأمل ان "يعود الامام ورفيقاه الى لبنان احياء".
ولفت السيد نصر الله الى ان "من جرائم نظام القذافي انه اخذ ليبيا بعيدا عن فلسطين وتنكر لقضيتها"، وتابع ان "المرجو اليوم ان يعيدوا ليبيا الى فلسطين والعالم العربي"، وشدد على انه "لا يمكن لشعب قاوم الاحتلال وقدم مئات آلاف الشهداء الا ان يعود الى فلسطين لتكون حاضرة قوية في سياسته وخطته"، ونبه على "ضرورة ان يحافظ الشعب الليبي على سيادة بلده وإستقلاقله أمام الهجمة الاميركية المتوقعة عليه".
وحول الوضع السوري، لفت السيد نصر الله الى "حقيقة موقع سورية والقيادة السورية في الصراع العربي الاسرائيلي والقضية الفلسطينية"، وأشار الى "تمسك القيادة والشعب والجيش في سورية بالحقوق السورية وتمسك هذه القيادة بالحقوق العربية مقابل كل الضغوط الدولية والغربية خلال العقود الماضية"، واضاف انه "لو ضعفت القيادة السورية في يوم من الايام أمام الضغوط الغربية لكانت التسوية في المنطقة سارت وضاعت قضية فلسطين"، وأكد أن "القيادة السورية لها فضل في صيانة القضية الفلسطينية ومنع تصفيتها وبقاء هذا الموقف السوري شرط اساسي لبقاء القضية الفلسطينية"، وشدد على انه "لولا وقوف سورية الى جانب المقاومة في لبنان وفلسطين ودعمها لها لما كانت الارض اللبنانية المحتلة لتتحرر فالمقاومة ما كانت لتنتصر لولا الدعم السوري".
وأكد السيد نصر الله ان "قيادات حركات المقاومة الفلسطينية في غزة يعرفون فضل القيادة السورية لتصمد غزة رغم ان هذا الاداء للقيادة السورية كان دائما يستجلب المزيد من الضغوط عليها"، واضاف "كلنا يؤيد الحاجة الى اصلاحات كبيرة وهامة في سورية لتتطور وتصبح افضل نتيجة موقعها الهام في المنطقة"، ورأى انه "يجب أن يعمل كل من يدعي الصداقة والحرص على سورية ووحدتها أن تتضافر الجهود لتهدئة الأوضاع في سورية ولدفع الامور إلى الحوار والمعالجة السلمية"، ولفت إلى أن "من يطالبون بتدخل الناتو في سورية يريدون جرها إلى الحرب فقوتها أنها كانت محكومة بالشعور القومي ويريدونها ان تصبح كلبنان طائفية متناحرة"، محذرا ان "هناك من يحيي النعرات ويحرض طائفيا في سورية لانه يريد تدميرها واساقط موقعها كما يريد ان يدفعها الى التقسيم خدمة لمشروع الشرق الاوسط الجديد الذي مزقناه في لبنان وغزة".
وقال السيد نصر الله إن "اميركا والغرب يريدون من القيادة السورية تنازلات لا اصلاحات"، وتابع "هناك دولا اخرى بالعالم محكومة بديكتاتوريات قاسية ولا مساحة فيها للديمقراطية ولكنها تحظى بدعم وتأييد اميركا وفرنسا والغرب"، مشيرا الى ان "المسألة ليست مسألة اصلاحات ويجب ان نقف مع سورية كي لا تتنازل وكي تتمكن من تحقيق الاصلاحات براحة وطمأنينة وثقة".
وفي الشأن اللبناني، أكد السيد نصر الله أن "موقع لبنان اليوم أصبح مختلفا عما كان في الماضي"، ولفت الى انه "كان هناك خشية لدى اللبنانيين أن اي حل في المنطقة يكون على حساب لبنان لانه الحلقة الاضعف"، وشدد على ان "لبنان لم يعد الحلقة الأضعف في هذه المنطقة ولن يأتي يوم يعود كذلك فلبنان القوي يحمي سيادته وإستقلاله"، وأضاف أنه "عندما يتحدث البعض عن مخاوف التوطين فلو كان لبنان ضعيفا لحصل التوطين"، وتابع "اما لو جاء العالم كله ولبنان القوي رفض التوطين ومعه الفلسطينيين فلا أحد يستطيع فرضه على اللبنانيين والفلسطينيين"، موضحا ان "دماء الفلسطينين في مارون الرأس يؤكد انهم يرفضون التوطين واللبنانيون لو كانوا ملتفين حول معادلة الشعب والمقاومة والجيش لن يحصل توطين"، مؤكدا "لن نسمح بحصول التوطين ولو تآمر البعض لحصوله فلن يكون هناك حل على حساب لبنان".
ولفت السيد نصر الله الى انه "دائما كان يخشى من تنفيس الاحتقان الاقليمي في لبنان ولكن هذا الامر انتهى اليوم"، وأكد ان "لبنان اصبح مأزقا لاسرائيل تهرب منه وفخا لها تقع فيه لا تنصبه لاحد"، وأشار الى ان "معادلة الجيش والشعب والمقاومة هي من فرضت هذا الواقع وفي يوم القدس مسؤولية اللبنانيين المحافظة على هذه المعادلة من اجل لبنان وفلسطين والقدس"، منبها ان "هناك من يعمل في الخارج ومن يساعده في الداخل كجزء من مكينة يديرها الخارج الاميركي والاسرائيلي لضرب هذه المعادلة وتفكيكها واستهداف كل منها واذا امكن ضربها ببعض من خلال بث الفن فيما بينهم".
واشار السيد نصر الله الى انه "بعد الفشل في الاستهدافات العسكرية والامنية للمقاومة كان هناك سيل من الاتهامات والاستهداف وصل الى المحكمة الدولية"، وأضاف "كنت قد علقت على القرار الاتهامي الذي صدر عن المحكمة ثم عُقد مؤتمر قانوني سياسي وآخر فني عن الاتصالات ناقشا قيمة ما ورد في هذا القرار ويوما بعد يوم يتكشف كم المحكمة مسيسة ولماذا انشئت وكيف شُكلت وكيف وضع قانونها وكيف يتم العمل فيها وكيف ترفض اي قرينة او شاهد على اتهام اسرائيل"، وأوضح أنه "عندما اخرج انا واخواني لنشرح ونوضح حقيقة هذه المحكمة لا نهدف لاقناع الادارة الاميركية ولا بلمار ولا كاسيزي ولا بعض الشخصيات في لبنان بذلك فهؤلاء ركبوا المشروع ويسيرون فيه انما نحاكي الرأي العام الذي نراهن على مساندته المقاومة وادراكه لهذه المؤامرة"، وشدد على ان "المقاومة ستتجاوز هذه المؤامرة الجديدة وما صدر عن المحكمة لا قيمة له والمتهمين من المقاومة هم مظلومون ويتحملون تبعات انتصار المقاومة".
وانتقد السيد نصر الله "وجود قوى داخلية تعمل على محاصرة الحكومة والدولة والجيش اللبناني واستهدافه"، وسأل "هؤلاء مع من يتلاقون عندما يقومون بذلك وعندما يحرضون على الجيش ويدعون ضباطه الى التمرد لمصلحة من ذلك؟ هل لمصلحة لبنان؟ أم لمصلحة فلسطين؟ أم لمصلحة المقاومة؟"، واضاف اليس ضرب هذا النسيج الوطني من خلال التحريض الطائفي والمذهبي يؤدي الى ضرب وحدة الشعب لمصلحة من ذلك"، ورفض "الطعن بالجيش الذي هو المؤسسة الوطنية الضامنة للسلم الاهلي والعيش المشترك"، وتابع "انا لا اتهم أحدا بالعمالة لكن من مسؤولية الشعب اللبناني الحفاظ على الجيش والمقاومة وكل من يحرض على الجيش ويتحدث بلغة طائفية يخدم إسرائيل من حيث يعلم أم لا يعلم".
وشدد السيد نصر الله على انه "سوف يأتي الزمان الذي لن تقفوا فيه فقط عند مارون الرأس لتنشق رائحة فلسطين بل سوف تتنشقون رائحتها من فلسطين وسيأتي اليوم لنصلي في المسجد الاقصى وكنيسة المهد ولبنان يكون حاضرا عندها بحماية المقاومة"، وأكد مخاطبا "أهل الصمود والمقاومة باسمكم جميعا وباسم كل المقاومين وشرفاء هذه الامة اقول لكم وللجنود الصهاينة المستنفرين مقابلتكم أن هذه الارض الطيبة ستعود لارضها"، وختم "هذه مشيئة الله والمقاومين فهؤلاء المؤمنين اليوم داخل فلسطين ومصر والاردن ولبنان وكل عالمنا العربي والاسلامي يتهيأون لليوم الذي يستعيدون فيه الارض والقدس والمقدسات".
More...
Description:
[Arabic - Al-Quds Day] Hizballah General Secretary Sayyed Hasan Nasrallah Speech - August 2011 1432 A.H. Beirut Lebanon - Arabic
السيد نصر الله: لبنان اصبح مأزقا لاسرائيل.. وسيأتي يوم نصلي فيه في الأقصى
محرر الموقع
أكد الامين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله أنه يوما بعد يوم يؤكد الشعب الفلسطيني أن خياره لتحرير أرضه هو المقاومة. ولفت الى ان "العملية النوعية التي حصلت قبل أيام في إيلات والتي هزت الكيان الغاصب وقيادته ما هي إلا دليل على خيار الشعب الفلسطيني بالمقاومة وهو الخيار الذي اختاره هذا الشعب بإراته من دون أن يدفعه أحد إليه"، ودعا "العرب والمسلمين الى دعم خيار الشعب الفلسطيني في المقاومة لتحرير أرضه"، مؤكدا ان "كل التحولات التي تجري في المنطقة الآن هامة جدا وتصب لمصلحة القضية الفلسطينية".
ونبه السيد نصر الله "لما تتعرض له القدس المحتلة من عمليات تهويد ولما تتعرض له من خطر التهديم والسعي الاسرائيلي لتهجير أهلها وبناء مستوطنات ومعابد يهودية هناك"، وأشار الى ان "هناك مسؤوليات يجب أن تتحملها دول وشعوب عالمنا العربي والاسلامي وجامعة الدول الاسلامي ومنظمة المؤتمر الاسلامي لحماية القدس وأهلها من المخاطر الاسرائيلية التي تتعرض لها المدينة المقدسة"، وشدد على انه "لا يجب التنازل عن اية حبة تراب ولا نقطة ماء في فلسطين ولا حتى التنازل عن أي حق من حقوق فلسطين النفطية وغيرها كما لا يجوز لاحد التنازل عنها أو حتى تفويض أحد للتنازل عنها".
وقال السيد نصر الله في كلمة له خلال الاحتفال الذي أقامه حزب الله الجمعة في بلدة مارون الرأس الجنوبية الحدودية مع فلسطين المحتلة بمناسبة "يوم القدس العالمي" إن "إقامة دولة فلسطينية على حدود 1967 هو شأن داخلي يقرره الشعب الفلسطيني لكن بما لا يؤدي الى التنازل عن حقوق الشعب الفلسطيني"، وأكد على "إقامة دولة فلسطين في يوم من الايام على كل أرض فلسطين من البحر الى النهر"، واضاف انه "في هذا اليوم يجب استذكار شهداء فلسطين والاسرى الفلسطنيين وكذلك اللاجئين الفلسطينيين والحفاظ على حق العودة الى ديارهم"، ولفت الى ان "كل هذه المشكلات التي يعاني منها الشعب الفلسطيني سببها الاحتلال وبدل معالجة المشكلات الطارئة يجب معالجة المشكلة الاساسية المتمثلة بالاحتلال الاسرائيلي"، وتابع انه "لو عالجنا السبب الحقيقي وهو الاحتلال لاستطعنا معالجة المشكلات الناتجة عنه من اسرى وإقامة دولة ونهب خيرات وغيرها"، مشددا على أن "الاحتلال هو سبب مآسي المنطقة كلها وليس فقط مآساة فلسطين".
وشدد السيد نصر الله على انه "سوف يأتي الزمان الذي لن تقفوا فيه فقط عند مارون الرأس لتنشق رائحة فلسطين بل سوف تتنشقون رائحتها من فلسطين وسيأتي اليوم لنصلي في المسجد الاقصى وكنيسة المهد ولبنان يكون حاضرا عندها بحماية المقاومة"، وأكد مخاطبا "أهل الصمود والمقاومة باسمكم جميعا وباسم كل المقاومين وشرفاء هذه الامة اقول لكم وللجنود الصهاينة المستنفرين مقابلتكم أن هذه الارض الطيبة ستعود لارضها"، وختم "هذه مشيئة الله والمقاومين فهؤلاء المؤمنون اليوم داخل فلسطين ومصر والاردن ولبنان وكل عالمنا العربي والاسلامي يتهيأون لليوم الذي يستعيدون فيه الارض والقدس والمقدسات".
وذكر السيد نصر الله الى انه "تم إختيار مارون الراس لاحياء يوم القدس العالنمي هو لما لهذا المكان من دلالة في المواجهة مع العدو وفي التضحيات التي قدمها الشعب اللبناني والبطولات التي قدمها المجاهدون خصوصا في حرب تموز 2006 بالاضافة الى تضحيات الجيش اللبناني"، وأضاف أن "هذه التضحيات جعلت من بعض الأماكن رموزا ومنها مارون الراس لموقعها ولما قدمته بالاضافة الى ما شهدته خلال يوم النكبة من تظاهرة شبابية حاشدة أكدت أنه لا يمكن أن تصبح فلسطين قضية منسية كما قدم العديد من الشهداء في ذلك اليوم على طريق تحرير فلسطين".
ولفت السيد نصر الله الى "ما تشهده مصر في هذه الايام من وقفة رسمية وشعبية أيا يكن حجمها وحجم التوقعات منها هي مؤشر على مرحلة جديدة في مصر"، واضاف انه "لو كانت قيادة مبارك هي القائمة لكان رد الفعل مختلفا والغضب المصري الرسمي سيحل على الفلسطينيين ويحملهم تبعات عملية إيلات"، وأشار الى انه "هناك فرق بين تحذير مصر لاسرائيل من ضرب غزة او ان تغطي عدوان غزة هناك فرق ان يتظاهر المصريون وينزعون العلم الاسرائيلي او ان يوجه الرصاض الى صدورهم"، وأوضخ انه "عندما تتحرك مصر يعني هناك تحول استراتيجي في المنطقة"، واضاف "تحركت مصر قليلا فاهتزّت اسرائيل ونتانياهو قال لا نستطيع ان نذهب الى عملية برية واسعة ضد غزة لان هذا سيؤثر على علاقتنا مع مصر"، وتابع "نراهن ان يتبدل الموقف المصري نتيجة اصالة الشعب المصري".
وفي الشأن الليبي، قال السيد نصر الله إنه "لا شك ان نظام القذافي ارتكب الكثير من الجرائم والأخطاء بحق شعبه والقضية الفلسطينية ومن جملة جرائمه إحتجاز الامام السيد موسى الصدر ورفيقيه"، وأكد أن "هذه الجريمة ارتُكبت خدمة للمشروع الاسرائيلي لان كلنا يعرف ماذا يعني موسى الصدر للمقاومة وللقضية الفلسطينية وبعد إختطافه حصل كل ما جرى بعد إحتجازه وهذه من النتائج التي كانت تستهدف المقاومة"، واشار الى ان "هذه اكبر جريمة ارتكبت ضد المقاومة وفلسطين فلو قدر للامام الصدر ان يبقى لكانت هناك تحولات كبرى للمقاومة والقضية الفلسطينية"، ودعا "الثوار في ليبيا ان يضعوا حدا نهائيا لهذه القضية الانسانية"، وأمل ان "يعود الامام ورفيقاه الى لبنان احياء".
ولفت السيد نصر الله الى ان "من جرائم نظام القذافي انه اخذ ليبيا بعيدا عن فلسطين وتنكر لقضيتها"، وتابع ان "المرجو اليوم ان يعيدوا ليبيا الى فلسطين والعالم العربي"، وشدد على انه "لا يمكن لشعب قاوم الاحتلال وقدم مئات آلاف الشهداء الا ان يعود الى فلسطين لتكون حاضرة قوية في سياسته وخطته"، ونبه على "ضرورة ان يحافظ الشعب الليبي على سيادة بلده وإستقلاقله أمام الهجمة الاميركية المتوقعة عليه".
وحول الوضع السوري، لفت السيد نصر الله الى "حقيقة موقع سورية والقيادة السورية في الصراع العربي الاسرائيلي والقضية الفلسطينية"، وأشار الى "تمسك القيادة والشعب والجيش في سورية بالحقوق السورية وتمسك هذه القيادة بالحقوق العربية مقابل كل الضغوط الدولية والغربية خلال العقود الماضية"، واضاف انه "لو ضعفت القيادة السورية في يوم من الايام أمام الضغوط الغربية لكانت التسوية في المنطقة سارت وضاعت قضية فلسطين"، وأكد أن "القيادة السورية لها فضل في صيانة القضية الفلسطينية ومنع تصفيتها وبقاء هذا الموقف السوري شرط اساسي لبقاء القضية الفلسطينية"، وشدد على انه "لولا وقوف سورية الى جانب المقاومة في لبنان وفلسطين ودعمها لها لما كانت الارض اللبنانية المحتلة لتتحرر فالمقاومة ما كانت لتنتصر لولا الدعم السوري".
وأكد السيد نصر الله ان "قيادات حركات المقاومة الفلسطينية في غزة يعرفون فضل القيادة السورية لتصمد غزة رغم ان هذا الاداء للقيادة السورية كان دائما يستجلب المزيد من الضغوط عليها"، واضاف "كلنا يؤيد الحاجة الى اصلاحات كبيرة وهامة في سورية لتتطور وتصبح افضل نتيجة موقعها الهام في المنطقة"، ورأى انه "يجب أن يعمل كل من يدعي الصداقة والحرص على سورية ووحدتها أن تتضافر الجهود لتهدئة الأوضاع في سورية ولدفع الامور إلى الحوار والمعالجة السلمية"، ولفت إلى أن "من يطالبون بتدخل الناتو في سورية يريدون جرها إلى الحرب فقوتها أنها كانت محكومة بالشعور القومي ويريدونها ان تصبح كلبنان طائفية متناحرة"، محذرا ان "هناك من يحيي النعرات ويحرض طائفيا في سورية لانه يريد تدميرها واساقط موقعها كما يريد ان يدفعها الى التقسيم خدمة لمشروع الشرق الاوسط الجديد الذي مزقناه في لبنان وغزة".
وقال السيد نصر الله إن "اميركا والغرب يريدون من القيادة السورية تنازلات لا اصلاحات"، وتابع "هناك دولا اخرى بالعالم محكومة بديكتاتوريات قاسية ولا مساحة فيها للديمقراطية ولكنها تحظى بدعم وتأييد اميركا وفرنسا والغرب"، مشيرا الى ان "المسألة ليست مسألة اصلاحات ويجب ان نقف مع سورية كي لا تتنازل وكي تتمكن من تحقيق الاصلاحات براحة وطمأنينة وثقة".
وفي الشأن اللبناني، أكد السيد نصر الله أن "موقع لبنان اليوم أصبح مختلفا عما كان في الماضي"، ولفت الى انه "كان هناك خشية لدى اللبنانيين أن اي حل في المنطقة يكون على حساب لبنان لانه الحلقة الاضعف"، وشدد على ان "لبنان لم يعد الحلقة الأضعف في هذه المنطقة ولن يأتي يوم يعود كذلك فلبنان القوي يحمي سيادته وإستقلاله"، وأضاف أنه "عندما يتحدث البعض عن مخاوف التوطين فلو كان لبنان ضعيفا لحصل التوطين"، وتابع "اما لو جاء العالم كله ولبنان القوي رفض التوطين ومعه الفلسطينيين فلا أحد يستطيع فرضه على اللبنانيين والفلسطينيين"، موضحا ان "دماء الفلسطينين في مارون الرأس يؤكد انهم يرفضون التوطين واللبنانيون لو كانوا ملتفين حول معادلة الشعب والمقاومة والجيش لن يحصل توطين"، مؤكدا "لن نسمح بحصول التوطين ولو تآمر البعض لحصوله فلن يكون هناك حل على حساب لبنان".
ولفت السيد نصر الله الى انه "دائما كان يخشى من تنفيس الاحتقان الاقليمي في لبنان ولكن هذا الامر انتهى اليوم"، وأكد ان "لبنان اصبح مأزقا لاسرائيل تهرب منه وفخا لها تقع فيه لا تنصبه لاحد"، وأشار الى ان "معادلة الجيش والشعب والمقاومة هي من فرضت هذا الواقع وفي يوم القدس مسؤولية اللبنانيين المحافظة على هذه المعادلة من اجل لبنان وفلسطين والقدس"، منبها ان "هناك من يعمل في الخارج ومن يساعده في الداخل كجزء من مكينة يديرها الخارج الاميركي والاسرائيلي لضرب هذه المعادلة وتفكيكها واستهداف كل منها واذا امكن ضربها ببعض من خلال بث الفن فيما بينهم".
واشار السيد نصر الله الى انه "بعد الفشل في الاستهدافات العسكرية والامنية للمقاومة كان هناك سيل من الاتهامات والاستهداف وصل الى المحكمة الدولية"، وأضاف "كنت قد علقت على القرار الاتهامي الذي صدر عن المحكمة ثم عُقد مؤتمر قانوني سياسي وآخر فني عن الاتصالات ناقشا قيمة ما ورد في هذا القرار ويوما بعد يوم يتكشف كم المحكمة مسيسة ولماذا انشئت وكيف شُكلت وكيف وضع قانونها وكيف يتم العمل فيها وكيف ترفض اي قرينة او شاهد على اتهام اسرائيل"، وأوضح أنه "عندما اخرج انا واخواني لنشرح ونوضح حقيقة هذه المحكمة لا نهدف لاقناع الادارة الاميركية ولا بلمار ولا كاسيزي ولا بعض الشخصيات في لبنان بذلك فهؤلاء ركبوا المشروع ويسيرون فيه انما نحاكي الرأي العام الذي نراهن على مساندته المقاومة وادراكه لهذه المؤامرة"، وشدد على ان "المقاومة ستتجاوز هذه المؤامرة الجديدة وما صدر عن المحكمة لا قيمة له والمتهمين من المقاومة هم مظلومون ويتحملون تبعات انتصار المقاومة".
وانتقد السيد نصر الله "وجود قوى داخلية تعمل على محاصرة الحكومة والدولة والجيش اللبناني واستهدافه"، وسأل "هؤلاء مع من يتلاقون عندما يقومون بذلك وعندما يحرضون على الجيش ويدعون ضباطه الى التمرد لمصلحة من ذلك؟ هل لمصلحة لبنان؟ أم لمصلحة فلسطين؟ أم لمصلحة المقاومة؟"، واضاف اليس ضرب هذا النسيج الوطني من خلال التحريض الطائفي والمذهبي يؤدي الى ضرب وحدة الشعب لمصلحة من ذلك"، ورفض "الطعن بالجيش الذي هو المؤسسة الوطنية الضامنة للسلم الاهلي والعيش المشترك"، وتابع "انا لا اتهم أحدا بالعمالة لكن من مسؤولية الشعب اللبناني الحفاظ على الجيش والمقاومة وكل من يحرض على الجيش ويتحدث بلغة طائفية يخدم إسرائيل من حيث يعلم أم لا يعلم".
وشدد السيد نصر الله على انه "سوف يأتي الزمان الذي لن تقفوا فيه فقط عند مارون الرأس لتنشق رائحة فلسطين بل سوف تتنشقون رائحتها من فلسطين وسيأتي اليوم لنصلي في المسجد الاقصى وكنيسة المهد ولبنان يكون حاضرا عندها بحماية المقاومة"، وأكد مخاطبا "أهل الصمود والمقاومة باسمكم جميعا وباسم كل المقاومين وشرفاء هذه الامة اقول لكم وللجنود الصهاينة المستنفرين مقابلتكم أن هذه الارض الطيبة ستعود لارضها"، وختم "هذه مشيئة الله والمقاومين فهؤلاء المؤمنين اليوم داخل فلسطين ومصر والاردن ولبنان وكل عالمنا العربي والاسلامي يتهيأون لليوم الذي يستعيدون فيه الارض والقدس والمقدسات".
32:40
|
[8Sep11] دیدار رئیس و اعضای مجلس خبرگان Members of Assembly of Experts - Farsi
Vali Amr Muslimeen Ayatullah Sayyed Ali Khamenei meets with the members of Assembly of experts.
دیدار رئیس و اعضای مجلس خبرگان با رهبر انقلاب...
Vali Amr Muslimeen Ayatullah Sayyed Ali Khamenei meets with the members of Assembly of experts.
دیدار رئیس و اعضای مجلس خبرگان با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=17222
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح روز 17 شهریور 1390، در دیدار رئیس و اعضای مجلس خبرگان، با اشاره به اقدام تاریخی و بیسابقه امام خمینی رضواناللهتعالیعلیه در تشكیل نظام سیاسی مبتنی بر فقه اسلامی، به تبیین چالش ظاهری میان حفظ هویت و اصول نظام با تحقق نیافتن برخی اهداف مادی و معنوی پرداختند و ضمن تشریح معنای صحیح ولایت مطلقه فقیه و تأكید بر لزوم تصحیح و تكمیل مستمر مسیر حركت نظام افزودند: حوادث بسیار عظیمی در منطقه در حال رخ دادن است كه باید با تبیین دقیق و صحیح مفهوم مردمسالاری دینی برای ملتهای مسلمان، خلاء موجود را در زمینه جهتگیری آینده این حوادث، پُر كرد.
ایشان، با اشاره به سابقه بسیار دیرین فقه سیاسی در فقه شیعه خاطرنشان كردند: با وجود این سابقه عریق و ریشهدار، نظام سازی بر اساس فقه اسلامی تا قبل از امام راحل عظیمالشأن سابقه نداشته است و آن بزرگوار، اول كسی است كه در مقام نظر و عمل، یك نظام سیاسی را بر مبنای مردمسالاری دینی و ولایت فقیه، مطرح و ایجاد كرد.
حضرت آیتالله خامنهای پس از بیان اهمیت بیبدیل و تاریخساز اقدام امام خمینی رضواناللهتعالیعلیه در نظامسازی سیاسی، افزودند: تحقق اهداف كلان مادی و معنوی این نظام، بطور طبیعی به زمان طولانی نیاز دارد و به همین علت، در كوتاهمدت و میانمدت ممكن است این تصور در ذهن برخی پیش آید كه حفظ و پایبندی به اصول و مبانی نظام، مانع از دسترسی به پیشرفت و محقق شدن اهداف شده است.
رهبر انقلاب اسلامی در تبیین نگاه صحیح به این چالش بزرگ، به صبر پُر عظمت امام در تحمل فشارها و دشواریها اشاره كردند و افزودند: امام، هیچگاه چه در مسائل داخلی و چه در مسائل خارجی از مبانی و اصول، كوتاه نیامد و ضمن پیگیری اهداف، همواره به هویت نظام، كاملاً وفادار بود.
حضرت آیتالله خامنهای، پیگیری توأمان هر دو طرف این چالش، یعنی حفظ هویت نظام و دستیابی به پیشرفتهای مادی و معنوی را راه حل مسئله دانستند و خاطرنشان كردند: باید این واقعیت را یك اصل مهم و قطعی دانست كه حفظ اصول نظام و پیشرفت و تعالی كشور، همجهت و سازگارند و نباید بخاطر برخی مشكلات به قناعت حداقلی اكتفا كرد و از اصول كوتاه آمد.
ایشان، حفظ هویت نظام و پیگیری همزمان روند تحقق اهداف مادی، علمی، فرهنگی، اقتصادی، سیاسی و اجتماعی را كاری مهم، پیچیده و سخت برشمردند و خاطرنشان كردند: پیشرفتهای امروز كشور كه در سایه حفظ اصول بدست آمده با وضع ایران در اول انقلاب قابل مقایسه نیست و این حقیقت نیز نشان میدهد كه پیشرفت و تعالی جامعه، با حفظ اصول و هویت نظام امكانپذیر است، ضمن این كه نصرت الهی نیز تنها در پرتو وفاداری به مبانی اسلام ، شامل حال ملت و كشور خواهد بود.
رهبر انقلاب اسلامی در دومین نكته از سخنانشان در جمع اعضای مجلس خبرگان، به تبیین لزوم تصحیح و تكمیل مستمر مسیر حركت نظام پرداختند.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1516
Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution met with the head and members of the Assembly of Experts. Speaking during the meeting, Ayatollah Khamenei referred to the recent events in Egypt, Tunisia, Libya and Yemen and added that the future of these countries is uncertain. He stressed that there are different possibilities which should be taken into consideration.
More...
Description:
Vali Amr Muslimeen Ayatullah Sayyed Ali Khamenei meets with the members of Assembly of experts.
دیدار رئیس و اعضای مجلس خبرگان با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=17222
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح روز 17 شهریور 1390، در دیدار رئیس و اعضای مجلس خبرگان، با اشاره به اقدام تاریخی و بیسابقه امام خمینی رضواناللهتعالیعلیه در تشكیل نظام سیاسی مبتنی بر فقه اسلامی، به تبیین چالش ظاهری میان حفظ هویت و اصول نظام با تحقق نیافتن برخی اهداف مادی و معنوی پرداختند و ضمن تشریح معنای صحیح ولایت مطلقه فقیه و تأكید بر لزوم تصحیح و تكمیل مستمر مسیر حركت نظام افزودند: حوادث بسیار عظیمی در منطقه در حال رخ دادن است كه باید با تبیین دقیق و صحیح مفهوم مردمسالاری دینی برای ملتهای مسلمان، خلاء موجود را در زمینه جهتگیری آینده این حوادث، پُر كرد.
ایشان، با اشاره به سابقه بسیار دیرین فقه سیاسی در فقه شیعه خاطرنشان كردند: با وجود این سابقه عریق و ریشهدار، نظام سازی بر اساس فقه اسلامی تا قبل از امام راحل عظیمالشأن سابقه نداشته است و آن بزرگوار، اول كسی است كه در مقام نظر و عمل، یك نظام سیاسی را بر مبنای مردمسالاری دینی و ولایت فقیه، مطرح و ایجاد كرد.
حضرت آیتالله خامنهای پس از بیان اهمیت بیبدیل و تاریخساز اقدام امام خمینی رضواناللهتعالیعلیه در نظامسازی سیاسی، افزودند: تحقق اهداف كلان مادی و معنوی این نظام، بطور طبیعی به زمان طولانی نیاز دارد و به همین علت، در كوتاهمدت و میانمدت ممكن است این تصور در ذهن برخی پیش آید كه حفظ و پایبندی به اصول و مبانی نظام، مانع از دسترسی به پیشرفت و محقق شدن اهداف شده است.
رهبر انقلاب اسلامی در تبیین نگاه صحیح به این چالش بزرگ، به صبر پُر عظمت امام در تحمل فشارها و دشواریها اشاره كردند و افزودند: امام، هیچگاه چه در مسائل داخلی و چه در مسائل خارجی از مبانی و اصول، كوتاه نیامد و ضمن پیگیری اهداف، همواره به هویت نظام، كاملاً وفادار بود.
حضرت آیتالله خامنهای، پیگیری توأمان هر دو طرف این چالش، یعنی حفظ هویت نظام و دستیابی به پیشرفتهای مادی و معنوی را راه حل مسئله دانستند و خاطرنشان كردند: باید این واقعیت را یك اصل مهم و قطعی دانست كه حفظ اصول نظام و پیشرفت و تعالی كشور، همجهت و سازگارند و نباید بخاطر برخی مشكلات به قناعت حداقلی اكتفا كرد و از اصول كوتاه آمد.
ایشان، حفظ هویت نظام و پیگیری همزمان روند تحقق اهداف مادی، علمی، فرهنگی، اقتصادی، سیاسی و اجتماعی را كاری مهم، پیچیده و سخت برشمردند و خاطرنشان كردند: پیشرفتهای امروز كشور كه در سایه حفظ اصول بدست آمده با وضع ایران در اول انقلاب قابل مقایسه نیست و این حقیقت نیز نشان میدهد كه پیشرفت و تعالی جامعه، با حفظ اصول و هویت نظام امكانپذیر است، ضمن این كه نصرت الهی نیز تنها در پرتو وفاداری به مبانی اسلام ، شامل حال ملت و كشور خواهد بود.
رهبر انقلاب اسلامی در دومین نكته از سخنانشان در جمع اعضای مجلس خبرگان، به تبیین لزوم تصحیح و تكمیل مستمر مسیر حركت نظام پرداختند.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1516
Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution met with the head and members of the Assembly of Experts. Speaking during the meeting, Ayatollah Khamenei referred to the recent events in Egypt, Tunisia, Libya and Yemen and added that the future of these countries is uncertain. He stressed that there are different possibilities which should be taken into consideration.