0:25
|
WhatsApp Status [2] | Arbaeen Yaani Shohada Ki Hamrahi - Urdu
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [2] | اربعین یعنی شہداء کی ہمراہی
WhatsApp Status [2] | Arbaeen Yaani Shohada Ki Hamrahi
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط...
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [2] | اربعین یعنی شہداء کی ہمراہی
WhatsApp Status [2] | Arbaeen Yaani Shohada Ki Hamrahi
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [2] | اربعین یعنی شہداء کی ہمراہی
WhatsApp Status [2] | Arbaeen Yaani Shohada Ki Hamrahi
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
0:23
|
WhatsApp Status [3] | Arbaeen Yaani Labbaik Ya Mehdi [AJF] - Urdu
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [3] | اربعین یعنی لبیک یا مہدی[عج]
WhatsApp Status [3] | Arbaeen Yaani Labbaik Ya Mehdi [AJF]
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط...
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [3] | اربعین یعنی لبیک یا مہدی[عج]
WhatsApp Status [3] | Arbaeen Yaani Labbaik Ya Mehdi [AJF]
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [3] | اربعین یعنی لبیک یا مہدی[عج]
WhatsApp Status [3] | Arbaeen Yaani Labbaik Ya Mehdi [AJF]
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
0:23
|
WhatsApp Status [4] | Arbaeen Yaani Khuloos Ka Izhaar - Urdu
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [4] | اربعین یعنی خلوص کا اظہار
WhatsApp Status [4] | Arbaeen Yaani Khuloos Ka Izhaar
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف...
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [4] | اربعین یعنی خلوص کا اظہار
WhatsApp Status [4] | Arbaeen Yaani Khuloos Ka Izhaar
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [4] | اربعین یعنی خلوص کا اظہار
WhatsApp Status [4] | Arbaeen Yaani Khuloos Ka Izhaar
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
0:16
|
WhatsApp Status [5] | Arbaeen Yaani Shia Sunni Ittehad - Urdu
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [5] | اربعین یعنی شیعہ سنی اتحاد
WhatsApp Status [5] | Arbaeen Yaani Shia Sunni Ittehad
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف...
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [5] | اربعین یعنی شیعہ سنی اتحاد
WhatsApp Status [5] | Arbaeen Yaani Shia Sunni Ittehad
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [5] | اربعین یعنی شیعہ سنی اتحاد
WhatsApp Status [5] | Arbaeen Yaani Shia Sunni Ittehad
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
0:16
|
WhatsApp Status [6] | Arbaeen Yaani Shaoor Ki Meraaj - Urdu
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [6] | اربعین یعنی شعور کی معراج
WhatsApp Status [6] | Arbaeen Yaani Shaoor Ki Meraaj
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف...
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [6] | اربعین یعنی شعور کی معراج
WhatsApp Status [6] | Arbaeen Yaani Shaoor Ki Meraaj
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
🎦 وٹس اپ اسٹیٹس [6] | اربعین یعنی شعور کی معراج
WhatsApp Status [6] | Arbaeen Yaani Shaoor Ki Meraaj
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
3:03
|
Clip | Dr Ailya Haider Jaffri | Khadime Mokib Shah Ganj Agra Khi | Aalami Zaireene Arbaeen 2020 - Urdu
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر...
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
3:16
|
Clip | Syed Komail Abid Naqvi | Ajjki Yazidiat Ka Muqabla Arbaeen Se | Aalami Zaireene Arbaeen 2020 - Urdu
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر...
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
1:53
|
Clip | H.I. Haider Ali Jaffri | Julose Arbaeen - Yazidiat Ke Moun Per Tamacha | Aalami Arbaeen 2020 - Urdu
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر...
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
1:29
|
Clip | Moulana Hasan Zafar Naqvi | Arbaeen Per Samandar Hoga | Aalami Zaireene Arbaeen 2020 - Urdu
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر...
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب و فیس بک چینل لائک، سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/ClFkhIdfxHvIQNXAO1uuuO
*عالمی اربعینِ حسینیؑ مہم*
More...
Description:
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب و فیس بک چینل لائک، سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/ClFkhIdfxHvIQNXAO1uuuO
*عالمی اربعینِ حسینیؑ مہم*
3:17
|
Clip | Moulana Haider Abbas Abidi | Arbaeen Ki Tayyari Kaise? | Aalami Zaireene Arbaeen 2020 - Urdu
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر...
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/ClFkhIdfxHvIQNXAO1uuuO
More...
Description:
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/ClFkhIdfxHvIQNXAO1uuuO
6:02
|
Clip | H.I. Yawar Abbas | Iss Saal Ka Khaas Arbaeen | Aalami Zaireene Arbaeen 2020 - Urdu
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر...
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
More...
Description:
اب ہم اربعینِ حسینیؑ فقط نجف سے کربلا نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک منائیں گے لہذا اگر آپ بھی اس سال اربعین پر زائرِ حسینؑ بننا چاہتے ہیں تو دنیا بھر میں موجود زائرینِ حسینیؑ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ ہم آپ کی لبیک یا حُسینؑ کی یہ صدا دنیا بھر تک پہنچائیں گے۔ لبیک یا حسینؑ کلپس کا دورانیہ حد اکثر 50 سیکنڈز ہو۔ یہ کلپس آج سے 15 صفر 1442ھ تک وصول کیے جاتے رہیں گے جو ہر روز عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی صفحے پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔
*آپ اپنے کلپس اس واٹس اپ نمبر پر ارسال کر سکتے ہیں۔*
📱 +923216259062
*زائرینِ حسینیؑ کے لبیک یا حسینؑ کے کلپس دیکھنے اور ان کو دنیا بھر تک پہچانے کے لیے عالمی زائرینِ اربعینِ حسینیؑ کے رسمی یوٹیوب چینل سبسکرائب اور شیئر کر کے اس آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔*
https://www.youtube.com/channel/UCWciksC7t2kNWGd9Acj9fFA?view_as=subscriber
http://fb.com/Zaireene-Arbaeen-2020-112135033980766
*مزید معلومات و اپڈیٹ حاصل کرنے کے لیے وٹس اپ گروپ جوائن کریں۔*
https://chat.whatsapp.com/FXEZiU7mTOx4VWjACupzWy
2:57
|
بسیج، زندہ و جاوید مثالی کردار | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
عصرِ حاضر میں عَالَمی شیطانی طاقتوں یعنی استعماری و...
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
عصرِ حاضر میں عَالَمی شیطانی طاقتوں یعنی استعماری و استکباری طاقتوں کے مقابلے میں انقلابِ اسلامی کا کردار کلیدی رہا ہے، طاقت کے نشے میں چور وہ عَالَمی فرعون صفت طاقتیں جنہوں نے دنیا کے تمام ممالک پر اپنا رعب و دبدبہ بٹھایا ہوا تھا اور کسی بھی ملک میں یہ جرأت نہیں پائی جاتی تھی کہ ان عَالَمی شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرسکے، ایک ایسی دنیا میں انقلاب اسلامی کا ظہور ہوتا ہے اور اِس انقلاب کے مقابلے میں دنیا کی تمام مادّی طاقتیں جمع ہوجاتی ہیں لیکن انقلابِ اسلامی کے انقلابی اور عاشورائی جوان جنہیں بسیج کہا جاتا ہے، ایمانی طاقت، جوش و جذبے اور اخلاص سے لبریز ہو کر ہر میدان میں اِن مغرور اور تکبر میں ڈوبی ہوئی عَالَمی طاقتوں کو شکست سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے جوان تمام مسلمان جوانوں کے لیے نمونہ عمل ہیں جنہوں نے اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ اِن فرعونی طاقتوں کے بغیر بھی مسلمان اور دنیا بھر کے تمام مظلومین اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور غلامی سے نجات پاسکتے ہیں۔
بسیج کی خدمات اور مثالی کردار کے حامل بسیجی جوانوں کے بارے میں جاننے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #بسیج #جلوے #عسکری_میدان #مجاہدت #دفاع_مقدس #معجزہ #حوصلہ_افزائی #دفاع_سخت #دفاع_نرم #شہید_فہمیدہ #محسن_حججی #نمونہ_عمل #مخلص_لشکر
More...
Description:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
عصرِ حاضر میں عَالَمی شیطانی طاقتوں یعنی استعماری و استکباری طاقتوں کے مقابلے میں انقلابِ اسلامی کا کردار کلیدی رہا ہے، طاقت کے نشے میں چور وہ عَالَمی فرعون صفت طاقتیں جنہوں نے دنیا کے تمام ممالک پر اپنا رعب و دبدبہ بٹھایا ہوا تھا اور کسی بھی ملک میں یہ جرأت نہیں پائی جاتی تھی کہ ان عَالَمی شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرسکے، ایک ایسی دنیا میں انقلاب اسلامی کا ظہور ہوتا ہے اور اِس انقلاب کے مقابلے میں دنیا کی تمام مادّی طاقتیں جمع ہوجاتی ہیں لیکن انقلابِ اسلامی کے انقلابی اور عاشورائی جوان جنہیں بسیج کہا جاتا ہے، ایمانی طاقت، جوش و جذبے اور اخلاص سے لبریز ہو کر ہر میدان میں اِن مغرور اور تکبر میں ڈوبی ہوئی عَالَمی طاقتوں کو شکست سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے جوان تمام مسلمان جوانوں کے لیے نمونہ عمل ہیں جنہوں نے اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ اِن فرعونی طاقتوں کے بغیر بھی مسلمان اور دنیا بھر کے تمام مظلومین اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں اور غلامی سے نجات پاسکتے ہیں۔
بسیج کی خدمات اور مثالی کردار کے حامل بسیجی جوانوں کے بارے میں جاننے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #بسیج #جلوے #عسکری_میدان #مجاہدت #دفاع_مقدس #معجزہ #حوصلہ_افزائی #دفاع_سخت #دفاع_نرم #شہید_فہمیدہ #محسن_حججی #نمونہ_عمل #مخلص_لشکر
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
baseej,
zinda,
sayyid
ali
khamenei,
shaytani
taqat,
istemar,
istekbar,
inqelab
e
islami,
firaun,
jurrat,
isteqamat,
maaddi
taqatein,
ashurai
jawan,
josh,
jazba,
ikhlas,
magroor,
takabbur
shikast,
musalman,
namunae
amal,
mazloom,
ghulami,
zaalim,
khidmat,
shaheed
fahmide,
mohsin
hojaji,
mojiza,
jung
narm,
jung
sakht,
2:51
|
انقلاب اسلامی، الٰہی نور کی ایک کرن | امام خمینی;امام خامنہ ای | Urdu
انقلابِ اسلامی ایک تاریک اور گھٹن دور میں کہ جب دنیا کی عَالَمی شیطانی طاقتیں، طاقت اور زور کے ذریعے لوگوں کو...
انقلابِ اسلامی ایک تاریک اور گھٹن دور میں کہ جب دنیا کی عَالَمی شیطانی طاقتیں، طاقت اور زور کے ذریعے لوگوں کو جدید طریقے سے ایک پُر فریب سرمایہ دارانہ نظام اور ترقی کے نام پر کمزور ممالک اور اقوام کو غلام بنانے میں مصروف تھیں، ایسے بظاہر روشن لیکن باطنی طور پر تاریک و ظلمت سے پُر ماحول میں اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے اور ایک خوشگوار صبح کی ہوا کا ایک جھونکا دنیا کے مظلومین و محرومین محسوس کرتے ہیں۔ خوبصورت نعروں کے ساتھ دنیا میں مختلف انقلاب آئے لیکن جلد ہی یہ انقلابات خود ایک جابر و ظالم نظام میں تبدیل ہو گئے لیکن الحمد للہ اسلامی انقلاب آج اکتالیس سال گزرنے کے باوجود اپنی طاقت کے مطابق مظلومین و محرومین کی حمایت و حتی الامکان مدد اور دنیا کی شیطانی طاقتوں کے مقابل استقامت کے ساتھ کھڑا ہے۔
اِس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے اقتباس سننے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انقلاب_اسلامی #نور_کی_کرن #انقلابات #طاقت #جابر #سوویت_یونین #فرانس #اقوام #آزادی #مشرق_و_مغرب #قومی_انقلاب #اسلام #روحانی_نسیم
More...
Description:
انقلابِ اسلامی ایک تاریک اور گھٹن دور میں کہ جب دنیا کی عَالَمی شیطانی طاقتیں، طاقت اور زور کے ذریعے لوگوں کو جدید طریقے سے ایک پُر فریب سرمایہ دارانہ نظام اور ترقی کے نام پر کمزور ممالک اور اقوام کو غلام بنانے میں مصروف تھیں، ایسے بظاہر روشن لیکن باطنی طور پر تاریک و ظلمت سے پُر ماحول میں اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے اور ایک خوشگوار صبح کی ہوا کا ایک جھونکا دنیا کے مظلومین و محرومین محسوس کرتے ہیں۔ خوبصورت نعروں کے ساتھ دنیا میں مختلف انقلاب آئے لیکن جلد ہی یہ انقلابات خود ایک جابر و ظالم نظام میں تبدیل ہو گئے لیکن الحمد للہ اسلامی انقلاب آج اکتالیس سال گزرنے کے باوجود اپنی طاقت کے مطابق مظلومین و محرومین کی حمایت و حتی الامکان مدد اور دنیا کی شیطانی طاقتوں کے مقابل استقامت کے ساتھ کھڑا ہے۔
اِس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے اقتباس سننے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انقلاب_اسلامی #نور_کی_کرن #انقلابات #طاقت #جابر #سوویت_یونین #فرانس #اقوام #آزادی #مشرق_و_مغرب #قومی_انقلاب #اسلام #روحانی_نسیم
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
inqelabe
islami,
ilahi
noor,
kiran,
imam
khomeini,
imam
khamenei,
taareek,
aalami
shaytani
taqat,
sarmaedarana
nizam,
taraqqi,
ghulam,
mazloom,
kamzor,
khushgawar,
raushan,
suraj,
tulu,
naara,
inqelab,
jabir,
zalim,
nizam,
tabdeel,
isteqamat,
taqat,
madad,
imdad,
azadi,
france,
iran,
5:29
|
انقلابِ اسلامی کا رُشد و نمو | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی بعثت کے بعد دینِ مبینِ اسلام جو ایک انقلاب کی شکل میں اپنی الہی...
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی بعثت کے بعد دینِ مبینِ اسلام جو ایک انقلاب کی شکل میں اپنی الہی تعلیمات کے سبب اور کفر و شرک یعنی طاغوتی طاقتوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنے کے سبب عرب دنیا میں اور پھر آہستہ آہستہ دنیا کے گوشہ و کنار میں پھیل گیا تھا، یہ الہی انقلاب کئی مراحل اور اونچ نیچ سے گزرا اور بعض صف اول کی شخصیات حب دنیا اور نفسانی بیماریوں کے سبب تو بعض بے بصیرتی اور کج فکری کے سبب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامِ محمدیؐ کے الہی اہداف کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔ اِسی طرح عصرِ حاضر کی تاریک اور عَالَمی طاقتوں کے چنگل میں جکڑی دنیا میں اُسی محمدی اسلام سے اور الہی تعلیمات سے الہام و توانائی لیتے ہوئے ایک الہی اسلامی انقلاب ایران کی سرزمین پر برپا ہوا، اس اسلامی انقلاب کے سرسبز درخت سے جہاں کئی پتے گرے وہاں پر کئی گنا زیادہ نئی کونپلیں پھوٹیں اور یہ ثمرہ بخش درخت شہداء کے پاکیزہ خون کے سبب سرسبز و شاداب رہا۔
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انقلاب_اسلامی #رشد_و_نمو #انقلابی_افراد #گھٹنے_کا_عمل #اوائل_اسلام #دنیا_پرست #اعجاز #خرازی #ہمت #باعث_افتخار #پاکیزہ_خون #پاسبان_حرم_اہلبیت #جذبہ_ایمانی
More...
Description:
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی بعثت کے بعد دینِ مبینِ اسلام جو ایک انقلاب کی شکل میں اپنی الہی تعلیمات کے سبب اور کفر و شرک یعنی طاغوتی طاقتوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنے کے سبب عرب دنیا میں اور پھر آہستہ آہستہ دنیا کے گوشہ و کنار میں پھیل گیا تھا، یہ الہی انقلاب کئی مراحل اور اونچ نیچ سے گزرا اور بعض صف اول کی شخصیات حب دنیا اور نفسانی بیماریوں کے سبب تو بعض بے بصیرتی اور کج فکری کے سبب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامِ محمدیؐ کے الہی اہداف کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔ اِسی طرح عصرِ حاضر کی تاریک اور عَالَمی طاقتوں کے چنگل میں جکڑی دنیا میں اُسی محمدی اسلام سے اور الہی تعلیمات سے الہام و توانائی لیتے ہوئے ایک الہی اسلامی انقلاب ایران کی سرزمین پر برپا ہوا، اس اسلامی انقلاب کے سرسبز درخت سے جہاں کئی پتے گرے وہاں پر کئی گنا زیادہ نئی کونپلیں پھوٹیں اور یہ ثمرہ بخش درخت شہداء کے پاکیزہ خون کے سبب سرسبز و شاداب رہا۔
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انقلاب_اسلامی #رشد_و_نمو #انقلابی_افراد #گھٹنے_کا_عمل #اوائل_اسلام #دنیا_پرست #اعجاز #خرازی #ہمت #باعث_افتخار #پاکیزہ_خون #پاسبان_حرم_اہلبیت #جذبہ_ایمانی
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
inqelabe
islami,
rushd,
wali
amre
muslemeen,
sayyid
ali
khamenei,
rasue
khuda,
besat,
islam,
inqelab,
taalimat,
shirk,
kufr,
taghoot,
jahad,
ilahi
inqelab,
hubbe
dunya,
nafsani
bimari,
kaj
fikri,
islame
mohammadi,
ilahi
ahdaf,
tareek,
ilham,
iran,
samar,
pakeeza
khoon,
shohada,
shakhsiyaat,
iman,
jazba,
3:33
|
انتظار، اُمید کی طاقت | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
انتظار کا فلسفہ...
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
انتظار کا فلسفہ درحقیقت انسان کی ایک فطری خواہش سے مربوط ہے۔ ہر انسان فطری طور پر ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جہاں پر ظلم و ستم، فقر و فاقہ، بے انصافی اور طبقاتی تفریق جیسے عیوب نہ پائے جاتے ہوں۔ خداوندِ متعال نے ایک ایسی دنیا کا وعدہ فرمایا ہے کہ جس میں مستضعفین کی حکومت ہو گی۔ مستضعفین وہ ہیں کہ جنہیں خداوندِ متعال نے ایک مثالی اور الہی دنیا کی تشکیل کے لیے بشریت کی طرف بھیجا تھا، ان کا انتخاب فرمایا تھا لیکن بشریت نے ان کا استقبال نہیں کیا بلکہ کچھ نے نادانی کی وجہ سے تو کچھ نے خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کے لیے اُن خدا کے منتخب نمائندوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ انتظار یعنی شعور اور آگاہی کے ساتھ ایک مثالی معاشرے کے لیے جدوجہد انتظار یعنی ولی خدا کی عدل و انصاف پر مبنی حکومت کے لیے زمینہ فراہم کرنا۔ انتظار یعنی ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے دل میں امید کی شمع روشن رکھنا۔ انتظار یعنی تحرک اور دنیا کی شیطانی طاقتوں سے اظہار بیزاری اور ان کے ساتھ مبارزہ کے لیے خود کو آمادہ کرنا۔
اِس بارے میں ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انتظار #امید_کی_طاقت #مہدویت #حقیقت #سمندر #طوفان #خوف #گشائش #عالمی_طاقتوں #ظاہری_شان_و_شوکت #حقیقی_راستہ #حرکت_کا_آغاز
More...
Description:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
انتظار کا فلسفہ درحقیقت انسان کی ایک فطری خواہش سے مربوط ہے۔ ہر انسان فطری طور پر ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جہاں پر ظلم و ستم، فقر و فاقہ، بے انصافی اور طبقاتی تفریق جیسے عیوب نہ پائے جاتے ہوں۔ خداوندِ متعال نے ایک ایسی دنیا کا وعدہ فرمایا ہے کہ جس میں مستضعفین کی حکومت ہو گی۔ مستضعفین وہ ہیں کہ جنہیں خداوندِ متعال نے ایک مثالی اور الہی دنیا کی تشکیل کے لیے بشریت کی طرف بھیجا تھا، ان کا انتخاب فرمایا تھا لیکن بشریت نے ان کا استقبال نہیں کیا بلکہ کچھ نے نادانی کی وجہ سے تو کچھ نے خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کے لیے اُن خدا کے منتخب نمائندوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ انتظار یعنی شعور اور آگاہی کے ساتھ ایک مثالی معاشرے کے لیے جدوجہد انتظار یعنی ولی خدا کی عدل و انصاف پر مبنی حکومت کے لیے زمینہ فراہم کرنا۔ انتظار یعنی ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے دل میں امید کی شمع روشن رکھنا۔ انتظار یعنی تحرک اور دنیا کی شیطانی طاقتوں سے اظہار بیزاری اور ان کے ساتھ مبارزہ کے لیے خود کو آمادہ کرنا۔
اِس بارے میں ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انتظار #امید_کی_طاقت #مہدویت #حقیقت #سمندر #طوفان #خوف #گشائش #عالمی_طاقتوں #ظاہری_شان_و_شوکت #حقیقی_راستہ #حرکت_کا_آغاز
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
intezar,
ummeed,
taqat,
sayyid
ali
khamenei,
sajde,
muntazir,
falsafa,
fitrat,
insan,
zulm,
faqr,
be
insafi,
khuda,
wada,
mustazafeen,
hukumat,
muntakhab,
narawa
sulook,
bashariyat,
waliye
khuda,
adl,
insaaf,
zameena,
muashra,
shaytani
taqat,
bezari,
1:08
|
خود مختاری کی خاطر دشمنی | امام خمینی رضوان اللہ علیہ | Farsi Sub Urdu
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
مسلمانوں کے پے در پے زوال...
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
مسلمانوں کے پے در پے زوال اور پسماندگی کے بعد تمام اسلامی ممالک میں ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا جس طرح مسلمان ممالک کے حکمران مسلمانوں کے زوال اور مغربی ممالک کی دنیا پر حکمرانی اور ان کی غلامی کو مقدر کا کھیل سمجھ کر قبول کر چکے تھے اِسی طرح عام مسلمان بھی اِس غلامی سے اور اُن کے پنجوں سے نکلنا ناممکن سمجھ بیٹھے تھے. ایک ایسے ظلمت سے پُر ماحول میں مشرق میں امید کی ایک کرن اسلامی انقلاب کی شکل میں چمکتی ہے۔ آج اِسی الٰہی انقلاب کی برکتیں ہی ہیں کہ جس کے سبب دنیا بھر میں بیداری کی تحریکیں عَالَمی غارت گر شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں بر سرِ پیکار نظر آتی ہیں۔ آج وہ عَالمی شیطانی طاقتیں جو دنیا کو اپنی مٹھی میں سمجھ رہی تھیں وہ فلسطینی، عراقی، یمنی، شامی اور دیگر مومن جوانوں کے ہاتھوں جگہ جگہ رسوا ہو رہی ہیں۔
اسلامی ممالک کی خود مختاری کے بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا انتخاب کیجئے۔
#ویڈیو #مشرق #مغرب #ذرائع_ابلاغ #مطبوعات #خود_مختاری #حفاظت #آرزو #اسلامی_ممالک #حکمرانی #گہری_نیند
More...
Description:
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
مسلمانوں کے پے در پے زوال اور پسماندگی کے بعد تمام اسلامی ممالک میں ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا جس طرح مسلمان ممالک کے حکمران مسلمانوں کے زوال اور مغربی ممالک کی دنیا پر حکمرانی اور ان کی غلامی کو مقدر کا کھیل سمجھ کر قبول کر چکے تھے اِسی طرح عام مسلمان بھی اِس غلامی سے اور اُن کے پنجوں سے نکلنا ناممکن سمجھ بیٹھے تھے. ایک ایسے ظلمت سے پُر ماحول میں مشرق میں امید کی ایک کرن اسلامی انقلاب کی شکل میں چمکتی ہے۔ آج اِسی الٰہی انقلاب کی برکتیں ہی ہیں کہ جس کے سبب دنیا بھر میں بیداری کی تحریکیں عَالَمی غارت گر شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں بر سرِ پیکار نظر آتی ہیں۔ آج وہ عَالمی شیطانی طاقتیں جو دنیا کو اپنی مٹھی میں سمجھ رہی تھیں وہ فلسطینی، عراقی، یمنی، شامی اور دیگر مومن جوانوں کے ہاتھوں جگہ جگہ رسوا ہو رہی ہیں۔
اسلامی ممالک کی خود مختاری کے بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا انتخاب کیجئے۔
#ویڈیو #مشرق #مغرب #ذرائع_ابلاغ #مطبوعات #خود_مختاری #حفاظت #آرزو #اسلامی_ممالک #حکمرانی #گہری_نیند
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
khud
mukhtari,
dushmani,
imam
khomeini,
bharosa,
ghulam,
baseerat,
hurr,
beena,
musalman,
pasmandegi,
zawal,
islami
mamalik,
andhera,
hukmaran,
maghribi
mamalik,
muqaddar,
zulmat,
ummeed,
islami
inqelab,
ilahi
inqelab,
bedari,
barkatein,
paikar,
shaytani
taqatein,
palestine,
falastine,
iraq,
shaam,
syria,
yamani,
yemeni,
ruswa,
jawan,
mashriq,
maghrib,
hifazat,
aarzu,
51:51
|
Majlis Aza 1443Hijri I Shia Shunasi I Engr Syed Hussain Moosavi I Sindhi I DokriI Sindhi
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ...
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔مجالس عزا درسگاہ امام حسین ع ہیں جس میں ہر انسان کس آنے کی دعوت ہے جس کی دل، روح اور فطرت سلامت ہے۔ ان مجالس سے اہلبیت کے مذہب، سوچ اور فکر کا بیان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری مجالس میں سننے والا مزا لینے اور سنانے والا مزا دینے والا ہے۔
لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں خوشی تلاش کرنے کیلئے مگر یہ قوم پیسہ خرچ کر کے غم تلاش کرتے ہیں۔
اپنا ذاتی غم چھپانے کا حکم ہے مگر غم حسین کے اظہارِ کا حکم ہے
اصول کافی سے بھی پرانی کتاب کامل الزیارات میں ہے کہ ہر طرح کی بے صبری، اہ و زاری مکروہ ہے سوائے اس آ ہ و زاری کیلئے جو امام حسین کیلئے ہے ہو وہ پسندیدہ ہے
غم حسین ذات کا نہیں بلکہ دین کا غم ہے۔ اپنا غم ہو تو بھی غم حسین کو یاد کریں۔ غم حسین پہیلانے کا فائدہ ہے انسان کا دل مظلوم سے محبت کرتا ہے اور ظالم سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا کو مظلومیت اہلبیت بتائیں گے تو ان کے اندر امام حسین ع کی محبت پئدا ہوگی۔
جب انسان اہلبیت کے دروازے پر ایا تو اس کی دین و دنیا روشن ہوگی۔
عزاداری حسینی قبیلہ بناتی ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں۔غم حسین انسانوں کو دیندار بناتا ہے۔عزادری نہ ہوتی تو دینداری نہیں ہوتی
کربلا انسانوں کو دین و ایمان دیتی ہے۔مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ذرائع وسیلہ ہیں۔
نماز سے اللہ پاک کی یاد مطلوب ہے۔ سورہ طہ جسے سورہ محبت بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے کہ نماز قائم کروتاکہ تم میں یاد رکھوں۔اللہ کی یاد کیلئے نماز ہے مطلوب یاد خدا ہے
نمازی نہیں بلکہ بندہ بننے کی دعا کریں۔ روزہ صبر و شکر کیلئے ہے۔
روزہ کے ذریعے صبر مطلوب ہے۔ اللہ پاک نے عبادات کسی ہدف کیلئے رکھی ہیں۔ زکوات اسلئے ہے کہ مال کی محبت کم ہو اور دولت اللہ کی امانت ہے۔ جو زکوات اللہ کی محبت نہ دے وہ ایڈورٹائزمنٹ ہے۔
جس طرح سب عبادات بامقصد ہیں اس طرح عزاداری کا بھی مقصد ہے۔عزاداری کے تین مقاصد ہیں۔ امام حسین کے غم کا اظہار۔ دوم مقصد امام حسین کا بیان۔ سوم کربلا کا بیان۔کربلا مجاہد تیار کرتی ہے۔
امام حسین کے غم میں اپنے غم کا اظہار کریں غم حسین کے اظہار سے اللہ کی محبت ائیگی۔ غم کیلئے اختیاری اور اضطراری ہے تو بھی کریں۔
مقصد امام حسین بیان کرنے کیلئے نعرہ، بینر، شعر بیان کریں۔ مقصد امام بیان کرنا عزاداری ہے۔ عزادار کربلا کا مبلغ ہے۔ ہر عزادار مقصد امام حسین دنیا تک پہنچائے۔ کم کربلا کا پیغام چاردیواری میں انے والوں کیلئے بھی دیتے ہیں اور چاردیواری سے باہر نہ انے والوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ عزادار گشتی مبلغ ہے۔
کربلا بیان ہوگی تو کیا ہوگا۔ کربلا دینی غیرت کیلئے پاور ہائوس ہے کربلا زمین پر گرے ہوئے انسان کو ظالم کیخلاف لڑنے کی قوت دیتی ہے۔ مجاہد کربلا تیار کرتی ہے۔ علی اصغر کربلا مجاہد اعظم ہے۔ کربلا ظالم اور وقت کے یزید کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ظلم کیخلاف لڑنے کی قوت کربلا و امام حسین نے دی۔
بدقسمتی سے خطیبوں نے کربلا کو دکان بنادیا ہے۔ خطیب ایمان بیچ دہے ہیں۔ خطیبوں کی بنائی ہوئی کربلا مجاہد نہیں بلکہ رلانے والے پیدا کرتی ہے۔جھوٹی کربلا سلائے گی اصل کربلا بیداری دے گی۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کے صدقے میں ابراہیم کو امامت ملی ہے۔
اے ابراہیم تم کو اپنی جان پیاری ہے یا محبوب مصطفیٰ زیادہ پیارے ہیں۔
تجھے اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے یا محبوب مصطفی کا بیٹا زیادہ پیارا ہے
تجھے اسماعیل ذبح ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی یا مصطفیٰ کا حسین ذبع ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی۔
اللہ پاک نے ابراہیم ع کو بعد میں ہونے والی کربلا دکھائی۔ کربلا کا منظر دیکھنے کے بعد تین دن تک حضرت ابراہیم حزن وغم میں رہنے کے بعد اللہ نے کہا کہ تم کو انسانوں کا امام بنایا۔
ابراہیم ع نے چھری چلائی تو ہاتھ نہیں کانپا ابراہیم بیٹا دیتے وقت اتنا طاقتور اور برداشت والا ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو فخر ابراہیم ہیں اپنا بیٹا دے گا تو گرے گا نہیں۔ امام حسین کو کمزور و لاچار دکھایا جاتا ہے امام حسین ع لاچار نہیں تھے انہوں نے مصیبتیں
جھوٹے مصائب دینی غیرت ختم کرتے ہیں۔ خطیب کی کربلا کا مقصد رلانا ہے جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔
حسینی وکربلائی موت سے نہیں ڈرتے۔ خطیب کی کربلا اور ہے اور امام حسین کی کربلا اور ہے۔
امام حسین دوسروں کو ابھارنے اور جلا بخشنے والا ہے۔
بحار الانوار پڑہیں۔ جنہوں نے اصل کربلا سے سبق سیکھا وہ حزب اللہ ہے جس سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
اصل کربلا بیان کرنا عزادار کی ذمیداری ہے۔ ہماری زبان صرف حسین کی ہو۔
ہمارے پاس کربلا عاشورہ پر ختم ہوتی ہے مگر کربلا تو عاشورہ سے شروع ہوتی ہے۔ زمین کی کر بلا امام حسین نے بنائی جبکہ دنیا کی کربلا زینب س نے بنائی۔عاشور تک حسین پھر سارا سال زینب ہے۔ سیدہ زینب کسی مقام پر نہیں گھبرائی بلکہ علیہ السلام کے لھجے میں یزید و ابن زیاد کو للکارا۔
کربلا کے 72 شہدا کی کوشش دین بھی بچے اور امام بھی بچے 72 نے جہاد کیا دین بچایا امام نہیں بچا سکے۔ حسین کی بہن نے دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ 72 کا کارنامہ ایک طرف سیدہ کا کارنامہ دوسری طرف۔
72 کا مقابلہ ابن زیاد اور یزید کے لشکر سے تھا۔ سیدہ زینب نے بندہے ہاتھوں سے قیدی ہوکر یزید اور ابن زیاد کا مقابلہ کیا اور دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ ہم سب سیدہ زینب کا صدقہ ہیں۔
السلام علیک یا اباعبداللہ
السلام علیک یا زینب الکبریٰ
ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان۔
سید حسین موسوی کی مجلس سے انتخاب
14 Comments
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
More...
Description:
||شيعه شناسي||استاد محترم سيد حسين موسوي||مجلس 1||عشره مجالس عزا 1443||ڏوڪري سنڌ پاڪستان
خطیب کا مقصد رلانا جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔مجالس عزا درسگاہ امام حسین ع ہیں جس میں ہر انسان کس آنے کی دعوت ہے جس کی دل، روح اور فطرت سلامت ہے۔ ان مجالس سے اہلبیت کے مذہب، سوچ اور فکر کا بیان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری مجالس میں سننے والا مزا لینے اور سنانے والا مزا دینے والا ہے۔
لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں خوشی تلاش کرنے کیلئے مگر یہ قوم پیسہ خرچ کر کے غم تلاش کرتے ہیں۔
اپنا ذاتی غم چھپانے کا حکم ہے مگر غم حسین کے اظہارِ کا حکم ہے
اصول کافی سے بھی پرانی کتاب کامل الزیارات میں ہے کہ ہر طرح کی بے صبری، اہ و زاری مکروہ ہے سوائے اس آ ہ و زاری کیلئے جو امام حسین کیلئے ہے ہو وہ پسندیدہ ہے
غم حسین ذات کا نہیں بلکہ دین کا غم ہے۔ اپنا غم ہو تو بھی غم حسین کو یاد کریں۔ غم حسین پہیلانے کا فائدہ ہے انسان کا دل مظلوم سے محبت کرتا ہے اور ظالم سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا کو مظلومیت اہلبیت بتائیں گے تو ان کے اندر امام حسین ع کی محبت پئدا ہوگی۔
جب انسان اہلبیت کے دروازے پر ایا تو اس کی دین و دنیا روشن ہوگی۔
عزاداری حسینی قبیلہ بناتی ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں۔غم حسین انسانوں کو دیندار بناتا ہے۔عزادری نہ ہوتی تو دینداری نہیں ہوتی
کربلا انسانوں کو دین و ایمان دیتی ہے۔مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ذرائع وسیلہ ہیں۔
نماز سے اللہ پاک کی یاد مطلوب ہے۔ سورہ طہ جسے سورہ محبت بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے کہ نماز قائم کروتاکہ تم میں یاد رکھوں۔اللہ کی یاد کیلئے نماز ہے مطلوب یاد خدا ہے
نمازی نہیں بلکہ بندہ بننے کی دعا کریں۔ روزہ صبر و شکر کیلئے ہے۔
روزہ کے ذریعے صبر مطلوب ہے۔ اللہ پاک نے عبادات کسی ہدف کیلئے رکھی ہیں۔ زکوات اسلئے ہے کہ مال کی محبت کم ہو اور دولت اللہ کی امانت ہے۔ جو زکوات اللہ کی محبت نہ دے وہ ایڈورٹائزمنٹ ہے۔
جس طرح سب عبادات بامقصد ہیں اس طرح عزاداری کا بھی مقصد ہے۔عزاداری کے تین مقاصد ہیں۔ امام حسین کے غم کا اظہار۔ دوم مقصد امام حسین کا بیان۔ سوم کربلا کا بیان۔کربلا مجاہد تیار کرتی ہے۔
امام حسین کے غم میں اپنے غم کا اظہار کریں غم حسین کے اظہار سے اللہ کی محبت ائیگی۔ غم کیلئے اختیاری اور اضطراری ہے تو بھی کریں۔
مقصد امام حسین بیان کرنے کیلئے نعرہ، بینر، شعر بیان کریں۔ مقصد امام بیان کرنا عزاداری ہے۔ عزادار کربلا کا مبلغ ہے۔ ہر عزادار مقصد امام حسین دنیا تک پہنچائے۔ کم کربلا کا پیغام چاردیواری میں انے والوں کیلئے بھی دیتے ہیں اور چاردیواری سے باہر نہ انے والوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ عزادار گشتی مبلغ ہے۔
کربلا بیان ہوگی تو کیا ہوگا۔ کربلا دینی غیرت کیلئے پاور ہائوس ہے کربلا زمین پر گرے ہوئے انسان کو ظالم کیخلاف لڑنے کی قوت دیتی ہے۔ مجاہد کربلا تیار کرتی ہے۔ علی اصغر کربلا مجاہد اعظم ہے۔ کربلا ظالم اور وقت کے یزید کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو ظلم کیخلاف لڑنے کی قوت کربلا و امام حسین نے دی۔
بدقسمتی سے خطیبوں نے کربلا کو دکان بنادیا ہے۔ خطیب ایمان بیچ دہے ہیں۔ خطیبوں کی بنائی ہوئی کربلا مجاہد نہیں بلکہ رلانے والے پیدا کرتی ہے۔جھوٹی کربلا سلائے گی اصل کربلا بیداری دے گی۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کے صدقے میں ابراہیم کو امامت ملی ہے۔
اے ابراہیم تم کو اپنی جان پیاری ہے یا محبوب مصطفیٰ زیادہ پیارے ہیں۔
تجھے اپنا بیٹا زیادہ پیارا ہے یا محبوب مصطفی کا بیٹا زیادہ پیارا ہے
تجھے اسماعیل ذبح ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی یا مصطفیٰ کا حسین ذبع ہوگا تو زیادہ تکلیف ہوگی۔
اللہ پاک نے ابراہیم ع کو بعد میں ہونے والی کربلا دکھائی۔ کربلا کا منظر دیکھنے کے بعد تین دن تک حضرت ابراہیم حزن وغم میں رہنے کے بعد اللہ نے کہا کہ تم کو انسانوں کا امام بنایا۔
ابراہیم ع نے چھری چلائی تو ہاتھ نہیں کانپا ابراہیم بیٹا دیتے وقت اتنا طاقتور اور برداشت والا ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو فخر ابراہیم ہیں اپنا بیٹا دے گا تو گرے گا نہیں۔ امام حسین کو کمزور و لاچار دکھایا جاتا ہے امام حسین ع لاچار نہیں تھے انہوں نے مصیبتیں
جھوٹے مصائب دینی غیرت ختم کرتے ہیں۔ خطیب کی کربلا کا مقصد رلانا ہے جبکہ کربلا کا مقصد ابھارنا ہے۔
حسینی وکربلائی موت سے نہیں ڈرتے۔ خطیب کی کربلا اور ہے اور امام حسین کی کربلا اور ہے۔
امام حسین دوسروں کو ابھارنے اور جلا بخشنے والا ہے۔
بحار الانوار پڑہیں۔ جنہوں نے اصل کربلا سے سبق سیکھا وہ حزب اللہ ہے جس سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
اصل کربلا بیان کرنا عزادار کی ذمیداری ہے۔ ہماری زبان صرف حسین کی ہو۔
ہمارے پاس کربلا عاشورہ پر ختم ہوتی ہے مگر کربلا تو عاشورہ سے شروع ہوتی ہے۔ زمین کی کر بلا امام حسین نے بنائی جبکہ دنیا کی کربلا زینب س نے بنائی۔عاشور تک حسین پھر سارا سال زینب ہے۔ سیدہ زینب کسی مقام پر نہیں گھبرائی بلکہ علیہ السلام کے لھجے میں یزید و ابن زیاد کو للکارا۔
کربلا کے 72 شہدا کی کوشش دین بھی بچے اور امام بھی بچے 72 نے جہاد کیا دین بچایا امام نہیں بچا سکے۔ حسین کی بہن نے دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ 72 کا کارنامہ ایک طرف سیدہ کا کارنامہ دوسری طرف۔
72 کا مقابلہ ابن زیاد اور یزید کے لشکر سے تھا۔ سیدہ زینب نے بندہے ہاتھوں سے قیدی ہوکر یزید اور ابن زیاد کا مقابلہ کیا اور دین بھی بچایا اور امام بھی بچایا۔ ہم سب سیدہ زینب کا صدقہ ہیں۔
السلام علیک یا اباعبداللہ
السلام علیک یا زینب الکبریٰ
ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان۔
سید حسین موسوی کی مجلس سے انتخاب
14 Comments
موضوع: شيعہ شناسي
خطابت: استاد محترم سيد حسين موسوي.
زبان: سنڌي
جڳھ(وينيو): ڏوڪري سنڌ پاڪستان
اسان جو فيسبڪ پيج:
https://www.facebook.com/HussainMoosavi1
اسان جي ويبسائيٽ
https://hussainmoosavi.org/
2:39
|
انقلاب کی مہک سرحدوں سے بالاتر | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اسلام محمدی کا آفتاب ایک انقلاب کی صورت میں دنیا میں چمکا. جس طرح آفتاب کی روشنی ہر ذی حیات کو حیات بخشتی ہے،...
اسلام محمدی کا آفتاب ایک انقلاب کی صورت میں دنیا میں چمکا. جس طرح آفتاب کی روشنی ہر ذی حیات کو حیات بخشتی ہے، جس طرح بہار کے چمن کی خوشبو کی مہک ہر ذی حیات کو تازگی بخشتی ہے، اسی طرح اسلام محمدی کی خالص تعلیمات مردہ معاشروں کو حیات بخشتی ہیں. دنیا کی ابلیسی طاقتوں نے اسلام کی نورانی کرنوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اسلام کے نام پر اسلام کی بھیانک تصویر دنیا کو دکھانے کی کوشش کی لیکن خاندان رسالت اور مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے اسلامی انقلاب کی شکل میں خالص محمدی اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور دنیا کی ابلیسی طاقتوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے. آج انقلاب کی مقاومتی، الہی اور انسانی تعلیمات سرحدوں سے بالاتر ہر زندہ ضمیر انسان کے دل کی آواز بنتی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ منجی بشریت کے ظہور تک انشاء اللہ جاری و ساری رہے گا.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #انقلاب #مہک #سرحدوں_سے_بالاتر #ملت #پسند #قابل_قبول #مقاومت #فکر #عقیدہ #مشرقی_ایشیا #مشترکہ_بات #طاقتور_محاذ #بہار #خوشبو
More...
Description:
اسلام محمدی کا آفتاب ایک انقلاب کی صورت میں دنیا میں چمکا. جس طرح آفتاب کی روشنی ہر ذی حیات کو حیات بخشتی ہے، جس طرح بہار کے چمن کی خوشبو کی مہک ہر ذی حیات کو تازگی بخشتی ہے، اسی طرح اسلام محمدی کی خالص تعلیمات مردہ معاشروں کو حیات بخشتی ہیں. دنیا کی ابلیسی طاقتوں نے اسلام کی نورانی کرنوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اسلام کے نام پر اسلام کی بھیانک تصویر دنیا کو دکھانے کی کوشش کی لیکن خاندان رسالت اور مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے اسلامی انقلاب کی شکل میں خالص محمدی اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور دنیا کی ابلیسی طاقتوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے. آج انقلاب کی مقاومتی، الہی اور انسانی تعلیمات سرحدوں سے بالاتر ہر زندہ ضمیر انسان کے دل کی آواز بنتی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ منجی بشریت کے ظہور تک انشاء اللہ جاری و ساری رہے گا.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #انقلاب #مہک #سرحدوں_سے_بالاتر #ملت #پسند #قابل_قبول #مقاومت #فکر #عقیدہ #مشرقی_ایشیا #مشترکہ_بات #طاقتور_محاذ #بہار #خوشبو
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
enqelab,
mahak,
imam,
imam
khamenei,
rahbar,
islam,
aftab,
islam
muhammadi,
shaytani
taqat,
maktab
ashura,
hayat,
muqavemat,
insan,
4:54
|
اسلام مکمل ضابطہ حیات | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
إن الدين عند الله الإسلام
دنیا پر حاکم طاغوتی طاقتیں اور اسلامی دنیا میں موجود ان سے مرعوب و امید باندھے...
إن الدين عند الله الإسلام
دنیا پر حاکم طاغوتی طاقتیں اور اسلامی دنیا میں موجود ان سے مرعوب و امید باندھے افراد اسلامی دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دین کا دائرہ کار محدود اور فقط لوگوں کی انفرادی زندگی تک محدود ہے، معاشرے سے اور اجتماعی مسائل سے دین کا کوئی تعلق نہیں ہے اس چیز کو ثابت کرنے کے لیے مختلف نظریات اور تھیوریز پیش کی جاتی رہی ہیں جبکہ کلام خدا قرآن مجید سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ دین مبین اسلام نہ فقط لوگوں کی انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اجتماعی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور عالمی مسائل کے بارے میں بھی واضح قوانین فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ایک ملک، ایک معاشرہ دنیاوی اور اخروی سعادت کی جانب گامزن ہو سکتا ہے اور دنیا کی شیطانی اور انسانیت دشمن طاقتوں کے ظلم و ستم، بے انصافی اور طبقاتی سرمایہ دارانہ نطام سے چھٹکارا پا سکتا ہے.
اس حوالے سے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #فعالیت_کا_دین #سماجی_مسائل #سیاسی_مسائل #عالمی_مسائل #دعا #نماز #عدل_و_انصاف #عملی_منصوبہ_بندی #واضح_حقیقت
More...
Description:
إن الدين عند الله الإسلام
دنیا پر حاکم طاغوتی طاقتیں اور اسلامی دنیا میں موجود ان سے مرعوب و امید باندھے افراد اسلامی دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دین کا دائرہ کار محدود اور فقط لوگوں کی انفرادی زندگی تک محدود ہے، معاشرے سے اور اجتماعی مسائل سے دین کا کوئی تعلق نہیں ہے اس چیز کو ثابت کرنے کے لیے مختلف نظریات اور تھیوریز پیش کی جاتی رہی ہیں جبکہ کلام خدا قرآن مجید سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ دین مبین اسلام نہ فقط لوگوں کی انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اجتماعی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور عالمی مسائل کے بارے میں بھی واضح قوانین فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ایک ملک، ایک معاشرہ دنیاوی اور اخروی سعادت کی جانب گامزن ہو سکتا ہے اور دنیا کی شیطانی اور انسانیت دشمن طاقتوں کے ظلم و ستم، بے انصافی اور طبقاتی سرمایہ دارانہ نطام سے چھٹکارا پا سکتا ہے.
اس حوالے سے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #فعالیت_کا_دین #سماجی_مسائل #سیاسی_مسائل #عالمی_مسائل #دعا #نماز #عدل_و_انصاف #عملی_منصوبہ_بندی #واضح_حقیقت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
faaliyat,
semaji,
masael,
syasi,
Aalami
masael,
dua,
namaz,
adl,
ensaf,
haqiqat,
shaytan,
dunya,
zindagi,
zolm,
imam
seyed
ali
khamenei,
imam,
koshesh,
bayanat,
eqtesadi,
dushman,
powerful,
qavanin,
quran,
majid,
quran
majid,
19:49
|
قصه قارون و منش قارون صفتان | Farsi
قارون را به زبان عبرى قورح گويد و او پسر عم حضرت موسى فرزند يصهر بن قاهث بن لاوى بن يعقوب بود و موسى فرزند قاهث...
قارون را به زبان عبرى قورح گويد و او پسر عم حضرت موسى فرزند يصهر بن قاهث بن لاوى بن يعقوب بود و موسى فرزند قاهث بن لاوى است و بنى اسرائيل او را منون لقب داده بودند زيرا قارون بصباحت منظر معروف و مشهور بود و در فضل و تقوى بعد از موسى و هرون كسى با او برابرى نمىنمود و پيوسته بعبادت مشغول و تورات را بخوبى و لحن خوشى تلاوت ميكرد و غالبا در محضر موسى كسب دانش و علوم غريبه مينمود تا دنيا باو اقبال كرد و ثروت بيكران و فوق العادهاى خداوند نصيب او فرمود بطوريكه حمل كليد گنجهايش بر دوش مردان زورمند مشكل و خسته كننده بود ثروت بىحساب او را مغرور و دچار نخوت كرده و روش جباران پيش گرفت و در صدد برآمد تا بنى اسرائيل را در تحت سلطه و اقتدار و اطاعت خود درآورد دستور داد تختى از زر ناب مرصع بانواع جواهرات برايش ساختند بروى آن مىنشست و بزرگان بنى اسرائيل را دعوت مينمود و در مجلس ميهمانى بمطايبه و ملاعبه روزگار خود را ميگذرانيد و روزهاى شنبه كه بنى اسرائيل تعطيل عمومى داشتند و دنبال كار نميرفتند قارون بر استر سفيدى كه زين و برگ آن مكلل بجواهر بود سوار شده و جامههاى ارغوانى مىپوشيد و دستور ميداد چهار هزار نفر از بستگان و غلامان و كنيزانش با بهترين البسه و زينت بر مركب سوار شده و با موكب مجلل و با تفاخر و غرور هر چه تمامتر از قصر خود خارج شده و در برابر ديدگان آرزومند قوم عبور مينمودند و مردم دنيا طلب را بخود مشغول مىساخت و همواره مكانت و جلالت او را آرزو كرده و مىگفتند ايكاش ما هم مانند آنچه قارون دارد ميداشتيم چه او بهره وافرى از مال و منال دنيا دارد مؤمنين بنى اسرائيل بقارون نصيحت كرده مىگفتند چنين تفاخر و تظاهر از خود نشان مده زيرا خداوند مردم مغرور و سرمست را دوست ندارد جهد و كوشش كن تا از ثروت خدادادى براى آخرت خود توشه اى بدست آورى بهره دنياى خود را در طاعت و عبادت پروردگار فراموش مكن همانطور كه خداوند بتو احسان و نيكى فرموده تو نيز بمردم احسان و نيكى بنما و در روى زمين فتنهانگيزى را شعار خود قرار نده همانا خداوند شخص فتنه جو و آشوب طلب را دوست نميدارد ابن بابويه ذيل آيه «وَ لا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيا» از امير المؤمنين عليه السّلام روايت كرده فرمود خداوند در اين آيه ميفرمايد از صحت و سلامتى و قدرت جوانى و فراغت خود حد اكثر استفاده را براى تحصيل فيوضات اخروى بنمائيد و فراموش نكنيد كه از اين زندگانى دنيا براى آخرت خود توشهاى فراهم سازيد كه بهشت جاى نيكوكاران و مردم صالح است.
قارون در پاسخ مؤمنين ميگفت ثروت و مال و منال خود را بدانش و تدبير خويشتن بدست آورده و در خور حكمت و دانش اوست و عقيده داشت كه حكمرانى بنى اسرائيل شايسته او بوده و ديگرى نبايد بر او سبقت جويد و مقام استحقاقى او را بدست بگيرد
More...
Description:
قارون را به زبان عبرى قورح گويد و او پسر عم حضرت موسى فرزند يصهر بن قاهث بن لاوى بن يعقوب بود و موسى فرزند قاهث بن لاوى است و بنى اسرائيل او را منون لقب داده بودند زيرا قارون بصباحت منظر معروف و مشهور بود و در فضل و تقوى بعد از موسى و هرون كسى با او برابرى نمىنمود و پيوسته بعبادت مشغول و تورات را بخوبى و لحن خوشى تلاوت ميكرد و غالبا در محضر موسى كسب دانش و علوم غريبه مينمود تا دنيا باو اقبال كرد و ثروت بيكران و فوق العادهاى خداوند نصيب او فرمود بطوريكه حمل كليد گنجهايش بر دوش مردان زورمند مشكل و خسته كننده بود ثروت بىحساب او را مغرور و دچار نخوت كرده و روش جباران پيش گرفت و در صدد برآمد تا بنى اسرائيل را در تحت سلطه و اقتدار و اطاعت خود درآورد دستور داد تختى از زر ناب مرصع بانواع جواهرات برايش ساختند بروى آن مىنشست و بزرگان بنى اسرائيل را دعوت مينمود و در مجلس ميهمانى بمطايبه و ملاعبه روزگار خود را ميگذرانيد و روزهاى شنبه كه بنى اسرائيل تعطيل عمومى داشتند و دنبال كار نميرفتند قارون بر استر سفيدى كه زين و برگ آن مكلل بجواهر بود سوار شده و جامههاى ارغوانى مىپوشيد و دستور ميداد چهار هزار نفر از بستگان و غلامان و كنيزانش با بهترين البسه و زينت بر مركب سوار شده و با موكب مجلل و با تفاخر و غرور هر چه تمامتر از قصر خود خارج شده و در برابر ديدگان آرزومند قوم عبور مينمودند و مردم دنيا طلب را بخود مشغول مىساخت و همواره مكانت و جلالت او را آرزو كرده و مىگفتند ايكاش ما هم مانند آنچه قارون دارد ميداشتيم چه او بهره وافرى از مال و منال دنيا دارد مؤمنين بنى اسرائيل بقارون نصيحت كرده مىگفتند چنين تفاخر و تظاهر از خود نشان مده زيرا خداوند مردم مغرور و سرمست را دوست ندارد جهد و كوشش كن تا از ثروت خدادادى براى آخرت خود توشه اى بدست آورى بهره دنياى خود را در طاعت و عبادت پروردگار فراموش مكن همانطور كه خداوند بتو احسان و نيكى فرموده تو نيز بمردم احسان و نيكى بنما و در روى زمين فتنهانگيزى را شعار خود قرار نده همانا خداوند شخص فتنه جو و آشوب طلب را دوست نميدارد ابن بابويه ذيل آيه «وَ لا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيا» از امير المؤمنين عليه السّلام روايت كرده فرمود خداوند در اين آيه ميفرمايد از صحت و سلامتى و قدرت جوانى و فراغت خود حد اكثر استفاده را براى تحصيل فيوضات اخروى بنمائيد و فراموش نكنيد كه از اين زندگانى دنيا براى آخرت خود توشهاى فراهم سازيد كه بهشت جاى نيكوكاران و مردم صالح است.
قارون در پاسخ مؤمنين ميگفت ثروت و مال و منال خود را بدانش و تدبير خويشتن بدست آورده و در خور حكمت و دانش اوست و عقيده داشت كه حكمرانى بنى اسرائيل شايسته او بوده و ديگرى نبايد بر او سبقت جويد و مقام استحقاقى او را بدست بگيرد
2:30
|
امریکہ آہستہ آہستہ پگھل (کر ختم ہو) رہا ہے! امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
دنیا کے بہت سے نامور سیاست دانوں اور سماجیات کے ماہرین کے تجزئے کے مطابق امریکی اقتدار آئے دن انحطاط اور زوال...
دنیا کے بہت سے نامور سیاست دانوں اور سماجیات کے ماہرین کے تجزئے کے مطابق امریکی اقتدار آئے دن انحطاط اور زوال کا شکار ہوتا جارہا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے امریکی اثر و رسوخ کم سے کمتر ہوتا جارہا ہے اور سیاسی اور عسکری لحاظ سے دنیا میں اسکی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ افغانسان میں مسلسل 20 سال تک جرائم کے ارتکاب کے بعد طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست، عراق سے بڑی خفت کے ساتھ فوجی انخلاء، سوریا اور لبنان میں عسکری اور سیاسی شکست کے علاوہ بہت سی نشانیاں ایسی ہیں جو امریکہ کے زوال کو آشکار کرتی جارہی ہیں اور دنیا میں اپنے کو سپر پاور کہلانے والے ملک کے زوال کا پتہ دے رہی ہیں۔
سیاسی مبصریں کی نظر میں امریکی زوال کی نشانیاں کونسی ہیں؟ افغانستان میں امریکیوں کو کس طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑا؟ سیاسی سطح پر حال ہی میں لبنان میں امریکہ کو کس طرح کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا؟ اور سب سے بڑھ کر خود امریکہ کے اندر امریکہ کے زوال کی سب سے بڑی نشانی کیا ہے؟
انہی تمام سوالات کے جوابات سے آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ی کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور ملاحاظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امریکہ #اقتدار #زوال #افغانستان #عراق #حملہ #طالبان #سیاسی_مبصرین #شکست #لبنان #حزب_اللہ # #ٹرمپ #نشانیاں
More...
Description:
دنیا کے بہت سے نامور سیاست دانوں اور سماجیات کے ماہرین کے تجزئے کے مطابق امریکی اقتدار آئے دن انحطاط اور زوال کا شکار ہوتا جارہا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے امریکی اثر و رسوخ کم سے کمتر ہوتا جارہا ہے اور سیاسی اور عسکری لحاظ سے دنیا میں اسکی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ افغانسان میں مسلسل 20 سال تک جرائم کے ارتکاب کے بعد طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست، عراق سے بڑی خفت کے ساتھ فوجی انخلاء، سوریا اور لبنان میں عسکری اور سیاسی شکست کے علاوہ بہت سی نشانیاں ایسی ہیں جو امریکہ کے زوال کو آشکار کرتی جارہی ہیں اور دنیا میں اپنے کو سپر پاور کہلانے والے ملک کے زوال کا پتہ دے رہی ہیں۔
سیاسی مبصریں کی نظر میں امریکی زوال کی نشانیاں کونسی ہیں؟ افغانستان میں امریکیوں کو کس طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑا؟ سیاسی سطح پر حال ہی میں لبنان میں امریکہ کو کس طرح کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا؟ اور سب سے بڑھ کر خود امریکہ کے اندر امریکہ کے زوال کی سب سے بڑی نشانی کیا ہے؟
انہی تمام سوالات کے جوابات سے آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ی کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور ملاحاظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امریکہ #اقتدار #زوال #افغانستان #عراق #حملہ #طالبان #سیاسی_مبصرین #شکست #لبنان #حزب_اللہ # #ٹرمپ #نشانیاں
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khamenei,
eqtedar,
wali
amr
muslimeen,
muslim,
islam,
shekast,
trump,
siasi
mobserin,
afghanistan,
america,
lebenon,
neshan,
0:58
|
امریکی زوال کی ایک نشانی | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ عالمی استکبار امریکہ کا زوال شروع ہو چکا ہے اور امریکہ بتدریج زوال کی جانب گامزن ہے اور دنیا...
اس میں شک نہیں کہ عالمی استکبار امریکہ کا زوال شروع ہو چکا ہے اور امریکہ بتدریج زوال کی جانب گامزن ہے اور دنیا بھر میں امریکہ کی سیاسی، معاشی اور فوجی حیثیت ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس وقت امریکہ کو داخلی اور بیرونی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور اسے دنیا بھر میں تنہائی کا سامنا ہے اور اسکی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔
وہ کونسی نشانیاں ہیں جو امریکہ کے زوال کا پتہ دیتی ہیں؟ ان نشانیوں کو جاننے کے لیے آئیں دیکھتے ہیں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو جس میں امریکہ کے زوال اور انحطاط کی نشانیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امریکہ #زوال #نشانی #صدر #اقتدار #ٹرمپ #پاگل #دنیا #دلیل #حکومت
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ عالمی استکبار امریکہ کا زوال شروع ہو چکا ہے اور امریکہ بتدریج زوال کی جانب گامزن ہے اور دنیا بھر میں امریکہ کی سیاسی، معاشی اور فوجی حیثیت ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس وقت امریکہ کو داخلی اور بیرونی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور اسے دنیا بھر میں تنہائی کا سامنا ہے اور اسکی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔
وہ کونسی نشانیاں ہیں جو امریکہ کے زوال کا پتہ دیتی ہیں؟ ان نشانیوں کو جاننے کے لیے آئیں دیکھتے ہیں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کو جس میں امریکہ کے زوال اور انحطاط کی نشانیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امریکہ #زوال #نشانی #صدر #اقتدار #ٹرمپ #پاگل #دنیا #دلیل #حکومت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
America,
Imam,
Imam
Khamenei,
zaval,
Estekbar,
Siyasat,
Mashreq,
Sadr,
Eqtedar,
Trump,
Hukumat,
1:37
|
فلسطینی ہیرو | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
آج دنیا اسلام کا عالمی مسئلہ کون سا ہے؟ آج دنیا کی نگاہ میں کون ہیرو ہے؟ کس نے دنیا کی نگاہ کو بدل کر رکھ دیا...
آج دنیا اسلام کا عالمی مسئلہ کون سا ہے؟ آج دنیا کی نگاہ میں کون ہیرو ہے؟ کس نے دنیا کی نگاہ کو بدل کر رکھ دیا ہے؟ آج دنیا میں پیدا ہونے والا نیا نقطہ نظر کون سا ہے؟
ان موضوعات کو سمجھنے کےلیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی یہ ویڈیو دیکھیں.
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #فلسطین_غزہ #مظلوم #مقتدر #فلسطینی_ہیرو #کربلا #عالم_اسلام
More...
Description:
آج دنیا اسلام کا عالمی مسئلہ کون سا ہے؟ آج دنیا کی نگاہ میں کون ہیرو ہے؟ کس نے دنیا کی نگاہ کو بدل کر رکھ دیا ہے؟ آج دنیا میں پیدا ہونے والا نیا نقطہ نظر کون سا ہے؟
ان موضوعات کو سمجھنے کےلیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی یہ ویڈیو دیکھیں.
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #فلسطین_غزہ #مظلوم #مقتدر #فلسطینی_ہیرو #کربلا #عالم_اسلام
اقشار نمونه بسیج سراسر كشور Vali Amr Muslimeen speech to Basij - Farsi
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و...
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين سيّما بقيّةالله فى الأرضين.
خداوند متعال را سپاسگزارم براى توفيق حضور در اين ديدار باشكوه و بسيار خوب. از برادران و خواهرانى كه در اطراف ميدان ايستادهاند، خواهش ميكنم بنشينند تا بتوانيم بحث كنيم.
امروز مقارن با اول محرم است. تناسبى هست ميان هويت و حقيقت بسيج با هويت محرم و عاشورا. بسيج افتخار دارد كه پيرو مكتب عاشوراست. البته عاشورا اوج فداكارى و ايثار است. همهى تاريخ، همهى عالم، مسئلهى عاشورا و حسينبنعلى (عليهالسّلام) و اصحاب وفادار او را با اين خصوصيت شناختهاند؛ فداكارى، ايثار در راه خدا و در راه تحقق اهداف الهى؛ ليكن مسئلهى عاشورا فقط اين نيست. بله، برجستهترين و نمايانترين خصوصيت عاشورا، همين فداكارى و شهادت است؛ ولى در ماجراى عاشورا حقايق ديگرى هم وجود دارد. از آغاز حركت از مدينه، بذر معرفت پاشيده شد - اين يكى از خصوصيات حادثهى عاشوراست - بذر بصيرت پاشيده شد. اگر مردمى، امتى از بصيرت برخوردار نباشند، حقايق گوناگون، كار آنها را اصلاح نخواهد كرد؛ گره از مشكلات آنها گشوده نخواهد شد. بنابراين اخلاص، موقعشناسى، پاشيدن بذر يك حركت فزايندهى تاريخى، از خصوصيات مهم عاشوراست. ماجرا فقط در ظهر عاشورا تمام نشد؛ در واقع از ظهر عاشورا يك جريانى در تاريخ شروع شد، كه همچنان رو به افزايش و گسترش است. بعد از اين هم همين خواهد بود. امام حسين (عليهالسّلام) براى اعلاى كلمهى حق و براى نجات خلق، همهى داشتههاى خود را به ميدان آورد. اين برخى از خصوصياتى است كه انسان به طور كلى در ماجراى عاشورا ميتواند ببيند و نشان بدهد.
بسيج، همين راه است؛ همين حركت است؛ همين هدفهاست؛ همين ابزارها و وسيلههاست. بسيج، جمع فداكارى از مردمند، براى مردم؛ تشكيل يك مجموعهاى در حركت عظيم يك ملت مجاهد. حضور در دفاع، حضور در علم، حضور در هنر، حضور در سازندگى، حضور در سياست، در فرهنگ، در كمك به مستضعفان، در كمك به درماندگان، در توليد، در فناورى، در پيشبرد مسائل گوناگون كشور، در ورزش، در درخششهاى بينالمللى، در هر كار خير؛ اين حركت بسيج است؛ حركتى مردمى، براى مردم، در دل مردم، از خود مردم، از همهى قشرها، زنان، مردان، جوانان، پيران، نوجوانان، از اصناف گوناگون؛ يعنى تشكيل يك مجموعهى حزبالله واقعى.
بسيج سياسى است، اما سياستزده نيست، سياسىكار نيست، جناحى نيست؛ بسيج مجاهد است، اما بىانضباط نيست، افراطى نيست؛ بسيج عميقاً متدين و متعبد است، اما متحجر نيست، خرافى نيست؛ بسيج بابصيرت است، اما ازخودراضى نيست؛ بسيج اهل جذب است - گفتهايم جذب حداكثرى - اما اهل تسامح در اصول نيست؛ بسيج غيور است، پاسدار خطوط فاصل است؛ بسيج طرفدار علم است، اما علمزده نيست؛ بسيج متخلق به اخلاق اسلامى است، اما رياكار نيست؛ بسيج در كار آبادكردن دنياست، اما خود اهل دنيا نيست. اين شد يك فرهنگ.
فرهنگ بسيجى يعنى آن مجموعهى معرفتها و روشها و منشهائى كه ميتواند مجموعههاى عظيمى را در ملت به وجود بياورد كه تضمينكنندهى حركت مستقيم و پايدار اسلامى آن ملت باشند. اين يك تفكر است؛ در ذهن هم نيست، در خارج و در عينيت وجود دارد. حركت بسيجى، سرنوشت ايران را، بلكه سرنوشت فراتر از ايران را تغيير داد، تعيين كرد. از روز اول، بسيجيان امام ما در ميدانهاى گوناگون انقلاب تا پيروزى انقلاب و تا پس از انقلاب حركتى كردند كه ماندگار شد، الگو شد، يادگار ملت ايران در عرصهى تاريخ شد. امروز جوانان نيويورك و كاليفرنيا هم شعارهاى مردم مصر و تونس را تكرار ميكنند، از آنها الهام ميگيرند؛ انكار هم نميكنند. جوانان مصر و تونس هم از حزبالله و حماس و جهاد اسلامى الهام گرفتهاند و فرا گرفتهاند و پنهان نكردند. و معلم اول در عصر جديد، بسيجىِ امام بزرگوار ما بود؛ كه همه از بسيجىِ امام بزرگوار فراگرفتند و از جانبازان و سربازان و فداكاران اين انقلاب ياد گرفتند كه چگونه ميتوان اسطورههاى قدرت مادى را شكست، چگونه ميتوان به نام خدا بتها را شكست، چگونه ميتوان ايستاد، چگونه ميتوان مقاومت كرد.
اينها حقايقى است كه امروز وجود بسيج، عينيت بسيج، حركت بسيج، هدفهاى بسيج، ما را به اين حقايق آشنا ميكند. انقلاب اسلامى و ملت انقلابى با يك چنين فرهنگى، با يك چنين آموزههائى، با يك چنين روحيهاى، توانست بسيارى از ناممكنها را ممكن كند، محقق كند؛ و اين حركت ادامه خواهد داشت. دشمنىِ دشمنان نميتواند تأثيرى بگذارد. البته دشمن، دشمنى ميكند - در اين ترديدى نبايد داشت، انتظارى هم جز اين از دشمن نبايد داشت - منتها ما وقتى حركت عظيم ملت ايران را از آغاز اين انقلاب، اين حركت، اين نهضت عمومى تا امروز مشاهده ميكنيم، مىبينيم يك خط سير مشخصى دارد. ملت ايران به سمت پيش حركت ميكند، به سمت اوج حركت ميكند، در ميدانهاى گوناگون بر چالشهاى گوناگون غلبه پيدا ميكند؛ و دشمنان در همين مقابله و مواجهه عقبنشينى ميكنند، كوتاه مىآيند؛ ناچارند. با اين حركت، سرنوشت ملت ايران، پيروزىِ قطعى است.
امروز در سرتاسر منطقهى اسلامى و منطقهى عربى، حركتهاى اسلامى و جوششهاى اسلامى مشاهده ميشود؛ اين همان چيزى است كه سى سال كسانى كه با حقيقت انقلاب آشنا بودند، انتظارش را داشتند و دشمنان انقلاب سى سال از تصور چنين چيزى به خود ميلرزيدند؛ واهمه و وحشت حوادثى را داشتند كه امروز اتفاق افتاده است. طراحان توطئههاى عليه انقلاب اسلامى پيشبينى ميكردند كه يك چنين حوادثى پيش خواهد آمد؛ و پيش آمد، و اين پيش خواهد رفت و متوقف نخواهد شد.
امروز ملتهاى مسلمان در منطقهى عربى سر بلند كردهاند، آگاه شدهاند، بيدار شدهاند. دشمنان نميتوانند آنها را سركوب كنند و نميتوانند راه را منحرف كنند. حركت به جريان افتاده است و وضع دنيا را تحت تأثير قرار داده است. همين حركتهائى كه امروز شما در دنياى غرب، در آمريكا و در اروپا مشاهده ميكنيد، نشان دهندهى تغييرات عظيمى است كه آيندهى دنيا شاهد اين تغييرات خواهد بود.
ما از عكسالعمل دشمنان تعجب نميكنيم؛ از تهديدهائى كه ميشود، از تحريمى كه ميكنند، از آنچه كه كشورهاى استكبارى در اين دوره در مواجههى با نظام جمهورى اسلامى انجام ميدهند، تعجب نميكنيم. آنها ميدانند كه كانون اين حركت، جمهورى اسلامى بود و ايستادگى ملت ايران است كه توانسته است اين روحيه را در منطقه بگستراند كه ميشود در مقابل هيمنهى استكبار ايستاد. استكبار پيشرفت كار خودش را همواره از راه مرعوب كردنها - ملتها را مرعوب ميكردند، سران كشورها را مرعوب ميكردند - پيش برده است. وقتى اين پردهى رعب بشكند، وقتى ملتها بدانند كه اين هيمنه، هيمنهى حقيقى و واقعى نيست و صورى و ظاهرى است، اين سلاح از دست استكبار گرفته خواهد شد. و امروز اينجور شده است. لذا خشمگينند، عصبانىاند، روى جمهورى اسلامى فشار وارد ميكنند.
البته اين كه جمهورى اسلامى را متهم كنند كه اين حركات را راه انداخته، غلط است؛ اين يك تهمت بيجا و بيموردى است؛ احتياجى به اين كار نيست. نظام اسلامى با بقاء خود، با ايستادگى خود، با صدق خود در اين راه - كه ملت ايران نشان داد در اين راه صادق است - الهامبخش بوده است و اين الهامبخشى وجود دارد. ملتها بيدار شدهاند و راه خود را پيدا كردهاند. دشمنان هم دشمنى ميكنند. البته اين دشمنىها چالشهائى را ايجاد ميكند. ملت ايران به مواجههى با اين چالشها عادت كرده است و ما انشاءالله بر همهى چالشهائى كه دشمنان به وجود مىآورند، غلبه خواهيم كرد و پيروز خواهيم شد و خداى متعال براى ملت ايران و در نهايت براى امت اسلامى و استقرار حقايق نورانى اسلام در عالم، اين پيروزى را مقدر فرموده است.
اميدواريم خداوند متعال توفيق تداوم در اين راه را به همهى ملت عزيز ما، به جوانان عزيز بسيجى ما، به همهى جوانان اين كشور و به مسئولان مرحمت كند. همه بدانند كه در اين زمينهها مسئولند؛ هم مسئولان كشور، هم قشرهاى گوناگون. مردم در ميدان حاضرند. آمادگى مردم در قضاياى گوناگون، آمادگى كامل است. مسئولان هم بايد قدر اين ملت را و اين آمادگى را بدانند و وظائف خود را، كارهائى را كه بر دوش آنهاست، به بهترين وجهى در قواى سهگانه انجام بدهند و ملت با انسجام پيش برود.
اين حركتهاى اسلامى در اطراف دنياى اسلام هم بلاشك حركتهاى ماندگارى است، حركتهاى پيشروندهاى است. ملتها يكى پس از ديگرى بيدار ميشوند. دستنشاندگان استكبار، يكى پس از ديگرى از عرصه و صحنه خارج خواهند شد و انشاءالله روزبهروز شوكت اسلام و اقتدار اسلام بيشتر خواهد شد.
پروردگارا! ما را لايق اين نعمتهاى بزرگ قرار بده؛ ما را شاكر اين نعمتهاى بزرگ قرار بده. پروردگارا! دلهاى ما را به نور محبت و معرفتِ خودت و اوليائت منور بگردان؛ دعاى بقيّةالله (ارواحنا فداه) را شامل حال ما بفرما.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Supreme Leader’s Speech to Basijis
28/11/2011
The following is the full text of the speech delivered on November 28, 2011 by Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution to a group of basijis from different parts of the country.
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful
All praise is due to Allah, the Lord of the Worlds, and peace and greetings upon our Master, Muhammad, and upon his immaculate household, especially the one remaining with Allah on earth.
I am grateful to Allah the Exalted who gave me the opportunity to attend this glorious and excellent meeting. I would like to ask the brothers and sisters who are standing around the square to sit down so that we can have a discussion.
Today has coincided with the first day of the month of Muharram. The identity and nature of Basij are in harmony with the identity of Muharram and Ashura. Basij is proud of being a follower of the school of Ashura. Of course Ashura is the peak of self-sacrifice. The issue of Ashura and what happened to Hussein ibn Ali (a.s.) and his loyal companions have been identified in the entire history and the entire world with self-sacrifice and selfless efforts in the way of God and for a divine cause. But the issue of Ashura is not limited to this. Yes, self-sacrifice and martyrdom are the most prominent and significant aspect of Ashura, but there are also other truths in Ashura. From the beginning of the movement in Medina, the seeds of knowledge and insight were sowed: this is one of the characteristics of the event that happened on Ashura. If a people lack insight, different things will not help them improve their conditions and solve their problems. Therefore, purity, identifying the opportunities, sowing the seeds of a growing historical movement - these are among the important characteristics of Ashura. The event did not end on the noon of Ashura. In fact a movement started in history from the noon of Ashura, a movement whose scope is still widening and expanding and it will continue expanding in the future as well. Imam Hussein (a.s.) brought whatever he had into the arena in order to promote the word of God and save mankind. These are some of the characteristics that one can identify in the event that happened on Ashura.
Basij is following the same path. It is continuing the same movement. It is pursuing the same goals. It is using the same tools and means. Basij is from among the people and it was established for the sake of the people. It was established in order to further the great movement of a mujahid nation. Basij is present in defense, science, art, construction of the country, politics, culture, helping oppressed and helpless people, production, technology, furthering different affairs of the country, sports, international arenas and all righteous actions. This is the movement of Basij: a popular movement for the people, in the hearts of the people, from among the people, from among different social classes, from among women and men - young and old - from different professions. That is to say, an organization was established which was hezbollahi in the real sense of the word.
Basij is political in nature, but it is not intoxicated by political and partisan activities. Basij is a mujahid organization, but it is not without discipline. It is not radical. Basij is deeply pious and religious, but it is not rigid and superstitious. Basij is insightful, but it is not self-centered. Basij is inclusive - and I have recommended maximum inclusion - but it will not compromise principles. Basij is brave. It is the guardian of principles. Basij is a supporter of science, but it is not intoxicated with science. Basij enjoys Islamic characteristics and it is not hypocritical. Basij is involved in improving the world, but it does not have materialistic tendencies. And this is a culture.
The basiji culture includes the knowledge, methods and behaviors which can give rise to great things that guarantee the permanent Islamic movement of a nation on a straight path. This is a school of thought and it is not just an abstract concept: it has a manifestation in the real world. The movement of Basij changed the destiny of Iran and it even went beyond changing the destiny of Iran. From the first day, basijis continued their activities in different revolutionary arenas before and after the Revolution and their movement became permanent. It became a model. It went down in history in the name of the Iranian nation. Today the youth of New York and California are repeating the slogans of the people of Egypt and Tunisia. They are inspired by these nations and they do not deny this. And the youth of Egypt and Tunisia were inspired by Hezbollah, Hamas and Islamic Jihad and they did not hide this. Basijis who were deployed by our magnanimous Imam (r.a.) started this inspiration in the modern world. Everybody learnt how to defeat the icons of materialistic power from our Imam\'s basijis and from our disabled war veterans, soldiers and selfless people. They learnt how to break idols in the name of God. They leant how to stand firm and how to resist.
Today the existence, movement and goals of Basij make us familiar with these truths. By relying on this culture, these teachings and this spirit, the Islamic Revolution and the revolutionary Iranian nation managed to accomplish many things which were considered impossible and this movement will continue. The hostility of the enemies cannot affect this. Of course the enemy will continue its hostility. We must not have any doubts in this regard. In fact an enemy should not be expected to behave otherwise. However, when we consider the great movement of the Iranian nation from the beginning of the Revolution to the present day, we see that there is a clear path. The Iranian nation is moving forward. It is moving towards the peak. It continues overcoming different challenges in different arenas and the enemies are forced to back down in this confrontation. With this movement, the Iranian nation will definitely achieve victory.
Today Islamic movements and uprisings are being witnessed throughout Islamic and Arab regions. This is exactly what has been expected since thirty years ago by those who were familiar with the nature of the Revolution. And in anticipation of such a thing, the enemies of the Revolution were trembling with fear for thirty years. They lived in fear of the events that have already happened today. Those who were hatching plots against the Islamic Revolution predicted such events and they happened. These events will continue and they will not stop.
Today Muslim people have risen up in the Arab region. They have become aware. They have awakened. The enemies cannot suppress them. They cannot change their path. The movement has already started and it has affected the conditions of the world. The movements that you see today in the western world - in America and in Europe - are indicative of great changes that the world will witness in the future.
We are not surprised by the response of the enemies. We are not surprised by the threats they make, the sanctions they impose and what the arrogant countries have been doing against the Islamic Republic during this time. They know that the Islamic Republic was the source of this movement. They know that it is the resistance of the Iranian nation that has managed to promote the idea in the region that it is possible to stand up against the power of the arrogant powers. The arrogant powers have always resolved their problems through intimidation. They intimidate nations and their leaders. When this technique is revealed and when nations realize that the power of the arrogant countries is superficial and not genuine, the arrogant powers will lose this weapon. And this is what has happened today. Therefore, they are angry and they pressure the Islamic Republic.
Of course they wrongly accuse the Islamic Republic of having started these movements. This is a baseless accusation. There is no need for such actions. The Islamic Republic has been inspirational because of its permanence, resistance and sincerity on this path - and the Iranian nation proved that it is sincere on this path. This inspiration is still there. Nations have awakened and they have found their path. And the enemies are continuing their hostility. Of course these hostilities create certain challenges. The Iranian nation is used to confronting such challenges. By Allah\'s favor, we will overcome all the challenges that the enemies create and we will achieve victory. Allah the Exalted has pre-ordained the establishment of brilliant Islamic truths in the world and He has also pre-ordained victory for the Iranian nation and ultimately for the Islamic Ummah.
I hope Allah the Exalted will bless all our people, our basijis and all our youth and government officials with the opportunity to continue this path. Everybody should know that they are responsible in these areas. All our government officials and people should know this. The people are present in the arena. The people are completely prepared in different areas and our government officials should appreciate our people and their preparedness. Our government officials should carry out their responsibilities in the three branches of government in the best possible way so that our nation can move forward in a coherent way.
Undoubtedly these Islamic movements around the world of Islam are permanent and progressive movements. Nations are awakening one after the other. The puppets of the arrogant powers will leave the scene one after the other and by Allah\'s favor, the power and glory of Islam will increase on a daily basis.
Dear God, help us be worthy of these great blessings. Make us be thankful for these great blessings. Dear God, enlighten our hearts with the light of Your love and knowledge and with the love and knowledge of your saints. Make us benefit from the prayers of the Imam of the Age (may our souls be sacrificed for his sake).
Greetings be upon you and Allah\'s mercy and blessings
More...
Description:
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين سيّما بقيّةالله فى الأرضين.
خداوند متعال را سپاسگزارم براى توفيق حضور در اين ديدار باشكوه و بسيار خوب. از برادران و خواهرانى كه در اطراف ميدان ايستادهاند، خواهش ميكنم بنشينند تا بتوانيم بحث كنيم.
امروز مقارن با اول محرم است. تناسبى هست ميان هويت و حقيقت بسيج با هويت محرم و عاشورا. بسيج افتخار دارد كه پيرو مكتب عاشوراست. البته عاشورا اوج فداكارى و ايثار است. همهى تاريخ، همهى عالم، مسئلهى عاشورا و حسينبنعلى (عليهالسّلام) و اصحاب وفادار او را با اين خصوصيت شناختهاند؛ فداكارى، ايثار در راه خدا و در راه تحقق اهداف الهى؛ ليكن مسئلهى عاشورا فقط اين نيست. بله، برجستهترين و نمايانترين خصوصيت عاشورا، همين فداكارى و شهادت است؛ ولى در ماجراى عاشورا حقايق ديگرى هم وجود دارد. از آغاز حركت از مدينه، بذر معرفت پاشيده شد - اين يكى از خصوصيات حادثهى عاشوراست - بذر بصيرت پاشيده شد. اگر مردمى، امتى از بصيرت برخوردار نباشند، حقايق گوناگون، كار آنها را اصلاح نخواهد كرد؛ گره از مشكلات آنها گشوده نخواهد شد. بنابراين اخلاص، موقعشناسى، پاشيدن بذر يك حركت فزايندهى تاريخى، از خصوصيات مهم عاشوراست. ماجرا فقط در ظهر عاشورا تمام نشد؛ در واقع از ظهر عاشورا يك جريانى در تاريخ شروع شد، كه همچنان رو به افزايش و گسترش است. بعد از اين هم همين خواهد بود. امام حسين (عليهالسّلام) براى اعلاى كلمهى حق و براى نجات خلق، همهى داشتههاى خود را به ميدان آورد. اين برخى از خصوصياتى است كه انسان به طور كلى در ماجراى عاشورا ميتواند ببيند و نشان بدهد.
بسيج، همين راه است؛ همين حركت است؛ همين هدفهاست؛ همين ابزارها و وسيلههاست. بسيج، جمع فداكارى از مردمند، براى مردم؛ تشكيل يك مجموعهاى در حركت عظيم يك ملت مجاهد. حضور در دفاع، حضور در علم، حضور در هنر، حضور در سازندگى، حضور در سياست، در فرهنگ، در كمك به مستضعفان، در كمك به درماندگان، در توليد، در فناورى، در پيشبرد مسائل گوناگون كشور، در ورزش، در درخششهاى بينالمللى، در هر كار خير؛ اين حركت بسيج است؛ حركتى مردمى، براى مردم، در دل مردم، از خود مردم، از همهى قشرها، زنان، مردان، جوانان، پيران، نوجوانان، از اصناف گوناگون؛ يعنى تشكيل يك مجموعهى حزبالله واقعى.
بسيج سياسى است، اما سياستزده نيست، سياسىكار نيست، جناحى نيست؛ بسيج مجاهد است، اما بىانضباط نيست، افراطى نيست؛ بسيج عميقاً متدين و متعبد است، اما متحجر نيست، خرافى نيست؛ بسيج بابصيرت است، اما ازخودراضى نيست؛ بسيج اهل جذب است - گفتهايم جذب حداكثرى - اما اهل تسامح در اصول نيست؛ بسيج غيور است، پاسدار خطوط فاصل است؛ بسيج طرفدار علم است، اما علمزده نيست؛ بسيج متخلق به اخلاق اسلامى است، اما رياكار نيست؛ بسيج در كار آبادكردن دنياست، اما خود اهل دنيا نيست. اين شد يك فرهنگ.
فرهنگ بسيجى يعنى آن مجموعهى معرفتها و روشها و منشهائى كه ميتواند مجموعههاى عظيمى را در ملت به وجود بياورد كه تضمينكنندهى حركت مستقيم و پايدار اسلامى آن ملت باشند. اين يك تفكر است؛ در ذهن هم نيست، در خارج و در عينيت وجود دارد. حركت بسيجى، سرنوشت ايران را، بلكه سرنوشت فراتر از ايران را تغيير داد، تعيين كرد. از روز اول، بسيجيان امام ما در ميدانهاى گوناگون انقلاب تا پيروزى انقلاب و تا پس از انقلاب حركتى كردند كه ماندگار شد، الگو شد، يادگار ملت ايران در عرصهى تاريخ شد. امروز جوانان نيويورك و كاليفرنيا هم شعارهاى مردم مصر و تونس را تكرار ميكنند، از آنها الهام ميگيرند؛ انكار هم نميكنند. جوانان مصر و تونس هم از حزبالله و حماس و جهاد اسلامى الهام گرفتهاند و فرا گرفتهاند و پنهان نكردند. و معلم اول در عصر جديد، بسيجىِ امام بزرگوار ما بود؛ كه همه از بسيجىِ امام بزرگوار فراگرفتند و از جانبازان و سربازان و فداكاران اين انقلاب ياد گرفتند كه چگونه ميتوان اسطورههاى قدرت مادى را شكست، چگونه ميتوان به نام خدا بتها را شكست، چگونه ميتوان ايستاد، چگونه ميتوان مقاومت كرد.
اينها حقايقى است كه امروز وجود بسيج، عينيت بسيج، حركت بسيج، هدفهاى بسيج، ما را به اين حقايق آشنا ميكند. انقلاب اسلامى و ملت انقلابى با يك چنين فرهنگى، با يك چنين آموزههائى، با يك چنين روحيهاى، توانست بسيارى از ناممكنها را ممكن كند، محقق كند؛ و اين حركت ادامه خواهد داشت. دشمنىِ دشمنان نميتواند تأثيرى بگذارد. البته دشمن، دشمنى ميكند - در اين ترديدى نبايد داشت، انتظارى هم جز اين از دشمن نبايد داشت - منتها ما وقتى حركت عظيم ملت ايران را از آغاز اين انقلاب، اين حركت، اين نهضت عمومى تا امروز مشاهده ميكنيم، مىبينيم يك خط سير مشخصى دارد. ملت ايران به سمت پيش حركت ميكند، به سمت اوج حركت ميكند، در ميدانهاى گوناگون بر چالشهاى گوناگون غلبه پيدا ميكند؛ و دشمنان در همين مقابله و مواجهه عقبنشينى ميكنند، كوتاه مىآيند؛ ناچارند. با اين حركت، سرنوشت ملت ايران، پيروزىِ قطعى است.
امروز در سرتاسر منطقهى اسلامى و منطقهى عربى، حركتهاى اسلامى و جوششهاى اسلامى مشاهده ميشود؛ اين همان چيزى است كه سى سال كسانى كه با حقيقت انقلاب آشنا بودند، انتظارش را داشتند و دشمنان انقلاب سى سال از تصور چنين چيزى به خود ميلرزيدند؛ واهمه و وحشت حوادثى را داشتند كه امروز اتفاق افتاده است. طراحان توطئههاى عليه انقلاب اسلامى پيشبينى ميكردند كه يك چنين حوادثى پيش خواهد آمد؛ و پيش آمد، و اين پيش خواهد رفت و متوقف نخواهد شد.
امروز ملتهاى مسلمان در منطقهى عربى سر بلند كردهاند، آگاه شدهاند، بيدار شدهاند. دشمنان نميتوانند آنها را سركوب كنند و نميتوانند راه را منحرف كنند. حركت به جريان افتاده است و وضع دنيا را تحت تأثير قرار داده است. همين حركتهائى كه امروز شما در دنياى غرب، در آمريكا و در اروپا مشاهده ميكنيد، نشان دهندهى تغييرات عظيمى است كه آيندهى دنيا شاهد اين تغييرات خواهد بود.
ما از عكسالعمل دشمنان تعجب نميكنيم؛ از تهديدهائى كه ميشود، از تحريمى كه ميكنند، از آنچه كه كشورهاى استكبارى در اين دوره در مواجههى با نظام جمهورى اسلامى انجام ميدهند، تعجب نميكنيم. آنها ميدانند كه كانون اين حركت، جمهورى اسلامى بود و ايستادگى ملت ايران است كه توانسته است اين روحيه را در منطقه بگستراند كه ميشود در مقابل هيمنهى استكبار ايستاد. استكبار پيشرفت كار خودش را همواره از راه مرعوب كردنها - ملتها را مرعوب ميكردند، سران كشورها را مرعوب ميكردند - پيش برده است. وقتى اين پردهى رعب بشكند، وقتى ملتها بدانند كه اين هيمنه، هيمنهى حقيقى و واقعى نيست و صورى و ظاهرى است، اين سلاح از دست استكبار گرفته خواهد شد. و امروز اينجور شده است. لذا خشمگينند، عصبانىاند، روى جمهورى اسلامى فشار وارد ميكنند.
البته اين كه جمهورى اسلامى را متهم كنند كه اين حركات را راه انداخته، غلط است؛ اين يك تهمت بيجا و بيموردى است؛ احتياجى به اين كار نيست. نظام اسلامى با بقاء خود، با ايستادگى خود، با صدق خود در اين راه - كه ملت ايران نشان داد در اين راه صادق است - الهامبخش بوده است و اين الهامبخشى وجود دارد. ملتها بيدار شدهاند و راه خود را پيدا كردهاند. دشمنان هم دشمنى ميكنند. البته اين دشمنىها چالشهائى را ايجاد ميكند. ملت ايران به مواجههى با اين چالشها عادت كرده است و ما انشاءالله بر همهى چالشهائى كه دشمنان به وجود مىآورند، غلبه خواهيم كرد و پيروز خواهيم شد و خداى متعال براى ملت ايران و در نهايت براى امت اسلامى و استقرار حقايق نورانى اسلام در عالم، اين پيروزى را مقدر فرموده است.
اميدواريم خداوند متعال توفيق تداوم در اين راه را به همهى ملت عزيز ما، به جوانان عزيز بسيجى ما، به همهى جوانان اين كشور و به مسئولان مرحمت كند. همه بدانند كه در اين زمينهها مسئولند؛ هم مسئولان كشور، هم قشرهاى گوناگون. مردم در ميدان حاضرند. آمادگى مردم در قضاياى گوناگون، آمادگى كامل است. مسئولان هم بايد قدر اين ملت را و اين آمادگى را بدانند و وظائف خود را، كارهائى را كه بر دوش آنهاست، به بهترين وجهى در قواى سهگانه انجام بدهند و ملت با انسجام پيش برود.
اين حركتهاى اسلامى در اطراف دنياى اسلام هم بلاشك حركتهاى ماندگارى است، حركتهاى پيشروندهاى است. ملتها يكى پس از ديگرى بيدار ميشوند. دستنشاندگان استكبار، يكى پس از ديگرى از عرصه و صحنه خارج خواهند شد و انشاءالله روزبهروز شوكت اسلام و اقتدار اسلام بيشتر خواهد شد.
پروردگارا! ما را لايق اين نعمتهاى بزرگ قرار بده؛ ما را شاكر اين نعمتهاى بزرگ قرار بده. پروردگارا! دلهاى ما را به نور محبت و معرفتِ خودت و اوليائت منور بگردان؛ دعاى بقيّةالله (ارواحنا فداه) را شامل حال ما بفرما.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Supreme Leader’s Speech to Basijis
28/11/2011
The following is the full text of the speech delivered on November 28, 2011 by Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution to a group of basijis from different parts of the country.
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful
All praise is due to Allah, the Lord of the Worlds, and peace and greetings upon our Master, Muhammad, and upon his immaculate household, especially the one remaining with Allah on earth.
I am grateful to Allah the Exalted who gave me the opportunity to attend this glorious and excellent meeting. I would like to ask the brothers and sisters who are standing around the square to sit down so that we can have a discussion.
Today has coincided with the first day of the month of Muharram. The identity and nature of Basij are in harmony with the identity of Muharram and Ashura. Basij is proud of being a follower of the school of Ashura. Of course Ashura is the peak of self-sacrifice. The issue of Ashura and what happened to Hussein ibn Ali (a.s.) and his loyal companions have been identified in the entire history and the entire world with self-sacrifice and selfless efforts in the way of God and for a divine cause. But the issue of Ashura is not limited to this. Yes, self-sacrifice and martyrdom are the most prominent and significant aspect of Ashura, but there are also other truths in Ashura. From the beginning of the movement in Medina, the seeds of knowledge and insight were sowed: this is one of the characteristics of the event that happened on Ashura. If a people lack insight, different things will not help them improve their conditions and solve their problems. Therefore, purity, identifying the opportunities, sowing the seeds of a growing historical movement - these are among the important characteristics of Ashura. The event did not end on the noon of Ashura. In fact a movement started in history from the noon of Ashura, a movement whose scope is still widening and expanding and it will continue expanding in the future as well. Imam Hussein (a.s.) brought whatever he had into the arena in order to promote the word of God and save mankind. These are some of the characteristics that one can identify in the event that happened on Ashura.
Basij is following the same path. It is continuing the same movement. It is pursuing the same goals. It is using the same tools and means. Basij is from among the people and it was established for the sake of the people. It was established in order to further the great movement of a mujahid nation. Basij is present in defense, science, art, construction of the country, politics, culture, helping oppressed and helpless people, production, technology, furthering different affairs of the country, sports, international arenas and all righteous actions. This is the movement of Basij: a popular movement for the people, in the hearts of the people, from among the people, from among different social classes, from among women and men - young and old - from different professions. That is to say, an organization was established which was hezbollahi in the real sense of the word.
Basij is political in nature, but it is not intoxicated by political and partisan activities. Basij is a mujahid organization, but it is not without discipline. It is not radical. Basij is deeply pious and religious, but it is not rigid and superstitious. Basij is insightful, but it is not self-centered. Basij is inclusive - and I have recommended maximum inclusion - but it will not compromise principles. Basij is brave. It is the guardian of principles. Basij is a supporter of science, but it is not intoxicated with science. Basij enjoys Islamic characteristics and it is not hypocritical. Basij is involved in improving the world, but it does not have materialistic tendencies. And this is a culture.
The basiji culture includes the knowledge, methods and behaviors which can give rise to great things that guarantee the permanent Islamic movement of a nation on a straight path. This is a school of thought and it is not just an abstract concept: it has a manifestation in the real world. The movement of Basij changed the destiny of Iran and it even went beyond changing the destiny of Iran. From the first day, basijis continued their activities in different revolutionary arenas before and after the Revolution and their movement became permanent. It became a model. It went down in history in the name of the Iranian nation. Today the youth of New York and California are repeating the slogans of the people of Egypt and Tunisia. They are inspired by these nations and they do not deny this. And the youth of Egypt and Tunisia were inspired by Hezbollah, Hamas and Islamic Jihad and they did not hide this. Basijis who were deployed by our magnanimous Imam (r.a.) started this inspiration in the modern world. Everybody learnt how to defeat the icons of materialistic power from our Imam\'s basijis and from our disabled war veterans, soldiers and selfless people. They learnt how to break idols in the name of God. They leant how to stand firm and how to resist.
Today the existence, movement and goals of Basij make us familiar with these truths. By relying on this culture, these teachings and this spirit, the Islamic Revolution and the revolutionary Iranian nation managed to accomplish many things which were considered impossible and this movement will continue. The hostility of the enemies cannot affect this. Of course the enemy will continue its hostility. We must not have any doubts in this regard. In fact an enemy should not be expected to behave otherwise. However, when we consider the great movement of the Iranian nation from the beginning of the Revolution to the present day, we see that there is a clear path. The Iranian nation is moving forward. It is moving towards the peak. It continues overcoming different challenges in different arenas and the enemies are forced to back down in this confrontation. With this movement, the Iranian nation will definitely achieve victory.
Today Islamic movements and uprisings are being witnessed throughout Islamic and Arab regions. This is exactly what has been expected since thirty years ago by those who were familiar with the nature of the Revolution. And in anticipation of such a thing, the enemies of the Revolution were trembling with fear for thirty years. They lived in fear of the events that have already happened today. Those who were hatching plots against the Islamic Revolution predicted such events and they happened. These events will continue and they will not stop.
Today Muslim people have risen up in the Arab region. They have become aware. They have awakened. The enemies cannot suppress them. They cannot change their path. The movement has already started and it has affected the conditions of the world. The movements that you see today in the western world - in America and in Europe - are indicative of great changes that the world will witness in the future.
We are not surprised by the response of the enemies. We are not surprised by the threats they make, the sanctions they impose and what the arrogant countries have been doing against the Islamic Republic during this time. They know that the Islamic Republic was the source of this movement. They know that it is the resistance of the Iranian nation that has managed to promote the idea in the region that it is possible to stand up against the power of the arrogant powers. The arrogant powers have always resolved their problems through intimidation. They intimidate nations and their leaders. When this technique is revealed and when nations realize that the power of the arrogant countries is superficial and not genuine, the arrogant powers will lose this weapon. And this is what has happened today. Therefore, they are angry and they pressure the Islamic Republic.
Of course they wrongly accuse the Islamic Republic of having started these movements. This is a baseless accusation. There is no need for such actions. The Islamic Republic has been inspirational because of its permanence, resistance and sincerity on this path - and the Iranian nation proved that it is sincere on this path. This inspiration is still there. Nations have awakened and they have found their path. And the enemies are continuing their hostility. Of course these hostilities create certain challenges. The Iranian nation is used to confronting such challenges. By Allah\'s favor, we will overcome all the challenges that the enemies create and we will achieve victory. Allah the Exalted has pre-ordained the establishment of brilliant Islamic truths in the world and He has also pre-ordained victory for the Iranian nation and ultimately for the Islamic Ummah.
I hope Allah the Exalted will bless all our people, our basijis and all our youth and government officials with the opportunity to continue this path. Everybody should know that they are responsible in these areas. All our government officials and people should know this. The people are present in the arena. The people are completely prepared in different areas and our government officials should appreciate our people and their preparedness. Our government officials should carry out their responsibilities in the three branches of government in the best possible way so that our nation can move forward in a coherent way.
Undoubtedly these Islamic movements around the world of Islam are permanent and progressive movements. Nations are awakening one after the other. The puppets of the arrogant powers will leave the scene one after the other and by Allah\'s favor, the power and glory of Islam will increase on a daily basis.
Dear God, help us be worthy of these great blessings. Make us be thankful for these great blessings. Dear God, enlighten our hearts with the light of Your love and knowledge and with the love and knowledge of your saints. Make us benefit from the prayers of the Imam of the Age (may our souls be sacrificed for his sake).
Greetings be upon you and Allah\'s mercy and blessings
9:52
|
Imam Khamenei speech at IHU Graduation - 23May12 بيانات در دانشگاه امام حسين - Farsi
Imam Khamenei at IHU, Imam Hussein (As) University graduation ceremony 2012
(۱۳۹۱/۰۳/۰۳ - ۱۳:۱۱)
بيانات فرمانده معظم کل قوا در دانشگاه...
Imam Khamenei at IHU, Imam Hussein (As) University graduation ceremony 2012
(۱۳۹۱/۰۳/۰۳ - ۱۳:۱۱)
بيانات فرمانده معظم کل قوا در دانشگاه امام حسين (ع)
بيانات در دانشگاه امام حسين عليهالسلام
در مراسم دانشآموختگی دانشجویان
در سالروز حماسهى فتح خرمشهر
بسماللّهالرّحمنالرّحيم
تبريك عرض ميكنيم حلول ماه مبارك رجب را، ولادت حضرت امام باقر را، سالروز باشكوه سوم خرداد را؛ و همچنين تبريك عرض ميكنيم به شما جوانان عزيز، درجهى سربازى در مجموعهى سپاه پاسداران و گرفتن سردوشى را.
خداوند متعال نعمت بزرگ خدمت در جمهورى اسلامى را به ما ارزانى داشته است و ما وظيفهى شكرگزارى آن را داريم. ميدانِ امروز كه بحمداللَّه سرشار از ابتكارات بود و جلوههاى زيباى نمادين در آن، سرتاسر مراسم و برنامهها را فرا گرفته بود، يك نمونهاى از پيام انقلاب اسلامى به ما، شما و همهى نسلهاى آينده است. خداوند متعال در قرآن ميفرمايد: «انّ الّذين يبايعونك انّما يبايعون اللّه»؛ آنهائى كه در راه اسلام با پيغمبر بيعت كردند، در واقع با خدا بيعت كردند. «يد اللّه فوق ايديهم»؛ آن دستى كه براى بيعت بر روى دست آنها قرار گرفت - كه دست پيغمبر بود - در واقع دست خداست. بيعت با اسلام، بيعت با دين، بيعت با مأموريت و مسئوليت الهى، چنين بيعتى است. انسان، با خدا بيعت ميكند. بعد ميفرمايد: «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه»؛ هر كسى كه اين بيعت را بشكند، به زيان خود اقدام كرده است. «و من اوفى بما عاهد عليه اللَّه فسيؤتيه اجرا عظيما»؛(1) اما آن كسانى كه بر اين پيمان وفا ميورزند و پايدارى ميكنند، پاداش بزرگ خود را از خداى متعال دريافت خواهند كرد. اين پاداش، فقط پاداش در آخرت نيست - اگرچه پاداش آخرت آنقدر باعظمت و پرمغز و پرمعناست كه ذهن دنيائى و مادى ما قادر به فهم آن نيست - اين پاداش در دنيا هم هست. پاداش آن كسانى كه در راه خدا با بيعت الهى حركت ميكنند، پايدارى ميكنند، عزت است، سرافرازى است، آزادگى است، بزرگوارى است.
ميدانيد ملت ايران از مغاك چه ذلتى - كه بر اثر تحميل سلطهى پادشاهان ستمگر در طول چند قرن بر او وارد آمده بود - به اوج عزتِ امروز رسيد؟ امروز ملت ايران، هم عزيز است، هم مقتدر است، هم پيشگام و پيشرو است، هم به آيندهى خود اميدوار و مطمئن است و افق آينده به او لبخند ميزند. در درونِ خود نيز افراد ما، جوانهاى ما، پيران ما، قشرهاى مختلف ما، احساس هويت ميكنند؛ ميدانند دنبال چه هستند؛ تلاش آنها با معنى است. اينها همه باارزش است.
ملتها بر اثر انقطاع از دين و از معنويت و از خدا، پوك ميشوند؛ هويت خودشان را از دست ميدهند؛ دچار سرگردانى و حيرت ميشوند. ملتها بر اثر دورى از احكام خدا به ذلت مىافتند؛ همچنان كه امت اسلامى در طول قرنها دچار ذلت بود. اين ايستادگى و وفادارى ملت ايران بود كه اين جادهى استوارِ هموارِ خوشعاقبت را در مقابل ملت ايران گذاشت. البته جادهى هموار به معناى جادهى بىزحمت نيست. سختىها فراوان است، اما فضل و بزرگوارى و مردانگى انسانها در بلاهاى سخت به وجود مىآيد و ظاهر ميشود.
جوانهاى عزيز! نعمت جوانى را، توانائىهاى ذهنى و جسمى را، دلهاى پاك و نورانى را كه خداى متعال به شما داده است، قدر بدانيد. تلاش كنيد؛ اين كشور متعلق به شماست، آينده مال شماست؛ شمائيد كه بايد در پيشانى امت اسلامى و پيشاپيش اين قافله، حركت به سوى تعالى امت اسلامى را با شدت، با سرعت و به طور روزافزون ادامه دهيد. گذشتگان اين راه را آغاز كردند، مجاهدت كردند، فداكارى كردند.
خدا را سپاس ميگوئيم كه نيروهاى مسلح ما، سپاه پاسداران ما، ارتش جمهورى اسلامى ما، همهى سازمانهاى نيروهاى مسلح در اين راه پايدارى كردند، پافشارى كردند و از خود تجربههاى ماندگارى را به يادگار گذاشتند.
راه، متعلق به شماست؛ كار، كار شماست. هرچه ميتوانيد، در اين راه كوشش كنيد. ملت ايران رو به عزت و اعتلاى روزافزون است. پيشرفت ما، ترقى ما، استقرار عدالت در ميان ما - كه اين دهه، متعهد به اينهاست - به پيشرفت و توسعهى عدالت در دنياى اسلام و در نهايت در همهى جهان كمك ميكند.
جبههى ظلم و استكبار و زورگوئى و ستمگرى در دنيا رو به ضعف است. هياهوى ظاهرى آنها نشانهى قدرت واقعى نيست. هر جا كه نور معنويت و ايمان بتابد، به طور طبيعى ظلمتها رنگ ميبازند و بتدريج محو ميشوند؛ اين اتفاق دارد در دنيا مىافتد. بخشهاى مهمى از اين كار بر عهدهى جوانان عزيز ماست، و يكى از حساسترين بخشهاى آن بر عهدهى شما جوانان عزيز است.
از خداوند متعال ميخواهيم به شماها توفيق بدهد؛ به ما هم توفيق بدهد كه قدر شما جوانان عزيزمان را بدانيم و انشاءاللَّه در چهرهى نورانى و پيشانى بلند شما، آيندهى پرافتخار ملت ايران و امت اسلامى را بخوانيم.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=19917
Supreme Leader Attends Graduation Ceremony at Imam Hussein (a.s.) Military Academy
23/05/2012
Ayatollah Khamenei the Commander-in-Chief of the Iranian Armed Forces attended the graduation ceremony of a group of cadets at Imam Hussein (a.s.) Military Academy on Wednesday. Speaking during the ceremony, Ayatollah Khamenei said that the increasing power and dignity of the Iranian people is the result of adhering to their divine allegiance. He stressed: \"In ‘The Decade of Progress and Justice\' the pioneering Iranian nation will continue its accelerated movement towards more progress and administration of justice. And in spite of its propaganda, the camp of oppression, arrogance and bullying is in decline.\"
His Eminence stressed that the Iranian nation is hopeful about the future and that there are bright prospects for the people of Iran. He urged Iranian youth to continue the path of the Iranian nation in order to improve the Islamic Ummah.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that selfless efforts of the young generation have prepared the way for achieving the peak of happiness. \"Of course, this does not mean that there are no difficulties and problems. On the contrary, continuing this path still requires steadfastness and resistance.\"
Ayatollah Khamenei praised the Iranian Armed Forces for adhering to their divine allegiance and stressed: \"During the Sacred Defense Era, the Armed Forces gained timeless experiences and it is necessary to make use of them.\"
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1635
More...
Description:
Imam Khamenei at IHU, Imam Hussein (As) University graduation ceremony 2012
(۱۳۹۱/۰۳/۰۳ - ۱۳:۱۱)
بيانات فرمانده معظم کل قوا در دانشگاه امام حسين (ع)
بيانات در دانشگاه امام حسين عليهالسلام
در مراسم دانشآموختگی دانشجویان
در سالروز حماسهى فتح خرمشهر
بسماللّهالرّحمنالرّحيم
تبريك عرض ميكنيم حلول ماه مبارك رجب را، ولادت حضرت امام باقر را، سالروز باشكوه سوم خرداد را؛ و همچنين تبريك عرض ميكنيم به شما جوانان عزيز، درجهى سربازى در مجموعهى سپاه پاسداران و گرفتن سردوشى را.
خداوند متعال نعمت بزرگ خدمت در جمهورى اسلامى را به ما ارزانى داشته است و ما وظيفهى شكرگزارى آن را داريم. ميدانِ امروز كه بحمداللَّه سرشار از ابتكارات بود و جلوههاى زيباى نمادين در آن، سرتاسر مراسم و برنامهها را فرا گرفته بود، يك نمونهاى از پيام انقلاب اسلامى به ما، شما و همهى نسلهاى آينده است. خداوند متعال در قرآن ميفرمايد: «انّ الّذين يبايعونك انّما يبايعون اللّه»؛ آنهائى كه در راه اسلام با پيغمبر بيعت كردند، در واقع با خدا بيعت كردند. «يد اللّه فوق ايديهم»؛ آن دستى كه براى بيعت بر روى دست آنها قرار گرفت - كه دست پيغمبر بود - در واقع دست خداست. بيعت با اسلام، بيعت با دين، بيعت با مأموريت و مسئوليت الهى، چنين بيعتى است. انسان، با خدا بيعت ميكند. بعد ميفرمايد: «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه»؛ هر كسى كه اين بيعت را بشكند، به زيان خود اقدام كرده است. «و من اوفى بما عاهد عليه اللَّه فسيؤتيه اجرا عظيما»؛(1) اما آن كسانى كه بر اين پيمان وفا ميورزند و پايدارى ميكنند، پاداش بزرگ خود را از خداى متعال دريافت خواهند كرد. اين پاداش، فقط پاداش در آخرت نيست - اگرچه پاداش آخرت آنقدر باعظمت و پرمغز و پرمعناست كه ذهن دنيائى و مادى ما قادر به فهم آن نيست - اين پاداش در دنيا هم هست. پاداش آن كسانى كه در راه خدا با بيعت الهى حركت ميكنند، پايدارى ميكنند، عزت است، سرافرازى است، آزادگى است، بزرگوارى است.
ميدانيد ملت ايران از مغاك چه ذلتى - كه بر اثر تحميل سلطهى پادشاهان ستمگر در طول چند قرن بر او وارد آمده بود - به اوج عزتِ امروز رسيد؟ امروز ملت ايران، هم عزيز است، هم مقتدر است، هم پيشگام و پيشرو است، هم به آيندهى خود اميدوار و مطمئن است و افق آينده به او لبخند ميزند. در درونِ خود نيز افراد ما، جوانهاى ما، پيران ما، قشرهاى مختلف ما، احساس هويت ميكنند؛ ميدانند دنبال چه هستند؛ تلاش آنها با معنى است. اينها همه باارزش است.
ملتها بر اثر انقطاع از دين و از معنويت و از خدا، پوك ميشوند؛ هويت خودشان را از دست ميدهند؛ دچار سرگردانى و حيرت ميشوند. ملتها بر اثر دورى از احكام خدا به ذلت مىافتند؛ همچنان كه امت اسلامى در طول قرنها دچار ذلت بود. اين ايستادگى و وفادارى ملت ايران بود كه اين جادهى استوارِ هموارِ خوشعاقبت را در مقابل ملت ايران گذاشت. البته جادهى هموار به معناى جادهى بىزحمت نيست. سختىها فراوان است، اما فضل و بزرگوارى و مردانگى انسانها در بلاهاى سخت به وجود مىآيد و ظاهر ميشود.
جوانهاى عزيز! نعمت جوانى را، توانائىهاى ذهنى و جسمى را، دلهاى پاك و نورانى را كه خداى متعال به شما داده است، قدر بدانيد. تلاش كنيد؛ اين كشور متعلق به شماست، آينده مال شماست؛ شمائيد كه بايد در پيشانى امت اسلامى و پيشاپيش اين قافله، حركت به سوى تعالى امت اسلامى را با شدت، با سرعت و به طور روزافزون ادامه دهيد. گذشتگان اين راه را آغاز كردند، مجاهدت كردند، فداكارى كردند.
خدا را سپاس ميگوئيم كه نيروهاى مسلح ما، سپاه پاسداران ما، ارتش جمهورى اسلامى ما، همهى سازمانهاى نيروهاى مسلح در اين راه پايدارى كردند، پافشارى كردند و از خود تجربههاى ماندگارى را به يادگار گذاشتند.
راه، متعلق به شماست؛ كار، كار شماست. هرچه ميتوانيد، در اين راه كوشش كنيد. ملت ايران رو به عزت و اعتلاى روزافزون است. پيشرفت ما، ترقى ما، استقرار عدالت در ميان ما - كه اين دهه، متعهد به اينهاست - به پيشرفت و توسعهى عدالت در دنياى اسلام و در نهايت در همهى جهان كمك ميكند.
جبههى ظلم و استكبار و زورگوئى و ستمگرى در دنيا رو به ضعف است. هياهوى ظاهرى آنها نشانهى قدرت واقعى نيست. هر جا كه نور معنويت و ايمان بتابد، به طور طبيعى ظلمتها رنگ ميبازند و بتدريج محو ميشوند؛ اين اتفاق دارد در دنيا مىافتد. بخشهاى مهمى از اين كار بر عهدهى جوانان عزيز ماست، و يكى از حساسترين بخشهاى آن بر عهدهى شما جوانان عزيز است.
از خداوند متعال ميخواهيم به شماها توفيق بدهد؛ به ما هم توفيق بدهد كه قدر شما جوانان عزيزمان را بدانيم و انشاءاللَّه در چهرهى نورانى و پيشانى بلند شما، آيندهى پرافتخار ملت ايران و امت اسلامى را بخوانيم.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=19917
Supreme Leader Attends Graduation Ceremony at Imam Hussein (a.s.) Military Academy
23/05/2012
Ayatollah Khamenei the Commander-in-Chief of the Iranian Armed Forces attended the graduation ceremony of a group of cadets at Imam Hussein (a.s.) Military Academy on Wednesday. Speaking during the ceremony, Ayatollah Khamenei said that the increasing power and dignity of the Iranian people is the result of adhering to their divine allegiance. He stressed: \"In ‘The Decade of Progress and Justice\' the pioneering Iranian nation will continue its accelerated movement towards more progress and administration of justice. And in spite of its propaganda, the camp of oppression, arrogance and bullying is in decline.\"
His Eminence stressed that the Iranian nation is hopeful about the future and that there are bright prospects for the people of Iran. He urged Iranian youth to continue the path of the Iranian nation in order to improve the Islamic Ummah.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that selfless efforts of the young generation have prepared the way for achieving the peak of happiness. \"Of course, this does not mean that there are no difficulties and problems. On the contrary, continuing this path still requires steadfastness and resistance.\"
Ayatollah Khamenei praised the Iranian Armed Forces for adhering to their divine allegiance and stressed: \"During the Sacred Defense Era, the Armed Forces gained timeless experiences and it is necessary to make use of them.\"
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1635
12:21
|
عید نوروز کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی کا پیغام - Urdu
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا...
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
More...
Description:
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
5:17
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in a moment (one night) - Part 2
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in...
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
More...
Description:
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
40:01
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in one night - Part 1 - Farsi
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
More...
Description:
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ