URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
More...
Description:
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
6:24
|
به سمت گودال از خیمه دویدم من (نوحه جانسوز) محمود کریمی | Farsi
مداحی نوحه روضه شهادت حضرت فاطمه زهراؑ و امام حسینؑ:
به سمت گودال از خیمه دویدم من شمر جلو تر بود دیر رسیدم من...
مداحی نوحه روضه شهادت حضرت فاطمه زهراؑ و امام حسینؑ:
به سمت گودال از خیمه دویدم من شمر جلو تر بود دیر رسیدم من باصدای حاج محمود کریمی
شب پنجم ایام فاطمیه اول جدید 1397 هیأت رایة العباس
Haj Mahmoud Karimi- Shahadat Hazrat Fatima Zahra Farsi Noha with Lyrics 2019
متن: به سمت گودال از خیمه دویدم من شمر جلو تر بود دیر رسیدم من سر تو دعوا بود ناله کشیدم من سر تورو بردن دیر رسیدم من یه گوشه گودال مادر و دیدم من که رفته بود از حال دیر رسیدم من صدا زدی من رو خودم شنیدم من صدای رگهات بود دیر رسیدم من افتان و خیزارن و نفس بریدم من پیرهن و بردن دیر رسیدم من با بوسه از رگهات به خون تپیدم من میان خاک و خون دیر رسیدم من
More...
Description:
مداحی نوحه روضه شهادت حضرت فاطمه زهراؑ و امام حسینؑ:
به سمت گودال از خیمه دویدم من شمر جلو تر بود دیر رسیدم من باصدای حاج محمود کریمی
شب پنجم ایام فاطمیه اول جدید 1397 هیأت رایة العباس
Haj Mahmoud Karimi- Shahadat Hazrat Fatima Zahra Farsi Noha with Lyrics 2019
متن: به سمت گودال از خیمه دویدم من شمر جلو تر بود دیر رسیدم من سر تو دعوا بود ناله کشیدم من سر تورو بردن دیر رسیدم من یه گوشه گودال مادر و دیدم من که رفته بود از حال دیر رسیدم من صدا زدی من رو خودم شنیدم من صدای رگهات بود دیر رسیدم من افتان و خیزارن و نفس بریدم من پیرهن و بردن دیر رسیدم من با بوسه از رگهات به خون تپیدم من میان خاک و خون دیر رسیدم من
1:33
|
عشق یعنی به تو رسیدن (مداحی اربعین) محمد حسین پویانفر | farsi sub urdu
نماهنگ: من غلام نوکراتم عاشق کربلاتم تا آخرش باهاتم تو همونی که میخوامی دلیل گریه هامی تا آخرش باهامی عشق...
نماهنگ: من غلام نوکراتم عاشق کربلاتم تا آخرش باهاتم تو همونی که میخوامی دلیل گریه هامی تا آخرش باهامی عشق یعنی به تو رسیدن یعنی نفس کشیدن تو خاک سرزمینت عشق یعنی تموم سال و همیشه بی قرارم برای اربعینت آقای من زندگیم و دستت دادم تو این مسیر افتادم ای عشق مادرزادم حسین ( مداحی اربعین و مداحی برای جاماندهای پیاده روی اربعین) بامداحی کربلایی محمد حسین پویانفر
متن فارسی بازیرنوسی انگلیسی اردو ترجمہ سبٹائٹل مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین 1440
Mohammad Hossein pooyanfar 1397 Arbaeen Noha Karbala Muharram Best Farsi Noha with Urdu English subtitle translation 2018
More...
Description:
نماهنگ: من غلام نوکراتم عاشق کربلاتم تا آخرش باهاتم تو همونی که میخوامی دلیل گریه هامی تا آخرش باهامی عشق یعنی به تو رسیدن یعنی نفس کشیدن تو خاک سرزمینت عشق یعنی تموم سال و همیشه بی قرارم برای اربعینت آقای من زندگیم و دستت دادم تو این مسیر افتادم ای عشق مادرزادم حسین ( مداحی اربعین و مداحی برای جاماندهای پیاده روی اربعین) بامداحی کربلایی محمد حسین پویانفر
متن فارسی بازیرنوسی انگلیسی اردو ترجمہ سبٹائٹل مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین 1440
Mohammad Hossein pooyanfar 1397 Arbaeen Noha Karbala Muharram Best Farsi Noha with Urdu English subtitle translation 2018
23:14
|
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali Khamenei - Urdu translation
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں،...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
More...
Description:
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
40:01
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in one night - Part 1 - Farsi
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
More...
Description:
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
2:21
|
لالا گلم لالا (نوحه علی اصغر) مجید بنی فاطمه | Farsi sub Urdu
لالالالا گلم لالالالا بهارم (زمینه زیبا شب شهادت حضرت علی اصغر) بامداحی حاج سید مجید بنی فاطمه شب هفتم...
لالالالا گلم لالالالا بهارم (زمینه زیبا شب شهادت حضرت علی اصغر) بامداحی حاج سید مجید بنی فاطمه شب هفتم محرم 1396 بازیرنویس اردو ترجمه سبٹائٹل و متن فارسی
مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا حضرت ابوالفضل عباس امام حسین 1397 هیئت ریحانة الحسین (س)
LaLa Lala Golam Haj Seyed Majid Bani Fatemeh 1397 Muharram
Best Farsi Noha with Urdu translation subtitle 2018
Nohay of Hazrat Ali Asghar
متن: لالالالا گلم لالالالا بهارم شمع یک سالگیت و من سر قبرت میذارمباگه زنده بمونم اگه مادر نمیمرم برات جشن تولد سر خاکت میگیرم عمو برا جشنت اب میاره پسر عموتم گلاب میاره اما همش خواب و خیاله لالالالا تو خواب دیدم که دندون در اوردی پاشودی و یه کاسه اب واسه مادر اوردی سر سجاده خود رو به قبله میشینم دعام اینه که مادر دومادیت و ببینم شب دومادی تو عزیزم پشت سرت اروم اب میریزم
More...
Description:
لالالالا گلم لالالالا بهارم (زمینه زیبا شب شهادت حضرت علی اصغر) بامداحی حاج سید مجید بنی فاطمه شب هفتم محرم 1396 بازیرنویس اردو ترجمه سبٹائٹل و متن فارسی
مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا حضرت ابوالفضل عباس امام حسین 1397 هیئت ریحانة الحسین (س)
LaLa Lala Golam Haj Seyed Majid Bani Fatemeh 1397 Muharram
Best Farsi Noha with Urdu translation subtitle 2018
Nohay of Hazrat Ali Asghar
متن: لالالالا گلم لالالالا بهارم شمع یک سالگیت و من سر قبرت میذارمباگه زنده بمونم اگه مادر نمیمرم برات جشن تولد سر خاکت میگیرم عمو برا جشنت اب میاره پسر عموتم گلاب میاره اما همش خواب و خیاله لالالالا تو خواب دیدم که دندون در اوردی پاشودی و یه کاسه اب واسه مادر اوردی سر سجاده خود رو به قبله میشینم دعام اینه که مادر دومادیت و ببینم شب دومادی تو عزیزم پشت سرت اروم اب میریزم
11:24
|
[FARSI] HAJJ Message 2014 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
پیام به حجّاج بیتاللهالحرام
حضرت آیتالله خامنهای در پیامی به حجاج بیتاللهالحرام، توجه به...
پیام به حجّاج بیتاللهالحرام
حضرت آیتالله خامنهای در پیامی به حجاج بیتاللهالحرام، توجه به مسائل جهان اسلام و نگاهی بلند و فراگیر به مهمترین موضوعات مرتبط با امت اسلامی را در صدر وظایف و آداب حج گزاران دانستند و تاکید کردند: اتحاد مسلمین، مسالهی فلسطین، و نگاه هوشمندانه به تفاوت اسلام ناب محمّدی و اسلام آمریکایی، سه اولویت اصلی جهان اسلام است که امت اسلامی باید با بصیرت و ژرف اندیشی، به وظیفه و تکلیفِ روزِ خود در قبال این موضوعات عمل کند.
متن کامل این پیام که صبح امروز (جمعه ۱۱ مهرماه ۱۳۹۳) توسط حجتالاسلام قاضی عسگر نمایندهی ولیفقیه و سرپرست حجاج ایرانی در مراسم روز برائت از مشرکین در صحرای عرفات قرائت شد، به شرح زیر است.
پیوندهای مرتبطفيلمفيلمصوتصوت نسخه قابل چاپنسخه قابل چاپ۱۳۹۳/۰۷/۰۸
پیام به حجّاج بیتاللهالحرام
حضرت آیتالله خامنهای در پیامی به حجاج بیتاللهالحرام، توجه به مسائل جهان اسلام و نگاهی بلند و فراگیر به مهمترین موضوعات مرتبط با امت اسلامی را در صدر وظایف و آداب حج گزاران دانستند و تاکید کردند: اتحاد مسلمین، مسالهی فلسطین، و نگاه هوشمندانه به تفاوت اسلام ناب محمّدی و اسلام آمریکایی، سه اولویت اصلی جهان اسلام است که امت اسلامی باید با بصیرت و ژرف اندیشی، به وظیفه و تکلیفِ روزِ خود در قبال این موضوعات عمل کند.
متن کامل این پیام که صبح امروز (جمعه ۱۱ مهرماه ۱۳۹۳) توسط حجتالاسلام قاضی عسگر نمایندهی ولیفقیه و سرپرست حجاج ایرانی در مراسم روز برائت از مشرکین در صحرای عرفات قرائت شد، به شرح زیر است.
English | French | اردو | العربیه
دانلود فیلم: نسخه FLV | نسخه MP۴
بسماللهالرّحمنالرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین
درود و سلامی از سرِ شوق و تکریم بر شما سعادتمندان که به دعوت قرآنی لبّیک گفته و به میهمانیِ خانهی خدا شتافتهاید. نخستین سخن آن است که این نعمت بزرگ را قدر بدانید و با تأمّل در ابعاد فردی و اجتماعی و روحی و بینالمللی این فریضهی بیهمتا، برای نزدیک شدن به هدفهای آن تلاش کنید و از میزبان رحیم و قدیر، برای آن کمک بخواهید. اینجانب همدل و همزبان با شما از پروردگار غفور و منّان درخواست میکنم که نعمت خود را بر شما تمام کند و چون توفیق سفر حج عطا کرده است، توفیقِ گزاردن حجّ کامل نیز عطا فرماید و آنگاه با قبول کریمانهی خود، شما را با دست پُر و عافیت کامل روانهی دیار خود سازد؛ انشاءالله.
در فرصت مغتنمِ این مناسک پُرمغز و بینظیر، بهجز تطهیر و تعمیر(۱) معنوی و روحی که برترین و ریشهایترین دستاورد حج است، توجّه به مسائل جهان اسلام و نگاهی بلند و فراگیر به مهمترین و اولویّتدارترین موضوعات مرتبط با امّت اسلامی، در صدر وظایف و آداب حجگزاران است.
امروز از جملهی این موضوعات مهم و دارای اولویّت، مسئلهی اتّحاد مسلمانان و گشودن گرههای فاصلهافکن میان بخشهای امّت اسلامی است. حج، مظهر وحدت و یکپارچگی و کانون برادری و همیاری است. در حج باید همگان درس تمرکز بر مشترکات و رفع اختلافات را فرا بگیرند. دستهای پلید سیاستهای استعماری از دیرباز تفرقهافکنی را برای تأمین مقاصد شوم خود در دستور کار داشتهاند، ولی امروز که به برکت بیداری اسلامی، ملّتهای مسلمان دشمنیِ جبههی استکبار و صهیونیسم را بدرستی شناخته و در برابر آن موضع گرفتهاند، سیاست تفرقهافکنی میان مسلمانان شدّت بیشتری یافته است. دشمن مکّار بر آن است که با افروختن آتش جنگهای خانگی میان مسلمانان، انگیزههای مقاومت و مجاهدت را در آنان به انحراف کشانده، رژیم صهیونیستی و کارگزاران استکبار را که دشمنان حقیقیاند، در حاشیهی امن قرار دهد. راهاندازی گروههای تروریستی تکفیری و امثال آن در کشورهای منطقهی غربِ آسیا ناشی از این سیاستِ غدّارانه است. این هشداری به همهی ما است که مسئلهی اتّحاد مسلمین را امروز در صدر وظایف ملّی و بینالمللی خود بشماریم.
موضوع مهمّ دیگر مسئلهی فلسطین است. با گذشت ۶۵ سال از آغاز تشکیل رژیم غاصب صهیونیست و فرازوفرودهای گوناگون در این مسئلهی مهم و حسّاس و بخصوص با حوادث خونین سالهای اخیر، دو حقیقت برای همه آشکار شده است: اوّل آنکه رژیم صهیونیست و پشتیبانان جنایتکار آن، در قساوت و سبعیّت و پایمال کردن همهی موازین انسانی و اخلاقی هیچ حدّ و مرزی نمیشناسند. جنایت، نسلکشی، ویرانگری، کشتار کودکان و زنان و بیپناهان، و هر تعدّی و ظلمی را که از دستشان برآید برای خود مباح میشمرند و به آن افتخار هم میکنند. صحنههای گریهآور جنگ پنجاه روزهی اخیر غزّه، آخرین نمونهی این بزهکاریهای تاریخی است که البتّه در نیم قرن اخیر بارها تکرار شده است.
دوّمین حقیقت آن است که این سفّاکی و فاجعهآفرینیها نتوانسته است هدفِ سردمداران و پشتیبانان رژیم غاصب را برآورده سازد. برخلاف آرزوی احمقانهی اقتدار و استحکامی که سیاستبازان خبیث برای رژیم صهیونیستی در سر میپروراندند، این رژیم روزبهروز به اضمحلال و نابودی نزدیکتر شده است. ایستادگی پنجاه روزهی غزّهی محصور و بیپناه در برابر همهی توانِ بهصحنهآوردهی رژیم صهیونیست، و سرانجام، ناکامی و عقبنشینی آن رژیم و تسلیم شدنش در برابر شروط مقاومت، نمایشگاه آشکار این ضعف و ناتوانی و بیبُنیگی است. این بدان معنی است که ملّت فلسطین باید از همیشه امیدوارتر باشد، مبارزان جهاد و حماس باید بر تلاش و عزم و همّت خود بیفزایند، کرانهی غربی راه پرافتخار همیشگی را با قدرت و استحکام بیشتر پیگیرد، ملّتهای مسلمان پشتیبانی واقعی و جدّی از فلسطین را از دولتهای خود مطالبه کنند، و دولتهای مسلمان صادقانه در این راه گام نهند.
سوّمین موضوع مهم و دارای اولویّت، نگاه هوشمندانهای است که فعّالان دلسوز جهان اسلام باید به تفاوتِ میان اسلام ناب محمّدی و اسلام آمریکایی داشته باشند و از خلط و اشتباه میان این دو، خود و دیگران را برحذر بدارند. نخستین بار امام راحل بزرگ ما به تمایز این دو مقوله همّت گماشته و آن را وارد قاموس سیاسی دنیای اسلام کرد. اسلامِ ناب، اسلامِ صفا و معنویّت، اسلامِ پرهیزکاری و مردمسالاری، اسلامِ «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار رُحَماءُ بَینَهُم» (۲) است. اسلامِ آمریکایی، پوشاندن لباس اسلام بر نوکری اجانب و دشمنی با امّت اسلامی است. اسلامی که آتش تفرقه میان مسلمین را دامن بزند، به جای اعتماد به وعدهی الهی، به دشمنان خدا اعتماد کند، به جای مبارزه با صهیونیسم و استکبار با برادر مسلمان بجنگد، با آمریکای مستکبر علیه ملّت خود یا ملّتهای دیگر متّحد شود، اسلام نیست؛ نفاق خطرناک و مهلکی است که هر مسلمان صادقی باید با آن مبارزه کند.
نگاه همراه با بصیرت و ژرفاندیشی، این حقایق و مسائل مهم را در واقعیتِ جهان اسلام برای هر جویندهی حقّی روشن میسازد و وظیفه و تکلیفِ روز را بیهیچ ابهامی معیّن میکند. حج و مناسک و شعائر آن فرصتِ مغتنمی برای کسب این بصیرت است، و امید آنکه شما سعادتمندان حجگزار از این موهبت الهی به طور کامل بهرهمند گردید. همهی شما را به خدای بزرگ میسپارم و قبولی تلاش شما را از خداوند مسئلت مینمایم.
والسّلام علیکم و رحمةالله
سیّدعلی خامنهای
پنجم ذیالحجّة ۱۴۳۵ مصادف با هشتم مهرماه ۱۳۹۳
More...
Description:
پیام به حجّاج بیتاللهالحرام
حضرت آیتالله خامنهای در پیامی به حجاج بیتاللهالحرام، توجه به مسائل جهان اسلام و نگاهی بلند و فراگیر به مهمترین موضوعات مرتبط با امت اسلامی را در صدر وظایف و آداب حج گزاران دانستند و تاکید کردند: اتحاد مسلمین، مسالهی فلسطین، و نگاه هوشمندانه به تفاوت اسلام ناب محمّدی و اسلام آمریکایی، سه اولویت اصلی جهان اسلام است که امت اسلامی باید با بصیرت و ژرف اندیشی، به وظیفه و تکلیفِ روزِ خود در قبال این موضوعات عمل کند.
متن کامل این پیام که صبح امروز (جمعه ۱۱ مهرماه ۱۳۹۳) توسط حجتالاسلام قاضی عسگر نمایندهی ولیفقیه و سرپرست حجاج ایرانی در مراسم روز برائت از مشرکین در صحرای عرفات قرائت شد، به شرح زیر است.
پیوندهای مرتبطفيلمفيلمصوتصوت نسخه قابل چاپنسخه قابل چاپ۱۳۹۳/۰۷/۰۸
پیام به حجّاج بیتاللهالحرام
حضرت آیتالله خامنهای در پیامی به حجاج بیتاللهالحرام، توجه به مسائل جهان اسلام و نگاهی بلند و فراگیر به مهمترین موضوعات مرتبط با امت اسلامی را در صدر وظایف و آداب حج گزاران دانستند و تاکید کردند: اتحاد مسلمین، مسالهی فلسطین، و نگاه هوشمندانه به تفاوت اسلام ناب محمّدی و اسلام آمریکایی، سه اولویت اصلی جهان اسلام است که امت اسلامی باید با بصیرت و ژرف اندیشی، به وظیفه و تکلیفِ روزِ خود در قبال این موضوعات عمل کند.
متن کامل این پیام که صبح امروز (جمعه ۱۱ مهرماه ۱۳۹۳) توسط حجتالاسلام قاضی عسگر نمایندهی ولیفقیه و سرپرست حجاج ایرانی در مراسم روز برائت از مشرکین در صحرای عرفات قرائت شد، به شرح زیر است.
English | French | اردو | العربیه
دانلود فیلم: نسخه FLV | نسخه MP۴
بسماللهالرّحمنالرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین
درود و سلامی از سرِ شوق و تکریم بر شما سعادتمندان که به دعوت قرآنی لبّیک گفته و به میهمانیِ خانهی خدا شتافتهاید. نخستین سخن آن است که این نعمت بزرگ را قدر بدانید و با تأمّل در ابعاد فردی و اجتماعی و روحی و بینالمللی این فریضهی بیهمتا، برای نزدیک شدن به هدفهای آن تلاش کنید و از میزبان رحیم و قدیر، برای آن کمک بخواهید. اینجانب همدل و همزبان با شما از پروردگار غفور و منّان درخواست میکنم که نعمت خود را بر شما تمام کند و چون توفیق سفر حج عطا کرده است، توفیقِ گزاردن حجّ کامل نیز عطا فرماید و آنگاه با قبول کریمانهی خود، شما را با دست پُر و عافیت کامل روانهی دیار خود سازد؛ انشاءالله.
در فرصت مغتنمِ این مناسک پُرمغز و بینظیر، بهجز تطهیر و تعمیر(۱) معنوی و روحی که برترین و ریشهایترین دستاورد حج است، توجّه به مسائل جهان اسلام و نگاهی بلند و فراگیر به مهمترین و اولویّتدارترین موضوعات مرتبط با امّت اسلامی، در صدر وظایف و آداب حجگزاران است.
امروز از جملهی این موضوعات مهم و دارای اولویّت، مسئلهی اتّحاد مسلمانان و گشودن گرههای فاصلهافکن میان بخشهای امّت اسلامی است. حج، مظهر وحدت و یکپارچگی و کانون برادری و همیاری است. در حج باید همگان درس تمرکز بر مشترکات و رفع اختلافات را فرا بگیرند. دستهای پلید سیاستهای استعماری از دیرباز تفرقهافکنی را برای تأمین مقاصد شوم خود در دستور کار داشتهاند، ولی امروز که به برکت بیداری اسلامی، ملّتهای مسلمان دشمنیِ جبههی استکبار و صهیونیسم را بدرستی شناخته و در برابر آن موضع گرفتهاند، سیاست تفرقهافکنی میان مسلمانان شدّت بیشتری یافته است. دشمن مکّار بر آن است که با افروختن آتش جنگهای خانگی میان مسلمانان، انگیزههای مقاومت و مجاهدت را در آنان به انحراف کشانده، رژیم صهیونیستی و کارگزاران استکبار را که دشمنان حقیقیاند، در حاشیهی امن قرار دهد. راهاندازی گروههای تروریستی تکفیری و امثال آن در کشورهای منطقهی غربِ آسیا ناشی از این سیاستِ غدّارانه است. این هشداری به همهی ما است که مسئلهی اتّحاد مسلمین را امروز در صدر وظایف ملّی و بینالمللی خود بشماریم.
موضوع مهمّ دیگر مسئلهی فلسطین است. با گذشت ۶۵ سال از آغاز تشکیل رژیم غاصب صهیونیست و فرازوفرودهای گوناگون در این مسئلهی مهم و حسّاس و بخصوص با حوادث خونین سالهای اخیر، دو حقیقت برای همه آشکار شده است: اوّل آنکه رژیم صهیونیست و پشتیبانان جنایتکار آن، در قساوت و سبعیّت و پایمال کردن همهی موازین انسانی و اخلاقی هیچ حدّ و مرزی نمیشناسند. جنایت، نسلکشی، ویرانگری، کشتار کودکان و زنان و بیپناهان، و هر تعدّی و ظلمی را که از دستشان برآید برای خود مباح میشمرند و به آن افتخار هم میکنند. صحنههای گریهآور جنگ پنجاه روزهی اخیر غزّه، آخرین نمونهی این بزهکاریهای تاریخی است که البتّه در نیم قرن اخیر بارها تکرار شده است.
دوّمین حقیقت آن است که این سفّاکی و فاجعهآفرینیها نتوانسته است هدفِ سردمداران و پشتیبانان رژیم غاصب را برآورده سازد. برخلاف آرزوی احمقانهی اقتدار و استحکامی که سیاستبازان خبیث برای رژیم صهیونیستی در سر میپروراندند، این رژیم روزبهروز به اضمحلال و نابودی نزدیکتر شده است. ایستادگی پنجاه روزهی غزّهی محصور و بیپناه در برابر همهی توانِ بهصحنهآوردهی رژیم صهیونیست، و سرانجام، ناکامی و عقبنشینی آن رژیم و تسلیم شدنش در برابر شروط مقاومت، نمایشگاه آشکار این ضعف و ناتوانی و بیبُنیگی است. این بدان معنی است که ملّت فلسطین باید از همیشه امیدوارتر باشد، مبارزان جهاد و حماس باید بر تلاش و عزم و همّت خود بیفزایند، کرانهی غربی راه پرافتخار همیشگی را با قدرت و استحکام بیشتر پیگیرد، ملّتهای مسلمان پشتیبانی واقعی و جدّی از فلسطین را از دولتهای خود مطالبه کنند، و دولتهای مسلمان صادقانه در این راه گام نهند.
سوّمین موضوع مهم و دارای اولویّت، نگاه هوشمندانهای است که فعّالان دلسوز جهان اسلام باید به تفاوتِ میان اسلام ناب محمّدی و اسلام آمریکایی داشته باشند و از خلط و اشتباه میان این دو، خود و دیگران را برحذر بدارند. نخستین بار امام راحل بزرگ ما به تمایز این دو مقوله همّت گماشته و آن را وارد قاموس سیاسی دنیای اسلام کرد. اسلامِ ناب، اسلامِ صفا و معنویّت، اسلامِ پرهیزکاری و مردمسالاری، اسلامِ «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار رُحَماءُ بَینَهُم» (۲) است. اسلامِ آمریکایی، پوشاندن لباس اسلام بر نوکری اجانب و دشمنی با امّت اسلامی است. اسلامی که آتش تفرقه میان مسلمین را دامن بزند، به جای اعتماد به وعدهی الهی، به دشمنان خدا اعتماد کند، به جای مبارزه با صهیونیسم و استکبار با برادر مسلمان بجنگد، با آمریکای مستکبر علیه ملّت خود یا ملّتهای دیگر متّحد شود، اسلام نیست؛ نفاق خطرناک و مهلکی است که هر مسلمان صادقی باید با آن مبارزه کند.
نگاه همراه با بصیرت و ژرفاندیشی، این حقایق و مسائل مهم را در واقعیتِ جهان اسلام برای هر جویندهی حقّی روشن میسازد و وظیفه و تکلیفِ روز را بیهیچ ابهامی معیّن میکند. حج و مناسک و شعائر آن فرصتِ مغتنمی برای کسب این بصیرت است، و امید آنکه شما سعادتمندان حجگزار از این موهبت الهی به طور کامل بهرهمند گردید. همهی شما را به خدای بزرگ میسپارم و قبولی تلاش شما را از خداوند مسئلت مینمایم.
والسّلام علیکم و رحمةالله
سیّدعلی خامنهای
پنجم ذیالحجّة ۱۴۳۵ مصادف با هشتم مهرماه ۱۳۹۳
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح...
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
More...
Description:
سخنرانی در جمع مردم کرمانشاه - Visit of Kermanshah By Rahbar Sayyed Ali Khamenei - Farsi
رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز(چهارشنبه) در جمع پُرشور هزاران نفر از مردم كرمانشاه در ورزشگاه آزادی اين شهر، در سخنان مهمی به تبيين نقش، جايگاه و حضور و عزم مردم در نظام جمهوری اسلامی بعنوان معيار اصلی و تأثيرگذاری استفاده از ظرفيت و توانايیهای برجسته مردم برای مقابله با چالشهای سخت و نرم و حركت شتابان در مسير پيشرفت علمی، اقتصادی، صنعتی و كشاورزی پرداختند.
حضرت آيتالله خامنهای گسترش و موفقيت تحولات و جنبشهای گوناگون اجتماعی را، همواره وابسته به ارتباط و نزديكی آن جنبش با مردم دانستند و افزودند: در تاريخ معاصر ايران، دو تجربه مشروطيت و ملی شدن صنعت نفت وجود دارد كه نقش بیبديل مردم عامل مؤثر در موفقيت ابتدايی اين دو تجربه تاريخی بودند اما چون اين دو حركت، از مردم فاصله گرفتند، نهايت و سرانجام آنها، استبداد رضاخانی و كودتای 28 مرداد شد.
ايشان خاطرنشان كردند: هيچ حادثهای در تاريخ ايران همانند انقلاب اسلامی وجود ندارد كه مردم در پيروزی و ادامه آن نقش مستقيم و اساسی داشته باشند.
رهبر انقلاب اسلامی مهمترين ويژگی انقلاب اسلامی را، تمام نشدن نقش مردم با پيروزی آن، ارزيابی كردند و افزودند: استمرار نقش و حضور مردم بعد از پيروزی انقلاب اسلامی، از حكمت، تدبير و ژرفنگری امام بزرگوار(ره) بود كه ملت ايران را بدرستی شناخته و باور كرده بود و به توانايیها و عزم راسخ ملت ايران، ايمان داشت.
حضرت آيتالله خامنهای با مروری گذرا به تدابير امام خمينی(ره) در فاصله كوتاهی بعد از پيروزی انقلاب اسلامی از جمله رأیگيری از مردم برای تعيين نوع نظام، برای تشكيل مجلس خبرگان قانون اساسی، تأييد قانون اساسی و انتخاب اولين رئيسجمهور، تأكيد كردند: در طول 32 سال گذشته همواره و بدون وقفه همه مسئولان نظام اسلامی اعم از رهبری، خبرگان رهبری، رئيس جمهور، نمايندگان مجلس شورای اسلامی و نمايندگان شوراهای اسلامی با رأی و نظر مردم برگزيده شدهاند.
ايشان افزودند: در 32 سال گذشته، سلائق و ذائقههای مختلف سياسی نيز بر سر كار آمدند كه حتی برخی از آنها با اصول نظام زاويه داشتند، اما ظرفيت عظيم مردمی نظام اسلامی، بدون ناشكيبائی، از همه اين مسائل عبور كرد كه اصلیترين علت آن، همان حضور و ايمان مردم و پايبندی مردم به نظام اسلامی است.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به آرمانهای بلند نظام جمهوری اسلامی و مخالفت آن با نظام استكبار و بیعدالتی بينالمللی و چالشهای دشمنان برای اين نظام، خاطرنشان كردند، اگر چنين نظامی بخواهد بماند و به مسير حركت خود ادامه دهد، نيازمند نيرو و ظرفيت عظيم مردمی است كه با تدبير امام خمينی(ره) از متن اسلام گرفته شد.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند بر اساس اين تدبير و به پشتوانه ايمان، عزم و حضور مردم ، نظام جمهوری اسلامی ايران بر همه چالشهای سخت و نرم فائق آمده است و به لطف خداوند، در آينده نيز بر هر چالشی پيروز خواهد شد.
رهبر انقلاب در ادامه سخنان خود، برخی چالشهايی را كه نظام اسلامی توانسته با اتكاء به مردم بر آنها فائق بيايد، بيان كردند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به جنگ تحميلی 8 ساله بعنوان يكی از چالشهای بزرگ در ابتدای پيروزی انقلاب اسلامی، افزودند: دفاع مقدس را مردم اداره كردند و نظام اسلامی بواسطه ايمان، عشق و صفای مردم، در اين جنگ نابرابر پيروز شد. ايشان تأكيد كردند: جا دارد كه آن حوادث ممتاز و زيبای دوران دفاع مقدس برای نسل جوان بازخوانی شود.
رهبر انقلاب اسلامی، فشارها و تحريمهای اقتصادی را كه از ابتدای پيروزی انقلاب از جانب دشمنان اعمال شد، يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام اسلامی خواندند و افزودند: تحريم و فشار اقتصادی برای ملت ايران، مسئله جديدی نيست زيرا نظام اسلامی با صبر و بصيرت مردم بويژه جوانان توانسته است از همه اين محدوديتها بعنوان يك فرصت استفاده كند و در ميدانهای نوآوری، و ابتكار به پيشرفتهای بزرگی دست پيدا كند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به فتنه 18 تير سال 78 و فتنه سال 88 در تهران بعنوان يكی از چالشهای پيچيده پيش روی نظام، خاطرنشان كردند: حضور مردم، اين دو فتنه را نيز به شكست كشاند بگونهای كه پنج روز بعد از فتنه 18 تير، حركت عظيم 23 تير در سراسر كشور بوقوع پيوست و در فتنه 88 ، دو روز بعد از حوادث عاشورا، حركت عظيم و كمنظير مردم در 9 دی روی داد.
ايشان مسئله هستهای را يكی ديگر از چالشهای پيش روی نظام برشمردند كه مسئولان توانستند با اتكاء به پشتيبانی و اقتدار مردمی، در مقابل تهديدهای دشمنان ايستادگی كنند.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشرفتهای علمی و فناوری كشور را يكی از عرصههای بسيار مهم نقشآفرينی مردم بويژه جوانان دانستند و افزودند: امروز در سراسر كشور بخصوص در مراكز علمی و حساس، جوانان ايرانی، كارهای بزرگی را از لحاظ علم و فناوری انجام میدهند كه زمينهساز اعتماد به نفس ملت ايران و همچنين رونق اقتصادی كشور است.
حضرت آيتالله خامنهای در جمعبندی اين بخش از سخنان خود به دو نكته مهم اشاره كردند: 1ـ سياستگذاران غربی واقعيت نظام اسلامی ايران را كه همان نقش، حضور و بافت مردمی است، متوجه شوند. 2ـ مسئولان از ظرفيتهای بزرگ و ابتكارات و حضور مردمی در همه عرصهها استفاده كنند.
ايشان خطاب به سياستگذاران استكبار خاطرنشان كردند: ايران را با برخی كشورهای ديگر اشتباه نگيريد، زيرا در ايران اسلامی اراده و عزم مردم نقش اصلی را دارد و مردم در انقلاب، صاحب سهم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تاكيد كردند: بر همين اساس دنيا بداند، اگر مسئولی هم در كشور بخواهد، كجروی كند و حركت ديگری در قبال انقلاب اسلامی براه بياندازد، مردم او را حذف خواهند كرد.
حضرت آيتالله خامنهای حضور گرم و پُرشور امروز مردم كرمانشاه را نمونهای از پشتيبانی مردمی نظام اسلامی برشمردند و ضمن تشكر از اين حضور پُرشكوه خاطرنشان كردند: من راضی به رنج و زحمت مردم در چنين استقبالهايی نيستم.
ايشان همچنين خطاب به مسئولان تأكيد كردند: نظام اسلامی در هر عرصهای كه مسئولان با شناخت توانايیهای مردم از آن بهره گرفتهاند، موفق و پيروز بوده است اما در هر عرصهای كه مسئولان نتوانستهاند زمينه حضور مردم را فراهم كنند، ناكامیهايی بروز كرده است.
حضرت آيتالله خامنهای افزودند: مهم آن است كه مسئولان بتوانند در عرصههای مختلف با مهارت، دقت و ابتكار، مدل و فرمول حضور مردم را پيدا كنند.
ايشان با اشاره به نامگذاری دهه آينده بعنوان دهه پيشرفت و عدالت و تعيين سياستهای كلان نظام در چارچوب سند چشمانداز 20ساله، سياستهای اصل 44 و سياستهای برنامه پنج ساله كه با واقعنگری انجام شده است، خاطرنشان كردند: اگر زمينه حضور مردم برای تحقق اين هدفها تأمين شود، اين هدفها زودتر از زمان تعيين شده به نتيجه خواهند شد.
رهبر انقلاب اسلامی، ترسيم مدلهای قابل فهم برای حضور مردم در عرصههای مختلف بويژه عرصه اقتصادی و توليد را از وظايف مسئولان برشمردند و تأكيد كردند: قوای مجريه، قضائيه و مقننه بايد زمينه حضور مردم را فراهم و از نيرو و نشاط مردم بويژه جوانان استفاده كنند.
حضرت آيتالله خامنهای اين نكته را هم به مسئولان گوشزد كردند كه هرگونه سازو كار برای حضور مردم در عرصههای اقتصادی و توليدی بايد شفاف باشد.
ايشان، مسئولان را به قدرشناسی مردم و نيت خدمتگزاری خالصانه توصيه كردند و در خصوص توقعات مردم از مسئولان افزودند: تعامل و همكاری و وحدت مسئولان بويژه در ردههای بالا، تمركز بر اولويتهای كشور و پرهيز از مسائل فرعی و حاشيهای، كار و تلاش بیوقفه، صداقت، عمل به وعدهها، دوری از مناقشات، امانت و پاكدستی، برخورد با متخلف خائن ،حل مسئله اشتغال ، تقويت توليد ،كشاورزی و صنعت از مطالبات اصلی مردم هستند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: اگر در جايی مسئولان نتوانند كاری را انجام دهند و صادقانه به مردم بگويند، مردم حرفی ندارند اما مشكل و ناراحتی مردم در مواقعی است كه در برخورد با متخلف و پيگيری عدالت كوتاهی میشود.
حضرت آيتالله خامنهای با تأكيد بر اهميت مبارزه قاطعانه و مدبرانه با فساد مالی و اداری خاطر نشان كردند: خوشبختانه در قضيه فساد بانكی اخير، مسئولان سه قوه با يكديگر همكاری خوبی دارند و اين قضيه بايد تا رسيدن به نتيجه ادامه يابد و متخلف، هر كه باشد با آن برخورد شود تا درس عبرتی برای ديگران شود.
رهبر انقلاب اسلامی، پيشگيری را اولويت اصلی مبارزه با فساد خواندند و خاطرنشان كردند: اگر به هر دليلی، فساد بدليل كوتاهی در پيشگيری محقق شد، در اين شرايط، پيگيری مقابله با فساد، نبايد مورد غفلت قرار گيرد.
حضرت آيتالله خامنهای رعايت فرهنگ اسلامی و حفظ ارزشهای انقلاب را از جمله توقعات مهم عموم مردم برشمردند و تأكيد كردند: بسياری از مردم توقع دارند كه ظواهر اسلامی و فرهنگ اسلامی در جامعه رعايت شود و مسئولان بايد اين موضوع را مورد توجه جدی قرار دهند.
رهبر انقلاب اسلامی در ادامه با اشاره به انتخابات مجلس شورای اسلامی كه در اسفند ماه برگزار خواهد شد، انتخابات را مظهر حضور مردم و دميده شدن روح تازه در كالبد كشور دانستند و افزودند: انتخابات در همه دورهها برای مردم، كشور و نظام يك دستاورد بزرگ بوده است و به همين دليل دشمن همواره تلاش كرده است كه يا انتخابات برگزار نشود و يا انتخابات كمرنگ باشد.
حضرت آيتالله خامنهای با تاكيد بر جايگاه رفيع مجلس شورای اسلامی بعنوان محور اصلی تصميمگيریهای كشور ، خاطرنشان كردند : در انتخابات دو موضوع مهم بايد مورد توجه قرار گيرد : 1- حضور وسيع و گسترده مردم 2- قانونگرايی و احترام به رای مردم.
رهبر انقلاب اسلامی با يادآوری قضايای فتنه سال 88 افزودند: گناه اصلی آتش افروزان فتنه 88 ، تمكين نكردن به قانون و رأی مردم بود.
حضرت ايتالله خامنهای تأكيد كردند، اگر بعد از انتخابات هم، اعتراضی وجود داشته باشد، مسير قانونی آن مشخص است.
ايشان انتخاب نماينده را هم موضوعی مهم خواندند و افزودند: بايد نمايندهای انتخاب شود كه دلسوز، مؤمن، علاقه مند، و غير مرتبط به كانونهای ثروت و قدرت باشد و بر اساس وجدان، دين و وظايف انقلابی عمل كند.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين به تحولات اخير منطقه و جنبش \"وال استريت\" در آمريكا اشاره كردند و افزودند: نمود اصلی حركتهای اخير در مصر، تونس، ليبی، بحرين، يمن، و ديگر مناطق، شكست سياستهای آمريكا در منطقه است.
حضرت آيتالله خامنهای تأكيد كردند: البته آمريكائیها تلاش زيادی دارند تا بر تحولات منطقه مسلط شوند اما ملتها، بيدار شدهاند و سياستهای استكبار به نتيجه نخواهد رسيد.
ايشان به مسئوليت مهم مردم ايران در قبال تحولات منطقه اشاره كردند و افزودند: ملت ايران بعنوان الگوی حركتهای اخير منطقه تأثير زيادی در جهتگيری اين حركتها دارد و پيشرفت، امنيت، مشاركت عمومی، اعتماد به نفس ملی و وحدت ملی ايران، قطعاً تأثير مثبت و پيشبرنده خواهد داشت.
رهبر انقلاب اسلامی همچنين با اشاره به جنبش \"وال استريت\" در آمريكا، آنرا مسئله مهمی خواندند و افزودند: اگر چه مقامات آمريكايی در ابتدا تلاش كردند تا اين حركت اعتراضی را كوچك نشان دهند اما اكنون مجبور به اعتراف شده اند.
حضرت آيتالله خامنهای با اشاره به سكوت چند هفتهای رسانهها و مقامات آمريكايی در قبال جنبش اعتراضی \"وال استريت\" خاطرنشان كردند: مدعيان آزادی بيان بعد از آنكه مجبور به اعتراف به اين حركت اعتراضی شدند، با آن به شدت برخورد كردند و چهره واقعی آزادی بيان، حمايت از حقوق بشر و حمايت از آزادی اجتماعات در نظام سرمايهداری و ليبرال دموكراسی را نشان دادند.
ايشان با اشاره به دست نوشتههای چندين هزار معترض در آمريكا كه خود را نود و نه درصد و اكثريت ملت آمريكا معرفی میكنند، افزودند : مردم آمريكا در واقع به حاكميت اقليت يك درصدی بر اكثريت نودونه درصدي معترض هستند كه ماليات و پول مردم آمريكا را هزينه براه انداختن جنگ در افغانستان و عراق و حمايت از رژيم صهيونيستی میكنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكيد كردند: ممكن است حكومت آمريكا با شدت عمل، اين جنبش اعتراضی را سركوب كند اما نمیتواند ريشههای آن را از بين ببرد.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: ريشههای اين حركت در آينده آن چنان گسترش خواهد يافت كه نظام سرمايهداری آمريكا و غرب را زمين خواهد زد.
ايشان شدت عمل در برخورد با معترضان در انگليس را نيز نمونه ديگری از عملكرد مدعيان حمايت از حقوق بشر و آزادی بيان دانستند.
رهبر انقلاب اسلامی با تأكيد بر اينكه واقعيتهای امروز نظام سرمايهداری، درس عبرت برای كسانی است كه خواستار عمل به روشهای نظام سرمايه داری غرب هستند، افزودند: نظام سرمايهداری در بنبست كامل قرار گرفته و بحران غرب بطور كامل شروع شده است.
حضرت آيتالله خامنهای خاطرنشان كردند: جهان در يك مقطع حساس و تاريخی قرار گرفته است كه ملت ايران و همچنين ملتهای مسلمان میتوانند نقشآفرينی كنند و نظام اسلامی ايران می تواند الگو بودن خود را اثبات كند.
ايشان در بخش ديگری از سخنان خود، استان كرمانشاه را از لحاظ جايگاه انسانی، طبيعی و جغرافيايی يكی از استانهای ممتاز كشور برشمردند و با اشاره به ويژگیهای جوانمردی، سلحشوری، وفاداری و صفات نيك پهلوانی مردم كرمانشاه، افزودند: زندگی همراه با همدلی و مدارای اقوام، مذاهب و گويشهای مختلف در استان كرمانشاه يكی از ويژگیهای برجسته مردم اين استان است.
رهبر انقلاب با اشاره به نقش ممتاز و ايستادگی مردم كرمانشاه در دوران دفاع مقدس و همچنين وجود شخصيتهای ارزشمند دينی، علمی، ادبی و هنری و ورزشی در استان كرمانشاه، نقش زنان اين استان را نيز برجسته خواندند و تأكيد كردند: در هيچ استان و شهری در ايران بغير از يك نمونه ، تعداد زنان شهيده و جانبازان زن به تعداد استان كرمانشاه نيست.
حضرت آيتالله خامنهای شرايط طبيعی، آبهای فراوان سطحی، زمينهای مستعد كشاورزی، قابليت های گردشگری و نزديكی با مراكز مهم اقتصادی كشور را از ديگر ويژگی های استان كرمانشاه برشمردند و خاطرنشان كردند: با وجود همه اين امتيازات و و ويژگیها، مشكلات متعددی در استان كرمانشاه وجود دارد كه در رأس همه آنها موضوع اشتغال است.
ايشان تأكيد كردند مسئولان بايد همه همت و تلاش خود را برای برطرف كردن مشكلات استان كرمانشاه بكار گيرند.
پيش از سخنان رهبر انقلاب اسلامی حجتالاسلاموالمسلمين علماء نماينده ولیفقيه و امامجمعه كرمانشاه به حضرت آيتالله خامنهای خير مقدم گفت.
5:17
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in a moment (one night) - Part 2
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in...
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
More...
Description:
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
4:13
|
ز کودکی خادم این تبار محترمم (نماهنگ ارغوان) Farsi sub English Urdu Arabic
ز کودکی خادم این تبار محترمم (گروه سرود نسیم قدر) به مناسب میلاد امام رضا اجرای زنده در حرم مطهر امام رضا...
ز کودکی خادم این تبار محترمم (گروه سرود نسیم قدر) به مناسب میلاد امام رضا اجرای زنده در حرم مطهر امام رضا (ع) بانوای تواشیح گروه سرود نسیم قدر مدافع حرمم با زیرنویس فارسی، اردو، انگلیسی سبٹائٹل ترجمه و مترجم عربي
نماهنگ ارغوان جدید سرود ارغوان درباره شهدای مدافع حرم در حضور رهبر انقلاب
Namahang Arghavan Modafean Haram Nasim Ghadr Group ( Ze Kodaki Aen Khadime Tabar ) at Holy Shrine of Imam Reza (as) with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن شعر: زكودكي خادم اين تبار محترمم چونان حبیب مظاهر مدافع حرمم به قصد حفظ حریم حرم به پا خیزم کنار لشکر عشاق حسین هم قدمم اگر که حرمت این بارگه شکسته شود و یا اگر که ره کرببلا بسته شود چونان زنم به پیکر غاصب شام و عراق که بند بند وجودش ز هم گسسته شود حکم دفاع از حرم ز شاه نجف دارم برم برم حرم هماره جان به کف دارم هدف فقط رهایی عراق و سوریه نیست مسیرم از حلب است قدس را هدف دارم نه قصه جدایی از یار و وطن دارم به امر حق به راه دل کفن به تن دارم پریدن از قفس که بال و پر نمی خواهد عشق است بال پریدن همان که من دارم ذکر لبم یازینب به دلم واهمه نیست به سرم جز زیارت حسین فاطمه نیست خدا مرا از در این خانه جدا نکند گدایی در این خانه مرا خاتمه نیست خطوط قرمز دور حرم زن خون من است چو برکه ام که مرگ من همان سکون من است پیاده می روم ز مشهدالرضا تا شام حال کبوتر حرم حال کنون من است
محمد رضا مسعودی عضو گروه سرود و تواشیح نسیم قدر که در هنگام خواندن آهنگ معروف #مدافع_حرمم اشک احساسی ریخت و دوربین را مبهوت خود کرد
Thank you for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNohay
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
Twitter: https://twitter.com/zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
More...
Description:
ز کودکی خادم این تبار محترمم (گروه سرود نسیم قدر) به مناسب میلاد امام رضا اجرای زنده در حرم مطهر امام رضا (ع) بانوای تواشیح گروه سرود نسیم قدر مدافع حرمم با زیرنویس فارسی، اردو، انگلیسی سبٹائٹل ترجمه و مترجم عربي
نماهنگ ارغوان جدید سرود ارغوان درباره شهدای مدافع حرم در حضور رهبر انقلاب
Namahang Arghavan Modafean Haram Nasim Ghadr Group ( Ze Kodaki Aen Khadime Tabar ) at Holy Shrine of Imam Reza (as) with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن شعر: زكودكي خادم اين تبار محترمم چونان حبیب مظاهر مدافع حرمم به قصد حفظ حریم حرم به پا خیزم کنار لشکر عشاق حسین هم قدمم اگر که حرمت این بارگه شکسته شود و یا اگر که ره کرببلا بسته شود چونان زنم به پیکر غاصب شام و عراق که بند بند وجودش ز هم گسسته شود حکم دفاع از حرم ز شاه نجف دارم برم برم حرم هماره جان به کف دارم هدف فقط رهایی عراق و سوریه نیست مسیرم از حلب است قدس را هدف دارم نه قصه جدایی از یار و وطن دارم به امر حق به راه دل کفن به تن دارم پریدن از قفس که بال و پر نمی خواهد عشق است بال پریدن همان که من دارم ذکر لبم یازینب به دلم واهمه نیست به سرم جز زیارت حسین فاطمه نیست خدا مرا از در این خانه جدا نکند گدایی در این خانه مرا خاتمه نیست خطوط قرمز دور حرم زن خون من است چو برکه ام که مرگ من همان سکون من است پیاده می روم ز مشهدالرضا تا شام حال کبوتر حرم حال کنون من است
محمد رضا مسعودی عضو گروه سرود و تواشیح نسیم قدر که در هنگام خواندن آهنگ معروف #مدافع_حرمم اشک احساسی ریخت و دوربین را مبهوت خود کرد
Thank you for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #FarsiNohay
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
Twitter: https://twitter.com/zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
پیام نورزی رہبر معظم انقلاب - Rahbar Noroz Message - Farwardin 1391 - Farsi
متن کامل پیام نوروزی مقام معظم رهبری:
\"تولید ملى و حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" شعار امسال است...
متن کامل پیام نوروزی مقام معظم رهبری:
\"تولید ملى و حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" شعار امسال است
خبرگزاری فارس: رهبر معظم انقلاب اسلامی شعار امسال را \"تولید ملى، حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" عنوان کرده و بر حمایت از تولید ملی تأکید کردند.
به گزارش خبرگزاری فارس، متن کامل پیام مقام معظم رهبری به مناسبت آغاز سال 1391 هجری شمسی به شرح ذیل است:
بسماللّهالرّحمنالرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار یا مدبّر اللّیل و النّهار یا محوّل الحول و الأحوال حوّل حالنا الى احسن الحال.
اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و على ءابائه فى هذه السّاعة و فى کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّى تسکنه ارضک طوعا و تمتّعه فیها طویلا.
اللّهمّ اعطه فى نفسه و ذریّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقرّ به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک عرض میکنم عید نوروز و فرا رسیدن سال نو را به همهى هممیهنان عزیز در سراسر کشور، و به همهى ایرانیانى که در هر نقطهاى از دنیا سکونت دارند، و به همهى ملتهائى که عید نوروز را گرامى میدارند؛ بالخصوص تبریک عرض میکنم به خانوادههاى عزیز شهیدان، به جانبازان، به خانوادههاشان، به همهى ایثارگران، به همهى فعالان عرصههاى مختلف. آرزو میکنم و دعا میکنم که خداوند متعال براى ملت ایران بهروزى، شادى، نشاط و دلِ خوش در این سال جدید مقدر بفرماید و بدخواهان این ملت را در اهدافشان، در تلاشهاشان انشاءاللّه ناکام کند.
سالى که گذشت - سال 90 - یکى از سالهاى پرحادثه در سطح جهان و در منطقه و در کشور ما بود. آنچه که در مجموع انسان مشاهده میکند، این است که این حوادث بر روى هم به سود ملت ایران و در راه کمک به هدفهاى آن، تمام شده است. آن کسانى که اهداف بدخواهانهاى دربارهى ملت ایران و ایران و ایرانى در سر میپرورانند، در کشورهاى غربى دچار مشکلات گوناگون هستند. در سطح منطقه، ملتهائى که جمهورى اسلامى از آنها همواره حمایت کرده است، به هدفهاى بزرگى دست پیدا کردهاند؛ دیکتاتورهائى به زیر کشیده شدند؛ قانونهاى اساسىِ مبتنى بر اسلام در کشورهائى تصویب شد؛ دشمن درجهى یک امت اسلامى و ملت ایران - یعنى رژیم صهیونیستى - در محاصره قرار گرفت. در داخل کشور، به معناى حقیقى کلمه، سال 90، سال بروز اقتدار ملت ایران بود. در جنبهى سیاسى، ملت ایران در این سال، چه در راهپیمائى بیست و دوى بهمن، چه در انتخابات دوازدهم اسفند، آنچنان حضورى از خود نشان داد و آنچنان شاخصى را براى اقتدار ملى در تاریخ منطقه ثبت کرد که نظیر آن را در گذشته کمتر داشتیم.
با وجود اینهمه دشمنى، اینهمه تبلیغات، اینهمه تهاجمهاى خصمانه و بدخواهانه، ملت ایران در طول این سال، با همهى وجود توانست حضور خود را در صحنه، نشاط خود را، آمادگى خود را در عرصههاى گوناگون علمى و اجتماعى و سیاسى و اقتصادى نشان بدهد و اثبات کند. بحمداللَّه سالى بود که با همهى سختىها، داراى دستاوردهاى بزرگى بود. همچنان که قبلاً عرض شده است، شرائط، شرائط بدر و خیبر بود؛ یعنى شرائط قبول چالشها و دشوارىها و غلبهى بر آنها.
همان طورى که اولِ سال گذشته اعلام شد، سال 90، سال جهاد اقتصادى بود. اگرچه هوشمندان و آگاهان میدانستند که این نام و این جهتگیرى و شعار براى سال 90 یک امر لازم است، اما بعد تلاشهاى دشمنان در این سال هم همین را اثبات کرد و نشان داد. دشمنان ما از اوائل سال، حرکت خصمانهى خودشان را در عرصهى اقتصادى نسبت به ملت ایران آغاز کردند؛ اما ملت ایران، مسئولین، آحاد مردم، دستگاههاى مختلف، با تدبیرهاى هوشمندانهاى توانستند با این تحریمها مقابله کنند و مواجههى آنها تا حدود زیادى توانست اثر این تحریمها را خنثى کند و حربهى دشمن را کُند کند. سال 90، سال فعالیتهاى بزرگ علمى بود؛ که من انشاءاللَّه در فرصت سخنرانى، برخى از پیشرفتهاى علمى و اقتصادى و تلاشهاى گوناگون را براى ملت عزیزمان شرح خواهم داد. سال 90 سالى بود پر چالش، و سالى بود پر نشاط، و سالى بود که ملت ایران به فضل الهى توانست بر چالشهاى موجود غلبه کند.
ما امسال سال دیگرى را در پیش داریم که به امید خدا و با توکل بر پروردگار، باز ملت ایران با فعالیت خود، با تلاش خود، با هوشمندى خود در این سال خواهد توانست پیشرفتهاى زیادى را براى خود به ارمغان بیاورد. به تشخیص من، بر طبق گزارشها و مشاورهى با افراد مطلع و آگاه، به این نتیجه میرسیم که عرصهى چالش مهم در همین سال جارى - که این سال، امروز و از این ساعت شروع میشود - عرصهى اقتصادى است. جهاد اقتصادى چیزى نیست که تمامشدنى باشد. مجاهدت اقتصادى، حضور جهادگونه در عرصههاى اقتصادى، براى ملت ایران یک ضرورت است.
من امسال تقسیم میکنم مسائل مربوط به جهاد اقتصادى را. یک بخش مهم از مسائل اقتصادى برمیگردد به مسئلهى تولید داخلى. اگر به توفیق الهى و با اراده و عزم راسخِ ملت و با تلاش مسئولان، ما بتوانیم مسئلهى تولید داخلى را، آنچنان که شایستهى آن است، رونق ببخشیم و پیش ببریم، بدون تردید بخش عمدهاى از تلاشهاى دشمن ناکام خواهد ماند. پس بخش مهمى از جهاد اقتصادى، مسئلهى تولید ملى است. اگر ملت ایران با همت خود، با عزم خود، با آگاهى و هوشمندى خود، با همراهى و کمک مسئولان، با برنامهریزىِ درست بتواند مشکل تولید داخلى را حل کند و در این میدان پیش برود، بدون تردید بر چالشهائى که دشمن آن را فراهم کرده است، غلبهى کامل و جدى پیدا خواهد کرد. بنابراین مسئلهى تولید ملى، مسئلهى مهمى است.
اگر ما توانستیم تولید داخلى را رونق ببخشیم، مسئلهى تورم حل خواهد شد؛ مسئلهى اشتغال حل خواهد شد؛ اقتصاد داخلى به معناى حقیقى کلمه استحکام پیدا خواهد کرد. اینجاست که دشمن با مشاهدهى این وضعیت، مأیوس و ناامید خواهد شد. وقتى دشمن مأیوس شد، تلاش دشمن، توطئهى دشمن، کید دشمن هم تمام خواهد شد.
بنابراین همهى مسئولین کشور، همهى دستاندرکاران عرصهى اقتصادى و همهى مردم عزیزمان را دعوت میکنم به این که امسال را سال رونق تولید داخلى قرار بدهند. بنابراین شعار امسال، «تولید ملى، حمایت از کار و سرمایهى ایرانى» است. ما باید بتوانیم از کارِ کارگر ایرانى حمایت کنیم؛ از سرمایهى سرمایهدار ایرانى حمایت کنیم؛ و این فقط با تقویت تولید ملى امکانپذیر خواهد شد. سهم دولت در این کار، پشتیبانى از تولیدات داخلىِ صنعتى و کشاورزى است. سهم سرمایهداران و کارگران، تقویت چرخهى تولید و اتقان در کار تولید است. و سهم مردم - که به نظر من از همهى اینها مهمتر است - مصرف تولیدات داخلى است. ما باید عادت کنیم، براى خودمان فرهنگ کنیم، براى خودمان یک فریضه بدانیم که هر کالائى که مشابه داخلى آن وجود دارد و تولید داخلى متوجه به آن است، آن کالا را از تولید داخلى مصرف کنیم و از مصرف تولیدات خارجى بجد پرهیز کنیم؛ در همهى زمینهها: زمینههاى مصارف روزمرّه و زمینههاى عمدهتر و مهمتر. بنابراین ما امیدوار هستیم که با این گرایش، با این جهتگیرى و رویکرد، ملت ایران در سال 91 هم بتواند بر توطئهى دشمنان، بر کید و مکر بدخواهان در زمینهى اقتصادى فائق بیاید.
از خداوند متعال درخواست میکنیم که ملت ایران را در این صحنه و در همهى صحنهها موفق و مؤید بدارد. روح امام بزرگوار را شاد و از ما راضى کند. ارواح طیبهى شهیدان عزیز ما را با اولیائشان محشور فرماید.
والسّلام علیکم و رحمةاللّه و برکاته
More...
Description:
متن کامل پیام نوروزی مقام معظم رهبری:
\"تولید ملى و حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" شعار امسال است
خبرگزاری فارس: رهبر معظم انقلاب اسلامی شعار امسال را \"تولید ملى، حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" عنوان کرده و بر حمایت از تولید ملی تأکید کردند.
به گزارش خبرگزاری فارس، متن کامل پیام مقام معظم رهبری به مناسبت آغاز سال 1391 هجری شمسی به شرح ذیل است:
بسماللّهالرّحمنالرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار یا مدبّر اللّیل و النّهار یا محوّل الحول و الأحوال حوّل حالنا الى احسن الحال.
اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و على ءابائه فى هذه السّاعة و فى کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّى تسکنه ارضک طوعا و تمتّعه فیها طویلا.
اللّهمّ اعطه فى نفسه و ذریّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقرّ به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک عرض میکنم عید نوروز و فرا رسیدن سال نو را به همهى هممیهنان عزیز در سراسر کشور، و به همهى ایرانیانى که در هر نقطهاى از دنیا سکونت دارند، و به همهى ملتهائى که عید نوروز را گرامى میدارند؛ بالخصوص تبریک عرض میکنم به خانوادههاى عزیز شهیدان، به جانبازان، به خانوادههاشان، به همهى ایثارگران، به همهى فعالان عرصههاى مختلف. آرزو میکنم و دعا میکنم که خداوند متعال براى ملت ایران بهروزى، شادى، نشاط و دلِ خوش در این سال جدید مقدر بفرماید و بدخواهان این ملت را در اهدافشان، در تلاشهاشان انشاءاللّه ناکام کند.
سالى که گذشت - سال 90 - یکى از سالهاى پرحادثه در سطح جهان و در منطقه و در کشور ما بود. آنچه که در مجموع انسان مشاهده میکند، این است که این حوادث بر روى هم به سود ملت ایران و در راه کمک به هدفهاى آن، تمام شده است. آن کسانى که اهداف بدخواهانهاى دربارهى ملت ایران و ایران و ایرانى در سر میپرورانند، در کشورهاى غربى دچار مشکلات گوناگون هستند. در سطح منطقه، ملتهائى که جمهورى اسلامى از آنها همواره حمایت کرده است، به هدفهاى بزرگى دست پیدا کردهاند؛ دیکتاتورهائى به زیر کشیده شدند؛ قانونهاى اساسىِ مبتنى بر اسلام در کشورهائى تصویب شد؛ دشمن درجهى یک امت اسلامى و ملت ایران - یعنى رژیم صهیونیستى - در محاصره قرار گرفت. در داخل کشور، به معناى حقیقى کلمه، سال 90، سال بروز اقتدار ملت ایران بود. در جنبهى سیاسى، ملت ایران در این سال، چه در راهپیمائى بیست و دوى بهمن، چه در انتخابات دوازدهم اسفند، آنچنان حضورى از خود نشان داد و آنچنان شاخصى را براى اقتدار ملى در تاریخ منطقه ثبت کرد که نظیر آن را در گذشته کمتر داشتیم.
با وجود اینهمه دشمنى، اینهمه تبلیغات، اینهمه تهاجمهاى خصمانه و بدخواهانه، ملت ایران در طول این سال، با همهى وجود توانست حضور خود را در صحنه، نشاط خود را، آمادگى خود را در عرصههاى گوناگون علمى و اجتماعى و سیاسى و اقتصادى نشان بدهد و اثبات کند. بحمداللَّه سالى بود که با همهى سختىها، داراى دستاوردهاى بزرگى بود. همچنان که قبلاً عرض شده است، شرائط، شرائط بدر و خیبر بود؛ یعنى شرائط قبول چالشها و دشوارىها و غلبهى بر آنها.
همان طورى که اولِ سال گذشته اعلام شد، سال 90، سال جهاد اقتصادى بود. اگرچه هوشمندان و آگاهان میدانستند که این نام و این جهتگیرى و شعار براى سال 90 یک امر لازم است، اما بعد تلاشهاى دشمنان در این سال هم همین را اثبات کرد و نشان داد. دشمنان ما از اوائل سال، حرکت خصمانهى خودشان را در عرصهى اقتصادى نسبت به ملت ایران آغاز کردند؛ اما ملت ایران، مسئولین، آحاد مردم، دستگاههاى مختلف، با تدبیرهاى هوشمندانهاى توانستند با این تحریمها مقابله کنند و مواجههى آنها تا حدود زیادى توانست اثر این تحریمها را خنثى کند و حربهى دشمن را کُند کند. سال 90، سال فعالیتهاى بزرگ علمى بود؛ که من انشاءاللَّه در فرصت سخنرانى، برخى از پیشرفتهاى علمى و اقتصادى و تلاشهاى گوناگون را براى ملت عزیزمان شرح خواهم داد. سال 90 سالى بود پر چالش، و سالى بود پر نشاط، و سالى بود که ملت ایران به فضل الهى توانست بر چالشهاى موجود غلبه کند.
ما امسال سال دیگرى را در پیش داریم که به امید خدا و با توکل بر پروردگار، باز ملت ایران با فعالیت خود، با تلاش خود، با هوشمندى خود در این سال خواهد توانست پیشرفتهاى زیادى را براى خود به ارمغان بیاورد. به تشخیص من، بر طبق گزارشها و مشاورهى با افراد مطلع و آگاه، به این نتیجه میرسیم که عرصهى چالش مهم در همین سال جارى - که این سال، امروز و از این ساعت شروع میشود - عرصهى اقتصادى است. جهاد اقتصادى چیزى نیست که تمامشدنى باشد. مجاهدت اقتصادى، حضور جهادگونه در عرصههاى اقتصادى، براى ملت ایران یک ضرورت است.
من امسال تقسیم میکنم مسائل مربوط به جهاد اقتصادى را. یک بخش مهم از مسائل اقتصادى برمیگردد به مسئلهى تولید داخلى. اگر به توفیق الهى و با اراده و عزم راسخِ ملت و با تلاش مسئولان، ما بتوانیم مسئلهى تولید داخلى را، آنچنان که شایستهى آن است، رونق ببخشیم و پیش ببریم، بدون تردید بخش عمدهاى از تلاشهاى دشمن ناکام خواهد ماند. پس بخش مهمى از جهاد اقتصادى، مسئلهى تولید ملى است. اگر ملت ایران با همت خود، با عزم خود، با آگاهى و هوشمندى خود، با همراهى و کمک مسئولان، با برنامهریزىِ درست بتواند مشکل تولید داخلى را حل کند و در این میدان پیش برود، بدون تردید بر چالشهائى که دشمن آن را فراهم کرده است، غلبهى کامل و جدى پیدا خواهد کرد. بنابراین مسئلهى تولید ملى، مسئلهى مهمى است.
اگر ما توانستیم تولید داخلى را رونق ببخشیم، مسئلهى تورم حل خواهد شد؛ مسئلهى اشتغال حل خواهد شد؛ اقتصاد داخلى به معناى حقیقى کلمه استحکام پیدا خواهد کرد. اینجاست که دشمن با مشاهدهى این وضعیت، مأیوس و ناامید خواهد شد. وقتى دشمن مأیوس شد، تلاش دشمن، توطئهى دشمن، کید دشمن هم تمام خواهد شد.
بنابراین همهى مسئولین کشور، همهى دستاندرکاران عرصهى اقتصادى و همهى مردم عزیزمان را دعوت میکنم به این که امسال را سال رونق تولید داخلى قرار بدهند. بنابراین شعار امسال، «تولید ملى، حمایت از کار و سرمایهى ایرانى» است. ما باید بتوانیم از کارِ کارگر ایرانى حمایت کنیم؛ از سرمایهى سرمایهدار ایرانى حمایت کنیم؛ و این فقط با تقویت تولید ملى امکانپذیر خواهد شد. سهم دولت در این کار، پشتیبانى از تولیدات داخلىِ صنعتى و کشاورزى است. سهم سرمایهداران و کارگران، تقویت چرخهى تولید و اتقان در کار تولید است. و سهم مردم - که به نظر من از همهى اینها مهمتر است - مصرف تولیدات داخلى است. ما باید عادت کنیم، براى خودمان فرهنگ کنیم، براى خودمان یک فریضه بدانیم که هر کالائى که مشابه داخلى آن وجود دارد و تولید داخلى متوجه به آن است، آن کالا را از تولید داخلى مصرف کنیم و از مصرف تولیدات خارجى بجد پرهیز کنیم؛ در همهى زمینهها: زمینههاى مصارف روزمرّه و زمینههاى عمدهتر و مهمتر. بنابراین ما امیدوار هستیم که با این گرایش، با این جهتگیرى و رویکرد، ملت ایران در سال 91 هم بتواند بر توطئهى دشمنان، بر کید و مکر بدخواهان در زمینهى اقتصادى فائق بیاید.
از خداوند متعال درخواست میکنیم که ملت ایران را در این صحنه و در همهى صحنهها موفق و مؤید بدارد. روح امام بزرگوار را شاد و از ما راضى کند. ارواح طیبهى شهیدان عزیز ما را با اولیائشان محشور فرماید.
والسّلام علیکم و رحمةاللّه و برکاته
2:35
|
کوهپیمایی صبحگاهی رهبر انقلاب در ارتفاعات تهران - Farsi
کوهپیمایی صبحگاهی رهبر انقلاب در ارتفاعات تهران - Farsi
متن سخنان حضرت آیتالله خامنهای هنگام انجام...
کوهپیمایی صبحگاهی رهبر انقلاب در ارتفاعات تهران - Farsi
متن سخنان حضرت آیتالله خامنهای هنگام انجام کوهپیمایی:
بسماللهالرحمنالرحیم
بعد از عمل جراحی، این اولین باری است که من موفق شدم بیایم کوه. این هم توصیه آقایان پزشکان بود.
به من گفتند خوب است که بروید کوه و مفید است برای جسم و اینها و برای بعد از دوران نقاهت، رفتن کوه مفید است.
بعد هم من دیدم دیگر هوا دارد سرد میشود چون الان نیمه مهر است دیگر؛ امروز چندم مهر است؟
- هجدهم
هجدهم مهر است؛ و نزدیک به هوای سرد و زمستان است که قدری کار را برای من مشکلتر میکند.
این بود که امروز الحمدلله توفیق پیدا کردیم که با برادرها بیاییم کوه.
ان شاءالله موفق و مؤید باشید.
More...
Description:
کوهپیمایی صبحگاهی رهبر انقلاب در ارتفاعات تهران - Farsi
متن سخنان حضرت آیتالله خامنهای هنگام انجام کوهپیمایی:
بسماللهالرحمنالرحیم
بعد از عمل جراحی، این اولین باری است که من موفق شدم بیایم کوه. این هم توصیه آقایان پزشکان بود.
به من گفتند خوب است که بروید کوه و مفید است برای جسم و اینها و برای بعد از دوران نقاهت، رفتن کوه مفید است.
بعد هم من دیدم دیگر هوا دارد سرد میشود چون الان نیمه مهر است دیگر؛ امروز چندم مهر است؟
- هجدهم
هجدهم مهر است؛ و نزدیک به هوای سرد و زمستان است که قدری کار را برای من مشکلتر میکند.
این بود که امروز الحمدلله توفیق پیدا کردیم که با برادرها بیاییم کوه.
ان شاءالله موفق و مؤید باشید.
7:16
|
[Farsi] Hajj Message 2015 - رهبر معظم انقلاب در پیامی به مناسبت کنگره عظیم حج
سرانگشت توطئه استکبار جهانی در حوادث گریهآور منطقه (۱۳۹۴/۰۷/۰۱ - ۰۹:۰۶)
حضرت آیت الله خامنهای رهبر...
سرانگشت توطئه استکبار جهانی در حوادث گریهآور منطقه (۱۳۹۴/۰۷/۰۱ - ۰۹:۰۶)
حضرت آیت الله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در پیامی به مناسبت کنگره عظیم حج، «سیاستهای شرارتآمیز استکبار در ایجاد گرفتاریهای بزرگ برای امت اسلامی در منطقه» و «جنایتهای رژیم غاصب صهیونیستی و اهانت مکرر به حریم مسجد الاقصی» را مسئله اول همه مسلمانان خواندند و با فراخواندن علما و نخبگان دنیای اسلام به انجام رسالت خود در برابر این حوادث تأکید کردند: اجتماع پر شکوه حج، برترین جایگاه ظهور و تبادل این تکلیف تاریخی و «فرصت برائت» یکی از گویاترین مناسک سیاسی است که باید مغتنم شمرده شود.
ایشان همچنین با اشاره به حادثه تلخ درگذشت تعدادی از حاجیان در مسجد الحرام، و مسئولیت سنگین تأمین امنیت ضیوف الرحمان تأکید کردند: عمل به این تعهد و ادای این مسئولیت، خواستهی قطعی ماست.
متن پیام رهبر انقلاب اسلامی که صبح امروز (چهارشنبه) از سوی حجت الاسلام و المسلمین قاضیعسگر نماینده ولی فقیه و سرپرست زائران ایرانی در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسماللهالرّحمنالرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین، و الصّلاة و السّلام علی سیّد الخلق اجمعین محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین و علی التّابعین لهم باحسان الی یوم الدّین.
و سلام بر کعبهی شریف، پایگاه توحید و مطاف مؤمنان و مهبط فرشتگان؛ و سلام بر مسجدالحرام و عرفات و مشعر و منا؛ و سلام بر دلهای خاشع و زبانهای ذاکر و چشمهای به بصیرت گشوده و اندیشههای به عبرت راه یافته؛ و سلام بر شما حجگزاران سعادتمند که توفیق لبّیکگویی به فراخوان الهی یافته و بر سر این سفرهی پُرنعمت نشستهاید.
نخستین وظیفه، تأمّلی در این لبّیک جهانی و تاریخی و همیشگی است: اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمَةَ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَریکَ لَکَ لَبَّیک؛(۱) همهی ستایشها و سپاسها از آنِ او، همهی نعمتها از سوی او، و همهی مُلک و قدرت متعلّق به اوست. این است نگاهی که به حجگزار در آغازین گامِ این فریضهی پُرمغز و پُرمعنا داده میشود و ادامهی این مناسک، هماهنگ با آن، شکل میگیرد و آنگاه همچون تعلیمی ماندگار و درسی فراموشنشدنی در برابر او گذاشته و تنظیم برنامهی زندگی بر پایهی آن، از او خواسته میشود. فرا گرفتنِ این درس بزرگ و عمل به آن، همان سرچشمهی بابرکتی است که میتواند زندگی مسلمانان را طراوت و حیات و پویایی بخشد و آنان را از گرفتاریهایی که بدان دچارند -در این دوران و در همهی دورانها- برَهاند. بُت نفسانیّت و کبر و شهوت، بت سلطهجویی و سلطهپذیری، بت استکبار جهانی، بت تنبلی و بیمسئولیّتی، و همهی بتهای خوارکنندهی جانِ گرامی انسانی، با این غریو(۲) ابراهیمی -آنگاه که از عمق دل برآید و برنامهی زندگی شود- شکسته خواهد شد و آزادی و عزّت و سلامت، به جای وابستگی و سختی و محنت خواهد نشست.
برادران و خواهران حجگزار از هر ملّت و هر کشوری، در این کلمهی حکمتآموز الهی بیندیشند و با نگاه دقیق به گرفتاریهای دنیای اسلام بویژه در غرب آسیا و شمال آفریقا، برای خود با توجّه به ظرفیّتها و امکانات شخصی و محیطی، وظیفه و مسئولیّتی تعریف کنند و در آن بکوشند.
امروز سیاستهای شرارتآمیز آمریکا در این منطقه -که مایهی جنگ و خونریزی و ویرانی و آوارگی و نیز فقر و عقبماندگی و اختلافات قومی و مذهبی است- از یک سو، و جنایتهای رژیم صهیونیستی -که رفتار غاصبانه در کشور فلسطین را به نهایتِ درجهی شقاوت و خباثت رسانیده- و اهانت مکرّر به حریم مقدّس مسجدالاقصی و لگدکوب کردن جان و مال فلسطینیان مظلوم از سوی دیگر، مسئلهی اوّلِ همهی شما مسلمانان است که باید در آن بیندیشید و تکلیف اسلامی خود را در برابر آن بشناسید. و علمای دینی و نخبگان سیاسی و فرهنگی وظیفهای بس سنگینتر دارند که متأسّفانه غالباً مورد غفلت آنان است. علما به جای برافروختن آتش اختلافات مذهبی، و سیاسیّون به جای انفعال در برابر دشمن، و نخبگان فرهنگی به جای سرگرمی به حاشیهها، درد بزرگ دنیای اسلام را بشناسند و رسالت خود را که در پیشگاه عدل الهی، مسئول ادای آنند پذیرا گردند و از عهدهی آن برآیند. حوادث گریهآور در منطقه -در عراق و شام و یمن و بحرین- و در کرانهی غربی و غزّه و در برخی دیگر از کشورهای آسیا و آفریقا، گرفتاریهای بزرگ امّت اسلامی است که سَرانگشت توطئهی استکبار جهانی را در آن باید دید و به علاج آن اندیشید؛ ملّتها باید آن را از دولتهای خود بخواهند و دولتها باید به مسئولیّت سنگین خود وفادار باشند.
و حج و اجتماعات پُرشکوه آن، برترین جایگاه ظهور و تبادل این تکلیف تاریخی است؛ و فرصت برائت که باید با شرکت همهی حجگزاران از همهجا مغتنم شمرده شود، یکی از گویاترین مناسک سیاسی در این فریضهی جامعالاطراف است.
امسال حادثهی تلخ و خسارتبار مسجدالحرام، کام حاجیان و ملّتهای آنان را تلخ کرد. درست است که درگذشتگان این حادثه که در حال نماز و طواف و عبادت به دیدار حق شتافتند، به سعادتی بزرگ دست یافته و در حریم امن و رعایت و رحمت الهی آرمیدهاند انشاءالله -و این تسلّایی بزرگ برای بازماندگان آنها است- ولی این نمیتواند از سنگینیِ مسئولیّت کسانی که متعهّد امنیّت ضیوفالرّحمانند بکاهد. عمل به این تعهّد و ادای این مسئولیّت خواستهی قطعی ما است.
والسّلام علی عبادالله الصّالحین
سیّدعلی خامنهای
۴ ذیالحجّة ۱۴۳۶
۲۷ شهریور ۱۳۹۴
More...
Description:
سرانگشت توطئه استکبار جهانی در حوادث گریهآور منطقه (۱۳۹۴/۰۷/۰۱ - ۰۹:۰۶)
حضرت آیت الله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در پیامی به مناسبت کنگره عظیم حج، «سیاستهای شرارتآمیز استکبار در ایجاد گرفتاریهای بزرگ برای امت اسلامی در منطقه» و «جنایتهای رژیم غاصب صهیونیستی و اهانت مکرر به حریم مسجد الاقصی» را مسئله اول همه مسلمانان خواندند و با فراخواندن علما و نخبگان دنیای اسلام به انجام رسالت خود در برابر این حوادث تأکید کردند: اجتماع پر شکوه حج، برترین جایگاه ظهور و تبادل این تکلیف تاریخی و «فرصت برائت» یکی از گویاترین مناسک سیاسی است که باید مغتنم شمرده شود.
ایشان همچنین با اشاره به حادثه تلخ درگذشت تعدادی از حاجیان در مسجد الحرام، و مسئولیت سنگین تأمین امنیت ضیوف الرحمان تأکید کردند: عمل به این تعهد و ادای این مسئولیت، خواستهی قطعی ماست.
متن پیام رهبر انقلاب اسلامی که صبح امروز (چهارشنبه) از سوی حجت الاسلام و المسلمین قاضیعسگر نماینده ولی فقیه و سرپرست زائران ایرانی در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسماللهالرّحمنالرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین، و الصّلاة و السّلام علی سیّد الخلق اجمعین محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین و علی التّابعین لهم باحسان الی یوم الدّین.
و سلام بر کعبهی شریف، پایگاه توحید و مطاف مؤمنان و مهبط فرشتگان؛ و سلام بر مسجدالحرام و عرفات و مشعر و منا؛ و سلام بر دلهای خاشع و زبانهای ذاکر و چشمهای به بصیرت گشوده و اندیشههای به عبرت راه یافته؛ و سلام بر شما حجگزاران سعادتمند که توفیق لبّیکگویی به فراخوان الهی یافته و بر سر این سفرهی پُرنعمت نشستهاید.
نخستین وظیفه، تأمّلی در این لبّیک جهانی و تاریخی و همیشگی است: اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمَةَ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَریکَ لَکَ لَبَّیک؛(۱) همهی ستایشها و سپاسها از آنِ او، همهی نعمتها از سوی او، و همهی مُلک و قدرت متعلّق به اوست. این است نگاهی که به حجگزار در آغازین گامِ این فریضهی پُرمغز و پُرمعنا داده میشود و ادامهی این مناسک، هماهنگ با آن، شکل میگیرد و آنگاه همچون تعلیمی ماندگار و درسی فراموشنشدنی در برابر او گذاشته و تنظیم برنامهی زندگی بر پایهی آن، از او خواسته میشود. فرا گرفتنِ این درس بزرگ و عمل به آن، همان سرچشمهی بابرکتی است که میتواند زندگی مسلمانان را طراوت و حیات و پویایی بخشد و آنان را از گرفتاریهایی که بدان دچارند -در این دوران و در همهی دورانها- برَهاند. بُت نفسانیّت و کبر و شهوت، بت سلطهجویی و سلطهپذیری، بت استکبار جهانی، بت تنبلی و بیمسئولیّتی، و همهی بتهای خوارکنندهی جانِ گرامی انسانی، با این غریو(۲) ابراهیمی -آنگاه که از عمق دل برآید و برنامهی زندگی شود- شکسته خواهد شد و آزادی و عزّت و سلامت، به جای وابستگی و سختی و محنت خواهد نشست.
برادران و خواهران حجگزار از هر ملّت و هر کشوری، در این کلمهی حکمتآموز الهی بیندیشند و با نگاه دقیق به گرفتاریهای دنیای اسلام بویژه در غرب آسیا و شمال آفریقا، برای خود با توجّه به ظرفیّتها و امکانات شخصی و محیطی، وظیفه و مسئولیّتی تعریف کنند و در آن بکوشند.
امروز سیاستهای شرارتآمیز آمریکا در این منطقه -که مایهی جنگ و خونریزی و ویرانی و آوارگی و نیز فقر و عقبماندگی و اختلافات قومی و مذهبی است- از یک سو، و جنایتهای رژیم صهیونیستی -که رفتار غاصبانه در کشور فلسطین را به نهایتِ درجهی شقاوت و خباثت رسانیده- و اهانت مکرّر به حریم مقدّس مسجدالاقصی و لگدکوب کردن جان و مال فلسطینیان مظلوم از سوی دیگر، مسئلهی اوّلِ همهی شما مسلمانان است که باید در آن بیندیشید و تکلیف اسلامی خود را در برابر آن بشناسید. و علمای دینی و نخبگان سیاسی و فرهنگی وظیفهای بس سنگینتر دارند که متأسّفانه غالباً مورد غفلت آنان است. علما به جای برافروختن آتش اختلافات مذهبی، و سیاسیّون به جای انفعال در برابر دشمن، و نخبگان فرهنگی به جای سرگرمی به حاشیهها، درد بزرگ دنیای اسلام را بشناسند و رسالت خود را که در پیشگاه عدل الهی، مسئول ادای آنند پذیرا گردند و از عهدهی آن برآیند. حوادث گریهآور در منطقه -در عراق و شام و یمن و بحرین- و در کرانهی غربی و غزّه و در برخی دیگر از کشورهای آسیا و آفریقا، گرفتاریهای بزرگ امّت اسلامی است که سَرانگشت توطئهی استکبار جهانی را در آن باید دید و به علاج آن اندیشید؛ ملّتها باید آن را از دولتهای خود بخواهند و دولتها باید به مسئولیّت سنگین خود وفادار باشند.
و حج و اجتماعات پُرشکوه آن، برترین جایگاه ظهور و تبادل این تکلیف تاریخی است؛ و فرصت برائت که باید با شرکت همهی حجگزاران از همهجا مغتنم شمرده شود، یکی از گویاترین مناسک سیاسی در این فریضهی جامعالاطراف است.
امسال حادثهی تلخ و خسارتبار مسجدالحرام، کام حاجیان و ملّتهای آنان را تلخ کرد. درست است که درگذشتگان این حادثه که در حال نماز و طواف و عبادت به دیدار حق شتافتند، به سعادتی بزرگ دست یافته و در حریم امن و رعایت و رحمت الهی آرمیدهاند انشاءالله -و این تسلّایی بزرگ برای بازماندگان آنها است- ولی این نمیتواند از سنگینیِ مسئولیّت کسانی که متعهّد امنیّت ضیوفالرّحمانند بکاهد. عمل به این تعهّد و ادای این مسئولیّت خواستهی قطعی ما است.
والسّلام علی عبادالله الصّالحین
سیّدعلی خامنهای
۴ ذیالحجّة ۱۴۳۶
۲۷ شهریور ۱۳۹۴
26:06
|
دیدار جمعی از شعرا با رهبر انقلاب - Meeting with the Poets - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=16976
حسینیه امام خمینی در شب میلاد امام حسن مجتبی(ع) كریم اهل بیت، 24 مرداد ماه 1390،...
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=16976
حسینیه امام خمینی در شب میلاد امام حسن مجتبی(ع) كریم اهل بیت، 24 مرداد ماه 1390، میزبان اهالی فرهنگ و هنر، شعرای پیشكسوت و جوان كشور و تعدادی از شعرای فارسیگوی افغانستان و تاجیكستان بود و حضرت آیتالله خامنهای رهبر انقلاب اسلامی در این دیدار با تبیین ویژگیهای زمان حاضر و بیداری اسلامی در منطقه خاطرنشان كردند: این تحولات اثرگرفته از حركت عظیم ملت ایران بود و شعرا با درك این شرایط، ضمن پایبندی به هویت و گفتمان انقلاب اسلامی، به معرفت دینی و اسلامی خود به عنوان لوازم الگو شدن ملت ایران عمق بخشند.
قبل از بیانات رهبر انقلاب اسلامی، تعدادی از شعرا، سرودههای خود را با مضامین اخلاقی، دینی، سیاسی، انقلابی، بیداری اسلامی و اجتماعی قرائت كردند.
حضرت آیتالله خامنهای در این دیدار حركت كلی در شعر كشور را پیش رونده توصیف و خاطرنشان كردند: دوره كنونی، دوره اوج و شكوفایی مجدد شعر فارسی را نوید میدهد.
رهبر انقلاب اسلامی در مقایسه شعر امروز كشور با دوره دویست ساله اوج سبك هندی، تعداد و كمیت شعرا و نیز نوآوری در مضمون اشعار را دو شباهت برجستهی این دو دوره برشمردند.
ایشان تعداد شعرای جوان و پیشكسوت كشور را بیسابقه خواندند و افزودند: انقلاب اسلامی، معارف و هنر را به متن مردم و جامعه آورد و اگر همین روشِ 30 ساله ادامه یابد تعداد شعرای ما به مراتب بیشتر از تمام دورانهای گذشته خواهد شد.
حضرت آیتالله خامنهای در بیان دومین ویژگی شعر كنونی كشور خاطرنشان كردند: در هیچ دورهای سابقه ندارد كه این همه مضمون نو و حرفهای تازه در شعر راه پیدا كند و طبیعی است كه هر زمان مضمون نو پدید آید به دنبال آن تركیب جدید ساخته میشود و زبان شعر به تدریج پختهتر و استوارتر میشود.
ایشان ظهور قلههای بینظیر شعر فارسی را نیازمند زمان و تلاش بیشتر دانستند و با تمجید از مضمون مناسب و شجاعت در شعر جوانان به آنان توصیه كردند: توقفِ در جا و احساس به منزل رسیدن سكونآور و خستگیآفرین است لذا با تلاش بیشتر، خود را به اوج شعر نزدیك كنید.
حضرت آیتالله خامنهای در ادامه این دیدار به ویژگی زمان حاضر و بیداری اسلامی ایجاد شده در منطقه اشاره و خاطرنشان كردند: این بیداری اسلامی، اثرگرفته از حركت عظیم ملت ایران بود چرا كه انقلاب اسلامی، تحولی بنیانبرافكن برای سنتهای طاغوتی و نظام سلطه بود و این تحول، ملت ایران را به اسوه و الگوی ملتها تبدیل كرد.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1503&Itemid=2
In a meeting with a number of poets, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution explained the characteristics of Islamic Awakening in the region and reiterated that the recent developments in the region have been influenced by the impressive movement of the Iranian nation.
More...
Description:
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=16976
حسینیه امام خمینی در شب میلاد امام حسن مجتبی(ع) كریم اهل بیت، 24 مرداد ماه 1390، میزبان اهالی فرهنگ و هنر، شعرای پیشكسوت و جوان كشور و تعدادی از شعرای فارسیگوی افغانستان و تاجیكستان بود و حضرت آیتالله خامنهای رهبر انقلاب اسلامی در این دیدار با تبیین ویژگیهای زمان حاضر و بیداری اسلامی در منطقه خاطرنشان كردند: این تحولات اثرگرفته از حركت عظیم ملت ایران بود و شعرا با درك این شرایط، ضمن پایبندی به هویت و گفتمان انقلاب اسلامی، به معرفت دینی و اسلامی خود به عنوان لوازم الگو شدن ملت ایران عمق بخشند.
قبل از بیانات رهبر انقلاب اسلامی، تعدادی از شعرا، سرودههای خود را با مضامین اخلاقی، دینی، سیاسی، انقلابی، بیداری اسلامی و اجتماعی قرائت كردند.
حضرت آیتالله خامنهای در این دیدار حركت كلی در شعر كشور را پیش رونده توصیف و خاطرنشان كردند: دوره كنونی، دوره اوج و شكوفایی مجدد شعر فارسی را نوید میدهد.
رهبر انقلاب اسلامی در مقایسه شعر امروز كشور با دوره دویست ساله اوج سبك هندی، تعداد و كمیت شعرا و نیز نوآوری در مضمون اشعار را دو شباهت برجستهی این دو دوره برشمردند.
ایشان تعداد شعرای جوان و پیشكسوت كشور را بیسابقه خواندند و افزودند: انقلاب اسلامی، معارف و هنر را به متن مردم و جامعه آورد و اگر همین روشِ 30 ساله ادامه یابد تعداد شعرای ما به مراتب بیشتر از تمام دورانهای گذشته خواهد شد.
حضرت آیتالله خامنهای در بیان دومین ویژگی شعر كنونی كشور خاطرنشان كردند: در هیچ دورهای سابقه ندارد كه این همه مضمون نو و حرفهای تازه در شعر راه پیدا كند و طبیعی است كه هر زمان مضمون نو پدید آید به دنبال آن تركیب جدید ساخته میشود و زبان شعر به تدریج پختهتر و استوارتر میشود.
ایشان ظهور قلههای بینظیر شعر فارسی را نیازمند زمان و تلاش بیشتر دانستند و با تمجید از مضمون مناسب و شجاعت در شعر جوانان به آنان توصیه كردند: توقفِ در جا و احساس به منزل رسیدن سكونآور و خستگیآفرین است لذا با تلاش بیشتر، خود را به اوج شعر نزدیك كنید.
حضرت آیتالله خامنهای در ادامه این دیدار به ویژگی زمان حاضر و بیداری اسلامی ایجاد شده در منطقه اشاره و خاطرنشان كردند: این بیداری اسلامی، اثرگرفته از حركت عظیم ملت ایران بود چرا كه انقلاب اسلامی، تحولی بنیانبرافكن برای سنتهای طاغوتی و نظام سلطه بود و این تحول، ملت ایران را به اسوه و الگوی ملتها تبدیل كرد.
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1503&Itemid=2
In a meeting with a number of poets, Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution explained the characteristics of Islamic Awakening in the region and reiterated that the recent developments in the region have been influenced by the impressive movement of the Iranian nation.
3:45
|
تا می بینم یه زائری راهی کربلا میشه - محمد حسین حدادیان (ویژه ارب
تا می بینم یه زائری راهی کربلا میشه (ویژه مداحی پیاده روی اربعین)
کربلایی محمد حسین حدادیان
Muhammad Hossein...
تا می بینم یه زائری راهی کربلا میشه (ویژه مداحی پیاده روی اربعین)
کربلایی محمد حسین حدادیان
Muhammad Hossein Hadadian - Arbaeen
متن اشعار :
(تا میبینم یه زائری راهی کربلا میشه 2
با زیارت نرفته ها دل منم رها میشه)2
اگه رفتی زیر قبه ی حسین یادم کن
اگه رفتی توی بین الحرمین یادم کن
میون سینه زنی و شور و شین یادم کن
( یادم کن تو دلمه غم اربابم
یادم کن کنار حرم اربابم )
التماس دعا زائر کربلا
***
( بی خیال دنیافقط غصه ی من شده همین
نمیشه انگار امسالم کربلا باشم اربعین)
رسیدی به موکب امام رضا یادم کن
شب جمعه رسیدی به قتلگاه یادم کن
تل زینبیه و پایین پا یادم کن
( باز روی لبمه قسم اربابم
یادم کن کنار حرم اربابم )
التماس دعا زائر کربلا
More...
Description:
تا می بینم یه زائری راهی کربلا میشه (ویژه مداحی پیاده روی اربعین)
کربلایی محمد حسین حدادیان
Muhammad Hossein Hadadian - Arbaeen
متن اشعار :
(تا میبینم یه زائری راهی کربلا میشه 2
با زیارت نرفته ها دل منم رها میشه)2
اگه رفتی زیر قبه ی حسین یادم کن
اگه رفتی توی بین الحرمین یادم کن
میون سینه زنی و شور و شین یادم کن
( یادم کن تو دلمه غم اربابم
یادم کن کنار حرم اربابم )
التماس دعا زائر کربلا
***
( بی خیال دنیافقط غصه ی من شده همین
نمیشه انگار امسالم کربلا باشم اربعین)
رسیدی به موکب امام رضا یادم کن
شب جمعه رسیدی به قتلگاه یادم کن
تل زینبیه و پایین پا یادم کن
( باز روی لبمه قسم اربابم
یادم کن کنار حرم اربابم )
التماس دعا زائر کربلا
5:31
|
Zaboone Madari - Hamid Zamani - Farsi Sub English
Beautiful New Persian Song \\\"One book one Ummah\\\" (Zaboone Madari)
by Hamed Zamani
نماهنگ جدید حامد زمانی زبون مادری ( با زیر نویس...
Beautiful New Persian Song \\\"One book one Ummah\\\" (Zaboone Madari)
by Hamed Zamani
نماهنگ جدید حامد زمانی زبون مادری ( با زیر نویس انگلیسی)
متن نماهنگ
توی دنیایی که مسلمونی واسه ی خیلیا نمی صرف
سینه های مسلمونای جهان غرق درد لبالب از حرف
وقتی دستای ما رو قطع کنن چجوری میشه نون بازو خورد
جا داره جون بدیم که واسه ی دین دختری بی گناه چاقو خورد
جا داره جون بدیمکه این دنیا واسه مومنین یه زندان
سند غربت مسلمونا پیکر نیمه جون آیلان
خادم خادمای قرآن این همه افتخار نوکریم
اهل هر جاییم باشم قرآن انگاری به زبون مادریم
خیلیا میکشن به اسم دین توی دنیا خدایا کی به کیه
این وسط تا همیشه متحدن امتی که کتابشون یکیه
مصحف واحدی که آورده واسه دنیا پیمبر رحمت
معنی اتحاد یعنی این تا ابد یک کتاب و یک امت
More...
Description:
Beautiful New Persian Song \\\"One book one Ummah\\\" (Zaboone Madari)
by Hamed Zamani
نماهنگ جدید حامد زمانی زبون مادری ( با زیر نویس انگلیسی)
متن نماهنگ
توی دنیایی که مسلمونی واسه ی خیلیا نمی صرف
سینه های مسلمونای جهان غرق درد لبالب از حرف
وقتی دستای ما رو قطع کنن چجوری میشه نون بازو خورد
جا داره جون بدیم که واسه ی دین دختری بی گناه چاقو خورد
جا داره جون بدیمکه این دنیا واسه مومنین یه زندان
سند غربت مسلمونا پیکر نیمه جون آیلان
خادم خادمای قرآن این همه افتخار نوکریم
اهل هر جاییم باشم قرآن انگاری به زبون مادریم
خیلیا میکشن به اسم دین توی دنیا خدایا کی به کیه
این وسط تا همیشه متحدن امتی که کتابشون یکیه
مصحف واحدی که آورده واسه دنیا پیمبر رحمت
معنی اتحاد یعنی این تا ابد یک کتاب و یک امت
3:33
|
یا حسین غریب مادر (شور به یاد جواد ذاکر) جواد مقدم | Farsi sub Urdu
یا حسین غریب مادر تویی ارباب دل من (شور به یاد مرحوم سید جواد ذاکر) بامداحی کربلایی جواد مقدم بازیرنویس...
یا حسین غریب مادر تویی ارباب دل من (شور به یاد مرحوم سید جواد ذاکر) بامداحی کربلایی جواد مقدم بازیرنویس مترجم اردو ترجمه سبٹائٹل و متن فارسی
شب استقبال اعلان عزای محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیئت لواء الزینب قم
Ya Hussain Ghareeb Mader Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha with Urdu translation subtitle 2018
Nohay of Hazrat Imam Hussain
More...
Description:
یا حسین غریب مادر تویی ارباب دل من (شور به یاد مرحوم سید جواد ذاکر) بامداحی کربلایی جواد مقدم بازیرنویس مترجم اردو ترجمه سبٹائٹل و متن فارسی
شب استقبال اعلان عزای محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیئت لواء الزینب قم
Ya Hussain Ghareeb Mader Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha with Urdu translation subtitle 2018
Nohay of Hazrat Imam Hussain
3:08
|
دنیا طلبان دل نگرانی دارند - وحید شکری | Farsi sub Urdu
بقیة الله العجل –دنیا طلبان دل نگرانی دارند - کربلایی وحید شکری (شورطوفانی دلنشین و زیبا) زیرنویس اردو...
بقیة الله العجل –دنیا طلبان دل نگرانی دارند - کربلایی وحید شکری (شورطوفانی دلنشین و زیبا) زیرنویس اردو ترجمے کے ساتھ
مداحی جدید امام زمان 1397 شب وفات حضرت ام الکلثوم ۹۶ در هیئت دهه اول محرم کربلا
متن:
دنیا طلبان دل نگرانی دارند
ترس از خطر جنگ جهانی دارند
مهدی طلبان کفن به پوشند همه
چون غیرت صاحب الزمانی دارند
Karbalaei Vahid Shokri shor BagheyatuAllah Alajal - Donya taleban Del Nagaran Darand. ( with Urdu Translation)
More...
Description:
بقیة الله العجل –دنیا طلبان دل نگرانی دارند - کربلایی وحید شکری (شورطوفانی دلنشین و زیبا) زیرنویس اردو ترجمے کے ساتھ
مداحی جدید امام زمان 1397 شب وفات حضرت ام الکلثوم ۹۶ در هیئت دهه اول محرم کربلا
متن:
دنیا طلبان دل نگرانی دارند
ترس از خطر جنگ جهانی دارند
مهدی طلبان کفن به پوشند همه
چون غیرت صاحب الزمانی دارند
Karbalaei Vahid Shokri shor BagheyatuAllah Alajal - Donya taleban Del Nagaran Darand. ( with Urdu Translation)
14:43
|
[FARSI] HAJJ Message 2013 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند....
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند.
متن این پیام كه روز دوشنبه بیست و دوم آبانماه ۱۳۹۲ توسط حجتالاسلام قاضیعسكر -نماينده ولی فقيه و سرپرست حجاج ایرانی- در مراسم برائت از مشركان در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
والحمدللّه ربّ العالمین و الصّلاة والسّلام علی سیّدالانبیاء و المرسلین و علی آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
فرا رسیدن موسم حج را باید عید بزرگ امّت اسلامی به شمار آورد. فرصت مغتنمی كه این روزهای گرانبها در همهی سالها برای مسلمانان جهان پدید میآورد، كیمیای معجزهگری است كه اگر قدر آن شناخته و چنانكه شایسته است به كار گرفته شود، بسیاری از آسیبها و آسیبپذیریهای دنیای اسلام، علاج خواهد شد.
حج، چشمهی جوشان فیض الهی است. یكایك شما حاجیان سعادتمند، اكنون این اقبال بلند را به دست آوردهاید كه در این اعمال و مناسكِ آكنده از صفا و معنویّت، دل و جان را شستشویی بسزا داده، از این منبع رحمت و عزّت و قدرت، ذخیرهای برای همهی عمر خویش بردارید. خشوع و تسلیم در برابر خدای رحیم، تعهّد به وظائفی كه بر دوش مسلمان نهاده شده است، نشاط و حركت و اقدام در كار دین و دنیا، رحم و گذشت در تعامل با برادران، جرأت و اعتماد به نفس در برابر حوادث دشوار، امید به كمك و دستگیری خداوند در همه جا و همه چیز، و كوتاهِ سخن ساخت و پرداخت انسانی در طراز مسلمانی را در این عرصهی الهیِ آموزش و پرورش، میتوانید برای خویش تدارك ببینید و خودِ آراسته به این زیورها و بهرهیافته از این ذخیرهها را برای كشور خویش و ملّت خویش و در نهایت برای امّت اسلامی، سوغات برید.
امّت اسلامی امروز بیش از هر چیز به انسانهایی نیاز دارد كه اندیشه و عمل را در كنار ایمان و صفا و اخلاص، و مقاومت در برابر دشمنان كینهورز را در كنار خودسازی معنوی و روحی، فراهم سازند. این یگانه راه نجات جامعهی بزرگ مسلمانان از گرفتاریهایی است كه یا آشكارا به دست دشمن و یا با سستیِ عزم و ایمان و بصیرت، از زمانهای دور در آنها فروافتاده است.
بیشك دوران كنونی، دوران بیداری و هویّتیابی مسلمانان است؛ این حقیقت را از خلال چالشهایی كه كشورهای مسلمان با آن روبهرو شدهاند نیز بروشنی میتوان دریافت. درست در همین شرایط است كه عزم و ارادهی متّكی به ایمان و توكّل و بصیرت و تدبیر، میتواند ملّتهای مسلمان را در این چالشها به پیروزی و سرافرازی برساند و عزّت و كرامت را در سرنوشت آنان رقم زند. جبههی مقابل كه بیداری و عزّت مسلمانان را بر نمیتابد، با همهی توان به میدان آمده و از همهی ابزارهای امنیّتی، روانی، نظامی، اقتصادی و تبلیغاتی برای انفعال و سركوب مسلمانان و به خود مشغول ساختنِ آنان بهره میگیرد. نگاهی به وضعیّت كشورهای غرب آسیا از پاكستان و افغانستان تا سوریّه و عراق و فلسطین و كشورهای خلیج فارس، و نیز كشورهای شمال آفریقا از لیبی و مصر و تونس تا سودان و برخی كشورهای دیگر، حقایق بسیاری را روشن میسازد. جنگهای داخلی؛ عصبیّتهای كور دینی و مذهبی؛ بیثباتیهای سیاسی؛ رواج تروریسم قساوتآمیز؛ ظهور گروهها و جریانهای افراطگر كه به شیوهی اقوام وحشی تاریخ، سینهی انسانها را میشكافند و قلب آنان را با دندان میدرند؛ مسلّحینی كه كودكان و زنان را میكشند، مردان را سر میبرند و به نوامیس تجاوز میكنند، و حتّی در مواردی این جنایات شرمآور و مشمئزكننده را به نام و زیر پرچم دین مرتكب میشوند؛ همه و همه محصول نقشهی شیطانی و استكباری سرویسهای امنیّتی بیگانگان و عوامل حكومتی همدست آنان در منطقه است كه در زمینههای مستعدّ داخلی كشورها امكان وقوع مییابد و روز ملّتها را سیاه و كام آنان را تلخ میكند. یقیناً در چنین اوضاع و احوالی نمیتوان انتظار داشت كه كشورهای مسلمان، خلأهای مادّی و معنوی خود را ترمیم كنند و به امنیّت و رفاه و پیشرفت علمی و اقتدار بینالمللی كه بركات بیداری و هویّتیابی است، دست یابند. این اوضاع محنتبار، میتواند بیداری اسلامی را عقیم و آمادگیهای روحی پدید آمده در دنیای اسلام را ضایع سازد و بار دیگر، سالهای دراز، ملّتهای مسلمان را به ركود و انزوا و انحطاط بكشاند و مسائل اساسی و مهمّ آنان همچون نجات فلسطین و نجات ملّتهای مسلمان از دستاندازی آمریكا و صهیونیسم را به دست فراموشی بسپارد.
علاج بنیانی و اساسی را میتوان در دو جملهی كلیدی خلاصه كرد كه هر دو از بارزترین درسهای حج است:
اوّل: اتّحاد و برادری مسلمانان در زیر لوای توحید،
و دوّم: شناخت دشمن و مقابله با نقشهها و شیوههای او.
تقویت روح اخوّت و همدلی، درس بزرگ حج است. در اینجا حتّی جدال و درشتگویی با دیگران ممنوع است. پوشش یكسان و اَعمال یكسان و حركات یكسان و رفتار مهربان در اینجا به معنی برابری و برادریِ همهی آن كسانی است كه به این كانون توحید معتقد و دلبستهاند. این ردّ صریح اسلام بر هر فكر و عقیده و دعوتی است كه گروهی از مسلمانان و معتقدان به كعبه و توحید را از دائرهی اسلام بیرون بداند. عناصر تكفیری كه امروز بازیچهی سیاست صهیونیستهای غدّار و حامیان غربی آنان شده و دست به جنایتهای سهمگین میزنند و خون مسلمانان و بیگناهان را میریزند، و كسانی از مدّعیان دینداری و ملبّسین به لباس روحانیّت كه در آتش اختلافات شیعه و سنّی و امثال آن میدمند، بدانند كه نفس مراسم حج، باطلكنندهی مدّعای آنان است. شگفتا! كسانی كه مراسم برائت از مشركان را كه ریشه در عمل پیامبر اعظم صلّیاللّه علیه و آله و سلّم دارد، جدال ممنوع قلمداد میكنند، خود از مؤثّرترین دستاندركاران ایجاد منازعههای خونین میان مسلمانانند. اینجانب همچون بسیاری از علمای اسلام و دلسوزان امّت اسلامی بار دیگر اعلام میكنم كه هر گفته و عملی كه موجب برافروختن آتش اختلاف میان مسلمانان شود و نیز اهانت به مقدّسات هر یك از گروههای مسلمان یا تكفیر یكی از مذاهب اسلامی، خدمت به اردوگاه كفر و شرك و خیانت به اسلام و حرام شرعی است.
شناخت دشمن و شیوههای او نیز دوّمین ركن است. اوّلاً وجود دشمن كینتوز را نباید به دست غفلت و فراموشی سپرد و مراسم چندبارهی رمی جمرات در حج، نشانهی نمادین این حضور ذهن همیشگی است. ثانیاً در شناخت دشمن اصلی كه امروزه همان جبههی استكبار جهانی و شبكهی جنایتكار صهیونیسم است، نباید دچار خطا شد. و ثالثاً شیوههای این دشمن عنود را كه تفرقهافكنی میان مسلمانان، و ترویج فساد سیاسی و اخلاقی، و تهدید و تطمیع نخبگان، و فشار اقتصادی بر ملّتها، و ایجاد تردید در باورهای اسلامی است، باید بخوبی تشخیص داد و وابستگان و ایادیِ دانسته و نادانستهی آنان را از این راه شناسایی كرد.
دولتهای استكباری و پیشاپیش آنان آمریكا، به كمك ابزارهای رسانهای فراگیر و پیشرفته، چهرهی واقعی خود را میپوشانند و با دعوی طرفداری از حقوق بشر و دموكراسی، رفتاری خدعهآمیز در برابر افكار عمومی ملّتها در پیش میگیرند. آنان در حالی دم از حقوق ملّتها میزنند كه ملّتهای مسلمان، هر روز بیشتر از گذشته، آتش فتنههای آنان را با جسم و جان خود لمس میكنند. یك نگاه به ملّت مظلوم فلسطین كه دهها سال است روزانه زخمِ جنایات رژیم صهیونیستی و حامیانش را دریافت میكند؛ یا به كشورهای افغانستان و پاكستان و عراق كه تروریسمِ زاییدهی سیاستهای استكبار و ایادی منطقهای آنان، زندگی را به كام ملّتهای آنان تلخ كرده است؛ یا به سوریّه كه به جرم پشتیبانی از جریان مقاومت ضدّ صهیونیستی، آماج كینهی سلطهگران بینالمللی و كارگزاران منطقهای آنان شده و به جنگ خونین داخلی گرفتار آمده است؛ یا به بحرین یا به میانمار كه در هر یك به نحوی، مسلمانان محنتزده و مغفول، و دشمنانشان مورد حمایتند؛ یا به ملّتهای دیگری كه از سوی آمریكا و متّحدانش، پیدرپی به تهاجم نظامی یا تحریم اقتصادی یا خرابكاری امنیّتی تهدید میشوند؛ میتواند چهرهی واقعی این سردمداران نظام سلطه را به همه نشان دهد. نخبگان سیاسی و فرهنگی و دینی در همه جای جهان اسلام باید خود را به افشای این حقایق، متعهّد بدانند. این وظیفهی اخلاقی و دینی همهی ما است. كشورهای شمال آفریقا كه متأسّفانه امروز در معرض اختلافات عمیق داخلی قرار گرفتهاند، بیش از همه باید به این مسئولیّت عظیم، یعنی شناخت دشمن و شیوهها و ترفندهایش توجّه كنند. ادامهی اختلافات میان جریانهای ملّی و غفلت از خطر جنگ خانگی در این كشورها، خطر بزرگی است كه خسارت آن برای امّت اسلامی به این زودیها جبران نخواهد شد.
ما البتّه تردید نداریم كه ملّتهای بهپاخاستهی آن منطقه كه بیداری اسلامی را تجسّم بخشیدند، بإذنالله اجازه نخواهند داد كه عقربهی زمان به عقب برگردد و دوران زمامداران فاسد و وابسته و دیكتاتور، تكرار شود، لیكن غفلت از نقش قدرتهای استكباری در فتنهانگیزی و دخالتهای ویرانگر، كار آنان را دشوار خواهد كرد و دوران عزّت و امنیّت و رفاه را سالها به عقب خواهد افكند. ما به توانایی ملّتها و قدرتی كه خداوند حكیم در عزم و ایمان و بصیرت تودههای مردم قرار داده است، از اعماق دل باور داریم و آن را در بیش از سه دهه در جمهوری اسلامی ایران، به چشم خود دیده و با همهی وجود خود آزمودهایم؛ همّت ما، فراخوان همهی ملّتهای مسلمان به این تجربهی برادرانشان در این كشور سرافراز و خستگیناپذیر است.
از خداوند متعال صلاح حال مسلمانان و دفع كید دشمنان را خواستارم و حجّ مقبول و سلامت جسم و جان و ذخیرهی سرشار معنوی را برای همهی شما حجّاج بیتالله مسألت میكنم.
والسّلام علیكم و رحمة اللّه
سیّد علی خامنهای
پنجم ذیالحجّه ۱۴۳۴ مصادف با ۱۹ مهرماه ۱۳۹۲
More...
Description:
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند.
متن این پیام كه روز دوشنبه بیست و دوم آبانماه ۱۳۹۲ توسط حجتالاسلام قاضیعسكر -نماينده ولی فقيه و سرپرست حجاج ایرانی- در مراسم برائت از مشركان در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
والحمدللّه ربّ العالمین و الصّلاة والسّلام علی سیّدالانبیاء و المرسلین و علی آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
فرا رسیدن موسم حج را باید عید بزرگ امّت اسلامی به شمار آورد. فرصت مغتنمی كه این روزهای گرانبها در همهی سالها برای مسلمانان جهان پدید میآورد، كیمیای معجزهگری است كه اگر قدر آن شناخته و چنانكه شایسته است به كار گرفته شود، بسیاری از آسیبها و آسیبپذیریهای دنیای اسلام، علاج خواهد شد.
حج، چشمهی جوشان فیض الهی است. یكایك شما حاجیان سعادتمند، اكنون این اقبال بلند را به دست آوردهاید كه در این اعمال و مناسكِ آكنده از صفا و معنویّت، دل و جان را شستشویی بسزا داده، از این منبع رحمت و عزّت و قدرت، ذخیرهای برای همهی عمر خویش بردارید. خشوع و تسلیم در برابر خدای رحیم، تعهّد به وظائفی كه بر دوش مسلمان نهاده شده است، نشاط و حركت و اقدام در كار دین و دنیا، رحم و گذشت در تعامل با برادران، جرأت و اعتماد به نفس در برابر حوادث دشوار، امید به كمك و دستگیری خداوند در همه جا و همه چیز، و كوتاهِ سخن ساخت و پرداخت انسانی در طراز مسلمانی را در این عرصهی الهیِ آموزش و پرورش، میتوانید برای خویش تدارك ببینید و خودِ آراسته به این زیورها و بهرهیافته از این ذخیرهها را برای كشور خویش و ملّت خویش و در نهایت برای امّت اسلامی، سوغات برید.
امّت اسلامی امروز بیش از هر چیز به انسانهایی نیاز دارد كه اندیشه و عمل را در كنار ایمان و صفا و اخلاص، و مقاومت در برابر دشمنان كینهورز را در كنار خودسازی معنوی و روحی، فراهم سازند. این یگانه راه نجات جامعهی بزرگ مسلمانان از گرفتاریهایی است كه یا آشكارا به دست دشمن و یا با سستیِ عزم و ایمان و بصیرت، از زمانهای دور در آنها فروافتاده است.
بیشك دوران كنونی، دوران بیداری و هویّتیابی مسلمانان است؛ این حقیقت را از خلال چالشهایی كه كشورهای مسلمان با آن روبهرو شدهاند نیز بروشنی میتوان دریافت. درست در همین شرایط است كه عزم و ارادهی متّكی به ایمان و توكّل و بصیرت و تدبیر، میتواند ملّتهای مسلمان را در این چالشها به پیروزی و سرافرازی برساند و عزّت و كرامت را در سرنوشت آنان رقم زند. جبههی مقابل كه بیداری و عزّت مسلمانان را بر نمیتابد، با همهی توان به میدان آمده و از همهی ابزارهای امنیّتی، روانی، نظامی، اقتصادی و تبلیغاتی برای انفعال و سركوب مسلمانان و به خود مشغول ساختنِ آنان بهره میگیرد. نگاهی به وضعیّت كشورهای غرب آسیا از پاكستان و افغانستان تا سوریّه و عراق و فلسطین و كشورهای خلیج فارس، و نیز كشورهای شمال آفریقا از لیبی و مصر و تونس تا سودان و برخی كشورهای دیگر، حقایق بسیاری را روشن میسازد. جنگهای داخلی؛ عصبیّتهای كور دینی و مذهبی؛ بیثباتیهای سیاسی؛ رواج تروریسم قساوتآمیز؛ ظهور گروهها و جریانهای افراطگر كه به شیوهی اقوام وحشی تاریخ، سینهی انسانها را میشكافند و قلب آنان را با دندان میدرند؛ مسلّحینی كه كودكان و زنان را میكشند، مردان را سر میبرند و به نوامیس تجاوز میكنند، و حتّی در مواردی این جنایات شرمآور و مشمئزكننده را به نام و زیر پرچم دین مرتكب میشوند؛ همه و همه محصول نقشهی شیطانی و استكباری سرویسهای امنیّتی بیگانگان و عوامل حكومتی همدست آنان در منطقه است كه در زمینههای مستعدّ داخلی كشورها امكان وقوع مییابد و روز ملّتها را سیاه و كام آنان را تلخ میكند. یقیناً در چنین اوضاع و احوالی نمیتوان انتظار داشت كه كشورهای مسلمان، خلأهای مادّی و معنوی خود را ترمیم كنند و به امنیّت و رفاه و پیشرفت علمی و اقتدار بینالمللی كه بركات بیداری و هویّتیابی است، دست یابند. این اوضاع محنتبار، میتواند بیداری اسلامی را عقیم و آمادگیهای روحی پدید آمده در دنیای اسلام را ضایع سازد و بار دیگر، سالهای دراز، ملّتهای مسلمان را به ركود و انزوا و انحطاط بكشاند و مسائل اساسی و مهمّ آنان همچون نجات فلسطین و نجات ملّتهای مسلمان از دستاندازی آمریكا و صهیونیسم را به دست فراموشی بسپارد.
علاج بنیانی و اساسی را میتوان در دو جملهی كلیدی خلاصه كرد كه هر دو از بارزترین درسهای حج است:
اوّل: اتّحاد و برادری مسلمانان در زیر لوای توحید،
و دوّم: شناخت دشمن و مقابله با نقشهها و شیوههای او.
تقویت روح اخوّت و همدلی، درس بزرگ حج است. در اینجا حتّی جدال و درشتگویی با دیگران ممنوع است. پوشش یكسان و اَعمال یكسان و حركات یكسان و رفتار مهربان در اینجا به معنی برابری و برادریِ همهی آن كسانی است كه به این كانون توحید معتقد و دلبستهاند. این ردّ صریح اسلام بر هر فكر و عقیده و دعوتی است كه گروهی از مسلمانان و معتقدان به كعبه و توحید را از دائرهی اسلام بیرون بداند. عناصر تكفیری كه امروز بازیچهی سیاست صهیونیستهای غدّار و حامیان غربی آنان شده و دست به جنایتهای سهمگین میزنند و خون مسلمانان و بیگناهان را میریزند، و كسانی از مدّعیان دینداری و ملبّسین به لباس روحانیّت كه در آتش اختلافات شیعه و سنّی و امثال آن میدمند، بدانند كه نفس مراسم حج، باطلكنندهی مدّعای آنان است. شگفتا! كسانی كه مراسم برائت از مشركان را كه ریشه در عمل پیامبر اعظم صلّیاللّه علیه و آله و سلّم دارد، جدال ممنوع قلمداد میكنند، خود از مؤثّرترین دستاندركاران ایجاد منازعههای خونین میان مسلمانانند. اینجانب همچون بسیاری از علمای اسلام و دلسوزان امّت اسلامی بار دیگر اعلام میكنم كه هر گفته و عملی كه موجب برافروختن آتش اختلاف میان مسلمانان شود و نیز اهانت به مقدّسات هر یك از گروههای مسلمان یا تكفیر یكی از مذاهب اسلامی، خدمت به اردوگاه كفر و شرك و خیانت به اسلام و حرام شرعی است.
شناخت دشمن و شیوههای او نیز دوّمین ركن است. اوّلاً وجود دشمن كینتوز را نباید به دست غفلت و فراموشی سپرد و مراسم چندبارهی رمی جمرات در حج، نشانهی نمادین این حضور ذهن همیشگی است. ثانیاً در شناخت دشمن اصلی كه امروزه همان جبههی استكبار جهانی و شبكهی جنایتكار صهیونیسم است، نباید دچار خطا شد. و ثالثاً شیوههای این دشمن عنود را كه تفرقهافكنی میان مسلمانان، و ترویج فساد سیاسی و اخلاقی، و تهدید و تطمیع نخبگان، و فشار اقتصادی بر ملّتها، و ایجاد تردید در باورهای اسلامی است، باید بخوبی تشخیص داد و وابستگان و ایادیِ دانسته و نادانستهی آنان را از این راه شناسایی كرد.
دولتهای استكباری و پیشاپیش آنان آمریكا، به كمك ابزارهای رسانهای فراگیر و پیشرفته، چهرهی واقعی خود را میپوشانند و با دعوی طرفداری از حقوق بشر و دموكراسی، رفتاری خدعهآمیز در برابر افكار عمومی ملّتها در پیش میگیرند. آنان در حالی دم از حقوق ملّتها میزنند كه ملّتهای مسلمان، هر روز بیشتر از گذشته، آتش فتنههای آنان را با جسم و جان خود لمس میكنند. یك نگاه به ملّت مظلوم فلسطین كه دهها سال است روزانه زخمِ جنایات رژیم صهیونیستی و حامیانش را دریافت میكند؛ یا به كشورهای افغانستان و پاكستان و عراق كه تروریسمِ زاییدهی سیاستهای استكبار و ایادی منطقهای آنان، زندگی را به كام ملّتهای آنان تلخ كرده است؛ یا به سوریّه كه به جرم پشتیبانی از جریان مقاومت ضدّ صهیونیستی، آماج كینهی سلطهگران بینالمللی و كارگزاران منطقهای آنان شده و به جنگ خونین داخلی گرفتار آمده است؛ یا به بحرین یا به میانمار كه در هر یك به نحوی، مسلمانان محنتزده و مغفول، و دشمنانشان مورد حمایتند؛ یا به ملّتهای دیگری كه از سوی آمریكا و متّحدانش، پیدرپی به تهاجم نظامی یا تحریم اقتصادی یا خرابكاری امنیّتی تهدید میشوند؛ میتواند چهرهی واقعی این سردمداران نظام سلطه را به همه نشان دهد. نخبگان سیاسی و فرهنگی و دینی در همه جای جهان اسلام باید خود را به افشای این حقایق، متعهّد بدانند. این وظیفهی اخلاقی و دینی همهی ما است. كشورهای شمال آفریقا كه متأسّفانه امروز در معرض اختلافات عمیق داخلی قرار گرفتهاند، بیش از همه باید به این مسئولیّت عظیم، یعنی شناخت دشمن و شیوهها و ترفندهایش توجّه كنند. ادامهی اختلافات میان جریانهای ملّی و غفلت از خطر جنگ خانگی در این كشورها، خطر بزرگی است كه خسارت آن برای امّت اسلامی به این زودیها جبران نخواهد شد.
ما البتّه تردید نداریم كه ملّتهای بهپاخاستهی آن منطقه كه بیداری اسلامی را تجسّم بخشیدند، بإذنالله اجازه نخواهند داد كه عقربهی زمان به عقب برگردد و دوران زمامداران فاسد و وابسته و دیكتاتور، تكرار شود، لیكن غفلت از نقش قدرتهای استكباری در فتنهانگیزی و دخالتهای ویرانگر، كار آنان را دشوار خواهد كرد و دوران عزّت و امنیّت و رفاه را سالها به عقب خواهد افكند. ما به توانایی ملّتها و قدرتی كه خداوند حكیم در عزم و ایمان و بصیرت تودههای مردم قرار داده است، از اعماق دل باور داریم و آن را در بیش از سه دهه در جمهوری اسلامی ایران، به چشم خود دیده و با همهی وجود خود آزمودهایم؛ همّت ما، فراخوان همهی ملّتهای مسلمان به این تجربهی برادرانشان در این كشور سرافراز و خستگیناپذیر است.
از خداوند متعال صلاح حال مسلمانان و دفع كید دشمنان را خواستارم و حجّ مقبول و سلامت جسم و جان و ذخیرهی سرشار معنوی را برای همهی شما حجّاج بیتالله مسألت میكنم.
والسّلام علیكم و رحمة اللّه
سیّد علی خامنهای
پنجم ذیالحجّه ۱۴۳۴ مصادف با ۱۹ مهرماه ۱۳۹۲
5:08
|
شبهای جمعه میگیرم هواتو - امیرعباسی و میثم مطیعی | ٖFarsi sub English Urdu Arabi
نوحه و درد و دل با امام حسین (ع) و مداحی مداحی شب جمعه دلتنگ کربلا:
شب های جمعه می گیرم هواتو اشک غریبی می...
نوحه و درد و دل با امام حسین (ع) و مداحی مداحی شب جمعه دلتنگ کربلا:
شب های جمعه می گیرم هواتو اشک غریبی می ریزم براتو بیچاره اون که حرم رو ندیده بیچاره تر اون که دید کربلا تو بانوای دکتر حاج میثم مطیعی و حاج امیر عباسی بازیرنویس انگلیسی و فارسی، ترجمه اردو سبٹائٹل و مترجم عربي
shabhaye jumma megeram hovai tu (Noha about Karbala & Imam Hussain) by Haj Ameer Abbasi & Haj Meysam Motiee with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن: شب های جمعه می گیرم هواتو اشک غریبی می ریزم براتو بیچاره اون که حرم رو ندیده بیچاره تر اون که دید کربلاتو آه امون از غریبی، صبوری آه چه جوری بسازم با دوری شاه کرامت کجا تو کجا من؟ این کربلایت چه ها کرده با من اشکای زهرا تو صحرا برا تو شب های جمعه صبوری برا من، آه حرم باز پر از بوی سیبه آه خدایا حسینم غریبه
More...
Description:
نوحه و درد و دل با امام حسین (ع) و مداحی مداحی شب جمعه دلتنگ کربلا:
شب های جمعه می گیرم هواتو اشک غریبی می ریزم براتو بیچاره اون که حرم رو ندیده بیچاره تر اون که دید کربلا تو بانوای دکتر حاج میثم مطیعی و حاج امیر عباسی بازیرنویس انگلیسی و فارسی، ترجمه اردو سبٹائٹل و مترجم عربي
shabhaye jumma megeram hovai tu (Noha about Karbala & Imam Hussain) by Haj Ameer Abbasi & Haj Meysam Motiee with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن: شب های جمعه می گیرم هواتو اشک غریبی می ریزم براتو بیچاره اون که حرم رو ندیده بیچاره تر اون که دید کربلاتو آه امون از غریبی، صبوری آه چه جوری بسازم با دوری شاه کرامت کجا تو کجا من؟ این کربلایت چه ها کرده با من اشکای زهرا تو صحرا برا تو شب های جمعه صبوری برا من، آه حرم باز پر از بوی سیبه آه خدایا حسینم غریبه
4:51
|
ناد علی یاد علی (سرود) مجید بنی فاطمه | Farsi sub English Urdu Arabic
سرود جدید و مولودی دلنشین برای جشن میلاد امیرالمومنین امام علی (ع) 13 رجب 1397 1439
مداحی: ناد علی یاد علی دستم...
سرود جدید و مولودی دلنشین برای جشن میلاد امیرالمومنین امام علی (ع) 13 رجب 1397 1439
مداحی: ناد علی یاد علی دستم و امداد علی بانوای حاج سید مجید بنی فاطمه بازیرنویس انگلیسی، اردو سبٹائٹل ترجمه و مترجم عربي
هیات ریحانة الحسین (س)
Nad e Ali Yad e Ali by Haj Majid BaniFatemeh Nasheed Melad Imam Ali 13 Rajab with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن: ناد علی ، یاد علی دستم و امداد علی باده به من داده علی ، در دلم افتاده علی . هله امروز امیر در میخانه تویی هله فریاد رس این دل دیوانه تویی . کعبه یک سنگ نشانیست که رد گم نشود تا بدانند همه صاحب این خانه تویی . مست علی ، دائم و پیوسته علی دست علی دست خداست چشم منو دست علی . دوش دیدم که ملائک در میخانه زدند همه با ذکر علی ، همه مست علی گل آدم بسرشتند و به پیمانه زدند همه با اسم علی ، همه سرمست علی . با منه راه نشین باده مستانه زدند همه با یاد علی، همه پابست علی. قرعه فال به نام منه دیوانه زدند همه با عشق علی، همه با دست علی. راه علی، ماه علی دلبر دلخواه علی یار علی، دلدار علی، حیدار کرار علی. صحن ایوان نجف باز مرا راه بده در طواف حرمت فرصت دیدار بده. ای نسیم سحر آرامگه یار کجاست وقت مرگم نفسی مهلت دیدار بده دوش وقت سحر از غصه نجاتم دادند وندر آن ظلمت شب آب حیاتم دادند . باده از دام تجلی صفاتم دادند مستحق بودم و اینها به ذکاتم دادند . عمر من طی شده در راه تولا علی با حسین و حسن و زینب و زهرا ی ِ علی . خورده ام زخم به امید مداوای علی تا بلندم بکند دست تولای علی
(چند اشعار حافظ)
More...
Description:
سرود جدید و مولودی دلنشین برای جشن میلاد امیرالمومنین امام علی (ع) 13 رجب 1397 1439
مداحی: ناد علی یاد علی دستم و امداد علی بانوای حاج سید مجید بنی فاطمه بازیرنویس انگلیسی، اردو سبٹائٹل ترجمه و مترجم عربي
هیات ریحانة الحسین (س)
Nad e Ali Yad e Ali by Haj Majid BaniFatemeh Nasheed Melad Imam Ali 13 Rajab with English Urdu Arabic Subtitles, translation and Lyrics 2019
متن: ناد علی ، یاد علی دستم و امداد علی باده به من داده علی ، در دلم افتاده علی . هله امروز امیر در میخانه تویی هله فریاد رس این دل دیوانه تویی . کعبه یک سنگ نشانیست که رد گم نشود تا بدانند همه صاحب این خانه تویی . مست علی ، دائم و پیوسته علی دست علی دست خداست چشم منو دست علی . دوش دیدم که ملائک در میخانه زدند همه با ذکر علی ، همه مست علی گل آدم بسرشتند و به پیمانه زدند همه با اسم علی ، همه سرمست علی . با منه راه نشین باده مستانه زدند همه با یاد علی، همه پابست علی. قرعه فال به نام منه دیوانه زدند همه با عشق علی، همه با دست علی. راه علی، ماه علی دلبر دلخواه علی یار علی، دلدار علی، حیدار کرار علی. صحن ایوان نجف باز مرا راه بده در طواف حرمت فرصت دیدار بده. ای نسیم سحر آرامگه یار کجاست وقت مرگم نفسی مهلت دیدار بده دوش وقت سحر از غصه نجاتم دادند وندر آن ظلمت شب آب حیاتم دادند . باده از دام تجلی صفاتم دادند مستحق بودم و اینها به ذکاتم دادند . عمر من طی شده در راه تولا علی با حسین و حسن و زینب و زهرا ی ِ علی . خورده ام زخم به امید مداوای علی تا بلندم بکند دست تولای علی
(چند اشعار حافظ)
48:59
|
[6] Dars-e-Nahjul Balagha - Sermon No.1 - Moulana Taqi Agha sahab - Urdu
Dars-e-Nahjul Balagha
Sermon No. 1
Lecture No. 6
Speaker: H I Moulana Taqi Agha Sahab
Topic: Creation Of Universe
ثُمَّ أَنْشَأَ ـ سُبْحَانَهُ ـ فَتْقَ...
Dars-e-Nahjul Balagha
Sermon No. 1
Lecture No. 6
Speaker: H I Moulana Taqi Agha Sahab
Topic: Creation Of Universe
ثُمَّ أَنْشَأَ ـ سُبْحَانَهُ ـ فَتْقَ الاَْجْوَاءِ، وَشَقَّ الاَْرْجَاءِ، وَسَكَائِكَ.. الَهوَاءِ، فأَجازَ فِيهَا مَاءً مُتَلاطِماً تَيَّارُهُ..، مُتَراكِماً زَخَّارُهُ.، حَمَلَهُ عَلَى مَتْنِ.
الرِّيحِ الْعَاصِفَةِ، وَالزَّعْزَعِ. الْقَاصِفَةِ، فَأَمَرَها بِرَدِّهِ، وَسَلَّطَهَا عَلَى شَدِّهِ، وَقَرنَهَا إِلَى حَدِّهِ، الهَوَاءُ مِنْ تَحْتِها فَتِيقٌ.، وَالمَاءُ مِنْ .فَوْقِهَا دَفِيقٌ
The Creation of the Universe
He initiated creation most initially and commenced it originally, without undergoing reflection, without making use of any experiment, without innovating any movement, and without experiencing any aspiration of mind. He allotted all things their times, put together their variations gave them their properties, and determined their features knowing them before creating them, realising fully their limits and confines and appreciating their propensities and intricacies.
When Almighty created the openings of atmosphere, expanse of firmament and strata of winds, He flowed into it water whose waves were stormy and whose surges leapt one over the other. He loaded it on dashing wind and breaking typhoons, ordered them to shed it back (as rain), gave the wind control over the vigour of the rain, and acquainted it with its limitations. The wind blew under it while water flowed furiously over it.
Then Almighty created forth wind and made its movement sterile, perpetuated its position, intensified its motion and spread it far and wide. Then He ordered the wind to raise up deep waters and to intensify the waves of the oceans. So the wind churned it like the churning of curd and pushed it fiercely into the firmament throwing its front position on the rear and the stationary on the flowing till its level was raised and the surface was full of foam. Then Almighty raised the foam on to the open wind and vast firmament and made therefrom the seven skies and made the lower one as a stationary surge and the upper one as protective ceiling and a high edifice without any pole to support it or nail to hold it together. Then He decorated them with stars and the light of meteors and hung in it the shining sun and effulgent moon under the revolving sky, moving ceiling and rotating firmament.
More...
Description:
Dars-e-Nahjul Balagha
Sermon No. 1
Lecture No. 6
Speaker: H I Moulana Taqi Agha Sahab
Topic: Creation Of Universe
ثُمَّ أَنْشَأَ ـ سُبْحَانَهُ ـ فَتْقَ الاَْجْوَاءِ، وَشَقَّ الاَْرْجَاءِ، وَسَكَائِكَ.. الَهوَاءِ، فأَجازَ فِيهَا مَاءً مُتَلاطِماً تَيَّارُهُ..، مُتَراكِماً زَخَّارُهُ.، حَمَلَهُ عَلَى مَتْنِ.
الرِّيحِ الْعَاصِفَةِ، وَالزَّعْزَعِ. الْقَاصِفَةِ، فَأَمَرَها بِرَدِّهِ، وَسَلَّطَهَا عَلَى شَدِّهِ، وَقَرنَهَا إِلَى حَدِّهِ، الهَوَاءُ مِنْ تَحْتِها فَتِيقٌ.، وَالمَاءُ مِنْ .فَوْقِهَا دَفِيقٌ
The Creation of the Universe
He initiated creation most initially and commenced it originally, without undergoing reflection, without making use of any experiment, without innovating any movement, and without experiencing any aspiration of mind. He allotted all things their times, put together their variations gave them their properties, and determined their features knowing them before creating them, realising fully their limits and confines and appreciating their propensities and intricacies.
When Almighty created the openings of atmosphere, expanse of firmament and strata of winds, He flowed into it water whose waves were stormy and whose surges leapt one over the other. He loaded it on dashing wind and breaking typhoons, ordered them to shed it back (as rain), gave the wind control over the vigour of the rain, and acquainted it with its limitations. The wind blew under it while water flowed furiously over it.
Then Almighty created forth wind and made its movement sterile, perpetuated its position, intensified its motion and spread it far and wide. Then He ordered the wind to raise up deep waters and to intensify the waves of the oceans. So the wind churned it like the churning of curd and pushed it fiercely into the firmament throwing its front position on the rear and the stationary on the flowing till its level was raised and the surface was full of foam. Then Almighty raised the foam on to the open wind and vast firmament and made therefrom the seven skies and made the lower one as a stationary surge and the upper one as protective ceiling and a high edifice without any pole to support it or nail to hold it together. Then He decorated them with stars and the light of meteors and hung in it the shining sun and effulgent moon under the revolving sky, moving ceiling and rotating firmament.
Peace be upon Imam Reza (a.s) ( صلوات خاصه حضرت امام رضا ( ع - Arabic
قرائت صلوات خاصه حضرت امام رضا (ع) همراه با متن گرافیکی آن . «اللهّمَ صَلّ عَلي عَلي بنْ موسَي الرّضا...
قرائت صلوات خاصه حضرت امام رضا (ع) همراه با متن گرافیکی آن . «اللهّمَ صَلّ عَلي عَلي بنْ موسَي الرّضا المرتَضي
الامامِ التّقي النّقي و حُجَّّتكَ عَلي مَنْ فَوقَ الارْضَ و مَن تَحتَ الثري
الصّدّيق الشَّهيد صَلَوةَ كثيرَةً تامَةً زاكيَةً مُتَواصِلةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَه
كافْضَلِ ما صَلّيَتَ عَلي اَحَدٍ مِنْ اوْليائِكَ »
More...
Description:
قرائت صلوات خاصه حضرت امام رضا (ع) همراه با متن گرافیکی آن . «اللهّمَ صَلّ عَلي عَلي بنْ موسَي الرّضا المرتَضي
الامامِ التّقي النّقي و حُجَّّتكَ عَلي مَنْ فَوقَ الارْضَ و مَن تَحتَ الثري
الصّدّيق الشَّهيد صَلَوةَ كثيرَةً تامَةً زاكيَةً مُتَواصِلةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَه
كافْضَلِ ما صَلّيَتَ عَلي اَحَدٍ مِنْ اوْليائِكَ »
4:22
|
یا عباس جیب الماء لسکینه - محمود کریمی | Farsi sub Urdu
يا عباس جيب المای لِسكينة، یا عباس شوف الحرم حرَّقوه، یا عباس شوف الحرم عطشانا (شور عربي سوزناک دلسوز...
يا عباس جيب المای لِسكينة، یا عباس شوف الحرم حرَّقوه، یا عباس شوف الحرم عطشانا (شور عربي سوزناک دلسوز جانسوز) بامداحی حاج محمود کریمی بازیرنویس اردو ترجمه سبسٹائل و متن فارسی
زمینه سال 1394 عصرعاشورا شب تاسوعا مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا حضرت ابوالفضل عباس امام حسین 1397 هیأت رایة العباس علیه السلام
Ya Abbas Jebal Ma Sakina, Haj Mahmoud Karimi 1397 Muharram
Best Farsi Noha with Urdu translation subtitle 2018
Nohay of Hazrat Abbas
More...
Description:
يا عباس جيب المای لِسكينة، یا عباس شوف الحرم حرَّقوه، یا عباس شوف الحرم عطشانا (شور عربي سوزناک دلسوز جانسوز) بامداحی حاج محمود کریمی بازیرنویس اردو ترجمه سبسٹائل و متن فارسی
زمینه سال 1394 عصرعاشورا شب تاسوعا مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا حضرت ابوالفضل عباس امام حسین 1397 هیأت رایة العباس علیه السلام
Ya Abbas Jebal Ma Sakina, Haj Mahmoud Karimi 1397 Muharram
Best Farsi Noha with Urdu translation subtitle 2018
Nohay of Hazrat Abbas
4:44
|
ناحله الجسم یعنی - حامد زمانی | Farsi sub English Urdu Arabic
مداحی نوحه جدید برای حضرت مادر فاطمه زهرا (س):
نماٰهنگ جانسوز: ناحلة الجسم یعنی نحیف ودل شکسته میری جوونی...
مداحی نوحه جدید برای حضرت مادر فاطمه زهرا (س):
نماٰهنگ جانسوز: ناحلة الجسم یعنی نحیف ودل شکسته میری جوونی اما مادرپیری باصدای حامد زمانی بازیرنویس انگلیسی و اردو سبٹائٹل ترجمه و مترجم عربي
ناحلة الجسم يعني مترجمة ایام فاطمیه عزاداری شهادت حضرت زهرا (س)
Nahelatal Jesm Yani Hamed Zamani Shahadat Seyeda Fatima Zahra (sa) Farsi nohay with Urdu Arabic English Subtitle, lyrics translation 2019
متن: ناحلة الجسم یعنی نحیف ودل شکسته میری جوونی اما مادرپیری بهونه ی سفرمیگیری باکیة العین یعنی بارون غصه ها میباره چشای مادرما تاره دیگه علی شده بیچاره منحدة الرکن یعنی توون برات نمونده بانو کی قلبتو شکونده بانو کی بالتو شکونده بانو معصبة الاراس یعنی بستی سری روکه پردرده رنگ رخ تومادر زرده توکوچه کی جسارت کرده؟ جوری لگد خوردی که نمی تونی بلند شی ازجات جای قلافه روبازو هات داری می ری کناربابات هیچ کسی ای وای من نگفت تو کوچه به اون کافر نزن زنو جلوی شوهر بمیره زینبت ای مادر
More...
Description:
مداحی نوحه جدید برای حضرت مادر فاطمه زهرا (س):
نماٰهنگ جانسوز: ناحلة الجسم یعنی نحیف ودل شکسته میری جوونی اما مادرپیری باصدای حامد زمانی بازیرنویس انگلیسی و اردو سبٹائٹل ترجمه و مترجم عربي
ناحلة الجسم يعني مترجمة ایام فاطمیه عزاداری شهادت حضرت زهرا (س)
Nahelatal Jesm Yani Hamed Zamani Shahadat Seyeda Fatima Zahra (sa) Farsi nohay with Urdu Arabic English Subtitle, lyrics translation 2019
متن: ناحلة الجسم یعنی نحیف ودل شکسته میری جوونی اما مادرپیری بهونه ی سفرمیگیری باکیة العین یعنی بارون غصه ها میباره چشای مادرما تاره دیگه علی شده بیچاره منحدة الرکن یعنی توون برات نمونده بانو کی قلبتو شکونده بانو کی بالتو شکونده بانو معصبة الاراس یعنی بستی سری روکه پردرده رنگ رخ تومادر زرده توکوچه کی جسارت کرده؟ جوری لگد خوردی که نمی تونی بلند شی ازجات جای قلافه روبازو هات داری می ری کناربابات هیچ کسی ای وای من نگفت تو کوچه به اون کافر نزن زنو جلوی شوهر بمیره زینبت ای مادر
9:03
|
روضه حضرت فاطمه زهرا مجید بنی فاطمه | فاطمیه 97-farsi
مداحی نوحه دلسوز برای شهادت حضرت فاطمه زهرا (س)
روضه : ای آسمان عاطفه پرواز بی کران باصدای حاج سید مجید...
مداحی نوحه دلسوز برای شهادت حضرت فاطمه زهرا (س)
روضه : ای آسمان عاطفه پرواز بی کران باصدای حاج سید مجید بنی فاطمه
مراسم عزاداری شب اول ایام فاطمیه دوم جدید 1397هیئت حسینیهی ریحانه الحسین (س) تهران
Seyed Majid Bani Fatemeh, Shahadat Seyeda Fatima Zahra(sa) Farsi nohay with lyrics 2019
متن: ای آسمان عاطفه پرواز بی کران بعد از تو ناتوان شده بال کبوتران خیر النسایی و به خودت می شناسمت دنیا نداشت غیر خودت از تو بهتران دینم حرام اگر که به غیر تو رو کنم تو مال ما بهشت خدا مال دیگران شایسته است بعد بیابان نشینی ات گوشه نشین شوند تمام پیامبران دستش شکسته باد هر آنکه تو را شکست نانش حرام باد هر آنکه تو را در آن کوچه فقط به خاطر یک قطعه خاک زد باید از این به بعد بمیرند نوکران این روزها که حرمت رویت شکسته شد خوب است گوشواره درآرند مادران اینها تو را زدند غرور علی شکست آری شکستنی است غرور دلاوران بعد از تو احترام ندارد قبیله ات مادر که رفت وای بر احوال دختران
More...
Description:
مداحی نوحه دلسوز برای شهادت حضرت فاطمه زهرا (س)
روضه : ای آسمان عاطفه پرواز بی کران باصدای حاج سید مجید بنی فاطمه
مراسم عزاداری شب اول ایام فاطمیه دوم جدید 1397هیئت حسینیهی ریحانه الحسین (س) تهران
Seyed Majid Bani Fatemeh, Shahadat Seyeda Fatima Zahra(sa) Farsi nohay with lyrics 2019
متن: ای آسمان عاطفه پرواز بی کران بعد از تو ناتوان شده بال کبوتران خیر النسایی و به خودت می شناسمت دنیا نداشت غیر خودت از تو بهتران دینم حرام اگر که به غیر تو رو کنم تو مال ما بهشت خدا مال دیگران شایسته است بعد بیابان نشینی ات گوشه نشین شوند تمام پیامبران دستش شکسته باد هر آنکه تو را شکست نانش حرام باد هر آنکه تو را در آن کوچه فقط به خاطر یک قطعه خاک زد باید از این به بعد بمیرند نوکران این روزها که حرمت رویت شکسته شد خوب است گوشواره درآرند مادران اینها تو را زدند غرور علی شکست آری شکستنی است غرور دلاوران بعد از تو احترام ندارد قبیله ات مادر که رفت وای بر احوال دختران
2:30
|
[FARSI] Vali Amr Muslimeen Condemning Anti-Islam Film - 13 Sep 2012
پيام در پی اهانت نفرتانگيز دشمنان اسلام به ساحت نورانی پيامبر اعظم صلواتاللهعلیهوآله
در پی اهانت...
پيام در پی اهانت نفرتانگيز دشمنان اسلام به ساحت نورانی پيامبر اعظم صلواتاللهعلیهوآله
در پی اهانت نفرتانگیز دشمنان اسلام به ساحت نورانی پیامبر اعظم صلّیاللهعلیهوآلهوسلّم، حضرت آیتاللهخامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در پیامی به ملت ایران و امت بزرگ اسلام، پشت صحنهی این حركت شرارتبار را سیاستهای خصمانهی صهیونیسم، آمریكا و دیگر سران استكبار جهانی خواندند. ایشان با تشریح دلایل كینهورزی صهیونیستها نسبت به اسلام و قرآن، تأكید كردند: سیاستمداران آمریكا اگر در ادعای دخالتنداشتن خود صادقند، باید عاملان این جنایت شنیع و پشتیبانان مالی آن را كه دل ملتهای مسلمان را به درد آوردهاند، به مجازات متناسب با این جرم بزرگ برسانند.
متن پیام رهبر معظم انقلاب اسلامی به این شرح است:
بسماللهالرحمنالرحیم
قال الله العزیز الحكیم: یُریدونَ لِیُطفِئوا نورَ اللهِ بِأفواهِهِم و اللهُ مُتِمُّ نورِه وَ لو كَرِهَ الكافِرون(1)
ملت عزیز ایران؛ امت بزرگ اسلام
دست پلید دشمنان اسلام بار دیگر با اهانت به پیامبر اعظم صلّیاللهعلیهوآلهوسلّم كینهی عمیق خود را آشكار ساخت و با اقدامی جنونآمیز و نفرتانگیز، خشم مجموعههای خبیث صهیونیستی را از تلألؤ روزافزون اسلام و قرآن در جهان كنونی نشان داد. در روسیاهی عاملان این جنایت و گناه بزرگ، همین بس كه مقدسترین و نورانیترین چهره میان مقدسات عالم را آماج یاوههای مشمئزكنندهی خویش ساختهاند.
پشت صحنهی این حركت شرارتبار، سیاستهای خصمانهی صهیونیسم و امریكا و دیگر سران استكبار جهانی است كه به خیال باطل خود میخواهند مقدسات اسلامی را در چشم نسلهای جوان در دنیای اسلام از جایگاه رفیع خود فروافكنده و احساسات دینی آنان را خاموش كنند. اگر از حلقههای قبلی این زنجیرهی پلید، یعنی سلمان رشدی و كاریكاتوریست دانماركی و كشیشهای امریكایی آتشزنندهی قرآن حمایت نمیكردند و دهها فیلم ضد اسلام را در بنگاههای وابسته به سرمایهداران صهیونیست سفارش نمیدادند، امروز كار به این گناه عظیم و غیر قابل بخشش نمیرسید.
متهم اول در این جنایت، صهیونیسم و دولت امریكا است. سیاستمداران امریكا اگر در ادعای دخالت نداشتن خود صادقند، باید عاملان این جنایت شنیع و پشتیبانان مالی آن را كه دل ملتهای مسلمان را به درد آوردهاند، به مجازات متناسب با این جرم بزرگ برسانند.
برادران و خواهران مسلمان در سراسر جهان نیز بدانند كه این حركات مذبوحانهی دشمنان در برابر بیداری اسلامی، نشانهی عظمت و اهمیت این خیزش و مبشّر رشد روزافزون آن است. و الله غالبٌ علی أمرِهِ(2).
سید علی خامنهای
23/شهریور/1391
Source: http://farsi.khamenei.ir/message-content?id=20963
More...
Description:
پيام در پی اهانت نفرتانگيز دشمنان اسلام به ساحت نورانی پيامبر اعظم صلواتاللهعلیهوآله
در پی اهانت نفرتانگیز دشمنان اسلام به ساحت نورانی پیامبر اعظم صلّیاللهعلیهوآلهوسلّم، حضرت آیتاللهخامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در پیامی به ملت ایران و امت بزرگ اسلام، پشت صحنهی این حركت شرارتبار را سیاستهای خصمانهی صهیونیسم، آمریكا و دیگر سران استكبار جهانی خواندند. ایشان با تشریح دلایل كینهورزی صهیونیستها نسبت به اسلام و قرآن، تأكید كردند: سیاستمداران آمریكا اگر در ادعای دخالتنداشتن خود صادقند، باید عاملان این جنایت شنیع و پشتیبانان مالی آن را كه دل ملتهای مسلمان را به درد آوردهاند، به مجازات متناسب با این جرم بزرگ برسانند.
متن پیام رهبر معظم انقلاب اسلامی به این شرح است:
بسماللهالرحمنالرحیم
قال الله العزیز الحكیم: یُریدونَ لِیُطفِئوا نورَ اللهِ بِأفواهِهِم و اللهُ مُتِمُّ نورِه وَ لو كَرِهَ الكافِرون(1)
ملت عزیز ایران؛ امت بزرگ اسلام
دست پلید دشمنان اسلام بار دیگر با اهانت به پیامبر اعظم صلّیاللهعلیهوآلهوسلّم كینهی عمیق خود را آشكار ساخت و با اقدامی جنونآمیز و نفرتانگیز، خشم مجموعههای خبیث صهیونیستی را از تلألؤ روزافزون اسلام و قرآن در جهان كنونی نشان داد. در روسیاهی عاملان این جنایت و گناه بزرگ، همین بس كه مقدسترین و نورانیترین چهره میان مقدسات عالم را آماج یاوههای مشمئزكنندهی خویش ساختهاند.
پشت صحنهی این حركت شرارتبار، سیاستهای خصمانهی صهیونیسم و امریكا و دیگر سران استكبار جهانی است كه به خیال باطل خود میخواهند مقدسات اسلامی را در چشم نسلهای جوان در دنیای اسلام از جایگاه رفیع خود فروافكنده و احساسات دینی آنان را خاموش كنند. اگر از حلقههای قبلی این زنجیرهی پلید، یعنی سلمان رشدی و كاریكاتوریست دانماركی و كشیشهای امریكایی آتشزنندهی قرآن حمایت نمیكردند و دهها فیلم ضد اسلام را در بنگاههای وابسته به سرمایهداران صهیونیست سفارش نمیدادند، امروز كار به این گناه عظیم و غیر قابل بخشش نمیرسید.
متهم اول در این جنایت، صهیونیسم و دولت امریكا است. سیاستمداران امریكا اگر در ادعای دخالت نداشتن خود صادقند، باید عاملان این جنایت شنیع و پشتیبانان مالی آن را كه دل ملتهای مسلمان را به درد آوردهاند، به مجازات متناسب با این جرم بزرگ برسانند.
برادران و خواهران مسلمان در سراسر جهان نیز بدانند كه این حركات مذبوحانهی دشمنان در برابر بیداری اسلامی، نشانهی عظمت و اهمیت این خیزش و مبشّر رشد روزافزون آن است. و الله غالبٌ علی أمرِهِ(2).
سید علی خامنهای
23/شهریور/1391
Source: http://farsi.khamenei.ir/message-content?id=20963
32:33
|