[URDU] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن...
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
More...
Description:
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
Supreme Leader Meets with Pilgrims at Imam Ridha (a.s) Shrine - 21 March 2013 - Mashhad - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم...
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
More...
Description:
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22233
بیانات در حرم مطهر رضوی
در اولین روز سال ۱۳۹۲
بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. السّلام علی الصّدّیقة الطّاهرة فاطمة بنت رسول الله صلّی الله علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها.
به همهی برادران و خواهران عزیزی كه در این محفلِ گرم و پرشور حضور یافتهاند، سلام و تبریك عرض میكنم و خدا را از اعماق دل سپاسگزارم كه فرصت عنایت كرد و مهلت داد تا یك بار دیگر و یك سال دیگر و یك نوروز دیگر، در جوار بارگاه ملكوتی حضرت ابا الحسن الرّضا (علیه ءالاف التّحیّة و السّلام) در جمع شما مردم عزيز مشهد و زوار محترمی كه از اكناف كشور حضور دارند، امكان و توفيق ملاقات و ديدار پيدا كنم و با شما دربارهی مسائل جاری و مهم كشور سخن بگويم. از خداوند متعال مسئلت ميكنيم كه دل ما را و زبان ما را هدايت فرمايد و آنچه مورد رضای او است، بر قلب و زبان ما جاری شود. اين هم يك توفيق بزرگی است كه در عيد نوروز، در كنار شادیها و زيبائیهائی كه در طبيعتِ نوروز وجود دارد، اين فرصت، هر ساله برای ما دست ميدهد كه در چنين روزی در جمع شما مردم، به مسائل كشور و ارزيابی وضع كنونی خود و نگاه به گذشته و آيندهی خود بپردازيم؛ با يك نگاه اجمالی، وضع دخل و خرج يكسالهی خودمان را در ابعاد كلان ملی بررسی كنیم، محاسبه كنیم؛ محاسبهی نفس ملی، محاسبهی نفس عمومی. همچنان كه در مسائل شخصی، محاسبهی نفس برای ما لازم است ــ كه فرمود: «حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا»؛[1] باید محاسبهی كار خود و اعمال خود و حركات شخصی خود را داشته باشیم ــ محاسبهی ملی هم یك كار بااهمیت و پرارزش است؛ خودمان را محاسبه كنیم، به خودمان نگاه كنیم؛ آنچه را كه بر ما گذشته است، بار دیگر مورد نظر قرار دهیم؛ از آن درس و عبرت بگیریم، برای آینده بهره ببریم.
برادران و خواهران عزیز توجه كنند كه ما ملت ایران، فقط خودمان نیستیم كه به مسائل خودمان نگاه میكنیم و آن را تقویم و ارزیابی میكنیم؛ كسان دیگری هم هستند كه كار ما را مورد مطالعه قرار میدهند؛ دربارهی مسائل ما، كارهای ما، اقدامات ما قضاوت ميكنند و نظر ميدهند. ملتهائی هستند كه از تجربههای ما استفاده ميكنند، بعضِ ديگری هستند كه به مطالعهی اوضاع ملت ايران اشتغال دارند؛ از پيشرفتهای ما خرسند ميشوند، از موفقيتهای ما خوشحال ميشوند؛ ما اگر پيروزی به دست بياوريم، آنها احساس پيروزی ميكنند؛ اگر تلخی و تلخكامی در كار ما باشد، آنها تلخكام ميشوند. كسان ديگری هم در دنيا هستند كه كار ما را زير ذرهبين دارند، كار ما را مطالعه ميكنند؛ آنها بعكس، از لغزشهای ما خوشحال ميشوند، از موفقيتهای ما احساس دلتنگی ميكنند، بدخواه ملت ايرانند؛ اينها هم كار ما را زير نظر دارند. اينها عمدتاً كسانی هستند كه در طول سالهای متمادی همه چيز اين كشور در اختيار آنها بوده است، بر همهی امور كشور ما مسلط بودند؛ انقلاب آمده است دست اینها را كوتاه كرده؛ لذا با انقلاب بدند، با مردم انقلابی بدند، با حكومت انقلابی بدند، با نظام انقلابی دشمنند. بنابراین ما زیر نظر جامعهی بزرگی از آحاد بشر هستیم؛ كار ما را نگاه میكنند، عمل ما را میسنجند.
بنابراین ما كه به عملكرد خودمان و برنامهی گذشته و آیندهی خودمان نگاه میكنیم، نگاهمان بايد واقعبینانه باشد؛ ارزیابی ما ارزیابی درستی باشد. بعضی از مردمِ خود ما وقتی به اوضاع كشور نگاه میكنند، فقط ضعفها را میبینند؛ گرانی را میبینند، افت تولید در برخی از واحدهای تولیدی كشور را میبینند، فشارهای دشمنان را میبینند. این نگاه، نگاه ناقصی است. بنده نگاه متفاوتی دارم. من وقتی به اوضاع كشور و اوضاع ملتمان نگاه میكنم، یك میدان عظیم پرچالشی را مشاهده میكنم كه ملت ایران در این میدان، به رغم دشمنان، سربلند و پيروز ظاهر شده است.
ضعفها هست، مشكلات هست؛ در مجموعهی حوادث و رويدادهای كشور، تلخیها و تلخكامیهائی وجود دارد؛ ولی كسانی از قدرتمندان مادی عالم، با همهی وجود تلاش كردند كه ملت ايران را فلج كنند؛ اين را به زبان آوردند. آن خانم بیكفايتی كه مسئوليت سياست خارجی كشور آمريكا را بر عهده داشت، سينهاش را سپر كرد و گفت ميخواهيم تحريمهائی در مورد جمهوری اسلامی اعمال كنيم كه ايران فلج شود! اين را صريحاً به زبان آوردند. و حالا عرض خواهم كرد كه فعاليتها و اقدامهاي آنها چه بود و چه شد و به كجا انجاميد. بنابراين از يك طرف، تلاش دشمن است در اين عرصهی عظيم و ميدان بزرگی كه ملت ايران در آن به چالش و مقابله با دشمن سرگرم است؛ از طرف ديگر، وجود دستاوردهای بزرگی است كه نشاندهندهی ظرفيت و قدرت و هوشمندی اين ملت بزرگ است. وقتی انسان اين صحنه را ملاحظه ميكند، مثل صحنهی هماورديِ ورزشكاران قدرتمندی است كه زحمت و تلاش و كوشش و خستگی در آن هست، اما يك قهرمان، در اين ميدان موفق ميشود، پيروز ميشود؛ همه او را تحسين ميكنند و آفرين ميگويند. اين قهرمان در اين صحنهی عظيمی كه در مقابل چشم ما است، ملت ايران است. هر كس اين صحنه را درست ببيند و درست مطالعه كند، به ملت ايران آفرين ميگويد؛ همچنان كه ما امروز صدای آفرين هوشمندان نكتهبين دنيا را ميشنويم كه از ميان همان كشورهائی كه دشمن و بدخواه ملت ايرانند، نخبگان سياسی، نخبگان دانشگاهی، افراد دنياديده و مجرب كه اوضاع را زير نظر دارند، به ملت ايران آفرين ميگويند. اين عرصهای است كه در مقابل چشم ما است. بنابراين نگاه كردن و فقط به ضعفها چشم دوختن، غلط است. بايد ديد مجموعهی اين تلاشها در سطح كشور چگونه انجام ميگيرد و به چه سرانجامی منتهی ميشود. با اين ديد وقتی به صحنه نگاه كنيم، بايد به ايران و ايرانيِ مسلمان آفرين بگوئيم.
گفتيم بعضیها از پيشرفت ملت ايران غمگين و ناراحت ميشوند. اينها چه كسانی هستند؟ اين را بعد عرض خواهم كرد. دشمنانی كه مايل نيستند پيشرفت و ترقی و رشد همهجانبهی ملت ايران را ببينند، دو كار عمده در برنامهی آنها وجود دارد: يكی اين كه تا آنجائی كه بتوانند، مانعتراشی كنند كه ملت نتواند به اين پيشرفتها و رشد دست پيدا كند؛ با تحريم، با تهديد، با مشغول كردن مديران به كارهای درجهی دو و فرعی، به منعطف كردن حواس ملت بزرگ ايران و نخبگان كشور به كارهائی كه در فهرست كارهای اصلی آنها قرار ندارد؛ يعنی مانع شدن عملی.
كار دوم اين است كه در تبليغاتِ خودشان پيشرفتها را انكار كنند. امروز یك شبكهی تبلیغاتیِ بسیار عظیم با هزاران رسانه از انواع گوناگون رسانهها در دنیا مشغول به كار است، برای اینكه اثبات كند كه در ملت ایران، در كشور ایران پیشرفتی صورت نمیگیرد؛ پیروزیهای ملت را انكار كنند؛ اگر ضعفهائی وجود دارد، این ضعفها را بزرگ و عمده كنند و در مقابل چشم همه قرار دهند؛ اما قوّتها و نقاط جوشش را ــ كه در سراسر كشور و در هر گوشه و كنار، خود را به انسانهای منصف نشان میدهند ــ از چشمها پنهان كنند.
رئیس جمهور آمریكا در نطق رسمی، از مشكلات اقتصادی ایران حرف میزند؛ مثل اینكه از پیروزی خود دارد صحبت میكند؛ كه بله، در ایران پول ملی افت كرده است، مشكلات اقتصادی اینچنین و آنچنان است. البته او به قوّتهای این ملت، به تلاشهای مثبت و سازندهای كه در این كشور دارد انجام میگیرد، به پیروزیهای بزرگ این ملت اشارهای نكرده است و هرگز نخواهد كرد. سی سال است كه ما با چنین چالشی مواجهایم ــ كه من در ارزیابی این سی سال، بعداً یك كلمه عرض خواهم كرد ــ اما چالشی كه ملت ایران با آن مواجه است و دشمنانی ــ هم در عمل و هم در تبليغات ــ كوشش ميكنند مانع بروز و ظهور رشد چشمگير كشور ايران كه در سايهی اسلام زندگی ميكند، بشوند، امروز چند برابر است.
سال 91 كه گذشت، يكی از سالهای بسيار پر كار برای دشمنان ما در اين زمينه بود. آنها گفتند ميخواهيم ملت ايران را با تحريمها فلج كنيم. اگر جمهوری اسلامی سر پا باشد، بانشاط باشد، رو به پيشرفت باشد، آنها در دنيا بیآبرو ميشوند؛ لذا اگر ميتوانند، بايد نگذارند؛ و اگر كار از دستشان خارج شد، لااقل در تبليغات جور ديگری اين مطلب را منعكس و وانمود كنند. اينها اين دو كار را امروز با شدت بيشتری انجام ميدهند؛ هم ممانعت عملی ــ با فشار، با تهديد، با تحريم و امثال اينها ــ هم با تلاش تبليغاتی برای كوچك نشان دادن نقطههای قوّت، و بزرگ نشان دادن نقطههای ضعف.
عرض كرديم دشمنانی هستند. اين دشمنان چه كسانی هستند؟ لانهی اصلی توطئه عليه ملت ايران كجاست؟ پاسخ به اين سؤال، دشوار نيست. امروز سی و چهار سال است كه هرگاه نام «دشمن» برده ميشود، ذهن ملت ايران متوجه دولت آمريكا ميشود. خوب است دولتمردان آمريكا به اين نكته توجه كنند و اين را بفهمند كه ملت ايران در طول اين سی و چند سال چيزهائی ديده است، مراحلی را گذرانده است، كه تا ميگويند دشمن، ذهن ملت ايران متوجه به آمريكا ميشود. اين مسئلهی بسيار مهمی است برای يك دولتی كه ميخواهد در دنيا با آبرو زندگی كند؛ اين مسئله، مسئلهی قابل توجه و قابل دقتی است؛ بايد روی اين مسئله تكيه كنند. مركز توطئه اينجا است، اساس دشمنی اينجا است.
البته دشمنهای ديگری هم هستند كه ما اينها را در درجهی اول و در رديف اول به حساب نمیآوريم: دشمن صهيونيستی هم هست، منتها رژيم صهيونيستی در قواره و اندازهای نيست كه در صف دشمنان ملت ايران به چشم بيايد. گاهی سردمداران رژيم صهيونيستی، ما را تهديد هم ميكنند؛ تهديد به حملهی نظامی ميكنند؛ اما بهنظرم خودشان هم ميدانند، و اگر نميدانند، بدانند كه اگر غلطی از آنها سر بزند، جمهوری اسلامی «تلآويو» و «حيفا» را با خاك يكسان خواهد كرد. دولت انگليسِ خبيث هم با ملت ايران دشمنی ميكند؛ اين هم يكی از دشمنان سنتی و قديمی ملت ايران است؛ منتها دولت انگليس نقش مكمل آمريكا را در اين ميدان بازی ميكند. خود دولت انگليس استقلالی ندارد كه انسان او را يك دشمن مستقلی به حساب بياورد؛ دنبالهروِ آمريكا است.
بعضی از دولتهای ديگر هم دشمنیهائی دارند. من اينجا مناسب ميدانم كه بگويم مسئولين دولت فرانسه هم در چند سال اخير دشمنیهای آشكاری با ملت ايران كردهاند؛ اين يك ناهوشمندی از سوی دولتمردان فرانسه است. انسان عاقل، بخصوص سياستمدار عاقل، هرگز نبايد انگيزهی اين را داشته باشد كه موجودی را كه دشمن او نيست، تبديل به دشمن كند. ما با دولت فرانسه، با كشور فرانسه مشكلی نداشتيم؛ نه در طول تاريخ مشكلی داشتيم، نه در دوران حاضر؛ اما سياست غلط از زمان ساركوزی ــ كه دولت امروز فرانسه هم متأسفانه همان راه را میرود ــ دشمنی با ملت ایران است. به نظر ما این كار غلطی است، كار غیرمدبرانه و غیرعاقلانهای است، كار ناهوشمندانهای است.
آمریكائیها وقتی حرف میزنند، میگویند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\". اسم چندتا كشور را گذاشتهاند «جامعهی جهانی»؛ كه در رأس آنها آمریكا است، دنبال سرش هم صهیونیستها و دولت انگلیس و بعضی از دولتهای خردهریز دیگر است! جامعهی جهانی به هیچ وجه در صدد دشمنی با ایران و ایرانی و ایران اسلامی نیست.
خب، حالا كه بنا است به سال 91 نگاه كنیم، این را بگوئیم كه از اول سال 91 آمریكائیها برنامههای جدید خودشان را شروع كردند؛ با اینكه در زبان اظهار دوستی كردند، گاهی با ما اظهار دوستی كردند ــ در نامه و پیغام و امثال اینها ــ گاهی در رسانهها با ملت ایران اظهار دوستی كردند، اما برخلاف این اظهارات غیرواقعی، در عمل سعی كردند نسبت به ایران و ملت ایران سختگیری كنند؛ تحریمهای شدیدی را از اوائل سال 91 گذاشتند ــ تحریم نفت، تحریم بانك و مبادلات بانكی و پولی بین جمهوری اسلامی و كشورهای دیگر ــ كارهای زیادی هم در این زمینه انجام دادند.
اين هم يكی از آن لطائف عالم است كه آمريكائیها دشمنی ميكنند، ميگويند شما نفهميد كه ما با شما دشمنيم؛ مخالفت و عناد ميورزند، متوقعند كه ملت ايران نفهمد كه آنها معاندند و دشمنی ميكنند! اين سياست از اواخر دوران بوش در مقابل ايران شروع شده است، امروز هم متأسفانه همان سياست را دولتمردان آمريكا ادامه ميدهند؛ همان پنجهی چدنيِ زير دستكش مخملی. من چند سال پيش اينجا در جوار بقعهی علیبنموسیالرضا (عليه السّلام) در همين سخنرانيِ اول فروردين گفتم مراقب باشيد اظهار محبت شما، اظهار دوستی و موافقت شما به معنای اين نباشد كه دستكش مخملی بر روی پنجهی چدنی كشيديد و ميخواهيد تظاهر به دوستی كنيد، اما در باطن دشمنی ميكنيد. آمريكائیها برای متوقف كردن فروش نفت و انتقال پول ايران، مأمور ويژه فرستادند. از آمريكا افراد برجسته و خاصی را مأمور كردند كه با كشورها تماس بگيرند، به كشورها مسافرت كنند؛ حتّی با سران شركتها صحبت كنند برای اينكه ارتباطات و اتصالات اقتصادی مربوط به نفت را با جمهوری اسلامی پيگيری نكنند؛ آنها را مجازات كنند به خاطر اين كه با جمهوری اسلامی ارتباط مالی دارند، ارتباط پولی دارند، يا معامله در مورد نفت دارند؛ اين كار را از اول سال 91 و بخصوص از مرداد، با شدتِ تمام شروع كردند. انتظار داشتند ايران در مقابل اين حركتِ برنامهريزی شده كه با شدت دنبال هم ميكردند، دست از فعاليتهای رشديابندهی علميِ خود بردارد و تسليم زورگوئیهای آمريكا شود.
البته من اين را بگويم ــ اين را يك بار ديگر هم چند ماه قبل از اين گفتم ــ كه آمريكائیها اظهار خوشحالی كردند و گفتند كه فلانی اعتراف كرد كه تحريمها اثر گذاشته. بله، تحريمها بیاثر نبود؛ ميخواهند خوشحالی كنند، بكنند. تحريمها بالاخره اثر گذاشت؛ اين هم يك اشكال اساسی در خود ما است. اقتصاد ما دچار اين اشكال است كه وابستهی به نفت است. ما بايد اقتصاد خودمان را از نفت جدا كنيم؛ دولتهای ما در برنامههای اساسيِ خودشان اين را بگنجانند. من هفده هجده سال قبل به دولتی كه در آن زمان سر كار بود و به مسئولان گفتم كاری كنيد كه ما هر وقت اراده كرديم، بتوانيم درِ چاههای نفت را ببنديم. آقايانِ به قول خودشان \\\\\\\\\\\\\\\"تكنوكرات\\\\\\\\\\\\\\\" لبخند انكار زدند كه مگر ميشود؟! بله، ميشود؛ بايد دنبال كرد، بايد اقدام كرد، بايد برنامهريزی كرد. وقتی برنامهی اقتصادی يك كشور به يك نقطهی خاص متصل و وابسته باشد، دشمنان روی آن نقطهی خاص تمركز پيدا ميكنند. بله، تحريمها اثر گذاشت، منتها نه آن اثری را كه دشمن ميخواست؛ كه من حالا اين مسئله را شرح خواهم داد. اين در مورد كار اقتصادی بود.
در عرصهی سياسی هم در طول سال 91 سعی كردند ايران اسلامی را به تعبير خودشان در دنيا منزوی كنند؛ يعنی دولتها را در رابطهشان و در نگاهشان به جمهوری اسلامی دچار تزلزل كنند و نگذارند جمهوری اسلامی سياستهای خود را در سطح منطقه، در سطح جهان و در سطح كشورِ خود گسترش دهد و اعمال كند. اين كار با شكست كامل روبهرو شد. در مسائل بينالمللی سعی اينها اين بود كه ما چون اجلاس غيرمتعهدها را در تهران داشتيم، كاری كنند كه اين اجلاس سست و سبك برگزار شود؛ همه شركت نكنند، يا شركت فعال نكنند. درست عكس آنچه كه آنها ميخواستند، اتفاق افتاد. دو ثلث ملتهای جهان عضو جنش غيرمتعهدها هستند. سران كشورها در تهران شركت كردند، مسئولان بلندپايه شركت كردند. همه ايران را تحسين كردند، همه از پيشرفتهای علمی و فنّاوری و اقتصادی كشور اظهار شگفتی كردند. همه در مقابل ملت ايران احساس تمجيد و تحسين كردند؛ اين را به ما هم گفتند، در مصاحبههايشان هم گفتند؛ به كشورهايشان هم كه برگشتند، اين را همه تصديق كردند. درست نقطهی مقابل آنچه كه دشمنان ملت ايران ميخواستند، اتفاق افتاد؛ نتوانستند تأثير بگذارند.
در زمینهی سیاست داخلی، هدف آنها از این تحریمها این بود كه ملت را در راه خودشان مردد كنند؛ بین ملت ایران و نظام اسلامی جدائی بیندازند؛ مردم را دلسرد كنند، ناامید كنند. در روز بیست و دوم بهمن، ملت ایران با حضور متراكم خود، با شور و شوق خود، با احساساتی كه نسبت به اسلام و انقلاب اسلامی و نظام اسلامی ابراز كردند، مشت محكمی بر دهان آنها زدند. در عرصهی امنیتی هم تلاش كردند امنیت كشور را به هم بزنند ــ كه تفاصیل آن را مسئولان در مصاحبهها و در گفتارها برای مردم بیان كردند ــ اما در آنجا هم موفق نشدند. در زمینهی سیاسی در منطقه، قدرت و نفوذ جمهوری اسلامی را یك بار دیگر تجربه كردند. در مسائل منطقهای كار به جائی رسید كه اعتراف و اقرار كردند كه بدون حضور ايران و بدون رأی ايران، هيچ مشكل بزرگی در منطقه حل نخواهد شد. در قضيهی حملهی رژيم صهيونيستی به غزه، حضور قدرتمند جمهوری اسلامی در پشت صحنه موجب شد كه خودشان اعتراف كردند كه در مقابل مبارزان فلسطينی شكست خوردند؛ گفتند ــ ما نگفتيم، آنها گفتند و اصرار كردند ــ كه اگر چنانچه حضور جمهوری اسلامی نبود، قدرتنمائی جمهوری اسلامی نبود، مبارزان فلسطينی نميتوانستند در مقابل اسرائيل مقاومت كنند، چه برسد به اين كه اسرائيل را به زانو در بياورند؛ كه در جنگِ هشت روزه فلسطينیها توانستند اسرائيل را به زانو در بياورند، و اين اولين بار در تاريخ تشكيل رژيم جعلی و غاصب صهيونيستی بود.
گفتيم كه تلاشهای اينها بیاثر نبود؛ بله، بیاثر نبود، اما در كنار اثر منفی، يك اثر مثبت بزرگی هم كه مورد انتظار ما بود، اتفاق افتاد؛ يعنی تحريم موجب شد كه نيروهای درونی و ظرفيت عظيم ملت ايران فعال شود، استعدادهائی بروز كند و كارهای عظيمی تحقق پيدا كند؛ كه اگر تحريم نبود، اين كارها اتفاق نمیافتاد. ما به بركت تحريم توانستيم به كارهای بزرگی دست بزنيم؛ جوانان ما توفيقاتی به دست بياورند كه اگر تحريم نبود، ما به اين توفيقات يقيناً دست پيدا نميكرديم. در زمينهی كارهای زيربنائی ــ كه بعد عرض خواهم كرد ــ در سال 91 پيشرفتهائی صورت گرفت كه در مقايسهی با سالهای قبل هم، سال 91 يك سال برجستهای است. كارهای زيربنائيِ انبوهی صورت گرفت؛ در زمينهی راه، در زمينهی انرژی، در زمينهی كشف منابع جديد نفت، در زمينهی كشف منابع جديد اورانيوم، در زمينهی ايجاد و توسعهی نيروگاه و پالايشگاه و دهها كار صنعتی بزرگ؛ كه اينها همه زيرساختهای اقتصادی آيندهی كشور است. بله، ما اگر چنانچه اين زيرساختها را از قبل فراهم كرده بوديم، تحريم دشمن همين مقدار اثر منفی را هم كه كرد، نميكرد. اين كارها را ما انجام داديم و توانستيم پابهپای دشمنی و تحريم دشمنان، در جهت مثبت جلو برويم. كارهای بزرگی انجام گرفت؛ يك قلم، پيشرفتهای بزرگ علمی در طول سال 91 است. در زمينهی علم و فنّاوری كارهائی شد كه حقيقتاً چشمپُركن و برای انسانی كه معتقد به آيندهی كشور است، خرسندكننده و خوشحالكننده است. يعنی همين سالی كه خواستند بر ملت ايران سخت بگيرند، جوانان عزيز ما، دانشمندان ما ماهوارهی ناهيد را به فضا فرستادند؛ كاوشگر پيشگام را با موجود زنده به فضا فرستادند؛ جنگندهی فوق پيشرفته ساخته شد. اهميت هر كدام از اينها به قدری است كه جا دارد يك ملت برای هر يك از اینها اظهار خوشحالی و خرسندی كند، برايش سرود بسازند، جشنواره درست كنند. كارها چون متراكم است، درست تبليغ نميشود و خبررسانيِ كاملی هم انجام نميگيرد. وقتی كه اين موجود زنده به فضا فرستاده شد و سالم برگشت، آنقدر اين قضيه برای دانشمندان دنيا و ناظران بين المللی تعجبآور بود كه اول انكار كردند؛ ولی بعد كه ديدند چارهای نيست و حقايق و نشانههای درستی و واقعيت را مشاهده كردند، مجبور شدند كه قبول كنند.
در حوزهی سلامت و مهندسی پزشكی كارهای بزرگی انجام گرفت كه مربوط به سلامت مردم است. در زمينهی زيستفنّاوری در منطقه اول شديم. كارهای تخصصی برجستهای در اين زمينه انجام گرفت و اقلام متعدد داروئی بر اين اساس توليد شد. اين همان سالی است كه بر ملت ايران سخت گرفتند، برای اينكه او را از زندگی و از همهی فرآوردههای استعداد بشری محروم كنند. در همين سال، در حوزهی نانوفنّاوری ــ كه يك انقلاب در زمينهی فنّاوری و صنعت است ــ رتبهی اول را در منطقه پیدا كردیم. در همین سال، در چندین حوزهی علمیِ مهم، مقام اول تولید علم در منطقه بوديم. در ركوردهای علم و تولید علمی، در انتشار مقالات علمی، در سرعت پیشرفت علمی، در سهم كشور در تولیدات علمیِ كل جهان، شاهد پیشرفت بودیم. در مسابقات علمیِ فنّاورانهی دانشجویان، كشور نسبت به سال گذشته سی و یك درصد رشد داشت. در سال 91، تعداد دانشجو به قدری افزایش پیدا كرد كه بیست و پنج برابر اول انقلاب، ما امسال دانشجو داریم. بیست و پنج برابر اول انقلاب، دانشجويان در كشور مشغول تحصیل هستند. اینها پیشرفتهای عظیم ملت ایران است. در حوزهی آب، در حوزهی محیط زیست، در سلولهای بنیادی، در انرژیهای نو، در گیاهان داروئی، در انرژی هستهای، كشور توانست به پیشرفتهای بزرگی دست پیدا كند. اینها همه مربوط به آن سالی است كه دشمنان ملت ایران همهی تلاش خود را بسیج كردند تا ملت ایران را از كار بیندازند.
حوادث سال 91 درس بزرگی به ما میدهد؛ این درس این است كه یك ملت زنده از تهدید و فشار و سختگیری دشمن هرگز به زانو در نخواهد آمد. برای ما و برای همهی كسانی كه مسائل ايران را دنبال ميكنند، معلوم شد كه آنچه برای يك ملت مهم است، تكيه به استعداد درونی خود، توكل به خدای بزرگ، اعتماد به خود و عدم تكيهی به دشمنان است؛ اين است كه ميتواند يك ملت را به جلو ببرد. سال 91 برای ما يك ميدان رزمايش بود، يك ميدان تمرين بود. به كوری چشم دشمن، ما ملت ايران فلج كه نشديم، در اين ميدان رزمايش توانستيم از خودمان برجستگیهائی را هم نشان دهيم. البته ضعفهای خودمان را هم شناختيم؛ خاصيت رزمايش اين است. در يك تمرين رزمی و در يك رزمايش، يك مجموعهی رزمی، هم قوّتهای خود را ميشناسد، هم ضعفهای خود را ميشناسد و آنها را برطرف ميكند. ما ضعفهای خودمان را هم شناختيم. ضعف ما در اقتصاد، كه به سختيِ معيشت گروههائی از مردم منتهی شد، عبارت است از وابستگی به نفت ــ كه عرض كردم اين يكی از ضعفهای ما است ــ بیاعتنائی به سياستهای كلان اقتصادی، و سياستها و تصميمگيریهای پیدرپيِ روزمرّه. مسئولين كشور ــ مسولينِ امروز و بخصوص مسئولين آينده كه بعد از انتخاباتِ امسال بر سر كار خواهند آمد ــ به اين نكته توجه كنند؛ كشور بايد سياست اقتصاديِ كلانِ روشن و مدوّن و برنامهريزیشده داشته باشد؛ حوادث گوناگون نتواند تغيير و تبديلی در آن ايجاد كند.
درس بزرگ ديگر ما اين بود كه بنيهی كشور قوی است. وقتی بنيه قوی شد، تأثيرات خصمانهی دشمنان به حداقل ميرسد. اگر مسئولين كه در اين كشور بزرگ و با اين بنيهی قوی، مسئوليت را پذيرفتند، با تدبير كار كنند، مديران با هم باشند، با هم فعاليت كنند ــ توصيهای كه ما هميشه به مسئولين و مديران كشور ميكنيم ــ با حزم و تدبير عمل كنند، آن وقت ميتوانيم از هر تهديدی يك فرصتی بسازيم؛ همچنان كه در سال 91 از تهديدهای دشمن فرصت ساختيم و توانستيم به طرف جلو حركت كنيم. آنچه كه مسئولين كشور و ملت عزيز ما در سال 91 انجام دادند، انشاءالله بايد آثار آن در زندگی مردم، در آينده و در سالهای بعد خود را نشان دهد و نشان خواهد داد.
البته اقتصاد مسئلهی مهمی است كه بنده در اين چند سال پیدرپی بر روی آن تكيه كردهام، اما تنها مسئله هم مسئلهی اقتصاد نيست؛ امنيت كشور مهم است، سلامت مردم مهم است، پيشرفتهای علمی مهم است و اساس كار و زيربنای كار است ــ كه اگر چنانچه در كشور علم پيشرفت كند، همهی كارهای بعدی آسان خواهد شد ــ استقلال و عزت ملی برای كشور مهم است، زيردست نبودن يك ملت و ارباب نداشتن يك ملت مهم است، نفوذ و اقتدار منطقهای يك ملت و يك كشور پشتوانهی استقلال و امنيت كشور است و مهم است. در همهی اين موارد، ما پيشرفت داشتيم؛ هم در زمينهی امنيت، هم در زمينهی سلامت، هم در زمينهی نفوذ بينالمللی، هم در زمينهی تسلط بر حوادث گوناگونی كه بر كشور و بر منطقه جاری است.
ملت ما با پيشرفتها ثابت كرد كه در سايهی آمريكا زندگی نكردن، به معنای عقبافتادگی نيست؛ اين نكتهی مهمی است. قدرتمندان عالم، استعمارگران ــ در روزی كه استعمارِ مستقيم بود ــ و امروز آمريكا، ميخواهند به ملتهای دنيا اثبات كنند كه اگر ميخواهيد زندگی خوب داشته باشيد و پيشرفت كنيد، بايد زير سايهی ما بيائيد. ملت ايران اثبات كرد كه اين حرف دروغ است. ملت ما ثابت كرد كه وابسته نبودن به آمریكا و قدرتهای بزرگ نه فقط موجب عقبافتادگی نیست، بلكه موجب پیشرفت است؛ دلیل واضح این است كه شما این سی سالِ جمهوری اسلامی را مقایسه كنید با سی سالِ بعضی از كشورهائی كه در سایهی آمریكا زندگی كردند، دل خودشان را به سالی دو سه میلیارد دلار كمك آمریكا خوش كردند و تسلیم آمریكا شدند؛ ببینید آنها كجایند، ما كجائیم؟ هستند كشورهائی كه خودشان را به دُم آمریكا بستند و دنبالهروِ آمریكایند. سی سال تجربه در مقابل ما است. ببینید سی سالِ جمهوری اسلامی چگونه گذشته است و جمهوری اسلامی و ملت ایران از كجا به كجا رسیده است، آنها در چه وضعی هستند. هر كس این را مطالعه كند، خواهد فهمید كه وابسته نبودن به قدرتهای بزرگ، برای یك ملت فرصت است، نه تهدید؛ و این فرصت را بحمدالله ملت ایران با قدرت خود، با شجاعت خود، با هوشمندیِ خود به دست آورده است.
دو موضوع لازم را در اینجا باید عرض كنم، كه اینها مربوط به آینده است: یك مسئله این است كه ما در برنامهریزیها همیشه باید جلوتر از دشمن حركت كنیم. در مقابل فعالیت دشمن، كشور نباید در حال انفعال به سر ببرد. هوشمندانه بايد نقشهی دشمن را حدس زد و تشخيص داد و جلوتر از دشمن عمل كرد. ما در يك مواردی اينجوری عمل كرديم، موفقيتش را ديديم؛ يك نمونه، همين مسئلهی تأمين سوخت بيست درصدِ مورد نياز نيروگاه تحقيقاتی تهران است كه راديوداروهای مهمِ مورد نياز كشور در آنجا توليد ميشود. اين نيروگاه كوچك احتياج داشت به سوخت بيست درصد، كه ما بيست درصد را توليد نميكرديم و هميشه اين را از خارج تهيه ميكرديم. دشمنان ما فكر كردند كه از اين فرصت استفاده كنند، اين نياز ملی را گرو بگيرند، برای اينكه جمهوری اسلامی را وادار كنند به قبول تحميلها و تحكمهای خودشان؛ خواستههای خودشان را به اين وسيله تحميل كنند. جوانان ما، دانشمندان ما، قبل از آنكه كار به نقطهی فشار و حساس برسد، توانستند سوخت غنی شدهی بيست درصد را تهيه كنند و آن سوخت را تبديل كنند به صفحهی مورد نيازی كه در آن نيروگاه لازم بود تهيه شود. مخالفين ما حدس هم نميزدند كه ما بتوانيم اين كار را انجام دهيم؛ اما مسئولين كشور بوقت متوجه اين نياز شدند، دستبهكار شدند؛ استعداد ايرانی شكوفا شد، بُروز كرد و اين كار را با موفقيت انجام داديم. آنها در حالی كه انتظار داشتند جمهوری اسلامی ملتمسانه از آنها سوخت بيستدرصد را درخواست كند، جمهوری اسلامی اعلام كرد كه ما سوخت بيستدرصد را در داخل تهيه كرديم و احتياجی به شما نداريم. اگر دانشمندان ما، مردان علمی ما، جوانان ما اين كار را نميكردند، ما امروز بايد با اصرار، با التماس، با هزينهی زياد، در مقابل كسانی كه دوست ما نيستند، ميرفتيم؛ يا سوخت بيستدرصد را درخواست ميكرديم، يا راديوداروها و محصول را درخواست ميكرديم. مسئولين كشور پيشبينی كردند، بوقت فهميدند؛ آنچه را كه بايد انجام دهند، انجام دادند؛ لذا پيروز شديم. اين بايد يك برنامهای باشد برای همهی مسائل اساسی كشور و همهی نيازهای كشور.
دولتها، صنعتگران، كشاورزان، سرمايهداران و كارآفرينان، پژوهشگران علمی، طراحان علمی و صنعتی همه موظفند به اين وظيفهی اخلاقيِ بزرگ، به اين وظيفهی عاقلانه، كه پيش از نياز، خودشان را آماده كنند و يك قدم جلوتر از نقشهی دشمن حركت كنند. مديران اقتصادی، استادان دانشگاه، انجمنهای علمی، پاركهای علمی و فنّاوری، همهی اينها بايد پيشدستی را در كار علمی وجههی همت خودشان قرار دهند؛ مقالهی علمی مينويسند، در اين جهت باشد؛ پژوهش علمی ميكنند، در اين جهت باشد؛ كار صنعتی ميكنند، كار فنی ميكنند، كار علمی ميكنند، همه در اين جهت باشد؛ مديران دولتی، مديران دانشگاهها، مديران علمی، آحاد ملت در اين جهت حركت كنند.
وظيفهی همهی ما اين است كه سعی كنيم كشور را مستحكم، غير قابل نفوذ، غير قابل تأثير از سوی دشمن، حفظ كنيم و نگه داريم؛ اين يكی از اقتضائات «اقتصاد مقاومتی» است كه ما مطرح كرديم. در اقتصاد مقاومتی، يك ركن اساسی و مهم، مقاوم بودن اقتصاد است. اقتصاد بايد مقاوم باشد؛ بايد بتواند در مقابل آنچه كه ممكن است در معرض توطئهی دشمن قرار بگيرد، مقاومت كند. اين مطلب اوّلی كه لازم بود عرض كنم.
مطلب دوم: آمريكائیها مرتب از راههای گوناگون به ما پيغام ميدهند كه بيائيد دربارهی مسئلهی هستهای گفتگو كنیم؛ هم به ما پیغام میدهند، هم در تبلیغات جهانیشان این را مطرح میكنند. مسئولین بلندپایه و مسئولین میانی آمریكا بارها و بارها میگویند بیائید در كنار گفتگوهای 1+ 5 كه دربارهی مسائل هستهای بحث میكنند، آمریكا و جمهوری اسلامی دو به دو، دربارهی مسئلهی هستهای ایران بحث كنند. من به این گفتگوها خوشبین نیستم. چرا؟ چون تجربههای گذشتهی ما نشان میدهد كه گفتگو در منطق حضرات آمریكائی به این معنی نیست كه بنشینیم تا به یك راه حل منطقی دست پیدا كنیم ــ منظورشان از گفتگو این نیست ــ منظورشان از گفتگو این است كه بنشینیم حرف بزنیم تا شما نظر ما را قبول كنید! هدف، از اول اعلام شده است؛ باید نظر طرف مقابل قبول شود. لذا ما همیشه اعلام كردیم و گفتیم كه این، گفتگو نیست؛ این، تحمیل است و ایران زیر بار تحمیل نمیرود. من به این اظهارات خوشبین نیستم، اما مخالفت هم ندارم. در این خصوص، چند مطلب را باید روشن كنم:
یك مطلب این است كه آمریكائیها مرتب پیغام میدهند ــ گاهی مینویسند، گاهی پیغام میدهند ــ كه ما قصد تغییر نظام اسلامی را نداریم؛ به ما اینجور میگویند. جواب این است كه ما نگران این نیستیم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشته باشید یا نداشته باشید، كه حالا هی اصرار میكنید كه ما این قصد را نداریم. آن روزی هم كه شما قصد تغییر نظام اسلامی را داشتید و این را بصراحت اعلام كردید، هیچ كاری نتوانستید انجام دهید، بعد از این هم نخواهید توانست انجام دهید.
نكتهی دوم: آمريكائیها مرتب و پیدرپی پیغام میدهند كه ما در پیشنهادِ مذاكرهی منطقی صادقیم؛ یعنی صادقانه از شما میخواهیم كه مذاكره كنید و مذاكرهی منطقی بكنیم؛ یعنی مذاكرهی تحمیلی نباشد. من در جواب میگویم: ما به شما بارها گفتهایم كه در پی سلاح هستهای نیستیم، شما میگوئید باور نمیكنیم؛ ما چرا باید حرف شما را باور كنیم؟! وقتی شما حاضر نیستید یك سخن منطقی و صادقانه را قبول كنید، ما چرا باید حرفی را كه شما میزنید ــ كه خلاف آن بارها ثابت شده است ــ از شما قبول كنیم؟ برداشت ما این است كه پیشنهاد مذاكره از سوی آمریكائیها، یك تاكتیك آمریكائی و برای فریب دادن افكار عمومی است؛ افكار عمومی دنیا و افكار عمومی مردممان. باید شما ثابت كنید این نیست. میتوانید ثابت كنید؟ ثابت كنید.
همینجا من این را بگویم كه از جملهی تاكتیكهای تبلیغاتی اینها این است كه گاهی شایع میكنند كه از طرف رهبری، كسانی با آمریكائیها مذاكره كردند؛ این هم یك تاكتیك تبلیغاتیِ دیگر و دروغ محض است. تا كنون از سوی رهبری، هیچ كس با آنها مذاكره نكرده است. در چند مورد، در طول سالهای متمادی، در دولتهای گوناگون، كسانی بر سر موضوعات مقطعی ــ كه ما هم مخالفتی نداشتیم ــ با آنها مذاكره كردهاند؛ اما مربوط به دولتها بوده است. البته همانها هم موظف بودهاند كه خطوط قرمز رهبری را رعایت كنند؛ امروز هم موظفند و باید رعایت كنند.
نكتهی سوم: بر اساس تجربه و نگاه به صحنه، با دقت و كنجكاوی، برداشت ما این است كه آمریكا مایل به تمام شدن مذاكرات هستهای نیست. آمریكائیها دوست ندارند گفتگوهای هستهای تمام شود و مناقشهی هستهای حل شود؛ وگرنه چنانچه آنها مایل به اتمام این مذاكرات و حل این مشكل بودند، راه حل، بسیار نزدیك و بسیار آسان بود. ایران در مسئلهی هستهای، فقط میخواهد حق غنیسازیِ او ــ كه حق طبیعیاش است ــ از طرف دنیا شناخته شود؛ مسئولان كشورهائی كه مدعی هستند، اعتراف كنند كه ملت ایران حق دارد غنیسازی هستهای را برای اهداف صلحآمیز در كشورِ خودش و به دست خودش انجام دهد؛ این توقعِ زیادی است؟ این آن چیزی است كه ما همیشه گفتهایم؛ آنها همین را نمیخواهند.
آنها میگویند ما نگرانی داریم كه شما به سمت توليد سلاح هستهای بروید ــ چندتا كشور هم بیشتر نیستند، كه اسم آوردم؛ اسم خودشان را میگذارند \\\\\\\\\\\\\\\"جامعهی جهانی\\\\\\\\\\\\\\\"! ــ میگویند جامعهی جهانی نگرانی دارد. نخیر، جامعهی جهانی هیچ نگرانیای ندارد. اكثر كشورهای دنیا طرف جمهوری اسلامی هستند و از خواستهی ما حمایت میكنند؛ چون خواستهی بحقی است. آمریكائیها اگر میخواستند مسئله حل شود، این راه حلِ بسیار آسانی بود؛ میتوانستند به حق غنی سازی برای ملت ایران اعتراف كنند؛ برای اینكه نگرانیای هم از آن جهات نداشته باشند، میتوانستند مقررات قانونی آژانس هستهای را هم اعمال كنند؛ ما هم از اول هیچ مخالفتی با اعمال اين نظارتها و مقررات نداشتيم. هر وقت نزدیك به راه حل میشویم، آمریكائیها یك سنگی میاندازند كه جلوی راه حل گرفته شود. هدف آنها طبق تلقی و برداشتی كه من دارم، این است كه میخواهند این قضیه باقی بماند تا بهانهای باشد برای فشار؛ كه آن فشارها ــ همان طور كه خودشان گفتند ــ برای فلج كردن ملت ایران است. البته به كوری چشم دشمن، ملت ایران فلج نخواهد شد.
نكتهی چهارم و آخر در این مسئله این است كه اگر آمریكائیها صادقانه میخواهند كار تمام شود، بنده راه حل را ارائه ميدهم. راه حل اين است: آمريكائیها از دشمنی با جمهوری اسلامی دست بردارند، از دشمنی با ملت ايران دست بردارند. پيشنهاد مذاكره، حرف منطقی و متين و مستدلی نيست؛ حرف درست اين است. اگر ميخواهند مشكلات فیمابين وجود نداشته باشد ــ كه ميگويند ما ميخواهيم بين ايران و آمريكا مشكلی وجود نداشته باشد ــ دست از دشمنی بردارند. سی و چهار سال است كه دولتهای گوناگون آمريكا با فهم غلط از ايران و ايرانی، دشمنیهای گوناگونی را با ما طراحی كردهاند. از سال اول پيروزی انقلاب و تشكيل نظام اسلامی، اينها با ما دشمنی كردند؛ در زمينهی امنيت، عليه امنيت ما برنامهريزی كردند؛ حركات خصمانه انجام دادند؛ عليه تماميت ارضی ما اقدام كردند؛ از دشمنان ريز و درشت ما در طول سالهای متمادی هميشه حمايت كردند؛ عليه اقتصاد ملی ما فعاليت كردند؛ از همهی ابزارها عليه ملت ايران استفاده كردند؛ و در همهی اينها هم بحمدالله شكست خوردند؛ بعد از اين هم در مقابلهی با ملت ايران اگر اين دشمنیها را ادامه دهند، شكست خواهند خورد. بنابراين بنده مسئولان آمريكائی را هدايت ميكنم؛ اگر دنبال راه عاقلانه ميگردند، راه عاقلانه اين است كه سياست خود را تصحيح كنند؛ عمل خود را تصحيح كنند و دست از دشمنی با ملت ايران بردارند. اين بحث تمام شد.
يك بحث ديگری دارم كه بايد با اجمال آن را هم عرض كنم و آن، مسئلهی بسيار مهم انتخابات است. انتخابات در كشور ما مظهر «حماسهی سياسی» است. آنچه كه عرض كردم كه وظيفهی ما است و وظيفهی قشرهای گوناگون بود كه انجام دهيم، مظهر «حماسهی اقتصادی» بود. انتخابات، مظهر «حماسهی سياسی» است؛ مظهر اقتدار نظام اسلامی است؛ مظهر آبروی نظام است. آبروی جمهوری اسلامی به انتخابات و حضور مردم در پای صندوقهای رأی و تأثير يكايك مردم در انتخاب مديران كشور است. انتخابات مظهر ارادهی ملی است، نماد مردمسالاری اسلامی است. ما كه مسئلهی مردمسالاری اسلامی را در مقابل دموكراسيِ ليبرال غربی مطرح كرديم، مظهر مردمسالاری اسلامی همين حضور مردم در انتخابات است. لذا به خاطر اهميتی كه انتخابات دارد، دشمنان ملت ايران هميشه سعی كردهاند انتخابات را از شور و هيجان بيندازند؛ برنامهريزی كردند كه مردم را از حضور در پای صندوقهای رأی باز بدارند؛ مردم را دلسرد كنند، مردم را نااميد كنند. در طول سالهای مختلف كه ما انتخابات داشتيم ــ چه انتخابات مجلس، و چه بخصوص انتخابات رياست جمهوری ــ هميشه دشمنان ما سعی كردند اين انتخابات را بیرونق كنند؛ اين به خاطر اهميت انتخابات در كار كشور است.
من چند نكته را در باب انتخابات عرض ميكنم. البته دو ماه و اندی فرصت باقی است؛ اگر عمری بود، باز در فرصتهای ديگر راجع به انتخابات مطالب ديگری را عرض ميكنم؛ فعلاً چند نكته را عرض ميكنم.
نكتهی اول اين است كه در درجهی اول، گسترش مشاركت و حضور گستردهی مردم در انتخابات اهميت دارد. شور انتخاباتی در كشور و حضور مردم پای صندوقهای رأی ميتواند تهديدهای دشمنان را بیاثر كند؛ ميتواند دشمن را نااميد كند؛ ميتواند امنيت كشور را تأمين كند. ملت عزيز ما در همهی نقاط كشور اين را بدانند؛ حضور گستردهی آنها در پای صندوق رأی، در آيندهی كشور تأثير دارد؛ در امنيت، در استقلال، در ثروت ملی، در اقتصاد، در همهی مسائل مهم كشور تأثیر میگذارد. این نكتهی اول؛ كه انتخابات باید به توفیق الهی، به كمك پروردگار، با همت ملت ایران، با مشاركت گسترده تحقق پیدا كند.
نكتهی دوم: در انتخابات، همهی سلیقهها و جریانهای معتقد به جمهوری اسلامی باید شركت كنند؛ این، هم حق همه است، هم وظیفهی همه است. انتخابات مال یك سلیقهی خاص، مال یك جریان فكری و سیاسیِ خاص نیست. همهی كسانی كه به نظام جمهوری اسلامی و به استقلال كشور معتقدند، به آیندهی كشور اهمیت میدهند، دلشان برای منافع ملی میسوزد، باید در انتخابات شركت كنند. رو گرداندن از انتخابات، مناسب كسانی است كه با نظام اسلامی مخالفند.
نكتهی سوم: در نهايت، رأی مردم تعیین كننده است. آنچه كه اهمیت دارد، تشخیص شما و رأی شما است. باید خودتان تحقیق كنید، ملاحظه كنید، دقت كنید، از انسانهای مورد اعتمادتان بپرسید، تا به اصلح برسید و اصلح را انتخاب كنید. رهبری، یك رأی بیشتر ندارد. بندهی حقیر مثل بقیهی مردم، یك رأی دارم؛ این رأی هم تا وقتی كه در صندوق انداخته نشود، هیچ كس از آن مطّلع نخواهد بود. حالا ممكن است آن كسانی كه صندوق دست آنها است، بعد باز كنند، خط اين حقير را بشناسند، بفهمند بنده به چه كسی رأی دادم؛ اما تا قبل از رأی دادن، كسی مطّلع نخواهد شد. اينجور نيست كه كسی بيايد نسبت بدهد كه رهبری نظرش به فلان است، به بهمان نيست. اگر چنين نسبتی داده شد، اين نسبت درست نيست. البته اين روزها با اين وسائل عجيبِ رسانهايِ كنونی ــ اين پيامكها و امثال اينها ــ متأسفانه حرفهای گوناگون، نسبتهای گوناگون به اشخاص گوناگون، رواج دارد. گاهی ممكن است يك نفر هزاران پيامك بفرستد. برای من گزارش دادند كه ممكن است در ايام انتخابات، روزی چند صد ميليون پيامك رد و بدل شود. مراقب باشيد، تحت تأثير اين چيزها قرار نگيريد؛ نگاه كنيد، تشخيص بدهيد، اصلح را بشناسيد و برای ادای تكليف، اسم او را به صندوق رأی بيندازيد. البته هر كسی و يا فعالان سياسی ميتوانند ديگران را هم با نظر خودشان همرأی كنند ــ اين اشكالی ندارد ــ اما از حقير كسی چيزی در اين زمينه نخواهد شنيد. در عين حال مردم ميتوانند به همديگر بگويند، سفارش كنند، تأكيد كنند، توصيه كنند، يكديگر را توجيه كنند و به هم كمك كنند برای شناخت اصلح. به هر حال آنچه كه ملاك عمل است، رأی آحاد مردم است.
نكتهی چهارم: در مسئلهی انتخابات و غير انتخابات، همه بايد تسليم رأی قانون باشند؛ در مقابل قانون تمكين كنند. آن حوادثی كه در سال 88 پیش آمد ــ كه برای كشور ضرر داشت و ضایعهآفرین بود ــ همه از همین ناشی شد كه كسانی نخواستند به قانون تمكین كنند؛ نخواستند به رأی مردم تمكین كنند. ممكن است رأی مردم برخلاف آن چیزی باشد كه منِ شخصی مایل به آن هستم؛ اما باید تمكین كنم. آنچه كه اكثریت مردم، اغلبیت مردم آن را انتخاب كردند، باید همه تمكین كنند؛ همه باید زیر بار بروند. خوشبختانه سازوكارهای قانونی برای رفع اشكال، رفع اشتباه، رفع شبهه وجود دارد؛ از این راهكارهای قانونی استفاده كنند. این كه وقتی آنچه كه اتفاق افتاده است، برخلاف میل ما شد، مردم را به شورش خیابانی دعوت كنیم ــ كه این در سال 88 اتفاق افتاد ــ یكی از خطاهای جبرانناپذیر است. این تجربهای شد برای ملت ما، و ملت ما همیشه در مقابل یك چنین حوادثی خواهد ایستاد.
نكتهی آخر: این را همه بدانند كه آنچه ما برای رئیسجمهور آینده نیاز داریم، عبارت است از امتیازاتی كه امروز وجود دارد، منهای ضعفهائی كه وجود دارد. این را همه توجه كنند؛ رئیسجمهورِ هر دورهای باید امتیازات كسبی و ممكنالحصول رئیسجمهور قبلی را داشته باشد، ضعفهای او را نداشته باشد. هر كسی بالاخره نقاط قوّتی دارد و نقاط ضعفی دارد. رؤسای جمهور ــ چه رئیسجمهور امروز، چه رئیسجمهور فردا ــ نقاط قوّتی دارند و نقاط ضعفی هم دارند. همهی ما همین جوریم؛ نقاط قوّتی داریم، نقاط ضعفی داریم. آن چیزهائی كه امروز برای دولت و برای رئیسجمهور نقاط قوّت محسوب میشود، اینها باید در رئیسجمهور بعدی وجود داشته باشد، اینها را باید در خود تأمین كند؛ آن چیزهائی كه امروز نقاط ضعف شناخته میشود ــ كه ممكن است شما بگوئید، من بگویم، دیگری بگوید ــ این نقاط ضعف را باید از خود دور كند. یعنی ما در سلسلهی دولتهائی كه پشت سر هم میآیند، بايد رو به پیشرفت باشیم، رو به تعالی و تكامل باشیم، تدریجاً بهترینهای خودمان را بفرستیم؛ هر كسی میآید، پایبند به انقلاب، پایبند به ارزشها، پایبند به منافع ملی، پایبند به نظام اسلامی، پایبند به عقل جمعی، پایبند به تدبیر باشد. اینجوری باید این كشور را اداره كرد. كشور، كشور بزرگی است؛ ملت، ملت باعظمتی است؛ مسائل تشویق كننده و مبشّر، فراوان است؛ مشكلات هم بر سر راه هر ملتی، و از جمله بر سر راه ما وجود دارد. آن كسانی كه آمادهی این میدان میشوند، بايد با كمال قوّت، با كمال قدرت، با توكل به خدا، با اعتماد به توانائیهای این ملت پیش بروند.
پروردگارا! آنچه را كه به خیر و صلاح این كشور است، برای این ملت مقدّر بفرما. پروردگارا! قلب مقدس ولیعصر را از همهی ما خشنود كن. پروردگارا! روح مطهر امام بزرگوار و ارواح طیبهی شهدا را از ما خشنود و راضی بگردان. آنچه گفتیم، برای خودت و در راه خودت قرار بده و آن را به كرمت از ما قبول كن.
والسّلام علیكم و رحمة الله و بركاته
[20 July 11] دیدار مسئولان كتابخانهها و كتابداران - Farsi
دیدار مسئولان كتابخانههای بزرگ و عمومی و جمعی از كتابداران سراسر كشور با رهبر انقلاب...
دیدار مسئولان كتابخانههای بزرگ و عمومی و جمعی از كتابداران سراسر كشور با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=16737
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی امروز در دیدار مسؤولان كتابخانه های بزرگ و عمومی و جمعی از كتابداران سراسر كشور با اشاره به سابقه كهن و تاریخی ملت مسلمان ایران در تولید كتاب و كتابخوانی، شرایط كنونی تولید و نشر كتاب و آمارهای مطالعه كتاب در كشور را راضی كننده ندانستند و همه مسئولان دستگاههای فرهنگی و مرتبط با موضوع كتاب و كتابخوانی را به بازنگری جدی و حركتی جدید و فراگیر برای ترویج كتابخوانی و مطالعه كتاب های مفید و سالم بویژه در میان نوجوانان و جوانان فراخواندند.
حضرت آیتالله خامنهای در این دیدار با تشكر و قدردانی از زحمات مسئولان كتابخانه ها و كتابداران، برگزاری چنین دیداری را اقدامی نمادین برای احترام به كتاب و كتابخوانی بیان كردند و افزودند: با وجود پیشرفتهای اخیر در وسایل ارتباط جمعی و ارتباطات جدید و نوظهور، كتاب هیچگاه منزوی نخواهد شد و هیچ ابزار پیشرفته ارتباطاتی و فرهنگی نمی تواند جایگزین كتاب شود.
كتابخوانی، یكی از موضوعاتی بود كه رهبر انقلاب اسلامی به تبیین ابعاد مختلف آن پرداختند و لازمه اهتمام به كتاب را ترویج كتابخوانیِ همراه با تدبر دانستند.
حضرت آیتالله خامنهای با تأكید بر اینكه همه دستگاههای آموزشی و فرهنگی برای ترویج كتابخوانیِ همراه با تدبر، وظیفه دارند افزودند: از آموزش و پرورش و مدارس ابتدایی تا دستگاههای ارتباط جمعی و تبلیغاتی اعم از مطبوعات و صدا و سیما در ترویج كتابخوانی مسئول هستند.
ایشان فراگیر شدن تبلیغات كتاب و كتابخوانی در دستگاههای ارتباط جمعی و تبلیغاتی را ضروری خواندند و خاطرنشان كردند: امروز برای برخی كالاها و محصولات كم اهمیت و حتی مضر تبلیغات گسترده ای در صدا و سیما و مطبوعات می شود اما برای كتاب كه محصولی با عظمت و با ارزش است، تبلیغ و تشویق مناسبی صورت نمی گیرد.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: كتابخوانی باید به یك عادت همیشگی در مردم بویژه جوانان تبدیل شود و در سبد كالاهای مصرفی خانواده سهمی قابل قبول پیدا كند.
حضرت آیتالله خامنهای در ادامه سخنان خود به موضوع كتابخانه ها و نقش مهم كتابداران برای راهنمایی كتابخوان ها اشاره كردند و افزودند: مهمترین و سنگین ترین وظیفه در كتابخانه ها، برعهده كتابداران است.
ایشان با تأكید بر اینكه كتابداران منبع و مرجعی برای راهنمایی مراجعین به كتاب هستند خاطر نشان كردند: یكی از نیازهای كنونی، نظم مطالعاتی در میان دوستدارن كتاب است كه كتابداران با راهنمایی صحیح می توانند این خلاء را برطرف كنند.
رهبر انقلاب اسلامی نقش كتابداران در جهت دهی به مراجعان برای كتابخوانی همراه با تأمل را یادآور شدند و با اشاره به اهمیت برنامه های مطالعاتی افزودند: یكی از نیازهای مهم جامعه بویژه نسل نوجوان و جوان طراحی سیر مطالعاتی در موضوعات مختلف و با تنوع مناسب است.
عرضه كتاب سالم و جلوگیری از ورود كتابهای مضر، یكی دیگر از محورهای سخنان حضرت آیتالله خامنهای بود.
ایشان درباره این موضوع خاطر نشان كردند: لزوماً هر كتابی مفید نیست و نمی توان بازار كتاب را آزاد گذاشت تا كتابهای مضر وارد جامعه شوند.
More...
Description:
دیدار مسئولان كتابخانههای بزرگ و عمومی و جمعی از كتابداران سراسر كشور با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=16737
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی امروز در دیدار مسؤولان كتابخانه های بزرگ و عمومی و جمعی از كتابداران سراسر كشور با اشاره به سابقه كهن و تاریخی ملت مسلمان ایران در تولید كتاب و كتابخوانی، شرایط كنونی تولید و نشر كتاب و آمارهای مطالعه كتاب در كشور را راضی كننده ندانستند و همه مسئولان دستگاههای فرهنگی و مرتبط با موضوع كتاب و كتابخوانی را به بازنگری جدی و حركتی جدید و فراگیر برای ترویج كتابخوانی و مطالعه كتاب های مفید و سالم بویژه در میان نوجوانان و جوانان فراخواندند.
حضرت آیتالله خامنهای در این دیدار با تشكر و قدردانی از زحمات مسئولان كتابخانه ها و كتابداران، برگزاری چنین دیداری را اقدامی نمادین برای احترام به كتاب و كتابخوانی بیان كردند و افزودند: با وجود پیشرفتهای اخیر در وسایل ارتباط جمعی و ارتباطات جدید و نوظهور، كتاب هیچگاه منزوی نخواهد شد و هیچ ابزار پیشرفته ارتباطاتی و فرهنگی نمی تواند جایگزین كتاب شود.
كتابخوانی، یكی از موضوعاتی بود كه رهبر انقلاب اسلامی به تبیین ابعاد مختلف آن پرداختند و لازمه اهتمام به كتاب را ترویج كتابخوانیِ همراه با تدبر دانستند.
حضرت آیتالله خامنهای با تأكید بر اینكه همه دستگاههای آموزشی و فرهنگی برای ترویج كتابخوانیِ همراه با تدبر، وظیفه دارند افزودند: از آموزش و پرورش و مدارس ابتدایی تا دستگاههای ارتباط جمعی و تبلیغاتی اعم از مطبوعات و صدا و سیما در ترویج كتابخوانی مسئول هستند.
ایشان فراگیر شدن تبلیغات كتاب و كتابخوانی در دستگاههای ارتباط جمعی و تبلیغاتی را ضروری خواندند و خاطرنشان كردند: امروز برای برخی كالاها و محصولات كم اهمیت و حتی مضر تبلیغات گسترده ای در صدا و سیما و مطبوعات می شود اما برای كتاب كه محصولی با عظمت و با ارزش است، تبلیغ و تشویق مناسبی صورت نمی گیرد.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: كتابخوانی باید به یك عادت همیشگی در مردم بویژه جوانان تبدیل شود و در سبد كالاهای مصرفی خانواده سهمی قابل قبول پیدا كند.
حضرت آیتالله خامنهای در ادامه سخنان خود به موضوع كتابخانه ها و نقش مهم كتابداران برای راهنمایی كتابخوان ها اشاره كردند و افزودند: مهمترین و سنگین ترین وظیفه در كتابخانه ها، برعهده كتابداران است.
ایشان با تأكید بر اینكه كتابداران منبع و مرجعی برای راهنمایی مراجعین به كتاب هستند خاطر نشان كردند: یكی از نیازهای كنونی، نظم مطالعاتی در میان دوستدارن كتاب است كه كتابداران با راهنمایی صحیح می توانند این خلاء را برطرف كنند.
رهبر انقلاب اسلامی نقش كتابداران در جهت دهی به مراجعان برای كتابخوانی همراه با تأمل را یادآور شدند و با اشاره به اهمیت برنامه های مطالعاتی افزودند: یكی از نیازهای مهم جامعه بویژه نسل نوجوان و جوان طراحی سیر مطالعاتی در موضوعات مختلف و با تنوع مناسب است.
عرضه كتاب سالم و جلوگیری از ورود كتابهای مضر، یكی دیگر از محورهای سخنان حضرت آیتالله خامنهای بود.
ایشان درباره این موضوع خاطر نشان كردند: لزوماً هر كتابی مفید نیست و نمی توان بازار كتاب را آزاد گذاشت تا كتابهای مضر وارد جامعه شوند.
[ARABIC][26July11] كلمة السيد حسن نصر الله Sayyed Hassan Nasrallah Dignity & Victory Day
مواقف جديدة لافتة ومميزة في ذكرى الانتصار من سيد المقاومة والانتصار الامين العام لحزب الله السيد حسن نصر...
مواقف جديدة لافتة ومميزة في ذكرى الانتصار من سيد المقاومة والانتصار الامين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله تبشر اللبنانيين بنصر جديد امام اي عدوان مكررة جملة "اعدكم بالنصر مجددا"، وتحذر العدو من الاقتراب من لبنان من جديد.. وفي خضم الحديث عن ثروات لبنان النفطية والغازية ستقوم المقاومة بدورها في حماية المياه الاقليمية اللبنانية ومنشآت النفط والغاز التي سيقيمها لبنان، وفي هذا الاطار معادلة توازن جديدة اعلنها السيد نصر الله، الذي اكد ان قوة المقاومة اليوم افضل من اي زمن مضى منذ انطلاقتها..
بمشاركة حشد جماهيري كبير في ملعب الراية في الضاحية الجنوبية لبيروت اقيم مساء اليوم الثلاثاء مهرجان الكرامة والانتصار في الذكرى الخامسة لانتصار المقاومة في تموز 2006. وشارك في الاحتفال اضافة الى شخصيات سياسية ودينية واجتماعية لبنانية، مواطنون وشخصيات عربية واسلامية.
وقد جرى خلال الاحتفال عرض مشهدي تجسيدي لدبابات إسرائيلية وهي تحترق وعرض مشاهد تصويرية وتمثيلية تجسد المقاومة وانتصاراتها، اضافة الى اداء اناشيد من وحي الانتصار.
More...
Description:
مواقف جديدة لافتة ومميزة في ذكرى الانتصار من سيد المقاومة والانتصار الامين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله تبشر اللبنانيين بنصر جديد امام اي عدوان مكررة جملة "اعدكم بالنصر مجددا"، وتحذر العدو من الاقتراب من لبنان من جديد.. وفي خضم الحديث عن ثروات لبنان النفطية والغازية ستقوم المقاومة بدورها في حماية المياه الاقليمية اللبنانية ومنشآت النفط والغاز التي سيقيمها لبنان، وفي هذا الاطار معادلة توازن جديدة اعلنها السيد نصر الله، الذي اكد ان قوة المقاومة اليوم افضل من اي زمن مضى منذ انطلاقتها..
بمشاركة حشد جماهيري كبير في ملعب الراية في الضاحية الجنوبية لبيروت اقيم مساء اليوم الثلاثاء مهرجان الكرامة والانتصار في الذكرى الخامسة لانتصار المقاومة في تموز 2006. وشارك في الاحتفال اضافة الى شخصيات سياسية ودينية واجتماعية لبنانية، مواطنون وشخصيات عربية واسلامية.
وقد جرى خلال الاحتفال عرض مشهدي تجسيدي لدبابات إسرائيلية وهي تحترق وعرض مشاهد تصويرية وتمثيلية تجسد المقاومة وانتصاراتها، اضافة الى اداء اناشيد من وحي الانتصار.
Dec 7 2008 پيغام حج By Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei - Urdu
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
More...
Description:
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
Leader Congratulating on Occasion of Birth of Hazarat Zahra as & Imame Rahel - May 24 - Farsi
**DETAILS:
The Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali KhameneiThe Leader of the Islamic Revolution says no power in the world can impede Iran\\\'s progress, stressing that the...
**DETAILS:
The Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali KhameneiThe Leader of the Islamic Revolution says no power in the world can impede Iran\\\'s progress, stressing that the Iranian nation has remained committed to the principles of the Revolution.
Ayatollah Seyyed Ali Khamenei said on Tuesday that “resistance, perseverance and abidance by the values and principles of the Islamic Revolution” will nourish the hopes of Muslim nations and international observers.
The Leader stressed that the Iranian nation has faced “animosities and mixed reactions” over the past 32 years, but has not deviated from “the path of the Islamic Revolution, its ideals and objectives.”
“Had the Iranian nation backed down in the face of threats by global arrogance and given up its mottos, the blossom of hope would have withered in the hearts of nations,” Ayatollah Khamenei said.
The Leader made the remarks at a ceremony marking the anniversary of the birth of Fatemeh Zahra, the beloved daughter of Prophet Mohammad (PBUH).
The Leader praised Fatemeh Zahra as a unique spiritual and divine figure.
Ayatollah Khamenei then stressed the importance of drawing on the guidelines and demeanor of Prophet Mohammad and Fatemeh Zahra as well as other infallible Imams to improve morality and benevolence and establish a close rapport between people in the society.
In the ceremony, eulogies were recited to honor the auspicious occasion which is also designated as Woman\\\'s Day in Iran.
Leader Congratulating on Occasion of Birth of Hazarat Zahra as - May 24 - Farsi
دیدار جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت با رهبر معظم انقلاب
ساعت خبر: 15:5 - تاريخ خبر: 03/03/1390
در سالروز فرخنده میلاد با سعادت بانوی برگزیده دو عالم، دخت پیامبر خاتم، حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها و همچنین فرزند برومندشان امام خمینی (ره)، مراسم مولودی خوانی و ذکر فضائل و مناقب آن بانوی عفاف و نجابت، در حضور حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی برگزار شد.
به گزارش واحد مرکزی خبر، حضرت آیت الله خامنه ای در این مراسم که با حضور جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام در حسینیه امام خمینی بر پا شد، با تبریک میلاد با سعادت بانوی دو عالم حضرت زهراء (س)، آن حضرت را \\\\\\\"عنصر ملکوتی، الهی و بی نظیر در عرصه وجود از لحاظ نورانیت \\\\\\\"بعد از پیامبر گرامی اسلام (ص) و امیرالمومنین علی (ع) دانستند و افزودند: ذکر مکرر نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) بیش از سایر معارف اسلامی در تمام دوران انقلاب اسلامی\\\\\\\"پدیده ای الهی و یک امر روئیده از دلها، عواطف و ایمانها \\\\\\\" است.
رهبر انقلاب اسلامی تقارن این میلاد را با ولادت امام خمینی (ره)، پدیده ای بسیار شیرین خواندند و اظهار داشتند: امام خمینی (ره) حقیقتاً نمونه و مستوره ای از همان حقیقت درخشنده همراه با ایمان، اخلاص، عبادت، غیرت و ایستادگی در راه خدا بودند.
ایشان ذکر نام حضرت زهرا (س) را به مناسبتهای مختلف در طول این انقلاب ، نشانه توجه ویژه آن بزرگوار به کشور دانستند و خاطرنشان کردند: این توجه، بسیار با ارزش و امیدبخش است و دلها و گامها را برای دست یافتن به اهداف نهایی مطمئن، استوار و خاطرجمع می کند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به راه دشوار همراه با مزاحمتها، معارضه ها و برخوردهای گوناگون در طول 32 سال پس از پیروزی انقلاب اسلامی افزودند: ادامه خط مستقیم و زاویه پیدا نکردن این خط و حفظ شعارها و اهداف انقلاب به برکت بیان روشن و رسای امام بزرگوار، از مهم ترین خصوصیات انقلاب اسلامی ایران است.
ایشان تصریح کردند: با «حرکت امیدوارانه و برداشتن قدمهای محکم» هیچ قدرتی در دنیا نمی تواند راه این انقلاب را سد کند.
رهبر انقلاب، ایستادگی، ثبات، تداوم، پایبندی به ارزشها و اصول انقلاب اسلامی ایران را موجب رویاندن شکوفه های امید در دل ملتهای مسلمان و ناظران جهانی ارزیابی کردند و افزودند: خصوصیت این انقلاب عظیم اسلامی این بود که به فضل الهی آن بهار تا امروز خزان نداشته است.
حضرت آیت الله خامنه ای تأکید کردند: اگر ملت ایران در مقابل تهدیدات استکبار جهانی عقب نشینی می کرد و از شعارهایش دست می کشید، این گلهای امید در دل ملتها پژمرده می شد.
ایشان افزودند: به برکت نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) و توجهات ائمه اطهار علیهم السلام و با ایستادگی ملت ایران، این نهالهای امید بارور شدند، بنابراین این توجه، توسل و از خدا دانستن و به خود غَرّه نشدن را باید در خودمان نگه داریم.
رهبر انقلاب در بخش دیگری از سخنانشان انتخاب\\\\\\\" شعر، آهنگ و صوت خوب\\\\\\\" را در حرفه زیبا، ظریف و مؤثر مداحی ضروری دانستند و خاطرنشان کردند: آنچه خوانده می شود باید به درستی انتخاب و جهات صوری و معنوی آن لحاظ شده باشد.
ایشان با اشاره به اینکه آهنگهای بد و لهوی نباید وارد حرفه مداحی شود افزودند: انتخاب و ابتکار شکلهای جدید در قرائت و آهنگ سازیها عیبی ندارد.
رهبر انقلاب با تأکید بر انتخاب مضمون مناسب در ذکر مناقب ائمه اطهار علیهم السلام خاطرنشان کردند: ذکر مناقب متقن، معتبر و مستند ، دلها را شاد می کند و شوق را برمی انگیزاند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به نیاز جامعه به نصایح ائمه و استفاده از گفتار و رفتار آن بزرگواران برای رشد اخلاق، افزودند: باید با گسترش خُلقیات خوب، روحیه همدلی، برادری، صفا و اخوت را در جامعه اعتلا بخشید و با ترویج خیرخواهی، تعاون، صبر، احسان، ایثار و گذشت، از تنگ نظری، ناامیدی، بدخواهی و بُخل پرهیز کرد.
ایشان پیشرفت جامعه مداحان را خوب توصیف و بر مسأله بصیرت بخشی در مداحی تأکید کردند اما در عین حال تعرض به دیگران را مذموم خواندند و افزودند: بر اثر بصیرت بود که ملت ایران توانسته است بایستد و استقلال، ایستادگی، معرفت و ایمان خود را حفظ کند.
حضرت آیت الله خامنه ای مطالعه و انس با قرآن و احادیث را برای جامعه مداحان ضروری دانستند و خطاب به آنان تصریح کردند: آیات و احادیثی که در آن نصیحت است آن را یادداشت و قرائت کنید.
ایشان با اشاره به اینکه توجه به دعا، توسل، ذکر، خشوع، نماز نافله و حفظ و تقویت آن باعث حل تدریجی کارهای دشوار در زندگی می شود افزودند: این رشته ارتباط با مقام احدیت که متصل با اهل بیت علیهم السلام است دل و ذهن را صفا می دهد.
در ابتدای این دیدار تعدادی از شاعران و مداحان اهل بیت علیهم السلام به ذکر فضایل و مناقب حضرت زهرا (س) پرداختند.
More...
Description:
**DETAILS:
The Leader of the Islamic Revolution Ayatollah Seyyed Ali KhameneiThe Leader of the Islamic Revolution says no power in the world can impede Iran\\\'s progress, stressing that the Iranian nation has remained committed to the principles of the Revolution.
Ayatollah Seyyed Ali Khamenei said on Tuesday that “resistance, perseverance and abidance by the values and principles of the Islamic Revolution” will nourish the hopes of Muslim nations and international observers.
The Leader stressed that the Iranian nation has faced “animosities and mixed reactions” over the past 32 years, but has not deviated from “the path of the Islamic Revolution, its ideals and objectives.”
“Had the Iranian nation backed down in the face of threats by global arrogance and given up its mottos, the blossom of hope would have withered in the hearts of nations,” Ayatollah Khamenei said.
The Leader made the remarks at a ceremony marking the anniversary of the birth of Fatemeh Zahra, the beloved daughter of Prophet Mohammad (PBUH).
The Leader praised Fatemeh Zahra as a unique spiritual and divine figure.
Ayatollah Khamenei then stressed the importance of drawing on the guidelines and demeanor of Prophet Mohammad and Fatemeh Zahra as well as other infallible Imams to improve morality and benevolence and establish a close rapport between people in the society.
In the ceremony, eulogies were recited to honor the auspicious occasion which is also designated as Woman\\\'s Day in Iran.
Leader Congratulating on Occasion of Birth of Hazarat Zahra as - May 24 - Farsi
دیدار جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت با رهبر معظم انقلاب
ساعت خبر: 15:5 - تاريخ خبر: 03/03/1390
در سالروز فرخنده میلاد با سعادت بانوی برگزیده دو عالم، دخت پیامبر خاتم، حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها و همچنین فرزند برومندشان امام خمینی (ره)، مراسم مولودی خوانی و ذکر فضائل و مناقب آن بانوی عفاف و نجابت، در حضور حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی برگزار شد.
به گزارش واحد مرکزی خبر، حضرت آیت الله خامنه ای در این مراسم که با حضور جمعی از شاعران و ذاکرین اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام در حسینیه امام خمینی بر پا شد، با تبریک میلاد با سعادت بانوی دو عالم حضرت زهراء (س)، آن حضرت را \\\\\\\"عنصر ملکوتی، الهی و بی نظیر در عرصه وجود از لحاظ نورانیت \\\\\\\"بعد از پیامبر گرامی اسلام (ص) و امیرالمومنین علی (ع) دانستند و افزودند: ذکر مکرر نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) بیش از سایر معارف اسلامی در تمام دوران انقلاب اسلامی\\\\\\\"پدیده ای الهی و یک امر روئیده از دلها، عواطف و ایمانها \\\\\\\" است.
رهبر انقلاب اسلامی تقارن این میلاد را با ولادت امام خمینی (ره)، پدیده ای بسیار شیرین خواندند و اظهار داشتند: امام خمینی (ره) حقیقتاً نمونه و مستوره ای از همان حقیقت درخشنده همراه با ایمان، اخلاص، عبادت، غیرت و ایستادگی در راه خدا بودند.
ایشان ذکر نام حضرت زهرا (س) را به مناسبتهای مختلف در طول این انقلاب ، نشانه توجه ویژه آن بزرگوار به کشور دانستند و خاطرنشان کردند: این توجه، بسیار با ارزش و امیدبخش است و دلها و گامها را برای دست یافتن به اهداف نهایی مطمئن، استوار و خاطرجمع می کند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به راه دشوار همراه با مزاحمتها، معارضه ها و برخوردهای گوناگون در طول 32 سال پس از پیروزی انقلاب اسلامی افزودند: ادامه خط مستقیم و زاویه پیدا نکردن این خط و حفظ شعارها و اهداف انقلاب به برکت بیان روشن و رسای امام بزرگوار، از مهم ترین خصوصیات انقلاب اسلامی ایران است.
ایشان تصریح کردند: با «حرکت امیدوارانه و برداشتن قدمهای محکم» هیچ قدرتی در دنیا نمی تواند راه این انقلاب را سد کند.
رهبر انقلاب، ایستادگی، ثبات، تداوم، پایبندی به ارزشها و اصول انقلاب اسلامی ایران را موجب رویاندن شکوفه های امید در دل ملتهای مسلمان و ناظران جهانی ارزیابی کردند و افزودند: خصوصیت این انقلاب عظیم اسلامی این بود که به فضل الهی آن بهار تا امروز خزان نداشته است.
حضرت آیت الله خامنه ای تأکید کردند: اگر ملت ایران در مقابل تهدیدات استکبار جهانی عقب نشینی می کرد و از شعارهایش دست می کشید، این گلهای امید در دل ملتها پژمرده می شد.
ایشان افزودند: به برکت نام مبارک حضرت زهرا (س) و بقیه الله الاعظم (عج) و توجهات ائمه اطهار علیهم السلام و با ایستادگی ملت ایران، این نهالهای امید بارور شدند، بنابراین این توجه، توسل و از خدا دانستن و به خود غَرّه نشدن را باید در خودمان نگه داریم.
رهبر انقلاب در بخش دیگری از سخنانشان انتخاب\\\\\\\" شعر، آهنگ و صوت خوب\\\\\\\" را در حرفه زیبا، ظریف و مؤثر مداحی ضروری دانستند و خاطرنشان کردند: آنچه خوانده می شود باید به درستی انتخاب و جهات صوری و معنوی آن لحاظ شده باشد.
ایشان با اشاره به اینکه آهنگهای بد و لهوی نباید وارد حرفه مداحی شود افزودند: انتخاب و ابتکار شکلهای جدید در قرائت و آهنگ سازیها عیبی ندارد.
رهبر انقلاب با تأکید بر انتخاب مضمون مناسب در ذکر مناقب ائمه اطهار علیهم السلام خاطرنشان کردند: ذکر مناقب متقن، معتبر و مستند ، دلها را شاد می کند و شوق را برمی انگیزاند.
حضرت آیت الله خامنه ای با اشاره به نیاز جامعه به نصایح ائمه و استفاده از گفتار و رفتار آن بزرگواران برای رشد اخلاق، افزودند: باید با گسترش خُلقیات خوب، روحیه همدلی، برادری، صفا و اخوت را در جامعه اعتلا بخشید و با ترویج خیرخواهی، تعاون، صبر، احسان، ایثار و گذشت، از تنگ نظری، ناامیدی، بدخواهی و بُخل پرهیز کرد.
ایشان پیشرفت جامعه مداحان را خوب توصیف و بر مسأله بصیرت بخشی در مداحی تأکید کردند اما در عین حال تعرض به دیگران را مذموم خواندند و افزودند: بر اثر بصیرت بود که ملت ایران توانسته است بایستد و استقلال، ایستادگی، معرفت و ایمان خود را حفظ کند.
حضرت آیت الله خامنه ای مطالعه و انس با قرآن و احادیث را برای جامعه مداحان ضروری دانستند و خطاب به آنان تصریح کردند: آیات و احادیثی که در آن نصیحت است آن را یادداشت و قرائت کنید.
ایشان با اشاره به اینکه توجه به دعا، توسل، ذکر، خشوع، نماز نافله و حفظ و تقویت آن باعث حل تدریجی کارهای دشوار در زندگی می شود افزودند: این رشته ارتباط با مقام احدیت که متصل با اهل بیت علیهم السلام است دل و ذهن را صفا می دهد.
در ابتدای این دیدار تعدادی از شاعران و مداحان اهل بیت علیهم السلام به ذکر فضایل و مناقب حضرت زهرا (س) پرداختند.
اقشار نمونه بسیج سراسر كشور Vali Amr Muslimeen speech to Basij - Farsi
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و...
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين سيّما بقيّةالله فى الأرضين.
خداوند متعال را سپاسگزارم براى توفيق حضور در اين ديدار باشكوه و بسيار خوب. از برادران و خواهرانى كه در اطراف ميدان ايستادهاند، خواهش ميكنم بنشينند تا بتوانيم بحث كنيم.
امروز مقارن با اول محرم است. تناسبى هست ميان هويت و حقيقت بسيج با هويت محرم و عاشورا. بسيج افتخار دارد كه پيرو مكتب عاشوراست. البته عاشورا اوج فداكارى و ايثار است. همهى تاريخ، همهى عالم، مسئلهى عاشورا و حسينبنعلى (عليهالسّلام) و اصحاب وفادار او را با اين خصوصيت شناختهاند؛ فداكارى، ايثار در راه خدا و در راه تحقق اهداف الهى؛ ليكن مسئلهى عاشورا فقط اين نيست. بله، برجستهترين و نمايانترين خصوصيت عاشورا، همين فداكارى و شهادت است؛ ولى در ماجراى عاشورا حقايق ديگرى هم وجود دارد. از آغاز حركت از مدينه، بذر معرفت پاشيده شد - اين يكى از خصوصيات حادثهى عاشوراست - بذر بصيرت پاشيده شد. اگر مردمى، امتى از بصيرت برخوردار نباشند، حقايق گوناگون، كار آنها را اصلاح نخواهد كرد؛ گره از مشكلات آنها گشوده نخواهد شد. بنابراين اخلاص، موقعشناسى، پاشيدن بذر يك حركت فزايندهى تاريخى، از خصوصيات مهم عاشوراست. ماجرا فقط در ظهر عاشورا تمام نشد؛ در واقع از ظهر عاشورا يك جريانى در تاريخ شروع شد، كه همچنان رو به افزايش و گسترش است. بعد از اين هم همين خواهد بود. امام حسين (عليهالسّلام) براى اعلاى كلمهى حق و براى نجات خلق، همهى داشتههاى خود را به ميدان آورد. اين برخى از خصوصياتى است كه انسان به طور كلى در ماجراى عاشورا ميتواند ببيند و نشان بدهد.
بسيج، همين راه است؛ همين حركت است؛ همين هدفهاست؛ همين ابزارها و وسيلههاست. بسيج، جمع فداكارى از مردمند، براى مردم؛ تشكيل يك مجموعهاى در حركت عظيم يك ملت مجاهد. حضور در دفاع، حضور در علم، حضور در هنر، حضور در سازندگى، حضور در سياست، در فرهنگ، در كمك به مستضعفان، در كمك به درماندگان، در توليد، در فناورى، در پيشبرد مسائل گوناگون كشور، در ورزش، در درخششهاى بينالمللى، در هر كار خير؛ اين حركت بسيج است؛ حركتى مردمى، براى مردم، در دل مردم، از خود مردم، از همهى قشرها، زنان، مردان، جوانان، پيران، نوجوانان، از اصناف گوناگون؛ يعنى تشكيل يك مجموعهى حزبالله واقعى.
بسيج سياسى است، اما سياستزده نيست، سياسىكار نيست، جناحى نيست؛ بسيج مجاهد است، اما بىانضباط نيست، افراطى نيست؛ بسيج عميقاً متدين و متعبد است، اما متحجر نيست، خرافى نيست؛ بسيج بابصيرت است، اما ازخودراضى نيست؛ بسيج اهل جذب است - گفتهايم جذب حداكثرى - اما اهل تسامح در اصول نيست؛ بسيج غيور است، پاسدار خطوط فاصل است؛ بسيج طرفدار علم است، اما علمزده نيست؛ بسيج متخلق به اخلاق اسلامى است، اما رياكار نيست؛ بسيج در كار آبادكردن دنياست، اما خود اهل دنيا نيست. اين شد يك فرهنگ.
فرهنگ بسيجى يعنى آن مجموعهى معرفتها و روشها و منشهائى كه ميتواند مجموعههاى عظيمى را در ملت به وجود بياورد كه تضمينكنندهى حركت مستقيم و پايدار اسلامى آن ملت باشند. اين يك تفكر است؛ در ذهن هم نيست، در خارج و در عينيت وجود دارد. حركت بسيجى، سرنوشت ايران را، بلكه سرنوشت فراتر از ايران را تغيير داد، تعيين كرد. از روز اول، بسيجيان امام ما در ميدانهاى گوناگون انقلاب تا پيروزى انقلاب و تا پس از انقلاب حركتى كردند كه ماندگار شد، الگو شد، يادگار ملت ايران در عرصهى تاريخ شد. امروز جوانان نيويورك و كاليفرنيا هم شعارهاى مردم مصر و تونس را تكرار ميكنند، از آنها الهام ميگيرند؛ انكار هم نميكنند. جوانان مصر و تونس هم از حزبالله و حماس و جهاد اسلامى الهام گرفتهاند و فرا گرفتهاند و پنهان نكردند. و معلم اول در عصر جديد، بسيجىِ امام بزرگوار ما بود؛ كه همه از بسيجىِ امام بزرگوار فراگرفتند و از جانبازان و سربازان و فداكاران اين انقلاب ياد گرفتند كه چگونه ميتوان اسطورههاى قدرت مادى را شكست، چگونه ميتوان به نام خدا بتها را شكست، چگونه ميتوان ايستاد، چگونه ميتوان مقاومت كرد.
اينها حقايقى است كه امروز وجود بسيج، عينيت بسيج، حركت بسيج، هدفهاى بسيج، ما را به اين حقايق آشنا ميكند. انقلاب اسلامى و ملت انقلابى با يك چنين فرهنگى، با يك چنين آموزههائى، با يك چنين روحيهاى، توانست بسيارى از ناممكنها را ممكن كند، محقق كند؛ و اين حركت ادامه خواهد داشت. دشمنىِ دشمنان نميتواند تأثيرى بگذارد. البته دشمن، دشمنى ميكند - در اين ترديدى نبايد داشت، انتظارى هم جز اين از دشمن نبايد داشت - منتها ما وقتى حركت عظيم ملت ايران را از آغاز اين انقلاب، اين حركت، اين نهضت عمومى تا امروز مشاهده ميكنيم، مىبينيم يك خط سير مشخصى دارد. ملت ايران به سمت پيش حركت ميكند، به سمت اوج حركت ميكند، در ميدانهاى گوناگون بر چالشهاى گوناگون غلبه پيدا ميكند؛ و دشمنان در همين مقابله و مواجهه عقبنشينى ميكنند، كوتاه مىآيند؛ ناچارند. با اين حركت، سرنوشت ملت ايران، پيروزىِ قطعى است.
امروز در سرتاسر منطقهى اسلامى و منطقهى عربى، حركتهاى اسلامى و جوششهاى اسلامى مشاهده ميشود؛ اين همان چيزى است كه سى سال كسانى كه با حقيقت انقلاب آشنا بودند، انتظارش را داشتند و دشمنان انقلاب سى سال از تصور چنين چيزى به خود ميلرزيدند؛ واهمه و وحشت حوادثى را داشتند كه امروز اتفاق افتاده است. طراحان توطئههاى عليه انقلاب اسلامى پيشبينى ميكردند كه يك چنين حوادثى پيش خواهد آمد؛ و پيش آمد، و اين پيش خواهد رفت و متوقف نخواهد شد.
امروز ملتهاى مسلمان در منطقهى عربى سر بلند كردهاند، آگاه شدهاند، بيدار شدهاند. دشمنان نميتوانند آنها را سركوب كنند و نميتوانند راه را منحرف كنند. حركت به جريان افتاده است و وضع دنيا را تحت تأثير قرار داده است. همين حركتهائى كه امروز شما در دنياى غرب، در آمريكا و در اروپا مشاهده ميكنيد، نشان دهندهى تغييرات عظيمى است كه آيندهى دنيا شاهد اين تغييرات خواهد بود.
ما از عكسالعمل دشمنان تعجب نميكنيم؛ از تهديدهائى كه ميشود، از تحريمى كه ميكنند، از آنچه كه كشورهاى استكبارى در اين دوره در مواجههى با نظام جمهورى اسلامى انجام ميدهند، تعجب نميكنيم. آنها ميدانند كه كانون اين حركت، جمهورى اسلامى بود و ايستادگى ملت ايران است كه توانسته است اين روحيه را در منطقه بگستراند كه ميشود در مقابل هيمنهى استكبار ايستاد. استكبار پيشرفت كار خودش را همواره از راه مرعوب كردنها - ملتها را مرعوب ميكردند، سران كشورها را مرعوب ميكردند - پيش برده است. وقتى اين پردهى رعب بشكند، وقتى ملتها بدانند كه اين هيمنه، هيمنهى حقيقى و واقعى نيست و صورى و ظاهرى است، اين سلاح از دست استكبار گرفته خواهد شد. و امروز اينجور شده است. لذا خشمگينند، عصبانىاند، روى جمهورى اسلامى فشار وارد ميكنند.
البته اين كه جمهورى اسلامى را متهم كنند كه اين حركات را راه انداخته، غلط است؛ اين يك تهمت بيجا و بيموردى است؛ احتياجى به اين كار نيست. نظام اسلامى با بقاء خود، با ايستادگى خود، با صدق خود در اين راه - كه ملت ايران نشان داد در اين راه صادق است - الهامبخش بوده است و اين الهامبخشى وجود دارد. ملتها بيدار شدهاند و راه خود را پيدا كردهاند. دشمنان هم دشمنى ميكنند. البته اين دشمنىها چالشهائى را ايجاد ميكند. ملت ايران به مواجههى با اين چالشها عادت كرده است و ما انشاءالله بر همهى چالشهائى كه دشمنان به وجود مىآورند، غلبه خواهيم كرد و پيروز خواهيم شد و خداى متعال براى ملت ايران و در نهايت براى امت اسلامى و استقرار حقايق نورانى اسلام در عالم، اين پيروزى را مقدر فرموده است.
اميدواريم خداوند متعال توفيق تداوم در اين راه را به همهى ملت عزيز ما، به جوانان عزيز بسيجى ما، به همهى جوانان اين كشور و به مسئولان مرحمت كند. همه بدانند كه در اين زمينهها مسئولند؛ هم مسئولان كشور، هم قشرهاى گوناگون. مردم در ميدان حاضرند. آمادگى مردم در قضاياى گوناگون، آمادگى كامل است. مسئولان هم بايد قدر اين ملت را و اين آمادگى را بدانند و وظائف خود را، كارهائى را كه بر دوش آنهاست، به بهترين وجهى در قواى سهگانه انجام بدهند و ملت با انسجام پيش برود.
اين حركتهاى اسلامى در اطراف دنياى اسلام هم بلاشك حركتهاى ماندگارى است، حركتهاى پيشروندهاى است. ملتها يكى پس از ديگرى بيدار ميشوند. دستنشاندگان استكبار، يكى پس از ديگرى از عرصه و صحنه خارج خواهند شد و انشاءالله روزبهروز شوكت اسلام و اقتدار اسلام بيشتر خواهد شد.
پروردگارا! ما را لايق اين نعمتهاى بزرگ قرار بده؛ ما را شاكر اين نعمتهاى بزرگ قرار بده. پروردگارا! دلهاى ما را به نور محبت و معرفتِ خودت و اوليائت منور بگردان؛ دعاى بقيّةالله (ارواحنا فداه) را شامل حال ما بفرما.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Supreme Leader’s Speech to Basijis
28/11/2011
The following is the full text of the speech delivered on November 28, 2011 by Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution to a group of basijis from different parts of the country.
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful
All praise is due to Allah, the Lord of the Worlds, and peace and greetings upon our Master, Muhammad, and upon his immaculate household, especially the one remaining with Allah on earth.
I am grateful to Allah the Exalted who gave me the opportunity to attend this glorious and excellent meeting. I would like to ask the brothers and sisters who are standing around the square to sit down so that we can have a discussion.
Today has coincided with the first day of the month of Muharram. The identity and nature of Basij are in harmony with the identity of Muharram and Ashura. Basij is proud of being a follower of the school of Ashura. Of course Ashura is the peak of self-sacrifice. The issue of Ashura and what happened to Hussein ibn Ali (a.s.) and his loyal companions have been identified in the entire history and the entire world with self-sacrifice and selfless efforts in the way of God and for a divine cause. But the issue of Ashura is not limited to this. Yes, self-sacrifice and martyrdom are the most prominent and significant aspect of Ashura, but there are also other truths in Ashura. From the beginning of the movement in Medina, the seeds of knowledge and insight were sowed: this is one of the characteristics of the event that happened on Ashura. If a people lack insight, different things will not help them improve their conditions and solve their problems. Therefore, purity, identifying the opportunities, sowing the seeds of a growing historical movement - these are among the important characteristics of Ashura. The event did not end on the noon of Ashura. In fact a movement started in history from the noon of Ashura, a movement whose scope is still widening and expanding and it will continue expanding in the future as well. Imam Hussein (a.s.) brought whatever he had into the arena in order to promote the word of God and save mankind. These are some of the characteristics that one can identify in the event that happened on Ashura.
Basij is following the same path. It is continuing the same movement. It is pursuing the same goals. It is using the same tools and means. Basij is from among the people and it was established for the sake of the people. It was established in order to further the great movement of a mujahid nation. Basij is present in defense, science, art, construction of the country, politics, culture, helping oppressed and helpless people, production, technology, furthering different affairs of the country, sports, international arenas and all righteous actions. This is the movement of Basij: a popular movement for the people, in the hearts of the people, from among the people, from among different social classes, from among women and men - young and old - from different professions. That is to say, an organization was established which was hezbollahi in the real sense of the word.
Basij is political in nature, but it is not intoxicated by political and partisan activities. Basij is a mujahid organization, but it is not without discipline. It is not radical. Basij is deeply pious and religious, but it is not rigid and superstitious. Basij is insightful, but it is not self-centered. Basij is inclusive - and I have recommended maximum inclusion - but it will not compromise principles. Basij is brave. It is the guardian of principles. Basij is a supporter of science, but it is not intoxicated with science. Basij enjoys Islamic characteristics and it is not hypocritical. Basij is involved in improving the world, but it does not have materialistic tendencies. And this is a culture.
The basiji culture includes the knowledge, methods and behaviors which can give rise to great things that guarantee the permanent Islamic movement of a nation on a straight path. This is a school of thought and it is not just an abstract concept: it has a manifestation in the real world. The movement of Basij changed the destiny of Iran and it even went beyond changing the destiny of Iran. From the first day, basijis continued their activities in different revolutionary arenas before and after the Revolution and their movement became permanent. It became a model. It went down in history in the name of the Iranian nation. Today the youth of New York and California are repeating the slogans of the people of Egypt and Tunisia. They are inspired by these nations and they do not deny this. And the youth of Egypt and Tunisia were inspired by Hezbollah, Hamas and Islamic Jihad and they did not hide this. Basijis who were deployed by our magnanimous Imam (r.a.) started this inspiration in the modern world. Everybody learnt how to defeat the icons of materialistic power from our Imam\'s basijis and from our disabled war veterans, soldiers and selfless people. They learnt how to break idols in the name of God. They leant how to stand firm and how to resist.
Today the existence, movement and goals of Basij make us familiar with these truths. By relying on this culture, these teachings and this spirit, the Islamic Revolution and the revolutionary Iranian nation managed to accomplish many things which were considered impossible and this movement will continue. The hostility of the enemies cannot affect this. Of course the enemy will continue its hostility. We must not have any doubts in this regard. In fact an enemy should not be expected to behave otherwise. However, when we consider the great movement of the Iranian nation from the beginning of the Revolution to the present day, we see that there is a clear path. The Iranian nation is moving forward. It is moving towards the peak. It continues overcoming different challenges in different arenas and the enemies are forced to back down in this confrontation. With this movement, the Iranian nation will definitely achieve victory.
Today Islamic movements and uprisings are being witnessed throughout Islamic and Arab regions. This is exactly what has been expected since thirty years ago by those who were familiar with the nature of the Revolution. And in anticipation of such a thing, the enemies of the Revolution were trembling with fear for thirty years. They lived in fear of the events that have already happened today. Those who were hatching plots against the Islamic Revolution predicted such events and they happened. These events will continue and they will not stop.
Today Muslim people have risen up in the Arab region. They have become aware. They have awakened. The enemies cannot suppress them. They cannot change their path. The movement has already started and it has affected the conditions of the world. The movements that you see today in the western world - in America and in Europe - are indicative of great changes that the world will witness in the future.
We are not surprised by the response of the enemies. We are not surprised by the threats they make, the sanctions they impose and what the arrogant countries have been doing against the Islamic Republic during this time. They know that the Islamic Republic was the source of this movement. They know that it is the resistance of the Iranian nation that has managed to promote the idea in the region that it is possible to stand up against the power of the arrogant powers. The arrogant powers have always resolved their problems through intimidation. They intimidate nations and their leaders. When this technique is revealed and when nations realize that the power of the arrogant countries is superficial and not genuine, the arrogant powers will lose this weapon. And this is what has happened today. Therefore, they are angry and they pressure the Islamic Republic.
Of course they wrongly accuse the Islamic Republic of having started these movements. This is a baseless accusation. There is no need for such actions. The Islamic Republic has been inspirational because of its permanence, resistance and sincerity on this path - and the Iranian nation proved that it is sincere on this path. This inspiration is still there. Nations have awakened and they have found their path. And the enemies are continuing their hostility. Of course these hostilities create certain challenges. The Iranian nation is used to confronting such challenges. By Allah\'s favor, we will overcome all the challenges that the enemies create and we will achieve victory. Allah the Exalted has pre-ordained the establishment of brilliant Islamic truths in the world and He has also pre-ordained victory for the Iranian nation and ultimately for the Islamic Ummah.
I hope Allah the Exalted will bless all our people, our basijis and all our youth and government officials with the opportunity to continue this path. Everybody should know that they are responsible in these areas. All our government officials and people should know this. The people are present in the arena. The people are completely prepared in different areas and our government officials should appreciate our people and their preparedness. Our government officials should carry out their responsibilities in the three branches of government in the best possible way so that our nation can move forward in a coherent way.
Undoubtedly these Islamic movements around the world of Islam are permanent and progressive movements. Nations are awakening one after the other. The puppets of the arrogant powers will leave the scene one after the other and by Allah\'s favor, the power and glory of Islam will increase on a daily basis.
Dear God, help us be worthy of these great blessings. Make us be thankful for these great blessings. Dear God, enlighten our hearts with the light of Your love and knowledge and with the love and knowledge of your saints. Make us benefit from the prayers of the Imam of the Age (may our souls be sacrificed for his sake).
Greetings be upon you and Allah\'s mercy and blessings
More...
Description:
بيانات در دیدار اقشار نمونه بسیج سراسر كشور
بسماللهالرّحمنالرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين سيّما بقيّةالله فى الأرضين.
خداوند متعال را سپاسگزارم براى توفيق حضور در اين ديدار باشكوه و بسيار خوب. از برادران و خواهرانى كه در اطراف ميدان ايستادهاند، خواهش ميكنم بنشينند تا بتوانيم بحث كنيم.
امروز مقارن با اول محرم است. تناسبى هست ميان هويت و حقيقت بسيج با هويت محرم و عاشورا. بسيج افتخار دارد كه پيرو مكتب عاشوراست. البته عاشورا اوج فداكارى و ايثار است. همهى تاريخ، همهى عالم، مسئلهى عاشورا و حسينبنعلى (عليهالسّلام) و اصحاب وفادار او را با اين خصوصيت شناختهاند؛ فداكارى، ايثار در راه خدا و در راه تحقق اهداف الهى؛ ليكن مسئلهى عاشورا فقط اين نيست. بله، برجستهترين و نمايانترين خصوصيت عاشورا، همين فداكارى و شهادت است؛ ولى در ماجراى عاشورا حقايق ديگرى هم وجود دارد. از آغاز حركت از مدينه، بذر معرفت پاشيده شد - اين يكى از خصوصيات حادثهى عاشوراست - بذر بصيرت پاشيده شد. اگر مردمى، امتى از بصيرت برخوردار نباشند، حقايق گوناگون، كار آنها را اصلاح نخواهد كرد؛ گره از مشكلات آنها گشوده نخواهد شد. بنابراين اخلاص، موقعشناسى، پاشيدن بذر يك حركت فزايندهى تاريخى، از خصوصيات مهم عاشوراست. ماجرا فقط در ظهر عاشورا تمام نشد؛ در واقع از ظهر عاشورا يك جريانى در تاريخ شروع شد، كه همچنان رو به افزايش و گسترش است. بعد از اين هم همين خواهد بود. امام حسين (عليهالسّلام) براى اعلاى كلمهى حق و براى نجات خلق، همهى داشتههاى خود را به ميدان آورد. اين برخى از خصوصياتى است كه انسان به طور كلى در ماجراى عاشورا ميتواند ببيند و نشان بدهد.
بسيج، همين راه است؛ همين حركت است؛ همين هدفهاست؛ همين ابزارها و وسيلههاست. بسيج، جمع فداكارى از مردمند، براى مردم؛ تشكيل يك مجموعهاى در حركت عظيم يك ملت مجاهد. حضور در دفاع، حضور در علم، حضور در هنر، حضور در سازندگى، حضور در سياست، در فرهنگ، در كمك به مستضعفان، در كمك به درماندگان، در توليد، در فناورى، در پيشبرد مسائل گوناگون كشور، در ورزش، در درخششهاى بينالمللى، در هر كار خير؛ اين حركت بسيج است؛ حركتى مردمى، براى مردم، در دل مردم، از خود مردم، از همهى قشرها، زنان، مردان، جوانان، پيران، نوجوانان، از اصناف گوناگون؛ يعنى تشكيل يك مجموعهى حزبالله واقعى.
بسيج سياسى است، اما سياستزده نيست، سياسىكار نيست، جناحى نيست؛ بسيج مجاهد است، اما بىانضباط نيست، افراطى نيست؛ بسيج عميقاً متدين و متعبد است، اما متحجر نيست، خرافى نيست؛ بسيج بابصيرت است، اما ازخودراضى نيست؛ بسيج اهل جذب است - گفتهايم جذب حداكثرى - اما اهل تسامح در اصول نيست؛ بسيج غيور است، پاسدار خطوط فاصل است؛ بسيج طرفدار علم است، اما علمزده نيست؛ بسيج متخلق به اخلاق اسلامى است، اما رياكار نيست؛ بسيج در كار آبادكردن دنياست، اما خود اهل دنيا نيست. اين شد يك فرهنگ.
فرهنگ بسيجى يعنى آن مجموعهى معرفتها و روشها و منشهائى كه ميتواند مجموعههاى عظيمى را در ملت به وجود بياورد كه تضمينكنندهى حركت مستقيم و پايدار اسلامى آن ملت باشند. اين يك تفكر است؛ در ذهن هم نيست، در خارج و در عينيت وجود دارد. حركت بسيجى، سرنوشت ايران را، بلكه سرنوشت فراتر از ايران را تغيير داد، تعيين كرد. از روز اول، بسيجيان امام ما در ميدانهاى گوناگون انقلاب تا پيروزى انقلاب و تا پس از انقلاب حركتى كردند كه ماندگار شد، الگو شد، يادگار ملت ايران در عرصهى تاريخ شد. امروز جوانان نيويورك و كاليفرنيا هم شعارهاى مردم مصر و تونس را تكرار ميكنند، از آنها الهام ميگيرند؛ انكار هم نميكنند. جوانان مصر و تونس هم از حزبالله و حماس و جهاد اسلامى الهام گرفتهاند و فرا گرفتهاند و پنهان نكردند. و معلم اول در عصر جديد، بسيجىِ امام بزرگوار ما بود؛ كه همه از بسيجىِ امام بزرگوار فراگرفتند و از جانبازان و سربازان و فداكاران اين انقلاب ياد گرفتند كه چگونه ميتوان اسطورههاى قدرت مادى را شكست، چگونه ميتوان به نام خدا بتها را شكست، چگونه ميتوان ايستاد، چگونه ميتوان مقاومت كرد.
اينها حقايقى است كه امروز وجود بسيج، عينيت بسيج، حركت بسيج، هدفهاى بسيج، ما را به اين حقايق آشنا ميكند. انقلاب اسلامى و ملت انقلابى با يك چنين فرهنگى، با يك چنين آموزههائى، با يك چنين روحيهاى، توانست بسيارى از ناممكنها را ممكن كند، محقق كند؛ و اين حركت ادامه خواهد داشت. دشمنىِ دشمنان نميتواند تأثيرى بگذارد. البته دشمن، دشمنى ميكند - در اين ترديدى نبايد داشت، انتظارى هم جز اين از دشمن نبايد داشت - منتها ما وقتى حركت عظيم ملت ايران را از آغاز اين انقلاب، اين حركت، اين نهضت عمومى تا امروز مشاهده ميكنيم، مىبينيم يك خط سير مشخصى دارد. ملت ايران به سمت پيش حركت ميكند، به سمت اوج حركت ميكند، در ميدانهاى گوناگون بر چالشهاى گوناگون غلبه پيدا ميكند؛ و دشمنان در همين مقابله و مواجهه عقبنشينى ميكنند، كوتاه مىآيند؛ ناچارند. با اين حركت، سرنوشت ملت ايران، پيروزىِ قطعى است.
امروز در سرتاسر منطقهى اسلامى و منطقهى عربى، حركتهاى اسلامى و جوششهاى اسلامى مشاهده ميشود؛ اين همان چيزى است كه سى سال كسانى كه با حقيقت انقلاب آشنا بودند، انتظارش را داشتند و دشمنان انقلاب سى سال از تصور چنين چيزى به خود ميلرزيدند؛ واهمه و وحشت حوادثى را داشتند كه امروز اتفاق افتاده است. طراحان توطئههاى عليه انقلاب اسلامى پيشبينى ميكردند كه يك چنين حوادثى پيش خواهد آمد؛ و پيش آمد، و اين پيش خواهد رفت و متوقف نخواهد شد.
امروز ملتهاى مسلمان در منطقهى عربى سر بلند كردهاند، آگاه شدهاند، بيدار شدهاند. دشمنان نميتوانند آنها را سركوب كنند و نميتوانند راه را منحرف كنند. حركت به جريان افتاده است و وضع دنيا را تحت تأثير قرار داده است. همين حركتهائى كه امروز شما در دنياى غرب، در آمريكا و در اروپا مشاهده ميكنيد، نشان دهندهى تغييرات عظيمى است كه آيندهى دنيا شاهد اين تغييرات خواهد بود.
ما از عكسالعمل دشمنان تعجب نميكنيم؛ از تهديدهائى كه ميشود، از تحريمى كه ميكنند، از آنچه كه كشورهاى استكبارى در اين دوره در مواجههى با نظام جمهورى اسلامى انجام ميدهند، تعجب نميكنيم. آنها ميدانند كه كانون اين حركت، جمهورى اسلامى بود و ايستادگى ملت ايران است كه توانسته است اين روحيه را در منطقه بگستراند كه ميشود در مقابل هيمنهى استكبار ايستاد. استكبار پيشرفت كار خودش را همواره از راه مرعوب كردنها - ملتها را مرعوب ميكردند، سران كشورها را مرعوب ميكردند - پيش برده است. وقتى اين پردهى رعب بشكند، وقتى ملتها بدانند كه اين هيمنه، هيمنهى حقيقى و واقعى نيست و صورى و ظاهرى است، اين سلاح از دست استكبار گرفته خواهد شد. و امروز اينجور شده است. لذا خشمگينند، عصبانىاند، روى جمهورى اسلامى فشار وارد ميكنند.
البته اين كه جمهورى اسلامى را متهم كنند كه اين حركات را راه انداخته، غلط است؛ اين يك تهمت بيجا و بيموردى است؛ احتياجى به اين كار نيست. نظام اسلامى با بقاء خود، با ايستادگى خود، با صدق خود در اين راه - كه ملت ايران نشان داد در اين راه صادق است - الهامبخش بوده است و اين الهامبخشى وجود دارد. ملتها بيدار شدهاند و راه خود را پيدا كردهاند. دشمنان هم دشمنى ميكنند. البته اين دشمنىها چالشهائى را ايجاد ميكند. ملت ايران به مواجههى با اين چالشها عادت كرده است و ما انشاءالله بر همهى چالشهائى كه دشمنان به وجود مىآورند، غلبه خواهيم كرد و پيروز خواهيم شد و خداى متعال براى ملت ايران و در نهايت براى امت اسلامى و استقرار حقايق نورانى اسلام در عالم، اين پيروزى را مقدر فرموده است.
اميدواريم خداوند متعال توفيق تداوم در اين راه را به همهى ملت عزيز ما، به جوانان عزيز بسيجى ما، به همهى جوانان اين كشور و به مسئولان مرحمت كند. همه بدانند كه در اين زمينهها مسئولند؛ هم مسئولان كشور، هم قشرهاى گوناگون. مردم در ميدان حاضرند. آمادگى مردم در قضاياى گوناگون، آمادگى كامل است. مسئولان هم بايد قدر اين ملت را و اين آمادگى را بدانند و وظائف خود را، كارهائى را كه بر دوش آنهاست، به بهترين وجهى در قواى سهگانه انجام بدهند و ملت با انسجام پيش برود.
اين حركتهاى اسلامى در اطراف دنياى اسلام هم بلاشك حركتهاى ماندگارى است، حركتهاى پيشروندهاى است. ملتها يكى پس از ديگرى بيدار ميشوند. دستنشاندگان استكبار، يكى پس از ديگرى از عرصه و صحنه خارج خواهند شد و انشاءالله روزبهروز شوكت اسلام و اقتدار اسلام بيشتر خواهد شد.
پروردگارا! ما را لايق اين نعمتهاى بزرگ قرار بده؛ ما را شاكر اين نعمتهاى بزرگ قرار بده. پروردگارا! دلهاى ما را به نور محبت و معرفتِ خودت و اوليائت منور بگردان؛ دعاى بقيّةالله (ارواحنا فداه) را شامل حال ما بفرما.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Supreme Leader’s Speech to Basijis
28/11/2011
The following is the full text of the speech delivered on November 28, 2011 by Ayatollah Khamenei the Supreme Leader of the Islamic Revolution to a group of basijis from different parts of the country.
In the Name of Allah, the Beneficent, the Merciful
All praise is due to Allah, the Lord of the Worlds, and peace and greetings upon our Master, Muhammad, and upon his immaculate household, especially the one remaining with Allah on earth.
I am grateful to Allah the Exalted who gave me the opportunity to attend this glorious and excellent meeting. I would like to ask the brothers and sisters who are standing around the square to sit down so that we can have a discussion.
Today has coincided with the first day of the month of Muharram. The identity and nature of Basij are in harmony with the identity of Muharram and Ashura. Basij is proud of being a follower of the school of Ashura. Of course Ashura is the peak of self-sacrifice. The issue of Ashura and what happened to Hussein ibn Ali (a.s.) and his loyal companions have been identified in the entire history and the entire world with self-sacrifice and selfless efforts in the way of God and for a divine cause. But the issue of Ashura is not limited to this. Yes, self-sacrifice and martyrdom are the most prominent and significant aspect of Ashura, but there are also other truths in Ashura. From the beginning of the movement in Medina, the seeds of knowledge and insight were sowed: this is one of the characteristics of the event that happened on Ashura. If a people lack insight, different things will not help them improve their conditions and solve their problems. Therefore, purity, identifying the opportunities, sowing the seeds of a growing historical movement - these are among the important characteristics of Ashura. The event did not end on the noon of Ashura. In fact a movement started in history from the noon of Ashura, a movement whose scope is still widening and expanding and it will continue expanding in the future as well. Imam Hussein (a.s.) brought whatever he had into the arena in order to promote the word of God and save mankind. These are some of the characteristics that one can identify in the event that happened on Ashura.
Basij is following the same path. It is continuing the same movement. It is pursuing the same goals. It is using the same tools and means. Basij is from among the people and it was established for the sake of the people. It was established in order to further the great movement of a mujahid nation. Basij is present in defense, science, art, construction of the country, politics, culture, helping oppressed and helpless people, production, technology, furthering different affairs of the country, sports, international arenas and all righteous actions. This is the movement of Basij: a popular movement for the people, in the hearts of the people, from among the people, from among different social classes, from among women and men - young and old - from different professions. That is to say, an organization was established which was hezbollahi in the real sense of the word.
Basij is political in nature, but it is not intoxicated by political and partisan activities. Basij is a mujahid organization, but it is not without discipline. It is not radical. Basij is deeply pious and religious, but it is not rigid and superstitious. Basij is insightful, but it is not self-centered. Basij is inclusive - and I have recommended maximum inclusion - but it will not compromise principles. Basij is brave. It is the guardian of principles. Basij is a supporter of science, but it is not intoxicated with science. Basij enjoys Islamic characteristics and it is not hypocritical. Basij is involved in improving the world, but it does not have materialistic tendencies. And this is a culture.
The basiji culture includes the knowledge, methods and behaviors which can give rise to great things that guarantee the permanent Islamic movement of a nation on a straight path. This is a school of thought and it is not just an abstract concept: it has a manifestation in the real world. The movement of Basij changed the destiny of Iran and it even went beyond changing the destiny of Iran. From the first day, basijis continued their activities in different revolutionary arenas before and after the Revolution and their movement became permanent. It became a model. It went down in history in the name of the Iranian nation. Today the youth of New York and California are repeating the slogans of the people of Egypt and Tunisia. They are inspired by these nations and they do not deny this. And the youth of Egypt and Tunisia were inspired by Hezbollah, Hamas and Islamic Jihad and they did not hide this. Basijis who were deployed by our magnanimous Imam (r.a.) started this inspiration in the modern world. Everybody learnt how to defeat the icons of materialistic power from our Imam\'s basijis and from our disabled war veterans, soldiers and selfless people. They learnt how to break idols in the name of God. They leant how to stand firm and how to resist.
Today the existence, movement and goals of Basij make us familiar with these truths. By relying on this culture, these teachings and this spirit, the Islamic Revolution and the revolutionary Iranian nation managed to accomplish many things which were considered impossible and this movement will continue. The hostility of the enemies cannot affect this. Of course the enemy will continue its hostility. We must not have any doubts in this regard. In fact an enemy should not be expected to behave otherwise. However, when we consider the great movement of the Iranian nation from the beginning of the Revolution to the present day, we see that there is a clear path. The Iranian nation is moving forward. It is moving towards the peak. It continues overcoming different challenges in different arenas and the enemies are forced to back down in this confrontation. With this movement, the Iranian nation will definitely achieve victory.
Today Islamic movements and uprisings are being witnessed throughout Islamic and Arab regions. This is exactly what has been expected since thirty years ago by those who were familiar with the nature of the Revolution. And in anticipation of such a thing, the enemies of the Revolution were trembling with fear for thirty years. They lived in fear of the events that have already happened today. Those who were hatching plots against the Islamic Revolution predicted such events and they happened. These events will continue and they will not stop.
Today Muslim people have risen up in the Arab region. They have become aware. They have awakened. The enemies cannot suppress them. They cannot change their path. The movement has already started and it has affected the conditions of the world. The movements that you see today in the western world - in America and in Europe - are indicative of great changes that the world will witness in the future.
We are not surprised by the response of the enemies. We are not surprised by the threats they make, the sanctions they impose and what the arrogant countries have been doing against the Islamic Republic during this time. They know that the Islamic Republic was the source of this movement. They know that it is the resistance of the Iranian nation that has managed to promote the idea in the region that it is possible to stand up against the power of the arrogant powers. The arrogant powers have always resolved their problems through intimidation. They intimidate nations and their leaders. When this technique is revealed and when nations realize that the power of the arrogant countries is superficial and not genuine, the arrogant powers will lose this weapon. And this is what has happened today. Therefore, they are angry and they pressure the Islamic Republic.
Of course they wrongly accuse the Islamic Republic of having started these movements. This is a baseless accusation. There is no need for such actions. The Islamic Republic has been inspirational because of its permanence, resistance and sincerity on this path - and the Iranian nation proved that it is sincere on this path. This inspiration is still there. Nations have awakened and they have found their path. And the enemies are continuing their hostility. Of course these hostilities create certain challenges. The Iranian nation is used to confronting such challenges. By Allah\'s favor, we will overcome all the challenges that the enemies create and we will achieve victory. Allah the Exalted has pre-ordained the establishment of brilliant Islamic truths in the world and He has also pre-ordained victory for the Iranian nation and ultimately for the Islamic Ummah.
I hope Allah the Exalted will bless all our people, our basijis and all our youth and government officials with the opportunity to continue this path. Everybody should know that they are responsible in these areas. All our government officials and people should know this. The people are present in the arena. The people are completely prepared in different areas and our government officials should appreciate our people and their preparedness. Our government officials should carry out their responsibilities in the three branches of government in the best possible way so that our nation can move forward in a coherent way.
Undoubtedly these Islamic movements around the world of Islam are permanent and progressive movements. Nations are awakening one after the other. The puppets of the arrogant powers will leave the scene one after the other and by Allah\'s favor, the power and glory of Islam will increase on a daily basis.
Dear God, help us be worthy of these great blessings. Make us be thankful for these great blessings. Dear God, enlighten our hearts with the light of Your love and knowledge and with the love and knowledge of your saints. Make us benefit from the prayers of the Imam of the Age (may our souls be sacrificed for his sake).
Greetings be upon you and Allah\'s mercy and blessings
پیام نورزی رہبر معظم انقلاب - Rahbar Noroz Message - Farwardin 1391 - Farsi
متن کامل پیام نوروزی مقام معظم رهبری:
\"تولید ملى و حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" شعار امسال است...
متن کامل پیام نوروزی مقام معظم رهبری:
\"تولید ملى و حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" شعار امسال است
خبرگزاری فارس: رهبر معظم انقلاب اسلامی شعار امسال را \"تولید ملى، حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" عنوان کرده و بر حمایت از تولید ملی تأکید کردند.
به گزارش خبرگزاری فارس، متن کامل پیام مقام معظم رهبری به مناسبت آغاز سال 1391 هجری شمسی به شرح ذیل است:
بسماللّهالرّحمنالرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار یا مدبّر اللّیل و النّهار یا محوّل الحول و الأحوال حوّل حالنا الى احسن الحال.
اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و على ءابائه فى هذه السّاعة و فى کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّى تسکنه ارضک طوعا و تمتّعه فیها طویلا.
اللّهمّ اعطه فى نفسه و ذریّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقرّ به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک عرض میکنم عید نوروز و فرا رسیدن سال نو را به همهى هممیهنان عزیز در سراسر کشور، و به همهى ایرانیانى که در هر نقطهاى از دنیا سکونت دارند، و به همهى ملتهائى که عید نوروز را گرامى میدارند؛ بالخصوص تبریک عرض میکنم به خانوادههاى عزیز شهیدان، به جانبازان، به خانوادههاشان، به همهى ایثارگران، به همهى فعالان عرصههاى مختلف. آرزو میکنم و دعا میکنم که خداوند متعال براى ملت ایران بهروزى، شادى، نشاط و دلِ خوش در این سال جدید مقدر بفرماید و بدخواهان این ملت را در اهدافشان، در تلاشهاشان انشاءاللّه ناکام کند.
سالى که گذشت - سال 90 - یکى از سالهاى پرحادثه در سطح جهان و در منطقه و در کشور ما بود. آنچه که در مجموع انسان مشاهده میکند، این است که این حوادث بر روى هم به سود ملت ایران و در راه کمک به هدفهاى آن، تمام شده است. آن کسانى که اهداف بدخواهانهاى دربارهى ملت ایران و ایران و ایرانى در سر میپرورانند، در کشورهاى غربى دچار مشکلات گوناگون هستند. در سطح منطقه، ملتهائى که جمهورى اسلامى از آنها همواره حمایت کرده است، به هدفهاى بزرگى دست پیدا کردهاند؛ دیکتاتورهائى به زیر کشیده شدند؛ قانونهاى اساسىِ مبتنى بر اسلام در کشورهائى تصویب شد؛ دشمن درجهى یک امت اسلامى و ملت ایران - یعنى رژیم صهیونیستى - در محاصره قرار گرفت. در داخل کشور، به معناى حقیقى کلمه، سال 90، سال بروز اقتدار ملت ایران بود. در جنبهى سیاسى، ملت ایران در این سال، چه در راهپیمائى بیست و دوى بهمن، چه در انتخابات دوازدهم اسفند، آنچنان حضورى از خود نشان داد و آنچنان شاخصى را براى اقتدار ملى در تاریخ منطقه ثبت کرد که نظیر آن را در گذشته کمتر داشتیم.
با وجود اینهمه دشمنى، اینهمه تبلیغات، اینهمه تهاجمهاى خصمانه و بدخواهانه، ملت ایران در طول این سال، با همهى وجود توانست حضور خود را در صحنه، نشاط خود را، آمادگى خود را در عرصههاى گوناگون علمى و اجتماعى و سیاسى و اقتصادى نشان بدهد و اثبات کند. بحمداللَّه سالى بود که با همهى سختىها، داراى دستاوردهاى بزرگى بود. همچنان که قبلاً عرض شده است، شرائط، شرائط بدر و خیبر بود؛ یعنى شرائط قبول چالشها و دشوارىها و غلبهى بر آنها.
همان طورى که اولِ سال گذشته اعلام شد، سال 90، سال جهاد اقتصادى بود. اگرچه هوشمندان و آگاهان میدانستند که این نام و این جهتگیرى و شعار براى سال 90 یک امر لازم است، اما بعد تلاشهاى دشمنان در این سال هم همین را اثبات کرد و نشان داد. دشمنان ما از اوائل سال، حرکت خصمانهى خودشان را در عرصهى اقتصادى نسبت به ملت ایران آغاز کردند؛ اما ملت ایران، مسئولین، آحاد مردم، دستگاههاى مختلف، با تدبیرهاى هوشمندانهاى توانستند با این تحریمها مقابله کنند و مواجههى آنها تا حدود زیادى توانست اثر این تحریمها را خنثى کند و حربهى دشمن را کُند کند. سال 90، سال فعالیتهاى بزرگ علمى بود؛ که من انشاءاللَّه در فرصت سخنرانى، برخى از پیشرفتهاى علمى و اقتصادى و تلاشهاى گوناگون را براى ملت عزیزمان شرح خواهم داد. سال 90 سالى بود پر چالش، و سالى بود پر نشاط، و سالى بود که ملت ایران به فضل الهى توانست بر چالشهاى موجود غلبه کند.
ما امسال سال دیگرى را در پیش داریم که به امید خدا و با توکل بر پروردگار، باز ملت ایران با فعالیت خود، با تلاش خود، با هوشمندى خود در این سال خواهد توانست پیشرفتهاى زیادى را براى خود به ارمغان بیاورد. به تشخیص من، بر طبق گزارشها و مشاورهى با افراد مطلع و آگاه، به این نتیجه میرسیم که عرصهى چالش مهم در همین سال جارى - که این سال، امروز و از این ساعت شروع میشود - عرصهى اقتصادى است. جهاد اقتصادى چیزى نیست که تمامشدنى باشد. مجاهدت اقتصادى، حضور جهادگونه در عرصههاى اقتصادى، براى ملت ایران یک ضرورت است.
من امسال تقسیم میکنم مسائل مربوط به جهاد اقتصادى را. یک بخش مهم از مسائل اقتصادى برمیگردد به مسئلهى تولید داخلى. اگر به توفیق الهى و با اراده و عزم راسخِ ملت و با تلاش مسئولان، ما بتوانیم مسئلهى تولید داخلى را، آنچنان که شایستهى آن است، رونق ببخشیم و پیش ببریم، بدون تردید بخش عمدهاى از تلاشهاى دشمن ناکام خواهد ماند. پس بخش مهمى از جهاد اقتصادى، مسئلهى تولید ملى است. اگر ملت ایران با همت خود، با عزم خود، با آگاهى و هوشمندى خود، با همراهى و کمک مسئولان، با برنامهریزىِ درست بتواند مشکل تولید داخلى را حل کند و در این میدان پیش برود، بدون تردید بر چالشهائى که دشمن آن را فراهم کرده است، غلبهى کامل و جدى پیدا خواهد کرد. بنابراین مسئلهى تولید ملى، مسئلهى مهمى است.
اگر ما توانستیم تولید داخلى را رونق ببخشیم، مسئلهى تورم حل خواهد شد؛ مسئلهى اشتغال حل خواهد شد؛ اقتصاد داخلى به معناى حقیقى کلمه استحکام پیدا خواهد کرد. اینجاست که دشمن با مشاهدهى این وضعیت، مأیوس و ناامید خواهد شد. وقتى دشمن مأیوس شد، تلاش دشمن، توطئهى دشمن، کید دشمن هم تمام خواهد شد.
بنابراین همهى مسئولین کشور، همهى دستاندرکاران عرصهى اقتصادى و همهى مردم عزیزمان را دعوت میکنم به این که امسال را سال رونق تولید داخلى قرار بدهند. بنابراین شعار امسال، «تولید ملى، حمایت از کار و سرمایهى ایرانى» است. ما باید بتوانیم از کارِ کارگر ایرانى حمایت کنیم؛ از سرمایهى سرمایهدار ایرانى حمایت کنیم؛ و این فقط با تقویت تولید ملى امکانپذیر خواهد شد. سهم دولت در این کار، پشتیبانى از تولیدات داخلىِ صنعتى و کشاورزى است. سهم سرمایهداران و کارگران، تقویت چرخهى تولید و اتقان در کار تولید است. و سهم مردم - که به نظر من از همهى اینها مهمتر است - مصرف تولیدات داخلى است. ما باید عادت کنیم، براى خودمان فرهنگ کنیم، براى خودمان یک فریضه بدانیم که هر کالائى که مشابه داخلى آن وجود دارد و تولید داخلى متوجه به آن است، آن کالا را از تولید داخلى مصرف کنیم و از مصرف تولیدات خارجى بجد پرهیز کنیم؛ در همهى زمینهها: زمینههاى مصارف روزمرّه و زمینههاى عمدهتر و مهمتر. بنابراین ما امیدوار هستیم که با این گرایش، با این جهتگیرى و رویکرد، ملت ایران در سال 91 هم بتواند بر توطئهى دشمنان، بر کید و مکر بدخواهان در زمینهى اقتصادى فائق بیاید.
از خداوند متعال درخواست میکنیم که ملت ایران را در این صحنه و در همهى صحنهها موفق و مؤید بدارد. روح امام بزرگوار را شاد و از ما راضى کند. ارواح طیبهى شهیدان عزیز ما را با اولیائشان محشور فرماید.
والسّلام علیکم و رحمةاللّه و برکاته
More...
Description:
متن کامل پیام نوروزی مقام معظم رهبری:
\"تولید ملى و حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" شعار امسال است
خبرگزاری فارس: رهبر معظم انقلاب اسلامی شعار امسال را \"تولید ملى، حمایت از کار و سرمایه ایرانى\" عنوان کرده و بر حمایت از تولید ملی تأکید کردند.
به گزارش خبرگزاری فارس، متن کامل پیام مقام معظم رهبری به مناسبت آغاز سال 1391 هجری شمسی به شرح ذیل است:
بسماللّهالرّحمنالرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار یا مدبّر اللّیل و النّهار یا محوّل الحول و الأحوال حوّل حالنا الى احسن الحال.
اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و على ءابائه فى هذه السّاعة و فى کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّى تسکنه ارضک طوعا و تمتّعه فیها طویلا.
اللّهمّ اعطه فى نفسه و ذریّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقرّ به عینه و تسرّ به نفسه.
تبریک عرض میکنم عید نوروز و فرا رسیدن سال نو را به همهى هممیهنان عزیز در سراسر کشور، و به همهى ایرانیانى که در هر نقطهاى از دنیا سکونت دارند، و به همهى ملتهائى که عید نوروز را گرامى میدارند؛ بالخصوص تبریک عرض میکنم به خانوادههاى عزیز شهیدان، به جانبازان، به خانوادههاشان، به همهى ایثارگران، به همهى فعالان عرصههاى مختلف. آرزو میکنم و دعا میکنم که خداوند متعال براى ملت ایران بهروزى، شادى، نشاط و دلِ خوش در این سال جدید مقدر بفرماید و بدخواهان این ملت را در اهدافشان، در تلاشهاشان انشاءاللّه ناکام کند.
سالى که گذشت - سال 90 - یکى از سالهاى پرحادثه در سطح جهان و در منطقه و در کشور ما بود. آنچه که در مجموع انسان مشاهده میکند، این است که این حوادث بر روى هم به سود ملت ایران و در راه کمک به هدفهاى آن، تمام شده است. آن کسانى که اهداف بدخواهانهاى دربارهى ملت ایران و ایران و ایرانى در سر میپرورانند، در کشورهاى غربى دچار مشکلات گوناگون هستند. در سطح منطقه، ملتهائى که جمهورى اسلامى از آنها همواره حمایت کرده است، به هدفهاى بزرگى دست پیدا کردهاند؛ دیکتاتورهائى به زیر کشیده شدند؛ قانونهاى اساسىِ مبتنى بر اسلام در کشورهائى تصویب شد؛ دشمن درجهى یک امت اسلامى و ملت ایران - یعنى رژیم صهیونیستى - در محاصره قرار گرفت. در داخل کشور، به معناى حقیقى کلمه، سال 90، سال بروز اقتدار ملت ایران بود. در جنبهى سیاسى، ملت ایران در این سال، چه در راهپیمائى بیست و دوى بهمن، چه در انتخابات دوازدهم اسفند، آنچنان حضورى از خود نشان داد و آنچنان شاخصى را براى اقتدار ملى در تاریخ منطقه ثبت کرد که نظیر آن را در گذشته کمتر داشتیم.
با وجود اینهمه دشمنى، اینهمه تبلیغات، اینهمه تهاجمهاى خصمانه و بدخواهانه، ملت ایران در طول این سال، با همهى وجود توانست حضور خود را در صحنه، نشاط خود را، آمادگى خود را در عرصههاى گوناگون علمى و اجتماعى و سیاسى و اقتصادى نشان بدهد و اثبات کند. بحمداللَّه سالى بود که با همهى سختىها، داراى دستاوردهاى بزرگى بود. همچنان که قبلاً عرض شده است، شرائط، شرائط بدر و خیبر بود؛ یعنى شرائط قبول چالشها و دشوارىها و غلبهى بر آنها.
همان طورى که اولِ سال گذشته اعلام شد، سال 90، سال جهاد اقتصادى بود. اگرچه هوشمندان و آگاهان میدانستند که این نام و این جهتگیرى و شعار براى سال 90 یک امر لازم است، اما بعد تلاشهاى دشمنان در این سال هم همین را اثبات کرد و نشان داد. دشمنان ما از اوائل سال، حرکت خصمانهى خودشان را در عرصهى اقتصادى نسبت به ملت ایران آغاز کردند؛ اما ملت ایران، مسئولین، آحاد مردم، دستگاههاى مختلف، با تدبیرهاى هوشمندانهاى توانستند با این تحریمها مقابله کنند و مواجههى آنها تا حدود زیادى توانست اثر این تحریمها را خنثى کند و حربهى دشمن را کُند کند. سال 90، سال فعالیتهاى بزرگ علمى بود؛ که من انشاءاللَّه در فرصت سخنرانى، برخى از پیشرفتهاى علمى و اقتصادى و تلاشهاى گوناگون را براى ملت عزیزمان شرح خواهم داد. سال 90 سالى بود پر چالش، و سالى بود پر نشاط، و سالى بود که ملت ایران به فضل الهى توانست بر چالشهاى موجود غلبه کند.
ما امسال سال دیگرى را در پیش داریم که به امید خدا و با توکل بر پروردگار، باز ملت ایران با فعالیت خود، با تلاش خود، با هوشمندى خود در این سال خواهد توانست پیشرفتهاى زیادى را براى خود به ارمغان بیاورد. به تشخیص من، بر طبق گزارشها و مشاورهى با افراد مطلع و آگاه، به این نتیجه میرسیم که عرصهى چالش مهم در همین سال جارى - که این سال، امروز و از این ساعت شروع میشود - عرصهى اقتصادى است. جهاد اقتصادى چیزى نیست که تمامشدنى باشد. مجاهدت اقتصادى، حضور جهادگونه در عرصههاى اقتصادى، براى ملت ایران یک ضرورت است.
من امسال تقسیم میکنم مسائل مربوط به جهاد اقتصادى را. یک بخش مهم از مسائل اقتصادى برمیگردد به مسئلهى تولید داخلى. اگر به توفیق الهى و با اراده و عزم راسخِ ملت و با تلاش مسئولان، ما بتوانیم مسئلهى تولید داخلى را، آنچنان که شایستهى آن است، رونق ببخشیم و پیش ببریم، بدون تردید بخش عمدهاى از تلاشهاى دشمن ناکام خواهد ماند. پس بخش مهمى از جهاد اقتصادى، مسئلهى تولید ملى است. اگر ملت ایران با همت خود، با عزم خود، با آگاهى و هوشمندى خود، با همراهى و کمک مسئولان، با برنامهریزىِ درست بتواند مشکل تولید داخلى را حل کند و در این میدان پیش برود، بدون تردید بر چالشهائى که دشمن آن را فراهم کرده است، غلبهى کامل و جدى پیدا خواهد کرد. بنابراین مسئلهى تولید ملى، مسئلهى مهمى است.
اگر ما توانستیم تولید داخلى را رونق ببخشیم، مسئلهى تورم حل خواهد شد؛ مسئلهى اشتغال حل خواهد شد؛ اقتصاد داخلى به معناى حقیقى کلمه استحکام پیدا خواهد کرد. اینجاست که دشمن با مشاهدهى این وضعیت، مأیوس و ناامید خواهد شد. وقتى دشمن مأیوس شد، تلاش دشمن، توطئهى دشمن، کید دشمن هم تمام خواهد شد.
بنابراین همهى مسئولین کشور، همهى دستاندرکاران عرصهى اقتصادى و همهى مردم عزیزمان را دعوت میکنم به این که امسال را سال رونق تولید داخلى قرار بدهند. بنابراین شعار امسال، «تولید ملى، حمایت از کار و سرمایهى ایرانى» است. ما باید بتوانیم از کارِ کارگر ایرانى حمایت کنیم؛ از سرمایهى سرمایهدار ایرانى حمایت کنیم؛ و این فقط با تقویت تولید ملى امکانپذیر خواهد شد. سهم دولت در این کار، پشتیبانى از تولیدات داخلىِ صنعتى و کشاورزى است. سهم سرمایهداران و کارگران، تقویت چرخهى تولید و اتقان در کار تولید است. و سهم مردم - که به نظر من از همهى اینها مهمتر است - مصرف تولیدات داخلى است. ما باید عادت کنیم، براى خودمان فرهنگ کنیم، براى خودمان یک فریضه بدانیم که هر کالائى که مشابه داخلى آن وجود دارد و تولید داخلى متوجه به آن است، آن کالا را از تولید داخلى مصرف کنیم و از مصرف تولیدات خارجى بجد پرهیز کنیم؛ در همهى زمینهها: زمینههاى مصارف روزمرّه و زمینههاى عمدهتر و مهمتر. بنابراین ما امیدوار هستیم که با این گرایش، با این جهتگیرى و رویکرد، ملت ایران در سال 91 هم بتواند بر توطئهى دشمنان، بر کید و مکر بدخواهان در زمینهى اقتصادى فائق بیاید.
از خداوند متعال درخواست میکنیم که ملت ایران را در این صحنه و در همهى صحنهها موفق و مؤید بدارد. روح امام بزرگوار را شاد و از ما راضى کند. ارواح طیبهى شهیدان عزیز ما را با اولیائشان محشور فرماید.
والسّلام علیکم و رحمةاللّه و برکاته
[03 May 2012] دیدار با معلمان - Meeting with Teachers - Farsi
بيانات در ديدار جمعی از معلمان سراسر كشور
به مناسبت هفتهى بزرگداشت مقام معلم...
بيانات در ديدار جمعی از معلمان سراسر كشور
به مناسبت هفتهى بزرگداشت مقام معلم
بسماللّهالرّحمنالرّحيم
خيلى خوش آمديد برادران و خواهران عزيز؛ معلمان ارزشمند فرزندان و نونهالان اين ملت. لازم است در آغاز عرايض، تجليل كنيم، تكريم كنيم از ياد شهيد بزرگوارمان، شهيد مطهرى؛ چون اين بزرگوار، معلم بود؛ معلمى براى همهى سطوح، با عملكرد نافذ و ماندگار. صحت عمل او هم با خون او امضاء شد. نام اين بزرگوار بر روى يادبود تجليل از معلمان كشور قرار دارد، و اين يك كار شايستهاى است؛ رحمت خدا بر آن بزرگوار.
هدف اصلى از اين جلسه، اظهار ارادت ماست به شما معلمين عزيز. حرفهائى در زمينهى تعليم و تربيت و آموزش و پرورش و سازمان و تشكيلات و محتوا و صورت و بقيهى چيزها هست؛ كه خب، در مناسبتهاى مختلف عرض كرديم و عرض ميكنيم. ديدار ساليانهى روز معلم را كه قرار گذاشتيم، براى اين است كه نشان بدهيم، ثابت كنيم و اعلام كنيم كه ما براى مقام معلم يك منزلت و والائىِ برجستهاى قائليم؛ حقيقت قضيه هم همين است، شايسته هم همين است.
آنچه كه به معلم ارزش ميدهد، چند چيز است؛ يكى از اينها عبارت است از اينكه مادهى خامى كه در دست معلم است و با كار خود و تلاش خود ميخواهد او را به محصول نهائى برساند، يك مادهى بىجان نيست؛ انسان است. اين خيلى مهم است. يك وقت انسان يك مادهى جامد را با تلاش خود، ابتكار خود، عرق ريختن و ساعتها صرف كردن، تبديل ميكند به يك محصول مطلوب؛ كه به جاى خود ارزشمند است. يك وقت اين مادهاى كه دست ماست، يك موجود انسانى است، با استعدادهايش، با عواطفش، با احساساتش، با ظرفيتهاى فراوانى كه در يك انسان وجود دارد. اين نوجوان ممكن است فردا كسى مثل امام بزرگوار ما بشود، ممكن است يك مصلح اجتماعى بشود، ممكن است يك دانشمند برجسته بشود، ممكن است يك انسان صالح و والا بشود. همهى اين استعدادها در مجموعهى نوجوانان و كودكانى كه در اختيار معلم قرار ميگيرند، وجود دارد. ما ميخواهيم اين استعداد را به فعليت برسانيم؛ ببينيد چقدر اين كار مهم است. بيشتر خطابم به عامهى مردم ماست، به قشرهاى مختلف جامعهى ماست؛ قدر معلم را بدانند، منزلت معلم را بشناسند.
خود معلم عزيز هم اهميت جايگاه خود و برجستگى مسئوليت و مأموريت خود را بدرستى تشخيص بدهد، قدر خود را بداند؛ بداند كه اگر اين كار با همت درست، با نيت درست، با قصد الهى، با تلاش مناسب انجام بگيرد، چقدر براى جامعه ارزش افزوده ايجاد ميكند. اين ارزش افزوده، يك چيز معمولىِ متعارفى نيست؛ اين فوقالعاده است. تربيت يك انسان والا، دانا، توانا و صالح، ببينيد چقدر اهميت دارد. از اين همه انسانهائى كه زير دست معلمين واقع ميشوند، گاهى ممكن است يك انسان دنيائى را متحول كند. همين كودك اگر درست تربيت نشد، ممكن است يك هيتلر از آب در بيايد، يك چنگيز از آب در بيايد؛ قضيه اين است. اهميت كار معلم، ارزش والاى حركت او و تلاش او و دلسوزى او و درست انديشيدن او و درست كار كردن او اينجورى معلوم ميشود.
و همچنين خطاب به مجموعهى آموزش و پرورش و سازمان آموزش و پرورش است؛ كه خب، اين معلمان با سازماندهى اين سازمان، با مقررات اين سازمان مشغول كار ميشوند و با برنامهى آن عمل ميكنند و تدريس ميكنند. پس هم عموم مردم، هم خود معلمان، هم سازمان متبوع، جايگاه معلم را فراموش نكنند. معلم، آن توليد كنندهاى است، آن كارگرى است، آن سرانگشت ماهرى است كه برترين محصولات آفرينش را، بالاترين مواد خام را تبديل ميكند به برترين محصول نهائى، كه ميتواند مورد استفاده قرار بگيرد.
خب، پس ما حق داريم كه عرض كنيم اين سالى يك بار كه ما اينجا جمع ميشويم، براى عرض ارادت به معلمهاست. ميخواهيم عرض كنيم كه ما اين مرتبهى والا و اين منزلت عالى را براى شما معلمين ميشناسيم. اگر معلم خوب عمل كند، صحيح عمل كند، با تدبير عمل كند، با دلسوزى عمل كند، به نظر ما همهى مشكلات جامعه حل ميشود. نه اينكه بخواهيم بگوئيم عوامل مؤثر در تربيت جوانان ما، بيرون از محيط مدرسه وجود ندارد؛ چرا، خانوادهها مؤثرند، رسانهها مؤثرند، فضاى اجتماعى مؤثر است - در اينها ترديدى نيست - اما آن سازندهى اصلى، آن دست ماهر اصلى كه ميتواند يك ساخت مستحكمى درست كند كه اين عوامل گوناگون نتوانند تأثير بنيانىاى روى اين محصول بگذارند، دست معلم است. اين، ارزش معلم است.
من به شما عرض بكنم؛ پيش خداى متعال، اين ارزش، حسنات فراوانى را به وجود مىآورد. يعنى شما در اتاق درس و در محيط آموزش كه قرار ميگيريد و با اين نوجوان و با اين كودك مواجه ميشويد، بدانيد كه كاتبان عمل، كرامالكاتبين الهى، لحظه به لحظهى كار شما را حسنه مينويسند. چقدر اين مقرون به صرفه است كه انسان كارش، زندگىاش، شغلش چيزى باشد كه هر لحظهى آن ميتواند عبادت باشد.
البته در كنار اين اهميت والائى كه عرض كرديم، يك نكتهى ديگر هم وجود دارد، كه آن هم اهميت اين كار را نشان ميدهد و آن، زحمتى است كه معلم بر خود هموار ميكند. در اتاق درس و محيط آموزش، معلمين با كودكان، با نوجوانان، با اخلاقهاى مختلف، با احساسات گوناگون و هيجانات جوانىِ مخاطبين مواجهاند؛ اينها را بايد تحمل كنند، صبر كنند؛ اين هم ارزش كار را بالا ميبرد. بنابراين روز معلم روز مباركى است؛ انشاءاللّه بر همهى معلمين مبارك باشد، بر ملت ايران هم مبارك باشد.
يك نكتهى ديگر، مربوط به آموزش و پرورش است. آموزش و پرورش، يك سازمان فراگيرِ سراسرىِ كشورى است. يكى از فرصتهائى كه در اختيار كشور و در اختيار انقلاب قرار دارد، همين فرصت سازمان آموزش و پرورش است. شما مسئولان و بزرگان آموزش و پرورش، يك سازمان چندين ميليونى در اختيار داريد كه مثل يك رشتهى اعصاب، در سراسر اين جسمِ گسترده پراكنده است؛ مثل كانالكشى خون كه در رگهاى بدن انسان جريان دارد. اين سازمان تا اعماق شهرها و روستاها گسترده است. خوشبختانه بخصوص بعد از انقلاب شايد نقطهاى در كشور نباشد كه آموزش پرورش در آنجا حضور نداشته باشد. آموزش و پرورش سازمان عظيمى است؛ ديگر ما يك چنين سازمان بزرگِ فراگيرِ همهجائىِ همهكسى نداريم. مردم مىآيند فرزندان خود را با ميل، با رغبت، با درخواست، با تمنا، در اختيار اين سازمان ميگذارند.
اين سازمان، متعهد كارهاى بزرگى است؛ كه اين فرصتى كه در اختيار دارد، مسئوليت او را مضاعف ميكند. من ميخواهم روى اين نكتهى «مضاعف بودن مسئوليت» تكيه كنم. همان طور كه وزير محترم اخيراً اشاره كردند و بنده هم مطلعم، تلاشهاى خوبى در سطح وزارت دارد انجام ميگيرد؛ وقت ميگذارند، كار ميكنند، جلسات فراوان ميگذارند، همفكرى ميكنند، تبادل نظر ميكنند؛ اينها بسيار باارزش است، ما تقدير ميكنيم از تلاشى كه انجام ميگيرد؛ منتها توجه كنيد كه عظمت كار در حدى است كه هرچه بيشتر تلاش كنيم، نبايد خودمان را قانع كنيم و بگوئيم خب، كار ما تمام شد.
ما قبلاً دربارهى تحول بنيادى مطالبى عرض كرديم؛ مدتها من در ديدارهاى با معلمان، با مسئولين فرهنگ، با شوراى عالى انقلاب فرهنگى و ديگران اين را تكرار كردم و خوشبختانه به نتيجه هم رسيد؛ به اين معنا كه سند تحول بنيادى تهيه و تصويب شد. امروز آموزش و پرورش يك سند مكتوبى در دست دارد كه شيوهى تحول بنيادى در آموزش و پرورش را تعيين كرده. خيلى خوب، بخشى از اين كار انجام گرفت. منتها اين سند مثل نسخهى پزشك است. اگر ما به پزشك مراجعه كرديم، حق معاينه هم داديم و پزشك هم معاينهى كاملى كرد و يك نسخهاى نوشت و به ما داد، ما هم توى جيبمان گذاشتيم، رفتيم خانه و فكر كرديم تمام شد، اين با نرفتن پيش پزشك هيچ تفاوتى ندارد؛ جز اينكه يك پولى هم خرج كرديم، يك راهى هم رفتيم. دوا را بايد گرفت، دارو را بايد مصرف كرد. در اين نسخه نوشته شده كه چه داروئى را، چه مقدارى، در چه زمانى بايد مصرف كنيم. بايد اين كار را كرد؛ اگر نكرديم، رفتن پيش پزشك و گرفتن نسخه، كأنلميكن است. خب، حالا ما سند تحول بنيادين آموزش و پرورش را داريم؛ اين نسخه است؛ اين نسخه احتياج دارد به اين كه يك برنامهريزى دقيق بر اساس بندبند اين سند انجام بگيرد؛ چون بحث بر سر تحول بنيادين است؛ بحث تحول شكلى كه نيست.
شكل جديد آموزش و پرورش ما سوغاتى بود، وارداتى بود، اهدافى پشت سرش بود. خب، ما سالها هم به اين شكل عمل كرديم. بالاخره اگر خودى هم بود، اگر از درون برآمده و جوشيده هم بود، بعد از سالها انسان به يك اِشكالى برخورد ميكند؛ لذا يك نوسازى لازم است. پس اين تحول بنيادى، يك كار لازمى است. اگر ميخواهيم تحول بنيادى در آموزش و پرورش انجام بگيرد؛ يعنى اين پولى كه شما خرج ميكنيد، اين وقتى كه شما ميگذاريد، اين همه معلمى كه شما در سراسر كشور به مدارس و سراغ دانشآموزان ميفرستيد، اگر بخواهيم اينها چند برابر اثر كند و به شكل بهينه از آن بهرهبردارى شود، بايد اين تحول صورت بگيرد. اين تحول احتياج دارد به برنامهريزى. بايد قدمبهقدمِ اين سند تحول برنامهريزى شود.
بايد يك نقشهى راه وجود داشته باشد. اينجور نباشد كه امروز يك مسئولى، يك وزيرى، يك مديرى در بخشى تصميمى بگيرد، بعد فردا يكى بيايد طبق سليقه، آن را عوض كند. اين، هدر دادن وقت و نيروى كشور خواهد بود. اين يك نكتهى اساسى است. بايد يك برنامهريزى مستحكم و دقيق براى اين تحول بنيادين صورت بگيرد؛ بايد يك نقشهى راهى در اختيار باشد؛ اين را همه قبول كنند، همه تأييد كنند، همه تصديق كنند و تضمين شده باشد كه آموزش و پرورش تا آخر راه، تا آخر خط، طبق اين برنامه خواهد رفت.
اينجا يك نكتهى دومى وجود دارد و آن، مسئلهى رها نشدن كار است؛ كه آن هم به همين نكتهى اول ارتباط پيدا ميكند. كار را نبايد رها كرد. كار را بايد تا رسيدن به نتيجهى نهائى دنبال كرد؛ والّا يك كارى را شروع كنيم، يك مقدارى سر و صدا هم بشود، بعضى هم خوشحال بشوند، يا تمجيد كنند، يا انتقاد كنند، بعد يك مدتى بگذرد، آتش ما فرو بنشيند، سرد بشويم، در نتيجه كار دنبال نشود؛ در اين صورت اصل كار ضربه خواهد خورد. اين را من براى مديران عرض ميكنم؛ مديران ارشد، مديران وزارتخانهاى، مديران استانها و شهرها و مراكز.
خب، مسئلهى كتاب مهم است، مسئلهى برنامهريزى مهم است، مسئلهى مقررات مهم است، و مسئلهى معلم از همه مهمتر است. اگر براى بهتر كار كردن معلمين ما آموزش لازم است، دوره گذاشتن لازم است، دوره ديدن لازم است - اينها جزو كارهاى اوّلى است، جزو كارهاى اصلى است - اينها بايد انجام بگيرد.
از همهى اين مطالب، من ميخواهم اهميت آموزش و پرورش را نتيجه بگيرم. واقعاً اگر انسان بخواهد كارهاى كشور را، اين بخشها و قسمتهاى گوناگون كشور را تقسيمبندى كند و به حسب اهميت، موقع اينها را مشخص كند، آن بالابالاها آموزش و پرورش قرار ميگيرد. جوان ما به آموزش و پرورش بستگى دارد، اخلاق ما به آموزش و پرورش بستگى دارد. يك عدهاى مينالند از اين كه چرا ما از لحاظ اخلاقى جلو نميرويم. البته اين درست است، ما هم قبول داريم كه بايد در زمينهى اخلاقى جلوتر رفت؛ منتها يكى از شرائطش اين است كه ما براى جوانهامان الگو داشته باشيم. بعضىها با رفتارهاى خود، با عملكرد خود، با اظهارات خود، الگوهاى بدى براى جوانهاى ما ميشوند. الگوسازى، يكى از اساسىترين كارهاست. ما الگوهاى خوب خيلى داريم. اينقدر جوانهاى خوب، اينقدر چهرههاى نورانى - در تاريخ كه بماند - در زمان خودمان داريم كه همين قدر كافى است با تعريف هر كدام از اينها - تعريف به معناى معرفى كردن - يك چهرهى برجسته و يك الگو جلوى جوانانمان بگذاريم. اينها جوانهائى بودند كه از پيشروان خودشان جلو افتادند؛ جوانهائى كه پاى درس بنده و امثال بنده نشستند، اما صد پله از ما جلو رفتند؛ ما وعده كرديم، آنها عمل كردند؛ ما ياد داديم، آنها عمل كردند؛ ولى خودمان عمل نكرديم. چقدر از اين جوانها، چقدر از اين شهدا كسانى بودند كه از امثال ماها چيزى ياد گرفتند، اما آنها بهتر از ما شدند، جلوتر از ما شدند، بيشتر به كشور آبرو بخشيدند، پيش خدا بيشتر آبرو پيدا كردند؛ «چرا كه وعده تو كردى و او بجا آورد»؛(1) وعده را ما كرديم، او عمل كرد. ما اين همه جوان خوب داريم؛ اينها را يكىيكى در بياورند، بگذارند جلوى جوان نسل حاضر؛ غيرت او را، همت او را، صداقت او را، سلامت او را، فداكارىهاى او را، بينش والاى او را، رفتار نيك او را با مردم، با همنوعان، با پدر و مادر، با خانواده، با دوستان، بگذارند جلوى چشم جوان نسل امروز؛ خود اين آموزنده است.
به هر حال كارهاى زيادى داريم. در آموزش و پرورش، در دستگاههاى تبليغاتى، در صدا و سيما، در دستگاههاى دولتى، در ملبسين به لباس بنده، خيلى كار داريم، خيلى كار بايد انجام بدهيم. ما مسئوليم. شانهمان زير سنگينى بار مسئوليت بايد خم شود. مسئوليت را بپذيريم. بايد كار كرد. همه بايد كار كنند.
يك جمله راجع به انتخابات عرض كنم. يكى از كارها، همين انتخابات پسفرداست. ملت ايران، هوشيارانه، در لحظهى لازم، كار لازم را در طول اين سى و سه سال انجام داده. قبل از پيروزى انقلاب هم همين جور بود و همين منتهى شد به پيروزى انقلاب. در اين دوران سى و سه ساله هم ملت ايران همين جور عمل كردند و هر بارى كه اين هوشيارى بيشتر، اين موقعشناسى بهنگامتر بوده است، ملت ايران دستاوردهاى ارزشمند و بزرگى را به دست آورده است؛ يكىاش همين انتخابات اخير اسفند ماه بود، كه ملت ايران خوب عمل كردند، خوب درخشيدند؛ اثر خودش را هم گذاشت. ولى خب، بخشى از كار انجام گرفته است، بخشى از كار مانده است. ملت ايران با اين قدم بلندى كه انشاءاللّه در روز جمعه برخواهد داشت، پاى صندوقهاى رأى خواهد رفت و كار مجلس شوراى اسلامى را به نهايت خواهد رساند و انشاءاللّه باز يك درخشش بيشتر و خيرهكنندهترى را در دنيا از خود نشان خواهد داد.
دنيا دنيائى است كه ملتها بايد خود را نشان بدهند. ملتها از كنار كشيدن، از بيكار ماندن، از چشم به اين و آن دوختن، به جائى نخواهند رسيد. ملتها با هوشيارى، با در ميدان بودن، با خود را و ظرفيتهاى خود را به ميدان آوردن، ميتوانند موفقيت كسب كنند. امروز دنيا اينجورى است، هميشه همين جور بوده است؛ منتها امروز اين بيدارى در ميان ملتها بيشتر پيدا شده است. يك ملت بزرگ با يك تاريخ كهن، گاهى اوقات با يك ميراث علمىِ برجسته، وقتى از حال خود غافل ميشود، وارد ميدان نيست، تلاشى نميكند، ناگهان مىبينيد ميرود در رديف يك ملت عقبافتادهى بىسابقهى بىميراثِ بىريشه.
ملت ايران در صحنه است، آماده است، خوشبختانه بابصيرت است، موقعشناس است؛ بحمداللّه دشمنشناس هم هست. در اين سى و سه سال، دشمنهاى خودمان را شناختيم؛ فهميديم چه كسانى هستند كه گاهى ممكن است رياكارانه و دروغپردازانه تظاهر به دوستى هم بكنند، اما دشمنند. براى اينكه در اين دنياى بزرگ، در اين كشمكش ميان قدرتهاى مادى دنيا، ملت ايران بتواند از حق خود دفاع كند، از آيندهى خود دفاع كند، از نسلهاى بعدى دفاع كند، بايد بيدار باشد، هوشيار باشد، در صحنه باشد؛ يكى از نمونههايش همين انتخابات است، و البته نمونههاى زيادى دارد.
ما افق را روشن مىبينيم. من بحمداللّه از لطف الهى، يك لحظه هم احساس نكردم كه اين افق روشنِ اميد در دلم دچار تيرگى و ترديد شده. هميشه هر وقت نگاه ميكنم، احساس ميكنم آينده روشن است؛ و بحمداللّه همين هم تحقق پيدا ميكند. من به شما عرض بكنم؛ به فضل پروردگار، فرداى ايران اسلامى، آن روزى كه همين جوانهاى امروز بيايند وارد عرصهى كار بشوند، از امروز بمراتب بهتر خواهد بود.
اميدواريم خداوند متعال شماها را موفق بدارد، جوانهاى ما را توفيق بدهد، به همه كمك كند. انشاءاللّه بتوانيم هر كدام در هر جا كه هستيم، به وظائفان عمل كنيم.
والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته
More...
Description:
بيانات در ديدار جمعی از معلمان سراسر كشور
به مناسبت هفتهى بزرگداشت مقام معلم
بسماللّهالرّحمنالرّحيم
خيلى خوش آمديد برادران و خواهران عزيز؛ معلمان ارزشمند فرزندان و نونهالان اين ملت. لازم است در آغاز عرايض، تجليل كنيم، تكريم كنيم از ياد شهيد بزرگوارمان، شهيد مطهرى؛ چون اين بزرگوار، معلم بود؛ معلمى براى همهى سطوح، با عملكرد نافذ و ماندگار. صحت عمل او هم با خون او امضاء شد. نام اين بزرگوار بر روى يادبود تجليل از معلمان كشور قرار دارد، و اين يك كار شايستهاى است؛ رحمت خدا بر آن بزرگوار.
هدف اصلى از اين جلسه، اظهار ارادت ماست به شما معلمين عزيز. حرفهائى در زمينهى تعليم و تربيت و آموزش و پرورش و سازمان و تشكيلات و محتوا و صورت و بقيهى چيزها هست؛ كه خب، در مناسبتهاى مختلف عرض كرديم و عرض ميكنيم. ديدار ساليانهى روز معلم را كه قرار گذاشتيم، براى اين است كه نشان بدهيم، ثابت كنيم و اعلام كنيم كه ما براى مقام معلم يك منزلت و والائىِ برجستهاى قائليم؛ حقيقت قضيه هم همين است، شايسته هم همين است.
آنچه كه به معلم ارزش ميدهد، چند چيز است؛ يكى از اينها عبارت است از اينكه مادهى خامى كه در دست معلم است و با كار خود و تلاش خود ميخواهد او را به محصول نهائى برساند، يك مادهى بىجان نيست؛ انسان است. اين خيلى مهم است. يك وقت انسان يك مادهى جامد را با تلاش خود، ابتكار خود، عرق ريختن و ساعتها صرف كردن، تبديل ميكند به يك محصول مطلوب؛ كه به جاى خود ارزشمند است. يك وقت اين مادهاى كه دست ماست، يك موجود انسانى است، با استعدادهايش، با عواطفش، با احساساتش، با ظرفيتهاى فراوانى كه در يك انسان وجود دارد. اين نوجوان ممكن است فردا كسى مثل امام بزرگوار ما بشود، ممكن است يك مصلح اجتماعى بشود، ممكن است يك دانشمند برجسته بشود، ممكن است يك انسان صالح و والا بشود. همهى اين استعدادها در مجموعهى نوجوانان و كودكانى كه در اختيار معلم قرار ميگيرند، وجود دارد. ما ميخواهيم اين استعداد را به فعليت برسانيم؛ ببينيد چقدر اين كار مهم است. بيشتر خطابم به عامهى مردم ماست، به قشرهاى مختلف جامعهى ماست؛ قدر معلم را بدانند، منزلت معلم را بشناسند.
خود معلم عزيز هم اهميت جايگاه خود و برجستگى مسئوليت و مأموريت خود را بدرستى تشخيص بدهد، قدر خود را بداند؛ بداند كه اگر اين كار با همت درست، با نيت درست، با قصد الهى، با تلاش مناسب انجام بگيرد، چقدر براى جامعه ارزش افزوده ايجاد ميكند. اين ارزش افزوده، يك چيز معمولىِ متعارفى نيست؛ اين فوقالعاده است. تربيت يك انسان والا، دانا، توانا و صالح، ببينيد چقدر اهميت دارد. از اين همه انسانهائى كه زير دست معلمين واقع ميشوند، گاهى ممكن است يك انسان دنيائى را متحول كند. همين كودك اگر درست تربيت نشد، ممكن است يك هيتلر از آب در بيايد، يك چنگيز از آب در بيايد؛ قضيه اين است. اهميت كار معلم، ارزش والاى حركت او و تلاش او و دلسوزى او و درست انديشيدن او و درست كار كردن او اينجورى معلوم ميشود.
و همچنين خطاب به مجموعهى آموزش و پرورش و سازمان آموزش و پرورش است؛ كه خب، اين معلمان با سازماندهى اين سازمان، با مقررات اين سازمان مشغول كار ميشوند و با برنامهى آن عمل ميكنند و تدريس ميكنند. پس هم عموم مردم، هم خود معلمان، هم سازمان متبوع، جايگاه معلم را فراموش نكنند. معلم، آن توليد كنندهاى است، آن كارگرى است، آن سرانگشت ماهرى است كه برترين محصولات آفرينش را، بالاترين مواد خام را تبديل ميكند به برترين محصول نهائى، كه ميتواند مورد استفاده قرار بگيرد.
خب، پس ما حق داريم كه عرض كنيم اين سالى يك بار كه ما اينجا جمع ميشويم، براى عرض ارادت به معلمهاست. ميخواهيم عرض كنيم كه ما اين مرتبهى والا و اين منزلت عالى را براى شما معلمين ميشناسيم. اگر معلم خوب عمل كند، صحيح عمل كند، با تدبير عمل كند، با دلسوزى عمل كند، به نظر ما همهى مشكلات جامعه حل ميشود. نه اينكه بخواهيم بگوئيم عوامل مؤثر در تربيت جوانان ما، بيرون از محيط مدرسه وجود ندارد؛ چرا، خانوادهها مؤثرند، رسانهها مؤثرند، فضاى اجتماعى مؤثر است - در اينها ترديدى نيست - اما آن سازندهى اصلى، آن دست ماهر اصلى كه ميتواند يك ساخت مستحكمى درست كند كه اين عوامل گوناگون نتوانند تأثير بنيانىاى روى اين محصول بگذارند، دست معلم است. اين، ارزش معلم است.
من به شما عرض بكنم؛ پيش خداى متعال، اين ارزش، حسنات فراوانى را به وجود مىآورد. يعنى شما در اتاق درس و در محيط آموزش كه قرار ميگيريد و با اين نوجوان و با اين كودك مواجه ميشويد، بدانيد كه كاتبان عمل، كرامالكاتبين الهى، لحظه به لحظهى كار شما را حسنه مينويسند. چقدر اين مقرون به صرفه است كه انسان كارش، زندگىاش، شغلش چيزى باشد كه هر لحظهى آن ميتواند عبادت باشد.
البته در كنار اين اهميت والائى كه عرض كرديم، يك نكتهى ديگر هم وجود دارد، كه آن هم اهميت اين كار را نشان ميدهد و آن، زحمتى است كه معلم بر خود هموار ميكند. در اتاق درس و محيط آموزش، معلمين با كودكان، با نوجوانان، با اخلاقهاى مختلف، با احساسات گوناگون و هيجانات جوانىِ مخاطبين مواجهاند؛ اينها را بايد تحمل كنند، صبر كنند؛ اين هم ارزش كار را بالا ميبرد. بنابراين روز معلم روز مباركى است؛ انشاءاللّه بر همهى معلمين مبارك باشد، بر ملت ايران هم مبارك باشد.
يك نكتهى ديگر، مربوط به آموزش و پرورش است. آموزش و پرورش، يك سازمان فراگيرِ سراسرىِ كشورى است. يكى از فرصتهائى كه در اختيار كشور و در اختيار انقلاب قرار دارد، همين فرصت سازمان آموزش و پرورش است. شما مسئولان و بزرگان آموزش و پرورش، يك سازمان چندين ميليونى در اختيار داريد كه مثل يك رشتهى اعصاب، در سراسر اين جسمِ گسترده پراكنده است؛ مثل كانالكشى خون كه در رگهاى بدن انسان جريان دارد. اين سازمان تا اعماق شهرها و روستاها گسترده است. خوشبختانه بخصوص بعد از انقلاب شايد نقطهاى در كشور نباشد كه آموزش پرورش در آنجا حضور نداشته باشد. آموزش و پرورش سازمان عظيمى است؛ ديگر ما يك چنين سازمان بزرگِ فراگيرِ همهجائىِ همهكسى نداريم. مردم مىآيند فرزندان خود را با ميل، با رغبت، با درخواست، با تمنا، در اختيار اين سازمان ميگذارند.
اين سازمان، متعهد كارهاى بزرگى است؛ كه اين فرصتى كه در اختيار دارد، مسئوليت او را مضاعف ميكند. من ميخواهم روى اين نكتهى «مضاعف بودن مسئوليت» تكيه كنم. همان طور كه وزير محترم اخيراً اشاره كردند و بنده هم مطلعم، تلاشهاى خوبى در سطح وزارت دارد انجام ميگيرد؛ وقت ميگذارند، كار ميكنند، جلسات فراوان ميگذارند، همفكرى ميكنند، تبادل نظر ميكنند؛ اينها بسيار باارزش است، ما تقدير ميكنيم از تلاشى كه انجام ميگيرد؛ منتها توجه كنيد كه عظمت كار در حدى است كه هرچه بيشتر تلاش كنيم، نبايد خودمان را قانع كنيم و بگوئيم خب، كار ما تمام شد.
ما قبلاً دربارهى تحول بنيادى مطالبى عرض كرديم؛ مدتها من در ديدارهاى با معلمان، با مسئولين فرهنگ، با شوراى عالى انقلاب فرهنگى و ديگران اين را تكرار كردم و خوشبختانه به نتيجه هم رسيد؛ به اين معنا كه سند تحول بنيادى تهيه و تصويب شد. امروز آموزش و پرورش يك سند مكتوبى در دست دارد كه شيوهى تحول بنيادى در آموزش و پرورش را تعيين كرده. خيلى خوب، بخشى از اين كار انجام گرفت. منتها اين سند مثل نسخهى پزشك است. اگر ما به پزشك مراجعه كرديم، حق معاينه هم داديم و پزشك هم معاينهى كاملى كرد و يك نسخهاى نوشت و به ما داد، ما هم توى جيبمان گذاشتيم، رفتيم خانه و فكر كرديم تمام شد، اين با نرفتن پيش پزشك هيچ تفاوتى ندارد؛ جز اينكه يك پولى هم خرج كرديم، يك راهى هم رفتيم. دوا را بايد گرفت، دارو را بايد مصرف كرد. در اين نسخه نوشته شده كه چه داروئى را، چه مقدارى، در چه زمانى بايد مصرف كنيم. بايد اين كار را كرد؛ اگر نكرديم، رفتن پيش پزشك و گرفتن نسخه، كأنلميكن است. خب، حالا ما سند تحول بنيادين آموزش و پرورش را داريم؛ اين نسخه است؛ اين نسخه احتياج دارد به اين كه يك برنامهريزى دقيق بر اساس بندبند اين سند انجام بگيرد؛ چون بحث بر سر تحول بنيادين است؛ بحث تحول شكلى كه نيست.
شكل جديد آموزش و پرورش ما سوغاتى بود، وارداتى بود، اهدافى پشت سرش بود. خب، ما سالها هم به اين شكل عمل كرديم. بالاخره اگر خودى هم بود، اگر از درون برآمده و جوشيده هم بود، بعد از سالها انسان به يك اِشكالى برخورد ميكند؛ لذا يك نوسازى لازم است. پس اين تحول بنيادى، يك كار لازمى است. اگر ميخواهيم تحول بنيادى در آموزش و پرورش انجام بگيرد؛ يعنى اين پولى كه شما خرج ميكنيد، اين وقتى كه شما ميگذاريد، اين همه معلمى كه شما در سراسر كشور به مدارس و سراغ دانشآموزان ميفرستيد، اگر بخواهيم اينها چند برابر اثر كند و به شكل بهينه از آن بهرهبردارى شود، بايد اين تحول صورت بگيرد. اين تحول احتياج دارد به برنامهريزى. بايد قدمبهقدمِ اين سند تحول برنامهريزى شود.
بايد يك نقشهى راه وجود داشته باشد. اينجور نباشد كه امروز يك مسئولى، يك وزيرى، يك مديرى در بخشى تصميمى بگيرد، بعد فردا يكى بيايد طبق سليقه، آن را عوض كند. اين، هدر دادن وقت و نيروى كشور خواهد بود. اين يك نكتهى اساسى است. بايد يك برنامهريزى مستحكم و دقيق براى اين تحول بنيادين صورت بگيرد؛ بايد يك نقشهى راهى در اختيار باشد؛ اين را همه قبول كنند، همه تأييد كنند، همه تصديق كنند و تضمين شده باشد كه آموزش و پرورش تا آخر راه، تا آخر خط، طبق اين برنامه خواهد رفت.
اينجا يك نكتهى دومى وجود دارد و آن، مسئلهى رها نشدن كار است؛ كه آن هم به همين نكتهى اول ارتباط پيدا ميكند. كار را نبايد رها كرد. كار را بايد تا رسيدن به نتيجهى نهائى دنبال كرد؛ والّا يك كارى را شروع كنيم، يك مقدارى سر و صدا هم بشود، بعضى هم خوشحال بشوند، يا تمجيد كنند، يا انتقاد كنند، بعد يك مدتى بگذرد، آتش ما فرو بنشيند، سرد بشويم، در نتيجه كار دنبال نشود؛ در اين صورت اصل كار ضربه خواهد خورد. اين را من براى مديران عرض ميكنم؛ مديران ارشد، مديران وزارتخانهاى، مديران استانها و شهرها و مراكز.
خب، مسئلهى كتاب مهم است، مسئلهى برنامهريزى مهم است، مسئلهى مقررات مهم است، و مسئلهى معلم از همه مهمتر است. اگر براى بهتر كار كردن معلمين ما آموزش لازم است، دوره گذاشتن لازم است، دوره ديدن لازم است - اينها جزو كارهاى اوّلى است، جزو كارهاى اصلى است - اينها بايد انجام بگيرد.
از همهى اين مطالب، من ميخواهم اهميت آموزش و پرورش را نتيجه بگيرم. واقعاً اگر انسان بخواهد كارهاى كشور را، اين بخشها و قسمتهاى گوناگون كشور را تقسيمبندى كند و به حسب اهميت، موقع اينها را مشخص كند، آن بالابالاها آموزش و پرورش قرار ميگيرد. جوان ما به آموزش و پرورش بستگى دارد، اخلاق ما به آموزش و پرورش بستگى دارد. يك عدهاى مينالند از اين كه چرا ما از لحاظ اخلاقى جلو نميرويم. البته اين درست است، ما هم قبول داريم كه بايد در زمينهى اخلاقى جلوتر رفت؛ منتها يكى از شرائطش اين است كه ما براى جوانهامان الگو داشته باشيم. بعضىها با رفتارهاى خود، با عملكرد خود، با اظهارات خود، الگوهاى بدى براى جوانهاى ما ميشوند. الگوسازى، يكى از اساسىترين كارهاست. ما الگوهاى خوب خيلى داريم. اينقدر جوانهاى خوب، اينقدر چهرههاى نورانى - در تاريخ كه بماند - در زمان خودمان داريم كه همين قدر كافى است با تعريف هر كدام از اينها - تعريف به معناى معرفى كردن - يك چهرهى برجسته و يك الگو جلوى جوانانمان بگذاريم. اينها جوانهائى بودند كه از پيشروان خودشان جلو افتادند؛ جوانهائى كه پاى درس بنده و امثال بنده نشستند، اما صد پله از ما جلو رفتند؛ ما وعده كرديم، آنها عمل كردند؛ ما ياد داديم، آنها عمل كردند؛ ولى خودمان عمل نكرديم. چقدر از اين جوانها، چقدر از اين شهدا كسانى بودند كه از امثال ماها چيزى ياد گرفتند، اما آنها بهتر از ما شدند، جلوتر از ما شدند، بيشتر به كشور آبرو بخشيدند، پيش خدا بيشتر آبرو پيدا كردند؛ «چرا كه وعده تو كردى و او بجا آورد»؛(1) وعده را ما كرديم، او عمل كرد. ما اين همه جوان خوب داريم؛ اينها را يكىيكى در بياورند، بگذارند جلوى جوان نسل حاضر؛ غيرت او را، همت او را، صداقت او را، سلامت او را، فداكارىهاى او را، بينش والاى او را، رفتار نيك او را با مردم، با همنوعان، با پدر و مادر، با خانواده، با دوستان، بگذارند جلوى چشم جوان نسل امروز؛ خود اين آموزنده است.
به هر حال كارهاى زيادى داريم. در آموزش و پرورش، در دستگاههاى تبليغاتى، در صدا و سيما، در دستگاههاى دولتى، در ملبسين به لباس بنده، خيلى كار داريم، خيلى كار بايد انجام بدهيم. ما مسئوليم. شانهمان زير سنگينى بار مسئوليت بايد خم شود. مسئوليت را بپذيريم. بايد كار كرد. همه بايد كار كنند.
يك جمله راجع به انتخابات عرض كنم. يكى از كارها، همين انتخابات پسفرداست. ملت ايران، هوشيارانه، در لحظهى لازم، كار لازم را در طول اين سى و سه سال انجام داده. قبل از پيروزى انقلاب هم همين جور بود و همين منتهى شد به پيروزى انقلاب. در اين دوران سى و سه ساله هم ملت ايران همين جور عمل كردند و هر بارى كه اين هوشيارى بيشتر، اين موقعشناسى بهنگامتر بوده است، ملت ايران دستاوردهاى ارزشمند و بزرگى را به دست آورده است؛ يكىاش همين انتخابات اخير اسفند ماه بود، كه ملت ايران خوب عمل كردند، خوب درخشيدند؛ اثر خودش را هم گذاشت. ولى خب، بخشى از كار انجام گرفته است، بخشى از كار مانده است. ملت ايران با اين قدم بلندى كه انشاءاللّه در روز جمعه برخواهد داشت، پاى صندوقهاى رأى خواهد رفت و كار مجلس شوراى اسلامى را به نهايت خواهد رساند و انشاءاللّه باز يك درخشش بيشتر و خيرهكنندهترى را در دنيا از خود نشان خواهد داد.
دنيا دنيائى است كه ملتها بايد خود را نشان بدهند. ملتها از كنار كشيدن، از بيكار ماندن، از چشم به اين و آن دوختن، به جائى نخواهند رسيد. ملتها با هوشيارى، با در ميدان بودن، با خود را و ظرفيتهاى خود را به ميدان آوردن، ميتوانند موفقيت كسب كنند. امروز دنيا اينجورى است، هميشه همين جور بوده است؛ منتها امروز اين بيدارى در ميان ملتها بيشتر پيدا شده است. يك ملت بزرگ با يك تاريخ كهن، گاهى اوقات با يك ميراث علمىِ برجسته، وقتى از حال خود غافل ميشود، وارد ميدان نيست، تلاشى نميكند، ناگهان مىبينيد ميرود در رديف يك ملت عقبافتادهى بىسابقهى بىميراثِ بىريشه.
ملت ايران در صحنه است، آماده است، خوشبختانه بابصيرت است، موقعشناس است؛ بحمداللّه دشمنشناس هم هست. در اين سى و سه سال، دشمنهاى خودمان را شناختيم؛ فهميديم چه كسانى هستند كه گاهى ممكن است رياكارانه و دروغپردازانه تظاهر به دوستى هم بكنند، اما دشمنند. براى اينكه در اين دنياى بزرگ، در اين كشمكش ميان قدرتهاى مادى دنيا، ملت ايران بتواند از حق خود دفاع كند، از آيندهى خود دفاع كند، از نسلهاى بعدى دفاع كند، بايد بيدار باشد، هوشيار باشد، در صحنه باشد؛ يكى از نمونههايش همين انتخابات است، و البته نمونههاى زيادى دارد.
ما افق را روشن مىبينيم. من بحمداللّه از لطف الهى، يك لحظه هم احساس نكردم كه اين افق روشنِ اميد در دلم دچار تيرگى و ترديد شده. هميشه هر وقت نگاه ميكنم، احساس ميكنم آينده روشن است؛ و بحمداللّه همين هم تحقق پيدا ميكند. من به شما عرض بكنم؛ به فضل پروردگار، فرداى ايران اسلامى، آن روزى كه همين جوانهاى امروز بيايند وارد عرصهى كار بشوند، از امروز بمراتب بهتر خواهد بود.
اميدواريم خداوند متعال شماها را موفق بدارد، جوانهاى ما را توفيق بدهد، به همه كمك كند. انشاءاللّه بتوانيم هر كدام در هر جا كه هستيم، به وظائفان عمل كنيم.
والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته
Imam of Hearts امام دل ها - رحلت امام خمینی ره - Farsi
نوای جدید، زیبا و با کیفیت عالی به نام «امام دلها» درباره رحلت امام خمینی (ره). خواننده : محمد عبدالحسینی،...
نوای جدید، زیبا و با کیفیت عالی به نام «امام دلها» درباره رحلت امام خمینی (ره). خواننده : محمد عبدالحسینی، آهنگساز : فرهاد برنجان، شاعر : اسماعیل امینی
More...
Description:
نوای جدید، زیبا و با کیفیت عالی به نام «امام دلها» درباره رحلت امام خمینی (ره). خواننده : محمد عبدالحسینی، آهنگساز : فرهاد برنجان، شاعر : اسماعیل امینی
8:44
|
نکنه یه روز بیاد، از تو جدا شم ( شور جدید) سید رضا نریمانی | Farsi
نكنه یه روز بیاد از تو جدا شم،كمكی طلب كنی و من نباشم ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی کربلایی...
نكنه یه روز بیاد از تو جدا شم،كمكی طلب كنی و من نباشم ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی کربلایی سید رضا نریمانی
شام عاشورا محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین 1440هیئت فدائیان حسین (ع ) حسینیه شهدای بسیج
Seyed Reza Narimani Day of Ashura 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
نكنه یه روز بیاد از تو جدا شم،كمكی طلب كنی و من نباشم ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی کربلایی سید رضا نریمانی
شام عاشورا محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین 1440هیئت فدائیان حسین (ع ) حسینیه شهدای بسیج
Seyed Reza Narimani Day of Ashura 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
50:43
|
سریال ایرانی جدید گاندو قسمت یازدھم | Gando | Irani Serial | Episode 11
سریال ایرانی گاندو سریالی اکشن و امنیتی است که فیلمنامه آن بر اساس مستندات و وقایع تاریخی و کشف جاسوسهای...
سریال ایرانی گاندو سریالی اکشن و امنیتی است که فیلمنامه آن بر اساس مستندات و وقایع تاریخی و کشف جاسوسهای داخل و خارج از ایران است و همچنین به موضوع آقازادهها نیز اشارههایی میکند. در مجموعه گاندو تمامی اسامی افراد و اشخاص حقیقی در آن عوض شدهاست. بهطور مثال بخشی در سریال در ارتباط با جیسون رضاییان است که ایران رضائیان را به همراه همسرش (یگانه صالحی) در ۳۱ مرداد ۱۳۹۳ به اتهام جاسوسی از طرف سیا دستگیر کرد که در این مجموعه با نام مایکل هاشمیان شناخته میشود
🔶
فصل دوم سریال ایرانی اکشن گاندو
https://www.youtube.com/playlist?list=PLEDm7ovnJu3fFm8PIlntGpDkhkYXPubJG
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
سریال ایرانی گاندو ۱ سریالی اجتماعی، اکشن و امنیتی است که به کارگردانی جواد افشار و نویسندگی آرش قادری پخش شد و فصل دوم این سریال ایرانی به دلیل اعتراض برخی از مسئولین دولت متوقف شد و ادامه آن در قالب گاندو ۳ بعد از انتخابات ۱۴۰۰ پخش خواهد شد.
🔶
نام سریال ایرانی گاندو از کجا آمده است؟
گاندو، تمساح پوزه کوتاه ایرانی است. جواد افشار (کارگردان سریال جدید گاندو) در توضیح انتخاب این نام میگوید گاندو موجودی است که میتواند مدتها با صبر و حوصلهای زیاد به کمین شکارش بنشیند و در لحظه مناسب، ضربه خودش را بزند که بر همین اساس به شکارچی کمینگر هم مشهور است. ویژگی جاسوسان و حتی ضدجاسوسها نیز همین است که بیشتر در کمین، جستجو، کشف و شهود، طرح و برنامهریزی، کسب اطلاعات، چیدن منابع و سرنخها و درنهایت تکمیل کردن پازلها به سر میبرند.
🔶
در زیر به تعدادی از بازیگران سریال ایرانی گاندو اشاره شده است: داریوش فرهنگ، وحید رهبانی، کامیز دیرباز، پیام دهکردی، حمدرضا شریفینیا، سید مهرداد ضیایی، علیرام نورایی، پندار اکبری، مجید نوروزی، علی افشار، عرفان ابراهیمی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
\"اطلاعات کلی سریال جدید ایرانی گاندو\"
💎
کارگردانی 🎬 جواد افشار
تهیه کننده 💰 محمدرضا آهنج
☑ نویسنده 📝 آرش قادری
سال تولید: 1398
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
☑️ بازیگران
داریوش فرهنگ
وحید رهبانی
پیام دهکردی
محمدرضا شریفینیا
سید مهرداد ضیایی
علیرام نورایی
پندار اکبری
مجید نوروزی
علی افشار
عرفان ابراهیمی
صالح میرزاآقایی
فرهاد قائمیان
لیلا اوتادی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
#گاندو
#سریال_ایرانی
#Top_Persian_Movies
#جاسوسی
#امنیتی
#وحیدرهبانی
#داریوش_فرهنگ
#کامبیزدیرباز
#لیلا اوتادی
#سریال_ایرانی_جدید
#SerialIrani
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
َGando Iranian Series (Gando Serial Irani)
This Iranian series narrates the story of the Iranian security police and solving the security case called Gando and the adventures that take place during this case.
👆👆👆
Brief story line of َGando Iranian Series
Gando is the name of this new Iranian series produced in 2019.
Gando Serial Irani is directed by Javad Afshar
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
Main actors of Serial Irani Gando
✍✍✍
Negar Abedi
Pendar Akbari
Kamand Amirsoleimani
Vahid Rahbani
Kambiz Dirbaz
Daryoush Farhang
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
خندوانه رو سابسکرایب کن تا جدیدترین برنامه های طنز ایرانی رو ببینی و عشق کنی 😍👇🏻
https://bit.ly/Khandevaneh-
.
هرچی سریال جدید و قدیمی میخوای میتونی اینجا پیدا کنی 😎🤩🎬👇🏻
https://bit.ly/IranSeries
.
خبرهای دست اول و کلی سرگرمی باحال دیگه 👇🏻👌
https://bit.ly/TPM-Media
.
فوتبال و خبر ورزشی فقط در سرخابی ⚽️👇🏻
https://bit.ly/Sorkhabi-
.
موسیقی پاپ، راک، کلاسیک و سنتی ایرانی گوش کن و لذت ببر 🎼🎵🎶👇🏻
https://bit.ly/Top-Persian-Music
.
فانیسم ینی یه چند ساعتی عشق و حال و خنده 🤣🤣🤣👇🏻
https://bit.ly/Funism
.
کتاب صوتی، برنامه های باحال فرهنگی واسه روزایی که دلت میخواد از اینترنت چیزی یاد بگیری 📖📚👇🏻
https://bit.ly/KetabBaz
More...
Description:
سریال ایرانی گاندو سریالی اکشن و امنیتی است که فیلمنامه آن بر اساس مستندات و وقایع تاریخی و کشف جاسوسهای داخل و خارج از ایران است و همچنین به موضوع آقازادهها نیز اشارههایی میکند. در مجموعه گاندو تمامی اسامی افراد و اشخاص حقیقی در آن عوض شدهاست. بهطور مثال بخشی در سریال در ارتباط با جیسون رضاییان است که ایران رضائیان را به همراه همسرش (یگانه صالحی) در ۳۱ مرداد ۱۳۹۳ به اتهام جاسوسی از طرف سیا دستگیر کرد که در این مجموعه با نام مایکل هاشمیان شناخته میشود
🔶
فصل دوم سریال ایرانی اکشن گاندو
https://www.youtube.com/playlist?list=PLEDm7ovnJu3fFm8PIlntGpDkhkYXPubJG
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
سریال ایرانی گاندو ۱ سریالی اجتماعی، اکشن و امنیتی است که به کارگردانی جواد افشار و نویسندگی آرش قادری پخش شد و فصل دوم این سریال ایرانی به دلیل اعتراض برخی از مسئولین دولت متوقف شد و ادامه آن در قالب گاندو ۳ بعد از انتخابات ۱۴۰۰ پخش خواهد شد.
🔶
نام سریال ایرانی گاندو از کجا آمده است؟
گاندو، تمساح پوزه کوتاه ایرانی است. جواد افشار (کارگردان سریال جدید گاندو) در توضیح انتخاب این نام میگوید گاندو موجودی است که میتواند مدتها با صبر و حوصلهای زیاد به کمین شکارش بنشیند و در لحظه مناسب، ضربه خودش را بزند که بر همین اساس به شکارچی کمینگر هم مشهور است. ویژگی جاسوسان و حتی ضدجاسوسها نیز همین است که بیشتر در کمین، جستجو، کشف و شهود، طرح و برنامهریزی، کسب اطلاعات، چیدن منابع و سرنخها و درنهایت تکمیل کردن پازلها به سر میبرند.
🔶
در زیر به تعدادی از بازیگران سریال ایرانی گاندو اشاره شده است: داریوش فرهنگ، وحید رهبانی، کامیز دیرباز، پیام دهکردی، حمدرضا شریفینیا، سید مهرداد ضیایی، علیرام نورایی، پندار اکبری، مجید نوروزی، علی افشار، عرفان ابراهیمی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
\"اطلاعات کلی سریال جدید ایرانی گاندو\"
💎
کارگردانی 🎬 جواد افشار
تهیه کننده 💰 محمدرضا آهنج
☑ نویسنده 📝 آرش قادری
سال تولید: 1398
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
☑️ بازیگران
داریوش فرهنگ
وحید رهبانی
پیام دهکردی
محمدرضا شریفینیا
سید مهرداد ضیایی
علیرام نورایی
پندار اکبری
مجید نوروزی
علی افشار
عرفان ابراهیمی
صالح میرزاآقایی
فرهاد قائمیان
لیلا اوتادی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
#گاندو
#سریال_ایرانی
#Top_Persian_Movies
#جاسوسی
#امنیتی
#وحیدرهبانی
#داریوش_فرهنگ
#کامبیزدیرباز
#لیلا اوتادی
#سریال_ایرانی_جدید
#SerialIrani
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
َGando Iranian Series (Gando Serial Irani)
This Iranian series narrates the story of the Iranian security police and solving the security case called Gando and the adventures that take place during this case.
👆👆👆
Brief story line of َGando Iranian Series
Gando is the name of this new Iranian series produced in 2019.
Gando Serial Irani is directed by Javad Afshar
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
Main actors of Serial Irani Gando
✍✍✍
Negar Abedi
Pendar Akbari
Kamand Amirsoleimani
Vahid Rahbani
Kambiz Dirbaz
Daryoush Farhang
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
خندوانه رو سابسکرایب کن تا جدیدترین برنامه های طنز ایرانی رو ببینی و عشق کنی 😍👇🏻
https://bit.ly/Khandevaneh-
.
هرچی سریال جدید و قدیمی میخوای میتونی اینجا پیدا کنی 😎🤩🎬👇🏻
https://bit.ly/IranSeries
.
خبرهای دست اول و کلی سرگرمی باحال دیگه 👇🏻👌
https://bit.ly/TPM-Media
.
فوتبال و خبر ورزشی فقط در سرخابی ⚽️👇🏻
https://bit.ly/Sorkhabi-
.
موسیقی پاپ، راک، کلاسیک و سنتی ایرانی گوش کن و لذت ببر 🎼🎵🎶👇🏻
https://bit.ly/Top-Persian-Music
.
فانیسم ینی یه چند ساعتی عشق و حال و خنده 🤣🤣🤣👇🏻
https://bit.ly/Funism
.
کتاب صوتی، برنامه های باحال فرهنگی واسه روزایی که دلت میخواد از اینترنت چیزی یاد بگیری 📖📚👇🏻
https://bit.ly/KetabBaz
52:03
|
سریال ایرانی جدید گاندو قسمت دوازدھم | Gando | Irani Serial | Episode 12 | Farsi
سریال ایرانی گاندو سریالی اکشن و امنیتی است که فیلمنامه آن بر اساس مستندات و وقایع تاریخی و کشف جاسوسهای...
سریال ایرانی گاندو سریالی اکشن و امنیتی است که فیلمنامه آن بر اساس مستندات و وقایع تاریخی و کشف جاسوسهای داخل و خارج از ایران است و همچنین به موضوع آقازادهها نیز اشارههایی میکند. در مجموعه گاندو تمامی اسامی افراد و اشخاص حقیقی در آن عوض شدهاست. بهطور مثال بخشی در سریال در ارتباط با جیسون رضاییان است که ایران رضائیان را به همراه همسرش (یگانه صالحی) در ۳۱ مرداد ۱۳۹۳ به اتهام جاسوسی از طرف سیا دستگیر کرد که در این مجموعه با نام مایکل هاشمیان شناخته میشود
🔶
فصل دوم سریال ایرانی اکشن گاندو
https://www.youtube.com/playlist?list=PLEDm7ovnJu3fFm8PIlntGpDkhkYXPubJG
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
سریال ایرانی گاندو ۱ سریالی اجتماعی، اکشن و امنیتی است که به کارگردانی جواد افشار و نویسندگی آرش قادری پخش شد و فصل دوم این سریال ایرانی به دلیل اعتراض برخی از مسئولین دولت متوقف شد و ادامه آن در قالب گاندو ۳ بعد از انتخابات ۱۴۰۰ پخش خواهد شد.
🔶
نام سریال ایرانی گاندو از کجا آمده است؟
گاندو، تمساح پوزه کوتاه ایرانی است. جواد افشار (کارگردان سریال جدید گاندو) در توضیح انتخاب این نام میگوید گاندو موجودی است که میتواند مدتها با صبر و حوصلهای زیاد به کمین شکارش بنشیند و در لحظه مناسب، ضربه خودش را بزند که بر همین اساس به شکارچی کمینگر هم مشهور است. ویژگی جاسوسان و حتی ضدجاسوسها نیز همین است که بیشتر در کمین، جستجو، کشف و شهود، طرح و برنامهریزی، کسب اطلاعات، چیدن منابع و سرنخها و درنهایت تکمیل کردن پازلها به سر میبرند.
🔶
در زیر به تعدادی از بازیگران سریال ایرانی گاندو اشاره شده است: داریوش فرهنگ، وحید رهبانی، کامیز دیرباز، پیام دهکردی، حمدرضا شریفینیا، سید مهرداد ضیایی، علیرام نورایی، پندار اکبری، مجید نوروزی، علی افشار، عرفان ابراهیمی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
\"اطلاعات کلی سریال جدید ایرانی گاندو\"
💎
کارگردانی 🎬 جواد افشار
تهیه کننده 💰 محمدرضا آهنج
☑ نویسنده 📝 آرش قادری
سال تولید: 1398
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
☑️ بازیگران
داریوش فرهنگ
وحید رهبانی
پیام دهکردی
محمدرضا شریفینیا
سید مهرداد ضیایی
علیرام نورایی
پندار اکبری
مجید نوروزی
علی افشار
عرفان ابراهیمی
صالح میرزاآقایی
فرهاد قائمیان
لیلا اوتادی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
#گاندو
#سریال_ایرانی
#Top_Persian_Movies
#جاسوسی
#امنیتی
#وحیدرهبانی
#داریوش_فرهنگ
#کامبیزدیرباز
#لیلا اوتادی
#سریال_ایرانی_جدید
#SerialIrani
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
َGando Iranian Series (Gando Serial Irani)
This Iranian series narrates the story of the Iranian security police and solving the security case called Gando and the adventures that take place during this case.
👆👆👆
Brief story line of َGando Iranian Series
Gando is the name of this new Iranian series produced in 2019.
Gando Serial Irani is directed by Javad Afshar
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
Main actors of Serial Irani Gando
✍✍✍
Negar Abedi
Pendar Akbari
Kamand Amirsoleimani
Vahid Rahbani
Kambiz Dirbaz
Daryoush Farhang
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
خندوانه رو سابسکرایب کن تا جدیدترین برنامه های طنز ایرانی رو ببینی و عشق کنی 😍👇🏻
https://bit.ly/Khandevaneh-
.
هرچی سریال جدید و قدیمی میخوای میتونی اینجا پیدا کنی 😎🤩🎬👇🏻
https://bit.ly/IranSeries
.
خبرهای دست اول و کلی سرگرمی باحال دیگه 👇🏻👌
https://bit.ly/TPM-Media
.
فوتبال و خبر ورزشی فقط در سرخابی ⚽️👇🏻
https://bit.ly/Sorkhabi-
.
موسیقی پاپ، راک، کلاسیک و سنتی ایرانی گوش کن و لذت ببر 🎼🎵🎶👇🏻
https://bit.ly/Top-Persian-Music
.
فانیسم ینی یه چند ساعتی عشق و حال و خنده 🤣🤣🤣👇🏻
https://bit.ly/Funism
.
کتاب صوتی، برنامه های باحال فرهنگی واسه روزایی که دلت میخواد از اینترنت چیزی یاد بگیری 📖📚👇🏻
https://bit.ly/KetabBaz
More...
Description:
سریال ایرانی گاندو سریالی اکشن و امنیتی است که فیلمنامه آن بر اساس مستندات و وقایع تاریخی و کشف جاسوسهای داخل و خارج از ایران است و همچنین به موضوع آقازادهها نیز اشارههایی میکند. در مجموعه گاندو تمامی اسامی افراد و اشخاص حقیقی در آن عوض شدهاست. بهطور مثال بخشی در سریال در ارتباط با جیسون رضاییان است که ایران رضائیان را به همراه همسرش (یگانه صالحی) در ۳۱ مرداد ۱۳۹۳ به اتهام جاسوسی از طرف سیا دستگیر کرد که در این مجموعه با نام مایکل هاشمیان شناخته میشود
🔶
فصل دوم سریال ایرانی اکشن گاندو
https://www.youtube.com/playlist?list=PLEDm7ovnJu3fFm8PIlntGpDkhkYXPubJG
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
سریال ایرانی گاندو ۱ سریالی اجتماعی، اکشن و امنیتی است که به کارگردانی جواد افشار و نویسندگی آرش قادری پخش شد و فصل دوم این سریال ایرانی به دلیل اعتراض برخی از مسئولین دولت متوقف شد و ادامه آن در قالب گاندو ۳ بعد از انتخابات ۱۴۰۰ پخش خواهد شد.
🔶
نام سریال ایرانی گاندو از کجا آمده است؟
گاندو، تمساح پوزه کوتاه ایرانی است. جواد افشار (کارگردان سریال جدید گاندو) در توضیح انتخاب این نام میگوید گاندو موجودی است که میتواند مدتها با صبر و حوصلهای زیاد به کمین شکارش بنشیند و در لحظه مناسب، ضربه خودش را بزند که بر همین اساس به شکارچی کمینگر هم مشهور است. ویژگی جاسوسان و حتی ضدجاسوسها نیز همین است که بیشتر در کمین، جستجو، کشف و شهود، طرح و برنامهریزی، کسب اطلاعات، چیدن منابع و سرنخها و درنهایت تکمیل کردن پازلها به سر میبرند.
🔶
در زیر به تعدادی از بازیگران سریال ایرانی گاندو اشاره شده است: داریوش فرهنگ، وحید رهبانی، کامیز دیرباز، پیام دهکردی، حمدرضا شریفینیا، سید مهرداد ضیایی، علیرام نورایی، پندار اکبری، مجید نوروزی، علی افشار، عرفان ابراهیمی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
\"اطلاعات کلی سریال جدید ایرانی گاندو\"
💎
کارگردانی 🎬 جواد افشار
تهیه کننده 💰 محمدرضا آهنج
☑ نویسنده 📝 آرش قادری
سال تولید: 1398
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
☑️ بازیگران
داریوش فرهنگ
وحید رهبانی
پیام دهکردی
محمدرضا شریفینیا
سید مهرداد ضیایی
علیرام نورایی
پندار اکبری
مجید نوروزی
علی افشار
عرفان ابراهیمی
صالح میرزاآقایی
فرهاد قائمیان
لیلا اوتادی
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
#گاندو
#سریال_ایرانی
#Top_Persian_Movies
#جاسوسی
#امنیتی
#وحیدرهبانی
#داریوش_فرهنگ
#کامبیزدیرباز
#لیلا اوتادی
#سریال_ایرانی_جدید
#SerialIrani
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
َGando Iranian Series (Gando Serial Irani)
This Iranian series narrates the story of the Iranian security police and solving the security case called Gando and the adventures that take place during this case.
👆👆👆
Brief story line of َGando Iranian Series
Gando is the name of this new Iranian series produced in 2019.
Gando Serial Irani is directed by Javad Afshar
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
Main actors of Serial Irani Gando
✍✍✍
Negar Abedi
Pendar Akbari
Kamand Amirsoleimani
Vahid Rahbani
Kambiz Dirbaz
Daryoush Farhang
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
خندوانه رو سابسکرایب کن تا جدیدترین برنامه های طنز ایرانی رو ببینی و عشق کنی 😍👇🏻
https://bit.ly/Khandevaneh-
.
هرچی سریال جدید و قدیمی میخوای میتونی اینجا پیدا کنی 😎🤩🎬👇🏻
https://bit.ly/IranSeries
.
خبرهای دست اول و کلی سرگرمی باحال دیگه 👇🏻👌
https://bit.ly/TPM-Media
.
فوتبال و خبر ورزشی فقط در سرخابی ⚽️👇🏻
https://bit.ly/Sorkhabi-
.
موسیقی پاپ، راک، کلاسیک و سنتی ایرانی گوش کن و لذت ببر 🎼🎵🎶👇🏻
https://bit.ly/Top-Persian-Music
.
فانیسم ینی یه چند ساعتی عشق و حال و خنده 🤣🤣🤣👇🏻
https://bit.ly/Funism
.
کتاب صوتی، برنامه های باحال فرهنگی واسه روزایی که دلت میخواد از اینترنت چیزی یاد بگیری 📖📚👇🏻
https://bit.ly/KetabBaz
9:30
|
یه وقتایی که دلم لنگه عشقه (شور جدید زیبا) حاج محمود کریمی - Farsi
یه وقتایی که دلم لنگه عشقه گریه گریه گریه فقط برا حسین (شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج محمود...
یه وقتایی که دلم لنگه عشقه گریه گریه گریه فقط برا حسین (شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج محمود کریمی
شب دوم محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیأت رایة العباس علیه السلام
Haj Mahmoud Karimi 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
یه وقتایی که دلم لنگه عشقه گریه گریه گریه فقط برا حسین (شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج محمود کریمی
شب دوم محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیأت رایة العباس علیه السلام
Haj Mahmoud Karimi 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
103:59
|
6:10
|
السلام سلطان بی کفن ارباب (شور جدید - ویژه شب جمعه) حاج حسین سیب
السلام سلطان بی کفن ارباب (سینه زنی شور جدید فوق العاده زیبا و محزون- ویژه شب جمعه و شب زیارتی حضرت امام...
السلام سلطان بی کفن ارباب (سینه زنی شور جدید فوق العاده زیبا و محزون- ویژه شب جمعه و شب زیارتی حضرت امام حسین ع - مداحی برای پیاده روی اربعین) بانوای حاج حسین سیب سرخی در شب قدر رمضان ١٣٩٧روضة العباس عليه السلام
مداحی جدید رمضان المبارک 1397 مداحی جدید نوحه شب ضربت خوردن شهادت حضرت امیرالمومنین امام مولا علی (ع)
- Haj Hussein Sibsorkhi - Nohe Hazrat Imam Hussain Karbala Arbaeen -Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
السلام سلطان بی کفن ارباب (سینه زنی شور جدید فوق العاده زیبا و محزون- ویژه شب جمعه و شب زیارتی حضرت امام حسین ع - مداحی برای پیاده روی اربعین) بانوای حاج حسین سیب سرخی در شب قدر رمضان ١٣٩٧روضة العباس عليه السلام
مداحی جدید رمضان المبارک 1397 مداحی جدید نوحه شب ضربت خوردن شهادت حضرت امیرالمومنین امام مولا علی (ع)
- Haj Hussein Sibsorkhi - Nohe Hazrat Imam Hussain Karbala Arbaeen -Best Farsi Noha 2018
3:14
|
روی عقیق دل من ( شور جدید و زیبا) حاج حسین سیب سرخی | Farsi
روی عقیق دل من زدن حسن عشق منی ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج حسین سیب سرخی
شب ششم محرم 1397...
روی عقیق دل من زدن حسن عشق منی ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج حسین سیب سرخی
شب ششم محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین اامام حسن 1440
Haj Hussein Sibsorkhi 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
روی عقیق دل من زدن حسن عشق منی ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج حسین سیب سرخی
شب ششم محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین اامام حسن 1440
Haj Hussein Sibsorkhi 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
3:38
|
6:40
|
میگن بهم قبول داری تو این حرفو(شور جدید) کربلایی جواد مقدم | Fars
سینه زنی شور احساسی و جدید - میگن بهم قبول داری تو این حرفو - بانوای کربلایی جواد مقدم - شب 19 رمضان 1397 در...
سینه زنی شور احساسی و جدید - میگن بهم قبول داری تو این حرفو - بانوای کربلایی جواد مقدم - شب 19 رمضان 1397 در ورزشگاه شهید شیرودی هیئت بین الحرمین طهران
مداحی جدید نوحه شهادت حضرت امیرالمومنین امام علی ع 1397
Nohe Shahadat Imam Ali - Karbalaei Javad Moghdam
21 Ramzan noha 2018
More...
Description:
سینه زنی شور احساسی و جدید - میگن بهم قبول داری تو این حرفو - بانوای کربلایی جواد مقدم - شب 19 رمضان 1397 در ورزشگاه شهید شیرودی هیئت بین الحرمین طهران
مداحی جدید نوحه شهادت حضرت امیرالمومنین امام علی ع 1397
Nohe Shahadat Imam Ali - Karbalaei Javad Moghdam
21 Ramzan noha 2018
5:00
|
عشق یعنی تا ابد اسیر غم باشی (شور جدید زیبا) کربلایی جواد مقدم |
عشق یعنی تا ابد اسیر غم باشی (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب چهارم محرم 1397 مداحی...
عشق یعنی تا ابد اسیر غم باشی (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب چهارم محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیئت درب شازده شیراز
Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
عشق یعنی تا ابد اسیر غم باشی (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب چهارم محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیئت درب شازده شیراز
Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
5:39
|
رفیق زیاد دارم (شور جدید فوق العاده زیبا) کربلایی جواد مقدم | Fa
رفیق زیاد دارم ولی این آقا یه چیز دیگه است (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب اول...
رفیق زیاد دارم ولی این آقا یه چیز دیگه است (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب اول محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیئت درب شازده شیراز
Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
رفیق زیاد دارم ولی این آقا یه چیز دیگه است (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب اول محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین هیئت درب شازده شیراز
Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
7:21
|
تو که غیر صلاح و خیر من ( شور جدید زیبا) سید مجید بنی فاطمه | Farsi
تو که غیر صلاح و خیر من تو کلامت نیست دلتنگم برات حرم ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج سید...
تو که غیر صلاح و خیر من تو کلامت نیست دلتنگم برات حرم ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج سید مجید بنی فاطمه
شام غریبان محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین 1440هیئت ریحانة الحسین (س)
Seyed Majid Banifatemeh Night of Ashura 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
تو که غیر صلاح و خیر من تو کلامت نیست دلتنگم برات حرم ( شور جدید فوق العاده بسیار زیبا) بامداحی حاج سید مجید بنی فاطمه
شام غریبان محرم 1397 مداحی جدید محرم اربعین کربلا امام حسین 1440هیئت ریحانة الحسین (س)
Seyed Majid Banifatemeh Night of Ashura 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
6:56
|
این هیبت شاهانه (شور جدید وزیبا) کربلایی جواد مقدم | Farsi
این هیبت شاهانه این جرات جانانه این صورت مردانه این مرد که شهرت به علمدار داره (شور جدید فوق العاده زیبا)...
این هیبت شاهانه این جرات جانانه این صورت مردانه این مرد که شهرت به علمدار داره (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب تاسوعا محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین آستان مقدس سید علاالدین حسین هیئت درب شازده شیراز
Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
More...
Description:
این هیبت شاهانه این جرات جانانه این صورت مردانه این مرد که شهرت به علمدار داره (شور جدید فوق العاده زیبا) بامداحی کربلایی جواد مقدم
شب تاسوعا محرم 1397 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین آستان مقدس سید علاالدین حسین هیئت درب شازده شیراز
Karbalae Javad Moghdam 1397 Muharram Best Farsi Noha 2018
3:16
|
شور اربعین (نماهنگ جدید) حسن كاتب | Farsi sub Urdu
نماهنگ جدید به مناسبت اربعین 1440:
شوراربعین به عشق تو قدم میذارم تو این راه( مداحی پیاده روی اربعین و مداحی...
نماهنگ جدید به مناسبت اربعین 1440:
شوراربعین به عشق تو قدم میذارم تو این راه( مداحی پیاده روی اربعین و مداحی برای جاماندهای پیاده روی اربعین) باصدای با صدای حسن كاتب كربلایی و با همراهی امیر عباس ناهیدی و محمد امین فراتی
متن فارسی بازیرنوسی اردو ترجمہ سبٹائٹل محرم 1440 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین مداحی حسن کاتب
Hassan Kateb 1397 Arbaeen Noha Karbala Muharram Best Farsi Noha with Urdu subtitle translation 2018
More...
Description:
نماهنگ جدید به مناسبت اربعین 1440:
شوراربعین به عشق تو قدم میذارم تو این راه( مداحی پیاده روی اربعین و مداحی برای جاماندهای پیاده روی اربعین) باصدای با صدای حسن كاتب كربلایی و با همراهی امیر عباس ناهیدی و محمد امین فراتی
متن فارسی بازیرنوسی اردو ترجمہ سبٹائٹل محرم 1440 مداحی نوحه جدید محرم اربعین کربلا امام حسین مداحی حسن کاتب
Hassan Kateb 1397 Arbaeen Noha Karbala Muharram Best Farsi Noha with Urdu subtitle translation 2018
9:53
|
2:42
|
3:32
|
2:57
|