30:30
|
11th Majlis Day 10th Muharram 1441/10.09.19 Topic:Challenges Faced By Today\'s Youth I HI Syed Mohammad Zaki Baqri-Urdu
11th Majlis Day of 10th Muharram 1441 Hijari 10th September 2019
Topic: Challenges Faced By Today\'s Youth (دورِ جدید میں جوانوں کی آزمائشیں )
Speaker:...
11th Majlis Day of 10th Muharram 1441 Hijari 10th September 2019
Topic: Challenges Faced By Today\'s Youth (دورِ جدید میں جوانوں کی آزمائشیں )
Speaker: Allama Syed Mohammad Zaki Baqri
Location: Imam Bargah Mehfil-e-Murtaza a.s Karachi
More...
Description:
11th Majlis Day of 10th Muharram 1441 Hijari 10th September 2019
Topic: Challenges Faced By Today\'s Youth (دورِ جدید میں جوانوں کی آزمائشیں )
Speaker: Allama Syed Mohammad Zaki Baqri
Location: Imam Bargah Mehfil-e-Murtaza a.s Karachi
Video Tags:
11th
Majlis,
Day
of
10th,
Muharram
1441
Hijari,
Challenges
Faced,
By
Today\\\'s
Youth,
دورِ
جدید
,میں
جوانوں
کی
,آزمائشیں,Allama,
Syed
Mohammad,
Zaki
Baqri,
Imam
Bargah,
Mehfil-e-Murtaza
a.s,
Karachi
33:33
|
12th Majlis Shab 12th Muharram 1441/11.09.19 Topic:Challenges Faced By Today\'s Youth I HI Syed Mohammad Zaki Baqri-Urdu
12th Majlis Shab of 12th Muharram 1441 Hijari 11th September 2019
Topic: Challenges Faced By Today\'s Youth (دورِ جدید میں جوانوں کی آزمائشیں)
Speaker:...
12th Majlis Shab of 12th Muharram 1441 Hijari 11th September 2019
Topic: Challenges Faced By Today\'s Youth (دورِ جدید میں جوانوں کی آزمائشیں)
Speaker: Allama Syed Mohammad Zaki Baqri
Location: Imam Bargah Mehfil-e-Murtaza a.s Karachi
More...
Description:
12th Majlis Shab of 12th Muharram 1441 Hijari 11th September 2019
Topic: Challenges Faced By Today\'s Youth (دورِ جدید میں جوانوں کی آزمائشیں)
Speaker: Allama Syed Mohammad Zaki Baqri
Location: Imam Bargah Mehfil-e-Murtaza a.s Karachi
Video Tags:
12th
Majlis,
Shab
of
12th
Muharram,
1441
Hijari,
Challenges
Faced,
By
Today\\\'s
Youth,
دورِ
جدید
میں
,جوانوں
کی
آزمائشیں,
Allama,
Syed
Mohammad,
Zaki
Baqri,
Imam
Bargah,
Mehfil-e-Murtaza
a.s,
Karachi
26:44
|
26:53
|
2:07
|
20:37
|
[08] 250 Saalah Insaan | Rehbar Syed Ali Khamenei | Ramazan 2021 | Urdu | امام علیؑ-3 | دورِ حکومت اور آپؑ کےدشمن
[08] 250 Saalah Insaan
Rehbar Syed Ali Khamenei
Ramazan 2021
متضاد صفات کے حامل
اقتدار، مظلومیت اور کامیابی
رسول اللہؐ اور امام علیؑ...
[08] 250 Saalah Insaan
Rehbar Syed Ali Khamenei
Ramazan 2021
متضاد صفات کے حامل
اقتدار، مظلومیت اور کامیابی
رسول اللہؐ اور امام علیؑ کے حکومت میں فرق
دورِ حکومت کی خصوصیات
More...
Description:
[08] 250 Saalah Insaan
Rehbar Syed Ali Khamenei
Ramazan 2021
متضاد صفات کے حامل
اقتدار، مظلومیت اور کامیابی
رسول اللہؐ اور امام علیؑ کے حکومت میں فرق
دورِ حکومت کی خصوصیات
4:22
|
حیدر خداحافظ - حاج محمود کریمی | نوحه امام علی سوزناک | Farsi
مداحی و نوحه شهادت حضرت امام امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع)
زمنیه: استخوان توی گلو خار تو چشماش بود...
مداحی و نوحه شهادت حضرت امام امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع)
زمنیه: استخوان توی گلو خار تو چشماش بود علی لحظه لحظه هاش یاد زهراش بود
با صدای: حاج محمود کریمی
لطمية الامام علي بصوت محمود کريمي
زمان: شب بیست و دوم ماه رمضان شهادت امیر المومنین 1398
مکان: هیأت رایة العباس (ع) تهران
Good Bye Haider [Eulogy of Hazrat Imam Ali) by Haj Mahmoud Karimi
Best Farsi Noha of Imam Ali (as) with Farsi Lyrics 2021
متن:
استخوان توی گلو خار تو چشماش بود
علی لحظه لحظه هاش یاد زهراش بود
یاد جای تازیونه رو دستهاش بود...
علی راحت شد ، از غم و دردها
با دل خون شد ، راهی از دنیا...
فاطمه سینه میزنه وا علیا ، واعلیا، وا علیا
واویلا...
مسجد و محراب و منبر خداحافظ
سلمان و مقداد و قنبر خداحافظ
عالَم یتیم حیدر خداحافظ...
اومدن اهل ، عالَم لاهوت
دور اون قبر و ، زیر این تابوت
زینب ناله میزنه وا علیا ، وا علیا ، وا علیا ...
واویلا...
علی راحت شد ، از غم و دردها
با دل خون شد ، راهی از دنیا...
فاطمه سینه میزنه وا علیا ، واعلیا، وا علیا
واویلا...
بی کسی و غربتش از رفتنش پیداست
آسمون گواه که چقدر علی تنهاست
حتی تشییع جنازه اش مثل زهراست...
رفت و لبریز شد ، کاسه ی صبرش
شبیه زهرا ، مخفی قبرش
حسین سینه میزنه وا علیا ، وا علیا ، وا علیا
Lyrics from olgoirani . com
Thanks for watching our video on Zainabiyon TV
#HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Install our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyountv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
مداحی و نوحه شهادت حضرت امام امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع)
زمنیه: استخوان توی گلو خار تو چشماش بود علی لحظه لحظه هاش یاد زهراش بود
با صدای: حاج محمود کریمی
لطمية الامام علي بصوت محمود کريمي
زمان: شب بیست و دوم ماه رمضان شهادت امیر المومنین 1398
مکان: هیأت رایة العباس (ع) تهران
Good Bye Haider [Eulogy of Hazrat Imam Ali) by Haj Mahmoud Karimi
Best Farsi Noha of Imam Ali (as) with Farsi Lyrics 2021
متن:
استخوان توی گلو خار تو چشماش بود
علی لحظه لحظه هاش یاد زهراش بود
یاد جای تازیونه رو دستهاش بود...
علی راحت شد ، از غم و دردها
با دل خون شد ، راهی از دنیا...
فاطمه سینه میزنه وا علیا ، واعلیا، وا علیا
واویلا...
مسجد و محراب و منبر خداحافظ
سلمان و مقداد و قنبر خداحافظ
عالَم یتیم حیدر خداحافظ...
اومدن اهل ، عالَم لاهوت
دور اون قبر و ، زیر این تابوت
زینب ناله میزنه وا علیا ، وا علیا ، وا علیا ...
واویلا...
علی راحت شد ، از غم و دردها
با دل خون شد ، راهی از دنیا...
فاطمه سینه میزنه وا علیا ، واعلیا، وا علیا
واویلا...
بی کسی و غربتش از رفتنش پیداست
آسمون گواه که چقدر علی تنهاست
حتی تشییع جنازه اش مثل زهراست...
رفت و لبریز شد ، کاسه ی صبرش
شبیه زهرا ، مخفی قبرش
حسین سینه میزنه وا علیا ، وا علیا ، وا علیا
Lyrics from olgoirani . com
Thanks for watching our video on Zainabiyon TV
#HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNoha #حیدر_نوحه #زینبیون
Support us on Patreon: https://www.patreon.com/zainabiyontv
Check out Zainabiyoun TV Merch: https://teespring.com/stores/zainabiyontv-store
Install our Android App: http://bit.ly/ZainabiyontvApp
Follow us on:
https://youtube.com/haidernohe
https://youtube.com/zainabiyountv
https://fb.com/haidernohe
https://fb.com/zainabiyountv
https://aparat.com/Zainabiyontv
https://t.me/ZainabiyonTV
https://www.instagram.com/ZainabiyunTV
https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
7:08
|
امام مہدیؑ موجود موعود [17] | امامؑ، ہر دور کی ضرورت | Urdu
اس درس میں اس مطلب کی وضاحت کی گئی ہے کہ:
امام ہر دور کی ضرورت ہے اور فیضِ الٰہی کا واسطہ ہے۔
مولانا محمد...
اس درس میں اس مطلب کی وضاحت کی گئی ہے کہ:
امام ہر دور کی ضرورت ہے اور فیضِ الٰہی کا واسطہ ہے۔
مولانا محمد باقر مہدوی
More...
Description:
اس درس میں اس مطلب کی وضاحت کی گئی ہے کہ:
امام ہر دور کی ضرورت ہے اور فیضِ الٰہی کا واسطہ ہے۔
مولانا محمد باقر مہدوی
Video Tags:
noorulwilayah,
production,
imam,
Mehdi,
mouud,
mojuud,
zarurat,
matlab,
wazahat,
faiz,
elahi,
wasta,
molana,
muhammed,
baqir,
mehdavi,
1:59
|
دُور سے ہمارا سلام | نوحہ محمد حسین پویانفر | Farsi Sub Urdu
ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
اربعین حسینی کا عالمی، معنوی اور روح پرور اجتماع...
ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
اربعین حسینی کا عالمی، معنوی اور روح پرور اجتماع درحقیقت حق و حقیقت کے پروانوں کا شمع عشق کے گرد طواف کرنے کا اجتماع ہے. ہر عاشق اباعبداللہ، چاہے وہ سرزمین عشق تک پہنچ سکے یا پہنچنے سے محروم رہ جائے، اس دن اپنے مولا سے عشق کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ضرور کرتا ہے.
ایک ایسا ہی فارسی نوحہ اردو سبٹائٹل کے ساتھ اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #سلیمان_جہاں #سلام #دور #وابستہ #کربلا
More...
Description:
ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
اربعین حسینی کا عالمی، معنوی اور روح پرور اجتماع درحقیقت حق و حقیقت کے پروانوں کا شمع عشق کے گرد طواف کرنے کا اجتماع ہے. ہر عاشق اباعبداللہ، چاہے وہ سرزمین عشق تک پہنچ سکے یا پہنچنے سے محروم رہ جائے، اس دن اپنے مولا سے عشق کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ضرور کرتا ہے.
ایک ایسا ہی فارسی نوحہ اردو سبٹائٹل کے ساتھ اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #سلیمان_جہاں #سلام #دور #وابستہ #کربلا
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
arbaeen,
salam,
noha,
Muhammad
Hussain
Poyanfar,
karbala,
imam,
imam
husayn,
haqiqat,
eshq,
vabesta,
solayman,
54:37
|
2:07
|
دور حاضر میں دشمن سے محاذ آرائی کا میدان | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دشمن کے حربے اور حملوں کی نوعیت اور اسلحے بدلتے رہتے ہیں جسکے نتیجے...
اس میں شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دشمن کے حربے اور حملوں کی نوعیت اور اسلحے بدلتے رہتے ہیں جسکے نتیجے میں محاذ جنگ اور میدان کارزار بھی بدلتا رہتا ہے، کبھی دشمن جنگی اسلحوں سے لیس ہوکر محاذ میں آتا ہے اور کبھی لوگوں کے عقیدے اور ایمان کو میدان جنگ بناکر اسے متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موجودہ دور میں دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان سجایا گیا ہے وہ کونسا میدان ہے اور اس کے لئے جس اسلحے کو بروئے کار لایا جارہا ہے وہ کیا ہے؟ اسوقت دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان اور اسلحہ انتخاب کیا گیا ہے وہ ماضی کے روایتی طریقے پر مبنی ہے یا پھر زمانے کی ترقی اور پیشرفت کے ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے؟
ان سوالات کے جوابات کو ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس خوبصورت ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ دشمن کے حربے اور حملوں کی نوعیت اور اسلحے بدلتے رہتے ہیں جسکے نتیجے میں محاذ جنگ اور میدان کارزار بھی بدلتا رہتا ہے، کبھی دشمن جنگی اسلحوں سے لیس ہوکر محاذ میں آتا ہے اور کبھی لوگوں کے عقیدے اور ایمان کو میدان جنگ بناکر اسے متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موجودہ دور میں دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان سجایا گیا ہے وہ کونسا میدان ہے اور اس کے لئے جس اسلحے کو بروئے کار لایا جارہا ہے وہ کیا ہے؟ اسوقت دشمن کی جانب سے جنگ کیلئے جو میدان اور اسلحہ انتخاب کیا گیا ہے وہ ماضی کے روایتی طریقے پر مبنی ہے یا پھر زمانے کی ترقی اور پیشرفت کے ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے؟
ان سوالات کے جوابات کو ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس خوبصورت ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
dushman,
meydan,
imam,
imam
khamenei,
muhaz,
aslaha,
jang,
iman,
jang
narm,
jang
sakht,
4:06
|
ذلت ہم سے دور ہے | نوحہ: صادق آہنگران | Farsi Sub Urdu
«ہَيْہَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃُ» امام حسین علیہ السلام کا معروف جملہ ہے جسےآپ نے روز عاشوراء کے دن خطبے کے...
«ہَيْہَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃُ» امام حسین علیہ السلام کا معروف جملہ ہے جسےآپ نے روز عاشوراء کے دن خطبے کے دوران ارشاد فرمایا۔ اس جملے کا معنا ہے کہ ذلت ہم سے دور ہے۔ تاریخی مصادر کے مطابق واقعہ کربلا میں عبید اللہ بن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ امام حسین علیہ السلام سے بیعت لیں یا انہیں جنگ پر مجبور کریں۔ تاہم امام حسین علیہ السلام نے روز عاشوراء لشکر عمر بن سعد کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے اسکا جواب اسی جملے سے دیا تھا جو رہتی دنیا تک تمام حریت پسند انسانوں کا نعرہ بن گیا ہے۔
یہ عاشوراء کے ان سبق آموز پیغاموں میں سے ایک ہے جسے ماہ محرم اور صفر کے جلوسوں اور پروگراموں کے علاوہ بہت سے مقامات پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انہی مقامات میں سے ایک ایران پر مسلط کردہ جنگ ہے جہاں یہ نعرہ کثرت سے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں جوانوں میں جوش اور جذبہ شہادت دوبالا ہوجاتا تھا جسکی ایک مثال، ایران کے معروف نوحہ خوان صادق آہنگران کے اس نوحے میں آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں جو «ہَيْہَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃُ» کے ولولہ انگیز نعرے پر مشتمل ہے۔
#ویڈیو #صادق_آہنگران #ذلت #دشمن #امام_حسین #قربان #عشق #قرآن #آمادہ #پیروکار #کربلا
More...
Description:
«ہَيْہَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃُ» امام حسین علیہ السلام کا معروف جملہ ہے جسےآپ نے روز عاشوراء کے دن خطبے کے دوران ارشاد فرمایا۔ اس جملے کا معنا ہے کہ ذلت ہم سے دور ہے۔ تاریخی مصادر کے مطابق واقعہ کربلا میں عبید اللہ بن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ امام حسین علیہ السلام سے بیعت لیں یا انہیں جنگ پر مجبور کریں۔ تاہم امام حسین علیہ السلام نے روز عاشوراء لشکر عمر بن سعد کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے اسکا جواب اسی جملے سے دیا تھا جو رہتی دنیا تک تمام حریت پسند انسانوں کا نعرہ بن گیا ہے۔
یہ عاشوراء کے ان سبق آموز پیغاموں میں سے ایک ہے جسے ماہ محرم اور صفر کے جلوسوں اور پروگراموں کے علاوہ بہت سے مقامات پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انہی مقامات میں سے ایک ایران پر مسلط کردہ جنگ ہے جہاں یہ نعرہ کثرت سے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں جوانوں میں جوش اور جذبہ شہادت دوبالا ہوجاتا تھا جسکی ایک مثال، ایران کے معروف نوحہ خوان صادق آہنگران کے اس نوحے میں آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں جو «ہَيْہَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃُ» کے ولولہ انگیز نعرے پر مشتمل ہے۔
#ویڈیو #صادق_آہنگران #ذلت #دشمن #امام_حسین #قربان #عشق #قرآن #آمادہ #پیروکار #کربلا
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
zellat,
noha,
Sadiq
Ahangaran,
imam,
imam
husayn,
ashura,
arhad,
tarikh,
karbala,
jang,
insan,
muharram,
safar,
iran,
iraq,
dushman,
eshq,
quran,
8:40
|
سیاسی تجزیہ و تحلیل کی روش [14] | اتحاد کو پارہ کرنے والی کوششوں کے خلاف واضح مؤقف | Urdu
درس کے اہم مطالب:
اتحاد اور اتفاق کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز، کیوں قابل مذمت ہے؟
اگر کسی سے نظریاتی اختلاف...
درس کے اہم مطالب:
اتحاد اور اتفاق کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز، کیوں قابل مذمت ہے؟
اگر کسی سے نظریاتی اختلاف ہے تو کیا اس کا لازمہ اختلاف ہی ہے؟
اختلافات کو دور کرنے کا بہترین طریقہ کونسا ہے؟
مولانا صادق رضا تقوی
More...
Description:
درس کے اہم مطالب:
اتحاد اور اتفاق کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز، کیوں قابل مذمت ہے؟
اگر کسی سے نظریاتی اختلاف ہے تو کیا اس کا لازمہ اختلاف ہی ہے؟
اختلافات کو دور کرنے کا بہترین طریقہ کونسا ہے؟
مولانا صادق رضا تقوی
Video Tags:
اتحاد
پارہ
کوششوں
خلاف
واضح
مؤقف
اتفاق
خلاف
آواز،
قابل
مذمت
نظریاتی
اختلاف
لازمہ
اختلافات
دور
کرنے
بہترین
طریقہ
سیاسی
تجزیہ
تحلیل
مولانا
صادق
رضا
تقوی
noorulwilayah,
production,
siyasi,
tajhziyah,
tahleel,
ittehad,
paareh,
koshishon,
khilaaf,
vaazeh,
moakkaf,
ittefaq,
khilaaf,
aawaz,
qaabil,
mazammat,
ikhtilaf,
laazemeh,
ikhtalafaat,
door,
karna,
behtareen,
tareeqah,
molana,
sadiq,
raza,
taqvi,
1:59
|
مداحوں کی دور رس آواز کا اثر | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
معاشرے کی اصلاح میں مؤثر اور کارساز آوازوں میں سے ایک آواز، نوحہ خوانوں اور مداحوں کی دور رس آواز ہے۔ اس آواز...
معاشرے کی اصلاح میں مؤثر اور کارساز آوازوں میں سے ایک آواز، نوحہ خوانوں اور مداحوں کی دور رس آواز ہے۔ اس آواز نے ماضی میں بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے دفاع مقدس، حرم اہلبیتؑ کے دفاع اور 2009 میں جنم لینے والے دشمنوں کے فتنوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ آواز جہاں ماضی میں نوحہ خوانوں اور مداحوں کے کردار کو تابناک بنانے میں کارساز رہی ہے وہیں مستقبل میں بھی مختلف واقعات میں اپنا کرار ادا کرسکتی ہے لہذا اس آواز کو ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہئے اور اسے کسی بھی صورت دبنے نہیں دینا چاہئے۔ چنانچہ اس آواز کی مزید کیا خصوصیات ہیں، اس سلسلے میں جان کاری کے لئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #دور_رس_آواز #نوحہ_خوانی #کارکردگی #کارساز #انقلاب #دفاع_مقدس #مجاہدت #فروغ #امتحان #دشمن #جنگ #تاریخ
More...
Description:
معاشرے کی اصلاح میں مؤثر اور کارساز آوازوں میں سے ایک آواز، نوحہ خوانوں اور مداحوں کی دور رس آواز ہے۔ اس آواز نے ماضی میں بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے دفاع مقدس، حرم اہلبیتؑ کے دفاع اور 2009 میں جنم لینے والے دشمنوں کے فتنوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ آواز جہاں ماضی میں نوحہ خوانوں اور مداحوں کے کردار کو تابناک بنانے میں کارساز رہی ہے وہیں مستقبل میں بھی مختلف واقعات میں اپنا کرار ادا کرسکتی ہے لہذا اس آواز کو ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہئے اور اسے کسی بھی صورت دبنے نہیں دینا چاہئے۔ چنانچہ اس آواز کی مزید کیا خصوصیات ہیں، اس سلسلے میں جان کاری کے لئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #دور_رس_آواز #نوحہ_خوانی #کارکردگی #کارساز #انقلاب #دفاع_مقدس #مجاہدت #فروغ #امتحان #دشمن #جنگ #تاریخ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Maddah,
Avaz,
Imam
Khamenei,
Noha,
Difaae
Muqaddas,
Haram,
Ahlul
bayt,
Rahbar,
Tarikh,
مداح,
آواز,
اثر,
امام
خامنہ
ای,
59:12
|
3:04
|
14:16
|
سیاسی تجزیہ و تحلیل کی روش [38] | دورِ حاضر میں امریکہ کیلئے نئے چیلنجز | Urdu
درس کے اہم مطالب:
کیا امریکہ آج بھی پہلی پوزیشن میں ہے؟
ایران کی عزت اور سربلندی کا سبب کیا ہے؟
ایران کا...
درس کے اہم مطالب:
کیا امریکہ آج بھی پہلی پوزیشن میں ہے؟
ایران کی عزت اور سربلندی کا سبب کیا ہے؟
ایران کا امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کون سی بنیادی شرط ہے؟
مولانا صادق رضا تقوی
More...
Description:
درس کے اہم مطالب:
کیا امریکہ آج بھی پہلی پوزیشن میں ہے؟
ایران کی عزت اور سربلندی کا سبب کیا ہے؟
ایران کا امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کون سی بنیادی شرط ہے؟
مولانا صادق رضا تقوی
Video Tags:
noorulwilayah,
production,
Siyasi,
tajziya,
tahleel,
molana,
sadiq,
raza,
taqvi,
daur,
haazir,
amreeka,
nayi,
challanges,
pehli,
position,
iran,
izzat,
sarbulandi,
sabab,
taaluq,
qaim,
dunyadi,
shart,
,
سیاسی
,تجزیہ
,
تحلیل,
روش,
مولانا
,صادق
,رضا
,تقوی,
دورِ
,حاضر
,
امریکہ
,
نئے,
چیلنجز,
پہلی
,پوزیشن,
ایران
,
عزت
,
سربلندی
,سببت
,تعلقات
,قائم
,
بنیادی
,شرط,
4:18
|
اخلاق عملی [71] | غفلت انسان کو کیسے تباہ وبرباد کردیتی ہے؟
اس درس کے اہم نکات:
غافل انسان خدا سے کیسے دور ہوجاتا ہے؟
غافل کے اعمال تباہ کیوں ہوجاتے ہیں؟
مولانا سید...
اس درس کے اہم نکات:
غافل انسان خدا سے کیسے دور ہوجاتا ہے؟
غافل کے اعمال تباہ کیوں ہوجاتے ہیں؟
مولانا سید احمد علی نقوی
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
غافل انسان خدا سے کیسے دور ہوجاتا ہے؟
غافل کے اعمال تباہ کیوں ہوجاتے ہیں؟
مولانا سید احمد علی نقوی
7:24
|
ولادت کریم آل طہٰؑ امام حسن مجتبیٰؑ | Urdu
اس درس کے اہم نکات:
امام حسنؑ کا نام کس نے رکھا؟
امام حسنؑ اور امام حسینؑ میں دور نبوی میں کیا نسبت پائی جاتی...
اس درس کے اہم نکات:
امام حسنؑ کا نام کس نے رکھا؟
امام حسنؑ اور امام حسینؑ میں دور نبوی میں کیا نسبت پائی جاتی تھی؟
مولانا سید علی افضال رضوی
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
امام حسنؑ کا نام کس نے رکھا؟
امام حسنؑ اور امام حسینؑ میں دور نبوی میں کیا نسبت پائی جاتی تھی؟
مولانا سید علی افضال رضوی
68:46
|
مراسم بیست و پنجمین سالگرد رحلت حضرت امام خمینی Farsi
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله...
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
More...
Description:
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
8:30
|
CLIP | Propaganda & Counter Propaganda | Maulana Mehdi Abbas | Urdu
آج کا دور اطلاعات کا دور ہے۔ تاریخ کے ہر دور سے زیادہ آج کے دور میں دشمن اپنے موقف کو لوگوں کے سامنے پیش کر...
آج کا دور اطلاعات کا دور ہے۔ تاریخ کے ہر دور سے زیادہ آج کے دور میں دشمن اپنے موقف کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ چونکہ دشمن انفارمیشن کی دنیا میں بہت زیادہ کام کر رہا ہے لہذا لوگ بھی اسکی باتوں کے فریب میں آرہے ہیں۔ بی بی فاطمہ زہرا س نے اپنے دور میں باطل کے منفی پروپیگنڈے کا حق کے موقف کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسی راستے پر چلتے ہوۓ شہید ہوگیٔیں۔ آج بھی بجاۓ اسکے کہ ہم دشمن کے میڈیا سے اپنی خبریں لیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ اس میدان میں دشمن کا بھرپور مقابلہ کریں۔ مزید۔۔۔
Topics Discussed:
- The Lady of Heaven(film)
- Shia Hazara Killings & \"Blackmailing\"(Machh)
- Islamic Revolution
- Yemen, Syria, Palestine, Kashmir
- Local & International media as enemy propaganda machines
Full Majlis:
https://youtu.be/B4WoyhKnQCA
YouTube Channel:
https://www.youtube.com/c/jawadhemani-abasaleh
Facebook Page:
https://www.facebook.com/AbaSalehProductions
More...
Description:
آج کا دور اطلاعات کا دور ہے۔ تاریخ کے ہر دور سے زیادہ آج کے دور میں دشمن اپنے موقف کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ چونکہ دشمن انفارمیشن کی دنیا میں بہت زیادہ کام کر رہا ہے لہذا لوگ بھی اسکی باتوں کے فریب میں آرہے ہیں۔ بی بی فاطمہ زہرا س نے اپنے دور میں باطل کے منفی پروپیگنڈے کا حق کے موقف کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسی راستے پر چلتے ہوۓ شہید ہوگیٔیں۔ آج بھی بجاۓ اسکے کہ ہم دشمن کے میڈیا سے اپنی خبریں لیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ اس میدان میں دشمن کا بھرپور مقابلہ کریں۔ مزید۔۔۔
Topics Discussed:
- The Lady of Heaven(film)
- Shia Hazara Killings & \"Blackmailing\"(Machh)
- Islamic Revolution
- Yemen, Syria, Palestine, Kashmir
- Local & International media as enemy propaganda machines
Full Majlis:
https://youtu.be/B4WoyhKnQCA
YouTube Channel:
https://www.youtube.com/c/jawadhemani-abasaleh
Facebook Page:
https://www.facebook.com/AbaSalehProductions
1:58
|
عمومی سطح پر ورزش کی اہمیت اور ضرورت | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ورزش بنیادی طور پر وہ جسمانی سرگرمی ہے جسے انسان اپنے جسم کو آرام ور ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لئے انجام دیتا...
ورزش بنیادی طور پر وہ جسمانی سرگرمی ہے جسے انسان اپنے جسم کو آرام ور ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لئے انجام دیتا ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پرورزش کرنا آج کے مشینی دور میں انتہائی اہم ہے اور ہر لحاظ سے انسانی جسم کے لئے فائدہ مند ہے اور باقاعدگی سے ورزش کرنا انسان کو مختلف قسم کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ بنابراین اچھی صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے کے لیے عمومی سطح پر ورزش کی عادت ضروری ہے۔ خصوصا آج کے نوجوانوں کو تو ورزش کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے مشینی دور میں جوانوں میں تحرک نہیں پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں دل کے دورے سمیت بہت سی بیماریاں انکے دامن گیر ہوجاتی ہیں اور ان سے بچنے کا بہترین طریقہ ورزش ہے۔ ورزش، صحت کے پیچیدہ حالات اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور جسمانی اور ذہنی طور پر انسان کی صحت پر ورزش کے بہت سے فوائد مترتب ہوتے ہیں ، ورزش سے خوش مزاجی اور فرحت قلبی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے ہر کام کو سستی کے بجائے پوری لگن اور دلچسپی کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔
ورزش کی نوعیت کیسی ہونی چاہئے؟ کیا ورزش، کسی صنف خاص سے مخصوص ہے یا پھر سب کو ورزش کرنے کی ضرورت ہے؟ آج کے دور میں ورزش کی اہمیت اور جوانوں میں بہت سی بیماریوں کی وجہ کیا ہے؟ موجودہ دور میں انسانی طرز حیات کے تناظر میں ورزش کیا حکم رکھتی ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات سے آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #ورزش #مشینری_دور#جوان #جسمانی_صحت #خوش_مزاجی #بیماریاں #عدم_تحرک #حیرت
More...
Description:
ورزش بنیادی طور پر وہ جسمانی سرگرمی ہے جسے انسان اپنے جسم کو آرام ور ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لئے انجام دیتا ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پرورزش کرنا آج کے مشینی دور میں انتہائی اہم ہے اور ہر لحاظ سے انسانی جسم کے لئے فائدہ مند ہے اور باقاعدگی سے ورزش کرنا انسان کو مختلف قسم کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ بنابراین اچھی صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے کے لیے عمومی سطح پر ورزش کی عادت ضروری ہے۔ خصوصا آج کے نوجوانوں کو تو ورزش کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے مشینی دور میں جوانوں میں تحرک نہیں پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں دل کے دورے سمیت بہت سی بیماریاں انکے دامن گیر ہوجاتی ہیں اور ان سے بچنے کا بہترین طریقہ ورزش ہے۔ ورزش، صحت کے پیچیدہ حالات اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور جسمانی اور ذہنی طور پر انسان کی صحت پر ورزش کے بہت سے فوائد مترتب ہوتے ہیں ، ورزش سے خوش مزاجی اور فرحت قلبی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے ہر کام کو سستی کے بجائے پوری لگن اور دلچسپی کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔
ورزش کی نوعیت کیسی ہونی چاہئے؟ کیا ورزش، کسی صنف خاص سے مخصوص ہے یا پھر سب کو ورزش کرنے کی ضرورت ہے؟ آج کے دور میں ورزش کی اہمیت اور جوانوں میں بہت سی بیماریوں کی وجہ کیا ہے؟ موجودہ دور میں انسانی طرز حیات کے تناظر میں ورزش کیا حکم رکھتی ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات سے آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #ورزش #مشینری_دور#جوان #جسمانی_صحت #خوش_مزاجی #بیماریاں #عدم_تحرک #حیرت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
varzesh,
imam,
imam
khamenei,
sargarmi,
insan,
sehat,
javan,
bimari,
heyrat,
36:11
|
[ARABIC][1October11] كلمة آية الله خامنئي لدعم الانتفاضة الفلسطينية
الإمام الخامنئی فی مؤتمر نصرة الانتفاضة الفلسطینیة: فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»
01/10/2011
بسم...
الإمام الخامنئی فی مؤتمر نصرة الانتفاضة الفلسطینیة: فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»
01/10/2011
بسم الله الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمة الله..
الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین، و علی من تبعهم بإحسان إلی یوم الدین.
قال الله الحکیم: «أذن للذین یقاتلون بأنهم ظلموا و إن الله علی نصرهم لقدیر، الذین أخرجوا من دیارهم بغیر حق إلا أن یقولوا ربنا الله و لو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیها اسم الله کثیراً و لینصرن الله من ینصره إن الله لقوی عزیز».
أرحب بالضیوف الأعزاء و جمیع الحضور المحترمین.
تتمیز القضیة الفلسطینیة بخصوصیة فریدة من بین کل الموضوعات التی یجدر بالنخبة الدینیة و السیاسیة فی کل العالم الإسلامی أن تتطرق لها. فلسطین هی القضیة الأولی بین کل الموضوعات المشترکة للبلدان الإسلامیة. و ثمة خصوصیات منقطعة النظیر فی هذه القضیة:
أولاً: أن یغتصب بلد مسلم من شعبه، و یعطی لأجانب جُمّعوا من بلدان شتی، و کوّنوا مجتمعاً موزائیکیاً مزیفاً.
ثانیاً: أن هذا الحدث غیر المسبوق فی التاریخ جری بواسطة المذابح و الجرائم و الظلم و الإهانات المستمرة.
ثالثاً: أن قبلة المسلمین الأولی و الکثیر من المراکز الدینیة المحترمة فی هذا البلد مهدَّدة بالهدم و الامتهان و الزوال.
رابعاً: أن هذه الحکومة و المجتمع المزیّفین مارسا فی أکثر مناطق العالم الإسلامی حساسیة، منذ بدایة ظهورهما و إلی الآن، دور القاعدة العسکریة و الأمنیة و السیاسیة للحکومات الاستکباریة، و دور المحور للغرب الاستعماری الذی هو - و لأسباب متعددة - عدو اتحاد البلدان الإسلامیة و رفعتها و تقدمها، و قد استخدمه کالخنجر فی خاصرةَ الأمة الإسلامیة.
خامساً: أن الصهیونیة التی تعدّ خطراً أخلاقیاً و سیاسیاً و اقتصادیاً کبیراً علی المجتمع البشری استخدمت محطّ الأقدام هذا وسیلة و نقطة انطلاق لتوسیع نفوذها و هیمنتها فی العالم.
و یمکن إضافة نقاط أخری للنقاط السابقة منها التکالیف المالیة و البشریة الجسیمة التی تحمّلتها البلدان الإسلامیة لحد الآن، و الانشغال الذهنی للحکومات و الشعوب المسلمة، و معاناة و محن ملایین المشردین الفلسطینیین الذین لا یزال البعض منهم یعیشون لحد الآن و بعد ستة عقود فی المخیمات، و الانقطاع التاریخی لقطب حضاری مهم فی العالم الإسلامی، و .... الخ.
و قد أضیفت الیوم نقطة أساسیة أخری إلی تلک النقاط، ألا و هی نهضة الصحوة الإسلامیة التی عمّت کل المنطقة، و فتحت فصلاً جدیداً حاسماً فی تاریخ الأمة الإسلامیة. هذه الحرکة العظیمة التی یمکنها بلا شک أن تؤدی إلی إیجاد منظومة إسلامیة مقتدرة و متقدمة و منسجمة فی هذه المنطقة الحساسة من العالم، و تضع بحول الله و قوته و بالعزیمة الراسخة لرواد هذه النهضة نهایة لعصر التخلف و الضعف و المهانة الذی عاشته الشعوب المسلمة، استمدت جانباً مهماً من طاقتها و حماسها من قضیة فلسطین.
الظلم و العسف المتصاعد الذی یمارسه الکیان الصهیونی و مواکبة بعض الحکام المستبدین الفاسدین المرتزقین لأمریکا لهذا العسف من جهة، و انبعاث المقاومة الفلسطینیة و اللبنانیة المستمیتة و الانتصارات المعجزة للشباب المؤمن فی حربی الـ 33 یوماً فی لبنان و الـ 22 یوماً فی غزة من جهة أخری، هی من جملة العوامل المهمة التی أطلقت الطوفان فی المحیط الهادئ فی ظاهره للشعوب فی مصر و تونس و لیبیا و باقی بلدان المنطقة.
إنها لحقیقة أن الکیان الصهیونی المدجج بالسلاح و المدعی أنه عصیّ علی الهزیمة تلقی فی حرب غیر متکافئة فی لبنان هزیمة قاسیة مذلة من القضبات المشدودة للمجاهدین المؤمنین الأبطال، و بعد ذلک اختبر سیفه الکلیل مرة أخری أمام المقاومة الفولاذیة المظلومة لغزة و ذاق طعم الإخفاق.
هذه أمور یجب أخذها بعین الجد فی تحلیل الأوضاع الحالیة للمنطقة، و قیاس صحة أی قرار یتخذ علی ضوئها.
إذن، إنه لرأی و حکم دقیق بأن قضیة فلسطین اکتسبت الیوم أهمیة و فوریة مضاعفة، و من حق الشعب الفلسطینی أن یتوقع المزید من البلدان المسلمة فی الوضع الراهن للمنطقة.
لنلق نظرة علی الماضی و الحاضر و نرسم خارطة طریق للمستقبل. و أنا أطرح هاهنا بعض رؤوس النقاط.
مضت علی فاجعة اغتصاب فلسطین أکثر من ستة عقود. و جمیع المسببین الرئیسیین لهذه الفاجعة الدامیة معرفون، و علی رأسهم الحکومة البریطانیة المستعمرة، حیث استخدمت سیاستها و قواها العسکریة و الأمنیة و الاقتصادیة و الثقافیة، هی و سائر الحکومات الغربیة و الشرقیة المستکبرة من بعد ذلک، لخدمة هذا الظلم الکبیر. و قد طرد الشعب الفلسطینی المشرد تحت وطأة قبضات المحتلین التی لا تعرف الرحمة، و قتل و أخرج من موطنه و دیاره. و إلی الیوم لم یجر تصویر حتی واحد بالمائة من الفاجعة الإنسانیة و المدنیة التی وقعت علی ید أدعیاء التحضر و الأخلاق فی ذلک الحین، و لم تحظ بنصیب من الفنون الإعلامیة و المرئیة، فهذا ما لم یشأه کبار أرباب الفنون التصویریة و السینمائیة و التلفزیونیة و المافیات الغربیة لإنتاج الأفلام، و لم یسمحوا به. شعب کامل قتل و تشرد وسط صمت مطبق.
ظهرت حالات المقاومة فی بدایة الأمر، و قد قمعت بقسوة و شدة. و بذل رجال علی الحدود الفلسطینیة، و خصوصاً من مصر، جهوداً بمحفزات إسلامیة، لکنها لم تحظ بالدعم اللازم و لم تستطع التأثیر فی الساحة.
و بعد ذلک جاء الدور للحروب الرسمیة و الکلاسیکیة بین عدة بلدان عربیة و الجیش الصهیونی. جندت مصر و سوریة و الأردن قواتها العسکریة فی الساحة، لکن المساعدات العسکریة و الإمدادیة و المالیة السخیة و الزاخرة و المتزایدة التی قدمتها أمریکا و بریطانیا و فرنسا للکیان الغاصب فرضت الإخفاق علی الجیوش العربیة. إنهم لم یعجزوا عن مساعدة الشعب الفلسطینی و حسب، بل و خسروا أجزاء مهمة من أراضیهم فی هذه الحروب.
و مع اتضاح عجز الحکومات العربیة الجارة لفلسطین تکوّنت تدریجیاً خلایا المقاومة المنظمة فی معظم الجماعات الفلطسینیة المسلحة، و بعد فترة من اجتماعها تأسست منظمة التحریر الفلسطینیة. و کان هذه بصیص أمل تألق تألقاً حسناً لکنه لم یستمر طویلاً حتی خبا. و یمکن ردّ هذا الإخفاق إلی العدید من الأسباب، بید أن السبب الرئیسی هو ابتعادهم عن الجماهیر و عن عقیدتهم و إیمانهم الإسلامی. الإیدیولوجیا الیساریة أو مجرد المشاعر القومیة لم تکن الشیء الذی تحتاجه قضیة فلسطین المعقدة الصعبة. ما کان بوسعه إنزال شعب بکامله إلی ساحة المقاومة و خلق قوة عصیة علی الهزیمة من أبناء الشعب هو الإسلام و الجهاد و الشهادة. أولئک لم یدرکوا هذه الفکرة بصورة صحیحة. فی الأشهر الأولی لانتصار الثورة الإسلامیة الکبری حیث کان زعماء منظمة التحریر الفلسطینیة قد اکتسبوا معنویات جدیدة و راحوا یترددون علی طهران، سألت أحد شخصیاتهم المهمة: لماذا لا ترفعون رایة الإسلام فی کفاحکم الحق. و کان جوابه إن بیننا بعض المسیحیین. و قد جری اغتیال هذا الشخص بعد ذلک فی أحد البلدان العربیة علی ید الصهاینة، و نتمنی إن یکون الغفران الإلهی قد شمله إن شاء الله، لکن استدلاله هذا کان ناقصاً و غیر ناهض. أعتقد أن المناضل المسیحی المؤمن یکتسب إلی جانب الجماعة المجاهدة المضحیة التی تقاتل بإخلاص من منطلق الإیمان بالله و القیامة و الأمل بالمعونة الإلهیة، و تتمتع بالدعم المادی و المعنوی لشعبها، یکتسب محفزات أکبر و أکثر للنضال مما لو کان إلی جانب جماعة عدیمة الإیمان و معتمدة علی مشاعر متزعزعة و بعیدةً عن الإسناد الشعبی الوفی.
عدم توفر الإیمان الدینی الراسخ و الانقطاع عن الشعب جعلهم بمرور الوقت عاجزین و عدیمی التأثیر. طبعاً کان بینهم رجال شرفاء و متحفزون و غیورون، بید أن الجماعة و التنظیم سار فی طریق آخر. انحرافهم وجّه و لا یزال الضربات للقضیة الفلسطینیة. هم أیضاً تنکروا کبعض الحکومات العربیة الخائنة لأهداف المقاومة التی کانت و لا تزال السبیل الوحید لإنقاذ فلسطین، و قد وجّهوا الضربات لا لفلسطین و حسب بل لأنفسهم أیضاً. و علی حد تعبیر الشاعر المسیحی العربی:
لئن أضعتم فلسطيناً فعيشكم طول الحياة مضاضات و آلامٌ
و هکذا مضت إثنتان و ثلاثون سنة من عمر النکبة.. لکن ید القدرة الإلهیة قلبت الصفحة فجأة. و قلب انتصار الثورة الإسلامیة فی إیران فی سنة 1979 (1357 هجری شمسی) الأوضاع فی هذه المنطقة رأساً علی عقب، و فتح صفحة جدیدة. و من بین التأثیرات العالمیة المذهلة لهذه الثورة کانت الضربة التی وجّهتها للحکومة الصهیونیة هی الأسرع و الأوضح من بین الضربات الشدیدة و العمیقة التی وجّهتها للسیاسات الاستکباریة. و کانت تصریحات ساسة الکیان الصهیونی فی تلک الأیام جدیرة بالقراءة و تنمّ عن وضعهم الأسود الغارق فی الاضطراب. فی الأسابیع الأولی للانتصار أغلقت السفارة الإسرائیلیة فی طهران، و أخرج العاملون فیها، و جری تسلیم مکانها رسمیاً لممثلی منظمة التحریر الفلسطینیة، و هم موجودن هناک لحد الآن. أعلن إمامنا الجلیل أن أحد أهداف هذه الثورة تحریر الأرض الفلسطینیة و استئصال غدة إسرائیل السرطانیة. الأمواج القویة لهذه الثورة التی عمّت العالم کله فی ذلک الحین حملت معها إین ما ذهبت هذه الرسالة: «یجب تحریر فلسطین». المشاکل المتتابعة و الکبیرة التی فرضها أعداء الثورة علی نظام الجمهوریة الإسلامیة الإیرانیة و إحداها حرب الأعوام الثمانیة التی شنها نظام صدام حسین بتحریض من أمریکا و بریطانیا و دعم الأنظمة العربیة الرجعیة، لم تستطع هی الأخری سلب الجمهوریة الإسلامیة محفزات الدفاع عن فلسطین.
و هکذا تم ضخّ دماء جدیدة فی عروق فلسطین، و انبثقت الجماعات الفلسطینیة المجاهدة الإسلامیة، و فتحت المقاومة فی لبنان جبهة قویة جدیدة أمام العدو و حماته. و اعتمدت فلسطین بدل الاستناد إلی الحکومات العربیة و من دون مدّ الید للأوساط العالمیة من قبیل منظمة الأمم المتحدة - و هی شریکة إجرام الحکومات الاستکباریة - اعتمدت علی نفسها و علی شبابها و علی إیمانها الإسلامی العمیق و علی رجالها و نسائها المضحین.
هذا هو مفتاح کل الفتوحات و النجاحات.
لقد تقدم هذا السیاق و تصاعد خلال العقود الثلاثة الأخیرة یوماً بعد یوم. و کانت الهزیمة الذلیلة للکیان الصهیونی فی لبنان عام 2006 (1385 هجری شمسی)، و الأخفاق الفاضح الذی منی به ذلک الجیش المتشدق فی غزة سنة 2008 (1387 هجری شمسی)، و الفرار من جنوب لبنان و الانسحاب من غزة، و تأسیس حکومة المقاومة فی غزة، و بکلمة واحدة تحول الشعب الفلسطینی من مجموعة من الناس الیائسین العاجزین إلی شعب متفائل مقاوم له ثقته بنفسه، کانت هذه کلها من الخصائص البارزة للأعوام الثلاثین الأخیرة.
هذه الصورة الکلیة الإجمالیة سوف تکتمل حینما یُنظر بصورة صحیحة للتحرکات الاستسلامیة و الخیانیة التی تهدف إلی إطفاء المقاومة و انتزاع الاعتراف الرسمی بشرعیة إسرائیل من الجماعات الفلسطینیة و الحکومات العربیة.
هذه التحرکات التی بدأت علی ید الخلیفة الخائن و اللاخلف لجمال عبد الناصر فی معاهدة کامب دیفید المخزیة أرادت دوماً ممارسة دور التثبیط حیال العزیمة الفولاذیة للمقاومة. فی معاهدة کامب دیفید اعترفت حکومة عربیة رسمیاً و لأول مرة بصهیونیة الأراضی الإسلامیة فی فلسطین، و ترکت توقیعها تحت سطور اعترفت بإسرائیل داراً قومیاً للیهود.
و بعد ذلک وصولاً إلی معاهدة أوسلو فی سنة 1993 (1372 هجری شمسی) و المشاریع التکمیلیة الأخری التی أعقبتها و التی أدارتها أمریکا، و واکبتها البلدان الأوربیة الاستعماریة، و فُرِضت عبأً علی عاتق الجماعات الاستسلامیة عدیمة الهمّة من الفلسطینیین، انصبت کل مساعی العدو علی صرف الشعب و الجماعات الفلسطینیة عن خیار المقاومة بوعود مخادعة جوفاء و إشغالهم بألاعیب صبیانیة فی الساحات السیاسیة. و سرعان ما تجلی عدم اعتبار کل هذه المعاهدات، و أثبت الصهاینة و حماتهم مراراً أنهم ینظرون لما کتب علی أنه مجرد قصاصات ورق لا قیمة لها. کان الهدف من هذه المشاریع بث الشکوک و التردید فی قلوب الفلسطینیین، و تطمیع الأفراد عدیمی الإیمان و طلاب الدنیا، و شلّ حرکة المقاومة الإسلامیة لیس إلا.
و قد کان المضاد لهذا السمّ فی کل هذه الألاعیب الخیانیة لحد الآن هو روح المقاومة لدی الجماعات الإسلامیة و الشعب الفلسطینی. لقد صمد هؤلاء أمام العدو بإذن الله، و کما وعد الله «و لینصرن الله من ینصره، إن الله لقوی عزیز» فقد حظوا بالمعونة و النصرة الإلهیة. لقد کان صمود غزة علی الرغم من المحاصرة المطلقة نصراً إلهیاً. و سقوط النظام الخائن الفاسد لحسنی مبارک نصراً إلهیاً، و ظهور موجة الصحوة الإسلامیة القویة فی المنطقة نصراً إلهیاً، و سقوط أستار النفاق و الزیف عن وجوه أمریکا و بریطانیا و فرنسا، و الکراهیة المتصاعدة لشعوب المنطقة لهم کانت نصرة إلهیة. و المشکلات المتتابعة و العصیة علی الحصر للکیان الصهیونی ابتداء من المشکلات السیاسیة و الاقتصادیة و الاجتماعیة الداخلیة إلی عزلته العالمیة و الکراهیة العامة له حتی فی الجامعات الأوربیة، کلها من مظاهر النصرة الإلهیة.
الکیان الصهیونی الیوم مکروه و ضعیف و معزول أکثر من أی وقت آخر، و حامیته الرئیسیة أمریکا مبتلاة متحیرة أکثر من أی وقت آخر.
الصفحة الکلیة و الإجمالیة لفلسطین طوال نیّف و ستین عاماً الماضیة أمام أنظارنا حالیاً. ینبغی تنظیم المستقبل بالنظر لهذا الماضی و استلهام الدروس منه.
ینبغی قبل کل شیء إیضاح نقطتین:
الأولی: إن دعوانا هی تحریر فلسطین و لیس تحریر جزء من فلسطین. أی مشروع یرید تقسیم فلسطین مرفوض بالمرة. مشروع الدولتین الذی خلعوا علیه لبوس الشرعیة «الاعتراف بحکومة فلسطین کعضو فی منظمة الأمم المتحدة» لیس سوی الاستسلام لإرادة الصهاینة، أی «الاعتراف للدولة الصهیونیة بالأرض الفلسطینیة». و هذا معناه سحق حقوق الشعب الفلسطینی و تجاهل الحق التاریخی للمشردین الفلسطینین، بل و تهدید حقوق الفلسطینیین الساکنین علی أراضی 1948 . و هو یعنی بقاء الغدة السرطانیة و التهدید الدائم لجسد الأمة الإسلامیة و خصوصاً شعوب المنطقة. و هو بمعنی تکرار آلام و محن عشرات الأعوام و سحق دماء الشهداء.
أی مشروع عملیاتی یجب أن یکون علی أساس مبدأ: «کل فلسطین لکل الشعب الفلسطینی». فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»، و لیس أقل من ذلک حتی بمقدار شبر. طبعاً یجب عدم نسیان أن الشعب الفلسطینی کما فعل فی غزة، سوف یتولی إدارة شؤونه بنفسه عن طریق حکومته المنتخبة فی أی جزء من تراب فلسطین یستطیع أن یحرره، لکنه لن ینسی الهدف النهائی علی الإطلاق.
النقطة الثانیة: هی أنه من أجل الوصول إلی هذا الهدف السامی لا بد من العمل و لیس الکلام، و لا بد من الجدّ و لیس الممارسات الاستعراضیة، و لا بد من الصبر و التدبیر لا السلوکیات المتلونة غیر الصبورة. ینبغی النظر للآفاق البعیدة و التقدم للأمام خطوة خطوة بعزم و توکل و أمل. یمکن لکل واحدة من الحکومات و الشعوب المسلمة و الجماعات المقاومة فی فلسطین و لبنان و باقی البلدان أن تعرف نصیبها و دورها من هذا الجهاد العام، و أن تملأ بإذن الله جدول المقاومة.
مشروع الجمهوریة الإسلامیة لحل قضیة فلسطین و لمداواة هذا الجرح القدیم مشروع واضح و منطقی و مطابق للعرف السیاسی المقبول لدی الرأی العام العالمی، و قد سبق أن عرض بالتفصیل. إننا لا نقترح الحرب الکلاسیکیة لجیوش البلدان الإسلامیة، و لا رمی الیهود المهاجرین فی البحر، و لا طبعاً تحکیم منظمة الأمم المتحدة و سائر المنظمات الدولیة. إننا نقترح إجراء استفتاء للشعب الفلسطینی. من حق الشعب الفلسطینی کأی شعب آخر أن یقرر مصیره و یختار النظام الذی یحکم بلاده. یشارک کل الفلسطینیین الأصلیین من مسلمین و مسیحیین و یهود - و لیس المهاجرون الأجانب - أین ما کانوا، فی داخل فلسطین أو فی المخیمات أو فی أی مکان آخر، فی استفتاء عام و منضبط و یحددوا النظام المستقبلی لفلسطین. و بعد أن یستقر ذلک النظام و الحکومة المنبثقة عنه سوف یقرر أمر المهاجرین غیر الفلسطینیین الذین انتقلوا إلی هذا البلد خلال الأعوام الماضیة. هذا مشروع عادل و منطقی یستوعبه الرأی العام العالمی بصورة صحیحة، و یمکن أن یتمتع بدعم الشعوب و الحکومات المستقلة. بالطبع، لا نتوقع أن یرضخ الصهاینة الغاصبون له بسهولة، و هنا یتکون دور الحکومات و الشعوب و منظمات المقاومة و یکتسب معناه.
الرکن الأهم لدعم الشعب الفلسطینی هو قطع الدعم للعدو الغاصب، و هذا هو الواجب الکبیر الذی یقع علی عاتق الحکومات الإسلامیة. الآن و بعد نزول الشعوب إلی الساحة و شعاراتهم المقتدرة ضد الکیان الصهیونی بأی منطق تواصل الحکومات المسلمة علاقاتها مع الکیان الغاصب؟ وثیقة صدق الحکومات المسلمة فی مناصرتها للشعب الفلسطینی هو قطع علاقاتها السیاسیة و الاقتصادیة الجلیة و الخفیة مع ذلک الکیان. الحکومات التی تستضیف سفارات الصهاینة أو مکاتبهم الاقتصادیة لا تستطیع أن تدعی الدفاع عن فلسطین، و أی شعار معاد للصهیونیة لن یأخذ منهم علی مأخذ الجد و الحقیقة.
منظمات المقاومة الإسلامیة التی تحملت فی الأعوام الماضیة أعباء الجهاد الثقیلة لا تزال الیوم أیضاً أمام هذا الواجب الکبیر. مقاومتهم المنظمة هی الذراع الفاعل الذی بمقدوره أخذ الشعب الفلسطینی نحو هذا الهدف النهائی. المقاومة الشجاعة للجماهیر التی احتلت دیارهم و بلادهم معترف بها رسمیاً و ممدوحة و مشاد بها فی کل المواثیق الدولیة. تهمة الإرهاب التی تطلقها الشبکات السیاسیة و الإعلامیة التابعة للصهیونیة کلام أجوف لا قیمة له. الإرهابی العلنی هو الکیان الصهیونی و حماته الغربیون، و المقاومة الفلسطینیة حرکة إنسانیة مقدسة مناهضة للإرهابیین.
و فی هذا الخضم، من الجدیر بالبلدان الغربیة أیضاً أن تکون لها نظرتها الواقعیة. الغرب الیوم علی مفترق طرق. إما أن یتخلی عن منطق القوة الذی استخدمه زمناً طویلاً و یعترف بحقوق الشعب الفلسطینی، و لا یواصل أکثر من هذا اتباع المخططات الصهیونیة التعسفیة اللاإنسانیة، و إما أن ینتظر ضربات أقسی فی المستقبل غیر البعید. و هذه الضربات الشالة لیست مجرد السقوط المتتابع للحکومات المطیعة لهم فی المنطقة الإسلامیة، إنما یوم تدرک الشعوب فی أوربا و أمریکا أن أغلب مشکلاتهم الاقتصادیة و الاجتماعیة و الأخلاقیة نابعة من الهیمنة الأخطبوطیة للصهیونیة الدولیة علی حکوماتهم، و أن ساستهم یطیعون و یسلمون لتعسف أصحاب الشرکات الصهیونیة المصاصة للدماء فی أمریکا و أوربا من أجل الحفاظ علی مصالحهم الشخصیة و الحزبیة، فسوف یخلقون لهم جحیماً لا یمکن تصور أی سبیل للخلاص منه.
یقول رئیس جمهوریة أمریکا إن أمن إسرائیل هو خطنا الأحمر. من الذی رسم هذا الخط الأحمر؟ مصالح الشعب الأمریکی أم حاجة أوباما الشخصیة للمال و دعم الشرکات الصهیونیة للحصول علی کرسی الرئاسة فی الدورة الرئاسیة الثانیة؟ إلی متی ستستطیعون خداع شعبکم؟ ماذا سیفعل الشعب الأمریکی یوم یدرک عن حق أنکم رضیتم بالذلة و التبعیة و التمرّغ فی التراب أمام أرباب المال الصهاینة، و نحرتم مصالح شعب کبیر أمام أقدامهم من أجل البقاء فی السلطة أیاماً أضافیة؟
أیها الإخوة و الأخوات الأعزاء، إعلموا أن هذا الخط الأحمر لأوباما و أمثاله سوف یتحطم علی ید الشعوب المسلمة الثائرة. ما یهدد الکیان الصهیونی لیس صواریخ إیران أو جماعات المقاومة حتی تنصبوا أمامه درعاً صاروخیاً هنا و هناک. التهدید الحقیقی و الذی لا علاج له هو العزیمة الراسخة للرجال و النساء و الشباب فی البلدان الإسلامیة الذین لم یعودوا یریدون أن تتحکم فیهم أمریکا و أوربا و عملاؤهم، و یفرضون علیهم الهوان.
و بالطبع، فإن تلک الصواریخ سوف تؤدی واجباتها متی ما ظهر تهدید من قبل العدو.
«فاصبر إن وعد الله حق و لا یستخفنک الذین لا یوقنون».
و السلام عليكم و رحمة الله.
http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1224&Itemid=127
More...
Description:
الإمام الخامنئی فی مؤتمر نصرة الانتفاضة الفلسطینیة: فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»
01/10/2011
بسم الله الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمة الله..
الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین، و علی من تبعهم بإحسان إلی یوم الدین.
قال الله الحکیم: «أذن للذین یقاتلون بأنهم ظلموا و إن الله علی نصرهم لقدیر، الذین أخرجوا من دیارهم بغیر حق إلا أن یقولوا ربنا الله و لو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیها اسم الله کثیراً و لینصرن الله من ینصره إن الله لقوی عزیز».
أرحب بالضیوف الأعزاء و جمیع الحضور المحترمین.
تتمیز القضیة الفلسطینیة بخصوصیة فریدة من بین کل الموضوعات التی یجدر بالنخبة الدینیة و السیاسیة فی کل العالم الإسلامی أن تتطرق لها. فلسطین هی القضیة الأولی بین کل الموضوعات المشترکة للبلدان الإسلامیة. و ثمة خصوصیات منقطعة النظیر فی هذه القضیة:
أولاً: أن یغتصب بلد مسلم من شعبه، و یعطی لأجانب جُمّعوا من بلدان شتی، و کوّنوا مجتمعاً موزائیکیاً مزیفاً.
ثانیاً: أن هذا الحدث غیر المسبوق فی التاریخ جری بواسطة المذابح و الجرائم و الظلم و الإهانات المستمرة.
ثالثاً: أن قبلة المسلمین الأولی و الکثیر من المراکز الدینیة المحترمة فی هذا البلد مهدَّدة بالهدم و الامتهان و الزوال.
رابعاً: أن هذه الحکومة و المجتمع المزیّفین مارسا فی أکثر مناطق العالم الإسلامی حساسیة، منذ بدایة ظهورهما و إلی الآن، دور القاعدة العسکریة و الأمنیة و السیاسیة للحکومات الاستکباریة، و دور المحور للغرب الاستعماری الذی هو - و لأسباب متعددة - عدو اتحاد البلدان الإسلامیة و رفعتها و تقدمها، و قد استخدمه کالخنجر فی خاصرةَ الأمة الإسلامیة.
خامساً: أن الصهیونیة التی تعدّ خطراً أخلاقیاً و سیاسیاً و اقتصادیاً کبیراً علی المجتمع البشری استخدمت محطّ الأقدام هذا وسیلة و نقطة انطلاق لتوسیع نفوذها و هیمنتها فی العالم.
و یمکن إضافة نقاط أخری للنقاط السابقة منها التکالیف المالیة و البشریة الجسیمة التی تحمّلتها البلدان الإسلامیة لحد الآن، و الانشغال الذهنی للحکومات و الشعوب المسلمة، و معاناة و محن ملایین المشردین الفلسطینیین الذین لا یزال البعض منهم یعیشون لحد الآن و بعد ستة عقود فی المخیمات، و الانقطاع التاریخی لقطب حضاری مهم فی العالم الإسلامی، و .... الخ.
و قد أضیفت الیوم نقطة أساسیة أخری إلی تلک النقاط، ألا و هی نهضة الصحوة الإسلامیة التی عمّت کل المنطقة، و فتحت فصلاً جدیداً حاسماً فی تاریخ الأمة الإسلامیة. هذه الحرکة العظیمة التی یمکنها بلا شک أن تؤدی إلی إیجاد منظومة إسلامیة مقتدرة و متقدمة و منسجمة فی هذه المنطقة الحساسة من العالم، و تضع بحول الله و قوته و بالعزیمة الراسخة لرواد هذه النهضة نهایة لعصر التخلف و الضعف و المهانة الذی عاشته الشعوب المسلمة، استمدت جانباً مهماً من طاقتها و حماسها من قضیة فلسطین.
الظلم و العسف المتصاعد الذی یمارسه الکیان الصهیونی و مواکبة بعض الحکام المستبدین الفاسدین المرتزقین لأمریکا لهذا العسف من جهة، و انبعاث المقاومة الفلسطینیة و اللبنانیة المستمیتة و الانتصارات المعجزة للشباب المؤمن فی حربی الـ 33 یوماً فی لبنان و الـ 22 یوماً فی غزة من جهة أخری، هی من جملة العوامل المهمة التی أطلقت الطوفان فی المحیط الهادئ فی ظاهره للشعوب فی مصر و تونس و لیبیا و باقی بلدان المنطقة.
إنها لحقیقة أن الکیان الصهیونی المدجج بالسلاح و المدعی أنه عصیّ علی الهزیمة تلقی فی حرب غیر متکافئة فی لبنان هزیمة قاسیة مذلة من القضبات المشدودة للمجاهدین المؤمنین الأبطال، و بعد ذلک اختبر سیفه الکلیل مرة أخری أمام المقاومة الفولاذیة المظلومة لغزة و ذاق طعم الإخفاق.
هذه أمور یجب أخذها بعین الجد فی تحلیل الأوضاع الحالیة للمنطقة، و قیاس صحة أی قرار یتخذ علی ضوئها.
إذن، إنه لرأی و حکم دقیق بأن قضیة فلسطین اکتسبت الیوم أهمیة و فوریة مضاعفة، و من حق الشعب الفلسطینی أن یتوقع المزید من البلدان المسلمة فی الوضع الراهن للمنطقة.
لنلق نظرة علی الماضی و الحاضر و نرسم خارطة طریق للمستقبل. و أنا أطرح هاهنا بعض رؤوس النقاط.
مضت علی فاجعة اغتصاب فلسطین أکثر من ستة عقود. و جمیع المسببین الرئیسیین لهذه الفاجعة الدامیة معرفون، و علی رأسهم الحکومة البریطانیة المستعمرة، حیث استخدمت سیاستها و قواها العسکریة و الأمنیة و الاقتصادیة و الثقافیة، هی و سائر الحکومات الغربیة و الشرقیة المستکبرة من بعد ذلک، لخدمة هذا الظلم الکبیر. و قد طرد الشعب الفلسطینی المشرد تحت وطأة قبضات المحتلین التی لا تعرف الرحمة، و قتل و أخرج من موطنه و دیاره. و إلی الیوم لم یجر تصویر حتی واحد بالمائة من الفاجعة الإنسانیة و المدنیة التی وقعت علی ید أدعیاء التحضر و الأخلاق فی ذلک الحین، و لم تحظ بنصیب من الفنون الإعلامیة و المرئیة، فهذا ما لم یشأه کبار أرباب الفنون التصویریة و السینمائیة و التلفزیونیة و المافیات الغربیة لإنتاج الأفلام، و لم یسمحوا به. شعب کامل قتل و تشرد وسط صمت مطبق.
ظهرت حالات المقاومة فی بدایة الأمر، و قد قمعت بقسوة و شدة. و بذل رجال علی الحدود الفلسطینیة، و خصوصاً من مصر، جهوداً بمحفزات إسلامیة، لکنها لم تحظ بالدعم اللازم و لم تستطع التأثیر فی الساحة.
و بعد ذلک جاء الدور للحروب الرسمیة و الکلاسیکیة بین عدة بلدان عربیة و الجیش الصهیونی. جندت مصر و سوریة و الأردن قواتها العسکریة فی الساحة، لکن المساعدات العسکریة و الإمدادیة و المالیة السخیة و الزاخرة و المتزایدة التی قدمتها أمریکا و بریطانیا و فرنسا للکیان الغاصب فرضت الإخفاق علی الجیوش العربیة. إنهم لم یعجزوا عن مساعدة الشعب الفلسطینی و حسب، بل و خسروا أجزاء مهمة من أراضیهم فی هذه الحروب.
و مع اتضاح عجز الحکومات العربیة الجارة لفلسطین تکوّنت تدریجیاً خلایا المقاومة المنظمة فی معظم الجماعات الفلطسینیة المسلحة، و بعد فترة من اجتماعها تأسست منظمة التحریر الفلسطینیة. و کان هذه بصیص أمل تألق تألقاً حسناً لکنه لم یستمر طویلاً حتی خبا. و یمکن ردّ هذا الإخفاق إلی العدید من الأسباب، بید أن السبب الرئیسی هو ابتعادهم عن الجماهیر و عن عقیدتهم و إیمانهم الإسلامی. الإیدیولوجیا الیساریة أو مجرد المشاعر القومیة لم تکن الشیء الذی تحتاجه قضیة فلسطین المعقدة الصعبة. ما کان بوسعه إنزال شعب بکامله إلی ساحة المقاومة و خلق قوة عصیة علی الهزیمة من أبناء الشعب هو الإسلام و الجهاد و الشهادة. أولئک لم یدرکوا هذه الفکرة بصورة صحیحة. فی الأشهر الأولی لانتصار الثورة الإسلامیة الکبری حیث کان زعماء منظمة التحریر الفلسطینیة قد اکتسبوا معنویات جدیدة و راحوا یترددون علی طهران، سألت أحد شخصیاتهم المهمة: لماذا لا ترفعون رایة الإسلام فی کفاحکم الحق. و کان جوابه إن بیننا بعض المسیحیین. و قد جری اغتیال هذا الشخص بعد ذلک فی أحد البلدان العربیة علی ید الصهاینة، و نتمنی إن یکون الغفران الإلهی قد شمله إن شاء الله، لکن استدلاله هذا کان ناقصاً و غیر ناهض. أعتقد أن المناضل المسیحی المؤمن یکتسب إلی جانب الجماعة المجاهدة المضحیة التی تقاتل بإخلاص من منطلق الإیمان بالله و القیامة و الأمل بالمعونة الإلهیة، و تتمتع بالدعم المادی و المعنوی لشعبها، یکتسب محفزات أکبر و أکثر للنضال مما لو کان إلی جانب جماعة عدیمة الإیمان و معتمدة علی مشاعر متزعزعة و بعیدةً عن الإسناد الشعبی الوفی.
عدم توفر الإیمان الدینی الراسخ و الانقطاع عن الشعب جعلهم بمرور الوقت عاجزین و عدیمی التأثیر. طبعاً کان بینهم رجال شرفاء و متحفزون و غیورون، بید أن الجماعة و التنظیم سار فی طریق آخر. انحرافهم وجّه و لا یزال الضربات للقضیة الفلسطینیة. هم أیضاً تنکروا کبعض الحکومات العربیة الخائنة لأهداف المقاومة التی کانت و لا تزال السبیل الوحید لإنقاذ فلسطین، و قد وجّهوا الضربات لا لفلسطین و حسب بل لأنفسهم أیضاً. و علی حد تعبیر الشاعر المسیحی العربی:
لئن أضعتم فلسطيناً فعيشكم طول الحياة مضاضات و آلامٌ
و هکذا مضت إثنتان و ثلاثون سنة من عمر النکبة.. لکن ید القدرة الإلهیة قلبت الصفحة فجأة. و قلب انتصار الثورة الإسلامیة فی إیران فی سنة 1979 (1357 هجری شمسی) الأوضاع فی هذه المنطقة رأساً علی عقب، و فتح صفحة جدیدة. و من بین التأثیرات العالمیة المذهلة لهذه الثورة کانت الضربة التی وجّهتها للحکومة الصهیونیة هی الأسرع و الأوضح من بین الضربات الشدیدة و العمیقة التی وجّهتها للسیاسات الاستکباریة. و کانت تصریحات ساسة الکیان الصهیونی فی تلک الأیام جدیرة بالقراءة و تنمّ عن وضعهم الأسود الغارق فی الاضطراب. فی الأسابیع الأولی للانتصار أغلقت السفارة الإسرائیلیة فی طهران، و أخرج العاملون فیها، و جری تسلیم مکانها رسمیاً لممثلی منظمة التحریر الفلسطینیة، و هم موجودن هناک لحد الآن. أعلن إمامنا الجلیل أن أحد أهداف هذه الثورة تحریر الأرض الفلسطینیة و استئصال غدة إسرائیل السرطانیة. الأمواج القویة لهذه الثورة التی عمّت العالم کله فی ذلک الحین حملت معها إین ما ذهبت هذه الرسالة: «یجب تحریر فلسطین». المشاکل المتتابعة و الکبیرة التی فرضها أعداء الثورة علی نظام الجمهوریة الإسلامیة الإیرانیة و إحداها حرب الأعوام الثمانیة التی شنها نظام صدام حسین بتحریض من أمریکا و بریطانیا و دعم الأنظمة العربیة الرجعیة، لم تستطع هی الأخری سلب الجمهوریة الإسلامیة محفزات الدفاع عن فلسطین.
و هکذا تم ضخّ دماء جدیدة فی عروق فلسطین، و انبثقت الجماعات الفلسطینیة المجاهدة الإسلامیة، و فتحت المقاومة فی لبنان جبهة قویة جدیدة أمام العدو و حماته. و اعتمدت فلسطین بدل الاستناد إلی الحکومات العربیة و من دون مدّ الید للأوساط العالمیة من قبیل منظمة الأمم المتحدة - و هی شریکة إجرام الحکومات الاستکباریة - اعتمدت علی نفسها و علی شبابها و علی إیمانها الإسلامی العمیق و علی رجالها و نسائها المضحین.
هذا هو مفتاح کل الفتوحات و النجاحات.
لقد تقدم هذا السیاق و تصاعد خلال العقود الثلاثة الأخیرة یوماً بعد یوم. و کانت الهزیمة الذلیلة للکیان الصهیونی فی لبنان عام 2006 (1385 هجری شمسی)، و الأخفاق الفاضح الذی منی به ذلک الجیش المتشدق فی غزة سنة 2008 (1387 هجری شمسی)، و الفرار من جنوب لبنان و الانسحاب من غزة، و تأسیس حکومة المقاومة فی غزة، و بکلمة واحدة تحول الشعب الفلسطینی من مجموعة من الناس الیائسین العاجزین إلی شعب متفائل مقاوم له ثقته بنفسه، کانت هذه کلها من الخصائص البارزة للأعوام الثلاثین الأخیرة.
هذه الصورة الکلیة الإجمالیة سوف تکتمل حینما یُنظر بصورة صحیحة للتحرکات الاستسلامیة و الخیانیة التی تهدف إلی إطفاء المقاومة و انتزاع الاعتراف الرسمی بشرعیة إسرائیل من الجماعات الفلسطینیة و الحکومات العربیة.
هذه التحرکات التی بدأت علی ید الخلیفة الخائن و اللاخلف لجمال عبد الناصر فی معاهدة کامب دیفید المخزیة أرادت دوماً ممارسة دور التثبیط حیال العزیمة الفولاذیة للمقاومة. فی معاهدة کامب دیفید اعترفت حکومة عربیة رسمیاً و لأول مرة بصهیونیة الأراضی الإسلامیة فی فلسطین، و ترکت توقیعها تحت سطور اعترفت بإسرائیل داراً قومیاً للیهود.
و بعد ذلک وصولاً إلی معاهدة أوسلو فی سنة 1993 (1372 هجری شمسی) و المشاریع التکمیلیة الأخری التی أعقبتها و التی أدارتها أمریکا، و واکبتها البلدان الأوربیة الاستعماریة، و فُرِضت عبأً علی عاتق الجماعات الاستسلامیة عدیمة الهمّة من الفلسطینیین، انصبت کل مساعی العدو علی صرف الشعب و الجماعات الفلسطینیة عن خیار المقاومة بوعود مخادعة جوفاء و إشغالهم بألاعیب صبیانیة فی الساحات السیاسیة. و سرعان ما تجلی عدم اعتبار کل هذه المعاهدات، و أثبت الصهاینة و حماتهم مراراً أنهم ینظرون لما کتب علی أنه مجرد قصاصات ورق لا قیمة لها. کان الهدف من هذه المشاریع بث الشکوک و التردید فی قلوب الفلسطینیین، و تطمیع الأفراد عدیمی الإیمان و طلاب الدنیا، و شلّ حرکة المقاومة الإسلامیة لیس إلا.
و قد کان المضاد لهذا السمّ فی کل هذه الألاعیب الخیانیة لحد الآن هو روح المقاومة لدی الجماعات الإسلامیة و الشعب الفلسطینی. لقد صمد هؤلاء أمام العدو بإذن الله، و کما وعد الله «و لینصرن الله من ینصره، إن الله لقوی عزیز» فقد حظوا بالمعونة و النصرة الإلهیة. لقد کان صمود غزة علی الرغم من المحاصرة المطلقة نصراً إلهیاً. و سقوط النظام الخائن الفاسد لحسنی مبارک نصراً إلهیاً، و ظهور موجة الصحوة الإسلامیة القویة فی المنطقة نصراً إلهیاً، و سقوط أستار النفاق و الزیف عن وجوه أمریکا و بریطانیا و فرنسا، و الکراهیة المتصاعدة لشعوب المنطقة لهم کانت نصرة إلهیة. و المشکلات المتتابعة و العصیة علی الحصر للکیان الصهیونی ابتداء من المشکلات السیاسیة و الاقتصادیة و الاجتماعیة الداخلیة إلی عزلته العالمیة و الکراهیة العامة له حتی فی الجامعات الأوربیة، کلها من مظاهر النصرة الإلهیة.
الکیان الصهیونی الیوم مکروه و ضعیف و معزول أکثر من أی وقت آخر، و حامیته الرئیسیة أمریکا مبتلاة متحیرة أکثر من أی وقت آخر.
الصفحة الکلیة و الإجمالیة لفلسطین طوال نیّف و ستین عاماً الماضیة أمام أنظارنا حالیاً. ینبغی تنظیم المستقبل بالنظر لهذا الماضی و استلهام الدروس منه.
ینبغی قبل کل شیء إیضاح نقطتین:
الأولی: إن دعوانا هی تحریر فلسطین و لیس تحریر جزء من فلسطین. أی مشروع یرید تقسیم فلسطین مرفوض بالمرة. مشروع الدولتین الذی خلعوا علیه لبوس الشرعیة «الاعتراف بحکومة فلسطین کعضو فی منظمة الأمم المتحدة» لیس سوی الاستسلام لإرادة الصهاینة، أی «الاعتراف للدولة الصهیونیة بالأرض الفلسطینیة». و هذا معناه سحق حقوق الشعب الفلسطینی و تجاهل الحق التاریخی للمشردین الفلسطینین، بل و تهدید حقوق الفلسطینیین الساکنین علی أراضی 1948 . و هو یعنی بقاء الغدة السرطانیة و التهدید الدائم لجسد الأمة الإسلامیة و خصوصاً شعوب المنطقة. و هو بمعنی تکرار آلام و محن عشرات الأعوام و سحق دماء الشهداء.
أی مشروع عملیاتی یجب أن یکون علی أساس مبدأ: «کل فلسطین لکل الشعب الفلسطینی». فلسطین هی فلسطین «من النهر إلی البحر»، و لیس أقل من ذلک حتی بمقدار شبر. طبعاً یجب عدم نسیان أن الشعب الفلسطینی کما فعل فی غزة، سوف یتولی إدارة شؤونه بنفسه عن طریق حکومته المنتخبة فی أی جزء من تراب فلسطین یستطیع أن یحرره، لکنه لن ینسی الهدف النهائی علی الإطلاق.
النقطة الثانیة: هی أنه من أجل الوصول إلی هذا الهدف السامی لا بد من العمل و لیس الکلام، و لا بد من الجدّ و لیس الممارسات الاستعراضیة، و لا بد من الصبر و التدبیر لا السلوکیات المتلونة غیر الصبورة. ینبغی النظر للآفاق البعیدة و التقدم للأمام خطوة خطوة بعزم و توکل و أمل. یمکن لکل واحدة من الحکومات و الشعوب المسلمة و الجماعات المقاومة فی فلسطین و لبنان و باقی البلدان أن تعرف نصیبها و دورها من هذا الجهاد العام، و أن تملأ بإذن الله جدول المقاومة.
مشروع الجمهوریة الإسلامیة لحل قضیة فلسطین و لمداواة هذا الجرح القدیم مشروع واضح و منطقی و مطابق للعرف السیاسی المقبول لدی الرأی العام العالمی، و قد سبق أن عرض بالتفصیل. إننا لا نقترح الحرب الکلاسیکیة لجیوش البلدان الإسلامیة، و لا رمی الیهود المهاجرین فی البحر، و لا طبعاً تحکیم منظمة الأمم المتحدة و سائر المنظمات الدولیة. إننا نقترح إجراء استفتاء للشعب الفلسطینی. من حق الشعب الفلسطینی کأی شعب آخر أن یقرر مصیره و یختار النظام الذی یحکم بلاده. یشارک کل الفلسطینیین الأصلیین من مسلمین و مسیحیین و یهود - و لیس المهاجرون الأجانب - أین ما کانوا، فی داخل فلسطین أو فی المخیمات أو فی أی مکان آخر، فی استفتاء عام و منضبط و یحددوا النظام المستقبلی لفلسطین. و بعد أن یستقر ذلک النظام و الحکومة المنبثقة عنه سوف یقرر أمر المهاجرین غیر الفلسطینیین الذین انتقلوا إلی هذا البلد خلال الأعوام الماضیة. هذا مشروع عادل و منطقی یستوعبه الرأی العام العالمی بصورة صحیحة، و یمکن أن یتمتع بدعم الشعوب و الحکومات المستقلة. بالطبع، لا نتوقع أن یرضخ الصهاینة الغاصبون له بسهولة، و هنا یتکون دور الحکومات و الشعوب و منظمات المقاومة و یکتسب معناه.
الرکن الأهم لدعم الشعب الفلسطینی هو قطع الدعم للعدو الغاصب، و هذا هو الواجب الکبیر الذی یقع علی عاتق الحکومات الإسلامیة. الآن و بعد نزول الشعوب إلی الساحة و شعاراتهم المقتدرة ضد الکیان الصهیونی بأی منطق تواصل الحکومات المسلمة علاقاتها مع الکیان الغاصب؟ وثیقة صدق الحکومات المسلمة فی مناصرتها للشعب الفلسطینی هو قطع علاقاتها السیاسیة و الاقتصادیة الجلیة و الخفیة مع ذلک الکیان. الحکومات التی تستضیف سفارات الصهاینة أو مکاتبهم الاقتصادیة لا تستطیع أن تدعی الدفاع عن فلسطین، و أی شعار معاد للصهیونیة لن یأخذ منهم علی مأخذ الجد و الحقیقة.
منظمات المقاومة الإسلامیة التی تحملت فی الأعوام الماضیة أعباء الجهاد الثقیلة لا تزال الیوم أیضاً أمام هذا الواجب الکبیر. مقاومتهم المنظمة هی الذراع الفاعل الذی بمقدوره أخذ الشعب الفلسطینی نحو هذا الهدف النهائی. المقاومة الشجاعة للجماهیر التی احتلت دیارهم و بلادهم معترف بها رسمیاً و ممدوحة و مشاد بها فی کل المواثیق الدولیة. تهمة الإرهاب التی تطلقها الشبکات السیاسیة و الإعلامیة التابعة للصهیونیة کلام أجوف لا قیمة له. الإرهابی العلنی هو الکیان الصهیونی و حماته الغربیون، و المقاومة الفلسطینیة حرکة إنسانیة مقدسة مناهضة للإرهابیین.
و فی هذا الخضم، من الجدیر بالبلدان الغربیة أیضاً أن تکون لها نظرتها الواقعیة. الغرب الیوم علی مفترق طرق. إما أن یتخلی عن منطق القوة الذی استخدمه زمناً طویلاً و یعترف بحقوق الشعب الفلسطینی، و لا یواصل أکثر من هذا اتباع المخططات الصهیونیة التعسفیة اللاإنسانیة، و إما أن ینتظر ضربات أقسی فی المستقبل غیر البعید. و هذه الضربات الشالة لیست مجرد السقوط المتتابع للحکومات المطیعة لهم فی المنطقة الإسلامیة، إنما یوم تدرک الشعوب فی أوربا و أمریکا أن أغلب مشکلاتهم الاقتصادیة و الاجتماعیة و الأخلاقیة نابعة من الهیمنة الأخطبوطیة للصهیونیة الدولیة علی حکوماتهم، و أن ساستهم یطیعون و یسلمون لتعسف أصحاب الشرکات الصهیونیة المصاصة للدماء فی أمریکا و أوربا من أجل الحفاظ علی مصالحهم الشخصیة و الحزبیة، فسوف یخلقون لهم جحیماً لا یمکن تصور أی سبیل للخلاص منه.
یقول رئیس جمهوریة أمریکا إن أمن إسرائیل هو خطنا الأحمر. من الذی رسم هذا الخط الأحمر؟ مصالح الشعب الأمریکی أم حاجة أوباما الشخصیة للمال و دعم الشرکات الصهیونیة للحصول علی کرسی الرئاسة فی الدورة الرئاسیة الثانیة؟ إلی متی ستستطیعون خداع شعبکم؟ ماذا سیفعل الشعب الأمریکی یوم یدرک عن حق أنکم رضیتم بالذلة و التبعیة و التمرّغ فی التراب أمام أرباب المال الصهاینة، و نحرتم مصالح شعب کبیر أمام أقدامهم من أجل البقاء فی السلطة أیاماً أضافیة؟
أیها الإخوة و الأخوات الأعزاء، إعلموا أن هذا الخط الأحمر لأوباما و أمثاله سوف یتحطم علی ید الشعوب المسلمة الثائرة. ما یهدد الکیان الصهیونی لیس صواریخ إیران أو جماعات المقاومة حتی تنصبوا أمامه درعاً صاروخیاً هنا و هناک. التهدید الحقیقی و الذی لا علاج له هو العزیمة الراسخة للرجال و النساء و الشباب فی البلدان الإسلامیة الذین لم یعودوا یریدون أن تتحکم فیهم أمریکا و أوربا و عملاؤهم، و یفرضون علیهم الهوان.
و بالطبع، فإن تلک الصواریخ سوف تؤدی واجباتها متی ما ظهر تهدید من قبل العدو.
«فاصبر إن وعد الله حق و لا یستخفنک الذین لا یوقنون».
و السلام عليكم و رحمة الله.
http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1224&Itemid=127
43:21
|
[Speech] Triangle of a successful plan (کامیاب منصوبہ) Kamyab Masooba By Syed Ali Murtaza Zaidi - Ur
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں...
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں سچا ہوں یا نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے پوچھوں کہ میں سچا ہوں کہ نہیں ہوں؟ بچے وہ مخلوق ہیں کہ جو سچ بولتے ہیں۔ اگر باپ کہے کہ میں یہ لے کر دوں گا اور نہ لے کر دے تو اس کا مطلب کہ بچہ کا باپ پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اگر بچہ کہے کہ یہ بات تو ہونی ہے کیوںکہ میرے باپ نے کہا ہے تو اس کا مطلب باپ سچ بولتا ہے یہ معیار ہے۔ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں تو جو مدرسہ، این جی او، یا بلڈنگ ہو پہلے اعتماد ہو اعتماد سچائی سے آتا ہے آپ کی چھوٹی بات میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے آپ کی بات میں وزن آئیگا۔ جو انسان سچ بولتا ہے تو خدا اس کی کہی ہوئی بات کو بھی صحی کروادیتا ہے گویہ خدا اس کی بات یا زبان کی حفاظت کرتا ہے کہ کہیں میرے مومن بندے کی بات جھوٹ نہ ہوجائے۔ آپ کہہ دیں گے جو آپ نے اپنی دانست میں صحی کہا ہوگا تو خدا اس کو بھی صحی کروا دے گا۔ جو لوگ ادہر بیٹھے ہیں اگر یہ سب کہ سب سچے ہوگئے تو شہدادکوٹ دس سال میں جنت بن جائیگا یہ کنفرم ہے۔ مجھے ایک چیز سمجھ میں آئی ہے کہ معاشرے کو بہتر کرنے میں اکثریت کا بہتر ہونا ضروری نہیں ہے اگر کچھ اقلیت بھی اچھی ہو جائے تو معاشرہ اچھا ہوجائیگااس کو ہم کہتے ہیں خواص کا کردار۔ بہت سی چیزیں معاشرے میں خواص کے کردار پر ڈپینٖڈ کرتی ہیں۔ اعتماد کیلئے سچ بولنا ہوگا سچ بولنے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہوگا۔ دوسری چیز منصوبہ ہے۔ آپ کے پاس منصوبہ ہے یا اڑتی ہوئی فکر۔اڑتی ہوئی فکر سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو منصوبہ کا پتا ہو کہ اگر آپ یہ کریں گے تو یہ ہوگا ، یہاں سے شروع کیا ہے تو یہاں پھنچیں گے۔ ہرچیز کلیئر ہو۔ ارادہ، وسائل، خرچہ ، متوقعہ رکاوٹیں،آپ کتنی رکاوٹیں جھیل پائین گے۔ سب چیزیں منصوبہ کا حصہ ہیں جن کو ہم فزیبلٹی رپورٹ کہتے ہیں۔ ہم نے اپنا آفس بنایا تو لوگ آکر کہتے تھے کہ آپ یہ کریں اب یہ کریں ہم سنتے تھے کہ کیا ہم چوراہے پر ہیں کہ جو آتا ہے ترکیب بتا کر جاتا ہے تو میں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے سوچا کہ آپ کی ترکیب بہت اچھی ہے آپ اس پر پانچ صفحے لکھ کر لے آئو جس میں تفصیل ہو شاید ہی کوئی واپس آیا ہو۔ ترکیب دینے والے بہت ہیں آپ ان کو کہیں کہ منصوبہ دیں۔ کتنا خرچہ، پیسا کہاں سے آئیگا تمہارا کیا کردار کیا ہوگا۔ میں ٹریولنگ زیادہ کرتا ہوں جس پر لوگ ترکیب بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب یہاں پر یہ کام ہوسکتا ہے میں کہتا ہون پانچ صفحہ لکھھ کر ایمیؒ کردیں۔ مجھے پتا ہے کہ بہت ترکیں ہوائی فکریں ہیں ترتیب نہیں ہیں۔ اب اتنی مہارت ہوگئی ہے کہ منصوبہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ چلے گا یا نہیں۔ کبھی کسی مین پوٹینسل ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کام کرو کچھ وقت کے بعد اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا۔ منصوبہ چھوٹی جگہ سے شروع کریں۔ اگر مجھے منصوبہ شروع کرنا ہوا تو میں پہلے ایک گلی پکڑوں گا اس کو درست کروں گا۔ اس گلی کی صفائئ ستھرائی نکاسی وغیرہ کو درست کرانا ہوگا پھر دس گلیاں لائن میں لگیں گی۔ آپ ایک گلی صحی کریں۔ شہداد کوٹ میں سبزہ ہو، صفاےئ ستھرائی ہو تو پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کریں۔ جو کچھ کرنا ہے اپنے گھر سے شروع کریں پھر آپ نے کرلیا تو آپ کو پتا چلے گا اس کی قیمت کا ۔ اس کو کون کرے گا اور کون نہیں کرے گا۔ ہم میں سے اگر کوئی کام کسی کو کرنے کیلئے دیتے ہیں تو پہلے کہتے ہیں کہ ہم تین لوگ خود کریں بعد میان کسی اور کو دیں گے۔ سورج کی گرمی، پہلے میں خود کرونں پھر کہت سکتا ہوں کہ یہ پبلک کرے گی یا نہیں اور اس کے بعد دوسروں کو دینا ہے جن کے اند مجھھ جیسا حوصلہ ہے۔ پھر اس کو کہوں گا تم کرو۔ تیسرا ٹیم ورک ہے۔ آپ دنیا کا ہر کام اکیلے کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیلئے آپ کو ٹیم ورک چاہیئے۔ ہم نے اسکول بنایا ہے جس میں 6 سو بچے ہیں اس نے کہا کہ میں یہ بھی کری ہوں وہ بھی کرتی ہوں لمبی لسٹ بتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد آپ بیمار ہوجائیں تو یہ ہونا ہی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں میں دو جملے کہتا ہوں اسکول کے اندر ہر کام کی ذمیدار آپ ہیں مگر سب کام آپ نے نہیں کرنے ہیں کسی اور نے کرنا ہے مگر ذمیدار آپ ہیں۔ آپ نے نظارت کرنی ہے مینئج کریں۔ شروع مین سب کام آپ نے کرنا ہے۔ گلگت میں اسپتال کا پراجیکٹ شروع کرنا تھا ہم نے کلنک سے شروع کیا ہم کو شام کو افتتاح کرنا تھا صحن میں صفائی ستھرائی نہیں تھی پراجیکٹ مینیجر نے کہا کہ جھاڑو والا دیر سے آئیگا میں نے کہا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے جھاڑو لگایا شام تک فارغ بیٹھا ہوا ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اگر م میرے پاس کوئی اور کام ہو جو اس سے بڑا ہو اور میں نے جھارو والا کام کیا تو میں نے یہ ظلم کیا اگر بڑا کام نہیں ہے تو یہ کام کرنا ہے جھاڑو بھی تو کسی نے لگانا ہے۔ یہ کام کسی بندے نے کرنا ہے تو میں کیوں نہ کرون۔ ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام نہین ہے اگر آپ کوئی اور کام نہیں کر رہے تو یہ کام بھی کسی انسان نے کرنا ہے۔ آپ کرلین۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کام ہوگا کیسے۔ ہمارئ ملک کے بڑا لوگ جو راشن کا ڈبہ دیتے ہیں یہ دکھاوا کرتے ہیں۔ اور پبلک کو الو بنوانے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے کرتے ہیں یہ کھتے ہیں کہ پبلک دیکھے گی تو کچھ ہوگا کیا اوپر خدا نہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بندون سے توقع لگائے بیٹھے ہیں خدا سے توقع نہیں کرتے ہیں۔ یہ جو دکھاوے کیلئے دے رہا ہے کتنوں کو دے گا اور کس وقت تک دے گا؟ تصویر کس لئے کھنچوائی ہئ کیوں کہ اس کے اندر خدا نہین ہے اگر خدا ہوتا تو باہر یہ حرکت نہیں کرتا۔
پھلی چیز اعتماد دوسرا عملی منصوبہ تیسرا ٹیم ورک۔ دوسرے لوگ آپ کیساتھ چلین گے کب؟ دھوکہ بازی پر تو ٹیم کوئی بھی بنا لےگا ٹیم تب بنے گی جب آپ اپنے آپ کو ان سب سے نیچے سمھیں تو تیم بنے گی؟ اپنے مقدر کو اپنی ٹیم سے علیحدہ نہ کریں۔ نبی اکرم صہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے ٹیم ورک پر مبنی۔ دشمن باہر سے حملہ اور یہودی سازش کر رہے ہیں حضرت سلمان فارسی نے کہا کہ خندق کھودتے ہیں آپ نے کہا کہ میں بھی خندق کھودوں گا۔ خندق کھودنا شروع ہوگئے باھر بھی دشمن اور کھانے پینے کا سامان بھی کم لوگ بھوکے بھی تھے اور خندق بھی کھودنی تھی۔ لوگوں نے پیٹ سے پتھر باندھے ہوئے تھے ۔ رسول اکرم نے بھی شکم سے پتھر باندہا ہوا تھا۔ خندق کھودتے ہوئے ایک پتھر پر پھنچے اور اس کو نکال نہیں سکتے تھے نبی اکمر کے پاس آئے کی پتھر نکالنے میں دشواری ہے ایک پتھر ہے ہم بیجان ہوگئے۔ پتھر نکل جا، کوئی دعا نہین پڑی انھوں نے کھدال ماری۔ کام ہونا ہے جبرائیل نہیں آئیگا۔ پتھر نہیں ٹوٹا مگر چنگاریان نکلی۔ اس زمانے میں ایران اور روم دو سپر پاور تھے۔ نبی کرم نے پہلئ چنگاریوں پر فرمایہ کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں ایران فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں، دوبارہ کھدال مارا چنگاریاں نکلیں تو آپ نے کہا کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں روم فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں،تیسرا کھدال مارا پتھر ٹوٹ گیا۔ آپ اپنا مقدر علیحدہ نہ کریں۔ ڈوبنا ہے تو ساتھ ڈوبیں لڑنا ہے تو ساتھ لڑیں۔ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر خرابی ہے تو یہاں پر ٹکو۔ پبلک جھیل رہی ہے تو آپ بھی جھیلیں۔ کراشی م یں سیکیورٹی نہیں ہے تو میں اس کا حل یہ نکالوں کہ سوئزرلینڈ چلا جائوں پھر میں کراچی کیلئے کچھ کر سکوں گا۔ اگر لوگ تیں دن گھر میں محصور ہیں تو میں بھی نہ نکلوں۔ آپ مقدر کو الگ نہ کریں آپ کی ملکیت اور پراپرٹی باہر ہو اور آپ پبلک کو کہیں کہ آپ کا ساتھ دے یہ نہیں ہوگا۔ ساتھ اس وقت دنیا ہے جنب آپ مصیبت میں ہیں تو مین بھی مصیبت میں رہون۔
اللہ کے رسول مکہ سے مدینہ آئے تو سب کو ساتھ لے کر آئے جب بھی کوئی مصیبت پڑی اپنے اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا سب سے بڑا معرکہ مباہلہ کا میدان تھا جس میں انہوں نے خود کو اور ایل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا۔ نبی اکرم ان کو لے کر آئے اگر خدانخواستی کچھ ہو جا تا تو نبی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خچرناک جگہ پر ان کو لے کر آئے جو نبی کی کل کائنات تھی۔ نبی کی نسل، خاندان دولت اور جو کچھ تھا یہی تھا۔ میان خطر میں کود پڑے یہ ٹعم ورک ہے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ساتھ چلیں انہوں نے کہا کہ ہم جائیں گے۔ حتی الامکان کاموں کو خود کرنے کی کوشش کریں۔
کامیابی کا ٹرائی اینگل کیا ہو؟ اعتماد جو سچائی سے پیدا ہوگا، منصوبہ اور ٹیم ورک۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹیم خودسازی سے بنتی ہے۔ اپنی نمائش کریں گے تو ٹیم نہیں بنے گی؟ اپنے آپ کو پل بنائیں اپنے آپ کو ستوں قرار نہ دیں۔ اگر لیڈر کہتا ہے کہ میں اونچا نظر آئوں تو یہ رکاوٹ ہے۔ لیڈر وہ ہے جو اپنے آپ کو بچھائے ۔
۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کام کیا ہے پرخلوص اگر منصوبہ یہ بنایا ہے کہ آخر میں جاکر آپ کو اتنی دولت ملنی ہے تو یہ منصوبہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو بنانا ہے تو بے لوث منصوبہ بنائیں۔ ٹیم کس لیے بنائیں گے اس لئے نہیں کہ آپ کہیں کہ میری ٹیم میں 5 ہزار لوگ ہیں بلکہ اس لیئ کہ آٌپ بچھ جائیں تو یہ کھڑے ہوجائیں۔ آپ کے پاس خلوص ہے تو کامیابی ہے۔ خلوص کسے کہتے ہیں کاموں کو اللہ کیلئے انجام دینا۔ اس کا مثال یہ ہے کہ اگر بینر پر میرے لئے لکھے ہوئے جملے پڑہ کر مجھے خوشی ہوئی ہے تو یہ خلوص نہیں ہے۔ خلوص اس وقت ہو جب آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ آپ کو کیا ملنا ہے۔
ہم لوگوں کیساتھ خرابی یہ ہے کہ ہم میں خلوص کی کمی ہے اور ہم نے بے خلوص لوگوں کو دل پر بٹھا دیا ہے۔ یہ ہم نے گڑبڑ کی ہے ہم کو پتا ہے کہ یہ پرخلوص نہیں ہے پھر بھی ہم نے سر پر بٹھا دیا یے۔
آیت اللہ اشتھاردی جو میرے استاد تھے اور بڑے نفیس انسان تھے ان کا واقعہ ہے کہ خلوص کی انتھا بتاتا ہوں۔ واقعہ مشھد مقدس کا ہے وہ طالبعلم تھے تو ایک عورت نے اس کو کہا کہ میرے گائوں مجلس پڑہنے آئوگے؟ میں نے کہا کہ میں چلا آئوں گا۔ اس کا گائوں بہت دور تھا میں مصیبتیں جھیلتا ہوا اس طرف گئے میں اس گائوں میں پہنچا تو مجھے پروگرام کے آثار بہت کم نظر آئے۔ ہم اتنی دور سے آئے کوئی شامیانہ بھی نہیں لگا ہوا تھا لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرف گئی۔ میں اس کے گھر پھنچا۔ اس نے اپنے گھر میں بٹھایا اور کہا کہ مجلس شروع کریں میں نے کہا کہ اور لوگ کب آئیں گے اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے میں ہوں تم مجلس پڑہو۔ میں ایک عورت کیلئے مجلس پڑہوں میں نے ایک سامع کے خاطر مجلس پڑہی میں نے مصائب بھی پڑہے اس عورت نے خوب گریہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ایک کام کردیا اس نے پیسے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا فلاں تاریخ کو پھر آنا۔ پیسے بھی اتنے تھے کہ کرایہ ہی مشکل سے پورا ہوا۔ اس عورت نے کہا کہ دوبارہ بھی آنا جب وہ تاریخ آئی تو میں نے سوچا کہ اس ایک عورت کیلئے اتنا دور جائیں اس کو کہیں گے کہ وہ مشھد آجائے میں اس کو ادہر ہی سنادوں گا۔ میں نہیں گیا میں نے حرم کی زیارت کی پھر واپس آیا تو لیٹا خواب میں سید الشھدا ع آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ہماری مجلس میں بھی نہیں جاتے ہو؟ ۔ یہ ان کی توفیق تھی کہ سید الشھدا ان کے خواب میں آئے ہم غلطی کریں گے تو سید الشھدا ہمارے خواب میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ سید الشھدا اس مجلس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میں بیدار ہوااور سفر طئی کرتا ہوا استغفار کرتا ہوا اس کے گھر میں گیا وہ رو رہی تھی جب تک ڈانٹ نہیں پڑی آئے نہیں نا یہ بڑہیا کا خلوص ہے اگر سید الشھدا کو عزیز نہیں ہوتی تو سید الشھدا خواب میں نہیں آتے۔ ہم نے غلطی کیا کی ہے کہ بے خلوص لوگوں کو سید الشھدا کے منبر پر بٹھایا ہے اگر ہم بے خلوص کو منبر پر بٹھائیں گے تو ہم کو خلوص ملے گا؟ انسان غلطی کرے تو خدا معاف کرنے والا ہے ہم جان بوجھ کر غلطیاں کریں تو پھر؟؟؟ہم جان بوجھ کر غلطی کروں خدا کے حکم کو اہمیت نہ دوں پھر جو وہ چاہ ریے ہیں وہ نہیں ہوگا باقی سب کچھ ہو جائیگا۔ جو اصل میں ہونا تھا وہ نہیں ہوگا۔ سمندر کے نمکین پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی؟ پانی پئیں گے مگر پیاس نہیں جائے گئ۔ آپ خدا کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کریں اور کہیں کہ یہ ہوجائے وہ نہیں ہونے والا ہے۔ اثر نہین آئے گا لوگ تبدیل نہیں ہونگے۔ نافرمانی جان بوجھ کر کی ہے لوگ اللہ کے راستے پر نہیں آئیںگے۔ جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کریں۔ ایک بندہ فجر کی نماز نہیں پڑہ پاتا خدا اس کو معاف کرے گا مگر ہم جان بوجھ کر نماز فجر ادا نہ کریں خدا معاف کرے گا۔ طئی کر کے سویا کہ نہیں اٹھوں گا اب سزا ملے گی۔ آپ طئی کر کے نافرمانی اور گناہ نہ کریں۔ آپ طئی کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں کہ فحاشہ دیکھیں گے اب تو سزا ملے گی۔ سزا کیا ملے گی جو آپ کے نزدیک عزیز تھا وہ دور ہوجائیگا۔ آپ ٹی وی، فحاشہ اور میوزک مزے لینے کیلئے کر رہے تھے تو یہ دنیا آپ کو نہین ملے گی۔ میں نے کل لاڑکانہ میں ارض کیا تھا کہ ہم کو سیلاب کیوجہ سے آئی ڈی پیز نظر آ رہے ہیں جن کی حالت خراب ہے ان کی حالت پہلے بھی بھتر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں دو کروڑ آئی ڈی پیز نہیں ہیں کم از کم آٹھ دس کروڑ آئی ڈی پیز ہیں کچھ ابھی ہوئے ہیں اور کچھ پہلے سے چل رہے ہیں۔
اب بھی صحی نہیں کرنا اب پھر بھی فحاشہ دیکھیں گے چلو لگے رہو۔ اتنے سال 50 سال سے کرپشن ہو رہئ ہے کیا اس کے کچھ ملے گا؟ اس سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر کرپشن سے کچھ ملنا ہے تو اگلے پچاس برس اور کرپشن کرو اگر تھک گئے ہو تو اللہ کے دین پر واپس آئو۔ اگر مایوس ہوگئے ہو تو واپس آجائو۔ ظہور بھی اس طرح ہوگا ۔ جب ہم کو ظلم سے امید ہے کہ کچھ ملنے والا ہے تو عدل محض تشریف نہیں لائیں گے جب ہم سمجھ لیں کہ ظلم سے کچھ نہیں ملنے والا سب کچھ عدل سے ملے گا در اہلبیت سے ملے گا تو پھر امام کا ظھور ہوگا۔
لب لباب یہ ہوا کہ تقریر ختم ہونے کے بعد 80 فیصد باتیں لوگ بھول جاتے ہیں ہم دس منٹ میں نوی فیصد بھول جائیں گے۔ ریکاردنگ پڑی رہتی ہیں کوئی دوبارہ نہیں دیکھتا ہے آپ دیکھیں گے اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کچھ اور لوگ دیکھ لیں گے۔ نوابشاہ میں عید غدیر کا پروگرام تھا جس میں پچیس یا تیس لوگ تھے ہم نے اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اب دیکھتے ہیں کہ ناس کے دیکھنے والے کئی ہزار ہیں۔ لوگ بھول جائیں گے۔ آخر میں اس کو دوبارہ دہراتے ہیں تا کہ رہ جائیں واقعات رہ جاتے ہیں مفھوم نکل جاتا ہے۔ مفھوم پر اصرار کرتے ہیں مفھوم کو تصویر میں لے کر آئیں۔ معقول کو محسوس میں لے کر آئیں تو باقی رہے گا۔
میں نے معقول کو محسوس میں رکھا تھا ایک ٹرائی اینگل ہے جس کے ایک کونہ پر اعتماد، دوسرے پر منصوبہ اور تیسرے کونے پر ٹیم ورک ہے جس کو ہم نے ایک دائرہ میں رکھا ہے دائرہ اخلاص ہے۔ میں نے پل بننا ہے جس سے پر سے لوگوں نے گذرنا ہے آپ نے ستون نہیں بننا ہے۔ معاشرہ کیلئے کام کرنا ہے تو جھیلنا بہت پڑے گا۔ اگر صحی کرتا ہے تو پھر بھی جھیلنا پڑے گا اگر غلط کرتا ہے تو پھر زیادہ جھیلنا پڑے گا۔ پرخلوص ہونا ضروری ہے۔ جس چیز میں جان بوجھ کر نافرمانی کریں گے وہ آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔ نیند کیلئے نماز کو چھوڑا تو اچھی نیند نہیں ملے گی آپ نے خدا کو چھوڑا ہے۔
More...
Description:
کامیاب منصوبہ
سید علی مرتضی زیدی
معاشرے میں سچے لوگ پئداہوگئے تو اچھائی کا عمل شروع ہوجائیگا۔ اگر میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں سچا ہوں یا نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے پوچھوں کہ میں سچا ہوں کہ نہیں ہوں؟ بچے وہ مخلوق ہیں کہ جو سچ بولتے ہیں۔ اگر باپ کہے کہ میں یہ لے کر دوں گا اور نہ لے کر دے تو اس کا مطلب کہ بچہ کا باپ پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اگر بچہ کہے کہ یہ بات تو ہونی ہے کیوںکہ میرے باپ نے کہا ہے تو اس کا مطلب باپ سچ بولتا ہے یہ معیار ہے۔ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں تو جو مدرسہ، این جی او، یا بلڈنگ ہو پہلے اعتماد ہو اعتماد سچائی سے آتا ہے آپ کی چھوٹی بات میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے آپ کی بات میں وزن آئیگا۔ جو انسان سچ بولتا ہے تو خدا اس کی کہی ہوئی بات کو بھی صحی کروادیتا ہے گویہ خدا اس کی بات یا زبان کی حفاظت کرتا ہے کہ کہیں میرے مومن بندے کی بات جھوٹ نہ ہوجائے۔ آپ کہہ دیں گے جو آپ نے اپنی دانست میں صحی کہا ہوگا تو خدا اس کو بھی صحی کروا دے گا۔ جو لوگ ادہر بیٹھے ہیں اگر یہ سب کہ سب سچے ہوگئے تو شہدادکوٹ دس سال میں جنت بن جائیگا یہ کنفرم ہے۔ مجھے ایک چیز سمجھ میں آئی ہے کہ معاشرے کو بہتر کرنے میں اکثریت کا بہتر ہونا ضروری نہیں ہے اگر کچھ اقلیت بھی اچھی ہو جائے تو معاشرہ اچھا ہوجائیگااس کو ہم کہتے ہیں خواص کا کردار۔ بہت سی چیزیں معاشرے میں خواص کے کردار پر ڈپینٖڈ کرتی ہیں۔ اعتماد کیلئے سچ بولنا ہوگا سچ بولنے کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہوگا۔ دوسری چیز منصوبہ ہے۔ آپ کے پاس منصوبہ ہے یا اڑتی ہوئی فکر۔اڑتی ہوئی فکر سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو منصوبہ کا پتا ہو کہ اگر آپ یہ کریں گے تو یہ ہوگا ، یہاں سے شروع کیا ہے تو یہاں پھنچیں گے۔ ہرچیز کلیئر ہو۔ ارادہ، وسائل، خرچہ ، متوقعہ رکاوٹیں،آپ کتنی رکاوٹیں جھیل پائین گے۔ سب چیزیں منصوبہ کا حصہ ہیں جن کو ہم فزیبلٹی رپورٹ کہتے ہیں۔ ہم نے اپنا آفس بنایا تو لوگ آکر کہتے تھے کہ آپ یہ کریں اب یہ کریں ہم سنتے تھے کہ کیا ہم چوراہے پر ہیں کہ جو آتا ہے ترکیب بتا کر جاتا ہے تو میں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے سوچا کہ آپ کی ترکیب بہت اچھی ہے آپ اس پر پانچ صفحے لکھ کر لے آئو جس میں تفصیل ہو شاید ہی کوئی واپس آیا ہو۔ ترکیب دینے والے بہت ہیں آپ ان کو کہیں کہ منصوبہ دیں۔ کتنا خرچہ، پیسا کہاں سے آئیگا تمہارا کیا کردار کیا ہوگا۔ میں ٹریولنگ زیادہ کرتا ہوں جس پر لوگ ترکیب بتاتے ہیں کہ مولانا صاحب یہاں پر یہ کام ہوسکتا ہے میں کہتا ہون پانچ صفحہ لکھھ کر ایمیؒ کردیں۔ مجھے پتا ہے کہ بہت ترکیں ہوائی فکریں ہیں ترتیب نہیں ہیں۔ اب اتنی مہارت ہوگئی ہے کہ منصوبہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ چلے گا یا نہیں۔ کبھی کسی مین پوٹینسل ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کام کرو کچھ وقت کے بعد اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا۔ منصوبہ چھوٹی جگہ سے شروع کریں۔ اگر مجھے منصوبہ شروع کرنا ہوا تو میں پہلے ایک گلی پکڑوں گا اس کو درست کروں گا۔ اس گلی کی صفائئ ستھرائی نکاسی وغیرہ کو درست کرانا ہوگا پھر دس گلیاں لائن میں لگیں گی۔ آپ ایک گلی صحی کریں۔ شہداد کوٹ میں سبزہ ہو، صفاےئ ستھرائی ہو تو پہلے آپ اپنے گھر سے شروع کریں۔ جو کچھ کرنا ہے اپنے گھر سے شروع کریں پھر آپ نے کرلیا تو آپ کو پتا چلے گا اس کی قیمت کا ۔ اس کو کون کرے گا اور کون نہیں کرے گا۔ ہم میں سے اگر کوئی کام کسی کو کرنے کیلئے دیتے ہیں تو پہلے کہتے ہیں کہ ہم تین لوگ خود کریں بعد میان کسی اور کو دیں گے۔ سورج کی گرمی، پہلے میں خود کرونں پھر کہت سکتا ہوں کہ یہ پبلک کرے گی یا نہیں اور اس کے بعد دوسروں کو دینا ہے جن کے اند مجھھ جیسا حوصلہ ہے۔ پھر اس کو کہوں گا تم کرو۔ تیسرا ٹیم ورک ہے۔ آپ دنیا کا ہر کام اکیلے کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیلئے آپ کو ٹیم ورک چاہیئے۔ ہم نے اسکول بنایا ہے جس میں 6 سو بچے ہیں اس نے کہا کہ میں یہ بھی کری ہوں وہ بھی کرتی ہوں لمبی لسٹ بتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد آپ بیمار ہوجائیں تو یہ ہونا ہی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں میں دو جملے کہتا ہوں اسکول کے اندر ہر کام کی ذمیدار آپ ہیں مگر سب کام آپ نے نہیں کرنے ہیں کسی اور نے کرنا ہے مگر ذمیدار آپ ہیں۔ آپ نے نظارت کرنی ہے مینئج کریں۔ شروع مین سب کام آپ نے کرنا ہے۔ گلگت میں اسپتال کا پراجیکٹ شروع کرنا تھا ہم نے کلنک سے شروع کیا ہم کو شام کو افتتاح کرنا تھا صحن میں صفائی ستھرائی نہیں تھی پراجیکٹ مینیجر نے کہا کہ جھاڑو والا دیر سے آئیگا میں نے کہا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے جھاڑو لگایا شام تک فارغ بیٹھا ہوا ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اگر م میرے پاس کوئی اور کام ہو جو اس سے بڑا ہو اور میں نے جھارو والا کام کیا تو میں نے یہ ظلم کیا اگر بڑا کام نہیں ہے تو یہ کام کرنا ہے جھاڑو بھی تو کسی نے لگانا ہے۔ یہ کام کسی بندے نے کرنا ہے تو میں کیوں نہ کرون۔ ہم اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ میرا کام نہین ہے اگر آپ کوئی اور کام نہیں کر رہے تو یہ کام بھی کسی انسان نے کرنا ہے۔ آپ کرلین۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کام ہوگا کیسے۔ ہمارئ ملک کے بڑا لوگ جو راشن کا ڈبہ دیتے ہیں یہ دکھاوا کرتے ہیں۔ اور پبلک کو الو بنوانے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے کرتے ہیں یہ کھتے ہیں کہ پبلک دیکھے گی تو کچھ ہوگا کیا اوپر خدا نہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ بندون سے توقع لگائے بیٹھے ہیں خدا سے توقع نہیں کرتے ہیں۔ یہ جو دکھاوے کیلئے دے رہا ہے کتنوں کو دے گا اور کس وقت تک دے گا؟ تصویر کس لئے کھنچوائی ہئ کیوں کہ اس کے اندر خدا نہین ہے اگر خدا ہوتا تو باہر یہ حرکت نہیں کرتا۔
پھلی چیز اعتماد دوسرا عملی منصوبہ تیسرا ٹیم ورک۔ دوسرے لوگ آپ کیساتھ چلین گے کب؟ دھوکہ بازی پر تو ٹیم کوئی بھی بنا لےگا ٹیم تب بنے گی جب آپ اپنے آپ کو ان سب سے نیچے سمھیں تو تیم بنے گی؟ اپنے مقدر کو اپنی ٹیم سے علیحدہ نہ کریں۔ نبی اکرم صہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے ٹیم ورک پر مبنی۔ دشمن باہر سے حملہ اور یہودی سازش کر رہے ہیں حضرت سلمان فارسی نے کہا کہ خندق کھودتے ہیں آپ نے کہا کہ میں بھی خندق کھودوں گا۔ خندق کھودنا شروع ہوگئے باھر بھی دشمن اور کھانے پینے کا سامان بھی کم لوگ بھوکے بھی تھے اور خندق بھی کھودنی تھی۔ لوگوں نے پیٹ سے پتھر باندھے ہوئے تھے ۔ رسول اکرم نے بھی شکم سے پتھر باندہا ہوا تھا۔ خندق کھودتے ہوئے ایک پتھر پر پھنچے اور اس کو نکال نہیں سکتے تھے نبی اکمر کے پاس آئے کی پتھر نکالنے میں دشواری ہے ایک پتھر ہے ہم بیجان ہوگئے۔ پتھر نکل جا، کوئی دعا نہین پڑی انھوں نے کھدال ماری۔ کام ہونا ہے جبرائیل نہیں آئیگا۔ پتھر نہیں ٹوٹا مگر چنگاریان نکلی۔ اس زمانے میں ایران اور روم دو سپر پاور تھے۔ نبی کرم نے پہلئ چنگاریوں پر فرمایہ کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں ایران فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں، دوبارہ کھدال مارا چنگاریاں نکلیں تو آپ نے کہا کہ میں ان چنگاریوں کی روشنی میں تمھارے ہاتھوں روم فتح ہوتا دیکھھ رہا ہوں،تیسرا کھدال مارا پتھر ٹوٹ گیا۔ آپ اپنا مقدر علیحدہ نہ کریں۔ ڈوبنا ہے تو ساتھ ڈوبیں لڑنا ہے تو ساتھ لڑیں۔ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر خرابی ہے تو یہاں پر ٹکو۔ پبلک جھیل رہی ہے تو آپ بھی جھیلیں۔ کراشی م یں سیکیورٹی نہیں ہے تو میں اس کا حل یہ نکالوں کہ سوئزرلینڈ چلا جائوں پھر میں کراچی کیلئے کچھ کر سکوں گا۔ اگر لوگ تیں دن گھر میں محصور ہیں تو میں بھی نہ نکلوں۔ آپ مقدر کو الگ نہ کریں آپ کی ملکیت اور پراپرٹی باہر ہو اور آپ پبلک کو کہیں کہ آپ کا ساتھ دے یہ نہیں ہوگا۔ ساتھ اس وقت دنیا ہے جنب آپ مصیبت میں ہیں تو مین بھی مصیبت میں رہون۔
اللہ کے رسول مکہ سے مدینہ آئے تو سب کو ساتھ لے کر آئے جب بھی کوئی مصیبت پڑی اپنے اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا سب سے بڑا معرکہ مباہلہ کا میدان تھا جس میں انہوں نے خود کو اور ایل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا۔ نبی اکرم ان کو لے کر آئے اگر خدانخواستی کچھ ہو جا تا تو نبی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ خچرناک جگہ پر ان کو لے کر آئے جو نبی کی کل کائنات تھی۔ نبی کی نسل، خاندان دولت اور جو کچھ تھا یہی تھا۔ میان خطر میں کود پڑے یہ ٹعم ورک ہے لوگ اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ساتھ چلیں انہوں نے کہا کہ ہم جائیں گے۔ حتی الامکان کاموں کو خود کرنے کی کوشش کریں۔
کامیابی کا ٹرائی اینگل کیا ہو؟ اعتماد جو سچائی سے پیدا ہوگا، منصوبہ اور ٹیم ورک۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹیم خودسازی سے بنتی ہے۔ اپنی نمائش کریں گے تو ٹیم نہیں بنے گی؟ اپنے آپ کو پل بنائیں اپنے آپ کو ستوں قرار نہ دیں۔ اگر لیڈر کہتا ہے کہ میں اونچا نظر آئوں تو یہ رکاوٹ ہے۔ لیڈر وہ ہے جو اپنے آپ کو بچھائے ۔
۔ یہ تین کام ہوگئے تو پھر آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کام کیا ہے پرخلوص اگر منصوبہ یہ بنایا ہے کہ آخر میں جاکر آپ کو اتنی دولت ملنی ہے تو یہ منصوبہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو بنانا ہے تو بے لوث منصوبہ بنائیں۔ ٹیم کس لیے بنائیں گے اس لئے نہیں کہ آپ کہیں کہ میری ٹیم میں 5 ہزار لوگ ہیں بلکہ اس لیئ کہ آٌپ بچھ جائیں تو یہ کھڑے ہوجائیں۔ آپ کے پاس خلوص ہے تو کامیابی ہے۔ خلوص کسے کہتے ہیں کاموں کو اللہ کیلئے انجام دینا۔ اس کا مثال یہ ہے کہ اگر بینر پر میرے لئے لکھے ہوئے جملے پڑہ کر مجھے خوشی ہوئی ہے تو یہ خلوص نہیں ہے۔ خلوص اس وقت ہو جب آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ آپ کو کیا ملنا ہے۔
ہم لوگوں کیساتھ خرابی یہ ہے کہ ہم میں خلوص کی کمی ہے اور ہم نے بے خلوص لوگوں کو دل پر بٹھا دیا ہے۔ یہ ہم نے گڑبڑ کی ہے ہم کو پتا ہے کہ یہ پرخلوص نہیں ہے پھر بھی ہم نے سر پر بٹھا دیا یے۔
آیت اللہ اشتھاردی جو میرے استاد تھے اور بڑے نفیس انسان تھے ان کا واقعہ ہے کہ خلوص کی انتھا بتاتا ہوں۔ واقعہ مشھد مقدس کا ہے وہ طالبعلم تھے تو ایک عورت نے اس کو کہا کہ میرے گائوں مجلس پڑہنے آئوگے؟ میں نے کہا کہ میں چلا آئوں گا۔ اس کا گائوں بہت دور تھا میں مصیبتیں جھیلتا ہوا اس طرف گئے میں اس گائوں میں پہنچا تو مجھے پروگرام کے آثار بہت کم نظر آئے۔ ہم اتنی دور سے آئے کوئی شامیانہ بھی نہیں لگا ہوا تھا لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرف گئی۔ میں اس کے گھر پھنچا۔ اس نے اپنے گھر میں بٹھایا اور کہا کہ مجلس شروع کریں میں نے کہا کہ اور لوگ کب آئیں گے اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہے میں ہوں تم مجلس پڑہو۔ میں ایک عورت کیلئے مجلس پڑہوں میں نے ایک سامع کے خاطر مجلس پڑہی میں نے مصائب بھی پڑہے اس عورت نے خوب گریہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ایک کام کردیا اس نے پیسے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا فلاں تاریخ کو پھر آنا۔ پیسے بھی اتنے تھے کہ کرایہ ہی مشکل سے پورا ہوا۔ اس عورت نے کہا کہ دوبارہ بھی آنا جب وہ تاریخ آئی تو میں نے سوچا کہ اس ایک عورت کیلئے اتنا دور جائیں اس کو کہیں گے کہ وہ مشھد آجائے میں اس کو ادہر ہی سنادوں گا۔ میں نہیں گیا میں نے حرم کی زیارت کی پھر واپس آیا تو لیٹا خواب میں سید الشھدا ع آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ہماری مجلس میں بھی نہیں جاتے ہو؟ ۔ یہ ان کی توفیق تھی کہ سید الشھدا ان کے خواب میں آئے ہم غلطی کریں گے تو سید الشھدا ہمارے خواب میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ سید الشھدا اس مجلس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میں بیدار ہوااور سفر طئی کرتا ہوا استغفار کرتا ہوا اس کے گھر میں گیا وہ رو رہی تھی جب تک ڈانٹ نہیں پڑی آئے نہیں نا یہ بڑہیا کا خلوص ہے اگر سید الشھدا کو عزیز نہیں ہوتی تو سید الشھدا خواب میں نہیں آتے۔ ہم نے غلطی کیا کی ہے کہ بے خلوص لوگوں کو سید الشھدا کے منبر پر بٹھایا ہے اگر ہم بے خلوص کو منبر پر بٹھائیں گے تو ہم کو خلوص ملے گا؟ انسان غلطی کرے تو خدا معاف کرنے والا ہے ہم جان بوجھ کر غلطیاں کریں تو پھر؟؟؟ہم جان بوجھ کر غلطی کروں خدا کے حکم کو اہمیت نہ دوں پھر جو وہ چاہ ریے ہیں وہ نہیں ہوگا باقی سب کچھ ہو جائیگا۔ جو اصل میں ہونا تھا وہ نہیں ہوگا۔ سمندر کے نمکین پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی؟ پانی پئیں گے مگر پیاس نہیں جائے گئ۔ آپ خدا کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کریں اور کہیں کہ یہ ہوجائے وہ نہیں ہونے والا ہے۔ اثر نہین آئے گا لوگ تبدیل نہیں ہونگے۔ نافرمانی جان بوجھ کر کی ہے لوگ اللہ کے راستے پر نہیں آئیںگے۔ جان بوجھ کر نافرمانی نہیں کریں۔ ایک بندہ فجر کی نماز نہیں پڑہ پاتا خدا اس کو معاف کرے گا مگر ہم جان بوجھ کر نماز فجر ادا نہ کریں خدا معاف کرے گا۔ طئی کر کے سویا کہ نہیں اٹھوں گا اب سزا ملے گی۔ آپ طئی کر کے نافرمانی اور گناہ نہ کریں۔ آپ طئی کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں کہ فحاشہ دیکھیں گے اب تو سزا ملے گی۔ سزا کیا ملے گی جو آپ کے نزدیک عزیز تھا وہ دور ہوجائیگا۔ آپ ٹی وی، فحاشہ اور میوزک مزے لینے کیلئے کر رہے تھے تو یہ دنیا آپ کو نہین ملے گی۔ میں نے کل لاڑکانہ میں ارض کیا تھا کہ ہم کو سیلاب کیوجہ سے آئی ڈی پیز نظر آ رہے ہیں جن کی حالت خراب ہے ان کی حالت پہلے بھی بھتر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں دو کروڑ آئی ڈی پیز نہیں ہیں کم از کم آٹھ دس کروڑ آئی ڈی پیز ہیں کچھ ابھی ہوئے ہیں اور کچھ پہلے سے چل رہے ہیں۔
اب بھی صحی نہیں کرنا اب پھر بھی فحاشہ دیکھیں گے چلو لگے رہو۔ اتنے سال 50 سال سے کرپشن ہو رہئ ہے کیا اس کے کچھ ملے گا؟ اس سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر کرپشن سے کچھ ملنا ہے تو اگلے پچاس برس اور کرپشن کرو اگر تھک گئے ہو تو اللہ کے دین پر واپس آئو۔ اگر مایوس ہوگئے ہو تو واپس آجائو۔ ظہور بھی اس طرح ہوگا ۔ جب ہم کو ظلم سے امید ہے کہ کچھ ملنے والا ہے تو عدل محض تشریف نہیں لائیں گے جب ہم سمجھ لیں کہ ظلم سے کچھ نہیں ملنے والا سب کچھ عدل سے ملے گا در اہلبیت سے ملے گا تو پھر امام کا ظھور ہوگا۔
لب لباب یہ ہوا کہ تقریر ختم ہونے کے بعد 80 فیصد باتیں لوگ بھول جاتے ہیں ہم دس منٹ میں نوی فیصد بھول جائیں گے۔ ریکاردنگ پڑی رہتی ہیں کوئی دوبارہ نہیں دیکھتا ہے آپ دیکھیں گے اس کا حل یہ ہے کہ آپ اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کچھ اور لوگ دیکھ لیں گے۔ نوابشاہ میں عید غدیر کا پروگرام تھا جس میں پچیس یا تیس لوگ تھے ہم نے اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اب دیکھتے ہیں کہ ناس کے دیکھنے والے کئی ہزار ہیں۔ لوگ بھول جائیں گے۔ آخر میں اس کو دوبارہ دہراتے ہیں تا کہ رہ جائیں واقعات رہ جاتے ہیں مفھوم نکل جاتا ہے۔ مفھوم پر اصرار کرتے ہیں مفھوم کو تصویر میں لے کر آئیں۔ معقول کو محسوس میں لے کر آئیں تو باقی رہے گا۔
میں نے معقول کو محسوس میں رکھا تھا ایک ٹرائی اینگل ہے جس کے ایک کونہ پر اعتماد، دوسرے پر منصوبہ اور تیسرے کونے پر ٹیم ورک ہے جس کو ہم نے ایک دائرہ میں رکھا ہے دائرہ اخلاص ہے۔ میں نے پل بننا ہے جس سے پر سے لوگوں نے گذرنا ہے آپ نے ستون نہیں بننا ہے۔ معاشرہ کیلئے کام کرنا ہے تو جھیلنا بہت پڑے گا۔ اگر صحی کرتا ہے تو پھر بھی جھیلنا پڑے گا اگر غلط کرتا ہے تو پھر زیادہ جھیلنا پڑے گا۔ پرخلوص ہونا ضروری ہے۔ جس چیز میں جان بوجھ کر نافرمانی کریں گے وہ آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔ نیند کیلئے نماز کو چھوڑا تو اچھی نیند نہیں ملے گی آپ نے خدا کو چھوڑا ہے۔
5:05
|
ہم کشتی بنا رہے ہیں! | استاد علی رضا پناہیان | Farsi Sub Urdu
قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب نہیں مگر اس کے باوجود گزشتہ انبیاء علیہم السّلام اور ان کی امتوں کی تاریخی...
قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب نہیں مگر اس کے باوجود گزشتہ انبیاء علیہم السّلام اور ان کی امتوں کی تاریخی داستانوں کی جانب اشارہ ہوا ہے تاکہ ہر دور میں انسان، سابقہ امتوں کی داستانوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو عقلی نہج پر سنوارنے کی کوشش کرتا رہے، چنانچہ انہی قرآنی داستانوں میں ایک اہم داستان، حضرت نوح علیہ السّلام کی ہے جس کا نمایاں پہلو کشتی کی تعمیر پر مشتمل ہے، حضرت نوحؑ اللہ کے حکم کے مطابق بظاہر ایک کشتی جبکہ حقیقت میں ایک نئی دنیا بنا رہے تھے اور مذاق اڑانے والوں نے اس نئی دنیا میں ہونا ہی نہیں تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی نجات کی کشتیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا مگر ان کی نوعیت اور شکلیں بدلتی رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں عصائے موسیٰؑ، کشتی نجات کا حکم رکھتا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں دَمِ عیسی علیہ السلام! اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور آج کے دور میں بھی نجات کی ایک کشتی بن رہی ہے مگر اس کے بارے میں سوال یہ ہے کہ وہ کشتی کس نوعیت کی ہے؟ امام صادقؑ نے موجودہ کشتی کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ اس میں کون سے لوگ سوار ہوں گے؟ چنانچہ ان اہم سوالات کے جوابات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے استاد علی رضا پناہیان کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #علی_رضا_پناہیان #کشتی #حضرت_نوح #ایران #جہاد_تبیین #انحراف #تمدن_جدید #حاج_قاسم #یمن #غالب #معجزہ #عقل #جمہوریت #مقاومت #سازش
More...
Description:
قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب نہیں مگر اس کے باوجود گزشتہ انبیاء علیہم السّلام اور ان کی امتوں کی تاریخی داستانوں کی جانب اشارہ ہوا ہے تاکہ ہر دور میں انسان، سابقہ امتوں کی داستانوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو عقلی نہج پر سنوارنے کی کوشش کرتا رہے، چنانچہ انہی قرآنی داستانوں میں ایک اہم داستان، حضرت نوح علیہ السّلام کی ہے جس کا نمایاں پہلو کشتی کی تعمیر پر مشتمل ہے، حضرت نوحؑ اللہ کے حکم کے مطابق بظاہر ایک کشتی جبکہ حقیقت میں ایک نئی دنیا بنا رہے تھے اور مذاق اڑانے والوں نے اس نئی دنیا میں ہونا ہی نہیں تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی نجات کی کشتیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا مگر ان کی نوعیت اور شکلیں بدلتی رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں عصائے موسیٰؑ، کشتی نجات کا حکم رکھتا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں دَمِ عیسی علیہ السلام! اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور آج کے دور میں بھی نجات کی ایک کشتی بن رہی ہے مگر اس کے بارے میں سوال یہ ہے کہ وہ کشتی کس نوعیت کی ہے؟ امام صادقؑ نے موجودہ کشتی کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ اس میں کون سے لوگ سوار ہوں گے؟ چنانچہ ان اہم سوالات کے جوابات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے استاد علی رضا پناہیان کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #علی_رضا_پناہیان #کشتی #حضرت_نوح #ایران #جہاد_تبیین #انحراف #تمدن_جدید #حاج_قاسم #یمن #غالب #معجزہ #عقل #جمہوریت #مقاومت #سازش
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
keshty,
Kashti,
Ali
Reza
Panahian,
Quran,
Tarikh,
Nabi,
Dastan,
Insan,
Hazrat
Noh,
Hazrat
Noah,
Haqiqat,
Nejat,
Hazrat
Musa,
Hazrat
Isa,
Imam,
Imam
Sadiq,
Iran,
Jihad
Tabyin,
Tamadduan,
Haj
Qasim,
Yemen,
Jumhuri,
Muqavemat,
Sazesh,
کشتی,
استاد,
استاد
علی
رضا
پناہیان,
علی
رضا
پناہیان,
استاد
پناہیان,
[FARSI][1October11] بیانات ولی امر مسلمین در اجلاس حمایت از انتفاضه فلسطین
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
More...
Description:
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
27:25
|
ديدار صميمئ دانشجويان با رهبر معظم انقلاب - August 7, 2012 - Farsi
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين...
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
More...
Description:
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
5:28
|
جدید جہالت | Farsi sub Urdu
کیا جہالت فقط پیغمبر اسلامؐ کے مبعوث ہونے سے پہلے کے دور سے منسوب ہے یا ہر دور میں جہالت کی نمائندگی رہتی ہے...
کیا جہالت فقط پیغمبر اسلامؐ کے مبعوث ہونے سے پہلے کے دور سے منسوب ہے یا ہر دور میں جہالت کی نمائندگی رہتی ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام کی نمائندگی جو مخلوق کے لئے حق کو واضح سے واضح ترکرتی ہے۔۔۔ اس دور میں جہالت کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور اسلام و بعثت کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟؟؟
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #بعثت #جہالت #امریکہ #برطانیہ #دشمن_شناسی
More...
Description:
کیا جہالت فقط پیغمبر اسلامؐ کے مبعوث ہونے سے پہلے کے دور سے منسوب ہے یا ہر دور میں جہالت کی نمائندگی رہتی ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام کی نمائندگی جو مخلوق کے لئے حق کو واضح سے واضح ترکرتی ہے۔۔۔ اس دور میں جہالت کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور اسلام و بعثت کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟؟؟
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #بعثت #جہالت #امریکہ #برطانیہ #دشمن_شناسی