1:14
|
پوری دنیا امام حسینؑ اور قیام عاشوراء سے متاثر | شہید قاسم سلیمانی | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی قیادت اور رہبری میں رونما ہونے والے کربلا کے حادثے نے صرف ایک قوم...
اس میں شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی قیادت اور رہبری میں رونما ہونے والے کربلا کے حادثے نے صرف ایک قوم کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے ضمیروں کو جنجھوڑا ہے چنانچہ اس حقیقت کا اعتراف مختلف مکاتب فکر اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے منصف مزاج افراد نے کیا ہے۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے پیروکاروں کیلئے یہ بات باعث افتخار ہے کہ وہ حسینی مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے قافلہ سالار حسین بن علی علیہ السلام ہیں۔
اس ویڈیو میں شہید حاج قاسم سلیمانی کی زبانی اسی حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
#امام #حسین #قیادت #رہبری #کربلا #حادثے #قوم #ضمیروں #جنجھوڑا #حقیقت #اعتراف #مکاتب #مذاہب #منصف #مزاج #پیروکاروں #افتخار #حسینی #قافلہ
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی قیادت اور رہبری میں رونما ہونے والے کربلا کے حادثے نے صرف ایک قوم کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے ضمیروں کو جنجھوڑا ہے چنانچہ اس حقیقت کا اعتراف مختلف مکاتب فکر اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے منصف مزاج افراد نے کیا ہے۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے پیروکاروں کیلئے یہ بات باعث افتخار ہے کہ وہ حسینی مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے قافلہ سالار حسین بن علی علیہ السلام ہیں۔
اس ویڈیو میں شہید حاج قاسم سلیمانی کی زبانی اسی حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
#امام #حسین #قیادت #رہبری #کربلا #حادثے #قوم #ضمیروں #جنجھوڑا #حقیقت #اعتراف #مکاتب #مذاہب #منصف #مزاج #پیروکاروں #افتخار #حسینی #قافلہ
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
donya,
imam,
imam
husayn,
qiyam,
eashura,
shahid,
shahadt,
haj
qasim,
shahid
qasim
solimani,
rahbari,
karbala,
insan,
haqiqat,
maktab,
mazaheb,
makateb,
7:07
|
آپؑ کے بغیر دنیا اداس ہے | منقبت | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ اس کائنات میں حجت خدا کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کے بدن میں دل، چنانچہ دل کے بغیر انسان زندہ...
اس میں شک نہیں کہ اس کائنات میں حجت خدا کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کے بدن میں دل، چنانچہ دل کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح حجت خدا کے بغیر یہ کائنات باقی نہیں رہ سکتی، جسطرح انسان کے بدن میں حیات کیلئے بدن کا ہر عضو، دل کا محتاج ہے اسی لئے دل کو دیگر تمام اعضاء پر مرکزی حیثیت حاصل ہے، بالکل اسی طرح حجت خدا کے بغیر یہ دنیا اداس ہے اور جب تک حجت خدا کی عنایت شامل حال نہ ہو اس میں سکوں و قرار نہیں ہوگا، اور اسی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے شاعر نے اس ترانے میں امام زمانہ کے ساتھ مناجات کرتے ہوئےامام کے بغیر انسان کے دل کی جو کیفیت ہے اسے بہترین انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور حاج محمد علي قاسمي نے اپنی بہترین آواز میں اسے امام زمانہ کے عاشقوں کیلئے پیش کیا ہے جسے آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔
#ویڈیو #محمد_علی_قاسمی #جدائی #عادت #مسافر #امید #پرواز #سحر #دعا #قنوت #چین #غافل #پرجوش #دستگیری #تکلیف #عقیدت
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ اس کائنات میں حجت خدا کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کے بدن میں دل، چنانچہ دل کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح حجت خدا کے بغیر یہ کائنات باقی نہیں رہ سکتی، جسطرح انسان کے بدن میں حیات کیلئے بدن کا ہر عضو، دل کا محتاج ہے اسی لئے دل کو دیگر تمام اعضاء پر مرکزی حیثیت حاصل ہے، بالکل اسی طرح حجت خدا کے بغیر یہ دنیا اداس ہے اور جب تک حجت خدا کی عنایت شامل حال نہ ہو اس میں سکوں و قرار نہیں ہوگا، اور اسی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے شاعر نے اس ترانے میں امام زمانہ کے ساتھ مناجات کرتے ہوئےامام کے بغیر انسان کے دل کی جو کیفیت ہے اسے بہترین انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور حاج محمد علي قاسمي نے اپنی بہترین آواز میں اسے امام زمانہ کے عاشقوں کیلئے پیش کیا ہے جسے آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔
#ویڈیو #محمد_علی_قاسمی #جدائی #عادت #مسافر #امید #پرواز #سحر #دعا #قنوت #چین #غافل #پرجوش #دستگیری #تکلیف #عقیدت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Manqabat,
Imam,
Imam
Zaman,
Imam
Mahdi,
Allah,
Khuda,
Insan,
Hujat,
Haj
Muhammad
Ali
Qasemi,
Eshq,
Eadat,
Musaher,
Omid,
Sahar,
Dua,
Qunut,
Eaqidat,
3:42
|
خدا اور دنیا کی محبت میں تضاد کی کیفیت | آیت اللہ مصباح یزدی | Farsi Sub Urdu
ہر با ایمان انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کے حصول میں کامیاب ہو لیکن اس میدان میں کامیابی کیلئے...
ہر با ایمان انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کے حصول میں کامیاب ہو لیکن اس میدان میں کامیابی کیلئے بہت سی رکاوٹیں آڑے آتی ہیں جنہیں راستے سے ہٹانا ہوگا تاکہ اسے خدا کی محبت کے حصول میں کامیابی نصیب ہو، چنانچہ وہ رکاوٹیں کیا ہیں اور انہیں کس طرح دل کی سرزمین سے دور کرکے خدا کی محبت کو دل میں بسایا جاسکتا ہے؟ خدا کی محبت اور دیگر چیزوں کی محبت میں تضاد کی کسوٹی کیا ہے؟
چنانچہ انہی سوالات کے جوابات سے آشنائی کے لیے علامہ تقی مصباح یزدیؒ کے علمی بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #مصباح_یزدی #محبت #پایدار #اللہ #لذت #تضاد #طریقہ #دل #شریعت #کسوٹی #جہاد #علم #ثقافت
More...
Description:
ہر با ایمان انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کے حصول میں کامیاب ہو لیکن اس میدان میں کامیابی کیلئے بہت سی رکاوٹیں آڑے آتی ہیں جنہیں راستے سے ہٹانا ہوگا تاکہ اسے خدا کی محبت کے حصول میں کامیابی نصیب ہو، چنانچہ وہ رکاوٹیں کیا ہیں اور انہیں کس طرح دل کی سرزمین سے دور کرکے خدا کی محبت کو دل میں بسایا جاسکتا ہے؟ خدا کی محبت اور دیگر چیزوں کی محبت میں تضاد کی کسوٹی کیا ہے؟
چنانچہ انہی سوالات کے جوابات سے آشنائی کے لیے علامہ تقی مصباح یزدیؒ کے علمی بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #مصباح_یزدی #محبت #پایدار #اللہ #لذت #تضاد #طریقہ #دل #شریعت #کسوٹی #جہاد #علم #ثقافت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
mohabbat,
paaidaar,
Allah,
lazzat,
tareeqa,
dil,
Shariat,
kasoti,
jehaad,
ilm,
Saqafat,
Khuda,
duniya,
mohabbat,
mein,
tazaad,
kefiyat,
Ayatollah,
Ayatollah,
Yazdi
,
خدا
,
دنیا
,
محبت
,
تضاد
,
کیفیت
,
آیت
اللہ
مصباح
یزدی
9:16
|
اخلاق عملی [20] | خود سازی کی رکاوٹیں اور موانع | Urdu
اس درس کے اہم نکات:
کیا شیطان سب سے بڑا دشمن ہے؟
کیا دنیا سے محبت خود سازی میں مانع ہے؟
مولانا سید احمد علی...
اس درس کے اہم نکات:
کیا شیطان سب سے بڑا دشمن ہے؟
کیا دنیا سے محبت خود سازی میں مانع ہے؟
مولانا سید احمد علی نقوی
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
کیا شیطان سب سے بڑا دشمن ہے؟
کیا دنیا سے محبت خود سازی میں مانع ہے؟
مولانا سید احمد علی نقوی
Video Tags:
noorulwilayah,
production,
Akhlaq,
amali,
maane,
mawaane,
rukawatein,
shaitaan,
bada,
dushman,
duniya,
mohabbat,
molana,
sayyid,
ahmed,
ali,
naqvi,
مانع
رکاوٹیں
موانع
مولانا
سید
احمد
علی
نقوی
اخلاق
عملی
خود
سازی
شیطان
بڑا
دشمن
دنیا
محبت
65:37
|
6:15
|
اخلاق عملی [52] | تقوی کی اہمیت | Urdu
اس درس کے اہم نکات:
ایمان کی بنیاد کیا ہے؟
یقین تک انسان کیسے پہنچے؟
دنیا اور آخرت کی شرافت کس چیز سے ہے؟...
اس درس کے اہم نکات:
ایمان کی بنیاد کیا ہے؟
یقین تک انسان کیسے پہنچے؟
دنیا اور آخرت کی شرافت کس چیز سے ہے؟
مولانا سید احمد علی نقوی
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
ایمان کی بنیاد کیا ہے؟
یقین تک انسان کیسے پہنچے؟
دنیا اور آخرت کی شرافت کس چیز سے ہے؟
مولانا سید احمد علی نقوی
Video Tags:
مولانا
سید
احمد
علی
نقوی
ایمان
بنیاد
یقین
انسان
دنیا
اخلاق
عملی
noorulwilayah,
production,
Eeman,
bunyaad,
yaqeen,
insaan,
dunya,
akhirat,
sharafat,
molana,
sayyid,
ahmad,
ali,
naqvi,
9:15
|
[Speech] Gaza Palestine | مستقبل کی دنیا فلسطین کی ہے | Imam Khamenei | Urdu
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
تازہ ترین خطاب
غزہ ،فلسطین کے حالیہ حالات و واقعات پر خصوصی گفتگو...
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
تازہ ترین خطاب
غزہ ،فلسطین کے حالیہ حالات و واقعات پر خصوصی گفتگو
2023/10/25
ایران کے شہیدوں پر قومی سیمینار کے منتظمین سے خطاب
مکمل اردو ترجمہ و ڈبنگ کے ساتھ
البلاغ: ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
More...
Description:
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
تازہ ترین خطاب
غزہ ،فلسطین کے حالیہ حالات و واقعات پر خصوصی گفتگو
2023/10/25
ایران کے شہیدوں پر قومی سیمینار کے منتظمین سے خطاب
مکمل اردو ترجمہ و ڈبنگ کے ساتھ
البلاغ: ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان
45:33
|
خصوصی پروگرام | عالمی یوم خواتین و مادر حصہ اول | ولادت بی بی فاطمہ زہراؑ | دنیا بھر سے خواتین کی شرکت
Alami yome Khwateen ba silsila e Wiladat e Bibi Fatima sa | Poori Dunya sy Khwatin ki shirkat (part 1)
عالمی یوم خواتین و مادر بسلسلہ ولادت با سعادت...
Alami yome Khwateen ba silsila e Wiladat e Bibi Fatima sa | Poori Dunya sy Khwatin ki shirkat (part 1)
عالمی یوم خواتین و مادر بسلسلہ ولادت با سعادت خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا خصوصی پروگرام وزڈم گیٹ وے نے تیار کیا ہے کہ جس مین دنیا بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین نے بی بی سلام اللہ علیھا کی سیرت اوران کے حضور شاعری کے ذریعے عقیدت کے پھول نچھاور کئے جبکہ پروگرام کے آخر میں پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ فلسطین کے مظلومین کے لئے دعائے خیر کروائی۔
میزبان: خواہر بنت زہرا رضوی
مہمانانِ گرامی:
(پاکستان)پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ
محترمہ نزہت فاطمہ (پاکستان)
محترمہ حیدری فاطمہ (کینیڈا)
محترمہ واہبہ زیدی (ہندوستان)
محرمہ زرین صادق (جامعہ این ای ڈی پاکستان)
محترمہ عنبرین فاطمہ (ہندوستان)
ڈاکٹر ردا زہرا (آسٹریلیا)
محترمہ رضوانہ عباس (شاعرہ)
More...
Description:
Alami yome Khwateen ba silsila e Wiladat e Bibi Fatima sa | Poori Dunya sy Khwatin ki shirkat (part 1)
عالمی یوم خواتین و مادر بسلسلہ ولادت با سعادت خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا خصوصی پروگرام وزڈم گیٹ وے نے تیار کیا ہے کہ جس مین دنیا بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین نے بی بی سلام اللہ علیھا کی سیرت اوران کے حضور شاعری کے ذریعے عقیدت کے پھول نچھاور کئے جبکہ پروگرام کے آخر میں پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ فلسطین کے مظلومین کے لئے دعائے خیر کروائی۔
میزبان: خواہر بنت زہرا رضوی
مہمانانِ گرامی:
(پاکستان)پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ
محترمہ نزہت فاطمہ (پاکستان)
محترمہ حیدری فاطمہ (کینیڈا)
محترمہ واہبہ زیدی (ہندوستان)
محرمہ زرین صادق (جامعہ این ای ڈی پاکستان)
محترمہ عنبرین فاطمہ (ہندوستان)
ڈاکٹر ردا زہرا (آسٹریلیا)
محترمہ رضوانہ عباس (شاعرہ)
43:48
|
خصوصی پروگرام | عالمی یوم خواتین و مادر حصہ دوئم | ولادت بی بی فاطمہ زہراؑ | دنیا بھر سے خواتین کی شرکت
Alami yome Khwateen ba silsila e Wiladat e Bibi Fatima sa | Poori Dunya sy Khwatin ki shirkat (part 2)
عالمی یوم خواتین و مادر بسلسلہ ولادت با سعادت...
Alami yome Khwateen ba silsila e Wiladat e Bibi Fatima sa | Poori Dunya sy Khwatin ki shirkat (part 2)
عالمی یوم خواتین و مادر بسلسلہ ولادت با سعادت خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا خصوصی پروگرام وزڈم گیٹ وے نے تیار کیا ہے کہ جس مین دنیا بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین نے بی بی سلام اللہ علیھا کی سیرت اوران کے حضور شاعری کے ذریعے عقیدت کے پھول نچھاور کئے جبکہ پروگرام کے آخر میں پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ فلسطین کے مظلومین کے لئے دعائے خیر کروائی۔
میزبان: خواہر بنت زہرا رضوی
مہمانانِ گرامی:
(پاکستان)پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ
محترمہ نزہت فاطمہ (پاکستان)
محترمہ حیدری فاطمہ (کینیڈا)
محترمہ واہبہ زیدی (ہندوستان)
محرمہ زرین صادق (جامعہ این ای ڈی پاکستان)
محترمہ عنبرین فاطمہ (ہندوستان)
ڈاکٹر ردا زہرا (آسٹریلیا)
محترمہ رضوانہ عباس (شاعرہ)
More...
Description:
Alami yome Khwateen ba silsila e Wiladat e Bibi Fatima sa | Poori Dunya sy Khwatin ki shirkat (part 2)
عالمی یوم خواتین و مادر بسلسلہ ولادت با سعادت خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا خصوصی پروگرام وزڈم گیٹ وے نے تیار کیا ہے کہ جس مین دنیا بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین نے بی بی سلام اللہ علیھا کی سیرت اوران کے حضور شاعری کے ذریعے عقیدت کے پھول نچھاور کئے جبکہ پروگرام کے آخر میں پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ فلسطین کے مظلومین کے لئے دعائے خیر کروائی۔
میزبان: خواہر بنت زہرا رضوی
مہمانانِ گرامی:
(پاکستان)پروفیسر معصومہ شیرازی صاحبہ
محترمہ نزہت فاطمہ (پاکستان)
محترمہ حیدری فاطمہ (کینیڈا)
محترمہ واہبہ زیدی (ہندوستان)
محرمہ زرین صادق (جامعہ این ای ڈی پاکستان)
محترمہ عنبرین فاطمہ (ہندوستان)
ڈاکٹر ردا زہرا (آسٹریلیا)
محترمہ رضوانہ عباس (شاعرہ)
7:24
|
اخلاق عملی [81] | موت کو یاد کرنے کا فائدہ | Urdu
اس درس کے اہم نکات:
کون سا عمل دل کو زندہ کرتا ہے؟
شہوتوں کو ختم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
دنیا سے رغبت کس عمل سے...
اس درس کے اہم نکات:
کون سا عمل دل کو زندہ کرتا ہے؟
شہوتوں کو ختم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
دنیا سے رغبت کس عمل سے ختم ہوتی ہے؟
مولانا سید احمد علی نقوی
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
کون سا عمل دل کو زندہ کرتا ہے؟
شہوتوں کو ختم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
دنیا سے رغبت کس عمل سے ختم ہوتی ہے؟
مولانا سید احمد علی نقوی
5:18
|
کلمات قصار نہج البلاغہ [2] | فتنوں کے دور میں کس طرح سے زندگی بسرکریں؟
اس درس کے اہم نکات:
انسان کس طرح سے دنیا اور آخرت میں نجات و ہدایت حاصل کر سکتا ہے؟
فتنوں کے دور میں قرآن...
اس درس کے اہم نکات:
انسان کس طرح سے دنیا اور آخرت میں نجات و ہدایت حاصل کر سکتا ہے؟
فتنوں کے دور میں قرآن کا کیا دستور ہے؟
فتنوں کے دور میں امیر المومنین کا اپنے ماننے والوں کو کیا دستور ہے؟
کب انسان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ فتنوں کوسرکوب کرے اور ان کا قلع قمع کرئے؟
مولانا تصور عباس جعفری
More...
Description:
اس درس کے اہم نکات:
انسان کس طرح سے دنیا اور آخرت میں نجات و ہدایت حاصل کر سکتا ہے؟
فتنوں کے دور میں قرآن کا کیا دستور ہے؟
فتنوں کے دور میں امیر المومنین کا اپنے ماننے والوں کو کیا دستور ہے؟
کب انسان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ فتنوں کوسرکوب کرے اور ان کا قلع قمع کرئے؟
مولانا تصور عباس جعفری
3:58
|
رمضان غزہ کے ساتھ | ڈاکٹر حیدر جعفری - Urdu
ظالم غاصب حکومت کی بربریت پر غیر مہذب دنیا کی منافقانہ خاموشی اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے
ظالم غاصب حکومت کی بربریت پر غیر مہذب دنیا کی منافقانہ خاموشی اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے
4:42
|
رمضان غزہ کے ساتھ | علامہ شیدا حسین جعفری - Urdu
ظالم غاصب حکومت کی بربریت پر غیر مہذب دنیا کی منافقانہ خاموشی اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے
ظالم غاصب حکومت کی بربریت پر غیر مہذب دنیا کی منافقانہ خاموشی اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے
68:46
|
مراسم بیست و پنجمین سالگرد رحلت حضرت امام خمینی Farsi
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله...
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
More...
Description:
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
Supreme Leader Meets with Pilgrims at Imam Ridha (a.s) Shrine - 21 March 2013 - Mashhad - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم...
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
More...
Description:
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
60:42
|
| Jashn e Wiladat Imam Ali Raza a.s | Shia kon? Imam Baqir ki Hadith I HIWM Syed Ali Murtaza zaidi I Karachi | 11 June 2022 - Urdu
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت...
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت سے نوازا ہے۔ آج کا مبارک اور نورانی دن ہے امام علی رضا کی ولادت کا دن ہے۔ امام کے القاب میں سے ایک لقب یا معین االضعفا و لفقرا ہے ہے جس کی معنی ہے ضعیفوں اور وطن سے دور لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں۔
آج کا دن امام علی رضا سے عیدی حاصل کرنے کا دن ہے۔ ہم اس دنیا کے اندر چند دن رہیں گے اور کہیں جائیں گے یہ چند دن امتحان ہیں اس امتحان کو گذارنے کیلئے ہم کو اہلبیت کی مودت دے۔ ہم سے اللہ پاک نے کچھ امتحان چاہے تھے۔ ہم سے جو خدا نے چاہا ہم نے سمجھا کہ اس کا امتحان نہیں ہوگا اور جو خدا نے نہیں چاہا ہم نے سمجھا کہ اصل امتحان اس کا ہوگا۔
نھج البلاغہ سے سیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھا۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کیا چاہا تھا کہ یہ واجب ہے اور ہم کس کو واجب سمجھتے ہیں؟
کوئی آدمی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس کو دے گا۔
انسان کسی کام میں مہارت کس طرح لیتا ہے؟۔ مجھے بولتے ہوئے پچیس برس ہوئے ہیں۔ جو بچپنے میں سنتے تھے اب وہ بچوں والے ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر کس کام کو دس ہزار گھنٹے بجا لائے تو وہ اس میں ماہر ہوجاتا ہے۔ ایک کرکیٹر نے کہا کہ میں روزانہ300بالیں کھیلتا ہوں۔ جو محنت کرے گا وہ بن جائیگا۔
آپ زندگی کا اصل وقت کہاں لگا رہے ہو، اگر کوئی بچہ روزانہ 8 گھنۓ وڈیو گیم کھیلتا ہے تو اس نے اس کام کو واجب سمجھا ہوا ہے۔ ایک آدمی کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ سو رہا ہے تو اس نے سونا واجب سمجھا ہوا ہے۔ دیہات میں ایک چائے کے کپ پر لوگ دو فلمیں دیکھتے ہیں اس کی زندگی میں یہ واجب ہے۔ اس کی قیمت وہ چیز ہے جس کو اس نے واجب سمجھا ہے جس بچے نے گیم کو واجب سمجھا ہے اس کی قیمت وڈیو گیم ہے۔ آپ تلاش کریں کہ آپ کی زندگی میں کیا واجب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز کو واجب سمجھا جاتا ہے کمانے کو واجب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اچھا کما لے تو صحی اگر اچھا نہ کما سکے تو وہ صحی نہیں۔ معاشرے اور مساجد میں عزت اس کو ملتی ہے جو زیادہ کماتا ہے۔ ہم جس نماز کو واجب سمجھتے ہیں اس کی محفل میں بھی ہم واجب اس کو سمجھتے ہیں اور عزت اس کو دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کمانا واجب نہیں کیا تھا۔ خدا نے حلال کمانا واجب کیا تھا یا رزق پہنچانے کا واعدہ کیا تھا۔ خدا نے کمانا واجب نہیں کیا ہے اس نے \"محنت کرنا\" واجب کیا ہے اور رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔
ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کر رہے رزق ہم دیں گے۔
جو کماتا اس کو عزت دیں گے۔ جو بچا کما کر نہیں لائے اس کو احترام کم دیتے ہیں۔ رزق کا واعدہ خدا پر ہے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے حلال کمائیں۔ کمانا ذمیداری نہیں ہے محنت کرنا ذمیداری ہے۔
اللہ پاک نے کیا واجب کیا تھا۔ نماز، روزہ، حج واجب کیا تھا۔ جب میں فروع دین گنواتا ہوں تو حج تک بس کر لیتا ہوں ، زکوات اور خمس کی بات کروں گا تو آپ کا موڈ خراب ہوجائیگا۔ جہاد کی بات کی تو پھر ساری دنیا مخالف ہوجائیگی۔ ان سے زیادہ کچھ اور واجب ہے۔
میں طالبعلم رہا ۔ 17 برس میں طالبعلم رہا اب 55 برس کا ہوں اگر مجھ میں اور دوسرے میں فرق نہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہو تم نے وقت کہاں گذارا ؟
بچے اسکول میں جائیں گے۔ کچھ جابس میں کچھ کاروبار اور کچھ پرائیوٹ جاب کریں گے۔ ہمارے دوست بھی رشوت لیتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ اپنے آپ سے سوال کریں۔ ہم اہلبیت کے ماننے والے ہیں فرق کہاں ہونا چاہئے۔ ہم چند فرق بیان کریں گے۔
معصومیں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماننے والے کو کیسے پہچانیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ میں نے ملک کے صدر سے رشتہ جورا وہ مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میں ہاتھ کھولتا ہوں اور روزہ پانچ منٹ دیر سے کھولتا ہوں یہ رشتہ انہوں نے دیا ہے؟ یا ہم نے بنایا ہے
آئمہ ہم کو کب اپنا مانتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن گذاریں اور اہلبیت کی ایک روایت بھی نہیں پڑہی تو آپ نے زندگی کا ایک دن ضائع کیا۔ تم خزانے پر بیٹھے تھے اور کہا کہ میں فقیر ہوں میں فقیر ہوں مگر اس خزانے سے کچھ نہیں لیا۔ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں۔ کیا ہم احمق ہیں؟ جو اہلبیت نے خزانہ دیا ہے اس کو ہم نے پڑہا ہے؟۔ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے من لا یحضر الفقیہ جس کی معنی ہیں جب فقیہ نہ ہو۔ ہم نے کبھی پڑہی ہے۔
مولا علی ع نے 250 خطبے مدرسوں میں بیٹھ کر دیئے بلکہ یہ بازار، مسجد، میدان جنگ میں دیئے ہیں ۔ کیا مولا کی وہ گیدہرنگ سلیکٹیڈ تھی۔ دنیا کے علم پڑہنے کو تیار ہیں مگر نہیں پڑہ رہے تو ان کا علم۔ کاش دنیا میں ہی بہتر ہوجاتے وہ بھی نہیں بنائی؟ ہم دعویدار ہیں کہ ان کے ماننے والے ہیں۔
لإمام الباقر (عليه السلام):
🔰«كيف من انتحل قول الشيعة و أحبنا أهل البيت؟ فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ و أطاعه، و ما كانوا يُعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشّع والإنابة و كثرة ذكر اللّہ والصوم و الصلاة و البرّ بالوالدين وتعاهد الجيران من الفقراء و ذوي المسكنة والغارمين و الأيتام، وصدق الحديث وتلاوة القرآن وكفّ الألسن عن الناس الا من خير.» (السرائر ٣-٣٣٦)
🔹ای جابر!جو شخص شیعہ ہونے کا دعویدار ہے کیا اُس کیلئے کافی ہے کہ وہ صرف ہم اھلبیت علیھم السّلام کی محبّت کا دم بھرے؟! اللّہ کی قسم!ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقوا اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے۔اے جابر!انہیں پہچانا نہیں جاتا مگر انکساری ،خشوع،امانت داری،ذکرالٰہی میں کثرت،روزہ،نماز،والدین کے ساتھ نیکی،پڑوسیوں فقیروں در ماندہ افراد قرضداروں اور یتتموں سے اچھا سلوک،سچی بات،قرآن کی تلاوت اور اپنی زبانوں کو صرف لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے علاوہ روکنے سے پہچانا جاتا ہے-
پیسہ کا تکبر دکھائیں گے؟ دنیا میں پاکیزہ چیزیں علم اور تقوی ہے اگر ان پر بھی تکبر دکھائے تو ذلیل ہے۔ پیسہ پست چیز ہے جو اس پر تکبر دکھائے وہ تو ذلیل پھر ذلیل ہے۔ دنیا میں پاکیزہ علم اور تقوی پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام شیطان کے برابر ہے۔ دولت اور ذلیلوں کے درمیان شہرت پانے پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام کیا ہے یہ تو گندی نالی کے کیڑے کے برابر ہے۔ ایمانداروں میں شہرت دکھائے۔
خوف خدا کیا ہےَ حج پر جائیں بدترین لوگ بھی ادہر توبہ کریں گے۔ منی کے میدان توبہ کرتے ہیں۔ بھائی جب تنھائی میں گناہ کرتے ہو خدا یاد آتا ہے کہ نہیں۔ کمزور کے سامنے کھڑے ہو کر گناہ نہ کرو۔ سب کے سامنے رہ کر پاکیزہ رہنا نہیں بلکہ اکیلے رہ کر پاکیزہ رہنا۔۔ کسی نے کہا کہ یہ چیز لو گے 100 کی ملے گی میں نے وہ چیز 95 کی لوں اور رسید بنوائوں 100 روہے کی۔ دوسرے کو 100 میں دی۔ میں نے 5 روپے پر اپنا دین بیچا ہے کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کو خدا جانتا ہے اور میں نے اس پر بھروسہ کیا تھا مگر اس نے 5 روپے کا چونا لگانے کا موقع ملا تو اس نے 5 روپے کا چونا لگایا۔ ہم کہتے ہیں سیاستدان ذلیل ہیں۔ تم کو 5 روپے کھانے کا موقع ملا تھا تم نہیں چھوڑا تھا۔ ان کو کیوں گالیاں دے رہے ہو؟۔ عالم یہ ہے کہ مسجد کے کام کیلئے کسی کو 4 روپے دو تو بھول جائو۔ جب تک یہ پورا بل نہیں بنائےگا واپس نہیں آئیگا۔
اس کے بعد ہم کہیں کہ ہم کو خوف خدا ہے۔ کسی آدمی کی عزت میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا۔ خوف خدا کسی کی عزت کو چھپانا ہوتا ہے یا اچھالنا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے تھوڑی رقم پر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
ضیاالحق کی معنی ہیں حق کی روشنی ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ نام غلط بندے کیساتھ لگ گیا اب کوئی رکھے گا یہ نام؟ ہم نے زندگی میں صرف دو بار خدا سے سرگوشیوں میں بات کی ہے۔ کیا ہم تنھائی میں خدا سے کلام کرتے ہیں؟۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں عالم اور کتاب نہیں ہیں۔ تم خدا سے کلام کرو تم کو کیا چاہئے؟ اکیلے میں بیٹھو اللہ سے کلام کرو۔ کیوں نہیں کرتے۔ دماغ میں اتنی اور چیزیں بھری ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خدا سے سجدے میں کلام کریں۔ ایک منٹ سجدہ میں گذرا تو دیکھیں۔ ہمارے دماغ میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے کہ اس میں خدا نہیں آسکتا۔ لوگ سنتے سنتے بوڑہے ہوگئے تو پھر ہم نے ان کو کیا سکھایا؟
٭ذکر خدا اس کو کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کام کروں تو اللہ یاد آئے۔ ذکر کو انگریزی میں ریمائنڈر کہتے ہیں جس کی معنی ہیں یاد دلانا۔ اس کو بار بار یاد آئے کہ خدا ہے۔ ادہر ( مسجد میں ) اللہ یاد آے کمال ہے یا باہر اللہ یاد آئے کیا کمال ہے؟ یہ مہارت نہیں بلکہ باہر خدا یاد آتا یے؟۔ مسکین بندہ آپ کے پاس آیا۔ یاد آیا خدا کے کمزور پر رحم کرنا، رشتیداروں میں بھی طاقتور اور کمزور کون ہے یہ سب پیسے پر ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ خاندان میں بڑا کون ہے۔ اب طاقتور کون ہے اس نے بول دیا تو اس کی چلے گی۔ طاقت کے بل پر احترام ملے تو یہ کمینے پن کا زمانہ ہے۔ دولت چوری سے آتی ہے۔ ہم دین کے نام پر بھی وہ سننا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
والدین سے نیکی کرنا کوئی زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں سے برائی کرتے تھے مگر والدین اور بیوی بچوں سے برائی نہیں کرتے تھے۔ اب وہ کیمنے پن کا زمانہ ہے کہ انسان صرف اپنے آپ سے باوفا ہے۔ جو ہم کو ان مسائل سے نکال سکتے ہیں ان سے ہمارا تمسک نہیں ہے۔ ہمارا اہلبیت سے تمسک رہ گیا ہے صرف دینا لینے کیلئے۔ ہم علم پر، زیارتوں پھی جاتے ہیں دنیا لینے کیلئے۔ کیا خدا نے ان کو دنیا دینے کیلئے بھیجا تھا۔ ہمارا تعلق کونسا ہے۔
ہمارے ہاں کمزوروں اور مسکیوں کی مدد کرتا ہے واٹس اپ پر ڈالتا ہے۔ کوئی کام کرتا ہے اس کے نیچے تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے۔ اللہ کیلئے تھا تو تختی پر نام کیوں؟ مرحوم کے فاتحہ کیلئے نام نہ لیا تو ناراض۔ کیا فرشتوں کو حساب کتاب میں بھول ہوتی ہے؟۔
دین خدا میں اللہ نیکیاں دیکھتا ہے۔ دکھاوا کریں کوئی ثواب نہیں ملے گا تم نے دکھاوے کیلئے کیا وہ مل گیا۔ میرے پاس مسکین آگیا تو میں نے نہیں دینا ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ جب بڑی گاڑی والے نے مانگا تو دے دیا۔ میرا دینا خدا کیلئے نہیں تھا۔ ہمارے پاس چند ظاہری چیزیں رہ گئی ہیں۔ دین کی روح \"نکلی\" ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں روش خدائی نہیں ہے۔ مادہ پرستوں کے پاس جو پیسا دے گا اس کو فنڈ ریز کرنے کیلئے جو اتنے پیسے دے گا۔ آسٹریلیا میں دعائے کمیل کیلئے 50 ڈالر کا ٹکٹ رکھا گیا کہ جو 50 ڈالر کا ٹکٹ خریدے گا پڑہنے والے کے پیچھے بیٹھے گا۔ دعا کمیل میں کہاں بیٹھے گا اس کا ٹکٹ ہوگا۔ یہ ہو رہا ہے۔ یہ عالم ہےاس نے لوگوں کے دلوں میں ہے کہ عزت اس وجہ سے جو پیسا زیادہ دے گا اس کو زیادہ عزت ملے گا۔ اس کو آفیشل کردیا۔
1970 میں میڈیا فحش نہیں تھا اب کیوں ہے؟۔ اگر لوگوں میں فحاشی کی طلب نہ ہو تو وہ نہ دکھائیں۔ اب میڈیا فحش اس لیے ہے کہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے دکھا رہے ہیں کہ اس کو دیکھا جا رہا ہے۔ معاشرے سے فحاشی ختم کرنی ہے تو پہلے اپنی دل سے فحاشی نکالیں۔
اگر کسی بچی کو پتا چل جائے کہ بے حیائی سے اس کی بے عزتی ہوگی تو وہ بے حیائی کرے گی؟ وہ میک اپ کرتی ہی اس لئے ہے کہ اس کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔ میک اپ کر کے بن سنور کر نکلوں گی تو بے عزتی ہوگئ تو وہ بن سنور کر نکلے گی؟
اس کی زبان سے لوگوں کو برائی نہیں ملے گی، ہمارے گھروں میں بچوں کو گالیاں دیتا ہے بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا ہم لوگ شیعہ ہیں
آپ ان احادیث کو پڑہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے آپ کی معاشرے میں بے عزتی ہوگی؟ معاشرہ سچوں کو پسند کرتا ہے تکبر نہ کرنے والوں کو اچھا سمجھتا۔
امام حسن ع کی حدیث ہے کہ اے جوانوں خدا کی قسم ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دین کے پیچھے گیا ہو تو خدا نے اس کو دنیا بھی دے دی ہو اور خدا کی قسم ہم نے نہیں دیکھا کہ جس نے دنیا مانگی ہو اس کو دین بھی ملا ہو۔
جو دین کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے اور جو دنیا کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے۔
استاد محترم حجتہ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی کے درس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
More...
Description:
شیعہ کون؟ امام باقر ع کی حدیث
سید علی مرتضی زیدی
پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے دین کی محبت اور آئمہ کی محبت سے نوازا ہے۔ آج کا مبارک اور نورانی دن ہے امام علی رضا کی ولادت کا دن ہے۔ امام کے القاب میں سے ایک لقب یا معین االضعفا و لفقرا ہے ہے جس کی معنی ہے ضعیفوں اور وطن سے دور لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں۔
آج کا دن امام علی رضا سے عیدی حاصل کرنے کا دن ہے۔ ہم اس دنیا کے اندر چند دن رہیں گے اور کہیں جائیں گے یہ چند دن امتحان ہیں اس امتحان کو گذارنے کیلئے ہم کو اہلبیت کی مودت دے۔ ہم سے اللہ پاک نے کچھ امتحان چاہے تھے۔ ہم سے جو خدا نے چاہا ہم نے سمجھا کہ اس کا امتحان نہیں ہوگا اور جو خدا نے نہیں چاہا ہم نے سمجھا کہ اصل امتحان اس کا ہوگا۔
نھج البلاغہ سے سیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھا۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کیا چاہا تھا کہ یہ واجب ہے اور ہم کس کو واجب سمجھتے ہیں؟
کوئی آدمی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس کو دے گا۔
انسان کسی کام میں مہارت کس طرح لیتا ہے؟۔ مجھے بولتے ہوئے پچیس برس ہوئے ہیں۔ جو بچپنے میں سنتے تھے اب وہ بچوں والے ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر کس کام کو دس ہزار گھنٹے بجا لائے تو وہ اس میں ماہر ہوجاتا ہے۔ ایک کرکیٹر نے کہا کہ میں روزانہ300بالیں کھیلتا ہوں۔ جو محنت کرے گا وہ بن جائیگا۔
آپ زندگی کا اصل وقت کہاں لگا رہے ہو، اگر کوئی بچہ روزانہ 8 گھنۓ وڈیو گیم کھیلتا ہے تو اس نے اس کام کو واجب سمجھا ہوا ہے۔ ایک آدمی کو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ سو رہا ہے تو اس نے سونا واجب سمجھا ہوا ہے۔ دیہات میں ایک چائے کے کپ پر لوگ دو فلمیں دیکھتے ہیں اس کی زندگی میں یہ واجب ہے۔ اس کی قیمت وہ چیز ہے جس کو اس نے واجب سمجھا ہے جس بچے نے گیم کو واجب سمجھا ہے اس کی قیمت وڈیو گیم ہے۔ آپ تلاش کریں کہ آپ کی زندگی میں کیا واجب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک چیز کو واجب سمجھا جاتا ہے کمانے کو واجب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اچھا کما لے تو صحی اگر اچھا نہ کما سکے تو وہ صحی نہیں۔ معاشرے اور مساجد میں عزت اس کو ملتی ہے جو زیادہ کماتا ہے۔ ہم جس نماز کو واجب سمجھتے ہیں اس کی محفل میں بھی ہم واجب اس کو سمجھتے ہیں اور عزت اس کو دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے۔ امام ع نے فرمایا کہ جس کو خدا نے واجب قرار دیا تھا اسے تم نے تو ایسے کنارہ پر لگا دیا ہے جیسے وہ واجب ہی نہیں اور جس کو خدا نے واجب نہیں کیا تھا تم اسے ایسے لے کر بیٹھے ہو جیسے یہی واجب تھا۔
خدا نے کمانا واجب نہیں کیا تھا۔ خدا نے حلال کمانا واجب کیا تھا یا رزق پہنچانے کا واعدہ کیا تھا۔ خدا نے کمانا واجب نہیں کیا ہے اس نے \"محنت کرنا\" واجب کیا ہے اور رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔
ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کر رہے رزق ہم دیں گے۔
جو کماتا اس کو عزت دیں گے۔ جو بچا کما کر نہیں لائے اس کو احترام کم دیتے ہیں۔ رزق کا واعدہ خدا پر ہے۔ ہمارا کام محنت کرنا ہے حلال کمائیں۔ کمانا ذمیداری نہیں ہے محنت کرنا ذمیداری ہے۔
اللہ پاک نے کیا واجب کیا تھا۔ نماز، روزہ، حج واجب کیا تھا۔ جب میں فروع دین گنواتا ہوں تو حج تک بس کر لیتا ہوں ، زکوات اور خمس کی بات کروں گا تو آپ کا موڈ خراب ہوجائیگا۔ جہاد کی بات کی تو پھر ساری دنیا مخالف ہوجائیگی۔ ان سے زیادہ کچھ اور واجب ہے۔
میں طالبعلم رہا ۔ 17 برس میں طالبعلم رہا اب 55 برس کا ہوں اگر مجھ میں اور دوسرے میں فرق نہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہو تم نے وقت کہاں گذارا ؟
بچے اسکول میں جائیں گے۔ کچھ جابس میں کچھ کاروبار اور کچھ پرائیوٹ جاب کریں گے۔ ہمارے دوست بھی رشوت لیتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ اپنے آپ سے سوال کریں۔ ہم اہلبیت کے ماننے والے ہیں فرق کہاں ہونا چاہئے۔ ہم چند فرق بیان کریں گے۔
معصومیں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماننے والے کو کیسے پہچانیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ میں نے ملک کے صدر سے رشتہ جورا وہ مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میں ہاتھ کھولتا ہوں اور روزہ پانچ منٹ دیر سے کھولتا ہوں یہ رشتہ انہوں نے دیا ہے؟ یا ہم نے بنایا ہے
آئمہ ہم کو کب اپنا مانتے ہیں۔ اگر ہم ایک دن گذاریں اور اہلبیت کی ایک روایت بھی نہیں پڑہی تو آپ نے زندگی کا ایک دن ضائع کیا۔ تم خزانے پر بیٹھے تھے اور کہا کہ میں فقیر ہوں میں فقیر ہوں مگر اس خزانے سے کچھ نہیں لیا۔ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں۔ کیا ہم احمق ہیں؟ جو اہلبیت نے خزانہ دیا ہے اس کو ہم نے پڑہا ہے؟۔ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے من لا یحضر الفقیہ جس کی معنی ہیں جب فقیہ نہ ہو۔ ہم نے کبھی پڑہی ہے۔
مولا علی ع نے 250 خطبے مدرسوں میں بیٹھ کر دیئے بلکہ یہ بازار، مسجد، میدان جنگ میں دیئے ہیں ۔ کیا مولا کی وہ گیدہرنگ سلیکٹیڈ تھی۔ دنیا کے علم پڑہنے کو تیار ہیں مگر نہیں پڑہ رہے تو ان کا علم۔ کاش دنیا میں ہی بہتر ہوجاتے وہ بھی نہیں بنائی؟ ہم دعویدار ہیں کہ ان کے ماننے والے ہیں۔
لإمام الباقر (عليه السلام):
🔰«كيف من انتحل قول الشيعة و أحبنا أهل البيت؟ فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ و أطاعه، و ما كانوا يُعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشّع والإنابة و كثرة ذكر اللّہ والصوم و الصلاة و البرّ بالوالدين وتعاهد الجيران من الفقراء و ذوي المسكنة والغارمين و الأيتام، وصدق الحديث وتلاوة القرآن وكفّ الألسن عن الناس الا من خير.» (السرائر ٣-٣٣٦)
🔹ای جابر!جو شخص شیعہ ہونے کا دعویدار ہے کیا اُس کیلئے کافی ہے کہ وہ صرف ہم اھلبیت علیھم السّلام کی محبّت کا دم بھرے؟! اللّہ کی قسم!ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقوا اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے۔اے جابر!انہیں پہچانا نہیں جاتا مگر انکساری ،خشوع،امانت داری،ذکرالٰہی میں کثرت،روزہ،نماز،والدین کے ساتھ نیکی،پڑوسیوں فقیروں در ماندہ افراد قرضداروں اور یتتموں سے اچھا سلوک،سچی بات،قرآن کی تلاوت اور اپنی زبانوں کو صرف لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے علاوہ روکنے سے پہچانا جاتا ہے-
پیسہ کا تکبر دکھائیں گے؟ دنیا میں پاکیزہ چیزیں علم اور تقوی ہے اگر ان پر بھی تکبر دکھائے تو ذلیل ہے۔ پیسہ پست چیز ہے جو اس پر تکبر دکھائے وہ تو ذلیل پھر ذلیل ہے۔ دنیا میں پاکیزہ علم اور تقوی پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام شیطان کے برابر ہے۔ دولت اور ذلیلوں کے درمیان شہرت پانے پر تکبر دکھائے تو اس کا مقام کیا ہے یہ تو گندی نالی کے کیڑے کے برابر ہے۔ ایمانداروں میں شہرت دکھائے۔
خوف خدا کیا ہےَ حج پر جائیں بدترین لوگ بھی ادہر توبہ کریں گے۔ منی کے میدان توبہ کرتے ہیں۔ بھائی جب تنھائی میں گناہ کرتے ہو خدا یاد آتا ہے کہ نہیں۔ کمزور کے سامنے کھڑے ہو کر گناہ نہ کرو۔ سب کے سامنے رہ کر پاکیزہ رہنا نہیں بلکہ اکیلے رہ کر پاکیزہ رہنا۔۔ کسی نے کہا کہ یہ چیز لو گے 100 کی ملے گی میں نے وہ چیز 95 کی لوں اور رسید بنوائوں 100 روہے کی۔ دوسرے کو 100 میں دی۔ میں نے 5 روپے پر اپنا دین بیچا ہے کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کو خدا جانتا ہے اور میں نے اس پر بھروسہ کیا تھا مگر اس نے 5 روپے کا چونا لگانے کا موقع ملا تو اس نے 5 روپے کا چونا لگایا۔ ہم کہتے ہیں سیاستدان ذلیل ہیں۔ تم کو 5 روپے کھانے کا موقع ملا تھا تم نہیں چھوڑا تھا۔ ان کو کیوں گالیاں دے رہے ہو؟۔ عالم یہ ہے کہ مسجد کے کام کیلئے کسی کو 4 روپے دو تو بھول جائو۔ جب تک یہ پورا بل نہیں بنائےگا واپس نہیں آئیگا۔
اس کے بعد ہم کہیں کہ ہم کو خوف خدا ہے۔ کسی آدمی کی عزت میرے ہاتھ آجائے پھر دیکھنا۔ خوف خدا کسی کی عزت کو چھپانا ہوتا ہے یا اچھالنا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے تھوڑی رقم پر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
ضیاالحق کی معنی ہیں حق کی روشنی ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ نام غلط بندے کیساتھ لگ گیا اب کوئی رکھے گا یہ نام؟ ہم نے زندگی میں صرف دو بار خدا سے سرگوشیوں میں بات کی ہے۔ کیا ہم تنھائی میں خدا سے کلام کرتے ہیں؟۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں عالم اور کتاب نہیں ہیں۔ تم خدا سے کلام کرو تم کو کیا چاہئے؟ اکیلے میں بیٹھو اللہ سے کلام کرو۔ کیوں نہیں کرتے۔ دماغ میں اتنی اور چیزیں بھری ہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خدا سے سجدے میں کلام کریں۔ ایک منٹ سجدہ میں گذرا تو دیکھیں۔ ہمارے دماغ میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے کہ اس میں خدا نہیں آسکتا۔ لوگ سنتے سنتے بوڑہے ہوگئے تو پھر ہم نے ان کو کیا سکھایا؟
٭ذکر خدا اس کو کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی کام کروں تو اللہ یاد آئے۔ ذکر کو انگریزی میں ریمائنڈر کہتے ہیں جس کی معنی ہیں یاد دلانا۔ اس کو بار بار یاد آئے کہ خدا ہے۔ ادہر ( مسجد میں ) اللہ یاد آے کمال ہے یا باہر اللہ یاد آئے کیا کمال ہے؟ یہ مہارت نہیں بلکہ باہر خدا یاد آتا یے؟۔ مسکین بندہ آپ کے پاس آیا۔ یاد آیا خدا کے کمزور پر رحم کرنا، رشتیداروں میں بھی طاقتور اور کمزور کون ہے یہ سب پیسے پر ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ خاندان میں بڑا کون ہے۔ اب طاقتور کون ہے اس نے بول دیا تو اس کی چلے گی۔ طاقت کے بل پر احترام ملے تو یہ کمینے پن کا زمانہ ہے۔ دولت چوری سے آتی ہے۔ ہم دین کے نام پر بھی وہ سننا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
والدین سے نیکی کرنا کوئی زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں سے برائی کرتے تھے مگر والدین اور بیوی بچوں سے برائی نہیں کرتے تھے۔ اب وہ کیمنے پن کا زمانہ ہے کہ انسان صرف اپنے آپ سے باوفا ہے۔ جو ہم کو ان مسائل سے نکال سکتے ہیں ان سے ہمارا تمسک نہیں ہے۔ ہمارا اہلبیت سے تمسک رہ گیا ہے صرف دینا لینے کیلئے۔ ہم علم پر، زیارتوں پھی جاتے ہیں دنیا لینے کیلئے۔ کیا خدا نے ان کو دنیا دینے کیلئے بھیجا تھا۔ ہمارا تعلق کونسا ہے۔
ہمارے ہاں کمزوروں اور مسکیوں کی مدد کرتا ہے واٹس اپ پر ڈالتا ہے۔ کوئی کام کرتا ہے اس کے نیچے تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے۔ اللہ کیلئے تھا تو تختی پر نام کیوں؟ مرحوم کے فاتحہ کیلئے نام نہ لیا تو ناراض۔ کیا فرشتوں کو حساب کتاب میں بھول ہوتی ہے؟۔
دین خدا میں اللہ نیکیاں دیکھتا ہے۔ دکھاوا کریں کوئی ثواب نہیں ملے گا تم نے دکھاوے کیلئے کیا وہ مل گیا۔ میرے پاس مسکین آگیا تو میں نے نہیں دینا ہے یہ مجھے کیا دے گا؟ جب بڑی گاڑی والے نے مانگا تو دے دیا۔ میرا دینا خدا کیلئے نہیں تھا۔ ہمارے پاس چند ظاہری چیزیں رہ گئی ہیں۔ دین کی روح \"نکلی\" ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں روش خدائی نہیں ہے۔ مادہ پرستوں کے پاس جو پیسا دے گا اس کو فنڈ ریز کرنے کیلئے جو اتنے پیسے دے گا۔ آسٹریلیا میں دعائے کمیل کیلئے 50 ڈالر کا ٹکٹ رکھا گیا کہ جو 50 ڈالر کا ٹکٹ خریدے گا پڑہنے والے کے پیچھے بیٹھے گا۔ دعا کمیل میں کہاں بیٹھے گا اس کا ٹکٹ ہوگا۔ یہ ہو رہا ہے۔ یہ عالم ہےاس نے لوگوں کے دلوں میں ہے کہ عزت اس وجہ سے جو پیسا زیادہ دے گا اس کو زیادہ عزت ملے گا۔ اس کو آفیشل کردیا۔
1970 میں میڈیا فحش نہیں تھا اب کیوں ہے؟۔ اگر لوگوں میں فحاشی کی طلب نہ ہو تو وہ نہ دکھائیں۔ اب میڈیا فحش اس لیے ہے کہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے دکھا رہے ہیں کہ اس کو دیکھا جا رہا ہے۔ معاشرے سے فحاشی ختم کرنی ہے تو پہلے اپنی دل سے فحاشی نکالیں۔
اگر کسی بچی کو پتا چل جائے کہ بے حیائی سے اس کی بے عزتی ہوگی تو وہ بے حیائی کرے گی؟ وہ میک اپ کرتی ہی اس لئے ہے کہ اس کو عزت چاہیے ہوتی ہے۔ میک اپ کر کے بن سنور کر نکلوں گی تو بے عزتی ہوگئ تو وہ بن سنور کر نکلے گی؟
اس کی زبان سے لوگوں کو برائی نہیں ملے گی، ہمارے گھروں میں بچوں کو گالیاں دیتا ہے بیوی کو گالیاں دیتا ہے۔ کیا ہم لوگ شیعہ ہیں
آپ ان احادیث کو پڑہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے آپ کی معاشرے میں بے عزتی ہوگی؟ معاشرہ سچوں کو پسند کرتا ہے تکبر نہ کرنے والوں کو اچھا سمجھتا۔
امام حسن ع کی حدیث ہے کہ اے جوانوں خدا کی قسم ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی دین کے پیچھے گیا ہو تو خدا نے اس کو دنیا بھی دے دی ہو اور خدا کی قسم ہم نے نہیں دیکھا کہ جس نے دنیا مانگی ہو اس کو دین بھی ملا ہو۔
جو دین کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے اور جو دنیا کے پیچھے ہے اس کی لائن اور ہے۔
استاد محترم حجتہ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی کے درس سے انتخاب
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان
5:11
|
عزاداری سے متعلق اسلام کا زاویہ نگاہ | آیت اللہ مصباح یزدیؒ | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ کسی فعل یا عمل سے متعلق انسان کا زاویہ نگاہ اسکی اہمیت اور قدر و قیمت میں اثر انداز ہوتا ہے۔...
اس میں شک نہیں کہ کسی فعل یا عمل سے متعلق انسان کا زاویہ نگاہ اسکی اہمیت اور قدر و قیمت میں اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر کسی عمل سے متعلق انسان کا زاویہ نگاہ اسی دنیا تک محدود ہو تو اسی تناسب سے اسکی اہمیت اور قدر و قیمت بھی دنیا تک ہی محدود رہتی ہے اور طبیعی طور پر اس پر جو آثار مترتب ہونگے وہ بھی دنیا تک ہی محدود رہینگے، لیکن اس فعل سے متعلق زاویہ نگاہ دنیا سے بالاتر ہو تو اسکی اہمیت نیز اسکے آثار اور نتائج صرف دنیا تک محدود نہیں رہینگے بلکہ انسان کی ابدی سعادت تک اسکا دائرہ پھیلتا جائیگا۔ بہرحال زاویہ نگاہ کا فرق، انسانی افعال کی قدر و قیمت کو کم اور زیادہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور یہی قاعدہ عزاداری اور مصیبت اور شادی و مسرت کے مسئلے میں بھی کار فرما ہے۔
عام طور پر دنیا میں خوشی اور غم کے مسئلے کو دنیوی سہولتوں اور مشکلات تک محدود کیا جاتا ہے تاہم دین اسلام نے اسے ایک عظیم زاویے سے دیکھتے ہوئے ان تمام چیزوں کو ابدی سعادت کا ذریعہ جانا ہے۔ اسلام کے نقطہ نظر سے غم و اندوہ اور شادی اور مسرت کی قدر و قیمت کا معیار کیا ہے؟ اور اسکا دائرہ اثر کس قدر وسیع ہوسکتا ہے اور دنیا میں انسانی شخصیت کی تعمیر، کس طرح ابدی سعادت اور آخرت کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے؟
ان تمام سوالوں کے جوابات کوعلامہ تقی مصباح یزدی رضوان اللہ تعالی علیہ کے علمی بیانات پر مشتمل اس ویڈیو میں آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
#ویڈیو #مصباح_یزدی #قدر_قیمت #دنیا #اخرت #ابدی_سعادت #عزاداری #اثار #ہمدردی #محدود #معیار
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ کسی فعل یا عمل سے متعلق انسان کا زاویہ نگاہ اسکی اہمیت اور قدر و قیمت میں اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر کسی عمل سے متعلق انسان کا زاویہ نگاہ اسی دنیا تک محدود ہو تو اسی تناسب سے اسکی اہمیت اور قدر و قیمت بھی دنیا تک ہی محدود رہتی ہے اور طبیعی طور پر اس پر جو آثار مترتب ہونگے وہ بھی دنیا تک ہی محدود رہینگے، لیکن اس فعل سے متعلق زاویہ نگاہ دنیا سے بالاتر ہو تو اسکی اہمیت نیز اسکے آثار اور نتائج صرف دنیا تک محدود نہیں رہینگے بلکہ انسان کی ابدی سعادت تک اسکا دائرہ پھیلتا جائیگا۔ بہرحال زاویہ نگاہ کا فرق، انسانی افعال کی قدر و قیمت کو کم اور زیادہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور یہی قاعدہ عزاداری اور مصیبت اور شادی و مسرت کے مسئلے میں بھی کار فرما ہے۔
عام طور پر دنیا میں خوشی اور غم کے مسئلے کو دنیوی سہولتوں اور مشکلات تک محدود کیا جاتا ہے تاہم دین اسلام نے اسے ایک عظیم زاویے سے دیکھتے ہوئے ان تمام چیزوں کو ابدی سعادت کا ذریعہ جانا ہے۔ اسلام کے نقطہ نظر سے غم و اندوہ اور شادی اور مسرت کی قدر و قیمت کا معیار کیا ہے؟ اور اسکا دائرہ اثر کس قدر وسیع ہوسکتا ہے اور دنیا میں انسانی شخصیت کی تعمیر، کس طرح ابدی سعادت اور آخرت کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے؟
ان تمام سوالوں کے جوابات کوعلامہ تقی مصباح یزدی رضوان اللہ تعالی علیہ کے علمی بیانات پر مشتمل اس ویڈیو میں آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
#ویڈیو #مصباح_یزدی #قدر_قیمت #دنیا #اخرت #ابدی_سعادت #عزاداری #اثار #ہمدردی #محدود #معیار
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
azadari,
islam,
negah,
Ayatollah
Misbah
Yazdi,
donya,
akherat,
asar,
hamdardi,
mahdud,
meyar,
1:57
|
استکبارِ جہانی سے دو بدو جنگ کی آرزو | شہید مہدی زین الدین | Farsi Sub Urdu
دنیا کے امن و امان اور خوشحالی کو تہہ و بالا کرنے والی دنیا کی شیطانی طاقتیں، اقتدار اور طاقت کے حصول کی ہوا...
دنیا کے امن و امان اور خوشحالی کو تہہ و بالا کرنے والی دنیا کی شیطانی طاقتیں، اقتدار اور طاقت کے حصول کی ہوا و ہوس میں دنیا میں جنگ، قتل و غارت گری اور تباہی کی ذمہ دار ہیں. انسانی اقدار کی پامالی اور دنیا میں ظلم و بربریت کے فروغ میں دنیا کی ان شیطانی طاقتوں کا بنیادی کردار رہا ہے.
ایسی شیطانی طاقتوں سے مبارزہ اور ان کے مقابل استقامت دکھلانے کی فکر عصر حاضر میں مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے دنیا کو عطا کی. مکتب عاشورہ کے یہ شاگرد اسلامی انقلاب کے زیر سایہ آج بھی دنیا کی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے مقابل سینہ سپر ہیں.
دنیا کی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور اسرائیل سے دوبدو مقابلے کی آرزو کے اظہار اور بیان سننے کے لیے سپہ سالار شہید مہدی زین الدین کی اس یادگار ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #شہید_زین_الدین #افتخار #مجاہدین #گریبان #استکبار_جہانی #امریکہ #اسرائیل #افسانوی #کھو_کھلی_طاقت
More...
Description:
دنیا کے امن و امان اور خوشحالی کو تہہ و بالا کرنے والی دنیا کی شیطانی طاقتیں، اقتدار اور طاقت کے حصول کی ہوا و ہوس میں دنیا میں جنگ، قتل و غارت گری اور تباہی کی ذمہ دار ہیں. انسانی اقدار کی پامالی اور دنیا میں ظلم و بربریت کے فروغ میں دنیا کی ان شیطانی طاقتوں کا بنیادی کردار رہا ہے.
ایسی شیطانی طاقتوں سے مبارزہ اور ان کے مقابل استقامت دکھلانے کی فکر عصر حاضر میں مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے دنیا کو عطا کی. مکتب عاشورہ کے یہ شاگرد اسلامی انقلاب کے زیر سایہ آج بھی دنیا کی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے مقابل سینہ سپر ہیں.
دنیا کی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور اسرائیل سے دوبدو مقابلے کی آرزو کے اظہار اور بیان سننے کے لیے سپہ سالار شہید مہدی زین الدین کی اس یادگار ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #شہید_زین_الدین #افتخار #مجاہدین #گریبان #استکبار_جہانی #امریکہ #اسرائیل #افسانوی #کھو_کھلی_طاقت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
America,
Imam,
Imam
Khamenei,
Islam,
Islami
jumhuri,
enqelab,
enqelab
Islami,
shaheed,
shaheed
mehdi
zainudin,
esteqbar,
iran,
quds,
mulk,
sefarat,
18:21
|
[Clip] Imam Zamana (ajf) ke Nasir kon hain | Molana Ali Murtaza Zaidi | Urdu
اکستان میں نئی حکومت بنی ہے سب لوگ نیا نیا کی کہ کرتے ہیں مگر اپنے اندر سے اچھا ہونے کی بات نہیں کرتے۔ جو امام...
اکستان میں نئی حکومت بنی ہے سب لوگ نیا نیا کی کہ کرتے ہیں مگر اپنے اندر سے اچھا ہونے کی بات نہیں کرتے۔ جو امام پوری دنیا پر عدل کی حکومت ہوگی مگر وہ ظالم سے مدد نہ لیں گے۔
زمین پر عدل پہیلانے کا وارث ظالم سے مدد نہیں لے گا۔ ہر وہ چیز جو سمجھ رہے ہیں اس ظلم سے لڑیں اندر کے ظلم سے بھی اور باہر کے ظلم سے بھی۔
دنیا کی محبت، لالچ اور طمع ہے تو عدل نہیں کرسکتے۔
اللہ امام کی محبت کیوجہ سے لوگوں کے دلوں کو بے نیاز کر دے گا۔ دنیا میں رہیں مگر دنیا کیلئے نہ رہیں۔
دعائے مکارم الاخلاق کی اسٹڈی کریں۔ دعائیں مانگیں۔
مولانا ایک تعویذ دے دیں۔ زمین پر سوشل جسٹس کی باتیں۔
اگر میں ماں کی عزت نہیں کروں تو کوئی تعویذ کام کرے گا۔ حرض۔ اور تعویذ کام آتے ہیں پہلے عمل کریں۔
دلوں میں بے نیازی ہو۔ دنیا کیلئے حریص نہ ہوں۔ کام کرو، بزنس کرو خوب کمائو اللہ کیلئے خرچ کریں۔
ہم نے اللہ کو مالک نہیں سمجھا خود کو مالک سمجھا ہوا ہے
توحید کو اور مالکیت کو سمجھو، دنیا پرستی نکالو، قربانی کریں۔ ہمارے پاس ہر چیئرٹی کے پیچھے بینر ہیں۔ روح کو زندگی دیں۔ اپنے اندر بے نیازی لائیں اور اللہ کے فقیر بن جائیں
اللہ جب تک ژندہ رکھ ان کاموں کیلئے جن کیلئے تم نے بنایا تھا
میرا ابجیکٹو شہرت نہیں بلکہ دین کو بیان کرنا۔
خدا جب زندگی شیطان کی چراگاہ بن جائے اور شیطان کو فیڈنگ ہو رہی ہے تو خاتمہ کردے۔
ہم نے منبر کو پرفارمینس دکھانے کا اسٹیج بنا دیا ہے۔
ان آبجیکٹو پر کام کروں جن کیلئے پیدا کیا ہے۔
غنا اور بے نیازی ہوگی تو امام کی نصرت کریں گے۔ دنیا کی چیزیں ہم کو لالچ میں نہ ڈالیں۔
More...
Description:
اکستان میں نئی حکومت بنی ہے سب لوگ نیا نیا کی کہ کرتے ہیں مگر اپنے اندر سے اچھا ہونے کی بات نہیں کرتے۔ جو امام پوری دنیا پر عدل کی حکومت ہوگی مگر وہ ظالم سے مدد نہ لیں گے۔
زمین پر عدل پہیلانے کا وارث ظالم سے مدد نہیں لے گا۔ ہر وہ چیز جو سمجھ رہے ہیں اس ظلم سے لڑیں اندر کے ظلم سے بھی اور باہر کے ظلم سے بھی۔
دنیا کی محبت، لالچ اور طمع ہے تو عدل نہیں کرسکتے۔
اللہ امام کی محبت کیوجہ سے لوگوں کے دلوں کو بے نیاز کر دے گا۔ دنیا میں رہیں مگر دنیا کیلئے نہ رہیں۔
دعائے مکارم الاخلاق کی اسٹڈی کریں۔ دعائیں مانگیں۔
مولانا ایک تعویذ دے دیں۔ زمین پر سوشل جسٹس کی باتیں۔
اگر میں ماں کی عزت نہیں کروں تو کوئی تعویذ کام کرے گا۔ حرض۔ اور تعویذ کام آتے ہیں پہلے عمل کریں۔
دلوں میں بے نیازی ہو۔ دنیا کیلئے حریص نہ ہوں۔ کام کرو، بزنس کرو خوب کمائو اللہ کیلئے خرچ کریں۔
ہم نے اللہ کو مالک نہیں سمجھا خود کو مالک سمجھا ہوا ہے
توحید کو اور مالکیت کو سمجھو، دنیا پرستی نکالو، قربانی کریں۔ ہمارے پاس ہر چیئرٹی کے پیچھے بینر ہیں۔ روح کو زندگی دیں۔ اپنے اندر بے نیازی لائیں اور اللہ کے فقیر بن جائیں
اللہ جب تک ژندہ رکھ ان کاموں کیلئے جن کیلئے تم نے بنایا تھا
میرا ابجیکٹو شہرت نہیں بلکہ دین کو بیان کرنا۔
خدا جب زندگی شیطان کی چراگاہ بن جائے اور شیطان کو فیڈنگ ہو رہی ہے تو خاتمہ کردے۔
ہم نے منبر کو پرفارمینس دکھانے کا اسٹیج بنا دیا ہے۔
ان آبجیکٹو پر کام کروں جن کیلئے پیدا کیا ہے۔
غنا اور بے نیازی ہوگی تو امام کی نصرت کریں گے۔ دنیا کی چیزیں ہم کو لالچ میں نہ ڈالیں۔
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و...
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
More...
Description:
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای : Islamic Awakening and Youth Conference
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
More...
Description:
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
23:14
|
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali Khamenei - Urdu translation
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں،...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
More...
Description:
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
85:35
|
نور الولایہ لائیو نشریات 8 رمضان 1441 | Urdu
تاریخ: 8 ماہ رمضان 1441 | 2, مئی 2020
میزبان:
مولانا سید زائر عباس
پہلا سیشن
ماہ رمضان اور تربیت و تزکیہ...
تاریخ: 8 ماہ رمضان 1441 | 2, مئی 2020
میزبان:
مولانا سید زائر عباس
پہلا سیشن
ماہ رمضان اور تربیت و تزکیہ
*مہمان علماء:*
- مولانا سید رضا مهدی رضوی
- مولانا سید ارتضی حسن رضوی
آج کے سوالات:
تزکیہ و تربیت پروگرام کے سوال
1۔ دعا کیوں ضروری ہے؟
2۔ استجابت دعا کی شرائط کیا ہیں ؟
3۔ دعاوں کی باقی روایات پر برتری کیسے ہے؟
4- دعای استقبال ماه رمضان امام سجاد علیه السلام.
- ماہ رمضان کی کیا فضیلتیں بیان فرمائیں؟
- ماہ رمضان کی راتوں کے بارے میں اس دعا میں کیا ذکر ہوا ہے؟
دوسرا سیشن
ماہ رمضان اور عقیدتی و سماجی مسائل
مہمان علماء:
- مولانا محمد علی فضل
- مولانا زوار حسین
آج کے سوالات:
1۔ دین اور دنیا کا آپس میں کیا رابطہ ہے؟ آیا دین اور دنیا دو الگ حقیقتیں ہیں یا ایک حقیقت کے دو رخ ہیں؟
2۔ کیا دینداری کا مطلب دنیا سے فرار ہے اور دنیا کی نعمتوں اور لذات سے دوری ہے؟ یا دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے؟ کیا دینداری اور دنیا داری قابل جمع ہیں؟
3۔ کیا دین صرف عبادات تک محدود ہے یا سیاست و حکومت کو بھی شامل ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ عقل اجتماعی اجتماعی مسائل میں انسانی سعادت کے لیے راہ ہموار کر سکتی انبیاء الہی اور ادیان سماوی کی کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ سکولاریزم کا نظریہ ہے؟
4۔ آخر خدا نے دنیا کی حکومت اور مدیریت کو سو فیصد عقل اور تجربے کے حوالے کیوں نہیں کیا؟ اس کے کیا کیا اسباب اور وجوہات ہو سکتی ہیں ؟
تیسرا سیشن
ماہ رمضان کے فقہی مسائل
مہمان علماء:
- مولانا سید ارتضی رضوی
- مولانا غلام جعفر
سوالات:
- مبطلات روز :
روزہ کی حالت میں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اچانک کسی نامناسب تصویر کے آ جانے اور اس پر نظر پڑ جانے کا کیا حکم ہے؟
سوال: کیا سحری کھانے یا نہ کھانے سے روزہ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
جیسا کہ توضیح المسائل میں لکھا ہے کہ انسان چار جگہ پر دس روز کے قصد کے بغیر بھی پوری نماز پڑھ سکتا ہے؟ کیا یہ حکم روزہ کا بھی ہے؟
اگر کوئی عورت حیض یا نفاس کا غسل بھول جائے تو کیا حکم ہے؟
کیا زن مستحاضہ روزہ رکھ سکتی ہے؟
استحا ضہ متوسط اگر غسل نہ کرے تو اسکے روز ہ کا کیا حکم ہے
کیا مستحاضہ قلیلہ کو بھی روزہ کے لیئے غسل کرنا ہوگا؟
:وہ عورت جو حاملہ ہے جو روزہ نہ رکھنے پر عذر شرعی رکھتی ہے اور وہ حاملہ خاتون جسکے لیئے یا اسکے بچے کے لیئے ضرر پہچنے کا ڈر تھا کیا حکم ہے؟
ماہ رمضان میں سفر کرنا کیسا ہے؟
کفارہ اور کفارہ جمع کی تفصیلات بیان فرمائیں ؟
noorulwilayah.tv
More...
Description:
تاریخ: 8 ماہ رمضان 1441 | 2, مئی 2020
میزبان:
مولانا سید زائر عباس
پہلا سیشن
ماہ رمضان اور تربیت و تزکیہ
*مہمان علماء:*
- مولانا سید رضا مهدی رضوی
- مولانا سید ارتضی حسن رضوی
آج کے سوالات:
تزکیہ و تربیت پروگرام کے سوال
1۔ دعا کیوں ضروری ہے؟
2۔ استجابت دعا کی شرائط کیا ہیں ؟
3۔ دعاوں کی باقی روایات پر برتری کیسے ہے؟
4- دعای استقبال ماه رمضان امام سجاد علیه السلام.
- ماہ رمضان کی کیا فضیلتیں بیان فرمائیں؟
- ماہ رمضان کی راتوں کے بارے میں اس دعا میں کیا ذکر ہوا ہے؟
دوسرا سیشن
ماہ رمضان اور عقیدتی و سماجی مسائل
مہمان علماء:
- مولانا محمد علی فضل
- مولانا زوار حسین
آج کے سوالات:
1۔ دین اور دنیا کا آپس میں کیا رابطہ ہے؟ آیا دین اور دنیا دو الگ حقیقتیں ہیں یا ایک حقیقت کے دو رخ ہیں؟
2۔ کیا دینداری کا مطلب دنیا سے فرار ہے اور دنیا کی نعمتوں اور لذات سے دوری ہے؟ یا دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے؟ کیا دینداری اور دنیا داری قابل جمع ہیں؟
3۔ کیا دین صرف عبادات تک محدود ہے یا سیاست و حکومت کو بھی شامل ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ عقل اجتماعی اجتماعی مسائل میں انسانی سعادت کے لیے راہ ہموار کر سکتی انبیاء الہی اور ادیان سماوی کی کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ سکولاریزم کا نظریہ ہے؟
4۔ آخر خدا نے دنیا کی حکومت اور مدیریت کو سو فیصد عقل اور تجربے کے حوالے کیوں نہیں کیا؟ اس کے کیا کیا اسباب اور وجوہات ہو سکتی ہیں ؟
تیسرا سیشن
ماہ رمضان کے فقہی مسائل
مہمان علماء:
- مولانا سید ارتضی رضوی
- مولانا غلام جعفر
سوالات:
- مبطلات روز :
روزہ کی حالت میں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اچانک کسی نامناسب تصویر کے آ جانے اور اس پر نظر پڑ جانے کا کیا حکم ہے؟
سوال: کیا سحری کھانے یا نہ کھانے سے روزہ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
جیسا کہ توضیح المسائل میں لکھا ہے کہ انسان چار جگہ پر دس روز کے قصد کے بغیر بھی پوری نماز پڑھ سکتا ہے؟ کیا یہ حکم روزہ کا بھی ہے؟
اگر کوئی عورت حیض یا نفاس کا غسل بھول جائے تو کیا حکم ہے؟
کیا زن مستحاضہ روزہ رکھ سکتی ہے؟
استحا ضہ متوسط اگر غسل نہ کرے تو اسکے روز ہ کا کیا حکم ہے
کیا مستحاضہ قلیلہ کو بھی روزہ کے لیئے غسل کرنا ہوگا؟
:وہ عورت جو حاملہ ہے جو روزہ نہ رکھنے پر عذر شرعی رکھتی ہے اور وہ حاملہ خاتون جسکے لیئے یا اسکے بچے کے لیئے ضرر پہچنے کا ڈر تھا کیا حکم ہے؟
ماہ رمضان میں سفر کرنا کیسا ہے؟
کفارہ اور کفارہ جمع کی تفصیلات بیان فرمائیں ؟
noorulwilayah.tv
3:19
|
"جدید عالمی نظام" میں "ایران کا مقام" | امام سید علی خامنہ ای" | Farsi Sub Urdu
اس میں شک نہیں کہ دنیا کا موجودہ نظام بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا کے سیاسی نقشے میں تبدیلی واقع...
اس میں شک نہیں کہ دنیا کا موجودہ نظام بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا کے سیاسی نقشے میں تبدیلی واقع ہورہی ہے اور دنیا میں اپنے کو سپر پاور کہلانے والا ملک روز بروز زوال کی طرف جارہا ہے اور دنیا ایک نئے اور جدید نظام کی جانب حرکت کر رہی ہے جس میں امریکہ سمیت مغربی ممالک کا سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی انحطاط واضح ہے اور سیاسی،اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی استحکام کا رخ مغرب سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور مقاومتی بلاک کے تفکر میں اضافہ اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
اب ایسے میں دنیا کی سطح پر رونما ہونے والے دنیا کے نئے اور جدید نقشے میں ہمارا کردار کیا ہونا چاہئے؟ اور اس میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مقام کہاں ہے؟ اور ہم اس نئے نظام میں نمایاں مقام کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ وہ فکرانگیز سوالات ہیں جو اس ویڈیو میں رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای نے ہمارے سامنے رکھ دئے ہیں جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہے۔
#ویڈیو #رہبر #سید_علی_خامنہ_ای #جدید_نظام #ایران #زوال # #امریکہ #مقاومت#وسعت #تیار #مقام
More...
Description:
اس میں شک نہیں کہ دنیا کا موجودہ نظام بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا کے سیاسی نقشے میں تبدیلی واقع ہورہی ہے اور دنیا میں اپنے کو سپر پاور کہلانے والا ملک روز بروز زوال کی طرف جارہا ہے اور دنیا ایک نئے اور جدید نظام کی جانب حرکت کر رہی ہے جس میں امریکہ سمیت مغربی ممالک کا سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی انحطاط واضح ہے اور سیاسی،اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی استحکام کا رخ مغرب سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور مقاومتی بلاک کے تفکر میں اضافہ اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
اب ایسے میں دنیا کی سطح پر رونما ہونے والے دنیا کے نئے اور جدید نقشے میں ہمارا کردار کیا ہونا چاہئے؟ اور اس میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مقام کہاں ہے؟ اور ہم اس نئے نظام میں نمایاں مقام کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ وہ فکرانگیز سوالات ہیں جو اس ویڈیو میں رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای نے ہمارے سامنے رکھ دئے ہیں جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہے۔
#ویڈیو #رہبر #سید_علی_خامنہ_ای #جدید_نظام #ایران #زوال # #امریکہ #مقاومت#وسعت #تیار #مقام
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
America,
Imam,
Imam
Khamenei,
rahbar,
jadid
nezam,
america,
wosat,
maqam,
moqawemat,
iran,
2:39
|
عزت کی موت | امام خمینیؒ | Farsi Sub Urdu
انسان اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا، انسان کواس دنیا میں ایک محدود مدت تک کے لئے بھیجا گیا ہے اور وہ...
انسان اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا، انسان کواس دنیا میں ایک محدود مدت تک کے لئے بھیجا گیا ہے اور وہ اس دنیا میں کئی سالوں پر محیط زندگی گزارنے کے بعد آخر کار اس دنیا سے چلا جائے گا۔ اور جب انسان کو ایک نہ ایک دن دنیا سے جانا ہی ہے تو کتنا ہی بہتر ہوگا کہ وہ شہادت کی موت کو گلے لگاتے ہوئے خدا کےحضور حاضر ہو جائیں جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی اس کے لئے نیک نامی حاصل ہو اور آخرت میں بھی خدا کی رحمت سے ہم کنار ہوجائے۔
چنانچہ اس سلسلے میں ہمیں تاریخ سے کس طرح عبرت حاصل کرنی چاہئے اور مجاہدین اسلام کی زندگی کس طرح ہمارے لئے نمونہ عمل بن سکتی ہے؟ آئیں دیکھتے ہیں رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی اس ویڈیو میں۔
#ویڈیو #امام_خمینی #موت #مقام #واقعات #سبق #عبرت #تاریخ #معلم #چمران #اسلام #عزت #شرافت #شہداء #وصیت #مطالعہ #شہادت
More...
Description:
انسان اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا، انسان کواس دنیا میں ایک محدود مدت تک کے لئے بھیجا گیا ہے اور وہ اس دنیا میں کئی سالوں پر محیط زندگی گزارنے کے بعد آخر کار اس دنیا سے چلا جائے گا۔ اور جب انسان کو ایک نہ ایک دن دنیا سے جانا ہی ہے تو کتنا ہی بہتر ہوگا کہ وہ شہادت کی موت کو گلے لگاتے ہوئے خدا کےحضور حاضر ہو جائیں جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی اس کے لئے نیک نامی حاصل ہو اور آخرت میں بھی خدا کی رحمت سے ہم کنار ہوجائے۔
چنانچہ اس سلسلے میں ہمیں تاریخ سے کس طرح عبرت حاصل کرنی چاہئے اور مجاہدین اسلام کی زندگی کس طرح ہمارے لئے نمونہ عمل بن سکتی ہے؟ آئیں دیکھتے ہیں رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی اس ویڈیو میں۔
#ویڈیو #امام_خمینی #موت #مقام #واقعات #سبق #عبرت #تاریخ #معلم #چمران #اسلام #عزت #شرافت #شہداء #وصیت #مطالعہ #شہادت
Video Tags:
عزت,
موت,
امام
خمینی,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Izzat,
Mout,
Imam
Khomeini,
Zindagi,
Khuda,
Rahmat,
Tarikh,
Mujahidin,
Chamran,
Islam,
Shohada,
Shahadat,
3:01
|
پہلا طمانچہ | امام خامنہ ای | سید حسن نصراللہ | سید ہاشم الحیدری | Arabic Sub Urdu
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر ۔۔۔...
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر ۔۔۔
دنیا کی خونخوار، انسانیت دشمن عَالَمی طاقتیں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ وہ مظلوم مقاومتی محاذ کے قائدین کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اپنے شیطانی پروپیگنڈوں کے ذریعے ان شہداء کی شخصیت اور چہرے کو بھیانک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں گی لیکن دنیا کی عوام بالخصوص اسلامی دنیا کی عوام نے اِن شہداء کے ساتھ اپنی محبت اور عشق کا بھرپور اظہار کر کے اِن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا اور یہ بتا دیا کہ ہم اِن شیطانی طاقتوں کے آلہ کاروں یعنی داعش، القاعدہ جیسوں کو جو دین کے لبادے میں دین کے دشمن ہیں اور حقیقی اسلامی مزاحمتی محاذ کے مجاہدوں میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ اسلامِ حقیقی کے عظیم سپہ سالار شہید قاسم سلیمانیؒ، ابو مہدی المہندسؒ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دیگر شہداء کے جنازوں میں پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کی شرکت سے اندرونی اور بیرونی تمام دشمن حیرت اور انگشت بدندان ہوگئے!
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم الحیدری حفظہمااللہ کے بیانات سے اپنے ایمان کو منور کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #پہلا_طمانچہ #تشییع_جنازہ #حیرت_انگیز #نا_قابل_فراموش #ایران #عراق #جنگ_نرم #استکبار #شہادت #امریکہ #عوامی_حرکت
More...
Description:
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر ۔۔۔
دنیا کی خونخوار، انسانیت دشمن عَالَمی طاقتیں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ وہ مظلوم مقاومتی محاذ کے قائدین کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اپنے شیطانی پروپیگنڈوں کے ذریعے ان شہداء کی شخصیت اور چہرے کو بھیانک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں گی لیکن دنیا کی عوام بالخصوص اسلامی دنیا کی عوام نے اِن شہداء کے ساتھ اپنی محبت اور عشق کا بھرپور اظہار کر کے اِن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا اور یہ بتا دیا کہ ہم اِن شیطانی طاقتوں کے آلہ کاروں یعنی داعش، القاعدہ جیسوں کو جو دین کے لبادے میں دین کے دشمن ہیں اور حقیقی اسلامی مزاحمتی محاذ کے مجاہدوں میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ اسلامِ حقیقی کے عظیم سپہ سالار شہید قاسم سلیمانیؒ، ابو مہدی المہندسؒ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دیگر شہداء کے جنازوں میں پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کی شرکت سے اندرونی اور بیرونی تمام دشمن حیرت اور انگشت بدندان ہوگئے!
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم الحیدری حفظہمااللہ کے بیانات سے اپنے ایمان کو منور کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #پہلا_طمانچہ #تشییع_جنازہ #حیرت_انگیز #نا_قابل_فراموش #ایران #عراق #جنگ_نرم #استکبار #شہادت #امریکہ #عوامی_حرکت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
pehla
tamacha,
imam
khamenei,
sayyid
hasan
nasrallah,
sayyid
hashim
al
haidari,
khoon,
kucha.
bazaar,
shola,
patthar,
aalami
taqatein,
propaganda,
shohada,
shakhsiyat
kushi,
bhayanak,
islami
dunya,
mohabbat,
ishq,
mazmoom
azaem,
daesh,
isis,
al
qaeda,
dushman,
deen,
haqiqi
islam,
farq,
shaheed
qasim
suleimani,
shaheed
abu
mahdi
al
mohandes,
hairat,
amrika,
israel,
england,
saudi,
4:35
|
امام خمینیؒ اور مسلح افواج کی تشکیل | ڈاکٹر حسن عباسی | Farsi Sub Urdu
کیا امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک افغانستان میں شکست کھا گئے ہیں؟ امریکہ نے افغانستان میں کتنے ڈالرز خرچ...
کیا امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک افغانستان میں شکست کھا گئے ہیں؟ امریکہ نے افغانستان میں کتنے ڈالرز خرچ کئے؟ امریکہ نے افغانستان میں کتنی تعداد پر مشتمل فوج تشکیل دی؟ کیا افغانستان میں امریکی بنائی ہوئی فوج کامیاب ہوئی؟ ایران کی فوج کتنی پرانی فوج ہے؟ سپاہ پاسدارنِ انقلاب کب تشکیل پائی؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکی اور برطانوی افواج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکی دنیا کے جدید ترین طیاروں کو نشانہ بنایا؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکی آرکیو 75 کو زمین پر اتارا؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے عین الاسد پر میزائل داغے؟ سپاہ قدس نے کن کن ممالک میں اپنی خدمات پیش کیں؟ عوامی رضا کار فورس(بسیج) کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ سپاہ خاتم الانبیاء کس طرح کی سرگرمیاں انجام دیتی ہے؟
ڈاکٹر حسن عباسی کی زبانی اِس ویڈیو میں ضرور مشاہدہ کیجئے۔ strategist اِن تمام سوالات کے جوابات ایران کے معروف
#ویڈیو #مسلح_افواج #جمہوریت #شکست #افغانستان #یورپ #زوال #امریکہ #برطانیہ #جرمنی #سپاہ_پاسداران #نیوی #امام_خمینی #قاسم_سلیمانی
More...
Description:
کیا امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک افغانستان میں شکست کھا گئے ہیں؟ امریکہ نے افغانستان میں کتنے ڈالرز خرچ کئے؟ امریکہ نے افغانستان میں کتنی تعداد پر مشتمل فوج تشکیل دی؟ کیا افغانستان میں امریکی بنائی ہوئی فوج کامیاب ہوئی؟ ایران کی فوج کتنی پرانی فوج ہے؟ سپاہ پاسدارنِ انقلاب کب تشکیل پائی؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکی اور برطانوی افواج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکی دنیا کے جدید ترین طیاروں کو نشانہ بنایا؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکی آرکیو 75 کو زمین پر اتارا؟ دنیا کی وہ کونسی فوج ہے جس نے امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے عین الاسد پر میزائل داغے؟ سپاہ قدس نے کن کن ممالک میں اپنی خدمات پیش کیں؟ عوامی رضا کار فورس(بسیج) کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ سپاہ خاتم الانبیاء کس طرح کی سرگرمیاں انجام دیتی ہے؟
ڈاکٹر حسن عباسی کی زبانی اِس ویڈیو میں ضرور مشاہدہ کیجئے۔ strategist اِن تمام سوالات کے جوابات ایران کے معروف
#ویڈیو #مسلح_افواج #جمہوریت #شکست #افغانستان #یورپ #زوال #امریکہ #برطانیہ #جرمنی #سپاہ_پاسداران #نیوی #امام_خمینی #قاسم_سلیمانی
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khomaini,
hasan,
abbasi,
amareka,
Europ,
Afghanistan,
iran,
enqelab,
army,
fooj,
rq75,
Ain
al
Assad,
quds,
basij,
strategist,
4:15
|
ظالم اور مظلوم کی سوچ | امام خمینی رضوان اللہ علیہ | Farsi Sub Urdu
دنیا کے مظلوموں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ خون چوسنے والی بڑی شیطانی طاقتیں ایک ایسے زمانے میں کہ جب قتل و...
دنیا کے مظلوموں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ خون چوسنے والی بڑی شیطانی طاقتیں ایک ایسے زمانے میں کہ جب قتل و غارت، دھونس دھمکی کے ذریعے پوری دنیا پر اپنا رعب جما چکی تھیں اور مسلسل مختلف اقوام اور ممالک کے مظلوموں کا اپنے سرمایہ دارانہ نظام، جدید وسائل اور ٹیکنالوجی کے ذریعے خون چوسنے میں اور مسلسل ان کے استحصال میں مشغول تھیں اور اپنی طاقت کے غرور و گھمنڈ میں مبتلا تھیں ایک ایسے زمانے میں دنیا کے ایک کونے سے ان فرعونی طاقتوں کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے اور یہ آواز جب دنیا کے تمام مظلومیں کے دل کی آواز بن کر سامنے آتی ہے تو یہ شیطانی طاقتیں اس آواز کو دبانے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن خداوند متعال کے لطف اور فضل سے نہ فقط اس آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں بلکہ یہ مکتب عاشورہ کے پیروکاروں کی حیدری اور عاشورائی آواز ان فرعونی طاقتوں پر آسمانی بجلی بن کر گرتی ہے. یہ آواز مظلوم کی دل کی آواز ہے، یہ آواز مستکبرین اور مستعمرین کے خلاف نہتے مستضعف لوگوں کی آواز ہے. جو اسلامی انقلاب کی صورت میں دنیا کے گوشے و کنار میں آج بھی گونج رہی ہے.
اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #مظلوم #ظالم #سوچ #موقف #نشر #اقوام #متفق #مسائل_مظلومین #مظلوم_طبقات #سفارت_خانہ #ذخائر #حقوق_بشر #اعلان
More...
Description:
دنیا کے مظلوموں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ خون چوسنے والی بڑی شیطانی طاقتیں ایک ایسے زمانے میں کہ جب قتل و غارت، دھونس دھمکی کے ذریعے پوری دنیا پر اپنا رعب جما چکی تھیں اور مسلسل مختلف اقوام اور ممالک کے مظلوموں کا اپنے سرمایہ دارانہ نظام، جدید وسائل اور ٹیکنالوجی کے ذریعے خون چوسنے میں اور مسلسل ان کے استحصال میں مشغول تھیں اور اپنی طاقت کے غرور و گھمنڈ میں مبتلا تھیں ایک ایسے زمانے میں دنیا کے ایک کونے سے ان فرعونی طاقتوں کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے اور یہ آواز جب دنیا کے تمام مظلومیں کے دل کی آواز بن کر سامنے آتی ہے تو یہ شیطانی طاقتیں اس آواز کو دبانے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن خداوند متعال کے لطف اور فضل سے نہ فقط اس آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں بلکہ یہ مکتب عاشورہ کے پیروکاروں کی حیدری اور عاشورائی آواز ان فرعونی طاقتوں پر آسمانی بجلی بن کر گرتی ہے. یہ آواز مظلوم کی دل کی آواز ہے، یہ آواز مستکبرین اور مستعمرین کے خلاف نہتے مستضعف لوگوں کی آواز ہے. جو اسلامی انقلاب کی صورت میں دنیا کے گوشے و کنار میں آج بھی گونج رہی ہے.
اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #مظلوم #ظالم #سوچ #موقف #نشر #اقوام #متفق #مسائل_مظلومین #مظلوم_طبقات #سفارت_خانہ #ذخائر #حقوق_بشر #اعلان
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
zalem,
mazlom,
imam,
imam
khomeini,
shaytan,
mamalek,
nezam,
taqat,
maktab,
eashura,
mustakber,
mustazeaf,
islami
enqelab,
aelan,
huquq
bashar,