93:04
|
KHAMSA MAJALIS AT MASOMIN PS BADAH | KARBALA KI TAREEKH AUR BOOKS | SYED HUSSAIN MOOSAVI | SINDHI
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم...
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
تاریخ کربلا ہم تک کیسے پہنچی؟
استاد محترم سید حسین موسوی کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعد علی پٹھان۔
ہم نے کربلا بحیثیت مصائب تو سنی ہے مگر بحیثیت تاریخ نہیں پڑہی جاتی ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا ہے اور شہدا کربلا کا کردار کیا ہے۔ اس کو درک کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس کربلا کی تاریخ کیسے پہنچی ہے۔ عبداللہ مشرقی امام حسین ع سے ایک منزل پر ملا۔ مولا نے اس کو کہا کہ میرا ساتھ دو اس نے کہا کہ میں ساتھ دون گا اس وقت تک جب تک میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ سودمند ہے۔ وہ امام حسین کیسات آیا اوت شہادت سے قبل تک امام کیساتھ رہا۔ جب امام اکیلے رہ گئے تو اس نے واعدہ یاد دلایا پھر وہ واپس ہوا۔ امام کی شہادت سے قبل تک ساتھ رہا۔ اس نے امام کو واعدہ یاد دلایا مولا نے جانے کی اجازت دی۔ اس نے ایک کتاب لکھا جس کا نام \"مقتل مشرقی\" ہے بعد مین اس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شامل کیا تاکہ باقی رہے جس نے کربلا کو بیان کیا۔
دوسری شخصیت ابی مخنف کی ہےلوط بن یحی ایزدی کی ہے، یحی ایزدی امام علی کا صحابی تھے۔ یہ امام زین العابدین سے امام رضا تک رہے۔ اس نے ان افراد سے جو کربلا میں شریک تھے ان کے انٹرویو کئے ہیں جس کا نام مقتل ابی مخنف تھا۔
تاریخ طبری نے مقتل ابی مخنف سے استفادہ کیا اور یہ کتاب کچھ وقت رہی اور پھر گم ہوگئی۔ کتاب اصل حالت مین موجود نہین۔ مگر علما نے تاریخ طبری سے ابی مخنف کی روایات کو جمع کیا اور وہ کتاب اردو میں بھی ابی مخنف لکھا ہے۔ ابی مخنف نے روایات بہت لکھی تھیں۔ یہ کتاب اردو میں مل سکتا ہے ایک دو روایات کو چھوڑ کر باقی مستند اور معتبر ہے۔
اس کے بعد امام جعفر ع کا ایک طالبعلم ہے جس نے صرف شہدا کے نام اور قاتلوں کے نام لکھے ہین اور ایک دو واقعات لکھے ہین۔
شیخ صدوق کا والد مام حسن عسکری ع کا صحابی تھا۔ کئی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مذہب اہلبیت میں آئمہ ، علما اور کتب محفوظ نہین تھیں۔
علما نے شیخ صدوق کی کتب سے کربلا والی روایات کو جمع کر کے \"مقتل شیخ صدوق\" مرتب کیا ہے جس میں کئی راویوں روایات ہیں۔
شیخ مفید بغداد میں تشیع کا مرکز تھا۔ اس کی کتاب \"مقتل مفید\" کے نام سے تھا یا \"تذکرت الاطھار\" بھی ہے اس میں یہ حصہ مل جائیگا۔
ابن شہر آشوب ہے جس کی کتاب مناقب آل ابی طالب میں امام حسین کا حصہ ہے جس میں کربلا کا ذکر ہے۔
مناقب کا مجمع الفضائل کے نام سے موجود ہے۔
شیخ طائوس علمی، کردار اور کتب کے لحاظ سے \" لحوف\" کے نام سے کتاب لکھا ہے، رہبر معظم ذاکرین کو ہدایت کرتے ہین کہ مصائب لحوف سے پڑہیں۔
علامہ مجلسی جامع ہے جس نے امام حسین اور کربلا سے وابسطہ جمع کیے ہیں ان میں سے ایک بحارالاانوار ہے جس کے 110 جلدیں ہیں۔ جس میں سے ایک جلد امام حسین اور کربلا کے بارے میں ہے۔ جامع کتاب کی اردو میں ترجمہ مل جائیگا ایک حصہ کربلا تک اور دوسرا کربلا کے بعد سے ہے۔
شیخ عباس قمی علامہ مجلسی کے طالبعلم کا طالبعلم ہے۔ علامہ مجلسی کا طالبعلم نعمت اللہ جزائری ہے۔ مقاتیح الجنان عباس قمی کی منتخب دعائوں کا کتاب ہے۔ ان کی \"نفس المعموم\" کربلا پر کتاب ہے۔
اس زمانہ میں زیادہ کام آیت اللہ ری شہری کے ادارے نے کئی علما کی محنت سے دانشنامہ امام حسین کے نام سے ہئے جس کے 12 جلد ہیں۔ اس میں امام حسین سے وابسطہ دو جلد صرف کربلا کے بارے میں ہیں۔
ہم علامہ مجلسی کے بحارالالوار سے پڑہیں گے۔ اس نے میسر کتب سے امام حسین ع اور کربلا کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی۔
علامہ مجلسی کی تاریخ اور ہے اور مصائب صرف رلاتے ہیں مگر مجاہد نہیں بناتی ہے۔
علامہ مجلسی ایک بڑی شخصیت ہے اس کے تین بڑے کام ہیں ایک بحارالالوار جس کے 110 جلد، اصول کافی کی شرح کی 24 جلد ہیں، تیسرا فقہ کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ علما نے کتب کو جمع کیا ہے ۔ علما کہتے ہیں کہ روزانہ 100 صفات علامہ مجلسی نے لکھئ ہیں۔ اس نے اولاد کی تربیت کیسے کی وہ اپنے بچے کو نماز فجر کیلئے بھی اٹھاتے تھے۔ بیٹا کہتا کہ تم چلو تو میں آتا ہوں وہ بیٹے کو ساتھ کے کر جاتے تھے۔ علامہ مجلسی فقیر کو خود نہیں بلکہ بیٹے کے ہاتھ سے کچھ دیتا تھا۔ چھوٹی عمر میں دینا سیکھے گا تو بڑے ہوکر دل کھول کر دے گا۔
علامہ مجلسی نے دیکھا کی اس کے بیٹے نئ بغیر اجازت کے میوہ لیا علامہ مجلسع کع حیرت ہوئی اس نے دوسرون کا مال بغیر اجازت کیسے لیا۔ میں نے آج دیکھا کہ آج میرے بیٹے نے ایسے کیا اس نے گھر آکر بات کی اور سوچ کر کہا کہ میں نے انار میں ایک بار سئی لگائی اور بغیر اجازت کے رس پی لی تھی یہ شخصیات کس طرح بچوں کی تربیت کرتے تھے۔
بحار الانوار علامہ مجلسی کی کتاب ہے وہ متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ تھے۔علامہ مجلسی نے اولاد کی تربیت کی۔ علامہ مجلسی اصفہان میں رہتے تھے۔ پرانے زمانے میں بجلی نہیں تھی اور وہ دیئے پر بیٹھ کر پڑہتے تھے۔ اس لیے وہ جنگل میں نکل جاتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کیساتھ شکار پر نکلا اور راستہ بھول گئے۔ بادشاہ کیساتھ اس کے خاندان میں سے بیوی اور بیٹی تھی۔ رات ہونے کیوجہ سے وہ راستہ بھول گئے ان کی بیٹی نے جنگلل میں روشنی دیکھی تو وہ اس طرف گئی ۔ دینی لحاظ سے عورت کیساتھ اکیلا بیٹھا نہیں جاسکتا۔ اس نے لڑکی کو کہا کہ تم اس جھوپڑی میں ایک کونے میں بیٹھ جائو اور میں دوسرے طرف بیٹھ جاتا ہوں۔ رات گذر گئی اور دن کو بادشاہ بھی آگیا۔ اور اس کو تذبذ تھا کہ رات کو کیا ہوا ہوگا۔ اور اس نے دیکھا کہ علامہ مجلسی کے پانچوں انگلیاں جلی ہوئی ہیں۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے خود انگلیان جلائی ہیں۔
علامہ مجلسی نےبحارالانور کو شیخ مفید، شیخ صدوق سے اور اہل سنت سے بھی لیا اور اس کو جمع کیا۔ ہم پر حق ہے کہ اس کتاب کو پڑہیں۔ پتا چلے کہ کربلا کیا ہے۔ امام حسین کو سمجھنا ہے تو انبیا کی تاریخ کو سمجھنا ہے۔ امام حسین ع وارث انبیا ہیں۔
ہم رسول اکرم صہ سے شروع کرتے ہیں۔
نبی اکرم صہ مکے میں آے قریش خاندان حضرت اسماعیل کے ذریعے سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش بت پرست بنے۔ ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو ھضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہا کے لوگ لے گئے۔ ابرہا کو اس نے کہا کہ مجھے میرے اونٹ لوٹادو۔ حضرت عبدلمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں کعبہ کو اس کا مالک بچائیگا۔
سارے عرب میں حضرت عبدلمطلب کی شخصیت اعلی تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زمزم کا کنواں بند ہوگیا تھا اور اس کو دوسرئ بار حضرت عبدالمطلب نے دریافت کی جو اس کو خواب میں دیکھا۔ حضرت عبدالمطلب کئ سامنے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہہاں سے قریش دو حصے ہوگئے، بنو ہاشم کو چھوڑ کر باقی بت پرست بن گئے۔ حج میں تندیلی لائی گئی اور حج کو آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا کہ حج کیلئے آنے والے اپنا احرام لائیگا تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ قریش سے خریدا گیا احرام ہی قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی قریش سے احرام خرید نہیں کستا تو وہ ننگا حج کرے۔ قریش کے احرام خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ قریش نے بے دینی پہیلائی۔
عمرہ کر کے احرام اتار دیا اور بعد میں احرام باندہ کر حج کرتے تھے اور انہوں نے عمرہ اور حج کو اکٹھے کرنے پر پابندی لگادی۔ ایک بار آکر حج کریں اور دوسری بار آکر حج کریں۔
قریش نے دین ابراہیمی میں تبدیلی لائیں۔ حضور اکرم صہ نے دین ابراہیمی کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صہ کا تعلق بنی ہاشم سے تھے اور انہوں نے قومپرستی کیوجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم صہ نے سمجہانے کی کوشش کی۔ نتیجہ نہ نکلنے کے باعث جب مکہ نے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ ھجرت کر کے گئے۔ 2 ہجری میں بدر، احد اور 5 ویں ہجری میں جنگ خندق ہوئی۔ نبی اکرم کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ مدینہ میں نبی اکرم کو ساتھی ملے جن کے ذریعہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی۔ 8 برس مدینہ میں رہنے کے بعدا اس طرح نکلے کہ مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے لشکر میں 10 ہزار افراد شامل تھے۔ اس زمانہ میں پیدل اور سواریاں تھیں نبی اکرم نے اس طرح انتظام کیا کہ 10 ہزارا کا لشکر مکہ میں پہنچا اور مکہ والوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔
ابو سفیان کی رسول اکرم کے چچا عباس سے ملاقات کی۔ لشکر مکہ میں پہنچنے والا ہوان۔ دو راستے ہیں قتل یا مسلمان ہو جائو اور اس نے ظاہری کلمہ پڑہ کر حزب اختلاف سے حزب اقتدار کا حصہ بنے۔ حکومت کے پوجاری ایم این ایز جس طرح پارٹیان تبدیل کرتے ہیں۔
نبی اکرم پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک تبوک اور دوسرا 10 ہجری میں غدیر کے موقع پر۔ اندرونی طور پر نبی اکرم پر حملہ ہوا۔ آخر میں بھی نبی اکرم کو زہر سے شہید کیا گیا۔ نبی اکرم کی شہادت کے آثار بہت سے کتابوں میں ملتے ہیں۔ نبی اکرم نے دوائی پالنے سے منع کیا مگر زبردستی ان کو وہ دوائی پلائی گئی۔
رسول اکرم صہ کو دوائی پلائی گئی جس سے منع کیا گیا تھا۔ رسول اکرم صہ کی تدفین کے بعد ان افراد کو پتا چلا۔ مسجد کے کناروں پر ہجرے تھے ایک دروازہ مسجد کے اندر اور ایک باہر۔
امام علی ع نے حکومت کی قربانئ دے کر ان کو مسلمان باقی رکھا۔ قریش حکومت میں آگئے ۔ ہر قبیلہ کو حصہ ملا۔ وہ تیسری خلافت کے آدہے حصے تک اکٹھے رہے پھر بنو امیہ اور دوسرے قریش آمنے سامنے آگئے۔ جب قریش کا آپس میں ٹکرائو ہوا تو 18 برس کے بعد حج تمتع پر پابندی لگادی گئی۔ امام علی ع 27 ہجری کو میدان میں آئے اور حج کیلئے نکلا اور اعلان کیا تو ہم حج اور عمرہ ساتھ کریں گے۔ اس کو آپ صحیح مسلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ امام علی اصفان کے مقام پر پہنچے کہ علی ع حج اور عمرہ کی اکٹھے بجا آوری کیلئے نکلے اور تم نے نبی کیساتھ حج تمتح کیا اور حضرت عثمان نے کہا کہ ہماری رائے ہے۔ ام علی ع نے کہا کہ میں سنت کو اہمیت دیتا ہوں۔ عوام کے فائدے میں تھا کہ حج اور عمرہ کریں۔ محافظ سنت اسلام کے طور پر امام علی ظاہر ہوئے اور 35 ہجری میں مولا کی ظاہری حکومت کا اعلان کیا۔ مولا کا سب سے زیادہ ساتھ کوفہ والوں نے دیا۔ 25 برس پہلے علی کا ساتھ نہیں دیا گیا اور اب امت امام علی کے پاس آئ امام علی 27 ہجری سے 35 ہجری تک ہر سال حج کیلئے گئے۔ تیسرے خیلفیہ کے بعد امام علی کو ضلیفہ بنایا گیا 4 سال کی حکومت میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔
عمار یاسر کوفہ میں آئے تو امام حسن کو منبر پر بٹھایا۔ اور کہا کہ کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا نبی کی بیوی کی اطاعت کرتے ہو۔ 22 ہزار افراد نے جنگ جمل میں حصہ لیا۔ کوفہ والوں نے محبت علی میں 400 افراد کی شہادت کی قربانی دی۔ ایک سال تک جنگ جمل جاری رہی۔ 25 ہزار جنگ صفین میں شہید ہویئے اور 45 ہزار شام لے لشکر کیطرف سے مارے گئے۔ کوفہ والوں نے دوسرا امتحان دیا جس میں 25 ہزار شہید ہوئے۔
جنگ نہروان نفسیاتی جنگ تھی خارجی قرآن کے استاد تھے۔ باپ ایک طرف تو بیٹا دوسرے طرف۔ 400 شہید جنگ جمل، 25 ہزار صفین میں اور جنگ نہروان والے سے کو فہ میں سے تھے۔ مدینہ سے نکلتے وقت 700 افراد کیساتھ امام علی نکلے۔ کوفہ محبت علی کا مرکز تھا۔
تاریخ عباسیون کے دور مین لکھوائی گئی۔
شام کی گورنری ما مطالبہ تھا۔ امام علی کی شہادت کے بعد امام حسن کی بیعت کی اور شام میں معاویہ کو خیلفتہ الرسول کے طور پر بیعت ہوئئ۔ 2 خیلفہ تو امتیں بھی دو ہونگی۔ بنو امیہ کی سازش تھی کہ امت کو دو حصوں میں بانٹا جائے۔ 6 ماہ دو حکومتیں تھیں۔ امام حسن ع دو امتوں کو ایک امت بنایا۔امام حسن نے ایک امت بنائی۔ یہ امام حسن کا کارنامہ تھا۔ امام حسن کا 40 ہزار کا لشکر تھا۔ عمر بن عاص نے امیر شام کو بتایا کہ لشکر امام حسن کے حوصلہ بلند ہیں۔ پھر شام کے لوگوں کو یتیم ہونے سے کون بچائیگا۔ معاویہ نئ 10 برس تک جنگبندی کی بات کی۔ امام حسن ع نے اپنی طرف سے صلح کے شرائط بتائے۔ امام حسن نے کہا کہ یہ حصہ بھی دیتا ہوں کہ قرآن و سنت پر عمل ہوگا، امیرالمومنین نہیں کہلوایا جائیگا۔ امام حسن کو امیر شام کیطرف سے کاغذ بھیجا گیا۔ یہ امام حسن ع کا کارنامہ تھا۔ اگر امام حسن اقتدار کی قربانی نہ دیتے تو۔
حکومت مقصد نہیں بلکہ مقصد دین ہے۔
امام حسن ع کے سامنے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ معاویہ نے خود کو نبی اکم کے خانوادہ کے طور پر متعارف کروایا۔ اہلبیت کے طور پر بنی امیہ کو پیش کیا گیا۔
اصلم دین امام حسن کے پاس تھا۔ جب معاویہ کو حکومت کا دوسرا حصہ بھ ملا تو اسن نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں امام حسن کی پالیس کے تحت مرد و خواتینن وفود کی صورت میں شام میں تبلیغ کی۔ 41 ہجری میں صلح ہوا اور 50 ہجری میں شام تو امام علی کا محب ہوگیا ہے۔ امام حسن ع نے صلح کے ذریعہ شام تک اصل دین پہنچایا۔ 50 ہجری میں صلح توڑا گیا اور امام حسن ع کو شہید کروایا گیا۔ 50 سے 61 ہجری تک امام حسین ع کی امامت کو سمجھنا پڑے گا۔ کوفہ والوں نے قربانی دی ہے۔ عقل کی عینک پہن کر دیکھنا پڑے گا۔
ہم بحارالانوار سے کربلا پڑہنا شروع کریں گے۔ ہم تاریخ پڑہنا شروع کریں گے۔ مصائب والی کربلا ہم کو رلائےگی مگر مجاہد نہیں بنائےگی۔ جہاں پر کربلا پاور ہائوس ہے وہ 6 ماہ کے بچے کو مجاہد بناتی ہے۔ ہم کو کربلا سے مجاہد بننے کا درس لینا ہے۔
استاد محترم کی تایخ کربلا کے عنوان سے پہلی مجلس سے اقتباس۔
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
27:25
|
ديدار صميمئ دانشجويان با رهبر معظم انقلاب - August 7, 2012 - Farsi
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين...
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
More...
Description:
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
2:20
|
فاتحانہ زندگی | ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ دفاعِ مقدس یعنی آٹھ سالہ ایران...
ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ دفاعِ مقدس یعنی آٹھ سالہ ایران و عراق کے درمیان جنگ جو کہ درحقیقت دنیا کی تمام عَالَمی طَاقتوں اور ایران کے درمیان جنگ تھی اِس جنگ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امریکہ اور اُس کے آلہ کاروں نے کیا سوچ کر جنگ شروع کی تھی؟ امریکہ اور اُس کے آلہ کاروں کی کیا منصوبہ بندی تھی؟ امریکہ نے اسلامی انقلاب کو نابود کرنے اور جھکانے کے لیے کس کا سہارا لیا؟ اسلامی محاذ یعنی اسلامِ محمدی کے پیروکار انقلابیوں کی اِس جنگ کے بارے میں کیا تجزیہ و تحلیل تھی؟ ایرانی انقلابی قوم نے امام علی علیہ السلام کے کس قول پر عمل کیا؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس وڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #فاتحانہ_زندگی #امریکہ #آلہ_کار #اسلامی_جمہوریہ #جنگ #عراق #حکومت #محتاجی #عالمی_استکبار #کفر #صدام #احمق #مغرور #تجزیہ #اسلامی_محاذ #امام_علی_علیہ_السلام
More...
Description:
ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ دفاعِ مقدس یعنی آٹھ سالہ ایران و عراق کے درمیان جنگ جو کہ درحقیقت دنیا کی تمام عَالَمی طَاقتوں اور ایران کے درمیان جنگ تھی اِس جنگ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امریکہ اور اُس کے آلہ کاروں نے کیا سوچ کر جنگ شروع کی تھی؟ امریکہ اور اُس کے آلہ کاروں کی کیا منصوبہ بندی تھی؟ امریکہ نے اسلامی انقلاب کو نابود کرنے اور جھکانے کے لیے کس کا سہارا لیا؟ اسلامی محاذ یعنی اسلامِ محمدی کے پیروکار انقلابیوں کی اِس جنگ کے بارے میں کیا تجزیہ و تحلیل تھی؟ ایرانی انقلابی قوم نے امام علی علیہ السلام کے کس قول پر عمل کیا؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس وڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #فاتحانہ_زندگی #امریکہ #آلہ_کار #اسلامی_جمہوریہ #جنگ #عراق #حکومت #محتاجی #عالمی_استکبار #کفر #صدام #احمق #مغرور #تجزیہ #اسلامی_محاذ #امام_علی_علیہ_السلام
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
fatehana
zindagi,
sayyid
ali
khamenei,
zillat,
izzat,
zindagi,
maut,
amrika,
islami
jamhooriya,
jung,
iraq,
hukumat,
mohtaji,
aalami
istekbar,
kufr,
saddam,
ahmaq,
maghroor,
imam
ali,
mahaaz,
islami
inqelab,
aath
sala
jung,
imam
khomeini,
shohada,
iran,
iraq,
tehleel,
inqelabi
qaum,
islam
e
mohammadi,
defa
moqaddas,
jung
e
tehmeeli,
1:54
|
الٰہی محاذ بمقابلہ شیطانی محاذ | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
دنیا کے اندر جہاں ایک طرف الٰہی محاذ ہے وہی دوسری طرف شیطانی محاذ بھی ہے اوراس وقت محاذ باطل کے پرستار، حق کے...
دنیا کے اندر جہاں ایک طرف الٰہی محاذ ہے وہی دوسری طرف شیطانی محاذ بھی ہے اوراس وقت محاذ باطل کے پرستار، حق کے خلاف سب سے زیادہ جس اسلحے کو استعمال کر رہے ہیں، وہ میڈیا ہے، اور اس وقت مختلف ممالک کی بھاری مالی تعاون کے ساتھ مختلف فنوں کے ہزاروں ماہرین کی زیر نگرانی، پوری ہم آہنگی کے ساتھ حق کے خلاف میڈیا کی یلغار جاری ہے اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسلامی معاشرے کی ایمانی اور اعتقادی ماحول کو آلودہ کرنے کی سنجیدگی سے منصوبہ بندی اور کوشش میں مصروف ہے۔ تاہم اس شیطانی محاذ کے مقابلے میں کونسا محاذ ہے؟ اور اس محاذ کا کیا نام ہے؟ اور اس محاذ کے پیروکاروں کو شیطانی محاذ کے مقابلے میں کونسی کارکردگی دکھانی چاہئے؟ آئے انہی تمام سولات کے جوابات کو ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو میں مشاہدہ کرتے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #میڈیا #شیطانی_حرکت #جہاد #عقائد #ایمان #ماہرین #فن #اسلامی_جمہوریہ #عوام #ملک
More...
Description:
دنیا کے اندر جہاں ایک طرف الٰہی محاذ ہے وہی دوسری طرف شیطانی محاذ بھی ہے اوراس وقت محاذ باطل کے پرستار، حق کے خلاف سب سے زیادہ جس اسلحے کو استعمال کر رہے ہیں، وہ میڈیا ہے، اور اس وقت مختلف ممالک کی بھاری مالی تعاون کے ساتھ مختلف فنوں کے ہزاروں ماہرین کی زیر نگرانی، پوری ہم آہنگی کے ساتھ حق کے خلاف میڈیا کی یلغار جاری ہے اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسلامی معاشرے کی ایمانی اور اعتقادی ماحول کو آلودہ کرنے کی سنجیدگی سے منصوبہ بندی اور کوشش میں مصروف ہے۔ تاہم اس شیطانی محاذ کے مقابلے میں کونسا محاذ ہے؟ اور اس محاذ کا کیا نام ہے؟ اور اس محاذ کے پیروکاروں کو شیطانی محاذ کے مقابلے میں کونسی کارکردگی دکھانی چاہئے؟ آئے انہی تمام سولات کے جوابات کو ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو میں مشاہدہ کرتے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #میڈیا #شیطانی_حرکت #جہاد #عقائد #ایمان #ماہرین #فن #اسلامی_جمہوریہ #عوام #ملک
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
media,
jehaad,
aqaed,
imaan,
mahireen,
fun,
awam
,
malik,
Ellahi
mahaaz,
ba
muqabla,
shaytani,
mahaaz,
الٰہی
محاذ,
بمقابلہ,
شیطانی,
محاذ
,
23:14
|
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali Khamenei - Urdu translation
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں،...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
More...
Description:
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
1:42
|
کبھی بھی مایوس اور ناامید نہ ہونا | رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
خدا کی راہ میں جب انسان، باطل کے مقابلے میں لڑ رہا ہو تو اسے شجاعت اور بہادری سے لڑنا چاہیے اور کبھی بھی...
خدا کی راہ میں جب انسان، باطل کے مقابلے میں لڑ رہا ہو تو اسے شجاعت اور بہادری سے لڑنا چاہیے اور کبھی بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اور اسی راہ میں لڑتے ہوئے اگر کبھی جنگ میں شکست ملے یا انسان زخمی ہو تو یہ اس کے ارادے کو کمزور نہ کرسکے اور اس کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا نہ کرے، بلکہ انسان کو خدا سے امید کرتے ہوئے اسی راہ میں آگے بڑہنا چاہیے۔
اسی کا ایک نمونہ ایران کے وہ جوان ہیں جو دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑہتے رہے اور کبھی بھی شہادتوں سے مایوس نہیں ہوئے۔ اسی سلسلے میں امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ آپ کبھی بھی مایوس اور ناامید نہ ہوں۔
کیا جب ان جوانوں کی پیشن گوئیاں درست واقع نہیں ہوئیں تو وہ مایوس ہوئے؟
جب ان کے ساتھی جنگ میں شہید ہو رہے تھے تو کیا وہ ناامید ہوئے؟
کیا وہ اس جنگ میں پیچھے ہٹتے رہے؟
ان پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ میں وہ کس قدر پر امید ہو کر لڑتے رہے؟
ان تمام سوالوں کے جواب اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#باطل #مقابلہ #شجاعت #بہادری #جنگ #شکست #انسان #ارادہ #مایوسی #کیفیت #شہادتوں #ساتھی #شہید
More...
Description:
خدا کی راہ میں جب انسان، باطل کے مقابلے میں لڑ رہا ہو تو اسے شجاعت اور بہادری سے لڑنا چاہیے اور کبھی بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اور اسی راہ میں لڑتے ہوئے اگر کبھی جنگ میں شکست ملے یا انسان زخمی ہو تو یہ اس کے ارادے کو کمزور نہ کرسکے اور اس کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا نہ کرے، بلکہ انسان کو خدا سے امید کرتے ہوئے اسی راہ میں آگے بڑہنا چاہیے۔
اسی کا ایک نمونہ ایران کے وہ جوان ہیں جو دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑہتے رہے اور کبھی بھی شہادتوں سے مایوس نہیں ہوئے۔ اسی سلسلے میں امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ آپ کبھی بھی مایوس اور ناامید نہ ہوں۔
کیا جب ان جوانوں کی پیشن گوئیاں درست واقع نہیں ہوئیں تو وہ مایوس ہوئے؟
جب ان کے ساتھی جنگ میں شہید ہو رہے تھے تو کیا وہ ناامید ہوئے؟
کیا وہ اس جنگ میں پیچھے ہٹتے رہے؟
ان پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ میں وہ کس قدر پر امید ہو کر لڑتے رہے؟
ان تمام سوالوں کے جواب اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#باطل #مقابلہ #شجاعت #بہادری #جنگ #شکست #انسان #ارادہ #مایوسی #کیفیت #شہادتوں #ساتھی #شہید
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
naomid,
rahbar,
imam
khamenei,
insan,
batel,
shujaeat,
shekast,
iran,
dushman,
shahadat,
javan,
maeyos,
jang,
omid,
erade,
keyfiyat,
2:00
|
امریکہ ہمارے نشانے پر | میجر جنرل حسین سلامی | Farsi Sub Urdu
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
سپاہِ پاسدارانِ اسلام کے میجر جنرل حسین...
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
سپاہِ پاسدارانِ اسلام کے میجر جنرل حسین سلامی، عاَلمی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی خطے میں موجودگی اور انقلابِ اسلامی کی اِس پہلو سے بھرپور جنگی تیاری کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا شیطانِ اکبر امریکہ خطے سے باہر رہ کر انقلابِ اسلامی سے جنگ کرسکتا ہے؟ کیا ایران امریکی اڈوں اور امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی طاقت و صلاحیت رکھتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران نے کن کن پہلوؤں کو فرض کرتے ہوئے اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے؟ انقلاب اسلامی نے کس منطق کے تحت اپنی طاقت کو مزین کیا ہے؟ کیا ایک طولانی جنگ کے لیے درکار وسائل اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ہیں؟ اگر امریکہ خطے میں موجود رہے اور جنگ کرنا چاہے تو اُس کا کیا انجام ہوگا؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#ویڈیو #حسین_سلامی #امریکہ #جنگ #خطے #نگاہ #نشانے #امریکی_مفادات #اڈے #قبضہ #صفایا #فرض #دفاع_مقدس #فتح #نابود
More...
Description:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
سپاہِ پاسدارانِ اسلام کے میجر جنرل حسین سلامی، عاَلمی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی خطے میں موجودگی اور انقلابِ اسلامی کی اِس پہلو سے بھرپور جنگی تیاری کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا شیطانِ اکبر امریکہ خطے سے باہر رہ کر انقلابِ اسلامی سے جنگ کرسکتا ہے؟ کیا ایران امریکی اڈوں اور امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی طاقت و صلاحیت رکھتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران نے کن کن پہلوؤں کو فرض کرتے ہوئے اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے؟ انقلاب اسلامی نے کس منطق کے تحت اپنی طاقت کو مزین کیا ہے؟ کیا ایک طولانی جنگ کے لیے درکار وسائل اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ہیں؟ اگر امریکہ خطے میں موجود رہے اور جنگ کرنا چاہے تو اُس کا کیا انجام ہوگا؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#ویڈیو #حسین_سلامی #امریکہ #جنگ #خطے #نگاہ #نشانے #امریکی_مفادات #اڈے #قبضہ #صفایا #فرض #دفاع_مقدس #فتح #نابود
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
amrika,
nishana,
Major
General
Husain
Salami,
sepahe
pasdaran,
iran,
khitta,
shaytani
taqat,
inqelabe
islami,
jung,
salahiyat,
amriki
adde,
amriki
mafaad,
izafa,
mantiq,
wasael,
anjaam,
qabza,
safaya,
defa
e
moqaddas,
fath,
fatha,
naabood,
4:25
|
دفاعِ مقدس کے فوائد | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
آج بھی ہو ابراہیم سا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
دفاع مقدس آٹھ سالہ ایران عراق جنگ درحقیقت...
آج بھی ہو ابراہیم سا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
دفاع مقدس آٹھ سالہ ایران عراق جنگ درحقیقت دو ملکوں کے درمیان جنگ نہیں تھی بلکہ دنیا کی تمام شیطانی طاقتوں اور تازہ وجود میں آنے والے اسلامی انقلاب کے درمیان جنگ تھی. اس آٹھ سالہ جنگ میں مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے کربلا کو نمونہ عمل بناتے ہوئے ظالم و جابر طاقتوں کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #دفاع_مقدس #انقلابی_دینی_تشخص #رکاوٹیں #روحانی_اہداف #نظریہ
More...
Description:
آج بھی ہو ابراہیم سا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
دفاع مقدس آٹھ سالہ ایران عراق جنگ درحقیقت دو ملکوں کے درمیان جنگ نہیں تھی بلکہ دنیا کی تمام شیطانی طاقتوں اور تازہ وجود میں آنے والے اسلامی انقلاب کے درمیان جنگ تھی. اس آٹھ سالہ جنگ میں مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے کربلا کو نمونہ عمل بناتے ہوئے ظالم و جابر طاقتوں کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #دفاع_مقدس #انقلابی_دینی_تشخص #رکاوٹیں #روحانی_اہداف #نظریہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
defae
muqaddas,
faeda,
iran,
iraq,
jang,
Satan,
enqelab,
islam,
enqelab
islami,
Ashura,
karbala,
zalem,
imam,
imam
khamenei,
2:07
|
دور حاضر میں دشمن سے محاذ آرائی کا میدان | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دشمن کے حربے اور حملوں کی نوعیت اور اسلحے بدلتے رہتے ہیں جسکے نتیجے...
اس میں شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دشمن کے حربے اور حملوں کی نوعیت اور اسلحے بدلتے رہتے ہیں جسکے نتیجے میں محاذ جنگ اور میدان کارزار بھی بدلتا رہتا ہے، کبھی دشمن جنگی اسلحوں سے لیس ہوکر محاذ میں آتا ہے اور کبھی لوگوں کے عقیدے اور ایمان کو میدان جنگ بناکر اسے متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موجودہ دور میں دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان سجایا گیا ہے وہ کونسا میدان ہے اور اس کے لئے جس اسلحے کو بروئے کار لایا جارہا ہے وہ کیا ہے؟ اسوقت دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان اور اسلحہ انتخاب کیا گیا ہے وہ ماضی کے روایتی طریقے پر مبنی ہے یا پھر زمانے کی ترقی اور پیشرفت کے ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے؟
ان سوالات کے جوابات کو ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس خوبصورت ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دشمن کے حربے اور حملوں کی نوعیت اور اسلحے بدلتے رہتے ہیں جسکے نتیجے میں محاذ جنگ اور میدان کارزار بھی بدلتا رہتا ہے، کبھی دشمن جنگی اسلحوں سے لیس ہوکر محاذ میں آتا ہے اور کبھی لوگوں کے عقیدے اور ایمان کو میدان جنگ بناکر اسے متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موجودہ دور میں دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان سجایا گیا ہے وہ کونسا میدان ہے اور اس کے لئے جس اسلحے کو بروئے کار لایا جارہا ہے وہ کیا ہے؟ اسوقت دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان اور اسلحہ انتخاب کیا گیا ہے وہ ماضی کے روایتی طریقے پر مبنی ہے یا پھر زمانے کی ترقی اور پیشرفت کے ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے؟
ان سوالات کے جوابات کو ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس خوبصورت ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
dushman,
meydan,
imam,
imam
khamenei,
muhaz,
aslaha,
jang,
iman,
jang
narm,
jang
sakht,
15:17
|
[Speech] Imam Khamenei | بہت جلد یقینی فتح فلسطین کی ہوگی | Gaza Palestine | Urdu
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
تازہ ترین خطاب
یہ جنگ غزہ و اسرائیل کی جنگ نہیں، حق و باطل کی جنگ...
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
تازہ ترین خطاب
یہ جنگ غزہ و اسرائیل کی جنگ نہیں، حق و باطل کی جنگ ہے،ایمان و اسکتبار کی جنگ ہے
یقینی فتح فلسطین اور فلسطینیوں کی ہوگی، جو اب زیادہ دور نہیں ،انشاء اللہ
صیہونی حکومت لاچار اور سرگرداں ہوچکی ہے
جمہوری اسلامی ایران کے اسکول و کالج و یونیورسٹی طلبا و طالبات سے 13 آبان کی مناسبت سے گفتگو
2023/11/01
مکمل اردو ترجمہ و ڈبنگ کے ساتھ
البلاغ: ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
تازہ ترین خطاب
یہ جنگ غزہ و اسرائیل کی جنگ نہیں، حق و باطل کی جنگ ہے،ایمان و اسکتبار کی جنگ ہے
یقینی فتح فلسطین اور فلسطینیوں کی ہوگی، جو اب زیادہ دور نہیں ،انشاء اللہ
صیہونی حکومت لاچار اور سرگرداں ہوچکی ہے
جمہوری اسلامی ایران کے اسکول و کالج و یونیورسٹی طلبا و طالبات سے 13 آبان کی مناسبت سے گفتگو
2023/11/01
مکمل اردو ترجمہ و ڈبنگ کے ساتھ
البلاغ: ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
3:56
|
🎦 2 | بی بی معصومہؑ قم کو حاصل غیر معمولی فضیلت و اہمیت - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 03:56
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 03:56
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
4:01
|
🎦 1 | بی بی معصومہ قم کی ولادت کو یوم دختر کیوں کہتے ہیں؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 04:00
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 04:00
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
3:56
|
🎦 2 | بی بی معصومہؑ قم کو حاصل غیر معمولی فضیلت و اہمیت - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 03:56
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 03:56
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
4:31
|
🎦 3 | بی بی معصومہؑ قم کی زیارت اور آیت اللہ مرعشی نجفی کے والد کی داستان - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 04:30
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
Follow Us:
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 04:30
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
Follow Us:
2:39
|
🎦 5 | کیا بی بی معصومہؑ واقعا اپنی شہادت تک رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئی تھیں؟ - Urdu
🎦 سلسلہ عشرہ کرامت 5 | کیا بی بی معصومہؑ واقعا اپنی شہادت تک رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئی تھیں؟
مدارس...
🎦 سلسلہ عشرہ کرامت 5 | کیا بی بی معصومہؑ واقعا اپنی شہادت تک رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئی تھیں؟
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 02:39
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
🎦 سلسلہ عشرہ کرامت 5 | کیا بی بی معصومہؑ واقعا اپنی شہادت تک رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئی تھیں؟
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'ہمارے مکتب میں\' کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : ہمارے مکتب میں
13 جون 2021
دورانیہ: 02:39
#ویڈیو #کلپ #بی_بی_معصومہ #ہمارے_مکتب_میں #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
2:25
|
🎦 عید قربان 2 | ایک قربانی میں کتنے حصے ڈالے جاسکتے ہیں؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:25
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:25
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
2:03
|
🎦 عید قربان 1 | کیا عید قربان پر قربانی کرنا ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:03
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:03
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
1:32
|
🎦 عید قربان 3 | قربانی کرنے کا سب سے افضل وقت کونسا ہے؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 01:32
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 01:32
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
2:46
|
🎦 عید قربان 4 | قربانی کے جانور کی اہم صفات کونسی ہیں؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:46
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:46
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
2:46
|
🎦 عید قربان 4 | قربانی کے جانور کی اہم صفات کونسی ہیں؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:46
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 02:46
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
3:10
|
🎦 عید قربان 5 | عید قربان پر قربانی اور عقیقہ ایک ساتھ کیسے کریں؟ - Urdu
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک...
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 03:10
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
More...
Description:
مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن کی جانب سے منعقدہ خصوصی ٹآک شو \'احکام قربانی\' میں کیے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال اور اسکا جواب آپکی خدمت میں پیش ہے۔ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری (قم مقدسہ)
ویڈیو : مدارس امامیہ ملٹی میڈیا پروڈکشن
پروگرام : احکام قربانی
12 جولائی 2021
دورانیہ: 03:10
#ویڈیو #کلپ #عیدالاضحی_قربان #احکام_قربانی #مدارس_امامیہ_ملٹی_میڈیا_پروڈکشن #مولانا_حیدر_علی_جعفری #انقلاب #انقلابی #انقلابی_میڈیا #خالص_محمدی_اسلام
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
35:24
|
[Imam Khamenei Speech | Air Force 8th Feb. 2022 | Urdu
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
کا جمہوری اسلامی ایران کی فضائیہ اور ائیر ڈیفنس کے کمانڈروں اور...
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
کا جمہوری اسلامی ایران کی فضائیہ اور ائیر ڈیفنس کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے خطاب
08/02/2022
دشمن اور دشمن محاذ کی سوشل میڈیا ،میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر مکمل ڈکٹیٹر شپ
وضاحت وتشریح اور بیان کا جہاد ایک حتمی اور فوری فریضہ ہے
مکمل اردو ترجمہ اور ڈبنگ کے ساتھ
البلاغ:ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
کا جمہوری اسلامی ایران کی فضائیہ اور ائیر ڈیفنس کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے خطاب
08/02/2022
دشمن اور دشمن محاذ کی سوشل میڈیا ،میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر مکمل ڈکٹیٹر شپ
وضاحت وتشریح اور بیان کا جہاد ایک حتمی اور فوری فریضہ ہے
مکمل اردو ترجمہ اور ڈبنگ کے ساتھ
البلاغ:ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح...
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
More...
Description:
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
21:21
|
دیدار با خانواده شهدا و ایثارگران - Visit of Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
Vali Visit Kermanshah - Farsi
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
خداى متعال را سپاسگزارم كه اين توفيق را امروز داد كه در...
Vali Visit Kermanshah - Farsi
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
خداى متعال را سپاسگزارم كه اين توفيق را امروز داد كه در اين مجلسِ داراى عظمت معنوى شركت كنم. براى من در سفر به شهرهاى مختلف، يكى از مهمترين و باعظمتترين ديدارها، ديدار با خانوادهى معظم شهيدان و ايثارگران و جانبازان است. علت اين است كه در مسئلهى ايثار، عظمتى نهفته است كه هيچ جامعهاى بدون دارا بودن يك چنين نقطهى مهم و تعيينكنندهاى نخواهد توانست به عزت و عظمت دست پيدا كند. ما در قضيهى شهادت شهيدان و مجاهدت ايثارگران و جانبازان معمولاً جوانب محدودى را مىبينيم و مشاهده ميكنيم؛ در حالى كه خود عمل و حركت ايثار در جامعه كه منجر به شهادت يا جانبازى ميشود، معانى متعددى دارد؛ جهات مختلفى دارد كه هر كدام از اينها درخور بررسى است. يكى از اين جهات، فرصتشناسى و پاسخگوئى به نياز لحظههاست. ممكن است احساس مسئوليت در كسانى باشد، اما در لحظهى نياز، اين مسئوليت را نه تشخيص بدهند و نه عمل كنند؛ اين خيلى تفاوت دارد با آن حركت و اقدامى كه درست در لحظهى نياز اتفاق مىافتد و انجام ميگيرد. جوانان شجاع و باغيرت و مؤمن و فداكارى كه نياز كشور را احساس كردند و به سراغ خطر رفتند و به استقبال خطر شتافتند، اينها اين امتياز برجسته را دارند كه نياز را در زمان خود فهميدند و به آن پاسخ گفتند. اين يك بعد بسيار مهمى است، اين براى ما درس است.
من ديروز اشاره كردم كه جوانهاى كرمانشاهى يك ماه بعد از پيروزى انقلاب احساس كردند نياز هست كه بروند. شهيد سيد محمدسعيد جعفرى - شهيد پيشرو و پيشتاز - با جمع رفقاى خودش رفتند از پادگان لشكر سنندج دفاع كردند؛ فهميدند كه معناى اين دفاع چيست؛ تسلط ضد انقلاب بر يك پادگان نظامى، معنايش چيست. اين زود فهميدن، بوقت فهميدن، بهنگام عمل كردن و پاسخ به نياز دادن، آن نقطهى برجستهاى است كه نبايد مغفول بماند.
شهداى عزيز ما در سرتاسر كشور اين خصوصيات را دارند. دوستان و برادران نام شهرها را ذكر كردند، خاطرههائى از مناطق مقاومت در اين استان بيان كردند. البته از سرتاسر كشور آمدند، شهداى برجسته و نامدارى در اين سرزمين به خاك و خون غلتيدند كه از مناطق ديگر آمدند؛ ليكن نقش مردم اين استان، نقش جوانان باايمان، نقش آن احساس عظيم و عزيز و كميابى كه در اين جوانها بود - هوشمندى آنها، موقعشناسى آنها، فرصتشناسى آنها - نبايستى نديده گرفته شود؛ و اين همان چيزى است كه ما هميشه به آن احتياج داريم.
غالباً كشورها و جوامع از ندانستن موقعيت و نشناختن فرصت، ضربه ميخورند. وقتى دشمنى كمين ميگيرد و ما نميدانيم كه او كمين گرفته است، نميشناسيم؛ يا اگر چنانچه اطلاع پيدا كرديم، علاج را زود و بهنگام ارائه نميدهيم؛ آن وقت ضربه ميخوريم.
جملهى خوبى را اين برادر عزيز اينجا گفتند. گفتند خانوادهها ميگفتند اگر اين رزمنده را ما از خانه بيرون نفرستيم، فردا دشمن دم در خانه مىآيد، بايد بجنگيم. اين خيلى نكتهى مهمى است؛ اين همان نكتهاى است كه اميرالمؤمنين (عليهالسّلام) فرمود: هر جماعتى كه در داخل خانهى خودشان مورد تهاجم دشمن قرار بگيرند، غفلت كنند از اين كه دشمن دارد مىآيد، اينها شكست خواهند خورد، مغلوب خواهند شد. دشمن را از دور بايد ديد، از دور بايد شناخت؛ اين غفلتى بود كه آن روز آن كسانى كه بايد ميديدند، نديدند. در تهران هى گفته ميشد و خبر ميرسيد كه در منطقهى كرمانشاه، در منطقهى ايلام - بيشتر در اين مناطق - دشمن مشغول آرايش نظامى است. آنجا كه گفته ميشد، سياسيونى كه مسئول كار بودند، انكار ميكردند؛ ميگفتند نه، چنين خبرى نيست. تا وقتى تهران را بمباران كردند. در روز 31 شهريور 59 جنگ در واقع آغاز نشد - آن روز تهران بمباران شد - جنگ از پيش شروع شده بود. اگر مسئولانى كه آن روز در رأس كار بودند - همان كسانى كه بعد هم نشان دادند لياقت ادارهى كشور را ندارند - ميفهميدند، تشخيص ميدادند و آمادگى خود را بالا ميبردند، نه خرمشهر آنجور ميشد، نه قصرشيرين آنجور ميشد، نه برخى از مناطق ديگر مرزى.
آن غفلت اوليه موجب شد كه بر اين منطقه و منطقهى خوزستان، آنطورى كه من در برههى كوتاهى از نزديك مشاهده كردم، آنچنان فضاى غمآلودى حاكم شود كه بعضى از مناظر آن را كه من از نزديك ديدم، نميتوانم فراموش كنم. كار وقتى دست مردم باشد، وقتى استعدادهاى مردمى و حضور مردمى ميدان پيدا كند كه وارد عرصه شود، اين غفلتها پيش نمىآيد. اين چيزى بود كه آن روز اجازه نميدادند. در همين مناطق، اينجا و آنجا، گروههاى مردمى گرد هم مىآمدند، به زحمت زياد قبضههاى سلاحى را براى خودشان فراهم ميكردند، مشغول دفاع ميشدند؛ آنها آنجا ناراضى بودند، در جلسات رسمى گله و شكايت ميكردند كه چرا فلانى در فلانجا اسلحه جمع كرده است! عدهاى جوان داشتند دفاع ميكردند؛ بنابراين نميتوانستند تحمل كنند. اين براى ما درس است.
من ديروز عرض كردم؛ نظامى مثل نظام جمهورى اسلامى، با اين آرمانها، با اين هدفها، با اين داعيهى بزرگى كه دارد - دشمن ظلم است، دشمن استكبار است، دشمن زيادهخواهىِ متكبرانهى قدرتهاى بينالمللى است - با چالشهائى مواجه ميشود؛ به رنگهاى مختلف، به شكلهاى گوناگون؛ لذا بايد آماده باشد. اين آمادگى، بيش از همه چيز متكى به ايمانهاى مردم است. آن حصار پشتيبان، آن پاسدار اعظم در دفاع از هويت يك ملت و عزت يك ملت و نجات يك ملت از كيد دشمنان، آگاهى مردم است؛ اين را ما در جنگ تجربه كرديم. امروز هم در هر بخشى، در هر مجموعهاى از كار كه مسئولان آگاهانه متوجه باشند و به مردم نقش بدهند، همين اتفاق خواهد افتاد.
جمهورىِ اسلامى است، مردمسالارى است؛ مردمسالارى اسلامى. مردمسالارى بايد معنائى داشته باشد؛ معناى واقعى دارد، تعارف نيست. شهدا، جانبازان، آزادگان و خانوادههاى آنها در اين راه، بهترين آزمايش را دادند. اين صبر عظيمى كه خانوادههاى شهيدان نشان دادند، خيلى ارزش دارد. اگر خانوادهها بىصبرى نشان ميدادند، بىمعرفتى نشان ميدادند، بىبصيرتى نشان ميدادند، فضاى مجاهدت سرد ميشد؛ دلها مشتاق فداكارى و ايثارگرى باقى نميماند. خانوادهها صبر نشان دادند. سالهاى متمادى از آن دوران دفاع مقدس گذشته است، اما باب شهادت بسته نشده؛ باز هم مشاهده ميكنيم خانوادههائى داغدار عزيزانى ميشوند كه به مناسبتهاى گوناگون وادى شهادت بر روى آنها در باز ميكند، آنها پر ميگشايند و ميروند. اگر اين بصيرت و اين صبر در ملتى باشد، بدون ترديد اين ملت قلهها را درخواهد نورديد.
ما در تشخيص هدفهامان و تعيين راهِ به اين هدفها، هرگز دچار ترديد نشديم؛ در راهِ خودمان شك نكرديم؛ خدا را شكر ميكنيم. خداى متعال هيچگاه دلهاى ما را خالى از نور اميد نگذاشت. و در واقعيت ديديم كه اين اميدها، اميدهاى واهى نبود؛ اميدهاى درستى بود.
يك روزى بود كه وقتى كسانى به صحنه نگاه ميكردند، بظاهر هيچ چيز اميدبخشى در صحنه به چشم نمىآمد؛ اما مردمان بصير - در رأس همه، امام بزرگوار - به ما اميد ميدادند، نويد ميدادند. گاهى ما تعبداً گوش ميكرديم، اما قادر به تحليل نبوديم. تعبداً قبول ميكرديم، بعد ميديديم همين جور شد؛ بعد ميديديم همين اميد الهى، همين نويد آسمانى تحقق پيدا كرد. و امروز وقتى به تجربهى سى و دو سالهى انقلاب نگاه ميكنيم، پىدرپى موفقيتهاى نظام جمهورى اسلامى را مىبينيم.
در ديدارهاى با خانوادههاى معظم شهيدان و جانبازان عزيز و ايثارگران، آن چيزى كه در درجهى اول مورد اهتمام اين حقير است، بعد از تجليل و احترام و تقديم مراتب تشكر و قدردانى به خانوادههاى عزيز، اين است كه مجموعهى ملت عزيز ما توجه كنند كه روحيهى ايثارگرى نجاتبخش يك كشور است، نجاتبخش يك ملت است. روحيهى گذشت، روحيهى فداكارى، وقت انجام وظيفه را شناختن، كار را بوقت و بموقع انجام دادن، نجاتبخش است.
خوشبختانه امروز ما آثار پيشرفت و موفقيت را در كشورمان مشاهده ميكنيم؛ مىبينيم كه داريم پيش ميرويم؛ البته تلاش لازم است، كار لازم است. كارها به سمت ظريفتر شدن و پيچيدهتر بودن پيش ميرود. هوشمندى امروز مردم ما هم بمراتب از سالهاى گذشته بيشتر است. بحمداللَّه مردمان مؤمن، پايبند، معتقد و متعهد به آرمانها در جامعهى ما زياد است؛ در اين استان عزيز هم همين جور. در اين استان، ما آنچه كه ديديم، آنچه كه شنيديم، مردانگى و فتوّت و دلاورى و جوانمردى و - همان طور كه ديروز عرض كرديم - خصال نيكِ پهلوانى در مرد و زن بوده است.
اشاره كردند كه خانمى در گيلانغرب از دشمن اسير گرفت؛ يك زن، يك بانوى مؤمن و شجاع. آنچنان نمودارهاى شجاعت در اين استان زياد است كه انسان نميتواند بشمرد. از اوّلى كه اينجا تشكيل شد، نيروهاى مردمى و سپاهى در كنار نيروهاى مبارز ارتش فداكارى كردند. افسران شجاع و لايقى در اينجا بودند؛ فرمانده هوانيروزى كه شهيد شيرودى و ديگران از امكانات و پشتيبانى او استفاده ميكردند و اين پروازهاى عجيب را انجام ميدادند؛ چه در لشكر 81، و چه در بخشهاى گوناگون؛ كه بعضى از افسران شجاع و مؤمن را ما در همين پادگان ابوذر كه ايشان ذكر كردند، از نزديك ديديم. آنها آنچنان با اخلاص و فداكارى كار ميكردند كه فضاى اين منطقه را پر كرده بودند از همين نشانههاى اخلاص و فداكارى و پهلوانى و گذشت و ايثار؛ و اين جزو افتخارات استان شماست، و اين براى شما خواهد ماند. شما در پيشانى دفاع مقدس قرار گرفتيد. افتخارات دفاع مقدس بسيارىاش مربوط به اين استان است. پشتيبانى كرديد، گذشت كرديد؛ خداوند انشاءاللَّه اجرها و پاداشهاى معنوى را به شما خواهد داد؛ همچنان كه اجر دنيوى آن را - كه عزت كشور است - به شما و به ملت ايران بخشيد.
اين سفر براى ما سفر بسيار مطلوب و شيرينى است، به خاطر ديدار با مردم عزيز و چهرهى شاد و خندان آنها؛ كه ديروز در اين مسير، دهها هزار چهرهى شاد و خندان را انسان مشاهده ميكرد؛ اين نشانهى چهرهى باطراوت اين استان است. اميدواريم انشاءاللَّه مسئولين بتوانند كارهائى را كه در اين استان لازم است انجام بگيرد - كه كارهاى فراوانى هم در اين استان بايستى انشاءاللَّه صورت بگيرد - انجام بدهند. استانِ بسيار بااستعدادى است و كمبودهائى هم دارد؛ اين كمبودها انشاءاللَّه بايستى با تلاش و كار مسئولين پيگيرى شود.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
More...
Description:
Vali Visit Kermanshah - Farsi
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
خداى متعال را سپاسگزارم كه اين توفيق را امروز داد كه در اين مجلسِ داراى عظمت معنوى شركت كنم. براى من در سفر به شهرهاى مختلف، يكى از مهمترين و باعظمتترين ديدارها، ديدار با خانوادهى معظم شهيدان و ايثارگران و جانبازان است. علت اين است كه در مسئلهى ايثار، عظمتى نهفته است كه هيچ جامعهاى بدون دارا بودن يك چنين نقطهى مهم و تعيينكنندهاى نخواهد توانست به عزت و عظمت دست پيدا كند. ما در قضيهى شهادت شهيدان و مجاهدت ايثارگران و جانبازان معمولاً جوانب محدودى را مىبينيم و مشاهده ميكنيم؛ در حالى كه خود عمل و حركت ايثار در جامعه كه منجر به شهادت يا جانبازى ميشود، معانى متعددى دارد؛ جهات مختلفى دارد كه هر كدام از اينها درخور بررسى است. يكى از اين جهات، فرصتشناسى و پاسخگوئى به نياز لحظههاست. ممكن است احساس مسئوليت در كسانى باشد، اما در لحظهى نياز، اين مسئوليت را نه تشخيص بدهند و نه عمل كنند؛ اين خيلى تفاوت دارد با آن حركت و اقدامى كه درست در لحظهى نياز اتفاق مىافتد و انجام ميگيرد. جوانان شجاع و باغيرت و مؤمن و فداكارى كه نياز كشور را احساس كردند و به سراغ خطر رفتند و به استقبال خطر شتافتند، اينها اين امتياز برجسته را دارند كه نياز را در زمان خود فهميدند و به آن پاسخ گفتند. اين يك بعد بسيار مهمى است، اين براى ما درس است.
من ديروز اشاره كردم كه جوانهاى كرمانشاهى يك ماه بعد از پيروزى انقلاب احساس كردند نياز هست كه بروند. شهيد سيد محمدسعيد جعفرى - شهيد پيشرو و پيشتاز - با جمع رفقاى خودش رفتند از پادگان لشكر سنندج دفاع كردند؛ فهميدند كه معناى اين دفاع چيست؛ تسلط ضد انقلاب بر يك پادگان نظامى، معنايش چيست. اين زود فهميدن، بوقت فهميدن، بهنگام عمل كردن و پاسخ به نياز دادن، آن نقطهى برجستهاى است كه نبايد مغفول بماند.
شهداى عزيز ما در سرتاسر كشور اين خصوصيات را دارند. دوستان و برادران نام شهرها را ذكر كردند، خاطرههائى از مناطق مقاومت در اين استان بيان كردند. البته از سرتاسر كشور آمدند، شهداى برجسته و نامدارى در اين سرزمين به خاك و خون غلتيدند كه از مناطق ديگر آمدند؛ ليكن نقش مردم اين استان، نقش جوانان باايمان، نقش آن احساس عظيم و عزيز و كميابى كه در اين جوانها بود - هوشمندى آنها، موقعشناسى آنها، فرصتشناسى آنها - نبايستى نديده گرفته شود؛ و اين همان چيزى است كه ما هميشه به آن احتياج داريم.
غالباً كشورها و جوامع از ندانستن موقعيت و نشناختن فرصت، ضربه ميخورند. وقتى دشمنى كمين ميگيرد و ما نميدانيم كه او كمين گرفته است، نميشناسيم؛ يا اگر چنانچه اطلاع پيدا كرديم، علاج را زود و بهنگام ارائه نميدهيم؛ آن وقت ضربه ميخوريم.
جملهى خوبى را اين برادر عزيز اينجا گفتند. گفتند خانوادهها ميگفتند اگر اين رزمنده را ما از خانه بيرون نفرستيم، فردا دشمن دم در خانه مىآيد، بايد بجنگيم. اين خيلى نكتهى مهمى است؛ اين همان نكتهاى است كه اميرالمؤمنين (عليهالسّلام) فرمود: هر جماعتى كه در داخل خانهى خودشان مورد تهاجم دشمن قرار بگيرند، غفلت كنند از اين كه دشمن دارد مىآيد، اينها شكست خواهند خورد، مغلوب خواهند شد. دشمن را از دور بايد ديد، از دور بايد شناخت؛ اين غفلتى بود كه آن روز آن كسانى كه بايد ميديدند، نديدند. در تهران هى گفته ميشد و خبر ميرسيد كه در منطقهى كرمانشاه، در منطقهى ايلام - بيشتر در اين مناطق - دشمن مشغول آرايش نظامى است. آنجا كه گفته ميشد، سياسيونى كه مسئول كار بودند، انكار ميكردند؛ ميگفتند نه، چنين خبرى نيست. تا وقتى تهران را بمباران كردند. در روز 31 شهريور 59 جنگ در واقع آغاز نشد - آن روز تهران بمباران شد - جنگ از پيش شروع شده بود. اگر مسئولانى كه آن روز در رأس كار بودند - همان كسانى كه بعد هم نشان دادند لياقت ادارهى كشور را ندارند - ميفهميدند، تشخيص ميدادند و آمادگى خود را بالا ميبردند، نه خرمشهر آنجور ميشد، نه قصرشيرين آنجور ميشد، نه برخى از مناطق ديگر مرزى.
آن غفلت اوليه موجب شد كه بر اين منطقه و منطقهى خوزستان، آنطورى كه من در برههى كوتاهى از نزديك مشاهده كردم، آنچنان فضاى غمآلودى حاكم شود كه بعضى از مناظر آن را كه من از نزديك ديدم، نميتوانم فراموش كنم. كار وقتى دست مردم باشد، وقتى استعدادهاى مردمى و حضور مردمى ميدان پيدا كند كه وارد عرصه شود، اين غفلتها پيش نمىآيد. اين چيزى بود كه آن روز اجازه نميدادند. در همين مناطق، اينجا و آنجا، گروههاى مردمى گرد هم مىآمدند، به زحمت زياد قبضههاى سلاحى را براى خودشان فراهم ميكردند، مشغول دفاع ميشدند؛ آنها آنجا ناراضى بودند، در جلسات رسمى گله و شكايت ميكردند كه چرا فلانى در فلانجا اسلحه جمع كرده است! عدهاى جوان داشتند دفاع ميكردند؛ بنابراين نميتوانستند تحمل كنند. اين براى ما درس است.
من ديروز عرض كردم؛ نظامى مثل نظام جمهورى اسلامى، با اين آرمانها، با اين هدفها، با اين داعيهى بزرگى كه دارد - دشمن ظلم است، دشمن استكبار است، دشمن زيادهخواهىِ متكبرانهى قدرتهاى بينالمللى است - با چالشهائى مواجه ميشود؛ به رنگهاى مختلف، به شكلهاى گوناگون؛ لذا بايد آماده باشد. اين آمادگى، بيش از همه چيز متكى به ايمانهاى مردم است. آن حصار پشتيبان، آن پاسدار اعظم در دفاع از هويت يك ملت و عزت يك ملت و نجات يك ملت از كيد دشمنان، آگاهى مردم است؛ اين را ما در جنگ تجربه كرديم. امروز هم در هر بخشى، در هر مجموعهاى از كار كه مسئولان آگاهانه متوجه باشند و به مردم نقش بدهند، همين اتفاق خواهد افتاد.
جمهورىِ اسلامى است، مردمسالارى است؛ مردمسالارى اسلامى. مردمسالارى بايد معنائى داشته باشد؛ معناى واقعى دارد، تعارف نيست. شهدا، جانبازان، آزادگان و خانوادههاى آنها در اين راه، بهترين آزمايش را دادند. اين صبر عظيمى كه خانوادههاى شهيدان نشان دادند، خيلى ارزش دارد. اگر خانوادهها بىصبرى نشان ميدادند، بىمعرفتى نشان ميدادند، بىبصيرتى نشان ميدادند، فضاى مجاهدت سرد ميشد؛ دلها مشتاق فداكارى و ايثارگرى باقى نميماند. خانوادهها صبر نشان دادند. سالهاى متمادى از آن دوران دفاع مقدس گذشته است، اما باب شهادت بسته نشده؛ باز هم مشاهده ميكنيم خانوادههائى داغدار عزيزانى ميشوند كه به مناسبتهاى گوناگون وادى شهادت بر روى آنها در باز ميكند، آنها پر ميگشايند و ميروند. اگر اين بصيرت و اين صبر در ملتى باشد، بدون ترديد اين ملت قلهها را درخواهد نورديد.
ما در تشخيص هدفهامان و تعيين راهِ به اين هدفها، هرگز دچار ترديد نشديم؛ در راهِ خودمان شك نكرديم؛ خدا را شكر ميكنيم. خداى متعال هيچگاه دلهاى ما را خالى از نور اميد نگذاشت. و در واقعيت ديديم كه اين اميدها، اميدهاى واهى نبود؛ اميدهاى درستى بود.
يك روزى بود كه وقتى كسانى به صحنه نگاه ميكردند، بظاهر هيچ چيز اميدبخشى در صحنه به چشم نمىآمد؛ اما مردمان بصير - در رأس همه، امام بزرگوار - به ما اميد ميدادند، نويد ميدادند. گاهى ما تعبداً گوش ميكرديم، اما قادر به تحليل نبوديم. تعبداً قبول ميكرديم، بعد ميديديم همين جور شد؛ بعد ميديديم همين اميد الهى، همين نويد آسمانى تحقق پيدا كرد. و امروز وقتى به تجربهى سى و دو سالهى انقلاب نگاه ميكنيم، پىدرپى موفقيتهاى نظام جمهورى اسلامى را مىبينيم.
در ديدارهاى با خانوادههاى معظم شهيدان و جانبازان عزيز و ايثارگران، آن چيزى كه در درجهى اول مورد اهتمام اين حقير است، بعد از تجليل و احترام و تقديم مراتب تشكر و قدردانى به خانوادههاى عزيز، اين است كه مجموعهى ملت عزيز ما توجه كنند كه روحيهى ايثارگرى نجاتبخش يك كشور است، نجاتبخش يك ملت است. روحيهى گذشت، روحيهى فداكارى، وقت انجام وظيفه را شناختن، كار را بوقت و بموقع انجام دادن، نجاتبخش است.
خوشبختانه امروز ما آثار پيشرفت و موفقيت را در كشورمان مشاهده ميكنيم؛ مىبينيم كه داريم پيش ميرويم؛ البته تلاش لازم است، كار لازم است. كارها به سمت ظريفتر شدن و پيچيدهتر بودن پيش ميرود. هوشمندى امروز مردم ما هم بمراتب از سالهاى گذشته بيشتر است. بحمداللَّه مردمان مؤمن، پايبند، معتقد و متعهد به آرمانها در جامعهى ما زياد است؛ در اين استان عزيز هم همين جور. در اين استان، ما آنچه كه ديديم، آنچه كه شنيديم، مردانگى و فتوّت و دلاورى و جوانمردى و - همان طور كه ديروز عرض كرديم - خصال نيكِ پهلوانى در مرد و زن بوده است.
اشاره كردند كه خانمى در گيلانغرب از دشمن اسير گرفت؛ يك زن، يك بانوى مؤمن و شجاع. آنچنان نمودارهاى شجاعت در اين استان زياد است كه انسان نميتواند بشمرد. از اوّلى كه اينجا تشكيل شد، نيروهاى مردمى و سپاهى در كنار نيروهاى مبارز ارتش فداكارى كردند. افسران شجاع و لايقى در اينجا بودند؛ فرمانده هوانيروزى كه شهيد شيرودى و ديگران از امكانات و پشتيبانى او استفاده ميكردند و اين پروازهاى عجيب را انجام ميدادند؛ چه در لشكر 81، و چه در بخشهاى گوناگون؛ كه بعضى از افسران شجاع و مؤمن را ما در همين پادگان ابوذر كه ايشان ذكر كردند، از نزديك ديديم. آنها آنچنان با اخلاص و فداكارى كار ميكردند كه فضاى اين منطقه را پر كرده بودند از همين نشانههاى اخلاص و فداكارى و پهلوانى و گذشت و ايثار؛ و اين جزو افتخارات استان شماست، و اين براى شما خواهد ماند. شما در پيشانى دفاع مقدس قرار گرفتيد. افتخارات دفاع مقدس بسيارىاش مربوط به اين استان است. پشتيبانى كرديد، گذشت كرديد؛ خداوند انشاءاللَّه اجرها و پاداشهاى معنوى را به شما خواهد داد؛ همچنان كه اجر دنيوى آن را - كه عزت كشور است - به شما و به ملت ايران بخشيد.
اين سفر براى ما سفر بسيار مطلوب و شيرينى است، به خاطر ديدار با مردم عزيز و چهرهى شاد و خندان آنها؛ كه ديروز در اين مسير، دهها هزار چهرهى شاد و خندان را انسان مشاهده ميكرد؛ اين نشانهى چهرهى باطراوت اين استان است. اميدواريم انشاءاللَّه مسئولين بتوانند كارهائى را كه در اين استان لازم است انجام بگيرد - كه كارهاى فراوانى هم در اين استان بايستى انشاءاللَّه صورت بگيرد - انجام بدهند. استانِ بسيار بااستعدادى است و كمبودهائى هم دارد؛ اين كمبودها انشاءاللَّه بايستى با تلاش و كار مسئولين پيگيرى شود.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
2:42
|
بر صغیر کی آزادی کی تحریک - Urdu
علما اور مجتہدین کو برا کہنےوالے دیکھے کہ اس بر صغیر کی آزادی کی تحریک میں جب اود کی جنگ ہوئی تو اسکے پیچھے...
علما اور مجتہدین کو برا کہنےوالے دیکھے کہ اس بر صغیر کی آزادی کی تحریک میں جب اود کی جنگ ہوئی تو اسکے پیچھے مرجع تقلید سلطان العلما تھے اور انگریزوں سے جنگ میں ہمیشہ جنگ کی قیادت شیعہ علما کے ہاتھ میں تھی اور ان علما کے خلاف بات کرنےوالوں کو شرم نہں آتی
More...
Description:
علما اور مجتہدین کو برا کہنےوالے دیکھے کہ اس بر صغیر کی آزادی کی تحریک میں جب اود کی جنگ ہوئی تو اسکے پیچھے مرجع تقلید سلطان العلما تھے اور انگریزوں سے جنگ میں ہمیشہ جنگ کی قیادت شیعہ علما کے ہاتھ میں تھی اور ان علما کے خلاف بات کرنےوالوں کو شرم نہں آتی
3:09
|
انقلاب کا معجزہ | ولی امرِ مسلمین جہان | Farsi Sub Urdu
انقلاب کا معجزہ | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اگر کسی کو (حسن باقری کا) پتہ ہو وہ یہ...
انقلاب کا معجزہ | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اگر کسی کو (حسن باقری کا) پتہ ہو وہ یہ جانتا ہوگا کہ یہ جوان، بیس اور کچھ سالوں کا یہ جوان، جنگ کا اسٹرٹیجسٹ ہے۔ کب؟ سنہ1982 میں۔ جنگ میں داخل کب ہوا؟ سنہ 1980 میں۔ ایک معمولی سے سپاہی سے لے کر ایک عسکری اسٹرٹیجسٹ کا سفر 20 سے 25 سالوں کا سفر ہوتا ہے۔ (لیکن) اِس جوان نے صرف دو سالوں میں یہ سفر طے کیا ہے۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #حسن_باقری #افشردی #معجزہ #انقلاب #جنگ #دفاع_مقدس
More...
Description:
انقلاب کا معجزہ | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اگر کسی کو (حسن باقری کا) پتہ ہو وہ یہ جانتا ہوگا کہ یہ جوان، بیس اور کچھ سالوں کا یہ جوان، جنگ کا اسٹرٹیجسٹ ہے۔ کب؟ سنہ1982 میں۔ جنگ میں داخل کب ہوا؟ سنہ 1980 میں۔ ایک معمولی سے سپاہی سے لے کر ایک عسکری اسٹرٹیجسٹ کا سفر 20 سے 25 سالوں کا سفر ہوتا ہے۔ (لیکن) اِس جوان نے صرف دو سالوں میں یہ سفر طے کیا ہے۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #حسن_باقری #افشردی #معجزہ #انقلاب #جنگ #دفاع_مقدس
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
inqilaab,
mojezah,
imam,
khamenei,
strategist,
hasan
,
baqeri,
shaheed,
jawaan,
diafah,
moqaddas,
askari,
2:03
|
[Balaghatul Hussain] Khutba No 4 to 6 | Babar Ali | Sindhi
خطبه 4
بيشڪ سهپ سينگار آهي، وفا انسانيت جي تقاضا آ، مائٽن سان ڀلائي نعمت آ، تڪبر بي غيرتي آهي، تڪڙ ناداني...
خطبه 4
بيشڪ سهپ سينگار آهي، وفا انسانيت جي تقاضا آ، مائٽن سان ڀلائي نعمت آ، تڪبر بي غيرتي آهي، تڪڙ ناداني آهي، ناداني لاچاري آ، وڌاءُ خطرو آ، ڪمينن جي صحبت برائي آ ۽ فاسقن جي صحبت تهمت ( جو سبب) آهي.
( ڪشف الغمه)
خطبه 5
(سندن خطبي جو حصو جنهن ۾ پاڻ ماڻهن کي پنهنجي والد سان گڏ جهاد خاطر شام ڏانهن وڃڻ جي دعوت ڏني آهي)
پاڻ اٿي بيٺا، الله جي شايان شان حمد ۽ ثنا بيان ڪيائون پوءِ فرمايائون:
ڪوفي وارو! اوهان ڪريم محب آهيو. اوهان جي محبت دل سان آهي صرف ظاهري ناهي. توهان پنهنجي وچ ۾ ڀڙڪيل باهه وسائڻ ۽ پاڻ تي ڪڙڪيل مشڪلن کي مٽائڻ جي ڪوشش ڪريو.
سمجهي ڇڏيو ته جنگ جا نتيجا وسيع ۽ ان جو مزو اڻ وڻندڙ هوندو آهي. جيڪو ان مقابلي لاءِ ثمر ڪٺو ڪري، پوري طرح ان لاءِ تيار ٿي وڃي ۽ جنگ شروع ٿيڻ کان اڳ ان جي تڪليفن کي نظر ۾ رکي ته اهو ئي ميدان جو اچڻ کان اڳ تڪڙ ڪري ۽ جنگ شروع ڪرڻ جي ڪوشش ڪري ته اهو پنهنجي قوم کي فائدو ته ڪو به نه پهچائيندو البت پاڻ کي به تباهه ڪندو. اسان الله کان دعا ٿا گهرون ته هو اوهان کي حق ڏانهن ڌيان ڏيڻ جي همت عطا فرمائي .
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
خطبه 6
حضرت ابوذر سان سندن گفتگو
(جڏهن عثمان ابن عفان جي حڪم سان حضرت ابوذر غفاريءَ کي جلاوطن ڪري ربذه ڏانهن موڪليو پئي ويو ته امام ع جن فرمايو)
چاچا سائين! جيڪي اوهان تي گذري رهيو آهي الله ان کي بلائڻ جي قدرت رکي ٿو. هر ڏينهن هو نئين شان ۾ آهي.
ماڻهن پنهنجي دنيا اوهان کان بچائي ورتي ۽ اوهان کانئن پنهنجو دين بچايو. جيڪا شيءِ هنن اوهان کان بچائي ان کان اوهان بي نياز آهيو. البت اوهان جنهن شيءِ کان هنن کي محروم ڪيو آهي ان جا هو ڏاڍا محتاج آهن. اوهان الله کان صبر ۽ ڪاميابي جي دعا ڪريو. فرياد ۽ واويلا ڪرڻ کان بچو. ڇو ته صبر دين جو حصو ۽ ڪرامت آهي. لالچ رزق کي قريب آڻي نٿي سگهي ۽ واويلا موت کي ٽاري نٿي سگهي.
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
More...
Description:
خطبه 4
بيشڪ سهپ سينگار آهي، وفا انسانيت جي تقاضا آ، مائٽن سان ڀلائي نعمت آ، تڪبر بي غيرتي آهي، تڪڙ ناداني آهي، ناداني لاچاري آ، وڌاءُ خطرو آ، ڪمينن جي صحبت برائي آ ۽ فاسقن جي صحبت تهمت ( جو سبب) آهي.
( ڪشف الغمه)
خطبه 5
(سندن خطبي جو حصو جنهن ۾ پاڻ ماڻهن کي پنهنجي والد سان گڏ جهاد خاطر شام ڏانهن وڃڻ جي دعوت ڏني آهي)
پاڻ اٿي بيٺا، الله جي شايان شان حمد ۽ ثنا بيان ڪيائون پوءِ فرمايائون:
ڪوفي وارو! اوهان ڪريم محب آهيو. اوهان جي محبت دل سان آهي صرف ظاهري ناهي. توهان پنهنجي وچ ۾ ڀڙڪيل باهه وسائڻ ۽ پاڻ تي ڪڙڪيل مشڪلن کي مٽائڻ جي ڪوشش ڪريو.
سمجهي ڇڏيو ته جنگ جا نتيجا وسيع ۽ ان جو مزو اڻ وڻندڙ هوندو آهي. جيڪو ان مقابلي لاءِ ثمر ڪٺو ڪري، پوري طرح ان لاءِ تيار ٿي وڃي ۽ جنگ شروع ٿيڻ کان اڳ ان جي تڪليفن کي نظر ۾ رکي ته اهو ئي ميدان جو اچڻ کان اڳ تڪڙ ڪري ۽ جنگ شروع ڪرڻ جي ڪوشش ڪري ته اهو پنهنجي قوم کي فائدو ته ڪو به نه پهچائيندو البت پاڻ کي به تباهه ڪندو. اسان الله کان دعا ٿا گهرون ته هو اوهان کي حق ڏانهن ڌيان ڏيڻ جي همت عطا فرمائي .
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
خطبه 6
حضرت ابوذر سان سندن گفتگو
(جڏهن عثمان ابن عفان جي حڪم سان حضرت ابوذر غفاريءَ کي جلاوطن ڪري ربذه ڏانهن موڪليو پئي ويو ته امام ع جن فرمايو)
چاچا سائين! جيڪي اوهان تي گذري رهيو آهي الله ان کي بلائڻ جي قدرت رکي ٿو. هر ڏينهن هو نئين شان ۾ آهي.
ماڻهن پنهنجي دنيا اوهان کان بچائي ورتي ۽ اوهان کانئن پنهنجو دين بچايو. جيڪا شيءِ هنن اوهان کان بچائي ان کان اوهان بي نياز آهيو. البت اوهان جنهن شيءِ کان هنن کي محروم ڪيو آهي ان جا هو ڏاڍا محتاج آهن. اوهان الله کان صبر ۽ ڪاميابي جي دعا ڪريو. فرياد ۽ واويلا ڪرڻ کان بچو. ڇو ته صبر دين جو حصو ۽ ڪرامت آهي. لالچ رزق کي قريب آڻي نٿي سگهي ۽ واويلا موت کي ٽاري نٿي سگهي.
( شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد)
1:42
|
دفاع مقدس کے فوائد نقصانات سے زیادہ | امام خامنہ ای | Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عَالَمی شیطانی طاقتوں سے لڑی جانے والی آٹھ سالہ جنگ یعنی دفاعِ...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عَالَمی شیطانی طاقتوں سے لڑی جانے والی آٹھ سالہ جنگ یعنی دفاعِ مقدس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ دفاع مقدس کے منافع و فوائد کیا تھے؟ دفاع مقدس کے نقصانات کس طرح کے نقصانات تھے؟ جنگوں میں کس قسم کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا جنگ کے فوائد بھی ہوتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کریں۔
#ویڈیو #جنگ #دفاع_مقدس #نقصانات #فوائد #منافع #انسانی #مادی #طولانی_مدت #قلیل_مدت
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عَالَمی شیطانی طاقتوں سے لڑی جانے والی آٹھ سالہ جنگ یعنی دفاعِ مقدس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ دفاع مقدس کے منافع و فوائد کیا تھے؟ دفاع مقدس کے نقصانات کس طرح کے نقصانات تھے؟ جنگوں میں کس قسم کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا جنگ کے فوائد بھی ہوتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کریں۔
#ویڈیو #جنگ #دفاع_مقدس #نقصانات #فوائد #منافع #انسانی #مادی #طولانی_مدت #قلیل_مدت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
defa
moqaddas,
nuqsanat,
fawaed,
sayyid
ali
khamenei,
shaytani,
taqatein,
jung,
iran,
iraq,
imam
khomeini,
saddam,
shohada,
shahadat,
insani,
toolani
muddat,
qaleel
muddat,