24:25
|
URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
More...
Description:
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
Dec 7 2008 پيغام حج By Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei - Urdu
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
More...
Description:
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای : Islamic Awakening and Youth Conference
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
More...
Description:
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
2:42
|
23:14
|
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali Khamenei - Urdu translation
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں،...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
More...
Description:
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
[Day 1] قرآن سے تمسک Quran say Tamassuk - Maulana Ali Murtaza Zaidi - Urdu
Maulana Ali Murtaza Zaidi delivered this speech on the first day of the program arranged by Quran Foundation. The topic is Quran say Tamassuk aur is kay marahil.
Maulana Ali Murtaza Zaidi delivered this speech on the first day of the program arranged by Quran Foundation. The topic is Quran say Tamassuk aur is kay marahil.
[URDU] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن...
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
More...
Description:
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
13:52
|
ديدار با شركتكنندگان در مسابقات قرآن Sayyed Ali Khamenei 5 July 2011 Farsi sub Urdu
ديدار با شركتكنندگان در مسابقات قرآن Sayyed Ali Khamenei 5 July 2011
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=12866
حضرت آیتالله...
ديدار با شركتكنندگان در مسابقات قرآن Sayyed Ali Khamenei 5 July 2011
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=12866
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار اساتید، داوران، حُفّاظ و قاریان شركتكننده در بیستوهشتمین دوره مسابقات بینالمللی قرآن كریم و جمعی از جامعهی قرآنی كشور، قرآن را مهمترین وسیله و عامل وحدت، عزت و اقتدار امت اسلامی و قیام ملتهای منطقه را از نشانههای روشن تحقق قطعی وعدههای قرآنی پروردگار خواندند.
حضرت آیتالله خامنهای، مسابقات بینالمللی قرآن كریم را نشاندهنده ظرفیت عظیم و بیپایان این كتاب آسمانی برای اجتماع و وحدت مسلمانان دانستند و خاطرنشان كردند: همه ملتهای مسلمان در مقابل این هدیه بینظیر الهی خاضع و درسآموزند و این حقیقت، فرصت بسیار مهمی را برای وحدت مسلمان ایجاد میكند.
ایشان، بیتوجهی به ظرفیت وحدت بخش قرآن مجید را غفلت بزرگ ملتهای مسلمان برشمردند و افزودند: باور نداشتن به مفاهیم قرآنی و وعدههای پروردگار، غفلت دیگری است كه عملاً مانع وحدت، عزت و اقتدار امت اسلامی شده است.
رهبر انقلاب اسلامی در تبیین تحقق قطعی وعدههای قرآنی خداوند، به تغییر سرنوشت ملت ایران اشاره و خاطرنشان كردند: ما ملت ایران، آیه شریفه انَّ الله لا یُغَیِّرُ ما بِقَومٍ حَتّی یُغَیِّروا ما بِاَنفُسِهِم را در عمل آزمودهایم و با قیام لله و یاری دین خدا، نصرت الهی را كاملاً درك كردهایم.
حضرت آیتالله خامنهای ایران دوران طاغوت را ایرانِ امریكا و ایران وابسته به صهیونیستها خواندند و خاطرنشان كردند: تبدیل ایران به قطب قدرتمند مقابله با استكبار و صهیونیسم، معجزهای عینی و تحقق وعده نصرت الهی است كه خداوند كریم آن را در قرآن، بشارت داده است.
ایشان قیام ملتهای منطقه از جمله ملت مصر را از دیگر نشانههای بارز حتمی بودن وعدههای قرآن برشمردند و افزودند: امریكا، جبهه خبیث صهیونیستها و وابستگان سیاسی آنها در منطقه، حتی حاضر نبودند فكر قیام ملت مصر را به ذهنشان راه دهند اما این ملت، با شعار اللهاكبر و نماز جمعه و جماعت به میدان یاری دین خدا آمد و خداوند نیز با نصرت آن ملت، بار دیگر ثابت كرد كه اگر پروردگار كسی را یاری كند هیچ قدرتی نمیتواند بر او غلبه كند.
حضرت آیتالله خامنهای در بخش دیگری از سخنانشان، حفظ قرآن را، باعث ایجاد فرصت بیشتر برای تدبر و تفكر در این كتاب الهی دانستند و با توصیه به نوجوانان و جوانان به حفظ قرآن مجید افزودند: تدبر، كلید اصلی درك مفاهیم و معانی عمیق قرآن است و حفظ آیات شریف، این فرصت را بهتر و بیشتر فراهم می كند.
در ابتدای این دیدار حجتالاسلام والمسلمین محمدی نماینده ولی فقیه و سرپرست سازمان اوقاف و امور خیریه، در گزارشی از برپایی بیست و هشتمین دوره مسابقات قرآن كریم در تهران گفت: در این دوره از مسابقات كه بمدت 5 روز برگزار شد، 96 نفر قاری و حافظ قرآن و 13 نفر داور از 61 كشور جهان حضور داشتند.
حجتالاسلام والمسلمین محمدی پژوهشهای قرآنی در قالب مقالهنویسی، برپایی همایش بانوان فعال در عرصه قرآنی، كارگاههای آموزشی تخصصی در رشته قرائت و حفظ، برگزاری نمایشگاه محصولات قرآنی و محافل انس با قرآن را از دیگر برنامههای این دوره از مسابقات بین المللی قرآن كریم اعلام كرد.
More...
Description:
ديدار با شركتكنندگان در مسابقات قرآن Sayyed Ali Khamenei 5 July 2011
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=12866
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار اساتید، داوران، حُفّاظ و قاریان شركتكننده در بیستوهشتمین دوره مسابقات بینالمللی قرآن كریم و جمعی از جامعهی قرآنی كشور، قرآن را مهمترین وسیله و عامل وحدت، عزت و اقتدار امت اسلامی و قیام ملتهای منطقه را از نشانههای روشن تحقق قطعی وعدههای قرآنی پروردگار خواندند.
حضرت آیتالله خامنهای، مسابقات بینالمللی قرآن كریم را نشاندهنده ظرفیت عظیم و بیپایان این كتاب آسمانی برای اجتماع و وحدت مسلمانان دانستند و خاطرنشان كردند: همه ملتهای مسلمان در مقابل این هدیه بینظیر الهی خاضع و درسآموزند و این حقیقت، فرصت بسیار مهمی را برای وحدت مسلمان ایجاد میكند.
ایشان، بیتوجهی به ظرفیت وحدت بخش قرآن مجید را غفلت بزرگ ملتهای مسلمان برشمردند و افزودند: باور نداشتن به مفاهیم قرآنی و وعدههای پروردگار، غفلت دیگری است كه عملاً مانع وحدت، عزت و اقتدار امت اسلامی شده است.
رهبر انقلاب اسلامی در تبیین تحقق قطعی وعدههای قرآنی خداوند، به تغییر سرنوشت ملت ایران اشاره و خاطرنشان كردند: ما ملت ایران، آیه شریفه انَّ الله لا یُغَیِّرُ ما بِقَومٍ حَتّی یُغَیِّروا ما بِاَنفُسِهِم را در عمل آزمودهایم و با قیام لله و یاری دین خدا، نصرت الهی را كاملاً درك كردهایم.
حضرت آیتالله خامنهای ایران دوران طاغوت را ایرانِ امریكا و ایران وابسته به صهیونیستها خواندند و خاطرنشان كردند: تبدیل ایران به قطب قدرتمند مقابله با استكبار و صهیونیسم، معجزهای عینی و تحقق وعده نصرت الهی است كه خداوند كریم آن را در قرآن، بشارت داده است.
ایشان قیام ملتهای منطقه از جمله ملت مصر را از دیگر نشانههای بارز حتمی بودن وعدههای قرآن برشمردند و افزودند: امریكا، جبهه خبیث صهیونیستها و وابستگان سیاسی آنها در منطقه، حتی حاضر نبودند فكر قیام ملت مصر را به ذهنشان راه دهند اما این ملت، با شعار اللهاكبر و نماز جمعه و جماعت به میدان یاری دین خدا آمد و خداوند نیز با نصرت آن ملت، بار دیگر ثابت كرد كه اگر پروردگار كسی را یاری كند هیچ قدرتی نمیتواند بر او غلبه كند.
حضرت آیتالله خامنهای در بخش دیگری از سخنانشان، حفظ قرآن را، باعث ایجاد فرصت بیشتر برای تدبر و تفكر در این كتاب الهی دانستند و با توصیه به نوجوانان و جوانان به حفظ قرآن مجید افزودند: تدبر، كلید اصلی درك مفاهیم و معانی عمیق قرآن است و حفظ آیات شریف، این فرصت را بهتر و بیشتر فراهم می كند.
در ابتدای این دیدار حجتالاسلام والمسلمین محمدی نماینده ولی فقیه و سرپرست سازمان اوقاف و امور خیریه، در گزارشی از برپایی بیست و هشتمین دوره مسابقات قرآن كریم در تهران گفت: در این دوره از مسابقات كه بمدت 5 روز برگزار شد، 96 نفر قاری و حافظ قرآن و 13 نفر داور از 61 كشور جهان حضور داشتند.
حجتالاسلام والمسلمین محمدی پژوهشهای قرآنی در قالب مقالهنویسی، برپایی همایش بانوان فعال در عرصه قرآنی، كارگاههای آموزشی تخصصی در رشته قرائت و حفظ، برگزاری نمایشگاه محصولات قرآنی و محافل انس با قرآن را از دیگر برنامههای این دوره از مسابقات بین المللی قرآن كریم اعلام كرد.
44:15
|
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و بیداری اسلامی Farsi
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
More...
Description:
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
40:01
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in one night - Part 1 - Farsi
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
More...
Description:
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
2:24
|
Leader Orders Tough Punishment of Bank Embezzlers - Oct 3-2011 Farsi
TEHRAN (FNA)- Supreme Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyed Ali Khamenei stressed the necessity for a serious punishment of those guilty in the recent bank scam, and blamed the...
TEHRAN (FNA)- Supreme Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyed Ali Khamenei stressed the necessity for a serious punishment of those guilty in the recent bank scam, and blamed the country\'s officials for their lack of diligence in preventing the case.
\"Although authorities welcomed confrontation against economic corruption, but if action had been taken on my advice, we would have never been afflicted with such incidents as the recent corruption in the banking system,\" the Leader said, addressing a meeting with cultural and executive staff and personnel of Hajj in Tehran on Monday.
Ten years ago, the Leader had made a series of recommendations for the country\'s officials requiring them to launch a tough combat on economic corruption.
The Leader further underlined the necessity of stopping all covert and overt economic activities of such corrupt individuals as the ones involved in the recent bank scam.
Ayatollah Khamenei further assured the Iranian people of the ruling system\'s resolve to confront and prevent similar economic corruption.
The $2.8 billion embezzlement scandal involving seven government-owned and private banks, which had used fraudulent Saderat Bank documents to secure multi-billion dollar credit and purchase state-owned companies, was recently uncovered.
Iran\'s Judiciary Chief Ayatollah Sadeq Amoli Larijani has appointed Prosecutor General Hojjatoleslam Gholam- Hossein Mohseni-Ejeii to investigate the case.
On September 27, Mohseni Ejeii announced that 22 people had been arrested in connection with the case and that the exact nature of the fraud is still under investigation.
According to the Prosecutor General, necessary measures have been taken to prevent the criminals from leaving the country or transferring money to offshore accounts.
مسوولان، در ماجرای سوء استفاده بانکی دستهای خائن و مفسد را بدون ترحم قطع کنند
ساعت خبر: 11:37 - تاريخ خبر: 11/07/1390
•تلاش دشمنان برای اختلاف افکنی و مقابله با بیداری اسلامی در مراسم حج
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر انقلاب اسلامی صبح امروز (دوشنبه) در دیدار دست اندرکاران حج امسال، حج را فرصتی بسیار گرانبها و ارزشمند برای ارتباط با امت اسلامی و بهره مندی معنوی خواندند و با اشاره به تلاش دشمنان برای اختلاف افکنی و مقابله با موج بیداری اسلامی در مراسم حج ، تنها راه غلبه بر این توطئه را نزدیکتر شدن دلها و تقویت همدلی دانستند.
به گزارش واحد مرکزی خبر، ایشان همچنین در ادامه با اشاره به فساد بانکی اخیر در کشور، علت وقوع این سوء استفاده را عمل نکردن مسوولان به توصیه های مؤکد چند سال پیش رهبری در خصوص مقابله با فساد اقتصادی توصیف و تأکید کردند: مسوولان قضایی ضمن پیگیری قوی، دقیق و عاقلانه قضیه و اطلاع رسانی مناسب به مردم، باید دستهای خائن را قطع کنند.
حضرت آیت الله خامنه ای حج را یکی از رموز اساسی اسلام و میهمانی بزرگ الهی در مرکز عظمت و قدرت و جمال و کرَم توصیف کردند و افزودند: باید در بُعد عمومی و بین المللی حج، همدلی و تقویت پیوندهای اسلامی بدون در نظر گرفتن ملیت ها، قومیت ها و مذهب ها مورد توجه جدی قرار گیرد و از این فرصت برای نزدیک تر شدن دلها استفاده شود.
ایشان یکی از ویژگیهای بارز حج امسال را، بیداری اسلامی در منطقه بویژه مصر، تونس، یمن و بحرین دانستند و تأکید کردند: با توجه به این رویداد مهم، امسال توطئه ایجاد اختلاف و بدبینی و تحریک احساسات میان امت اسلامی، برجسته تر خواهد بود و تنها راه غلبه بر این توطئه نزدیکتر شدن دلها و تقویت همدلی است.
رهبر انقلاب اسلامی با تأکید بر اینکه مسلمانان یک تن واحد هستند، افزودند: حجاج ایرانی باید با چنین نگاه عمومی و جهانی در حج حضور یابند و تجربیات سی ساله خود در مبارزه با استکبار و معاندین را در اختیار ملتهای تازه انقلاب کرده، قرار دهند.
حضرت آیت الله خامنه ای، رفتار خوب و همراه با ادب و احترام را از دیگر نکات ضروری برای حجاج ایرانی برشمردند و خاطر نشان کردند: حج فرصتی گرانبها برای پاکیزه شدن از آلودگی های دنیا و مجموعه ای از فرائض است که باید ضمن قدر دانستن این مراسم عظیم و کم نظیر، در حفظ ذخایر معنوی بدست آمده آن هم همت کرد.
ایشان زائران بیت الله الحرام را به آماده سازی درونی خود، قبل از سفر حج و آماده شدن برای این میهمانی الهی توصیه کردند و افزودند: حاجی ایرانی باید با رفتار خود در حج، ملت، کشور و نظام جمهوری اسلامی ایران را در چشم دنیا سربلند کند.
رهبر انقلاب اسلامی حجاج را به پرهیز از رفتارهای سبک توصیه و خاطر نشان کردند: یکی از این رفتارهای سبک، عطش بازارگردی است که علاوه بر اینکه ارز کشور را برای خرید کالاهای بی کیفیت به هدر می دهد، فرصت ارزشمند عبادت و بهره مندی معنوی را نیز از بین می برد.
حضرت آیت الله خامنه ای با تأکید بر این که خرید سوغات باید در حد ضرورت باشد، خاطر نشان کردند: برخی افراد در اقدامی پسندیده سوغات خود را قبل از سفر حج، از بازار داخل و کالاهای خوب و با کیفیت ایرانی تهیه می کنند تا بتوانند در ایام حج بیشترین بهره مندی معنوی را از این فرصت کم نظیر داشته باشند.
ایشان در پایان این بحث افزودند: معارف دینی، قرآن، سنت و اهل بیت، سرمایه های معنوی ما هستند که اگر از آنها استفاده شود، زمینه پیشرفت و سعادت بوجود می آید و اگر انسان خود را از این سرمایه ها محروم کند، قطعاً ضرر خواهد کرد.
حضرت آیت الله خامنه ای در ادامه با اشاره به توصیه های مؤکد خود به مسوولان، در سالهای گذشته بویژه در فرمان ده سال قبل برای مبارزه با فساد اقتصادی خاطر نشان کردند: اگر چه مسوولان از مقابله با فساد اقتصادی استقبال کردند اما اگر به این توصیه ها عمل می شد، هیچگاه دچار چنین حوادثی همچون فساد بانکی اخیر نمی شدیم.
ایشان افزودند: وقوع چنین مسائلی، ذهن و دل مردم را مشغول، و دل بسیاری را نیز می شکند و آیا این سزاوار است که بخاطر عمل نکردن مسوولان، مردم به سبب این حوادث ناراحت شوند و حتی برخی امید خود را از دست بدهند.
رهبر انقلاب اسلامی خاطر نشان کردند: از همان سالهای قبل بارها گفته شد که نباید بگذاریم فساد ریشه دار شود زیرا با گذشت زمان، ریشه کنی ان بسیار مشکل می شود و سرمایه گذار پاکدامن و صادق را نیز مأیوس می کند، اما متأسفانه عمل نشد.
حضرت آیت الله خامنه ای با اطمینان بخشی به مردم در خصوص عزم سه قوه برای مقابله با این حادثه و پیشگیری از حوادث مشابه، افزودند: البته عده ای می خواهند از این ماجرا برای زیر سؤال بردن مسوولان استفاده کنند، در حالیکه مسوولان در دولت، مجلس و قوه قضائیه مشغول انجام وظیفه خود هستند.
ایشان با اشاره به اطلاع رسانی که در روز های گذشته در خصوص این حادثه انجام گرفته است، خاطر نشان کردند: رسانه ها بیش از این نباید به جنجال و هیاهو درباره این ماجرا ادامه دهند، بلکه باید به مسئولان اجازه دهند تا عاقلانه، مدبرانه، قوی و با دقت قضایا را پیگیری و بررسی کنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأکید کردند: ادامه هیاهو و جنجال، بخصوص اگر عده ای بدنبال استفاده های دیگر از این مسائل باشند، به صلاح نیست و همه باید مراقب باشند.
حضرت آیت الله خامنه ای افزودند: مردم بدانند که مسوولان، این ماجرا را تا آخر پیگیری خواهند کرد و دستهای خائن قطع خواهد شد.
ایشان با توصیه مؤکد به قوه قضائیه برای اطلاع رسانی مناسب به مردم در خصوص پیگیری این پرونده تأکید کردند: دستگاه قضایی نباید به افراد بدکاره، خرابکار و مفسد ترحم کند.
در ابتدای این دیدار، حجت الاسلام و المسلمین قاضی عسگر نماینده ولی فقیه و سرپرست زائران ایرانی در گزارشی از فعالیتهای بعثه مقام معظّم رهبری برای برگزاری هر چه با شکوهتر حج، ارتقاء و تنوع بخشی برنامه های آموزشی حجاج، راه اندازی آموزش مجازی، انتشار فصل نامه های تخصصی حج، چاپ قرآن های نفیس همراه با ترجمه برای حجاج، استفاده از ظرفیت های صدا و سیما، برگزاری آزمون برای انتخاب روحانیون و معین های جدید کاروانها، تشکیل اتاق فکر، و استفاده بیش از پیش از دیپلماسی حج، از جمله اقدامات انجام گرفته است.
آقای لیالی رئیس سازمان حج و زیارت نیز در گزارشی از قدامات اجرایی حج گفت: امسال 97 هزار زائر در قالب 588 کاروان و با استفاده از دو شرکت هواپیمایی ایرانی، به مکه و مدینه انتقال خواهند یافت و محل اسکان زائران ایرانی در مکه نسبت به سالهای قبل، به مسجد الحرام نزدیک تر شده است.
More...
Description:
TEHRAN (FNA)- Supreme Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyed Ali Khamenei stressed the necessity for a serious punishment of those guilty in the recent bank scam, and blamed the country\'s officials for their lack of diligence in preventing the case.
\"Although authorities welcomed confrontation against economic corruption, but if action had been taken on my advice, we would have never been afflicted with such incidents as the recent corruption in the banking system,\" the Leader said, addressing a meeting with cultural and executive staff and personnel of Hajj in Tehran on Monday.
Ten years ago, the Leader had made a series of recommendations for the country\'s officials requiring them to launch a tough combat on economic corruption.
The Leader further underlined the necessity of stopping all covert and overt economic activities of such corrupt individuals as the ones involved in the recent bank scam.
Ayatollah Khamenei further assured the Iranian people of the ruling system\'s resolve to confront and prevent similar economic corruption.
The $2.8 billion embezzlement scandal involving seven government-owned and private banks, which had used fraudulent Saderat Bank documents to secure multi-billion dollar credit and purchase state-owned companies, was recently uncovered.
Iran\'s Judiciary Chief Ayatollah Sadeq Amoli Larijani has appointed Prosecutor General Hojjatoleslam Gholam- Hossein Mohseni-Ejeii to investigate the case.
On September 27, Mohseni Ejeii announced that 22 people had been arrested in connection with the case and that the exact nature of the fraud is still under investigation.
According to the Prosecutor General, necessary measures have been taken to prevent the criminals from leaving the country or transferring money to offshore accounts.
مسوولان، در ماجرای سوء استفاده بانکی دستهای خائن و مفسد را بدون ترحم قطع کنند
ساعت خبر: 11:37 - تاريخ خبر: 11/07/1390
•تلاش دشمنان برای اختلاف افکنی و مقابله با بیداری اسلامی در مراسم حج
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر انقلاب اسلامی صبح امروز (دوشنبه) در دیدار دست اندرکاران حج امسال، حج را فرصتی بسیار گرانبها و ارزشمند برای ارتباط با امت اسلامی و بهره مندی معنوی خواندند و با اشاره به تلاش دشمنان برای اختلاف افکنی و مقابله با موج بیداری اسلامی در مراسم حج ، تنها راه غلبه بر این توطئه را نزدیکتر شدن دلها و تقویت همدلی دانستند.
به گزارش واحد مرکزی خبر، ایشان همچنین در ادامه با اشاره به فساد بانکی اخیر در کشور، علت وقوع این سوء استفاده را عمل نکردن مسوولان به توصیه های مؤکد چند سال پیش رهبری در خصوص مقابله با فساد اقتصادی توصیف و تأکید کردند: مسوولان قضایی ضمن پیگیری قوی، دقیق و عاقلانه قضیه و اطلاع رسانی مناسب به مردم، باید دستهای خائن را قطع کنند.
حضرت آیت الله خامنه ای حج را یکی از رموز اساسی اسلام و میهمانی بزرگ الهی در مرکز عظمت و قدرت و جمال و کرَم توصیف کردند و افزودند: باید در بُعد عمومی و بین المللی حج، همدلی و تقویت پیوندهای اسلامی بدون در نظر گرفتن ملیت ها، قومیت ها و مذهب ها مورد توجه جدی قرار گیرد و از این فرصت برای نزدیک تر شدن دلها استفاده شود.
ایشان یکی از ویژگیهای بارز حج امسال را، بیداری اسلامی در منطقه بویژه مصر، تونس، یمن و بحرین دانستند و تأکید کردند: با توجه به این رویداد مهم، امسال توطئه ایجاد اختلاف و بدبینی و تحریک احساسات میان امت اسلامی، برجسته تر خواهد بود و تنها راه غلبه بر این توطئه نزدیکتر شدن دلها و تقویت همدلی است.
رهبر انقلاب اسلامی با تأکید بر اینکه مسلمانان یک تن واحد هستند، افزودند: حجاج ایرانی باید با چنین نگاه عمومی و جهانی در حج حضور یابند و تجربیات سی ساله خود در مبارزه با استکبار و معاندین را در اختیار ملتهای تازه انقلاب کرده، قرار دهند.
حضرت آیت الله خامنه ای، رفتار خوب و همراه با ادب و احترام را از دیگر نکات ضروری برای حجاج ایرانی برشمردند و خاطر نشان کردند: حج فرصتی گرانبها برای پاکیزه شدن از آلودگی های دنیا و مجموعه ای از فرائض است که باید ضمن قدر دانستن این مراسم عظیم و کم نظیر، در حفظ ذخایر معنوی بدست آمده آن هم همت کرد.
ایشان زائران بیت الله الحرام را به آماده سازی درونی خود، قبل از سفر حج و آماده شدن برای این میهمانی الهی توصیه کردند و افزودند: حاجی ایرانی باید با رفتار خود در حج، ملت، کشور و نظام جمهوری اسلامی ایران را در چشم دنیا سربلند کند.
رهبر انقلاب اسلامی حجاج را به پرهیز از رفتارهای سبک توصیه و خاطر نشان کردند: یکی از این رفتارهای سبک، عطش بازارگردی است که علاوه بر اینکه ارز کشور را برای خرید کالاهای بی کیفیت به هدر می دهد، فرصت ارزشمند عبادت و بهره مندی معنوی را نیز از بین می برد.
حضرت آیت الله خامنه ای با تأکید بر این که خرید سوغات باید در حد ضرورت باشد، خاطر نشان کردند: برخی افراد در اقدامی پسندیده سوغات خود را قبل از سفر حج، از بازار داخل و کالاهای خوب و با کیفیت ایرانی تهیه می کنند تا بتوانند در ایام حج بیشترین بهره مندی معنوی را از این فرصت کم نظیر داشته باشند.
ایشان در پایان این بحث افزودند: معارف دینی، قرآن، سنت و اهل بیت، سرمایه های معنوی ما هستند که اگر از آنها استفاده شود، زمینه پیشرفت و سعادت بوجود می آید و اگر انسان خود را از این سرمایه ها محروم کند، قطعاً ضرر خواهد کرد.
حضرت آیت الله خامنه ای در ادامه با اشاره به توصیه های مؤکد خود به مسوولان، در سالهای گذشته بویژه در فرمان ده سال قبل برای مبارزه با فساد اقتصادی خاطر نشان کردند: اگر چه مسوولان از مقابله با فساد اقتصادی استقبال کردند اما اگر به این توصیه ها عمل می شد، هیچگاه دچار چنین حوادثی همچون فساد بانکی اخیر نمی شدیم.
ایشان افزودند: وقوع چنین مسائلی، ذهن و دل مردم را مشغول، و دل بسیاری را نیز می شکند و آیا این سزاوار است که بخاطر عمل نکردن مسوولان، مردم به سبب این حوادث ناراحت شوند و حتی برخی امید خود را از دست بدهند.
رهبر انقلاب اسلامی خاطر نشان کردند: از همان سالهای قبل بارها گفته شد که نباید بگذاریم فساد ریشه دار شود زیرا با گذشت زمان، ریشه کنی ان بسیار مشکل می شود و سرمایه گذار پاکدامن و صادق را نیز مأیوس می کند، اما متأسفانه عمل نشد.
حضرت آیت الله خامنه ای با اطمینان بخشی به مردم در خصوص عزم سه قوه برای مقابله با این حادثه و پیشگیری از حوادث مشابه، افزودند: البته عده ای می خواهند از این ماجرا برای زیر سؤال بردن مسوولان استفاده کنند، در حالیکه مسوولان در دولت، مجلس و قوه قضائیه مشغول انجام وظیفه خود هستند.
ایشان با اشاره به اطلاع رسانی که در روز های گذشته در خصوص این حادثه انجام گرفته است، خاطر نشان کردند: رسانه ها بیش از این نباید به جنجال و هیاهو درباره این ماجرا ادامه دهند، بلکه باید به مسئولان اجازه دهند تا عاقلانه، مدبرانه، قوی و با دقت قضایا را پیگیری و بررسی کنند.
رهبر انقلاب اسلامی تأکید کردند: ادامه هیاهو و جنجال، بخصوص اگر عده ای بدنبال استفاده های دیگر از این مسائل باشند، به صلاح نیست و همه باید مراقب باشند.
حضرت آیت الله خامنه ای افزودند: مردم بدانند که مسوولان، این ماجرا را تا آخر پیگیری خواهند کرد و دستهای خائن قطع خواهد شد.
ایشان با توصیه مؤکد به قوه قضائیه برای اطلاع رسانی مناسب به مردم در خصوص پیگیری این پرونده تأکید کردند: دستگاه قضایی نباید به افراد بدکاره، خرابکار و مفسد ترحم کند.
در ابتدای این دیدار، حجت الاسلام و المسلمین قاضی عسگر نماینده ولی فقیه و سرپرست زائران ایرانی در گزارشی از فعالیتهای بعثه مقام معظّم رهبری برای برگزاری هر چه با شکوهتر حج، ارتقاء و تنوع بخشی برنامه های آموزشی حجاج، راه اندازی آموزش مجازی، انتشار فصل نامه های تخصصی حج، چاپ قرآن های نفیس همراه با ترجمه برای حجاج، استفاده از ظرفیت های صدا و سیما، برگزاری آزمون برای انتخاب روحانیون و معین های جدید کاروانها، تشکیل اتاق فکر، و استفاده بیش از پیش از دیپلماسی حج، از جمله اقدامات انجام گرفته است.
آقای لیالی رئیس سازمان حج و زیارت نیز در گزارشی از قدامات اجرایی حج گفت: امسال 97 هزار زائر در قالب 588 کاروان و با استفاده از دو شرکت هواپیمایی ایرانی، به مکه و مدینه انتقال خواهند یافت و محل اسکان زائران ایرانی در مکه نسبت به سالهای قبل، به مسجد الحرام نزدیک تر شده است.
19:49
|
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و...
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
More...
Description:
زیارت امام رضا ع - Ziarat of Imam Raza a.s - Arabic sub Farsi
امام رضا علیهالسلام به اخلاق عالی و ممتاز، آراسته بودند، و بدین سبب دوستی عام و خاص را، به خود جلب كردند، همچنین انسانیت آن حضرت، یگانه و بیمانند بود، و در حقیقت تجلی روح نبوت، و مصداق رسالتی بود كه خود آن حضرت، یكی از نگهبانان و امانتداران و وارثان اسرار آن به شمار میرفت. زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. زهدامام علی بن موسی الرضا علیه السلام جامع تمام فضائل بودند، به طوری كه تمام صفات عالی در ایشان جمع شده بود. خصایص شریف امام رضا علیه السلام قسمتی از صفات جدش، بزرگترین پیامبر خدا صلی الله علیه و آله بود كه از میان پیامبران ممتاز بودند. ایشان درباره زهد به نقل از پدرانشان میفرمودند زاهد آن است كه حلال دنیا را از ترس حساب و كتاب و حرام دنیا را از ترس عقاب ترك میكند. پوشش ابوالحسن علیه السلام در طول تابستان همواره یك بوریا بود. ایشان در طول زمستان با همه عظمت و وقاری كه داشتند پوششی ساده داشتند و به دور از هر گونه علامتگذاری و یا این كه رنگ مخصوصی داشته باشد همیشه لباس زبر به تن میكردند مگر آن كه میخواستند پیش مردم و به دیدن آنها بروند كه در آن وقت بهترین لباس خود را میپوشیدند. امام میفرمودند: لباس مظهر خارجی انسان است نمیتوان نسبت به آن بیتوجه بود حرمت مومن ایجاب میكند كه انسان در ملاقات با او، شئون خود و وی را رعایت كند و مقید باشد كه پاكیزه و خوش لباس باشد. از دلائلی كه امام رضا علیه السلام نزد مردم، لباس خوب میپوشیدند این بود كه اگر ظاهر انسان تمیز و پاكیزه باشد، دیگران از دیدن این فرد لذت میبرند و تحت تاثیر وی قرار میگیرند. هم چنان كه از دیدن یك انسان كثیف و آلوده حالشان دگرگون میشود، ایشان لباس زیبا و پاكیزه میپوشیدند تا مردم با دیدن ایشان درس نظم و پاكیزگی را در كنار ساده زیستی بیاموزند و از طرفی نشان دهند كه مومن از مال حلال در حدّ شأنش میتواند از امكانات این دنیا استفاده كند. همچنین نقل شده: در محیط خانه امام رضا علیهالسلام آثاری از زندگی اشرافی وجود نداشت از زیور و زینت استفاده نمیكردند، مگر این كه خود را به عود هندی خام بخور میدادند. گوشهگیری از دنیا و ساده زیستی برجستهترین صفات امام رضا علیه السلام بود. تمام راویان متفق القولند كه وقتی آن حضرت ولیعهد مامون شدند هیچ توجهی به جنبه قدرت و عظمت آن نداشتند. نقل شده زمانی كه امام رضا علیه السلام مجبور به پذیرفتن ولایت عهدی شدند، چون روز عید فرا رسید مامون برای خواندن نماز از امام علیه السلام دعوت به عمل آورده ایشان با سادهترین پوشش و با لباسی كه مخصوص نماز عید بود حاضر شدند، این لباس عبارت بود از دو قطیفه روی لباس و عمامه سفیدی از كتان كه به سربسته بود كه یك طرف آن را به سینه و طرف دیگرش را میان دو شانه انداخته بودند عصایی به دست داشتند، در حالی كه كفش برپا نداشتند چون همراهان ایشان این وضعیت را دیدند آنان هم چون امام راه افتادند. نمونه دیگری از اخلاق امام رضا علیه السلام این بود كه در دوران ولایت عهدی وتصدی بالاترین مقام در دولت اسلامی به هیچ یك از غلامانشان دستور نمی دادند كه كارهای ایشان راانجام دهند. عبادت عبادت، فروتنی در مقابل خداوند است. انسان كامل به هر اندازه به خدا نزدیكتر باشد به همان اندازه خشوع و بندگیاش در مقابل خدا بیشتر میگردد، چنین كسانی هدفشان در عبادت فقط سپاس نعمتهای خداوند و نظرشان به قرب پیشگاه ابدیت میباشد این بزرگترین امتیازات مردان الهی در ارتباط با خداست، محور اصلی زندگی آنها خدای تعالی و عشق به خداست، شدت توجه به خدا موجب شده بود كه آنها لحظهای از حق غافل نشوند، به طوری كه اگر گاهی حالت غفلت در خواب یا بیداری به آنها دست میداد آن را برای خود گناه به حساب میآوردند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند. به همین دلیل همواره آنان را میبینیم كه در وادی شكر الهی اظهار عجز میكنند و با این همه از خوف الهی لابه میكنند و این نشان دهنده تواضع و فروتنی آنها در مقابل ذات احدیت است. پرهیزگاری و تقوای امام رضا علیه السلام طوری بود كه نه تنها مردم، بلكه دشمنان نیز به آن اعتراف میكردند، ایشان همه فكر و اندیشهشان، حفظ دین خدا و اجرای وظایف الهی بود و نجات خود و مردم را در تقوا، پرهیزگاری و عبادت كردن میدانستند. چیزهایی كه در دنیا وجود داشت، سبب نشد كه ایشان از وظیفه خود دور بیفتد، ایشان به دنیا علاقه نداشتند و نسبت به آن بیرغبت بودند، زهد و عبادتشان بینظیر بود، همیشه سعی داشتند مردم را به تقوا و عبادت و پرستش خداوند دعوت نمایندچنان كه به برادرشان زید فرمودند: «ای زید از خدا بترس، آن چه كه ما به آن رسیدهایم به وسیله همین تقواست هر كس كه تقوا داشته باشد و خدا را مراقب خود نداند از ما نیست و ما از او نیستیم.» منابع تاریخی، امام رضا علیه السلام را پرهیزگاری میدانند كه مكرر به زیارت خانه خدا و انجام مناسك حج و عمره میرفتند، ایشان به زیارت قبر پیامبر صلی الله علیه و آله علاقه فراوانی داشتند، بالای قبر پیامبر صلی الله علیه و آله میرفتند و خودشان را به قبر شریف میچسبانیدند، در كنار قبر پیامبر صلی الله علیه و آله شش یا هشت ركعت نماز میخواندند در ركوع یا سجده سبحان الله سه بار یا بیشتر میگفتند، زمانی كه نمازشان تمام میشد به سجده میرفتند آن قدر سجده را طولانی میكردند كه عرق ایشان روی ریگهای مسجد میریخت، صورت مباركشان را روی زمین یا خاك مسجد میگذاشتند، دائماً در حال عبادت بودند و به عبادت عشق میورزیدند و برای عبادت خداوند انواع رنجها را تحمل میكردند. امام رضا علیه السلام همچون پدر و اجداد پاكشان همواره قبل از هر چیز بنده خالص خداوند بودند، و همه چیز را در بندگی خدا دنبال میكردند در پرتو همین بندگی بود كه به ارزشهای والای انسانی و مقامهای بلند معنوی دست یافتند. عبادت، راز و نیاز، مناجات و سجدههای طولانیشان نشان میدهد كه ایشان دلداده خداست رابطه تنگاتنگ عاشقانه با ذات پاك خداوند داشتند. یكی از همراهان این بزرگوار در سفر خراسان میگوید: به روستایی رسیدیم، آن حضرت به نماز ایستادند، و سجدههای طولانی به جای آوردند، او میگوید: شنیدم امام در سجده میگفتند: «خدایا اگر تو را اطاعت كنم حمد و سپاس مخصوص تو است و اگر نافرمانی كنم حجت و عذری برایم نخواهد بود، من و دیگران در احساس تو شریكی نداریم اگر نیكی به من رسد از جانب تو است. ای خدای بزرگوار! مردان و زنان با ایمان را در مشرق و مغرب در هر كجا هستند بیامرز.» با توجه به مضمون دعاهای ائمه میبینیم دعای امامان ابتدا برای دیگران به خصوص مومنان بود بعداً برای خودشان دعا میكردند این نشاندهنده آن است كه آنها چقدر به فكر دیگران بودند و در حق مردم مهربانی میكردند. كسی را با تقواتر نسبت به خدای متعال مثل او ندیده بودم، ذكر خدا همیشه بر لبانشان جاری بود، همیشه خداترس و پارسا بود، موقعی كه وقت نماز میشد در سجدهگاه خود مینشست و سبحان الله، لااله الا الله و ذكرهای دیگر میگفتند و بعد از نماز اطرافیان را نصیحت میكردند. در مورد امام رضا علیه السلام باید گفت ایشان، اسوه كامل عبودیت بودند و در این راه به حدی رسیده بودند كه ایشان را عاشق عبادت میدانستند. آن حضرت بسیاری از روزها را روزه داشتند و بسیاری از شبها بیدار بودند. به طوری كه در زمان ایشان و نه بعد از آن، كسی به این درجه نرسید حتی زاهدترین افراد. امام رضا علیه السلام بسیاری از اوقات شبانه روز به درس و بحث مشغول بودند، فقه و علوم محمدی را به شاگردانشان درس میدادند زیرا ایشان درس را نمونهای از ذكر و عبادت میدانستند و زمانی كه از درس دادن فارغ میشدند به ذكر گفتن خدا میپرداختند. اهمیت امام به نماز در سیره عملی ایشان كاملا مشهود است. نقل شده است روزی ایشان با بزرگان ادیان مختلف مناظره داشتند و سخنان زیادی بین امام (علیه السلام) و حاضران رد و بدل میشد، جمعیت زیادی در آن مجلس حاضر بودند. زمانی كه ظهر شد امام فرمودند: وقت نماز است. یكی از حاضران كه عمران نام داشت گفت: سرورم سخنانمان را قطع نكن كه دلم آزرده میشود شاید اگر سخنانتان را ادامه دهی مسلمان شوم . ایشان فرمودند نماز میخوانیم و برمیگردیم امام برخاستند و نماز خواندند. از دیگر ویژگیهای آن حضرت این بود كه هر دعایی را كه شروع میكردند صلوات بر محمد و آل او میفرستادند در نماز یا غیر نماز بسیار صلوات میفرستادند، شبها موقعی كه میخواستند بخوابند قرآن تلاوت میكردند، موقعی كه به آیهای میرسیدند كه در آن از بهشت و دوزخ سخن میگفتند گریه میكردند و میفرمودند: «پناه میبرم به خدا از آتش دوزخ»، آن حضرت هر سه روز یك بار تمام قرآن را تلاوت میكردند و میفرمودند: «اگر خواسته باشم قرآن را در كمتر از سه روز تمام كنم میتوانم ولی هیچ آیه را نخواندم مگر این كه در معنی آن آیه فكر كنم، و درباره این كه آن آیه در چه موضوع و در چه وقت نازل شده، از این رو هر سه روز قرآن را تلاوت میكنم.» ایشان هر دعایی كه میكردند خیلی زود به اجابت میرسید، نقل شده كه به مأمون خبر داده بودند كه امام رضا علیه السلام مجالس علمی مربوط به دین و مذهب تشكیل دادهاند و این كار باعث شده مردم به مقام علمی ایشان پی ببرند. مامون فردی را مامور كرد كه نگذارد مردم در این مجالس شركت كنند، امام را نزد خود خواند و نسبت به ایشان بیاحترامی و پرخاشگری كرد. ایشان از نزد مامون با ناراحتی بیرون آمدند و در حالی كه لبهای خود را تكان میدادند و میگفتند: به خدا سوگند او را نفرین میكنم كه یاری خداوند از او برداشته شود. موقعی كه به خانه رسیدند دو ركعت نماز به جا آوردند. زیازت- دین و معارف-امام هشتم- بار معنوی- معرفت- قربت
10:22
|
27:25
|
ديدار صميمئ دانشجويان با رهبر معظم انقلاب - August 7, 2012 - Farsi
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين...
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
More...
Description:
Students intimate meeting with the Supreme Leader of Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Khamenei ha.
http://www.leader.ir/langs/fa/index.php?p=contentShow&id=9609
تبيين بايدها و نبايدهای آرمانگرايی در محيطهای دانشجويی / انتقاد منصفانه و نظارت مستمر به دور از افراط و تفريط (۱۳۹۱/۰۵/۱۶ - ۱۸:۴۴)
حدود هزار نخبه و فعال دانشجويي، عصر امروز (دوشنبه) در ديداري صميمانه و صريح با رهبر معظم انقلاب اسلامي حدود سه و نیم ساعت با ايشان به گفتگو و تبادل نظر درباره مسائل مختلف دانشگاهي، علمي، فرهنگي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي پرداختند.
در ابتداي اين ديدار يازده فعال سياسي فرهنگي و علمي دانشجويي،حدود دو و نیم ساعت به نمايندگي از تشكلها، اتحاديه ها، انجمن ها و كانونهاي دانشجويي ديدگاههاي متفاوت خود را درباره مسائل مختلف کشور بيان كردند. سپس رهبر انقلاب ضمن پاسخ به سؤالات و ابهامات مطرح شده، آرمانگرايي سياسي، علمي و اخلاقي – معنوي را مهمترين توقع از مجموعه هاي دانشجويي خواندند و به تبيين بايدها و نبايدهاي نگاه نقادانه، معتدل، منصفانه و پر اميد به مسائل كشور پرداختند.
رهبر انقلاب اسلامي در ابتداي سخنان خود با اشاره به مطالبي كه نمايندگان دانشجويان در اين ديدار مطرح كردند، آنها را بسيار خوب و منعكس كننده فضاي دانشجويي خواندند و تأكيد كردند: برخي از اين مطالب، راهگشا و برخي هم حاوي نكات مفيدي بودند كه مسئولين مربوطه بايد به آنها توجه جدي كنند.
حضرت آيت الله خامنه اي سپس به برخي نكات مطرح شده از جانب دانشجويان، اشاره كردند.
«لزوم شرح صدر سياسي در ميان دانشجويان» يكي از اين نكات بود كه رهبر انقلاب اسلامي درخصوص آن گفتند: در پايبندي دقيق به اصول و ارزشها و در عين حال رعايت شرح صدر با افراد غير همفكر در زمينه هاي مختلف از جمله مسائل سياسي، هيچ منافاتي وجود ندارد.
حضرت آيت الله خامنه اي درخصوص موضوع «حضور نيافتن مسئولان در دانشگاهها» كه از جانب دانشجويان مطرح شده بود، خاطرنشان كردند: اين اشكال كاملاً وارد است و مسئولان اعم از رؤساي سه قوه، مسئولان مياني، رئيس سازمان صدا و سيما، و فرماندهان سپاه و نيروهاي مسلح بايد در دانشگاهها حضور يابند و ضمن شنيدن سخنان دانشجويان، سخنان و استدلال هاي خود را نيز بيان كنند كه در اين صورت، بسياري از ابهامات و سؤال هاي نسل جوان برطرف خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامي با اشاره به مطالب مطرح شده درخصوص برخي برخوردهاي قضايي با تشكل ها، سايت ها و وبلاگ هاي دانشجويي افزودند: البته قوه قضاييه در اين خصوص، استدلالهايي دارد كه اگر مطرح شود احتمالاً برخي ابهامات برطرف خواهند شد اما عقيده من هم اين است كه نبايد در قبال اظهار نظر تند يك جوان دانشجو، برخورد تند شود.
ايشان درخصوص نگاه اقتصادي عدالت محور و ديدگاه اسلام درباره سرمايه داري كه از جانب يكي از دانشجويان مطرح شد، خاطرنشان كردند: نگاه اقتصادي در كشور بايد عدالت محور باشد و اين موضوع منافاتي با سياستهاي اصل 44 ندارد.
رهبر انقلاب اسلامي افزودند: اگر سياستهاي اصل 44، آنگونه كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً به سرمايه داري مذموم و محور شدن سرمايه داري در تصميمات كلان كشور منتهي نخواهد شد.
ايشان افزودند: مشكلات و فشارهاي روزافزون اقتصادي كنوني در غرب و اروپا ناشي از ذات نظام سرمايه داري، يعني سرمايه سالاري است.
رهبر انقلاب اسلامي با تأكيد بر اينكه بايد مراقب بود تا نگاه سوسياليستي بر تفكرات اقتصادي غلبه پيدا نكند، خاطرنشان كردند: اگر سياستهاي اصل 44، در همان چارچوبي كه تبيين شد، اجرا شود، قطعاً مكمل اقتصاد عدالت محور خواهد بود.
حضرت آيت الله خامنه اي، اقتصاد مقاومتي را متفاوت از اقتصاد تهاجمي دانستند و با اشاره به صحبتهاي يكي ازدانشجويان درخصوص اقتصاد تهاجمي افزودند: اگر در اين زمينه، يك تبيين دقيق دانشگاهي ارائه شود، شايد بتواند به عنوان تكميل كننده اقتصاد مقاومتي مورد استفاده قرار گيرد.
ايشان خاطرنشان كردند: منظور از اقتصاد مقاومتي، اقدامات تدافعي و حصاركشي به دور خود نيست بلكه اقتصاد مقاومتي، اقتصادي است كه براي يك ملت، حتي در شرايط فشار و تحريم، زمينه رشد و شكوفايي را فراهم مي كند.
رهبر انقلاب اسلامي درخصوص سؤال يكي از دانشجويان مبني بر اينكه «آيا انتقاد كردن به معناي تكميل كردن پازل دشمن است» تأكيد كردند: من به هيچ وجه اعتقادي به انتقاد نكردن ندارم بلكه همواره اصرار دارم، جريان دانشجويي موضع انتقادي خود را حفظ كند.
حضرت آيت الله خامنه اي افزودند: اما در بيان انتقادها بايد به اين نكته توجه شود كه طرح آن به گونه اي باشد كه مقصود دشمن را برآورده نكند.
يكي از دانشجويان درخصوص «تفاوت برخي ديدگاههاي كارشناسي با نظرات رهبري و اينكه آيا اين تفاوت ديدگاه به معناي مخالفت با ولايت و نظام است» پرسيده بود كه رهبر انقلاب اسلامي گفتند: هيچ نظر كارشناسي كه مخالف با نظر رهبري باشد به معناي مخالفت با ولايت نيست.
ايشان تأكيد كردند: كار كارشناسي و دقيق علمي، به هر نتيجه اي كه برسد، براي صاحب آن نظر، معتبر است و نبايد مخالفت با نظام تعبير شود.
ايشان همچنين با اشاره به سخنان يكي از دانشجويان ارتباط تشكلهاي دانشجويي با مجموعه هاي دانشجويي دخيل در نهضت بيداري اسلامي را ضروري دانستند.
رهبر انقلاب همچنين درباره سخنان يكي از دانشجويان درباره كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي افزودند: نبايد براي ديدن نتايج فعاليت اين شورا تعجيل كرد چرا كه اينگونه كارها، نيازمند چند سال زمان است.
حضرت آيت الله خامنه اي در بخش دوم سخنانشان با طرح برخي از توقعات از مجموعه ها و محيطهاي دانشجويي تأكيد كردند: دانشگاه يك جريان سيال متراكم از نيروست كه اگر آزاد و هدايت شود كشور را به طور كامل هدايت خواهد كرد.
ايشان توان متراكم محيطهاي دانشجويي را متكي به دو عنصر نيروي فياض جواني و نيروي ناشي از علم و دانش جويي دانستند و افزودند: دانشگاه مي تواند با تكيه بر نشاط و اعتماد به نفس تشديد شده پس از انقلاب به همه توقعات پاسخ دهد.
رهبر انقلاب در تشريح اين توقعات، آرمانگرايي را به عنوان يك توقع اساسي مورد تأكيد قرار دادند و در سه بخش به تبيين آن پرداختند: آرمانگرايي در سياست، در علم و در معنويت و اخلاق.
ايشان افزودند: آرمانگرايي در علم يعني به دنبال قله هاي علمي رفتن كه اين هدف، خوب درس خواندن را ضروري مي سازد.
حضرت آيت الله خامنه اي با تكيه بر اين منطق، خطاب به ميليونها نفر دانشجوي كشور خاطرنشان كردند: امروز درس خواندن،علم آموزي، پژوهش و جديت در كار اصلي دانشجويي، يك جهاد است.
ايشان در تبيين آرمانگرايي در معنويت و اخلاق نيز به لزوم پاك بودن محيطهاي دانشجويي و تقيد به دين و ارزشها اشاره كردند.
رهبر انقلاب در اين بخش با ريشه يابي و انتقاد شديد از نگاهي كه دانشگاهها را محيطهايي مخالف دين مي خوانَد، افزودند: اين نگاه ارتجاعي و كاملاً غلط، به آغاز شكل گيري دانشگاه در ايران در چندين دهه قبل از انقلاب و تلاشهاي برخي براي تربيت يك نسل روشنفكر غربگراي خودباخته برمي گردد.
حضرت آيت الله خامنه اي با رد اين نگاه،خاطرنشان كردند: دانشگاه محيط دين و اخلاق و پاكيزگي و معنويت است و توقع اين است كه دانشگاهها به گونه اي باشد كه هركس به آن وارد مي شود تقيدات ديني و اخلاقي اش بيشتر شود.
رهبر انقلاب اسلامي در تبيين بايدها و نبايدهاي آرمانگرايي، به سخنان خود در ديدار مسئولان نظام درباره لزوم آرمانگرايي سياسي توأم با واقع بيني اشاره كردند و در تذكري مهم افزودند: آرمانگرايي نبايد با پرخاشگري اشتباه شود بلكه مي توان بدون اين مسئله بشدت پايبند به ارزشها و اصول بود .
ايشان كنترل احساسات و پرهيز از تصميم گيري در اوج احساسات را ضروري دانستند و افزودند: حضور تشكلهاي دانشجويي در 2-3 سال اخير در مسائل مختلف اجتماعي – سياسي فعالانه و قابل تقدير بوده است اما در همين سالها مواردي وجود دارد كه براساس احساسات پاك و مقدس دانشجويان، تشكلها تصميماتي گرفته و اقداماتي انجام داده اند كه صحيح نبوده است چرا كه تصميم بايد بر مطالعه موشكافانه و دقيق متكي باشد نه بر احساسات.
رهبر انقلاب به عنوان مثال براي روشن شدن مرز آرمانگرايي و احساسات با اشاره به مخالفت بنياني نظام با مجموعه هاي استبدادي منطقه خاطرنشان كردند: با وجود مواضع كاملاً روشن نظام در اين زمينه، نبايد با كار ديپلماسي سنتي و متعارف مخالفت شود.
ايشان خاطرنشان كردند: ميان وظيفه آرمانگرايي مجموعه هاي دانشجويي و ملاحظه مصالح كشور، عمل به قانون و تدبير و درايت مديريتي منافاتي وجود ندارد يعني مي توان هم جوان و پر احساس و آرمانگرا بود و هم جوري عمل كرد كه با مسائل مديريتي و مصالح كشور اصطكاكي نداشته باشد.
حضرت آيت الله خامنه اي در جمع بندي اين بخش از سخنانشان خاطرنشان كردند: بايد به معنا و عمق آرمانگرايي توجه كرد و ضمن پرهيز از تندروي با ملاحظه واقعيات و مصالح، تصميم گرفت و اقدام كرد و هميشه به ياد داشت كه آرمانگرايي يعني پايبندي به اصول و ارزشها و آرمانها، تأثيرگذاري بر جهت مخالف و تأثير ناپذيري از آن.
رهبر انقلاب در ادامه سخنانشان در جمع نخبگان و فعالان دانشجويي حضور فيزيكي و فكري مجموعه هاي دانشجويي در مسائل مختلف كشور را لازم دانستند و افزودند: حضور فكري با فعاليت فرهنگي در رسانه هاي دانشجويي و ارائه مواضع و نظرات امكان پذير است ضمن اينكه اجتماعات دانشجويي متكي بر تصميمات صحيح نيز حضور فيزيكي را ممكن مي سازد.
ايشان تصميمات احساساتي در اينگونه اجتماعات را داراي پيامدهاي منفي خواندند و براي پرهيز از بروز اينگونه تصميمات و اقدامات پيشنهاد كردند: لازم است مجموعه هاي دانشجويي يك كانون تصميم و اقدام تشكيل دهند و در مسائل گوناگون با مشورت و پختگي و نخبگي به يك تصميم و اقدام واحد برسند و همه دانشجويان نيز به اين تصميم پايبند باشند كه در اينصورت تصميمات و اقدامات ناشي از احساسات، به پاي مجموعه هاي دانشجويي نوشته نمي شود.
حضرت آيت الله خامنه اي سخنان خود را با يك تذكر اخلاقي مهم ادامه دادند: از «قول به غير علم» بپرهيزيد.
ايشان خطاب به همه دانشجويان كشور افزودند: از شما خواهش مي كنم همانطور كه به نماز و روزه اهتمام داريد به پرهيز از غيبت و تهمت و بيان مطالبي كه به آن علم نداريد جداً اهتمام كنيد.
مراقبت از لغزشگاه خطرناكي به نام پست و مقام، توصيه ديگر رهبر انقلاب به جوانان دانشجو بود.
ايشان گفتند: البته در دوره اي تشكلهاي ارزش گرايي دانشجويي منزوي بودند اما الان اينگونه نيست و ممكن است مسئله پست و مقام براي برخي مجموعه ها و عناصر مطرح باشد شما جوانان مراقب اين لغزشگاه باشيد چرا كه آدمهاي گردن كلفت را هم زمين مي زند.
توجه به هدف دشمن در جنگ نرم، محور ديگر سخنان امروز رهبري بود.
حضرت آيت الله خامنه اي به دانشجويان گفتند: از سر اعتقاد شما را افسران جنگ نرم مي دانم به همين علت تأكيد مي كنم كه به دقت هدف اصلي دشمن از جنگ نرم يعني ايجاد تغيير در محاسبات مردم و مسئولان را مد نظر داشته باشيد.
ايشان، دل، ذهن، تفكرات و اراده مردم را كانون تهاجم نرم دشمنان دانستند و خاطرنشان كردند: آنها به صراحت مي گويند بايد كاري كنيم كه ايرانيان محاسباتشان را عوض كنند يعني به اين نتيجه برسند كه ادامه ايستادگي در مقابل استكبار و زورگويان جهاني به نفع آنها نيست و افسران جنگ نرم بايد با درك اين هدف گيري دشمن، به طور صحيح با آن مقابله كنند.
ايشان در ارائه مقابله صحيح با هدف اصلي دشمنان در جنگ نرم، افزايش سطح معرفت را مورد تأكيد فراوان قرار دادند.
رهبر انقلاب به دانشجويان توصيه كردند: سطح معرفت خود را مطالب سايتها،وبلاگها و اينجور مسائل قرار ندهيد بلكه سعي كنيد با اتكاي به قرآن، نوشته هاي استاد مطهري و نوشته هاي فضلاي بزرگ و فضلاي جوان حوزه ها، بطور روزافزون سطح معارف خود را ارتقا دهيد.
حضرت آيت الله خامنه اي،نگاه پراميد را اساسي ترين مسئله خواندند و افزايش مطالعات اسلامي، نگاه مستبصرانه به واقعيات كشور، انتقاد منصفانه و نظارت مستمر و متعادل را جزو وظايف اساسي مجموعه هاي دانشجويي دانستند و تأكيد كردند: همه اين موارد بايد با مدارا و عقلانيت همراه و از افراط و تفريط بدور باشد.
رهبر انقلاب خاطرنشان كردند: واقعيات كشور، اميد را در دلها افزايش مي دهد هرچه مي توانيد اين شعاع درخشان اميد را در دل خودتان و در دل مردم زنده نگه داريد و گسترش دهيد.
در اين ديدار قبل از سخنان رهبر انقلاب، 11 نفر از فعالان دانشجويي آقايان و خانمها:
- علي حسن زاده - نماينده بسيج دانشجويي
- جواد مختاري علي آبادي – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي شيمي
- مهدي اميريان – نماينده دفتر تحكيم وحدت
- بشري هاتف قوچاني – دانشجوي نخبه سال آخر دكتراي فيزيوتراپي
- علي جمشيدي – نماينده اتحاديه انجمن هاي اسلامي دانشجويان مستقل
- محمدياسر ترابي – نماينده گروههاي جهادي دانشجويي
- محمد پهلوان كاشي– نماينده اتحاديه جامعه اسلامي دانشجويان
- مهسا قرباني – نماينده انجمنهاي علمي دانشجويي
- مهدي خوجيگي – جنبش عدالتخواه دانشجويي
- سهيل كيارش – نماينده رسانه هاي دانشجويي
- ليلا عبدالله زاده – دانشجوي نخبه دكتري اقتصادي بين المللي دانشگاه آزاد
- و محمدحسين عبداللهي – به نمايندگي از كانونها و هيأتهاي دانشجويي
ديدگاههاي خود را درباره مسائل مختلف علمي – دانشگاهي – صنفي – فرهنگي – اجتماعي – سياسي و اقتصادي بيان كردند.
مهمترين نكاتي كه نمايندگان تشكلها و فعالان دانشجويي در سخنان خود مطرح كردند به اين شرح است:
- انتقاد از عملكرد كُند دستگاه ديپلماسي در برخي تحولات منطقه
- گلايه از ضعف اخلاق اسلامي در فضاي سياسي و رسانه اي كشور
-لزوم برائت و عذرخواهي رسمي حاميان فتنه 88 از ملت ايران
- انتقاد از تنگ نظري برخي مديران مياني در باب آزادي بيان
- ضرورت رعايت عملي و همه جانبه قانون در تصميمات و اقدامات مسئولان
- لزوم خدمت رساني بدون «حاشيه سازي و جدل سياسي» از جانب مسئولان
- گستاخي بيشتر جبهه استكبار در صورت هرگونه عقب نشيني با هر بهانه و توجيه
- ضرورت پرهيز عناصر و فعالان سياسي از سياسي بازي و فريب كاري براي ورود به عرصه انتخابات
- نگراني از نهادينه شدن انتخاباتِ تبليغات محور و نقش آفريني كانونهاي قدرت و ثروت در انتخابات
- ضرورت هوشياري مسئولان در قبال فرصت طلبان تفرقه انگيز
- استفاده كامل از ظرفيتهاي مردمي نظام و پرهيز از محدود كردن اين ظرفيت به انتخابات و راهپيماييها
- مراقبت از بازي در پازل دشمن و در عين حال آسيب شناسي و بيان هوشمندانه نقاط ضعف
- گلايه از برخي الگوسازي هاي غير ارزشي و ارائه تصوير غيرواقعي و نااميدانه از كشور، در رسانه ها
- الگوسازي درباره فرهنگ صحيح اقتصادي و اقتصاد مقاومتي در رسانه ملي و پرهيز از تبليغ و ترويج تجمل گرايي
- نبود توجيه منطقي و اقتصادي براي هزينه هاي ميلياردي برخي رشته هاي ورزشي و تأثير منفي اين مسئله بر نخبگان كشور
- بي نتيجه بودن تحريم ها و فشارهاي اقتصادي غرب
- نبود نقشه راه فرهنگي و عدم انسجام برخي فعاليتهاي دستگاههاي فرهنگي
-انتقاد از كمبود خلاقيت و ابتكار در ارائه پيشرفتهاي نظام به افكار عمومي
- انتقاد از تغييرات مكرر برخي قوانين بويژه قوانين مربوط به خدمت نظام وظيفه
- نبود نگاه مناسب و دقيق به جنگ نرم و الزامات آن، در برخي دستگاههاي فرهنگي و اجرايي
- لزوم تدوين نقشه جامع براي بهره برداري از فرصت هاي فضاي مجازي
- انتقاد از كم تحركي شورايعالي فضاي مجازي
- نبود نگاه جامع و برنامه ريزي هاي دقيق فرهنگي در دانشگاهها
- ضرورت برخورد عبرت آموز با سودجويان و اخلال گران در نظام اقتصادي
- لزوم اهتمام جدي دستگاهها و سه قوه به فرمان 8 ماده اي رهبر انقلاب براي مقابله با فساد مالي
- ضرورت برخورد جدي با سودجويان اقتصادي و برنامه ريزي علمي و منسجم براي مقابله با برخي مشكلات اقتصادي
- برنامه ريزي براي تبديل تحريم به فرصت
- توجه همزمان به پيشرفت همراه با عدالت
- لزوم حضور فعال و غير انفعالي در فضاي مجازي و استفاده از برخي فرصت ها بجاي برخوردهاي محدود كننده و سلبي
- ضرورت ارائه تعريف صحيح از سرمايه ايراني و سرمايه داريِ مورد تأييد و تفاوت آن با سرمايه داري منفعت پرست
- بي ثباتي در سياستهاي بخش كشاورزي
- هشدار درباره ورود برخي سازمانها و نهادهاي غيردولتي به موضوع محروميت زدايي با الگوهاي غربي
- ارتقاي سيستم ثبت حقوق معنوي مالكيت
- لزوم تبيين دقيق موضوع «مردمي كردن اقتصاد» و مرز ميان واگذاريهاي اصل 44 و حركت نكردن به سمت سرمايه داري
- اقتصاد تهاجمي به عنوان مكمل اقتصاد مقاومتي
- و نياز مبرم كشور به فرهنگ كار و تلاش خستگي ناپذير
- اهميت هدفمند شدن پژوهش ها در دانشگاهها بر مبناي نيازهاي كشور
- منطقي كردن ظرفيت پذيرش دانشجو در رشته هاي تخصصي در مقاطع تحصيلات تكميلي
- ضرورت اعتماد سازي ميان دانشگاهها و بخش صنعت
- رعايت موازين قانوني و عدالت در انتخاب اعضاي هيأت علمي دانشگاهها
- خلاء نظريه پردازي در حوزه بيداري اسلامي در دانشگاهها
- گرفتار شدن موضوع تحول در علوم انساني در بروكراسي نظام آموزش عالي
- انتقاد از پديده هايي همچون تحصيلات دانشگاهي پولي و دانشگاههاي غير انتفاعي
- ضرورت ايجاد ساختارهاي لازم براي افزايش تعامل دانشجويي با دانشجويان كشورهاي ديگر
- نگاه عميق و ژرف و به دور از اقدامات ظاهري، به موضوع دانشگاه اسلامي
- نبود تحرك و تحول لازم در اسلامي كردن علوم انساني
- تقويت و گسترش رشته هاي كاربردي در دانشگاهها
- ارتباط بيشتر و نظام مند با نخبگان دانشجويي
-انتقاد از سياست خصوصي سازي امكانات رفاهي و خوابگاههاي دانشگاهها
- تحقق نيافتن كرسي هاي آزادانديشي به معناي واقعي كلمه، در دانشگاهها
- ضرورت سعه صدر در برخوردهاي قضايي با تشكل ها و فعاليتهاي دانشجويي
انتقاد از حضور نيافتن سران قوا و مسئولان در جلسات پرسش و پاسخ دانشجويي
- اهميت ارتقاي زيرساخت هاي مراكز علمي و پاركهاي علم و فناوري براي توليد علم بومي
- ضرورت ايجاد بستر لازم براي استفاده از روشهاي غيردارويي همچون طب سنتي
9:52
|
Imam Khamenei speech at IHU Graduation - 23May12 بيانات در دانشگاه امام حسين - Farsi
Imam Khamenei at IHU, Imam Hussein (As) University graduation ceremony 2012
(۱۳۹۱/۰۳/۰۳ - ۱۳:۱۱)
بيانات فرمانده معظم کل قوا در دانشگاه...
Imam Khamenei at IHU, Imam Hussein (As) University graduation ceremony 2012
(۱۳۹۱/۰۳/۰۳ - ۱۳:۱۱)
بيانات فرمانده معظم کل قوا در دانشگاه امام حسين (ع)
بيانات در دانشگاه امام حسين عليهالسلام
در مراسم دانشآموختگی دانشجویان
در سالروز حماسهى فتح خرمشهر
بسماللّهالرّحمنالرّحيم
تبريك عرض ميكنيم حلول ماه مبارك رجب را، ولادت حضرت امام باقر را، سالروز باشكوه سوم خرداد را؛ و همچنين تبريك عرض ميكنيم به شما جوانان عزيز، درجهى سربازى در مجموعهى سپاه پاسداران و گرفتن سردوشى را.
خداوند متعال نعمت بزرگ خدمت در جمهورى اسلامى را به ما ارزانى داشته است و ما وظيفهى شكرگزارى آن را داريم. ميدانِ امروز كه بحمداللَّه سرشار از ابتكارات بود و جلوههاى زيباى نمادين در آن، سرتاسر مراسم و برنامهها را فرا گرفته بود، يك نمونهاى از پيام انقلاب اسلامى به ما، شما و همهى نسلهاى آينده است. خداوند متعال در قرآن ميفرمايد: «انّ الّذين يبايعونك انّما يبايعون اللّه»؛ آنهائى كه در راه اسلام با پيغمبر بيعت كردند، در واقع با خدا بيعت كردند. «يد اللّه فوق ايديهم»؛ آن دستى كه براى بيعت بر روى دست آنها قرار گرفت - كه دست پيغمبر بود - در واقع دست خداست. بيعت با اسلام، بيعت با دين، بيعت با مأموريت و مسئوليت الهى، چنين بيعتى است. انسان، با خدا بيعت ميكند. بعد ميفرمايد: «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه»؛ هر كسى كه اين بيعت را بشكند، به زيان خود اقدام كرده است. «و من اوفى بما عاهد عليه اللَّه فسيؤتيه اجرا عظيما»؛(1) اما آن كسانى كه بر اين پيمان وفا ميورزند و پايدارى ميكنند، پاداش بزرگ خود را از خداى متعال دريافت خواهند كرد. اين پاداش، فقط پاداش در آخرت نيست - اگرچه پاداش آخرت آنقدر باعظمت و پرمغز و پرمعناست كه ذهن دنيائى و مادى ما قادر به فهم آن نيست - اين پاداش در دنيا هم هست. پاداش آن كسانى كه در راه خدا با بيعت الهى حركت ميكنند، پايدارى ميكنند، عزت است، سرافرازى است، آزادگى است، بزرگوارى است.
ميدانيد ملت ايران از مغاك چه ذلتى - كه بر اثر تحميل سلطهى پادشاهان ستمگر در طول چند قرن بر او وارد آمده بود - به اوج عزتِ امروز رسيد؟ امروز ملت ايران، هم عزيز است، هم مقتدر است، هم پيشگام و پيشرو است، هم به آيندهى خود اميدوار و مطمئن است و افق آينده به او لبخند ميزند. در درونِ خود نيز افراد ما، جوانهاى ما، پيران ما، قشرهاى مختلف ما، احساس هويت ميكنند؛ ميدانند دنبال چه هستند؛ تلاش آنها با معنى است. اينها همه باارزش است.
ملتها بر اثر انقطاع از دين و از معنويت و از خدا، پوك ميشوند؛ هويت خودشان را از دست ميدهند؛ دچار سرگردانى و حيرت ميشوند. ملتها بر اثر دورى از احكام خدا به ذلت مىافتند؛ همچنان كه امت اسلامى در طول قرنها دچار ذلت بود. اين ايستادگى و وفادارى ملت ايران بود كه اين جادهى استوارِ هموارِ خوشعاقبت را در مقابل ملت ايران گذاشت. البته جادهى هموار به معناى جادهى بىزحمت نيست. سختىها فراوان است، اما فضل و بزرگوارى و مردانگى انسانها در بلاهاى سخت به وجود مىآيد و ظاهر ميشود.
جوانهاى عزيز! نعمت جوانى را، توانائىهاى ذهنى و جسمى را، دلهاى پاك و نورانى را كه خداى متعال به شما داده است، قدر بدانيد. تلاش كنيد؛ اين كشور متعلق به شماست، آينده مال شماست؛ شمائيد كه بايد در پيشانى امت اسلامى و پيشاپيش اين قافله، حركت به سوى تعالى امت اسلامى را با شدت، با سرعت و به طور روزافزون ادامه دهيد. گذشتگان اين راه را آغاز كردند، مجاهدت كردند، فداكارى كردند.
خدا را سپاس ميگوئيم كه نيروهاى مسلح ما، سپاه پاسداران ما، ارتش جمهورى اسلامى ما، همهى سازمانهاى نيروهاى مسلح در اين راه پايدارى كردند، پافشارى كردند و از خود تجربههاى ماندگارى را به يادگار گذاشتند.
راه، متعلق به شماست؛ كار، كار شماست. هرچه ميتوانيد، در اين راه كوشش كنيد. ملت ايران رو به عزت و اعتلاى روزافزون است. پيشرفت ما، ترقى ما، استقرار عدالت در ميان ما - كه اين دهه، متعهد به اينهاست - به پيشرفت و توسعهى عدالت در دنياى اسلام و در نهايت در همهى جهان كمك ميكند.
جبههى ظلم و استكبار و زورگوئى و ستمگرى در دنيا رو به ضعف است. هياهوى ظاهرى آنها نشانهى قدرت واقعى نيست. هر جا كه نور معنويت و ايمان بتابد، به طور طبيعى ظلمتها رنگ ميبازند و بتدريج محو ميشوند؛ اين اتفاق دارد در دنيا مىافتد. بخشهاى مهمى از اين كار بر عهدهى جوانان عزيز ماست، و يكى از حساسترين بخشهاى آن بر عهدهى شما جوانان عزيز است.
از خداوند متعال ميخواهيم به شماها توفيق بدهد؛ به ما هم توفيق بدهد كه قدر شما جوانان عزيزمان را بدانيم و انشاءاللَّه در چهرهى نورانى و پيشانى بلند شما، آيندهى پرافتخار ملت ايران و امت اسلامى را بخوانيم.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=19917
Supreme Leader Attends Graduation Ceremony at Imam Hussein (a.s.) Military Academy
23/05/2012
Ayatollah Khamenei the Commander-in-Chief of the Iranian Armed Forces attended the graduation ceremony of a group of cadets at Imam Hussein (a.s.) Military Academy on Wednesday. Speaking during the ceremony, Ayatollah Khamenei said that the increasing power and dignity of the Iranian people is the result of adhering to their divine allegiance. He stressed: \"In ‘The Decade of Progress and Justice\' the pioneering Iranian nation will continue its accelerated movement towards more progress and administration of justice. And in spite of its propaganda, the camp of oppression, arrogance and bullying is in decline.\"
His Eminence stressed that the Iranian nation is hopeful about the future and that there are bright prospects for the people of Iran. He urged Iranian youth to continue the path of the Iranian nation in order to improve the Islamic Ummah.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that selfless efforts of the young generation have prepared the way for achieving the peak of happiness. \"Of course, this does not mean that there are no difficulties and problems. On the contrary, continuing this path still requires steadfastness and resistance.\"
Ayatollah Khamenei praised the Iranian Armed Forces for adhering to their divine allegiance and stressed: \"During the Sacred Defense Era, the Armed Forces gained timeless experiences and it is necessary to make use of them.\"
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1635
More...
Description:
Imam Khamenei at IHU, Imam Hussein (As) University graduation ceremony 2012
(۱۳۹۱/۰۳/۰۳ - ۱۳:۱۱)
بيانات فرمانده معظم کل قوا در دانشگاه امام حسين (ع)
بيانات در دانشگاه امام حسين عليهالسلام
در مراسم دانشآموختگی دانشجویان
در سالروز حماسهى فتح خرمشهر
بسماللّهالرّحمنالرّحيم
تبريك عرض ميكنيم حلول ماه مبارك رجب را، ولادت حضرت امام باقر را، سالروز باشكوه سوم خرداد را؛ و همچنين تبريك عرض ميكنيم به شما جوانان عزيز، درجهى سربازى در مجموعهى سپاه پاسداران و گرفتن سردوشى را.
خداوند متعال نعمت بزرگ خدمت در جمهورى اسلامى را به ما ارزانى داشته است و ما وظيفهى شكرگزارى آن را داريم. ميدانِ امروز كه بحمداللَّه سرشار از ابتكارات بود و جلوههاى زيباى نمادين در آن، سرتاسر مراسم و برنامهها را فرا گرفته بود، يك نمونهاى از پيام انقلاب اسلامى به ما، شما و همهى نسلهاى آينده است. خداوند متعال در قرآن ميفرمايد: «انّ الّذين يبايعونك انّما يبايعون اللّه»؛ آنهائى كه در راه اسلام با پيغمبر بيعت كردند، در واقع با خدا بيعت كردند. «يد اللّه فوق ايديهم»؛ آن دستى كه براى بيعت بر روى دست آنها قرار گرفت - كه دست پيغمبر بود - در واقع دست خداست. بيعت با اسلام، بيعت با دين، بيعت با مأموريت و مسئوليت الهى، چنين بيعتى است. انسان، با خدا بيعت ميكند. بعد ميفرمايد: «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه»؛ هر كسى كه اين بيعت را بشكند، به زيان خود اقدام كرده است. «و من اوفى بما عاهد عليه اللَّه فسيؤتيه اجرا عظيما»؛(1) اما آن كسانى كه بر اين پيمان وفا ميورزند و پايدارى ميكنند، پاداش بزرگ خود را از خداى متعال دريافت خواهند كرد. اين پاداش، فقط پاداش در آخرت نيست - اگرچه پاداش آخرت آنقدر باعظمت و پرمغز و پرمعناست كه ذهن دنيائى و مادى ما قادر به فهم آن نيست - اين پاداش در دنيا هم هست. پاداش آن كسانى كه در راه خدا با بيعت الهى حركت ميكنند، پايدارى ميكنند، عزت است، سرافرازى است، آزادگى است، بزرگوارى است.
ميدانيد ملت ايران از مغاك چه ذلتى - كه بر اثر تحميل سلطهى پادشاهان ستمگر در طول چند قرن بر او وارد آمده بود - به اوج عزتِ امروز رسيد؟ امروز ملت ايران، هم عزيز است، هم مقتدر است، هم پيشگام و پيشرو است، هم به آيندهى خود اميدوار و مطمئن است و افق آينده به او لبخند ميزند. در درونِ خود نيز افراد ما، جوانهاى ما، پيران ما، قشرهاى مختلف ما، احساس هويت ميكنند؛ ميدانند دنبال چه هستند؛ تلاش آنها با معنى است. اينها همه باارزش است.
ملتها بر اثر انقطاع از دين و از معنويت و از خدا، پوك ميشوند؛ هويت خودشان را از دست ميدهند؛ دچار سرگردانى و حيرت ميشوند. ملتها بر اثر دورى از احكام خدا به ذلت مىافتند؛ همچنان كه امت اسلامى در طول قرنها دچار ذلت بود. اين ايستادگى و وفادارى ملت ايران بود كه اين جادهى استوارِ هموارِ خوشعاقبت را در مقابل ملت ايران گذاشت. البته جادهى هموار به معناى جادهى بىزحمت نيست. سختىها فراوان است، اما فضل و بزرگوارى و مردانگى انسانها در بلاهاى سخت به وجود مىآيد و ظاهر ميشود.
جوانهاى عزيز! نعمت جوانى را، توانائىهاى ذهنى و جسمى را، دلهاى پاك و نورانى را كه خداى متعال به شما داده است، قدر بدانيد. تلاش كنيد؛ اين كشور متعلق به شماست، آينده مال شماست؛ شمائيد كه بايد در پيشانى امت اسلامى و پيشاپيش اين قافله، حركت به سوى تعالى امت اسلامى را با شدت، با سرعت و به طور روزافزون ادامه دهيد. گذشتگان اين راه را آغاز كردند، مجاهدت كردند، فداكارى كردند.
خدا را سپاس ميگوئيم كه نيروهاى مسلح ما، سپاه پاسداران ما، ارتش جمهورى اسلامى ما، همهى سازمانهاى نيروهاى مسلح در اين راه پايدارى كردند، پافشارى كردند و از خود تجربههاى ماندگارى را به يادگار گذاشتند.
راه، متعلق به شماست؛ كار، كار شماست. هرچه ميتوانيد، در اين راه كوشش كنيد. ملت ايران رو به عزت و اعتلاى روزافزون است. پيشرفت ما، ترقى ما، استقرار عدالت در ميان ما - كه اين دهه، متعهد به اينهاست - به پيشرفت و توسعهى عدالت در دنياى اسلام و در نهايت در همهى جهان كمك ميكند.
جبههى ظلم و استكبار و زورگوئى و ستمگرى در دنيا رو به ضعف است. هياهوى ظاهرى آنها نشانهى قدرت واقعى نيست. هر جا كه نور معنويت و ايمان بتابد، به طور طبيعى ظلمتها رنگ ميبازند و بتدريج محو ميشوند؛ اين اتفاق دارد در دنيا مىافتد. بخشهاى مهمى از اين كار بر عهدهى جوانان عزيز ماست، و يكى از حساسترين بخشهاى آن بر عهدهى شما جوانان عزيز است.
از خداوند متعال ميخواهيم به شماها توفيق بدهد؛ به ما هم توفيق بدهد كه قدر شما جوانان عزيزمان را بدانيم و انشاءاللَّه در چهرهى نورانى و پيشانى بلند شما، آيندهى پرافتخار ملت ايران و امت اسلامى را بخوانيم.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=19917
Supreme Leader Attends Graduation Ceremony at Imam Hussein (a.s.) Military Academy
23/05/2012
Ayatollah Khamenei the Commander-in-Chief of the Iranian Armed Forces attended the graduation ceremony of a group of cadets at Imam Hussein (a.s.) Military Academy on Wednesday. Speaking during the ceremony, Ayatollah Khamenei said that the increasing power and dignity of the Iranian people is the result of adhering to their divine allegiance. He stressed: \"In ‘The Decade of Progress and Justice\' the pioneering Iranian nation will continue its accelerated movement towards more progress and administration of justice. And in spite of its propaganda, the camp of oppression, arrogance and bullying is in decline.\"
His Eminence stressed that the Iranian nation is hopeful about the future and that there are bright prospects for the people of Iran. He urged Iranian youth to continue the path of the Iranian nation in order to improve the Islamic Ummah.
The Supreme Leader of the Islamic Revolution said that selfless efforts of the young generation have prepared the way for achieving the peak of happiness. \"Of course, this does not mean that there are no difficulties and problems. On the contrary, continuing this path still requires steadfastness and resistance.\"
Ayatollah Khamenei praised the Iranian Armed Forces for adhering to their divine allegiance and stressed: \"During the Sacred Defense Era, the Armed Forces gained timeless experiences and it is necessary to make use of them.\"
http://english.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1635
3:58
|
13:17
|
[FARSI] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
بسماللهالرحمنالرحیم
الحمدلله رب العالمین و صلوات الله و تحیاته علی سیدالانام محمدٍ المصطفی و آله...
بسماللهالرحمنالرحیم
الحمدلله رب العالمین و صلوات الله و تحیاته علی سیدالانام محمدٍ المصطفی و آله الطیبین و صحبه المنتجبین.
اکنون بهار حج، با طراوت و صفای معنوی و شکوه و حشمت خداداد، فرا رسیده و دلهای مؤمن و مشتاق را پروانه وار بر گرد کعبهی توحید و وحدت، به پرواز درآورده است. مکه و منا و مشعر و عرفات، منزلگاه انسانهای خوشبختی است که به ندای: \" و اذّن فی الناس بالحج .. \" پاسخ گفته و به حضور در میهمانی خدای غفور و کریم سرافراز گشتهاند. اینجا همان خانهی مبارک و کانون هدایتی است که آیاتٍ بیّنات الهی از آن ساطع و چتر امان برفراز سر همگان در آن گسترده است.
دل را در زمزم صفا و ذکر و خشوع، شستشو دهید؛ چشم باطن را به آیات روشن حضرت حق بگشائید؛ به اخلاص و تسلیم که نشانهی عبودیت حقیقی است روی آورید؛ خاطرهی آن پدری را که با طوع و تسليم، اسماعيلش را به قربانگاه برد بارها و بارها در دل زنده كنيد، و بدينگونه راه روشن و آشكاري را كه براي رسيدن به دوستي ربّ جليل در برابر ما گشوده است، بشناسيد و قدم نهادن در آن را به همّت مؤمنانه و نيت صادقانهي خود، بسپاريد.
مقام ابراهيم يكي از همان آيات بيّنات است. جاي پاي ابراهيم عليهالسلام در كنار كعبهي شريف، تنها نمادي از مقام ابراهيم است. مقام ابراهيم، مقام اخلاص و گذشت و ايثار اوست؛ مقام ايستادگي او در برابر خواست نفساني و عواطف پدرانه و نيز در برابر سيطرهي كفر و شرك و سلطهي نمرود زمانه است.
اين هر دو راه نجات هم اكنون در برابر يكايك ما آحاد امت اسلامي، گشوده است. همت و شجاعت و عزم راسخ هريك از ما ميتواند ما را روانه به سوي همان هدفهائي سازد كه پيامآوران رسالت الهي از آدم تا خاتم، بشر را به سوي آن فراخوانده و وعدهي عزت و سعادت در دنيا وآخرت را به رهپويان آن دادهاند.
در اين محضر عظيمِ امت اسلامي، شايسته است كه حجگزاران به مهمترين مسائل جهان اسلام بپردازند. اكنون در رأس همهي اين مسائل، قيام و انقلاب در برخي كشورهاي مهم اسلامي است. در ميانهي حجّ سال گذشته و حج امسال، حوادثي در دنياي اسلام پديد آمده است كه ميتواند سرنوشت امت اسلامي را دگرگون ساخته و آيندهئي درخشان و سرشار از عزت و پيشرفت مادي و معنوي را نويد دهد. در مصر و تونس و ليبي طاغوتهاي ديكتاتور و فاسد و وابسته، از سرير قدرت سرنگون شدهاند و در برخي کشورهای ديگر امواج پرخروش قيام مردمي، كاخهاي زر و زور را به ويراني و نابودي تهديد ميكند.
اين صفحهي تازه گشوده از تاريخ امت ما، حقايقي را آشكار ميسازد كه همه از آيات بينات الهي است و به ما درسهاي حياتبخش ميدهد. اين حقايق بايد در همهي محاسبات ملتهاي مسلمان به كار گرفته شود.
نخست آنكه اكنون از دل ملتهائي كه دهها سال در سيطرهي سياسي بيگانگان بودهاند، نسل جواني سربرآورده است كه با اعتماد به نفس تحسين برانگيز به استقبال خطر رفته و به روياروئي با قدرتهاي مسلّط برخاسته و همت به دگرگونسازيِ وضعيت گماشته است.
ديگر آنكه به رغم تسلط و تلاش حاكمان سكولار و تلاشهاي پيدا و پنهان آنان براي دينزدائي در اين كشورها، اسلام، با نفوذ و حضوري نمايان و پرشكوه، هدايتگر دلها و زبانها گشته و چون چشمهاي جوشان در گفتار و كردار تودههاي ميليوني، به اجتماعات و رفتارهاي آنان طراوت و حيات بخشيده است. ماذنهها و مصلاّها و تكبيرها و شعارهاي اسلامي، نشانهي آشكاري از اين حقيقت و انتخابات اخير تونس برهان قاطعي بر اين مدعا است. بيگمان انتخابات آزاد در هر كشور اسلامي ديگر هم نتيجهئي جز آنچه در تونس پيش آمد، نخواهد داشت.
ديگر آنكه در حوادث اين يك سال، به همه نشان داده شد كه خداوند عزيز و قدير، در عزم و ارادهي ملتها، آن چنان قدرتي تعبيه كرده است كه هيچ قدرت دیگر را ياراي مقاومت در برابر آن نيست. ملتها با اين نيروي خداداد، قادرند سرنوشت خويش را تغيير دهند و نصرت الهي را نصيب خود سازند.
ديگر آنكه دولتهاي مستكبر و در رأس آنان امريكا، كه در طول دهها سال با ترفندهاي سياسي و امنيتي، دولتهاي منطقه را سر به فرمان خود ساخته و به پندار خود، جادهي بي مانعي براي سيطرهي روزافزون اقتصادي و فرهنگي و سياسي بر اين بخش حساس جهان، پديد آورده بودند، اكنون نخستين آماج بيزاري و نفرت ملتهاي اين منطقهاند. اطمينان بايد داشت كه نظامهاي برآمده از اين انقلابها هرگز به نامعادلهي خفتبار پيشين تن نخواهند داد و جغرافياي سياسي اين منطقه به دست ملتها و در جهت عزت و استقلال كامل آنان رقم خواهد خورد.
ديگر آنكه طبيعت مزوّر و منافقِ قدرتهاي غربي، براي مردم اين كشورها آشكار شد. در مصر و تونس و ليبي – هركدام به نوعي- آمريكا و اروپا تا توانستند در نگهداري از مهرههاي خود كوشيدند و هنگامي كه عزم ملتها برخواست آنان فائق آمد، به روي مردم پيروز لبخند مزورانهي دوستي زدند.
حقايق گرانبها و آيات بينات الهي در حوادث يكسال اخير در اين منطقه بيش از اينها است و براي اهل تدبر، ديدن و شناختن آن دشوار نيست.
ليكن با اين همه، امروز همهي امت اسلامي و بويژه ملتهاي به پاخواسته، نيازمند دو عنصر اساسياند:
نخست: تداوم ايستادگي و پرهيز شديد از سست شدن عزم راسخ. فرمان الهي به پيامبر اعظم صلياللهعليهوآلهوسلم در قرآن چنين است: \" فاستقم كما امرت و من تاب معك و لاتطغوا \" و \" فلذلك فادع و استقم كما امرت\" و نيز از زبان حضرت موسي عليهالسلام : \" و قال موسي لقومه استعينوا بالله و اصبروا، ان الارض لله يورثها من يشاء من عباده و العاقبه للمتقين\"
مصداق بزرگ تقوا در اين دوره براي ملتهاي به پاخاسته، آن است كه حركت مبارك خود را متوقف نسازند و خود را سرگرم دستآوردهاي اين مقطع نكنند. اين است بخش مهم از تقوائي كه دارندگان آن، به وعدهي \" عاقبتِ نيك\" سرافراز گشتهاند.
دوم: هشياري در برابر حيلههاي مستكبران بينالمللي و قدرتهائي كه از اين قيامها و انقلابها لطمه ديدهاند. آنها بيكار نميمانند و با همهي توان سياسي و امنيتی و مالي، براي برقراريِ دوبارهي نفوذ و قدرت خود در اين كشورها به ميدان ميآيند. ابزار آنان، تطميع و تهديد و فريب است. تجربهها نشان داده است كه درميان خواص، هستند كساني كه اين ابزارها در آنان كارگر ميشود و ترس و طمع و غفلت، آنان را دانسته يا ندانسته به خدمت دشمن درميآورد. چشم بيدار جوانان و روشنفكران و عالمان ديني بايد به دقت مراقبت كند.
مهمترين خطر، دخالت و تأثيرگذاريِ جبههي كفر و استكبار در ساخت نظام جديد سياسي در اين كشورها است. آنان همهي كوشش خود را به كار خواهند برد تا نظامهاي جديد، هويت اسلامي و مردمي نيابد. همهي دلسوزان در اين كشورها و همه آنان كه به عزت و كرامت و پيشرفت كشور خود دلبستهاند بايد تلاش كنند تا اسلاميت و مردمي بودن نظام نوين، به تمام و كمال تامين شود. نقش قانون اساسيها در اين ميان، برجسته است. اتحاد ملي و به رسميت شناختنِ دگرسانيهاي مذهبي، قبيلهئي و نژادي، شرط پيروزيهاي آينده است.
ملتهاي شجاع و به پاخاسته در مصر و تونس و ليبي و ديگر ملتهاي بيدار و مبارز بدانند، نجات آنان از ظلم و كيد آمريكا و ديگر مستكبران غربي تنها و تنها در آن است كه تعادل قوا در جهان به نفع آنان برقرار شود. مسلمانان براي اينكه بتوانند مسائل خود را به صورت جدّي با جهانخواران حل كنند بايد خود را به مرز قدرت بزرگ جهانی برسانند، و اين جز با همكاري و همدلي و اتحاد كشورهاي اسلامي به دست نخواهد آمد. اين وصيت فراموش نشدني امام خميني عظيم است. امريكا و ناتو به بهانهي قذافي خبيث و ديكتاتور، ماهها بر سر ليبي و مردم آن آتش ريختند. و قذافي همان كسي بود كه پيش از قيام شجاعانهي ملت ليبي درشمار دوستان نزديك آنان بشمار می رفت، او را در آغوش ميگرفتند؛ با دست او از ثروت ليبي ميدزديدند و براي خام كردن او دستش را ميفشردند يا ميبوسيدند .. پس از قيام مردم، همين او را بهانه كردند و تمام زيرساختهاي ليبي را به ويراني كشاندند. كدام دولت توانست از فاجعهي كشتار مردم و ويراني كشور ليبي به دست ناتو جلوگيري كند؟ تا چنگ و دندان قدرتهاي خونخوار و وحشي غربي شكسته نشود هميشه چنين خطرهائي براي كشورهاي اسلامي متصور است و نجات از آن جز با تشكيل قطب قدرتمند جهان اسلام، ميسر نيست.
غرب و امريكا و صهيونيزم امروز از هميشه ضعيفترند. گرفتاريهاي اقتصادي، ناكاميهاي پيدرپي در افغانستان و عراق، اعتراضهاي عميق مردمي در امريكا و ديگر كشورهاي غربي كه دامنهي آن روز بروز گستردهتر شده است، مبارزات و جانفشانيهاي مردم فلسطين و لبنان، قيامهاي دليرانهي مردم در يمن و بحرين و برخي ديگر از كشورهاي زير نفوذ امريكا، همه و همه حامل بشارتهاي بزرگي براي امت اسلامي و بويژه كشورهاي انقلابي جديد است. مردان و زنان مؤمن در سراسر جهان اسلام و بويژه در مصر و تونس و ليبي از اين فرصت براي تشكيل قدرت بينالملل اسلامي بيشترين بهره را ببرند. خواص و پيشروان نهضتها به خداي بزرگ توكل و به وعدهي نصرت او اعتماد كنند و صفحهي تازه گشودهي تاريخ امت اسلامي را با افتخارات ماندگار خود كه مايهي رضاي الهي و زمينهساز نصرت اوست مزين سازند.
والسلام علي عباد الله الصالحين
سيدعلي حسينيخامنهاي
5/آبان/1390
29 ذيقعده 1432
More...
Description:
بسماللهالرحمنالرحیم
الحمدلله رب العالمین و صلوات الله و تحیاته علی سیدالانام محمدٍ المصطفی و آله الطیبین و صحبه المنتجبین.
اکنون بهار حج، با طراوت و صفای معنوی و شکوه و حشمت خداداد، فرا رسیده و دلهای مؤمن و مشتاق را پروانه وار بر گرد کعبهی توحید و وحدت، به پرواز درآورده است. مکه و منا و مشعر و عرفات، منزلگاه انسانهای خوشبختی است که به ندای: \" و اذّن فی الناس بالحج .. \" پاسخ گفته و به حضور در میهمانی خدای غفور و کریم سرافراز گشتهاند. اینجا همان خانهی مبارک و کانون هدایتی است که آیاتٍ بیّنات الهی از آن ساطع و چتر امان برفراز سر همگان در آن گسترده است.
دل را در زمزم صفا و ذکر و خشوع، شستشو دهید؛ چشم باطن را به آیات روشن حضرت حق بگشائید؛ به اخلاص و تسلیم که نشانهی عبودیت حقیقی است روی آورید؛ خاطرهی آن پدری را که با طوع و تسليم، اسماعيلش را به قربانگاه برد بارها و بارها در دل زنده كنيد، و بدينگونه راه روشن و آشكاري را كه براي رسيدن به دوستي ربّ جليل در برابر ما گشوده است، بشناسيد و قدم نهادن در آن را به همّت مؤمنانه و نيت صادقانهي خود، بسپاريد.
مقام ابراهيم يكي از همان آيات بيّنات است. جاي پاي ابراهيم عليهالسلام در كنار كعبهي شريف، تنها نمادي از مقام ابراهيم است. مقام ابراهيم، مقام اخلاص و گذشت و ايثار اوست؛ مقام ايستادگي او در برابر خواست نفساني و عواطف پدرانه و نيز در برابر سيطرهي كفر و شرك و سلطهي نمرود زمانه است.
اين هر دو راه نجات هم اكنون در برابر يكايك ما آحاد امت اسلامي، گشوده است. همت و شجاعت و عزم راسخ هريك از ما ميتواند ما را روانه به سوي همان هدفهائي سازد كه پيامآوران رسالت الهي از آدم تا خاتم، بشر را به سوي آن فراخوانده و وعدهي عزت و سعادت در دنيا وآخرت را به رهپويان آن دادهاند.
در اين محضر عظيمِ امت اسلامي، شايسته است كه حجگزاران به مهمترين مسائل جهان اسلام بپردازند. اكنون در رأس همهي اين مسائل، قيام و انقلاب در برخي كشورهاي مهم اسلامي است. در ميانهي حجّ سال گذشته و حج امسال، حوادثي در دنياي اسلام پديد آمده است كه ميتواند سرنوشت امت اسلامي را دگرگون ساخته و آيندهئي درخشان و سرشار از عزت و پيشرفت مادي و معنوي را نويد دهد. در مصر و تونس و ليبي طاغوتهاي ديكتاتور و فاسد و وابسته، از سرير قدرت سرنگون شدهاند و در برخي کشورهای ديگر امواج پرخروش قيام مردمي، كاخهاي زر و زور را به ويراني و نابودي تهديد ميكند.
اين صفحهي تازه گشوده از تاريخ امت ما، حقايقي را آشكار ميسازد كه همه از آيات بينات الهي است و به ما درسهاي حياتبخش ميدهد. اين حقايق بايد در همهي محاسبات ملتهاي مسلمان به كار گرفته شود.
نخست آنكه اكنون از دل ملتهائي كه دهها سال در سيطرهي سياسي بيگانگان بودهاند، نسل جواني سربرآورده است كه با اعتماد به نفس تحسين برانگيز به استقبال خطر رفته و به روياروئي با قدرتهاي مسلّط برخاسته و همت به دگرگونسازيِ وضعيت گماشته است.
ديگر آنكه به رغم تسلط و تلاش حاكمان سكولار و تلاشهاي پيدا و پنهان آنان براي دينزدائي در اين كشورها، اسلام، با نفوذ و حضوري نمايان و پرشكوه، هدايتگر دلها و زبانها گشته و چون چشمهاي جوشان در گفتار و كردار تودههاي ميليوني، به اجتماعات و رفتارهاي آنان طراوت و حيات بخشيده است. ماذنهها و مصلاّها و تكبيرها و شعارهاي اسلامي، نشانهي آشكاري از اين حقيقت و انتخابات اخير تونس برهان قاطعي بر اين مدعا است. بيگمان انتخابات آزاد در هر كشور اسلامي ديگر هم نتيجهئي جز آنچه در تونس پيش آمد، نخواهد داشت.
ديگر آنكه در حوادث اين يك سال، به همه نشان داده شد كه خداوند عزيز و قدير، در عزم و ارادهي ملتها، آن چنان قدرتي تعبيه كرده است كه هيچ قدرت دیگر را ياراي مقاومت در برابر آن نيست. ملتها با اين نيروي خداداد، قادرند سرنوشت خويش را تغيير دهند و نصرت الهي را نصيب خود سازند.
ديگر آنكه دولتهاي مستكبر و در رأس آنان امريكا، كه در طول دهها سال با ترفندهاي سياسي و امنيتي، دولتهاي منطقه را سر به فرمان خود ساخته و به پندار خود، جادهي بي مانعي براي سيطرهي روزافزون اقتصادي و فرهنگي و سياسي بر اين بخش حساس جهان، پديد آورده بودند، اكنون نخستين آماج بيزاري و نفرت ملتهاي اين منطقهاند. اطمينان بايد داشت كه نظامهاي برآمده از اين انقلابها هرگز به نامعادلهي خفتبار پيشين تن نخواهند داد و جغرافياي سياسي اين منطقه به دست ملتها و در جهت عزت و استقلال كامل آنان رقم خواهد خورد.
ديگر آنكه طبيعت مزوّر و منافقِ قدرتهاي غربي، براي مردم اين كشورها آشكار شد. در مصر و تونس و ليبي – هركدام به نوعي- آمريكا و اروپا تا توانستند در نگهداري از مهرههاي خود كوشيدند و هنگامي كه عزم ملتها برخواست آنان فائق آمد، به روي مردم پيروز لبخند مزورانهي دوستي زدند.
حقايق گرانبها و آيات بينات الهي در حوادث يكسال اخير در اين منطقه بيش از اينها است و براي اهل تدبر، ديدن و شناختن آن دشوار نيست.
ليكن با اين همه، امروز همهي امت اسلامي و بويژه ملتهاي به پاخواسته، نيازمند دو عنصر اساسياند:
نخست: تداوم ايستادگي و پرهيز شديد از سست شدن عزم راسخ. فرمان الهي به پيامبر اعظم صلياللهعليهوآلهوسلم در قرآن چنين است: \" فاستقم كما امرت و من تاب معك و لاتطغوا \" و \" فلذلك فادع و استقم كما امرت\" و نيز از زبان حضرت موسي عليهالسلام : \" و قال موسي لقومه استعينوا بالله و اصبروا، ان الارض لله يورثها من يشاء من عباده و العاقبه للمتقين\"
مصداق بزرگ تقوا در اين دوره براي ملتهاي به پاخاسته، آن است كه حركت مبارك خود را متوقف نسازند و خود را سرگرم دستآوردهاي اين مقطع نكنند. اين است بخش مهم از تقوائي كه دارندگان آن، به وعدهي \" عاقبتِ نيك\" سرافراز گشتهاند.
دوم: هشياري در برابر حيلههاي مستكبران بينالمللي و قدرتهائي كه از اين قيامها و انقلابها لطمه ديدهاند. آنها بيكار نميمانند و با همهي توان سياسي و امنيتی و مالي، براي برقراريِ دوبارهي نفوذ و قدرت خود در اين كشورها به ميدان ميآيند. ابزار آنان، تطميع و تهديد و فريب است. تجربهها نشان داده است كه درميان خواص، هستند كساني كه اين ابزارها در آنان كارگر ميشود و ترس و طمع و غفلت، آنان را دانسته يا ندانسته به خدمت دشمن درميآورد. چشم بيدار جوانان و روشنفكران و عالمان ديني بايد به دقت مراقبت كند.
مهمترين خطر، دخالت و تأثيرگذاريِ جبههي كفر و استكبار در ساخت نظام جديد سياسي در اين كشورها است. آنان همهي كوشش خود را به كار خواهند برد تا نظامهاي جديد، هويت اسلامي و مردمي نيابد. همهي دلسوزان در اين كشورها و همه آنان كه به عزت و كرامت و پيشرفت كشور خود دلبستهاند بايد تلاش كنند تا اسلاميت و مردمي بودن نظام نوين، به تمام و كمال تامين شود. نقش قانون اساسيها در اين ميان، برجسته است. اتحاد ملي و به رسميت شناختنِ دگرسانيهاي مذهبي، قبيلهئي و نژادي، شرط پيروزيهاي آينده است.
ملتهاي شجاع و به پاخاسته در مصر و تونس و ليبي و ديگر ملتهاي بيدار و مبارز بدانند، نجات آنان از ظلم و كيد آمريكا و ديگر مستكبران غربي تنها و تنها در آن است كه تعادل قوا در جهان به نفع آنان برقرار شود. مسلمانان براي اينكه بتوانند مسائل خود را به صورت جدّي با جهانخواران حل كنند بايد خود را به مرز قدرت بزرگ جهانی برسانند، و اين جز با همكاري و همدلي و اتحاد كشورهاي اسلامي به دست نخواهد آمد. اين وصيت فراموش نشدني امام خميني عظيم است. امريكا و ناتو به بهانهي قذافي خبيث و ديكتاتور، ماهها بر سر ليبي و مردم آن آتش ريختند. و قذافي همان كسي بود كه پيش از قيام شجاعانهي ملت ليبي درشمار دوستان نزديك آنان بشمار می رفت، او را در آغوش ميگرفتند؛ با دست او از ثروت ليبي ميدزديدند و براي خام كردن او دستش را ميفشردند يا ميبوسيدند .. پس از قيام مردم، همين او را بهانه كردند و تمام زيرساختهاي ليبي را به ويراني كشاندند. كدام دولت توانست از فاجعهي كشتار مردم و ويراني كشور ليبي به دست ناتو جلوگيري كند؟ تا چنگ و دندان قدرتهاي خونخوار و وحشي غربي شكسته نشود هميشه چنين خطرهائي براي كشورهاي اسلامي متصور است و نجات از آن جز با تشكيل قطب قدرتمند جهان اسلام، ميسر نيست.
غرب و امريكا و صهيونيزم امروز از هميشه ضعيفترند. گرفتاريهاي اقتصادي، ناكاميهاي پيدرپي در افغانستان و عراق، اعتراضهاي عميق مردمي در امريكا و ديگر كشورهاي غربي كه دامنهي آن روز بروز گستردهتر شده است، مبارزات و جانفشانيهاي مردم فلسطين و لبنان، قيامهاي دليرانهي مردم در يمن و بحرين و برخي ديگر از كشورهاي زير نفوذ امريكا، همه و همه حامل بشارتهاي بزرگي براي امت اسلامي و بويژه كشورهاي انقلابي جديد است. مردان و زنان مؤمن در سراسر جهان اسلام و بويژه در مصر و تونس و ليبي از اين فرصت براي تشكيل قدرت بينالملل اسلامي بيشترين بهره را ببرند. خواص و پيشروان نهضتها به خداي بزرگ توكل و به وعدهي نصرت او اعتماد كنند و صفحهي تازه گشودهي تاريخ امت اسلامي را با افتخارات ماندگار خود كه مايهي رضاي الهي و زمينهساز نصرت اوست مزين سازند.
والسلام علي عباد الله الصالحين
سيدعلي حسينيخامنهاي
5/آبان/1390
29 ذيقعده 1432
8:58
|
Leader Congratulating on Occasion of Birth of Hazarat Zahra as & Imame Rahel - May 24 - Farsi
**DETAILS:
The Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali KhameneiThe Leader of the Islamic Revolution says no power in the world can impede Iran\\\'s progress, stressing that the...
**DETAILS:
The Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali KhameneiThe Leader of the Islamic Revolution says no power in the world can impede Iran\\\'s progress, stressing that the Iranian nation has remained committed to the principles of the Revolution.
Ayatollah Seyyed Ali Khamenei said on Tuesday that “resistance, perseverance and abidance by the values and principles of the Islamic Revolution” will nourish the hopes of Muslim nations and international observers.
The Leader stressed that the Iranian nation has faced “animosities and mixed reactions” over the past 32 years, but has not deviated from “the path of the Islamic Revolution, its ideals and objectives.”
“Had the Iranian nation backed down in the face of threats by global arrogance and given up its mottos, the blossom of hope would have withered in the hearts of nations,” Ayatollah Khamenei said.
The Leader made the remarks at a ceremony marking the anniversary of the birth of Fatemeh Zahra, the beloved daughter of Prophet Mohammad (PBUH).
The Leader praised Fatemeh Zahra as a unique spiritual and divine figure.
Ayatollah Khamenei then stressed the importance of drawing on the guidelines and demeanor of Prophet Mohammad and Fatemeh Zahra as well as other infallible Imams to improve morality and benevolence and establish a close rapport between people in the society.
In the ceremony, eulogies were recited to honor the auspicious occasion which is also designated as Woman\\\'s Day in Iran.
Leader Congratulating on Occasion of Birth of Hazarat Zahra as - May 24 - Farsi
دیدار جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت با رهبر معظم انقلاب
ساعت خبر: 15:5 - تاريخ خبر: 03/03/1390
در سالروز فرخنده میلاد با سعادت بانوی برگزیده دو عالم، دخت پیامبر خاتم، حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها و همچنین فرزند برومندشان امام خمینی (ره)، مراسم مولودی خوانی و ذکر فضائل و مناقب آن بانوی عفاف و نجابت، در حضور حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی برگزار شد.
به گزارش واحد مرکزی خبر، حضرت آیت الله خامنه ای در این مراسم که با حضور جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام در حسینیه امام خمینی بر پا شد، با تبریک میلاد با سعادت بانوی دو عالم حضرت زهراء (س)، آن حضرت را \\\\\\\"عنصر ملکوتی، الهی و بی نظیر در عرصه وجود از لحاظ نورانیت \\\\\\\"بعد از پیامبر گرامی اسلام (ص) و امیرالمومنین علی (ع) دانستند و افزودند: ذکر مکرر نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) بیش از سایر معارف اسلامی در تمام دوران انقلاب اسلامی\\\\\\\"پدیده ای الهی و یک امر روئیده از دلها، عواطف و ایمانها \\\\\\\" است.
رهبر انقلاب اسلامی تقارن این میلاد را با ولادت امام خمینی (ره)، پدیده ای بسیار شیرین خواندند و اظهار داشتند: امام خمینی (ره) حقیقتاً نمونه و مستوره ای از همان حقیقت درخشنده همراه با ایمان، اخلاص، عبادت، غیرت و ایستادگی در راه خدا بودند.
ایشان ذکر نام حضرت زهرا (س) را به مناسبتهای مختلف در طول این انقلاب ، نشانه توجه ویژه آن بزرگوار به کشور دانستند و خاطرنشان کردند: این توجه، بسیار با ارزش و امیدبخش است و دلها و گامها را برای دست یافتن به اهداف نهایی مطمئن، استوار و خاطرجمع می کند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به راه دشوار همراه با مزاحمتها، معارضه ها و برخوردهای گوناگون در طول 32 سال پس از پیروزی انقلاب اسلامی افزودند: ادامه خط مستقیم و زاویه پیدا نکردن این خط و حفظ شعارها و اهداف انقلاب به برکت بیان روشن و رسای امام بزرگوار، از مهم ترین خصوصیات انقلاب اسلامی ایران است.
ایشان تصریح کردند: با «حرکت امیدوارانه و برداشتن قدمهای محکم» هیچ قدرتی در دنیا نمی تواند راه این انقلاب را سد کند.
رهبر انقلاب، ایستادگی، ثبات، تداوم، پایبندی به ارزشها و اصول انقلاب اسلامی ایران را موجب رویاندن شکوفه های امید در دل ملتهای مسلمان و ناظران جهانی ارزیابی کردند و افزودند: خصوصیت این انقلاب عظیم اسلامی این بود که به فضل الهی آن بهار تا امروز خزان نداشته است.
حضرت آیت الله خامنه ای تأکید کردند: اگر ملت ایران در مقابل تهدیدات استکبار جهانی عقب نشینی می کرد و از شعارهایش دست می کشید، این گلهای امید در دل ملتها پژمرده می شد.
ایشان افزودند: به برکت نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) و توجهات ائمه اطهار علیهم السلام و با ایستادگی ملت ایران، این نهالهای امید بارور شدند، بنابراین این توجه، توسل و از خدا دانستن و به خود غَرّه نشدن را باید در خودمان نگه داریم.
رهبر انقلاب در بخش دیگری از سخنانشان انتخاب\\\\\\\" شعر، آهنگ و صوت خوب\\\\\\\" را در حرفه زیبا، ظریف و مؤثر مداحی ضروری دانستند و خاطرنشان کردند: آنچه خوانده می شود باید به درستی انتخاب و جهات صوری و معنوی آن لحاظ شده باشد.
ایشان با اشاره به اینکه آهنگهای بد و لهوی نباید وارد حرفه مداحی شود افزودند: انتخاب و ابتکار شکلهای جدید در قرائت و آهنگ سازیها عیبی ندارد.
رهبر انقلاب با تأکید بر انتخاب مضمون مناسب در ذکر مناقب ائمه اطهار علیهم السلام خاطرنشان کردند: ذکر مناقب متقن، معتبر و مستند ، دلها را شاد می کند و شوق را برمی انگیزاند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به نیاز جامعه به نصایح ائمه و استفاده از گفتار و رفتار آن بزرگواران برای رشد اخلاق، افزودند: باید با گسترش خُلقیات خوب، روحیه همدلی، برادری، صفا و اخوت را در جامعه اعتلا بخشید و با ترویج خیرخواهی، تعاون، صبر، احسان، ایثار و گذشت، از تنگ نظری، ناامیدی، بدخواهی و بُخل پرهیز کرد.
ایشان پیشرفت جامعه مداحان را خوب توصیف و بر مسأله بصیرت بخشی در مداحی تأکید کردند اما در عین حال تعرض به دیگران را مذموم خواندند و افزودند: بر اثر بصیرت بود که ملت ایران توانسته است بایستد و استقلال، ایستادگی، معرفت و ایمان خود را حفظ کند.
حضرت آیت الله خامنه ای مطالعه و انس با قرآن و احادیث را برای جامعه مداحان ضروری دانستند و خطاب به آنان تصریح کردند: آیات و احادیثی که در آن نصیحت است آن را یادداشت و قرائت کنید.
ایشان با اشاره به اینکه توجه به دعا، توسل، ذکر، خشوع، نماز نافله و حفظ و تقویت آن باعث حل تدریجی کارهای دشوار در زندگی می شود افزودند: این رشته ارتباط با مقام احدیت که متصل با اهل بیت علیهم السلام است دل و ذهن را صفا می دهد.
در ابتدای این دیدار تعدادی از شاعران و مداحان اهل بیت علیهم السلام به ذکر فضایل و مناقب حضرت زهرا (س) پرداختند.
More...
Description:
**DETAILS:
The Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali KhameneiThe Leader of the Islamic Revolution says no power in the world can impede Iran\\\'s progress, stressing that the Iranian nation has remained committed to the principles of the Revolution.
Ayatollah Seyyed Ali Khamenei said on Tuesday that “resistance, perseverance and abidance by the values and principles of the Islamic Revolution” will nourish the hopes of Muslim nations and international observers.
The Leader stressed that the Iranian nation has faced “animosities and mixed reactions” over the past 32 years, but has not deviated from “the path of the Islamic Revolution, its ideals and objectives.”
“Had the Iranian nation backed down in the face of threats by global arrogance and given up its mottos, the blossom of hope would have withered in the hearts of nations,” Ayatollah Khamenei said.
The Leader made the remarks at a ceremony marking the anniversary of the birth of Fatemeh Zahra, the beloved daughter of Prophet Mohammad (PBUH).
The Leader praised Fatemeh Zahra as a unique spiritual and divine figure.
Ayatollah Khamenei then stressed the importance of drawing on the guidelines and demeanor of Prophet Mohammad and Fatemeh Zahra as well as other infallible Imams to improve morality and benevolence and establish a close rapport between people in the society.
In the ceremony, eulogies were recited to honor the auspicious occasion which is also designated as Woman\\\'s Day in Iran.
Leader Congratulating on Occasion of Birth of Hazarat Zahra as - May 24 - Farsi
دیدار جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت با رهبر معظم انقلاب
ساعت خبر: 15:5 - تاريخ خبر: 03/03/1390
در سالروز فرخنده میلاد با سعادت بانوی برگزیده دو عالم، دخت پیامبر خاتم، حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها و همچنین فرزند برومندشان امام خمینی (ره)، مراسم مولودی خوانی و ذکر فضائل و مناقب آن بانوی عفاف و نجابت، در حضور حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی برگزار شد.
به گزارش واحد مرکزی خبر، حضرت آیت الله خامنه ای در این مراسم که با حضور جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام در حسینیه امام خمینی بر پا شد، با تبریک میلاد با سعادت بانوی دو عالم حضرت زهراء (س)، آن حضرت را \\\\\\\"عنصر ملکوتی، الهی و بی نظیر در عرصه وجود از لحاظ نورانیت \\\\\\\"بعد از پیامبر گرامی اسلام (ص) و امیرالمومنین علی (ع) دانستند و افزودند: ذکر مکرر نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) بیش از سایر معارف اسلامی در تمام دوران انقلاب اسلامی\\\\\\\"پدیده ای الهی و یک امر روئیده از دلها، عواطف و ایمانها \\\\\\\" است.
رهبر انقلاب اسلامی تقارن این میلاد را با ولادت امام خمینی (ره)، پدیده ای بسیار شیرین خواندند و اظهار داشتند: امام خمینی (ره) حقیقتاً نمونه و مستوره ای از همان حقیقت درخشنده همراه با ایمان، اخلاص، عبادت، غیرت و ایستادگی در راه خدا بودند.
ایشان ذکر نام حضرت زهرا (س) را به مناسبتهای مختلف در طول این انقلاب ، نشانه توجه ویژه آن بزرگوار به کشور دانستند و خاطرنشان کردند: این توجه، بسیار با ارزش و امیدبخش است و دلها و گامها را برای دست یافتن به اهداف نهایی مطمئن، استوار و خاطرجمع می کند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به راه دشوار همراه با مزاحمتها، معارضه ها و برخوردهای گوناگون در طول 32 سال پس از پیروزی انقلاب اسلامی افزودند: ادامه خط مستقیم و زاویه پیدا نکردن این خط و حفظ شعارها و اهداف انقلاب به برکت بیان روشن و رسای امام بزرگوار، از مهم ترین خصوصیات انقلاب اسلامی ایران است.
ایشان تصریح کردند: با «حرکت امیدوارانه و برداشتن قدمهای محکم» هیچ قدرتی در دنیا نمی تواند راه این انقلاب را سد کند.
رهبر انقلاب، ایستادگی، ثبات، تداوم، پایبندی به ارزشها و اصول انقلاب اسلامی ایران را موجب رویاندن شکوفه های امید در دل ملتهای مسلمان و ناظران جهانی ارزیابی کردند و افزودند: خصوصیت این انقلاب عظیم اسلامی این بود که به فضل الهی آن بهار تا امروز خزان نداشته است.
حضرت آیت الله خامنه ای تأکید کردند: اگر ملت ایران در مقابل تهدیدات استکبار جهانی عقب نشینی می کرد و از شعارهایش دست می کشید، این گلهای امید در دل ملتها پژمرده می شد.
ایشان افزودند: به برکت نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) و توجهات ائمه اطهار علیهم السلام و با ایستادگی ملت ایران، این نهالهای امید بارور شدند، بنابراین این توجه، توسل و از خدا دانستن و به خود غَرّه نشدن را باید در خودمان نگه داریم.
رهبر انقلاب در بخش دیگری از سخنانشان انتخاب\\\\\\\" شعر، آهنگ و صوت خوب\\\\\\\" را در حرفه زیبا، ظریف و مؤثر مداحی ضروری دانستند و خاطرنشان کردند: آنچه خوانده می شود باید به درستی انتخاب و جهات صوری و معنوی آن لحاظ شده باشد.
ایشان با اشاره به اینکه آهنگهای بد و لهوی نباید وارد حرفه مداحی شود افزودند: انتخاب و ابتکار شکلهای جدید در قرائت و آهنگ سازیها عیبی ندارد.
رهبر انقلاب با تأکید بر انتخاب مضمون مناسب در ذکر مناقب ائمه اطهار علیهم السلام خاطرنشان کردند: ذکر مناقب متقن، معتبر و مستند ، دلها را شاد می کند و شوق را برمی انگیزاند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به نیاز جامعه به نصایح ائمه و استفاده از گفتار و رفتار آن بزرگواران برای رشد اخلاق، افزودند: باید با گسترش خُلقیات خوب، روحیه همدلی، برادری، صفا و اخوت را در جامعه اعتلا بخشید و با ترویج خیرخواهی، تعاون، صبر، احسان، ایثار و گذشت، از تنگ نظری، ناامیدی، بدخواهی و بُخل پرهیز کرد.
ایشان پیشرفت جامعه مداحان را خوب توصیف و بر مسأله بصیرت بخشی در مداحی تأکید کردند اما در عین حال تعرض به دیگران را مذموم خواندند و افزودند: بر اثر بصیرت بود که ملت ایران توانسته است بایستد و استقلال، ایستادگی، معرفت و ایمان خود را حفظ کند.
حضرت آیت الله خامنه ای مطالعه و انس با قرآن و احادیث را برای جامعه مداحان ضروری دانستند و خطاب به آنان تصریح کردند: آیات و احادیثی که در آن نصیحت است آن را یادداشت و قرائت کنید.
ایشان با اشاره به اینکه توجه به دعا، توسل، ذکر، خشوع، نماز نافله و حفظ و تقویت آن باعث حل تدریجی کارهای دشوار در زندگی می شود افزودند: این رشته ارتباط با مقام احدیت که متصل با اهل بیت علیهم السلام است دل و ذهن را صفا می دهد.
در ابتدای این دیدار تعدادی از شاعران و مداحان اهل بیت علیهم السلام به ذکر فضایل و مناقب حضرت زهرا (س) پرداختند.
21:56
|
ديدار با اساتید و فارغالتحصیلان مهدویت - Syyed Ali Khamenei 9Jul11 Farsi sub Urdu
دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت با رهبر انقلاب...
دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12888
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی امروز در دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت، با اشاره به اهمیت بسیار بالای موضوع مهدویت به عنوان هدف حركت و مجاهدت انبیاء در طول تاریخ، انتظار را بخش جداییناپذیر موضوع مهدویت دانستند و تأكید كردند: یكی از موارد مهم و ضروری در مقولهی مهدویت، افزایش كارهای عالمانه، دقیق و متقن به دست اهل فن و متخصصان واقعی این موضوع و پرهیز از كارهای عامیانه، جاهلانه، غیرمعتبر و براساس تخیلات و توهمات است.
ایشان در سخنان خود، ابتدا به تبیین اهمیت موضوع مهدویت پرداختند و با تأكید بر اینكه مهدویت در شمار چند مسئله اصلی معارف عالیه دینی است، افزودند: هدف حركت انبیاء و بعثتها، پایهریزی جهانی با چارچوب توحیدی و براساس عدالت و بهرهگیری از همهی ظرفیتهای موجود در انسان است و دوران ظهور امام زمان عجلالله تعالی فرجهالشریف نیز، دوران حاكمیت حقیقی توحید، معنویت، دین و عدل بر شئون مختلف زندگی فردی و اجتماعی انسانها است.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: اگر مهدویت نباشد، همه تلاشها و مجاهدت انبیاء بیفایده و بیاثر خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای به موضوع مهدویت در ادیان الهی نیز اشاره كردند و افزودند: درهمهی ادیان الهی، تقریباً كلیاتی از حقیقت مهدویت بیان شده اما در اسلام، این موضوع از مسلمّات است و در میان مذاهب اسلامی نیز، شیعه، موضوع مهدویت را با مصداق روشن و جزئیات خانوادگی و شخصیتی فرد مورد انتظار كه از روایات معتبر و مستند شیعه و غیرشیعه، به دست آمده، مطرح میكند.
رهبر انقلاب اسلامی بعد از تبیین اهمیت موضوع مهدویت و جایگاه آن در ادیان الهی و مذاهب اسلامی، به موضوع انتظار به عنوان جزء جداییناپذیر مهدویت اشاره و خاطرنشان كردند: انتظار به معنای مترصد یك فرد زنده و حقیقت قطعی بودن، است و این معنا از انتظار، لوازمی دارد كه از جملهی آنها، آمادهشدن روحی و درونی و همچنین اجتماعی انسان برای دوران متوقع و با شرایط ویژه آن است.
حضرت آیتالله خامنهای در همین خصوص افزودند: فرد منتظِر باید همواره خصوصیات و ویژگیهای لازم دوران مورد انتظار را در خود حفظ و تقویت كند و این انتطار، به گونهای است كه از یك طرف، هیچگاه نباید آن را طولانی مدت تصور كرد و از طرف دیگر هیچگاه نباید آن را بسیار نزدیك دانست.
ایشان با اشاره به ویژگیهای دوران ظهور حضرت صاحبالزمان (عج)، تأكید كردند: دوران آن حضرت، دوران حاكمیت توحید، عدل، حق، اخلاص، و عبودیت خدا است، بنابراین افراد منتظِر نیز باید همواره خود را به این ویژگیها نزدیك كنند و به وضع موجود راضی نباشند.
سومین نكتهای كه رهبر انقلاب اسلامی در موضوع مهدویت به آن اشاره كردند، ضرورت انجام كارهای عالمانه، دقیق و مستند بود.
حضرت آیت الله خامنه ای خاطرنشان كردند: یكی از خطرهای بزرگ در موضوع مهدویت، كارهای عامیانه، جاهلانه، غیرمستند و متكی بر تخیلات و توهمات است كه زمینهساز مدعیان دروغین و دوری مردم از حقیقت واقعی انتظار خواهد شد.
ایشان با اشاره به مدعیان دروغینی كه در طول تاریخ برخی علائم ظهور را بر خود یا دیگران تطبیق میدادند، افزودند: همهی این موارد غلط و انحرافی است زیرا برخی مطالب دربارهی علائم ظهور، غیرقابل استناد و ضعیف است و مطالب معتبر را هم نمیتوان براحتی تطبیق داد.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: اینگونه مطالب غلط و انحرافی، باعث میشوند، حقیقت اصلی مهدویت و انتظار مهجور بماند، بنابراین، باید به شدت از كارها و شایعات عوامانه پرهیز كرد.
حضرت آیتالله خامنهای خاطرنشان كردند: البته كار عالمانه و مستند درباره موضوع مهدویت و انتظار نیز بر عهدهی اهل فن و متخصصانی است كه علم حدیث و رجال را به خوبی میدانند و با مسائل و تفكرات فلسفی آشنایی كامل دارند.
آخرین محوری كه رهبر انقلاب اسلامی درخصوص مقولهی مهدویت به آن اشاره كردند، موضوع توسل به امام زمان(عج) و انُس با آن حضرت بود.
ایشان خاطرنشان كردند: آشنایی صحیح و علمی با مقولهی مهدویت زمینه ساز انُس بیشتر با حضرت حجت(عج) و حركت شتابانتر به سمت اهداف عالیه خواهد بود.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: در موضوع انُس با آن حضرت و توسل به ایشان نیز آنچه صحیح و مورد نظر است، توجه و توسل از دور است كه حضرت مهدی(عج) انشاءالله آن را میپذیرند اما برخی ادعاها و مطالب عامیانه درخصوص انُس با حضرت، از طریق دیدار حضوری، غالباً دروغ و یا تخیلات ذهنی است.
حضرت آیتالله خامنهای در بخش دیگری از سخنان خود ضمن تشكر از دستاندركاران، به خدمات فراوان حجتالاسلام والمسلمین قرائتی در بخشهای مختلف بویژه موضوعات نماز، زكات، تفسیر، مهدویت و مبارزه با بیسوادی اشاره كردند و افزودند: آقای قرائتی نمونهی بسیار خوب و الگوی شایستهای است زیرا خدمات ایشان همواره در عرصههایی بوده كه خلاء و نیاز فراوانی در آنجا احساس شده است و این چنین همت و تلاشی، ارزش مضاعف دارد.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به اینكه نیت خالصانه و برای خدا، تأثیر شگرفی در پیشرفت كارها دارد، بر لزوم استمرار و پیگیری كارهای انجام شده در عرصههای مختلف تأكید كردند.
در ابتدای این دیدار حجتالاسلام والمسلمین قرائتی، گزارشی از فعالیتهای انجام گرفته در نهضت سواد آموزی، ستاد اقامه نماز، ستاد زكات، و تفسیر قرآن كریم ارائه كرد و درخصوص موضوع مهدویت گفت: تاكنون سیصد نفر بصورت تخصصی در موضوع مهدویت تحصیل كردهاند و آموزشهای مجازی، كوتاه مدت و تربیت مربی مهدویت نیز ایجاد شده است.
وی انتشار چند فصلنامه و راهاندازی چندین سایت و مجله الكترونیكی در موضوع مهدویت را از دیگر اقدامات انجام گرفته برشمرد.
در این دیدار جمعی از فعالان و مسئولان ستادهای اقامه نماز، زكات، نهضت سواد آموزی، ترویج فرهنگ قرآنی و تفسیر حضور داشتند.
More...
Description:
دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12888
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی امروز در دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت، با اشاره به اهمیت بسیار بالای موضوع مهدویت به عنوان هدف حركت و مجاهدت انبیاء در طول تاریخ، انتظار را بخش جداییناپذیر موضوع مهدویت دانستند و تأكید كردند: یكی از موارد مهم و ضروری در مقولهی مهدویت، افزایش كارهای عالمانه، دقیق و متقن به دست اهل فن و متخصصان واقعی این موضوع و پرهیز از كارهای عامیانه، جاهلانه، غیرمعتبر و براساس تخیلات و توهمات است.
ایشان در سخنان خود، ابتدا به تبیین اهمیت موضوع مهدویت پرداختند و با تأكید بر اینكه مهدویت در شمار چند مسئله اصلی معارف عالیه دینی است، افزودند: هدف حركت انبیاء و بعثتها، پایهریزی جهانی با چارچوب توحیدی و براساس عدالت و بهرهگیری از همهی ظرفیتهای موجود در انسان است و دوران ظهور امام زمان عجلالله تعالی فرجهالشریف نیز، دوران حاكمیت حقیقی توحید، معنویت، دین و عدل بر شئون مختلف زندگی فردی و اجتماعی انسانها است.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: اگر مهدویت نباشد، همه تلاشها و مجاهدت انبیاء بیفایده و بیاثر خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای به موضوع مهدویت در ادیان الهی نیز اشاره كردند و افزودند: درهمهی ادیان الهی، تقریباً كلیاتی از حقیقت مهدویت بیان شده اما در اسلام، این موضوع از مسلمّات است و در میان مذاهب اسلامی نیز، شیعه، موضوع مهدویت را با مصداق روشن و جزئیات خانوادگی و شخصیتی فرد مورد انتظار كه از روایات معتبر و مستند شیعه و غیرشیعه، به دست آمده، مطرح میكند.
رهبر انقلاب اسلامی بعد از تبیین اهمیت موضوع مهدویت و جایگاه آن در ادیان الهی و مذاهب اسلامی، به موضوع انتظار به عنوان جزء جداییناپذیر مهدویت اشاره و خاطرنشان كردند: انتظار به معنای مترصد یك فرد زنده و حقیقت قطعی بودن، است و این معنا از انتظار، لوازمی دارد كه از جملهی آنها، آمادهشدن روحی و درونی و همچنین اجتماعی انسان برای دوران متوقع و با شرایط ویژه آن است.
حضرت آیتالله خامنهای در همین خصوص افزودند: فرد منتظِر باید همواره خصوصیات و ویژگیهای لازم دوران مورد انتظار را در خود حفظ و تقویت كند و این انتطار، به گونهای است كه از یك طرف، هیچگاه نباید آن را طولانی مدت تصور كرد و از طرف دیگر هیچگاه نباید آن را بسیار نزدیك دانست.
ایشان با اشاره به ویژگیهای دوران ظهور حضرت صاحبالزمان (عج)، تأكید كردند: دوران آن حضرت، دوران حاكمیت توحید، عدل، حق، اخلاص، و عبودیت خدا است، بنابراین افراد منتظِر نیز باید همواره خود را به این ویژگیها نزدیك كنند و به وضع موجود راضی نباشند.
سومین نكتهای كه رهبر انقلاب اسلامی در موضوع مهدویت به آن اشاره كردند، ضرورت انجام كارهای عالمانه، دقیق و مستند بود.
حضرت آیت الله خامنه ای خاطرنشان كردند: یكی از خطرهای بزرگ در موضوع مهدویت، كارهای عامیانه، جاهلانه، غیرمستند و متكی بر تخیلات و توهمات است كه زمینهساز مدعیان دروغین و دوری مردم از حقیقت واقعی انتظار خواهد شد.
ایشان با اشاره به مدعیان دروغینی كه در طول تاریخ برخی علائم ظهور را بر خود یا دیگران تطبیق میدادند، افزودند: همهی این موارد غلط و انحرافی است زیرا برخی مطالب دربارهی علائم ظهور، غیرقابل استناد و ضعیف است و مطالب معتبر را هم نمیتوان براحتی تطبیق داد.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: اینگونه مطالب غلط و انحرافی، باعث میشوند، حقیقت اصلی مهدویت و انتظار مهجور بماند، بنابراین، باید به شدت از كارها و شایعات عوامانه پرهیز كرد.
حضرت آیتالله خامنهای خاطرنشان كردند: البته كار عالمانه و مستند درباره موضوع مهدویت و انتظار نیز بر عهدهی اهل فن و متخصصانی است كه علم حدیث و رجال را به خوبی میدانند و با مسائل و تفكرات فلسفی آشنایی كامل دارند.
آخرین محوری كه رهبر انقلاب اسلامی درخصوص مقولهی مهدویت به آن اشاره كردند، موضوع توسل به امام زمان(عج) و انُس با آن حضرت بود.
ایشان خاطرنشان كردند: آشنایی صحیح و علمی با مقولهی مهدویت زمینه ساز انُس بیشتر با حضرت حجت(عج) و حركت شتابانتر به سمت اهداف عالیه خواهد بود.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: در موضوع انُس با آن حضرت و توسل به ایشان نیز آنچه صحیح و مورد نظر است، توجه و توسل از دور است كه حضرت مهدی(عج) انشاءالله آن را میپذیرند اما برخی ادعاها و مطالب عامیانه درخصوص انُس با حضرت، از طریق دیدار حضوری، غالباً دروغ و یا تخیلات ذهنی است.
حضرت آیتالله خامنهای در بخش دیگری از سخنان خود ضمن تشكر از دستاندركاران، به خدمات فراوان حجتالاسلام والمسلمین قرائتی در بخشهای مختلف بویژه موضوعات نماز، زكات، تفسیر، مهدویت و مبارزه با بیسوادی اشاره كردند و افزودند: آقای قرائتی نمونهی بسیار خوب و الگوی شایستهای است زیرا خدمات ایشان همواره در عرصههایی بوده كه خلاء و نیاز فراوانی در آنجا احساس شده است و این چنین همت و تلاشی، ارزش مضاعف دارد.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به اینكه نیت خالصانه و برای خدا، تأثیر شگرفی در پیشرفت كارها دارد، بر لزوم استمرار و پیگیری كارهای انجام شده در عرصههای مختلف تأكید كردند.
در ابتدای این دیدار حجتالاسلام والمسلمین قرائتی، گزارشی از فعالیتهای انجام گرفته در نهضت سواد آموزی، ستاد اقامه نماز، ستاد زكات، و تفسیر قرآن كریم ارائه كرد و درخصوص موضوع مهدویت گفت: تاكنون سیصد نفر بصورت تخصصی در موضوع مهدویت تحصیل كردهاند و آموزشهای مجازی، كوتاه مدت و تربیت مربی مهدویت نیز ایجاد شده است.
وی انتشار چند فصلنامه و راهاندازی چندین سایت و مجله الكترونیكی در موضوع مهدویت را از دیگر اقدامات انجام گرفته برشمرد.
در این دیدار جمعی از فعالان و مسئولان ستادهای اقامه نماز، زكات، نهضت سواد آموزی، ترویج فرهنگ قرآنی و تفسیر حضور داشتند.
[01] H.I. Syed Ali Murtaza Zaidi - Majlis in Dharna at Numaesh Chorangi - 15 Dec 2012 - Urdu
Speaker : Hujjatul Islam Syed Ali Murtaza Zaidi
Majlis 1
date : 1 Safar 1434 - 15 December 2012
Topic : امت کی بنیادی مشکلات، قرآن و سنت کی روشنی میں Ummat ki...
Speaker : Hujjatul Islam Syed Ali Murtaza Zaidi
Majlis 1
date : 1 Safar 1434 - 15 December 2012
Topic : امت کی بنیادی مشکلات، قرآن و سنت کی روشنی میں Ummat ki bunyadi Mushkilaat quran-o Sunnat ki roshni me
Venue : Dharna at Numaesh Chorangi - Karachi
More...
Description:
Speaker : Hujjatul Islam Syed Ali Murtaza Zaidi
Majlis 1
date : 1 Safar 1434 - 15 December 2012
Topic : امت کی بنیادی مشکلات، قرآن و سنت کی روشنی میں Ummat ki bunyadi Mushkilaat quran-o Sunnat ki roshni me
Venue : Dharna at Numaesh Chorangi - Karachi
5:17
|
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e Quran in a moment (one night) - Part 2
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in...
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
More...
Description:
kazim karbalai
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
این حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
می توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ تفكرات مادی قرار می گرفت. در نتیجه وجود ایشان در آن زمان بسیار مؤثر بود. اساساً خداوند در هر عصری حجت هایی را به مردم نشان می دهد.مرحوم كربلایی كاظم هم در روزگار ما و در این زمینه ها حجت خدا بود.
متن دستخط مرح?
12:35
|
[4] Janbaz Arabic Farsi Urdu قمربنی ہاشم(ع) - بین الاقوامی منقبت خوانی گروپ
بین الاقوامی منقبت خوانی گروپ
قمربنی ہاشم(ع)
شہرمقدس قم کے جانباز
قمربنی ہاشم منقبت خوانی گروپ ایک...
بین الاقوامی منقبت خوانی گروپ
قمربنی ہاشم(ع)
شہرمقدس قم کے جانباز
قمربنی ہاشم منقبت خوانی گروپ ایک مقدس مقصد کے ساتھ نشر قرآن کریم،سیرہ اہلبیت(ع)،اسلامی ،انقلاب اسلامی اوردفاع مقدس کے عظیم مقاصد کو روشناس اور عام کرنے کی غرض سے سن 1373 ھ،ش میں شہر مقدس قم میں معرض وجود میں آئی اورسن 1374 میں بین الصوبائی دو قرآنی اور منقبت خوانی مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی.
یہ گروپ تمام ملکی شہروں میں 1500 کے قریب پروگرام کرنے کے علاوہ 25 مختلف ممالک سعودی عرب،عراق،شام،لبنان،سودان، تانزانیا،قطر،جرمن،سوئزلیند،اتریش ،فنلاند اور مختلف ایرانی جیلوں میں بھی پروگرام کیئے ہیں .
گروپ کے افراد ہر ایک مختلف قرآنی،تہذیبی،علمی،ورزشی میدانوں میں بہت شاندار کارناموں کے حامل ہیں،ان میں سے یونیورسٹی پرفیسرز ،اسپورٹس المپیک کپ جیتنے والے،قرآنی مختلف حفظ،قرآت اورتفسیری مقابلوں کے پوزیشن ہولڈر اور بہترین اور منتخب جانبازیں شامل ہیں.
انہوں نے رمضان 1374 ھ.ش میں اپنے بہترین منقبت خوانی پروگرام کو رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے حضور میں پیش کیئے.
مسجد الحرام،مسجد نبوی،روضہ حضرت عباس،امام حسین اور امام علی(ع) کے صحن اقدس اور مراجع عظام اور ملکی شخصیات کے حضور میں بھی بہت شاندار پروگرام کیئے ہیں.
گروپ میں شامل افراد کے نام:
1- یحیی ابطحی (سرپرست اعلی) 3- علی علیزادہ
4- علی بابکی 5- علی دوازدہ امامی
5- سیدسعیدرضا چاوشی 6- حسن نیکنامیان
More...
Description:
بین الاقوامی منقبت خوانی گروپ
قمربنی ہاشم(ع)
شہرمقدس قم کے جانباز
قمربنی ہاشم منقبت خوانی گروپ ایک مقدس مقصد کے ساتھ نشر قرآن کریم،سیرہ اہلبیت(ع)،اسلامی ،انقلاب اسلامی اوردفاع مقدس کے عظیم مقاصد کو روشناس اور عام کرنے کی غرض سے سن 1373 ھ،ش میں شہر مقدس قم میں معرض وجود میں آئی اورسن 1374 میں بین الصوبائی دو قرآنی اور منقبت خوانی مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی.
یہ گروپ تمام ملکی شہروں میں 1500 کے قریب پروگرام کرنے کے علاوہ 25 مختلف ممالک سعودی عرب،عراق،شام،لبنان،سودان، تانزانیا،قطر،جرمن،سوئزلیند،اتریش ،فنلاند اور مختلف ایرانی جیلوں میں بھی پروگرام کیئے ہیں .
گروپ کے افراد ہر ایک مختلف قرآنی،تہذیبی،علمی،ورزشی میدانوں میں بہت شاندار کارناموں کے حامل ہیں،ان میں سے یونیورسٹی پرفیسرز ،اسپورٹس المپیک کپ جیتنے والے،قرآنی مختلف حفظ،قرآت اورتفسیری مقابلوں کے پوزیشن ہولڈر اور بہترین اور منتخب جانبازیں شامل ہیں.
انہوں نے رمضان 1374 ھ.ش میں اپنے بہترین منقبت خوانی پروگرام کو رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے حضور میں پیش کیئے.
مسجد الحرام،مسجد نبوی،روضہ حضرت عباس،امام حسین اور امام علی(ع) کے صحن اقدس اور مراجع عظام اور ملکی شخصیات کے حضور میں بھی بہت شاندار پروگرام کیئے ہیں.
گروپ میں شامل افراد کے نام:
1- یحیی ابطحی (سرپرست اعلی) 3- علی علیزادہ
4- علی بابکی 5- علی دوازدہ امامی
5- سیدسعیدرضا چاوشی 6- حسن نیکنامیان
Greatness of the Quran and the Bahrain Defence Rally عظمت قرآن و دفاع بحرین ریلی.- Urdu
Greatness of the Qur\\\'an and the Bahrain Defence Rally عظمت قرآن و دفاع بحرین ریلی : کراچی.- Urdu
MWM, SUC, ISO, PWF, Hayate Aema Imamia, Hawzaete Ilmia Imamia Karachi
Greatness of the Qur\\\'an and the Bahrain Defence Rally عظمت قرآن و دفاع بحرین ریلی : کراچی.- Urdu
MWM, SUC, ISO, PWF, Hayate Aema Imamia, Hawzaete Ilmia Imamia Karachi