[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای : Islamic Awakening and Youth Conference
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
More...
Description:
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
44:15
|
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و بیداری اسلامی Farsi
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
More...
Description:
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
12:21
|
عید نوروز کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی کا پیغام - Urdu
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا...
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
More...
Description:
پیغام عید نوروز - Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Urdu
20-03-2013
بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔
تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔
91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔
سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔
اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔
سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔
92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔
اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔
پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
40:01
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in one night - Part 1 - Farsi
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
More...
Description:
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
Supreme Leader Meets with Pilgrims at Imam Ridha (a.s) Shrine - 21 March 2013 - Mashhad - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم...
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
More...
Description:
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و...
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
More...
Description:
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
68:46
|
مراسم بیست و پنجمین سالگرد رحلت حضرت امام خمینی Farsi
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله...
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
More...
Description:
بیانات در مراسم بیست و پنجمین سالروز رحلت حضرت امام خمینی
در حرم مطهر امام خمینی رحمهالله
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَموَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى اَموَلِهِم وَ اشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)
عرایض خودم را در این روز بهیادماندنى و مهم، براى شما برادران و خواهران عزیز در سه بخش عرض میکنم: در بخش اول، یک واقعیت مهمى دربارهى جمهورى اسلامى وجود دارد که توجه به آن واقعیت براى ما، امروز حائز اهمیت است. در بخش دوم، یک اشاره و شرح توصیفىِ کوتاهى از مکتب ماندگار امام بزرگوارمان عرض میکنم؛ اگرچه دربارهى مکتب امام راحل سخن بسیار گفتهاند و گفتهایم و شنیدهایم، ولى این توصیف کوتاه در این مقطع براى ما لازم است؛ تصویر کوتاهى از مجموعهى آنچه امام بزرگوار بهعنوان یک پدیدهى بىنظیر در دنیاى معاصر بهوجود آورد. بخش سوم، اشاره به دو چالش مهمى است که بر سر راه ملت ایران و نظام جمهورى اسلامى قرار دارد؛ توجه به این دو چالش، براى درست حرکت کردن ما و درست راه پیمودن ما مهم است.
در بخش اول، آن واقعیتى که به آن اشاره کردم این است که ۲۵ سال از رحلت امام عظیمالشأن میگذرد، ولى شور و اشتیاق براى شنیدن دربارهى او و دانستن از او کم نشده است؛ مخصوص کشور ما هم نیست، در دنیاى اسلام بلکه فراتر از دنیاى اسلام، این واقعیت وجود دارد. نهتنها در کشور ما - که نسل سوم انقلاب در آن درحال بالیدن است - بلکه در دنیاى اسلام، جوانان عصر ارتباطات و عصر اینترنت که با مسائلِ دور از محیط خود براحتى میتوانند ارتباط بگیرند، دنبال این هستند که دربارهى مسائل انقلاب اسلامى و جمهورى اسلامى و دربارهى معمار این بناى عظیم، مطالب بیشترى بدانند. پدیدهى مردمسالارى دینى، نظریهى ولایت فقیه، مسائلى است که براى محیطهاى فکرى دنیاى اسلام، حائز اهمیت و داراى جاذبه است.
دشمنان ما تلاش گستردهاى را از روزهاى اول آغاز کردند و هرچه جلو رفتیم، این تلاش بیشتر شده است؛ از صدها بلکه هزاران ایستگاه تلویزیونى و رادیویى و اینترنتى استفاده کردند براى دشنام دادن به جمهورىاسلامى و به بانى بزرگ آن و به طرفداران آن. خود این مطلب به ما کمک کرده است، یعنى حس کنجکاوى را در مستمعان و مخاطبان در سراسر دنیا برانگیخته است؛ میخواهند بدانند که علت اینهمه دشمنىکردن و سنگپرانى کردن و لجنپراکنى کردن چیست، و آن حقیقتى که آماج این دشمنىها است، چه ماهیتى دارد، چه حقیقتى دارد. بنابراین دشمنان ما به قصد دشمنى نام ما را بردند و دربارهى امام ما و نظام ما سخن گفتهاند، اما «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) این را خداى متعال میفرماید؛ آنها با این نیت، این حرکت وسیع را آغاز کردند اما در نهایت براى ما یک فرصتى بهوجود آمد، چون حس کنجکاوى مستمعانِ این دستگاهها در سراسر جهان تحریک شد. در کشورهاى اسلامى و در منطقهى ما بیدارى اسلامى - که احساسات ضد استکبارى در آن بر هر پدیدهى دیگرى غلبه داشت - خود نشانهى همان کنجکاوى و پاسخگیرى و پاسخیابى است، و این همچنان ادامه دارد. ممکن است دستگاههاى اطلاعاتى غربى و آمریکایى اینجور به بزرگترهاى خودشان گزارش کنند که توانستهاند بیدارى اسلامى را در منطقهى ما سرکوب کنند. اگر اینجور خیال کنند، این هم یکى دیگر از خطاهاى راهبردى و غلطتحلیلکردنهاى دشمنان ما خواهد بود. بیدارى اسلامى ممکن است براى مدتى، در بخشى از دنیاى اسلام سرکوب بشود اما بلاشک ریشهکن نخواهد شد؛ گسترش خواهد یافت؛ و این فهم، این ادراک، این دریافت در کشورها و در نسل جوان مسلمان در این منطقه، چیزى نیست که به این آسانىها بتوانند آن را از بین ببرند؛ البته تلاش میکنند، تلاشهایشان ممکن است در بعضى از بخشها براى مدت کوتاهى موفقیتآمیز هم به نظر برسد، اما در نهایت ابتر است.
این کنجکاوى که در نسل جوان امروز، در دنیا - بخصوص در دنیاى اسلام - دربارهى پدیدهى مردمسالارى دینى وجود دارد، ناشى از این است که جمهورى اسلامى یک پدیدهاى بود که ۳۵ سال از آغاز ولادت آن گذشت، و در تمام این مدت ۳۵ سال، با واکنش خشن و خصمانهى قدرتهاى مسلط دنیا مواجه بود: هم واکنش نظامى نشان دادند، هم واکنش تبلیغاتى نشان دادند، هم واکنش خصمانهى اقتصادى نشان دادند - که از اول انقلاب تحریمها آغاز شد و روزبهروز تا امروز تشدید شده است - [هم] واکنش سیاسى نشان دادند؛ این جبههى پرقدرت غربى، در مقابل جمهورى اسلامى ۳۵ سال است که هر کارى از دستش برآمده، کرده است؛ تلاش نظامى کرده است، به مهاجمِ نظامىِ به کشور کمک کرده است، دشمنان را در هر نقطهاى علیه جمهورى اسلامى حمایت کرده است، تبلیغات پرحجم علیه آن بهکار برده است، تلاش تحریمى و محاصرهى اقتصادى را در اعلى درجهى ممکن و بدون سابقه بهکار برده است، اما در مقابلْ جمهورى اسلامى، دربرابر اینهمه هجمه و اینهمه مخالفت خشن و بىملاحظه، هم از بین نرفت، هم دچار محافظهکارى نشد، هم به غرب باج نداد، روزبهروز هم کشور پیشرفت کرد؛ این آن چیزى است که ماهیت این کنجکاوى را تشکیل میدهد. قدرتهاى درجهى یکِ نظامى و سیاسى و اقتصادى دنیا، دستبهدست هم بدهند علیه یک کشورى، علیه یک حکومتى، ۳۵ سال تلاش کنند، [ولى] آن حکومت علىرغم تلاش آنها، نه فقط از بین نرود، بلکه روزبهروز قوىتر بشود، به آنها باج هم ندهد، به آنها اعتنا هم نکند. در عرصههاى مختلف، جمهورى اسلامى اقتدار خود را و قابلیت بقاى خود را نشان داد. امروز وقتى به جمهورى اسلامى نگاه میکنند، [مىبینند] نسل دوم و سومِ انقلاب در این کشور داراى چند میلیون دانشجو، چندین هزار طلبهى علوم دینى فاضل، چندین هزار پژوهشگر و محقق، چند ده هزار استاد دانشگاه و حوزه، هزاران نخبهى علمى و فکرى که بعضى از آنها در عرصهى بینالمللى نامآور و شناخته شدهاند، هزاران فعال و نخبهى سیاسى و فرهنگى و تولیدى و اقتصادى؛ واقعیت جامعهى ما امروز این است. جمهورى اسلامى در میدان علم و فناورى، با وجود همهى این تحریمها، ماهواره به فضا میفرستد، موجود زنده به فضا میفرستد و برمیگرداند، انرژى هستهاى تولید میکند، در بسیارى از دانشهاى نوپدید جزو ده کشور اول دنیا قرار میگیرد، شتاب پیشرفت علم در جمهورى اسلامى از سوى مراکز مسئول این کار در دنیا سیزده برابر متوسط دنیا اعلام میشود، خدمات علمى و فنى به کشورهاى مختلف صادر میکند، با وجود تحریمهاى بىسابقه یک کشور ۷۵ میلیونى را اداره میکند، در سیاستهاى منطقه حرف اول را میزند، در مقابل رژیم غاصب و مورد حمایت زورگویان عالم یکتنه مىایستد، با ظالم نمیسازد و از مظلوم دفاع میکند؛ هر انسان آگاهى به کنجکاوى مىافتد که این موجود چیست، این پدیده چه پدیدهاى است با اینهمه دشمنى، و اینهمه توانایىهاى ذاتى و نشانههاى حیات و بقا؛ ماهیت این کنجکاوى این است. این حالا در زمینههاى مسائل علمى و فناورى و مانند اینها.
در زمینهى مسائل سیاسى و اجتماعى، جلوهى بالاى مردمسالارى در این کشور که ۳۵ سال است از انقلاب ما گذشته است، و در طول این ۳۵ سال، ۳۲ انتخابات داشتیم؛ ۳۲ انتخابات سراسرى در این کشور بهوجود آمده است؛ این شوخى است؟ یک نمونهى بىنظیر [است]؛ انتخاباتهاى جمهورى اسلامى با مشارکتهاى بالا - بالاتر از متوسط و میانگین جهانى و بعضاً بسیار بالاتر؛ شرکت ۷۰ درصدى، ۷۲ درصدى؛ انتخاباتهاى ما از این قبیل است - جلوهى مردمسالارى[است]. نمونهى بىنظیر دیگر دو پدیدهاى است که ما مردم، با آنها عادت کردهایم اما براى یک ناظر جهانى فوقالعاده جذاب و مهم است، و آن عبارت است از راهپیمایى بیستودوم بهمن و راهپیمایى روز قدس در ماه رمضان. جشن انقلاب را مردم بهطور مداوم، هرسال تا این ۳۵ سال گرفتهاند، با یک راهپیمایى عظیمِ پرشورِ پرشکوه در روزهاى سرد پایان بهمن. ما عادت کردهایم و اهمیت موضوع و عظمت موضوع به چشممان نمىآید اما ناظر جهانى، اینها را میبیند و براى او بسیار خیرهکننده است؛ اینها عوامل آن جذابیتى است که کنجکاوىها را تحریک میکند و راه نویى را به ذهنهاى علاقهمندان و افرادى که اهل سؤال و استفسار و تحقیقند، ارائه میدهد. این واقعیت مهم دوران ما است که عبارت است از توجه و کنجکاوى عمومى در دنیاى اسلام از سوى جوانها، روشنفکران، آگاهان و کسانى که اهل فهم مسائلند، نسبت به این پدیدهاى که در کشور ایران اسلامى، به توفیق الهى و به تأیید الهى تحقق یافته است و روزبهروز رشد کرده است. این مطلب اول.
این واقعیت، ساخته و پرداختهى دست معمار بزرگ است. دربارهى امام خیلى حرف زدهایم، شاید بعضىها خیال کردهاند ما با اغراق و مبالغه حرف میزنیم؛ ولى نه، آنچه دربارهى امام بزرگوارمان گفتهایم، نه اغراق است، نه مبالغه است؛ بخشى از واقعیت است؛ بیش از آنچه توصیف کردهایم و توانستهایم ارائه بدهیم، امام بزرگوار و عزیز ما داراى مضمون و معنا و مغز بود. آنچه در اختیار ملت ایران و در معرض دید و فکر ملتها در سراسر عالم است، ساخته و پرداختهى آن دست توانا است. ما براى اینکه راه را درست برویم، باید نقشهى معمار را بدانیم. اگر در یک بناى متعارف معمولى، نقشه در اختیار نباشد، نقشهى اصلى معلوم نباشد، سازندگان و بنایان هرچه هم چیرهدست باشند، ممکن است اشتباه کنند؛ باید نقشهى اصلى را دانست تا بتوان براساس آن نقشهى اصلى، اگر هنرى در سازندگى و در احیاء هست، آن را بهکار برد. نقشهى او نقشهاى نبود که فقط از ذهن انسان صادر بشود، قطعاً مؤیدمنعندالله بود؛ خود امام بزرگوار این را میدانست و به آن معترف بود؛ خود او میگفت آنچه پیش آمده است با دست قدرت الهى است و درست فهمیده بود و چشم بصیر و بیناى او درست دیده بود. ما مواظب باشیم؛ آن نقشه را بشناسیم تا بتوانیم راه را ادامه بدهیم. اگر نقشه را ندانستیم، زاویه پیدا میکنیم؛ وقتى زاویه پیدا شد، روزبهروز هرچه پیش برویم، از راه اصلى و صراط مستقیم دور میشویم؛ وقتى از صراط مستقیم دور شدیم، از هدفها دور میشویم، به هدفها نمیرسیم؛ براى اینکه به هدف برسیم، باید راه را گم نکنیم؛ براى اینکه راه را گم نکنیم، باید نقشهى اصلى و اساسى، جلوى چشم ما باشد، آن را بشناسیم و بدانیم. نقشهى امام، کار اصلى امام، بناى یک نظم مدنى - سیاسى براساس عقلانیت اسلامى بود؛ مقدمهى لازم این کار، این بود که نظام پادشاهى - که هم فاسد بود، هم وابسته بود، هم دیکتاتور بود؛ این سه خصوصیت در نظام پادشاهى وجود داشت: هم دچار فساد بود، فسادهاى گوناگون اخلاقى و مالى و غیره؛ هم وابستهى به قدرتها بود، یک روز وابستهى به انگلیس، یک روز وابستهى به آمریکا، حاضر بود منافع خود را و کشور را در مقابل منافع بیگانگان فراموش کند؛ و هم دیکتاتور بود، مستبد بود، رأى مردم، خواست مردم براى نظام پادشاهى مطرح نبود؛ هرکدام از اینها یک فصلِ بلند است، یک کتاب است -[ریشهکن شود]؛ مقدمهى آن کار بزرگى که امام میخواست انجام بدهد، ریشهکن کردن این نظام فاسدِ وابستهى دیکتاتور بود؛ همت را بر این گماشت و نظام ریشهکن شد. در کشور ما مسئله این نیست که نظام پادشاهى برود، به جاى او نظام پادشاهى یا شبهپادشاهىِ دیگرى بنشیند؛ مسئله این است که آن خصوصیاتى که نظام پادشاهى داشت باید ریشهکن میشد و امام بزرگوار ریشهکن کرد؛ سخنان امام، رهنمودهاى امام، رفتار امام همه در اینجهت است.
در بناى آن نظم مدنى و سیاسى دو نکتهى اساسى وجود دارد که این دو نکته به هم پیوند خورده است؛ به یک معنا دو روى یک حقیقت است: یکى عبارت است از سپردن کار کشور به مردم از طریق مردمسالارى و از طریق انتخابات، و دوم اینکه این حرکت - که خود از اسلام سرچشمه گرفته بود و هرآنچه ناشى از حرکت مردمسالارى و سپردن کار به مردم است - باید در چهارچوب شریعت اسلامى باشد. این، دو بخش است، یا با یک نگاه، دو بُعد از یک حقیقت است.
افرادى گمان نکنند که امام بزرگوار ما، انتخابات را از فرهنگ غربى گرفت و آن را قاطى کرد با تفکر اسلامى و شریعت اسلامى؛ نه، اگر انتخابات و مردمسالارى و تکیهى به آراء مردم، جزو دین نمیبود و از شریعت اسلامى استفاده نمیشد، امام هیچ تقیدى نداشت؛ آن آدم صریح و قاطع، مطلب را بیان میکرد. این جزو دین است، لذا شریعت اسلامى چهارچوب است؛ در همهى قانونگذارىها و اجراها و عزلونصبها و رفتارهاى عمومى که تابع این نظم سیاسى و مدنى است، باید شریعت اسلامى رعایت بشود. و گردش کار در این نظام بهوسیلهى مردمسالارى است؛ یعنى آحاد مردم نمایندهى مجلس را انتخاب میکنند، رئیسجمهور را انتخاب میکنند، وزرا را با واسطه انتخاب میکنند، خبرگان را انتخاب میکنند، رهبرى را با واسطه انتخاب میکنند؛ کار، دست مردم است؛ این، پایهى اصلى حرکت امام بزرگوار است. این بناى عظیمى که این بزرگوار گذاشت، متکى به این دو پایه است. التزام به شریعت اسلامى، روح و حقیقت نظام اسلامى است؛ این را توجه داشته باشند. شریعت اسلامى اگر در جامعه بهطور کامل اجرا بشود، هم آزادىهاى عمومى و مدنى را - آزادى افراد را، آزادى فردى را - تأمین میکند، هم آزادى ملت را که اسم آن استقلال است - استقلال یعنى آزادى در ابعاد یک ملت، که وابستهى به کسى و به جایى نباشد؛ یک ملت آزاد یعنى ملتى که بههرصورت تحت نفوذ و سیطرهى مخالفین خود یا دشمنان خود یا بیگانگان قرار ندارد - تضمین میکند، [هم] عدالت را در جامعه تضمین میکند، هم معنویت را تضمین میکند؛ این چهار عنصر اصلى است: آزادى، استقلال، عدالت، معنویت. اگر شریعت اسلامى بر جامعه حاکم شد، این پدیدههاى اساسى در نظم جامعهى اسلامى، خود را نشان میدهند. بنابراین امام بزرگوار ما شریعت اسلامى را که روح جمهورى اسلامى است، مورد تکیه قرار داده است؛ مردمسالارى دینى را هم که یک وسیله و ابزار است که آن هم متخَذ از شریعت است، مورد تکیه قرار داده.
هیچ قدرت و غلبهاى در مکتب امام که از تقلب و از اِعمال زور حاصل شده باشد، مورد قبول نیست. در نظام اسلامى قهر و غلبه معنا ندارد؛ قدرت معنا دارد، اقتدار معنا دارد، اما اقتدارِ برخاستهى از اختیار مردم و انتخاب مردم؛ آن اقتدارى که ناشى از زور و غلبه و سلاح باشد، در اسلام و در شریعتِ اسلامى و در مکتب امام معنا ندارد؛ آن قدرتى که از انتخاب مردم بهوجود آمد، محترم است؛ در مقابل آن، کسى نبایستى سینه سپر بکند، در مقابل او کسى نباید قهر و غلبهاى به کار ببرد که اگر یک چنین کارى کرد، اسم کار او فتنه است؛ این آن نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما به دنیا عرضه کرد و به ادبیات سیاسى عالم این فصل مهم را افزود. در این نسخهى جدید، یکى از عناصر اصلى - همانطور که اشاره کردیم - به کمک مظلوم شتافتن و با ظالم مقابله کردن است؛ به کمک مظلوم باید رفت که در دورهى ما، در زمان ما، مصداق اتم مظلومیت ملت فلسطین بود که شما دیدید امام بزرگوار از روز اول تا آخر عمر، راجع به فلسطین تأکید کرد، تکیه کرد، حمایت کرد و وصیت کرد که این مسئله را ملت ایران و مسئولان کشور فراموش نکنند؛ کمک به مظلوم و ایستادگى در مقابل ظالم، نفى دستاندازىهاى ظالم، انکار صریح هیبت و ابهت ظالم و شکستن این ابهت؛ این هم یکى از بخشهاى این نظام و این نسخهى جدیدى است که امام بزرگوار ما عرضه کرد. این یک خلاصهاى و یک تصویر کوتاه و توصیف کوتاهى است از مجموعهى آن نظم سیاسى و مبنایىاى که امام بزرگوار ما پس از فروپاشى نظام پادشاهى به کشور آورد، عرضه کرد، مورد قبول قاطع مردم قرار گرفت، و تحقق پیداکرد؛ و این نسخه مثل خیلى از حرفهاى سیاسى، در کتابها نماند؛ آمد در واقعیت، تحقق پیداکرد، تبلور پیداکرد؛ ملت ایران هم همت کردند، وفادارى نشان دادند، فداکارى کردند، این را حفظ کردند، نگه داشتند، و روزبهروز قوىتر کردند تا به امروز رسیده است.
خب، پس امام موفق شد؛ امام در آن کارى که میخواست انجام بدهد، به توفیق کامل دست پیداکرد، [ اما] آیا اینکار بزرگ ادامه پیدا خواهد کرد؟ آیا بخشهاى خالى این جدول - که بهطور طبیعى بخشهاى خالىاى در این جدولهاى اجتماعى و تاریخى قرار دارند - پُر خواهد شد؟ این بستگى دارد به اینکه من و شما چقدر همت کنیم؛ ما چقدر آگاهى نشان بدهیم؛ ما چقدر آن خط روشن را مراعات کنیم و در آن خط روشن حرکت بکنیم. بله، کاملاً ممکن است؛ با این ملتى که ما داریم مشاهده میکنیم، با این تجربهاى و این حرکت موفق و سِیر مستمرى که در این ۳۵ سال - و بعد از رحلت امام در این ۲۵ سال - این ملت نشان داده است، بله، ادامهى این راه ممکن است؛ خانههاى خالى پُر خواهد شد، کارهاى بزرگ انجام خواهد گرفت، و این ملت به اذنالله و به حول و قوهى الهى به اوج قلهها خواهد رسید.
اما این راه، مثل همهى راههاى مهم که به سمت هدفهاى بزرگ کشیده شده است، چالشهایى هم دارد، موانعى هم دارد؛ این موانع را باید بشناسیم تا بتوانیم از آنها عبور کنیم. اگر مانع را نشناختیم، عبور از مانع یا دشوار خواهد شد، یا حتى غیر ممکن خواهد شد. بنده امروز دارم اینها را به شما حضار محترم این مجلس عظیم و باشکوه و در واقع به ملت ایران که این سخنان را خواهند شنید عرض میکنم، اما باید جوانان ما، فرزانگان ما، زبدگان فکرى ما، روى هرکدام از این سرفصلها و بخشها بنشینند فکر کنند، کار کنند، مطالعه کنند؛ نهفقط بحثهاى ذهنىِ شبهروشنفکرى، [بلکه] بحثهاى کاربردى، بحثهاى عملیاتى، بحثهاى ناظر به واقعیت. اینهایى که ما عرض میکنیم سرفصلهایى است براى کارهاى فکرى که انشاءالله بهوسیلهى جوانان ما - که از ما خیلى بهترند، خیلى آمادهترند - دنبال خواهد شد.
من دو چالش را عرض میکنم: یک چالش بیرونى، یک چالش درونى. چالش بیرونى ما مزاحمتهاى استکبار جهانى است؛ بىرودربایستى حرف بزنیم، مزاحمتهاى آمریکا است؛ سنگاندازى میکنند. درست است که شاید در تحلیلهاى بعضى از متفکران سیاسىِ خودشان هم این هست که میگویند فایدهاى ندارد، نمیشود با این حرکت عظیم مقابله کرد؛ لکن سنگاندازى میکنند. نقشهى کار آنها را باید دانست؛ این نقشهى لو رفتهى آمریکا است؛ این نقشهى کلان آمریکا است که امروز در خلال بحثها و گزارشها و اظهارنظرها و رفتارهاى آنها لو رفته است: آمریکا کشورهاى دنیا، جریانهاى دنیا، آدمهاى دنیا را به سه قِسم تقسیم میکند: یک قِسم گوشبهفرمانها، کشورهاى گوشبهفرمان، جریانهاى سیاسى و اجتماعى گوشبهفرمان یا آدمهاى گوشبهفرمان، یک عده اینها هستند؛ یک عده کشورهایى که گوشبهفرمان نیستند، اما باید با آنها مدارا کرد، بعضى از کشورها، بعضى از شخصیتها، بعضى از جریانها به نظر آمریکا اینجورى هستند که باید با آنها مدارا کرد، منافع مشترکى [با آنها] تعریف کرد، یکجورى با آنها فعلاً کنار آمد، که حالا بعد توضیح عرض میکنم؛ قِسم سوم کشورهاى نافرمان، آنهایى که زیر بار آمریکا نمیروند، باج به آمریکا نمیدهند، یک دسته هم اینها هستند. به نظر آمریکایىها همهى کشورهاى دنیا، همهى جریانهاى سیاسى و اجتماعى و مدنى و اقتصادى عالَم و همهى آدمها و شخصیتهاى برجسته و ممتاز و نشاندار عالَم از این سه قِسم خارج نیستند: یا سرسپردهاند و گوشبهفرمانند، یا مستقلى هستند که باید با آنها مدارا کرد، و یا اینکه نافرمانند و دلیرى نشان میدهند و گستاخى نشان میدهند که جورى دیگر باید با آنها رفتار کرد.
سیاست آمریکایىها با آن دستهى اول حمایت کامل است؛ البته حمایت مفت و مجانى نیست، حمایت میکنند و آنها را میدوشند؛ در واقع از توانایىهاى آنها و از امکانات آنها به نفع منافع خودشان، براى تأمین منافع خودشان استفاده میکنند؛ از آنها سوارى میگیرند، از آنها همهجور خدمت را میگیرند، همانطور که عرض کردیم آنها را میدوشند، اهمیتى هم نمیدهند. البته اگر چنانچه رفتارى از آنها سر زد که در عرف جهانى زشت بود، آن رفتار را هم محکوم نمیکنند، از آن دفاع هم میکنند، آنرا توجیه هم میکنند؛ مثلاً کشورهاى مستبدى وجود دارند که با نظامهاى ارتجاعىِ بشدت استبدادى اداره میشوند، با آمریکایىها خوبند، به آمریکایىها بار میدهند و در خدمت آمریکا حاضرند، سرسپردهاند، جزو گروه اولند؛ آمریکایىها وقتى میخواهند اینها را توصیف بکنند، نمیگویند کشورهاى دیکتاتور، میگویند اینها کشورهاى پدرسالارند! دیکتاتورى آنها را پنهان میکنند، میگویند اینها دیکتاتور نیستند، پدرسالارند. پدرسالار در نظام سیاسى یعنىچه؟ معناى آن چیست؟ کشورى که در آن نه مجلسى وجود دارد، نه انتخاباتى وجود دارد، نه قدرت حرفزدنى وجود دارد، نه قلم آزادى وجود دارد، نه بیان آزادى وجود دارد و اندک تخلفى از خواستههاى حاکم، با شدت و حِدت و خشونت سرکوب میشود؛ این کشور کشور پدرسالار است؟
صدامحسین در یک بخشى از زندگى، جزو این سرسپردهها و گوشبهفرمانها بود؛ در آن مدت همهى حمایتهاى لازم را از او کردند، در خدمت او قرار گرفتند، به او سلاح شیمیایى دادند، نقشههاى تحرکات نظامى ما را که با ماهوارهها کشف میشد در اختیار او گذاشتند، نقشهى جنگى دادند؛ چون در خدمت آنها بود، علیه نظام متمرد جمهورى اسلامى بود، که نظام جمهورى اسلامى جزو گروه سوم است. یک دسته اینها هستند.
دستهى دوم، گفتیم کشورهایى هستند که سیاست آمریکا و نقشهى آمریکا مداراى با آنها است. مدارا یعنىچه؟ یعنى فعلاً منافع مشترکى با آنها تعریف میکند، آنها را در کنار خود قرار میدهد، اما آنوقتى که فرصتى پیدا کرد، خنجر را از پشت به قلب آنها میکوبد و قلب آنها را میدرد؛ ملاحظهى آنها را هم نمیکند. مثل چه کشورهایى؟ مثل کشورهاى اروپایى؛ امروز وضع کشورهاى اروپایى اینجورى است. آمریکا با اینها مدارا میکند، نه به معناى اینکه منافع آنها را رعایت میکند؛ نه، آنجایى که بتواند لگد هم میزند؛ از شخص اول کشورِ همپیمان خود جاسوسى اینترنتى هم میکند، (۵) جاسوسى بهوسیلهى تلفن همراه هم میکند، از زندگى خصوصى او جاسوسى میکند، اِبایى هم ندارد؛ وقتى هم که کشف میشود، میگوید که بله، ببخشید، این کار شد دیگر، چارهاى نبود، انجام گرفت! حاضر نیستند عذرخواهى درست و حسابى هم بکنند. فهم بنده از مسائل سیاست این است که اروپایىها در یک خطاى بزرگ راهبردى قرار دارند که خودشان را در خدمت آمریکا قرار دادهاند. منافع آمریکا را رعایت میکنند، آمریکا منافع آنها را رعایت نمیکند و نخواهد کرد؛ تا آخر هم همینجور است. این هم دستهى دوم.
دستهى سوم کشورهایى هستند که زیر بار آمریکا نمیروند؛ سیاست آمریکا، دربارهى اینها این است که از هر وسیلهى ممکن باید علیه این کشورهاى نافرمان استفاده کرد؛ از هر وسیلهى ممکن؛ هیچ حدومرزى نمیشناسند. اگر شما دیدید کشورى در مقابل آمریکا نافرمان است و آمریکا مثلاً حملهى نظامى نمیکند یا تحریم نمیکند، بدانید یک اشکالى آنجا وجود دارد؛ یعنى مانعى بر سر راه وجود دارد؛ به زبان ساده، نمیتواند انجام بدهد که انجام نمیدهد؛ اگر بتواند، انجام میدهد. تنها جرم این کشور نافرمان هم این است که در مقابل آمریکا حاضر به تسلیم نیست، حاضر نیست باج بدهد، حاضر نیست منافع او را بر منافع خودش مقدم بدارد؛ این میشود کشور نافرمان. آمریکایىها براى اینکه این کشور را به زانو دربیاورند، از هیچ کارى فروگذار نمیکنند؛ هر کارى برایشان ممکن باشد انجام میدهند؛ اگر کارى انجام ندهند بهخاطر نتوانستن است.
خب، حالا این کارهایى که آمریکایىها انجام میدهند چیست؟ امروز حملهى نظامى از نظر آمریکایىها یک اولویت نیست؛ فهمیدند که در قضیهى عراق و در قضیهى افغانستان که تهاجم نظامى کردند، ضرر کردند؛ فهمیدند که تهاجم نظامى همان اندازهاى که براى کشور موردِ تهاجم موجب خطر است، گاهى همان اندازه و گاهى بیشتر براى کشور هجومکننده و حملهکننده ممکن است موجب خطر باشد؛ این را درست فهمیدند. لذا میتوان گفت از حملهى نظامى و حرکات نظامى منصرفند؛ راههاى دیگرى دارند. یکى از راهها این است که پیشبرد هدفهاى خودشان را در آن کشور مورد نظر - که آماج دشمنى آنها است - به عناصر داخلىِ همان کشور بسپرند. مسئله فقط مسئلهى ایران اسلامى و جمهورى اسلامى نیست؛ در همهجاى دنیا اینها این کارها را میکنند و ما نمونههاى آن را داریم مشاهده میکنیم. یا بهوسیلهى کودتا؛ کسانى را تقویت کنند که در کشور، کودتا راه بیندازند و آن نظامى را و دستگاه دولتى و سیاسىاى را که در مقابل آنها تسلیم نمیشود، با کودتا از سر راه بردارند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها کشاندن بخشى از مردم به خیابانها است که این انقلابهاى رنگى که در جاىجاى این منطقه در این چند سال اخیر بهوجود آمد، از این قبیل است. یک دولتى مىآید سرِ کار؛ بالاخره هر دولتى که سرِ کار مىآید ممکن است اگر با شصت درصد آراء مردم هم آمده باشد، چهل درصد به او رأى نداده باشند؛ آمریکایىها میروند سراغ آن چهل درصد، عناصر و لیدرهایى را در بین آنها انتخاب میکنند، با تطمیع، با پول، با تهدید، آنها را وادار میکنند که آن چهل درصد یا بخشى از آن چهل درصد را به خیابانها بکشانند. همین انقلابهاى رنگى، این انقلاب نارنجى، انقلاب کجا در کشورهاى مختلف که در این چند سال دیده شد، دست آمریکایىها پشت این کار بود. ما هیچ قضاوتى در مورد حوادثى که این روزها در منطقهاى(۶) از اروپا در جریان است نمیخواهیم بکنیم، اما انسان وقتى نگاه میکند، میبیند که سناتور آمریکایى، مسئول آمریکایى(۷) در تظاهرات یک اقلیتى علیه یک کشور، چه نقشى میتواند ایفا کند که در آنجا حضور پیدا میکند؟ حضور پیدا کردند. یکى از کارهایشان این است که با کشاندن گروهى از مردم به خیابانها و نافرمانى مدنى، آن دولتى را که مورد قبول آنها نیست و حاضر نیست به آنها باج بدهد، از کار بیندازند. یکى از کارها فعال کردن گروههاى ترور و راه انداختن گروههاى تروریست است؛ این را در عراق انجام دادند، در افغانستان انجام دادند، در برخى از کشورهاى عربى منطقه انجام دادند، در کشور خود ما هم انجام دادند؛ گروههاى تروریست را راه بیندازند، آدمهاى مشخص را [ ترور کنند]. در کشور ما دانشمندان را زدند، متخصصین انرژى هستهاى را زدند و به شهادت رساندند، قبل از آن هم کسان دیگرى، نخبگان سیاسى، نخبگان فرهنگى، شخصیتهاى علمى، شخصیتهاى روحانى را زدند؛ و اینها زیر دامن آمریکا رشد کردند، بعضى هم بهخاطر این خدماتى که به آمریکا کردند مورد قبول و پذیرش آمریکایىها قرار گرفتند. امروز منافقین در آغوش آمریکا قرار دارند؛ در جلسات گوناگون، در کمیسیونهاى کنگرهى آمریکا شرکت میکنند، همین عناصر منافق، همینهایى که در اینجا آحاد مردم را کشتند، بزرگان را کشتند، علما را کشتند، دانشمندان را کشتند، سیاسیون را کشتند و انفجارات بهوجود آوردند، امروز آنجا با آنها هستند. یکى از راهها هم این است. یکى از راهها ایجاد اختلاف در رأس حاکمیتها است؛ یکى از کارهایى که اینها میکنند این است: آن دستگاهى، آن نظامى که با آنها همراه نیست، سعى میکنند در رأس آن اختلاف و شکاف بهوجود بیاورند، حاکمیت دوگانه درست کنند؛ خیلىجاها موفق نمیشوند، بعضىجاها هم متأسفانه موفق میشوند؛ یکى از راهها این است. یکى از راهها این است که با تبلیغات خود دلهاى مردم را، افکار مردم را از مبانى اعتقادى و ایمانىشان منصرف بکنند؛ و راههاى گوناگونى از این قبیل. و رژیم ایالات متحدهى آمریکا در مورد ایران عزیز ما، و ایراناسلامى ما، همهى این کارها را انجام داده است و به فضلالهى در همهى این کارها هم شکست خورده است. کودتاى نظامى، حمایت از فتنهگران، کشاندن مردم به خیابانها، مقابلهى با انتخابات، ایجاد شکاف، از این کارها یا انجام دادند یا تلاش کردند که انجام بدهند، و بحمدالله در همهى اینها ناموفق ماندند. چرا؟ چون ملت بیدار بود، چون ملت مؤمن بود، و اینجا است که من میروم سراغ آن چالش دوم که چالش درونى است.
برادران و خواهران عزیز! چالش درونى براى ملت ما عبارت است از اینکه روحیه و جهت نهضت امام بزرگوار را از نظر دور بداریم و فراموش کنیم و آن را از دست بدهیم؛ این بزرگترین خطر است. در شناخت دشمنمان اشتباه کنیم؛ در شناخت دوستمان اشتباه کنیم؛ جبههى دشمن و دوست را با هم مخلوط کنیم، نفهمیم دشمن کیست؛ دوست کیست؛ یا در شناخت دشمن اصلى و فرعى اشتباه بکنیم، این هم خطر است. برادران عزیز، خواهران عزیز، عموم ملت ایران توجه داشته باشند که گاهى یکى با شما دشمنى میکند، اما اگر دقت کنید دشمنىِ او دشمنىِاصلى نیست، تابعى است از یک عامل دیگر، از یک کس دیگر؛ دشمن اصلى را پیدا کنید؛ والا [اگر] انسان با دشمن فرعى سینهبهسینه بشود، هم قواى او تحلیل میرود، هم نتیجهى کارْ نتیجهى مطلوبى نخواهد شد.
امروز یک عدهاى در بخشهاى مختلف دنیاى اسلام بهنام گروههاى تکفیرى و وهابى و سَلَفى، علیه ایران، علیه شیعه، علیه تشیع، دارند تلاش میکنند، کارهاى بدى میکنند، کارهاى زشتى میکنند؛ اما اینها دشمنهاى اصلى نیستند؛ این را همه بدانند. دشمنى میکنند، حماقت میکنند اما دشمن اصلى، آن کسى است که اینها را تحریک میکند، آن کسى است که پول در اختیارشان میگذارد، آن کسى است که وقتى انگیزهى آنها اندکى ضعیف شد، با وسایل گوناگون آنها را انگیزهدار میکند؛ دشمن اصلى، آن کسى است که تخم شکاف و اختلاف را بین آن گروه نادان و جاهل، و ملت مظلوم ایران مىافشاند؛ اینها آن دست پنهانِ سرویسهاى امنیتى و اطلاعاتى است. لذا ما مکرر گفتهایم این گروههاى بىعقلى را که به نام سَلَفىگرى، به نام تکفیر، به نام اسلام با نظام جمهورى اسلامى مقابله میکنند، دشمن اصلى نمیدانیم؛ ما شما را فریبخورده میدانیم؛ به اینها گفتهایم: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) تو اگر خطا میکنى، اشتباه میکنى، کمر به قتل برادر مسلمان خودت میبندى، ما تو [آدمِ] نادان و جاهل را کسى نمیدانیم که بایستى کمر به قتل او ببندیم؛ البته از خودمان دفاع میکنیم، هر کسى به ما حمله بکند، با مشت محکم ما مواجه خواهد شد، این طبیعى است؛ اما معتقدیم اینها دشمنان اصلى نیستند، فریبخورده هستند. دشمن اصلى آن دشمن پشت پرده است، آن دست نهچندان پنهانى است که از آستین سرویسهاى امنیتى بیرون مىآید و گریبان مسلمانان را میگیرد و آنها را به جان هم مىاندازد.
چالشهاى درونى ما اینها است: سرگرم شدن به اختلافات در داخل کشور؛ اختلافات فرعى و اختلافات سطحى، ما را سرگرم بکند، در مقابل هم قرار بدهد، تعارض بهوجود بیاورد، ما را از مسائل اصلى و از خطوط اصلى غافل بکند؛ این یکى از مصادیق آن چالش اصلى است که عرض شد. از دست دادن انسجام ملت از چالشهاى ما است. دچار شدن به تنبلى و بىروحیگى، دچار شدن به کمکارى، دچار شدن به یأس و ناامیدى، تصور اینکه ما نمیتوانیم، تصور اینکه تا حالا نتوانستیم؛ نخیر، همانطور که امام فرمودند ما میتوانیم، (۹) باید عزم داشته باشیم، عزم ملى و مدیریت جهادى میتواند همهى این گرهها را باز کند. اینها همه، آن چالشهاى درونى ما است که باید با اینها مقابله کنیم. همانطور که عرض کردیم جوانهاى عزیز ما، نخبگان ما، فضلاى ما باید بنشینند این مسائل را بررسى کنند؛ اینها سرفصلهایى است. نام مبارک امام بزرگوارمان و یاد آن بزرگمرد و نقشهى آن معمار بزرگ میتواند ما را در همهى این فصول یارى کند و به ما امید ببخشد و نشاط بدهد و روحیه بدهد؛ همچنان که تا امروز چنین بوده است و به توفیق الهى در آینده [هم] چنین خواهد بود.
پروردگارا! برکات خودت را بر این ملت عزیز نازل بفرما. پروردگارا! جوانان عزیز ما را در راه بناى آرمانى نظام اسلامى کمک فرما. پروردگارا! ما را از کجروىها و انحرافها محفوظ بدار. پروردگارا! دست ملت ایران را از دشمنانش قوىتر قرار بده؛ آنها را بر دشمنانشان پیروز فرما؛ قلب مقدس ولىعصر (ارواحنا فداه) را نسبت به ما مهربان بفرما؛ دعاى آن بزرگوار را شامل حال ما بگردان؛ روح مطهر امام و شهداى عزیز را با پیغمبر محشور فرما.
والسلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) سورهى حشر، بخشى از آیهى ۱۰
۲) سورهى یونس، بخشى از آیهى ۸۸
۳) سورهى ابراهیم، آیهى ۲۴ و بخشى از آیهى ۲۵
۴) سورهى طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) کشور آلمان
۶) کشور اوکراین
۷) جان مککین
۸) سورهى مائده، آیهى ۲۸
۹) از جمله، صحیفهى امام، ج ۱۹، ص ۳۲۷
2:42
|
کابل یونیورسٹی میں بم دھماکہ و اصلی مجرم | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ...
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ خطے میں موجود انسان دشمن اور اسلام کے لبادے میں موجود اسلام دشمن تکفیری گروہوں اور اُن کے سرپرستوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ خطے میں تکفیری گروہوں کے مسئلے میں اصل جُرم کس نے انجام دیا؟ داعش جیسے زہریلے گروہ کو کس نے تشکیل دیا؟ کیا امریکی اِن انسان دشمن گروہوں کی تشکیل کا اعتراف کرتے ہیں؟ خطے کی وہ حکومتیں جنہوں نے اِس گروہ کی مالی اور دیگر طریقوں سے مدد کی ہے اُن کا گناہ زیادہ ہے یا جہالت کا شکار داعشی افراد کا گناہ؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #کابل_یونیورسٹی #تکفیری_گروہ #اصلی_جرم #امریکی #سعودی #پیروی #تعاون #پیسے #اعتراف #دہشت_گرد
More...
Description:
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ خطے میں موجود انسان دشمن اور اسلام کے لبادے میں موجود اسلام دشمن تکفیری گروہوں اور اُن کے سرپرستوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ خطے میں تکفیری گروہوں کے مسئلے میں اصل جُرم کس نے انجام دیا؟ داعش جیسے زہریلے گروہ کو کس نے تشکیل دیا؟ کیا امریکی اِن انسان دشمن گروہوں کی تشکیل کا اعتراف کرتے ہیں؟ خطے کی وہ حکومتیں جنہوں نے اِس گروہ کی مالی اور دیگر طریقوں سے مدد کی ہے اُن کا گناہ زیادہ ہے یا جہالت کا شکار داعشی افراد کا گناہ؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #کابل_یونیورسٹی #تکفیری_گروہ #اصلی_جرم #امریکی #سعودی #پیروی #تعاون #پیسے #اعتراف #دہشت_گرد
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
kabul,
bomb
blast,
asli
mujrim,
nahaq,
university,
insan
dushman,
islam,
takfeeri
goroh,
asl
jurm,
daesh,
isis,
zehreele,
tashkeel,
eteraaf,
daesh
ko
kisne
banaya
hai,
hukumatein,
maali,
imdaad,
jehalat,
amrika,
israel,
england,
saudi,
paise,
dehshat
gard,
insaniyat
ke
dushman,
5:17
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in a moment (one night) - Part 2
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in...
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
More...
Description:
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
2:49
|
[Clip] Choosing career And Seerat of Prophet (saww) - H.I Ali Murtaza Zaidi - Urdu
[Clip] Seerat-e-Rasool (sa) Ki Roshni Main Tay Kare Mjhe Kis Field Main Jana Hai | Choosing career and seerat Prophet (saww) | سیرت رسولﷺ کی روشنی میں طے...
[Clip] Seerat-e-Rasool (sa) Ki Roshni Main Tay Kare Mjhe Kis Field Main Jana Hai | Choosing career and seerat Prophet (saww) | سیرت رسولﷺ کی روشنی میں طے کریں کہ مجھے کس فیلڈ میں جانا ہے - H.I Ali Murtaza Zaidi - Urdu
More...
Description:
[Clip] Seerat-e-Rasool (sa) Ki Roshni Main Tay Kare Mjhe Kis Field Main Jana Hai | Choosing career and seerat Prophet (saww) | سیرت رسولﷺ کی روشنی میں طے کریں کہ مجھے کس فیلڈ میں جانا ہے - H.I Ali Murtaza Zaidi - Urdu
3:07
|
مسئلہ فلسطین کا علاج ’’مقاومت‘‘ | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ بیت المقدس اور فلسطین میں ہونے والی مقاومت کے بارے میں کیا فرماتے...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ بیت المقدس اور فلسطین میں ہونے والی مقاومت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ سنگدل اور بے رحم صیہونی حکومت کا واحد علاج کیا ہے؟ اسرائیل کے نابود ہونے تک اس کا علاج کیا ہے؟ انقلاب اسلامی ایران نے فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر فلسطین کے مظلوم اہلسنت بھائیوں کی کس کس طرح مدد کی؟ امام خمینی رضوان اللہ علیہ مسلمانوں کو کس چیز کی تلقین فرماتے ہیں؟ انقلابِ اسلامی کی طرف سے فلسطینی مظلوموں کی مدد کے کیا نتائج نکلے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#وہڈیو #مسئلہ_فسلطین #مقاومت #علاج #مسجد_الاقصی #بیت_المقدس #بنیادی_مسئلہ #قبلہ_اول #وحشی #بھیڑیا_صفت_حکومت #حزب_اللہ #حماس
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ بیت المقدس اور فلسطین میں ہونے والی مقاومت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ سنگدل اور بے رحم صیہونی حکومت کا واحد علاج کیا ہے؟ اسرائیل کے نابود ہونے تک اس کا علاج کیا ہے؟ انقلاب اسلامی ایران نے فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر فلسطین کے مظلوم اہلسنت بھائیوں کی کس کس طرح مدد کی؟ امام خمینی رضوان اللہ علیہ مسلمانوں کو کس چیز کی تلقین فرماتے ہیں؟ انقلابِ اسلامی کی طرف سے فلسطینی مظلوموں کی مدد کے کیا نتائج نکلے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#وہڈیو #مسئلہ_فسلطین #مقاومت #علاج #مسجد_الاقصی #بیت_المقدس #بنیادی_مسئلہ #قبلہ_اول #وحشی #بھیڑیا_صفت_حکومت #حزب_اللہ #حماس
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
muqawemat,
falastine,
palestine,
ilaaj,
sayyid
ali
khamenei,
wali
amre
muslemeen,
al
qods,
hezbollah,
qibla
e
awwal,
bait
al
muqaddas,
bunyadi
masla,
wehshi,
hukumat,
bhediya,
hamas,
iran,
israel,
gaza,
inqelab
e
islami,
mazhabi
tassub,
ahle
sunnat.
shia,
sunni,
mazloom,
zalim,
madad,
musalman,
ummat
e
wahida,
Must Listen Beautiful Poetry on Imam e Rahil (RA) - Urdu
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان...
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان تھا
عالم اسلام خالص دین سے انجان تھا
آج ہی کے دور جیسے کم نہ تھے علما سو
جن کی نظروں میں خدا ایک قصرے عالی شان تھا
حج و زیارت کی دکانیں کھل رہیں تھی جا بجا
تھی زبانی الله ہو یہ دل مگر سنسان تھا
کربلا دل میں بسا ئی تھی مگر ایک شخصں نے
اوج پہ پوھنچا ہوا اس شخص کا عرفان تھا
اس زمانے میں اٹھا ایک نائب مہدی حق
جس زمانے میں زبان کا کھولنا نسیاں تھا
در بدر پھرتا نہی ہرگز غلام پنجتن
نہ ہی مشرق نا ہی مغرب نعرے مستان تھا
حق کی خاطر اٹھ گیا اور حق کی خاطر ڈٹ گیا
غیر معصومین میں عجب انسان تھا
نقش الاللہ جو ابھرا خمینی بت شکن
ہو گئی قائم ولایت خم کا جو اعلان تھا
سن چکی دنیا بوہت صامت قرآن اور صامت حدیث
وہ امام عصر کا ایک بولتا فرمان تھا
جانور صدام جیسے چھوڑے تھے طاغوت نے
سر پے ایک حضرت کا سایہ فتح کا عنوان تھا
ہم علی والے کبھی میدان سے بھاگے نہی
ویسا ہی لبنان نکلا جیسا کے ایران تھا
کس طرح ہوتے ہیں فائز آج دنیا دیکھ لے
جیب میں تھی سجدہ گھ اور ہاتھ میں قران تھا
اس لئے ائی مقابل فوج اسرائیل کی
فوج اسرائیل کو جانا جو قبرستان تھا
طالبانی ہاتھ پر ہے بے گناہوں کا لہو
ان کو اس پر فخر ہے کے جد ابو سفیان تھا
فتوے نے دیکھو الٹ دی رشدی کے رخ سے نقاب
لکھنے والا اس کتاب شر کا خود شیطان تھا
نام پر اسلام کے وہ دے گیا لاکھوں شہید
جان تو بچ جاتی لیکن دین کا نقصان تھا
روح زندہ ہو گئی رو ح اللہ کے اقدام سے
متقی زاہد مجاہد عالم زی شان تھا
More...
Description:
Must listen beautiful poem on the occasion of Imam e Rahil, Char Soo Jab Key Nifaq O Kufur Ka Saman Tha, in Toronto Canada May 29th, 2010
چار سو جب کے نفاق و کفر کا سامان تھا
عالم اسلام خالص دین سے انجان تھا
آج ہی کے دور جیسے کم نہ تھے علما سو
جن کی نظروں میں خدا ایک قصرے عالی شان تھا
حج و زیارت کی دکانیں کھل رہیں تھی جا بجا
تھی زبانی الله ہو یہ دل مگر سنسان تھا
کربلا دل میں بسا ئی تھی مگر ایک شخصں نے
اوج پہ پوھنچا ہوا اس شخص کا عرفان تھا
اس زمانے میں اٹھا ایک نائب مہدی حق
جس زمانے میں زبان کا کھولنا نسیاں تھا
در بدر پھرتا نہی ہرگز غلام پنجتن
نہ ہی مشرق نا ہی مغرب نعرے مستان تھا
حق کی خاطر اٹھ گیا اور حق کی خاطر ڈٹ گیا
غیر معصومین میں عجب انسان تھا
نقش الاللہ جو ابھرا خمینی بت شکن
ہو گئی قائم ولایت خم کا جو اعلان تھا
سن چکی دنیا بوہت صامت قرآن اور صامت حدیث
وہ امام عصر کا ایک بولتا فرمان تھا
جانور صدام جیسے چھوڑے تھے طاغوت نے
سر پے ایک حضرت کا سایہ فتح کا عنوان تھا
ہم علی والے کبھی میدان سے بھاگے نہی
ویسا ہی لبنان نکلا جیسا کے ایران تھا
کس طرح ہوتے ہیں فائز آج دنیا دیکھ لے
جیب میں تھی سجدہ گھ اور ہاتھ میں قران تھا
اس لئے ائی مقابل فوج اسرائیل کی
فوج اسرائیل کو جانا جو قبرستان تھا
طالبانی ہاتھ پر ہے بے گناہوں کا لہو
ان کو اس پر فخر ہے کے جد ابو سفیان تھا
فتوے نے دیکھو الٹ دی رشدی کے رخ سے نقاب
لکھنے والا اس کتاب شر کا خود شیطان تھا
نام پر اسلام کے وہ دے گیا لاکھوں شہید
جان تو بچ جاتی لیکن دین کا نقصان تھا
روح زندہ ہو گئی رو ح اللہ کے اقدام سے
متقی زاہد مجاہد عالم زی شان تھا
6:45
|
فلسطینیوں پر ظلم و ستم میں اور کون شریک ہیں؟ | رہبر معظم سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
جب فلسطین کے مسئلے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے اور ان کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے تو وہاں فقط صیہونیوں کے...
جب فلسطین کے مسئلے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے اور ان کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے تو وہاں فقط صیہونیوں کے مظالم کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے علاوہ اور بہت سارے افراد بھی ان پر اس ظلم اور ستم میں شریک ہیں۔ اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب کیا فرماتے ہیں؟
رہبر معظم کی نگاہ میں فلسطینیوں پر ظلم اورستم میں کون کون شریک ہیں؟
کیا فقط صیہونیوں کی جانب سے ظلم ہو رہا ہے؟
رہبر معظم فلسطین کے اس مسئلے پر کن دو اہم باتوں پر تاکید کرتے ہیں؟
رہبر معظم فلسطین کے مسئلے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ان کی نظر میں کیا یہ فقط فلسطین کا مسئلہ ہے یا پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے؟
رہبر معظم انقلاب، فلسطین کے حق میں اٹھنے والی کس قسم کی تحریک کا مکمل ساتھ دینے کا یقین دلا رہے ہیں؟
ان تمام سوالات کے جواب رہبر معظم کی اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#فلسطین #مظلومیت #صیہونیوں #شریک #ظلم #ستم #تاکید #امت #مسلمہ #تحریک #یقین
More...
Description:
جب فلسطین کے مسئلے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے اور ان کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے تو وہاں فقط صیہونیوں کے مظالم کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے علاوہ اور بہت سارے افراد بھی ان پر اس ظلم اور ستم میں شریک ہیں۔ اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب کیا فرماتے ہیں؟
رہبر معظم کی نگاہ میں فلسطینیوں پر ظلم اورستم میں کون کون شریک ہیں؟
کیا فقط صیہونیوں کی جانب سے ظلم ہو رہا ہے؟
رہبر معظم فلسطین کے اس مسئلے پر کن دو اہم باتوں پر تاکید کرتے ہیں؟
رہبر معظم فلسطین کے مسئلے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ان کی نظر میں کیا یہ فقط فلسطین کا مسئلہ ہے یا پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے؟
رہبر معظم انقلاب، فلسطین کے حق میں اٹھنے والی کس قسم کی تحریک کا مکمل ساتھ دینے کا یقین دلا رہے ہیں؟
ان تمام سوالات کے جواب رہبر معظم کی اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#فلسطین #مظلومیت #صیہونیوں #شریک #ظلم #ستم #تاکید #امت #مسلمہ #تحریک #یقین
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Palestine,
zulm,
setam,
sharik,
rahbar,
imam
Syed
Ali
Khamenei,
imam
Khamenei,
Zionist,
haqiqat,
enqelab,
omat,
muslem,
takid,
tahrik,
yaqin,
5:57
|
امام موسیٰ کاظمؑ کی انتھک جدّوجہد | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمامَ الْهُدىٰ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عَلَمَ الدِّينِ وَالتُّقىٰ
ولی امرِ...
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمامَ الْهُدىٰ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عَلَمَ الدِّينِ وَالتُّقىٰ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی زندگی اور اُن کی اسلامِ محمدی کی بقا کے لیے مثالی جدوجہد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے دور میں بنو عباس کے کتنے خلفا نے حکومت کی؟ ہارون رشید کے زمانے میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے کیا اہم ترین کام انجام دیا؟ بنو عباس کے چار خلفا کا امام موسیٰ کاظم کے ساتھ کیسا رویہ رہا؟ امام موسیٰ کاظم کی زندگی کا ایک حصہ کس چیز میں گزرا؟ آج امام موسیٰ کاظم کے بارے میں اکثر و بیشتر لوگوں کا کیا خیال ہے؟ حکومتی مشینری کو امام موسیٰ کاظم کی عظیم الشان شخصیت سے کس طرح کا خطرہ تھا؟
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بے مثال زندگی کے بارے میں بہترین اور منفرد گفتگو ملاحظہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #امام_موسیٰ_کاظم_علیہ_السلام #انتھک_جدوجہد #دور_امامت #چار_خلفا #ہارون_رشید #قید_خانہ #تبلیغ #دعوت #روپوشی #مظلوم #مالیات #خراج #دو_خلیفہ #علم #معرفت
More...
Description:
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمامَ الْهُدىٰ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عَلَمَ الدِّينِ وَالتُّقىٰ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی زندگی اور اُن کی اسلامِ محمدی کی بقا کے لیے مثالی جدوجہد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے دور میں بنو عباس کے کتنے خلفا نے حکومت کی؟ ہارون رشید کے زمانے میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے کیا اہم ترین کام انجام دیا؟ بنو عباس کے چار خلفا کا امام موسیٰ کاظم کے ساتھ کیسا رویہ رہا؟ امام موسیٰ کاظم کی زندگی کا ایک حصہ کس چیز میں گزرا؟ آج امام موسیٰ کاظم کے بارے میں اکثر و بیشتر لوگوں کا کیا خیال ہے؟ حکومتی مشینری کو امام موسیٰ کاظم کی عظیم الشان شخصیت سے کس طرح کا خطرہ تھا؟
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بے مثال زندگی کے بارے میں بہترین اور منفرد گفتگو ملاحظہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #امام_موسیٰ_کاظم_علیہ_السلام #انتھک_جدوجہد #دور_امامت #چار_خلفا #ہارون_رشید #قید_خانہ #تبلیغ #دعوت #روپوشی #مظلوم #مالیات #خراج #دو_خلیفہ #علم #معرفت
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Imam
Musa
Kazim,
jiddojehed,
sayyid
ali
khamenei,
imam
khamenei,
islam
e
mohammadi,
imam
musa
kazim
ki
zindagi,
bani
abbas,
banu
abbas,
kholafa,
khulafa,
khalifa,
imam
musa
kazim
ki
siyasi
zindagi,
harun
rashid,
qaid
khana,
jail,
ilm,
marefat,
zulm,
zalim,
mazloom,
tableegh,
7:03
|
1:57
|
بڑا واقعہ | دوسری قسط - Farsi Sub Urdu
بڑا واقعہ | دوسری قسط
اگر امام حسین کی قربانی نا ہوتی، اسلام ہمیں آج کس شکل میں ملتا ؟
واقعہ کربلا سے بڑھ کر...
بڑا واقعہ | دوسری قسط
اگر امام حسین کی قربانی نا ہوتی، اسلام ہمیں آج کس شکل میں ملتا ؟
واقعہ کربلا سے بڑھ کر عظیم واقعہ کونسا ہے؟
اربعین کے بارے میں ولی امر مسلمین کے بیانات پر مشتمل چھ قسطوں کے سلسلے کی دوسری قسط
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #اربعین #چہلم #پیادہ_روی #رہبری #حسین
More...
Description:
بڑا واقعہ | دوسری قسط
اگر امام حسین کی قربانی نا ہوتی، اسلام ہمیں آج کس شکل میں ملتا ؟
واقعہ کربلا سے بڑھ کر عظیم واقعہ کونسا ہے؟
اربعین کے بارے میں ولی امر مسلمین کے بیانات پر مشتمل چھ قسطوں کے سلسلے کی دوسری قسط
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #اربعین #چہلم #پیادہ_روی #رہبری #حسین
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Short,
Clip,
Sayyed,
Ali,
Khamenei,
Rahbar,
Walk,
Najaf,
Karbala,
Imam,
Hossayn,
A.S,
Leader,
Leadership,
Lively,
Life,
Humans,
Islam,
Rescuer,
Savior,
Religion
3:29
|
مسئلہ فلسطین اور منصفانہ ترین تجویز | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای فلسطین کے مسئلے کے حل کے حوالے سے انقلابِ اسلامی کی طرف سے دی جانے والی تجویز...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای فلسطین کے مسئلے کے حل کے حوالے سے انقلابِ اسلامی کی طرف سے دی جانے والی تجویز کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ فلسطین کے مستقبل کا واحد حل کیا ہے؟ کیا مغربی میڈیا کی یہودی دشمنی کے پروپیگنڈے درست ہیں؟ کس نظام کو بالآخر مٹنا ہے؟ کیا صیہونی نظام، دینِ یہودیت کا پیروکار ہے؟ عصرِ حاضر میں ہمارے لیے عزت و جہاد کا راستہ کس عظیم الشان شخصیت نے ہموار کیا؟
#ویڈیو #مسئلہ_فلسطین #ادیان #قومیتوں #استصواب_رائے #تجویز #یہودی_دشمنی #مغربی_طاقتیں #تشہیراتی_میڈیا #صیہونیت #بدعت #شیخ_احمد_یاسین #فتحی_شقاقی #عباس_موسوی #قاسم_سلیمانی #ابو_مہدی_المہندس
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای فلسطین کے مسئلے کے حل کے حوالے سے انقلابِ اسلامی کی طرف سے دی جانے والی تجویز کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ فلسطین کے مستقبل کا واحد حل کیا ہے؟ کیا مغربی میڈیا کی یہودی دشمنی کے پروپیگنڈے درست ہیں؟ کس نظام کو بالآخر مٹنا ہے؟ کیا صیہونی نظام، دینِ یہودیت کا پیروکار ہے؟ عصرِ حاضر میں ہمارے لیے عزت و جہاد کا راستہ کس عظیم الشان شخصیت نے ہموار کیا؟
#ویڈیو #مسئلہ_فلسطین #ادیان #قومیتوں #استصواب_رائے #تجویز #یہودی_دشمنی #مغربی_طاقتیں #تشہیراتی_میڈیا #صیہونیت #بدعت #شیخ_احمد_یاسین #فتحی_شقاقی #عباس_موسوی #قاسم_سلیمانی #ابو_مہدی_المہندس
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
dushman,
taqat,
wali
e
aamr,
imam
khamenei,
zaba,
hizbullah,
israel,
hujat,
sadam,
hokumat,
Video,
islami,
mubariz,
iqdam,
tanzimuo,
jahad,
muqadas,
palestine,
quds,
tajviz,
2:18
|
شہید باقر الصدرؒ اور ان کا پیغام | دستاویزی فلم | Farsi Sub Urdu
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
شہید مصطفیٰ چمران رضوان اللہ علیہ...
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
شہید مصطفیٰ چمران رضوان اللہ علیہ اِس صدی کی عظیم الشان شخصیت شہید سید باقر الصدر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ کے افکار اور کتابوں نے اسلامی دنیا کے جوانوں پر کس طرح کے اثرات مرتب کئے؟ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اِس عظیم شخصیت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید ابو مہدی مہندس رضوان اللہ علیہ، اِس عظیم الشان فقیہ، مجاہد اور اسلامی مفکر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ سید مقاومت حسن نصراللہ حفظہ اللہ آپؒ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید صدر کی کونسی دو باتیں معروف تھیں؟ شہید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ نے امت مسلمہ کو کیا پیغام دیا؟ شہید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ کی الٰہی مجاہدانہ زندگی کن کے لیے نمونہ عمل ہے؟
شہید آیت اللہ العظمیٰ سید باقرالصدر کے بارے میں اِن سوالات سے آشنائی کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #شہید_باقر_الصدر #پیغام #مکتب #اسلامی_دنیا #مومن #مبارز #عالی_شان #اسلامی_مفکر #شجاعت #شخصی_مفادات #دعوت #امام_خمینی #ضم #شہادت #عراقی_مجاہدین #نمونہ_عمل
More...
Description:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
شہید مصطفیٰ چمران رضوان اللہ علیہ اِس صدی کی عظیم الشان شخصیت شہید سید باقر الصدر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ کے افکار اور کتابوں نے اسلامی دنیا کے جوانوں پر کس طرح کے اثرات مرتب کئے؟ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اِس عظیم شخصیت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید ابو مہدی مہندس رضوان اللہ علیہ، اِس عظیم الشان فقیہ، مجاہد اور اسلامی مفکر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ سید مقاومت حسن نصراللہ حفظہ اللہ آپؒ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ شہید صدر کی کونسی دو باتیں معروف تھیں؟ شہید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ نے امت مسلمہ کو کیا پیغام دیا؟ شہید باقر الصدر رضوان اللہ علیہ کی الٰہی مجاہدانہ زندگی کن کے لیے نمونہ عمل ہے؟
شہید آیت اللہ العظمیٰ سید باقرالصدر کے بارے میں اِن سوالات سے آشنائی کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #شہید_باقر_الصدر #پیغام #مکتب #اسلامی_دنیا #مومن #مبارز #عالی_شان #اسلامی_مفکر #شجاعت #شخصی_مفادات #دعوت #امام_خمینی #ضم #شہادت #عراقی_مجاہدین #نمونہ_عمل
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
shahid,
shahadat,
shahid
baqer
sadr,
Documentary,
shahid
chamran,
imam,
imam
khomeini,
islam,
shahid
muhandes,
seyeed
hasan
nsruallah,
ummat,
jahad,
mujahed,
1:09
|
حمایتِ ملت افغانستان | ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ | Farsi Sub Urdu
اسلامی انقلاب ہمیشہ سے دنیا کی مظلوم اور کمزور اقوام کا حامی رہا ہے خواہ وہ فلسطینی قوم ہو یا شامی قوم ہو یا...
اسلامی انقلاب ہمیشہ سے دنیا کی مظلوم اور کمزور اقوام کا حامی رہا ہے خواہ وہ فلسطینی قوم ہو یا شامی قوم ہو یا عراقی قوم ہو یا یمنی قوم ہو یا کشمیری قوم ہو یا بوسنیا کی قوم ہو یا برما کی قوم ہو یا افغانستان کی مظلوم قوم ہو۔
افغانستان کے موجودہ حالات کے حوالے سےاسلامی انقلاب کا کیا موقف ہے؟ کیا اسلامی جمہوریہ ایران کسی خاص گروہ یا حکومت کی حامی ہے؟ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے روابط کا انحصار کس بات پر ہوتا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #حمایت_ملت_افغانستان #طرفدار #افغان_عوام
More...
Description:
اسلامی انقلاب ہمیشہ سے دنیا کی مظلوم اور کمزور اقوام کا حامی رہا ہے خواہ وہ فلسطینی قوم ہو یا شامی قوم ہو یا عراقی قوم ہو یا یمنی قوم ہو یا کشمیری قوم ہو یا بوسنیا کی قوم ہو یا برما کی قوم ہو یا افغانستان کی مظلوم قوم ہو۔
افغانستان کے موجودہ حالات کے حوالے سےاسلامی انقلاب کا کیا موقف ہے؟ کیا اسلامی جمہوریہ ایران کسی خاص گروہ یا حکومت کی حامی ہے؟ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے روابط کا انحصار کس بات پر ہوتا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #حمایت_ملت_افغانستان #طرفدار #افغان_عوام
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khamenei,
Afghanistan,
mellat,
enqelab,
islam,
musalman,
muslem,
zulm,
Palestine,
Iraq,
Yemen,
Kashmir,
iran,
hukumat,
tarafdar,
eawam,
3:26
|
جاسوسی کے اڈے کے خاتمے کا دِن | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ولادت باسعادت کی...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے استکباری نظام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امریکی سفارت خانہ یعنی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کا دِن اور رسول اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا دِن کس چیز کی یاد دلاتے ہیں؟ امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کا دِن کس چیز کا مظہر تھا؟ کیا امریکی سفارت خانے پر قبضہ فقط چند سفارت خانے میں موجود افراد کا مسئلہ تھا؟ امریکی سفارت خانے پر قبضے کا دِن کیوں اہمیت کا حامل ہے؟ امریکی نظام کس طرح کا نظام ہے؟ استکباری نظام کس چیز کا مجموعہ ہے؟ امریکی استکباری نظام کی نمایاں خصوصیات کونسی ہیں؟ کیا امریکی سفارت خانے پر قبضہ خلاف عقل کام تھا؟ کونسا عمل عقل کے منافی ہوتا ہے؟ کیا ایران کے انقلابی جوانوں نے انقلابِ اسلامی کے فوراً بعد امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا تھا؟ ایران اور امریکہ کے درمیان پائی جانے والی دشمنی کا آغاز کس نے کیا تھا؟ اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ نے اِس انقلاب کے خلاف کس طرح کے کام شروع کردیے تھے؟ ایران میں موجود امریکی سفارت خانے کو جاسوسی کا اڈہ کیوں کہا جاتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #13_آبان #امریکی_جاسوسی_اڈہ #استکبار #مبارزہ #سفارت_خانہ #امریکی_نظام #استکباری_نظام #شرارتوں #برائیوں_کا_مجموعہ #عین_عقلانیت #شروع_کرنے_والے
More...
Description:
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے استکباری نظام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امریکی سفارت خانہ یعنی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کا دِن اور رسول اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا دِن کس چیز کی یاد دلاتے ہیں؟ امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کا دِن کس چیز کا مظہر تھا؟ کیا امریکی سفارت خانے پر قبضہ فقط چند سفارت خانے میں موجود افراد کا مسئلہ تھا؟ امریکی سفارت خانے پر قبضے کا دِن کیوں اہمیت کا حامل ہے؟ امریکی نظام کس طرح کا نظام ہے؟ استکباری نظام کس چیز کا مجموعہ ہے؟ امریکی استکباری نظام کی نمایاں خصوصیات کونسی ہیں؟ کیا امریکی سفارت خانے پر قبضہ خلاف عقل کام تھا؟ کونسا عمل عقل کے منافی ہوتا ہے؟ کیا ایران کے انقلابی جوانوں نے انقلابِ اسلامی کے فوراً بعد امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا تھا؟ ایران اور امریکہ کے درمیان پائی جانے والی دشمنی کا آغاز کس نے کیا تھا؟ اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ نے اِس انقلاب کے خلاف کس طرح کے کام شروع کردیے تھے؟ ایران میں موجود امریکی سفارت خانے کو جاسوسی کا اڈہ کیوں کہا جاتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #13_آبان #امریکی_جاسوسی_اڈہ #استکبار #مبارزہ #سفارت_خانہ #امریکی_نظام #استکباری_نظام #شرارتوں #برائیوں_کا_مجموعہ #عین_عقلانیت #شروع_کرنے_والے
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
jasoosi
ka
adda,
sayyid
ali
khamenei,
payghambar,
wiladat,
istekbari
nizam,
rasool,
amriki
sifarat
khana,
qabza,
chand
afraad,
amriki
jasoos,
amriki
nizam,
aql,
amal,
aql
ke
manafi,
iran,
inqelabi
jawan,
inqelabe
islami,
hamla,
dushmani,
shuruwat,
inqelab,
13
aaban,
mubareza,
mubarza,
shararat,
burai,
aqalaniyat,
2:15
|
وحدت اور تفرقے کے ارادے کی جنگ | امام خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای...
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے والوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آج خطے میں کن کے درمیان تصادم پایا جاتا ہے؟ کونسے دو ارادے ایک دوسرے کے مقابل صف بستہ ہیں؟ مسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی صدا کون بلند کئے ہوئے ہیں؟ مومنین مسلمانوں کو کس چیز کی دعوت دے رہے ہیں؟ اگر مسلمانوں کے درمیان وحدت و یکجہتی قائم ہوجائے تو مسلمانوں کی کیا صورتحال ہوگی؟ آج کہاں کہاں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے؟ کونسے دو شیطانی گروہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلا رہے ہیں؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ProphetUnites
#ویڈیو #خطے #ارادوں #تصادم #ارادہ_وحدت #ارادہ_تفرقہ #اتحاد #اتفاق #مشترکات #میانمار #نائیجیریا #مشرقی_ایشیا #مغربی_افریقا #قتل #برطانوی_شیعہ #امریکی_سنی #قینچی #دو_دھارے
More...
Description:
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے والوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آج خطے میں کن کے درمیان تصادم پایا جاتا ہے؟ کونسے دو ارادے ایک دوسرے کے مقابل صف بستہ ہیں؟ مسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی صدا کون بلند کئے ہوئے ہیں؟ مومنین مسلمانوں کو کس چیز کی دعوت دے رہے ہیں؟ اگر مسلمانوں کے درمیان وحدت و یکجہتی قائم ہوجائے تو مسلمانوں کی کیا صورتحال ہوگی؟ آج کہاں کہاں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے؟ کونسے دو شیطانی گروہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلا رہے ہیں؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ProphetUnites
#ویڈیو #خطے #ارادوں #تصادم #ارادہ_وحدت #ارادہ_تفرقہ #اتحاد #اتفاق #مشترکات #میانمار #نائیجیریا #مشرقی_ایشیا #مغربی_افریقا #قتل #برطانوی_شیعہ #امریکی_سنی #قینچی #دو_دھارے
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
wehdat,
tafraqa,
irade,
jung,
sayyid
ali
khamenei,
haram,
allah,
quran,
musalman,
tasadum,
ittehad,
ittefaq,
mushtarakaat,
mayanmar,
nigeria,
mashriqi
asia,
maghribi
africa,
bartanvi
shia,
amriki
sunni,
qainchi,
sunni,
shia,
iran,
iraq,
syria,
lebanon,
bahrain,
pakistan,
hafta
e
wehdat,
unity
week,
1:41
|
قرآنی آیات آفتاب کی مانند ہمیشہ موجود ہیں | امام سید علی خامنہ ای | Farsi Sub Urdu
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ قرآن مجید کی آیتوں کے ظاہر و باطن کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ فضیل...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ قرآن مجید کی آیتوں کے ظاہر و باطن کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ فضیل بن یسار کون تھے؟ فضیل بن یسار امام محمد باقر علیہ السلام سے کس چیز سے متعلق سوال پوچھتے ہیں؟ امام محمد باقر علیہ السلام، فضیل کے سوال کا کیا جواب دیتے ہیں؟ تاویل سے کیا مراد ہے؟ قرآن مجید کی آیتیں کس چیز کی مانند ہمارے سروں پر موجود ہیں؟
ان تمام سوالات کے جوابات اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #قرآنی_آیتیں_آفتاب_کی_مانند_ہمیشہ_موجود_ہیں #فضیل_بن_یسار #امام_محمد_باقر_علیہ_السلام #امام_جعفر_صادق_علیہ_السلام #روایت #ظاہر #باطن #تاویل_سورج_اور_چاند_کی_مانند
More...
Description:
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ قرآن مجید کی آیتوں کے ظاہر و باطن کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ فضیل بن یسار کون تھے؟ فضیل بن یسار امام محمد باقر علیہ السلام سے کس چیز سے متعلق سوال پوچھتے ہیں؟ امام محمد باقر علیہ السلام، فضیل کے سوال کا کیا جواب دیتے ہیں؟ تاویل سے کیا مراد ہے؟ قرآن مجید کی آیتیں کس چیز کی مانند ہمارے سروں پر موجود ہیں؟
ان تمام سوالات کے جوابات اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #قرآنی_آیتیں_آفتاب_کی_مانند_ہمیشہ_موجود_ہیں #فضیل_بن_یسار #امام_محمد_باقر_علیہ_السلام #امام_جعفر_صادق_علیہ_السلام #روایت #ظاہر #باطن #تاویل_سورج_اور_چاند_کی_مانند
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
quran,
ensan,
VIDEO,
QURAN,
AFTAAB,
imam,
imam
syed
ali
khamenei,
imam
mohammad
baqer,
imam
jafar
sadeq,
qurani
ayaat,